Tag: آرٹسٹ

  • فرانس میں نہ ختم ہونے والی انوکھی آرٹ پرفارمنس

    فرانس میں نہ ختم ہونے والی انوکھی آرٹ پرفارمنس

    پیرس: یورپی ملک فرانس کے دارالحکومت پیرس میں آرٹ کے شائقین ایک انوکھی نمائش دیکھ کر حیران رہ گئے جس میں چند ڈانسرز ایک ترپال سے چھلانگ کر گردش کرنے والی سیڑھی پر چڑھ اور اتر رہے تھے۔

    پیرس میں پینٹھون تھیٹر میں ایک انوکھی آرٹ کی نمائش پیش کی گئی۔

    اس میں ایک ترپال کے گرد گردش کرتی ہوئی سیڑھیاں نظر آرہی ہیں جن پر کچھ ڈانسرز کھڑے ہیں۔ یہ ڈانسرز ترپال پر گرتے ہیں اور اچھل کر واپس سیڑھیوں پر پہنچ جاتے ہیں۔

    سیڑھیوں کی گردش کے ساتھ ان ڈانسرز کا مقام بھی تبدیل ہوتا جاتا ہے اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ ترپال سے سیڑھی تک کا یہ سفر کبھی ختم نہیں ہوگا۔

    یہ آرٹ پرفارمنس اس قدیم یونانی بادشاہ سسیفس کی یاد دلاتی ہے جو ایک دھوکے کے آسرے میں ایک بڑے گول پتھر کو لڑھکا کر پہاڑ کی چوٹی تک لے جاتا اور جب وہ وہاں سے واپس پلٹ کر لڑھکتا ہوا آتا تو اس سے خود کو زخمی کرتا۔

    سسیفس کا خیال تھا کہ اس طرح سے وہ ہمیشہ زندہ رہ سکے گا تاہم اس کے اس گمراہ کن خیال کی وجہ سے اسے سزاوار قرار دیا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • معروف مصور، قصہ گو اور افسانہ نگار تصدق سہیل انتقال کر گئے

    معروف مصور، قصہ گو اور افسانہ نگار تصدق سہیل انتقال کر گئے

    کراچی: پاکستان کے ممتاز مصور اور افسانہ نگار تصدق سہیل کراچی میں انتقال کر گئے۔ وہ کراچی کے علاقے کلفٹن کے ایک اسپتال میں کافی عرصے سے زیر علاج تھے۔

    تصدق سہیل سنہ 1930 میں بھارتی شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ہجرت کے وقت وہ لاہور آبسے، بعد ازاں اپنے خاندان کے ساتھ کراچی میں مقیم ہوگئے۔

    کراچی اس وقت فن و ادب کا مرکز تھا۔ جا بجا فن و ادب اور شاعری کی محفلیں سجتی تھیں۔ تصدق سہیل نے ان محفلوں میں جانا شروع کیا اور یہیں سے ان کا فن قصہ گوئی سامنے آیا۔

    سنہ 1961 میں وہ لندن چلے گئے اور یہاں سے انہوں نے مصوری کا آغاز کیا۔

    غالب کے مصرعے ’سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری‘ کے مصداق شروع میں انہوں نے اپنے دوستوں کو متاثر کرنے کے لیے مصوری شروع کی، بعد ازاں مصوری ان کا جنون بن گئی۔

    انہوں نے اپنی زندگی میں بے تحاشہ فن پارے تخلیق کیے اور ان کی بے شمار نمائشیں منعقد ہوئیں، تاہم ان کے فن پاروں کا باقاعدہ ریکارڈ نہ رکھا جاسکا۔

    ان کی مصوری متنوع موضوعات پر مشتمل تھی اور انہوں نے برہنہ اجسام سے لے کر فطرت کے مناظر تک تخلیق کیے۔

    تصدق سہیل مصوری میں مغربی مصوروں پکاسو اور وان گوگ سے متاثر تھے جبکہ پاکستانی مصوروں میں کولن ڈیوڈ، صادقین اور بھارتی مصورہ امرتا شیر گل سے متاثر تھے۔

    تصدق سیل نے تجرد کی زندگی گزاری۔ وہ اس سے قبل اسلام آباد کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھے جہاں سے ان کی حالت مزید خراب ہونے پر انہیں کراچی منتقل کیا گیا جہاں وہ کل شام 87 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • فطرت کے اتنے خوبصورت رنگ آپ نے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے

    فطرت کے اتنے خوبصورت رنگ آپ نے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے

    زمین ہماری ماں ہے جس نے ہمیں اپنے بچوں کی طرح اپنی گود میں سمیٹ رکھا ہے۔ ہماری فطرت بھی اسی ماں کا دیا ہوا خوبصورت تحفہ ہے جس سے جتنا زیادہ جڑا جائے یہ ہماری ذہنی و طبی صحت پر اتنے ہی مثبت اثرات مرتب کرے گی۔

    فرناز راحیل بھی فطرت سے جڑی ہوئی ایسی ہی ایک مصورہ ہیں جو اپنے کینوس پر صرف فطرت کے مختلف رنگوں کو اجاگر کرتی ہیں۔

    لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم یافتہ فرناز کا ماننا ہے کہ فطرت جہاں ایک طرف بہت خوبصورت ہے، وہیں دوسری طرف بہت خوفناک بھی ہوجاتی ہے، جیسے کسی بڑے جانور کا کسی ننھے جانور کو اپنے جبڑوں میں جکڑ لینا، یا سمندر کی پرشور لہروں کا کنارے سے باہر نکل آنا، یا کسی آتش فشاں کا پھٹنا اور اس سے ہونے والی تباہی۔

    یہ سب فطرت کے ہی مظاہر ہیں اور ہم انسانوں کی طرح جہاں اس میں بے شمار خوبیاں ہیں وہیں کئی خامیاں بھی موجود ہیں۔

    فرناز اپنی تصاویر میں فطرت کے دونوں پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں۔ فطرت کی خوفناکی دکھانے کے لیے وہ گہرے شوخ رنگ، جبکہ پرسکون فطرت دکھانے کے لیے ہلکے رنگوں کا استعمال کرتی ہیں۔

    فرناز اپنی تصاویر میں جس فطرت کو دکھاتی ہیں وہ انسانوں کی مداخلت سے آزاد دکھائی دیتا ہے۔ درحقیقت یہ انسان ہی ہے جو فطرت کو تباہ و برباد کر رہا ہے اور اس کی خوبصورتی چھین کر اس کی بدصورتی میں اضافہ کر رہا ہے۔

    کسی قدر تجریدی نوعیت کی یہ تصاویر اپنے آپ کو سمجھنے کے لیے غور و فکر کی دعوت تو دیتی ہیں، تاہم پہلی نظر میں یہ بہت خوبصورت تاثر چھوڑتی ہیں اور فطرت سے دور رہنے والوں کو بھی فطرت کے قریب جانے پر مجبور کردیتی ہیں۔

    فار دی لو آف نیچر کے نام سے فرناز کی ان تصاویر کی نمائش کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں جاری ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ٹھوس اشیا پر رنگین دھاگوں سے نقش نگاری کا خوبصورت فن

    ٹھوس اشیا پر رنگین دھاگوں سے نقش نگاری کا خوبصورت فن

    مختلف ٹھوس اشیا پر رنگین دھاگوں سے خوبصورت نقش تخلیق کرنا جنوبی چین کا نہایت خوبصورت فن ہے جسے چینی ثقافت میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔

    اس خوبصورت دستکاری کا آغاز 17 ویں صدی کے وسط سے ہوا تھا اور یہ چین کے جنوبی صوبوں ژائی من، کانگ ژو اور فیوجان میں نہایت مقبول ہے۔

    چین میں 300 سال قبل کے گوتم بدھ کے ایسے مجسمے موجود ہیں جنہیں دیدہ زیب بنانے کے لیے ان پر خوبصورت رنگین نقش نگاری کی گئی تھی۔

    مزید آگے جا کر اس فن میں جدت پیدا ہوئی۔ اب بدھا کے مجسموں پر کپڑے کے ٹکڑوں یا دھاگوں کو خوبصورت انداز میں جوڑ کر نہایت دلکش فن پارے تیار کیے جانے لگے۔

    ان میں بعض اوقات سونے کی تاروں یا سونے سے رنگے دھاگوں کو بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

    جدید چین میں اب یہ فن صرف بدھا کے مجسموں تک محدود نہیں رہا۔ اب مختلف اقسام کے برتن، گلدان اور آرائشی اشیا بھی اس دستکاری میں ڈھال کر پیش کی جاتی ہیں جو بیش قیمت ہونے کے باوجود ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہیں۔

    خوبصورت ہونے کے ساتھ یہ نقش نگاری نہایت محنت اور وقت طلب بھی ہے اور ایک فن پارے کی تکمیل میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ماضی کی تلاش میں سرگرداں حال

    ماضی کی تلاش میں سرگرداں حال

    ماضی کی خوشگوار یادیں کسی صورت ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ہم چاہے زندگی میں کتنے ہی مشہور، دولت مند یا کامیاب کیوں نہ ہوجائیں، ہمیں ہمارا ماضی ہمیشہ بہترین دکھائی دیتا ہے۔

    ماضی کے ایسے ہی سحر میں گرفتار نوجوان مصورہ رزین روبن نے فن کے ذریعے اپنے ماضی کی ایک جھلک دکھانے کی کوشش کی ہے۔

    کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں جاری آرٹ کی نمائش میں رزین کی تصاویر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں اور انہیں ان کے اپنے ماضی کی یاد دلا رہی ہے۔

    وہ ماضی جہاں بچپن تھا، بچھڑنے والے تھے، اور سکھ تھا۔

    رزین کا بچپن صوبہ سندھ کے شہر سکھر میں گزرا۔ سنہ 2013 میں وہ کراچی آبسیں۔ مگر اس دوران وہ اپنے والدین سے جدائی کا صدمہ اٹھا چکی تھیں اور بہت کچھ کھو چکی تھیں۔

    اپنی اس نمائش میں انہوں نے ماضی سے اسی انسیت اور لگاؤ کو پیش کیا ہے جو ہر شخص کی زندگی میں بہر صورت موجود ہوتا ہے۔

    کراچی میں جاری اس نمائش میں 13 نوجوان مصوروں کے فنی شاہکاروں کو پیش کیا گیا ہے۔ اس نمائش کا مقصد خاص طور پر ان مصوروں کا کام پیش کرنا ہے جو ابھی اپنے کیریئر کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔

    آمنہ رحمٰن، ارسلان ناصر، ارسلان فاروقی، فہد سلیم، حیدر علی، حسن رضا، حیا زیدی، نعمان صدیقی، انیز تاجی، رزین روبن، صفدر علی، سمیعہ عارف اور سفیان بیگ نامی ان فنکاروں نے نہایت خوبصورتی سے اپنے فن کا اظہار کیا ہے۔

    نمائش کو عدیل الظفر نے پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے فنکاروں کے کام کو پیش کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ نئی نسل دنیا کو کس زاویہ نگاہ سے دیکھتی ہے اور انہیں اپنے انداز میں کس طرح پیش کرتی ہے۔

    نوجوان مصور نعمان صدیقی کے کام میں سب سے نمایاں وہ لولی پاپس ہیں جو بقول ان کے قوم کو دی جارہی ہیں۔

    نعمان کا کہنا ہے کہ علامتی طور پر ان لولی پاپس کو پیش کیے جانے کا مطلب اس وقت ہماری قوم کے مزاج کی نشاندہی کرنا ہے۔

    انہوں نے مثال دی کہ ملک کے تمام مسئلے دہشت گردی، شدت پسندی، غربت اور جہالت کو چھوڑ کر پاناما کی لولی پاپ میں پھنسا دیا گیا ہے کہ لو اب اس کو کھاتے رہو۔ اس کی وجہ سے ملک کے تمام اصل مسائل پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔

    ان کے کام کی ایک اور انفرادیت گوشت کے وہ ٹکڑے ہیں جو انہوں نے مختلف رنگوں میں رنگ کر پیش کیے ہیں۔

    مختلف اقسام کی پلیٹس میں ان ٹکڑوں کو پیش کر کے نعمان نے ہمارے معاشرے کے مختلف طبقات میں رائج بد دیانتی کے مختلف طریقوں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔

    وہ کہتے ہیں، ’جس کو جہاں اور جس طرح موقع ملتا ہے وہ وہاں کرپشن کرتا ہے۔ ہر طبقہ کرپشن اور بددیانتی بھی اپنی حیثیت کے مطابق کرتا ہے‘۔

    ایک اور مصورہ سمیعہ عارف نے اپنی پینٹنگ میں مقتول خواتین قندیل بلوچ اور سبین محمود کو خراج تحسین پیش کیا۔


    صفدر علی نے لکڑی اور مختلف دھاتوں سے بنا ہوا ایک خوبصورت رنگین فن پارہ پیش کیا۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں جاری یہ نمائش 12 اگست تک جاری رہے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان کے گلی کوچوں کو نئی نگاہ سے دیکھیں

    پاکستان کے گلی کوچوں کو نئی نگاہ سے دیکھیں

    گھر میں رہتے ہوئے ہر شخص گھر اور اس کی چیزوں کا عادی ہوجاتا ہے اور وہ اس کی زندگی اور معمول کا حصہ بن جاتی ہیں۔

    جب کسی شے کی عادت ہوجائے تو عموماً ہم اسے نئے زاویوں سے دیکھنے سے محروم ہوجاتے ہیں اور یوں وقت کے ساتھ بدلتے اس کے حسن کو نہیں دیکھ پاتے۔

    اندرونی اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں رہنے والے لوگ بھی وہاں کی زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں۔ وہاں کے مناظر، صبح و شام کا ڈھلنا، مختلف لوگ، جانور وغیرہ سب کچھ ان کے لیے یکساں حیثیت اختیار کرجاتا ہے اور وہ اس میں نئی جہت ڈھونڈنے میں ناکام رہتے ہیں۔

    لیکن یہ نیا پن اس شخص کو دکھائی دے جاتا ہے جو پہلی بار ان علاقوں میں جائے، یا ایک عرصے پہلے ان گلیوں کو چھوڑ آیا ہو اور پھر لوٹ کر وہاں جائے۔

    در وسیم بھی ایسی ہی مصورہ ہیں جو امریکا سے پلٹ کر اپنے ماضی کی طرف آئیں تو انہیں پرانی یادوں کے ساتھ بہت سی نئی جہتیں بھی دیکھنے کو ملیں۔

    لاہور کی پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد وہ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں جا بسیں جہاں انہوں نے اپنے شعبے سے متعلق مزید تعلیم حاصل کی اور مختلف اداروں میں کام بھی کیا۔

    اب اپنی وطن واپسی کے بعد اس کی تصویر کشی کو انہوں نے وزیٹنگ ہوم کا نام دیا ہے، اور اس میں پاکستان کو انہوں نے جس طرح پیش کیا، یقیناً وہ رخ ان لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوگا جو ہمیشہ سے یہیں رہتے آئے ہیں۔

    آئیں آج ان کی نگاہ سے مختلف گلی کوچوں کو دیکھیں۔

    مری کا ایک منظر

    لاہور کی تاریخی ٹولنگٹن مارکیٹ

    اسلام آباد میں واقع گاؤں سید پور کی محرابی گزر گاہیں

    لاہور کا بھاٹی گیٹ

    ڈھلتی شام میں رکشے پر سواری

    سید پور کا ایک منظر

    اندرون لاہور میں ایک سرد سہ پہر

    ریلوے کا پھاٹک

    ٹھیلے پر فروخت ہوتے کیلے

    سید پور کا ایک اور منظر

    مری میں قائم ایک کھوکھا

    خزاں کی ایک شام

    پاکستان کے گلی کوچوں کو ایک نئے زاویے سے پیش کرتی آرٹ کی یہ نمائش کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں 13 جولائی تک جاری ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کافی کے کپ میں وین گوف کا شاہکار

    کافی کے کپ میں وین گوف کا شاہکار

    آپ نے کافی آرٹ کی بے شمار اقسام دیکھی ہوں گی جو پاکستان سمیت مختلف ممالک میں کی جاتی ہیں، تاہم جنوبی کوریا کے اس فنکار کا کافی آرٹ دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے جو بے حد انوکھا ہے۔

    جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول کا رہائشی فنکار لی کنگ بن کافی کے کپ میں معروف مصوروں کے منی ایچر شاہکاروں کی نقل تخلیق کر رہا ہے جو دیکھنے والوں کو دنگ کردیتا ہے۔

    نیدر لینڈز کے معروف مصور وین گوف کی شہرہ آفاق پینٹنگ ’ستاروں بھری رات‘ اور ناروے کے مصور ایڈورڈ منچ کی پینٹنگ ’چیخ‘ کو کافی کے کپ میں اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ دیکھنا ایک نہایت ہی شاندار اور منفرد تجربہ ہوسکتا ہے۔

    مصوری کے ان شاہکاروں کو تخلیق کرنے کے لیے لی کنگ برش اور چمچوں سے فوڈ کلرز کے مختلف اسٹروکس استعمال کرتا ہے۔

    صرف 15 منٹ میں تیار کیے جانے والے ایک کافی کے کپ کی قیمت 10 ہزار ون (کورین سکہ) ہے جسے خریدنے کے لیے شائقین کی ایک لمبی قطار موجود ہے۔

    لی کنگ کا کہنا ہے کہ ابتدا میں وہ شوقیہ طور پر اپنی کافی میں کریم اور جھاگ کو مختلف انداز سے ترتیب دیا کرتا تھا۔ بعد ازاں اسے یہ کام اتنا پسند آیا کہ وہ ایک کافی مشین خرید کر گھر لے آیا اور تجارتی بنیادوں پر یہ کام شروع کردیا۔

    مزید پڑھیں: آپ کی پسندیدہ کافی آپ کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟

    آرٹ کا شاہکار یہ کافی خریدنے والے افراد لی سے اپنی پسند کے مصوروں کی پینٹنگ بنانے کی بھی فرمائش کرتے ہیں۔

    پینٹنگ کے ساتھ ساتھ لی مختلف کارٹون کرداروں اور مناظر کو بھی کافی پر تخلیق کرتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گھر میں استعمال کی جانے والی ننھی منی خوبصورت اشیا

    گھر میں استعمال کی جانے والی ننھی منی خوبصورت اشیا

    منی ایچر یعنی ننھا منا آرٹ نہایت خوبصورت لگتا ہے لیکن اسے بنانے کے لیے نہایت محنت اور مہارت درکار ہے۔

    مختلف ننھی منی چیزوں پر کام کرنا اور انہیں اپنی مرضی کے مناظر میں تبدیل کرنا نہایت محنت اور توجہ کا متقاضی ہے۔

    لیکن اس انوکھے فن کو تخلیق کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔

    اب نیدر لینڈز کی اس باصلاحیت فنکارہ کو ہی دیکھ لیں جو صرف 2 سینٹی میٹر کے ننھے منے فن پارے تخلیق کر رہی ہے۔

    آلما نامی یہ فنکارہ گھریلو استعمال کی روز مرہ کی اشیا تخلیق کرتی ہے، اور ایسا تخلیق کرتی ہے کہ انہیں دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔

    آئیں آپ بھی دیکھیں۔

    Hand soap

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    #cupcakes for breakfast #miniature #dollhouse #handmade #oneinchscale

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    I am working on @domestikatethis cheese board but i got hungry and eat the epoisses

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    Itty bitty jam #miniature #dollhouseminiatures #dollhouse #oneinchscale #handmade #fimo

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    #miniature #cupcakes #dollhouse #handmade #fimo #oneinchscale #polymerclay

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    #lavender is ❤️ #miniature #shabbychicbathroom #oneinchscale #handmade #dollhouseaccessories

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    کیسا لگا آپ کو یہ انوکھا فن؟


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • شخصیت سے متعارف کروانے والے رنگین پتھر

    شخصیت سے متعارف کروانے والے رنگین پتھر

    اسکول صرف تعلیم حاصل کرنے اور نصابی کتابیں پڑھنے کی جگہ نہیں بلکہ یہ مقام زندگی کے ہر دور میں سامنے آنے والی مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا اور ان کا حل تلاش کرنا سکھاتا ہے۔

    کسی شخص کی زندگی میں آنے والی کامیابیوں میں اس کے اساتذہ کا بھی کردار ہوتا ہے کہ وہ انہیں دوران تعلیم کیا سکھاتا ہے اور کیسے سکھاتا ہے۔

    امریکی ریاست انڈیانا میں بھی ایک اسکول میں ایسی ہی ایک آرٹ ٹیچر نہایت دلچسپ انداز میں بچوں کو ان کی شخصیت سے متعارف کروا رہی ہیں۔

    جیسیکا موئز نامی اس ٹیچر نے امریکی مصننف لنڈا کرانز کی کتاب ’صرف تم‘ کے خیال پر ایک نہایت انوکھا پروجیکٹ تخلیق کیا۔

    دراصل یہ کتاب ایک ننھی مچھلی کے بارے میں ہے جو اپنے بل بوتے پر پورے سمندر کی خاک چھانتی ہے۔

    اس کے والدین اسے سبق دیتے ہیں کہ اپنے نئے دوستوں سے چوکنا رہو اور اسے نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنا راستہ خود تلاش کرے یہ سوچے بغیر کہ اس کے آس پاس موجود تمام لوگ کہاں جا رہے ہیں۔

    کتاب کا مرکزی خیال بچوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ ہر بچہ اپنی ذات میں مکمل اور منفرد ہے۔

    یہ آرٹ ٹیچر اپنے طلبا کو یہ کتاب پڑھ کر سناتی ہیں اور اس کے بعد وہ ان سے کہتی ہیں کہ کتاب میں موجود مچھلی کی طرح وہ بھی اپنی انفرادی شخصیت ظاہر کریں۔

    ٹیچر کے کہنے کے مطابق ہر بچہ اپنی پسند اور ذہن رسا کے مطابق ایک پتھر پر رنگ اور نقش و نگار تخلیق کرتا ہے۔ ہر بچہ دوسرے بچے سے مختلف رنگین پتھر تیار کرتا ہے اور اس دوران اپنی شخصیت کی انفرادیت پیش کرتا ہے۔

    ان بچوں کے تیار کردہ پتھروں کی تعداد کئی سو تک جا پہنچی ہے اور ان کی مدد سے اسکول کے باہر ایک رنگین رہگزر تیار کی جاچکی ہے جو وہاں سے گزرنے والوں کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے۔

    جیسیکا کا کہنا ہے کہ یہ پروجیکٹ اس خیال کی نفی کرتا ہے، کہ ’ہم اکیلے کچھ بھی نہیں‘۔ یہ پروجیکٹ بچوں کو بچپن سے یہ بات سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ صرف ایک بچے کی شخصیت بھی نہایت منفرد ہے اور دنیا کو بدل سکتی ہے۔

    سوشل میڈیا پر شیئر کیے جانے کے بعد اس پروجیکٹ کو نہایت پسند کیا جارہا ہے اور کئی دوسرے اسکولوں نے بھی ایسے پروجیکٹس شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج سے بچانے کے لیے دیو قامت ہاتھ

    کلائمٹ چینج سے بچانے کے لیے دیو قامت ہاتھ

    روم: اٹلی کے خوبصورت ترین پانیوں کے شہر وینس میں ایک تاریخی عمارت کو کلائمٹ چینج کے نقصانات سے بچانے کے لیے پانی سے دیو قامت ہاتھوں نے نمودار ہو کر عمارت کو سنبھال لیا۔

    یہ دیو قامت ہاتھ دراصل سرامکس سے بنائے گئے ہیں جو ایک اطالوی فنکار نے تخلیق کیے ہیں۔

    ان ہاتھوں کا مقصد دنیا کو کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانا ہے کہ اگر اس عمل کے باعث سطح سمندر میں اضافہ جاری رہا تو وینس کا خوبصورت شہر اور اس میں موجود تمام تاریخی عمارتیں ڈوب جائیں گی۔

    وینس کی گرینڈ کنال میں جس مقام پر یہ ہاتھ نصب کیے گئے ہیں وہاں 14 ویں صدی کا ایک تاریخی ہوٹل موجود ہے اور ان ہاتھوں کو بنانے والے فنکار کا کہنا ہے کہ یہ ہاتھ دراصل علامتی طور اس ہوٹل کو ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    کوئن نامی یہ فنکار کہتا ہے، ’یہ دیو قامت ہاتھ انسانی ہاتھوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو دنیا کو تباہ کر سکتے ہیں، لیکن یہی ہاتھ ہماری زمین کو بچانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں‘۔

    وہ کہتا ہے کہ دنیا بھر کے موسموں میں تغیر یعنی کلائمٹ چینج اس وقت ہماری بقا کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس پر فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    وینس میں ہونے والی آرٹ کی ایک نمائش کے تحت نصب کیے جانے والے یہ دیو قامت ہاتھ 26 نومبر تک نصب رہیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔