Tag: آرٹسٹ

  • چین میں رنگوں و روشنیوں بھری ڈیجیٹل نمائش

    چین میں رنگوں و روشنیوں بھری ڈیجیٹل نمائش

    بیجنگ: جاپانی ڈیجیٹل آرٹ کے ذریعے جنگل اور آبشاروں کی چین میں نمائش کی گئی جس نے شرکا کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔

    جاپان میں تیار کیے جانے والے منفرد ڈیجیٹل آرٹ کے نمونوں نے چینیوں کو دنگ کردیا۔ پل بھر میں رنگ، ڈیزائن اور انداز بدلتے یہ نمونے نہایت خوبصورت دکھائی دیے۔

    لیونگ ڈیجیٹل اسپیس اینڈ فیوچر پارک نامی یہ نمائش بیجنگ میں منعقد کی جارہی ہے۔

    نمائش میں ڈیجیٹل گارڈن، جنگل، پھولوں اور کرسٹل یونیورس کو پیش کیا گیا۔

    سائنس اور آرٹ کے امتزاج کی اس انوکھی نمائش میں شرکا اپنے ارد گرد روشنیوں کو اپنے موبائل سے کنٹرول بھی کر سکتے ہیں۔

    نمائش میں آنے والے بچوں کے لیے اسکیچ ٹاؤن اور ڈیجیٹل پلے گراؤنڈ کا بھی اہتمام کیا گیا جہاں بچوں نے اپنی ڈرائنگ کو تھری ڈی میں تبدیل ہوتے دیکھا۔

    رنگوں اور روشنیوں کی یہ نمائش 10 اکتوبر تک جاری رہے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گول پتھروں سے تعمیر شدہ فرش کیسے تیار کیا جاتا ہے؟

    گول پتھروں سے تعمیر شدہ فرش کیسے تیار کیا جاتا ہے؟

    معاشی طور پر خوشحال اور فن و ادب کی سرپرستی کرنے والے ممالک میں فن کی نئی جہتیں سامنے آتی ہیں۔

    یہ آج کا نہیں صدیوں پرانا رواج ہے، تاریخ میں خوشحال و زرخیز خطوں نے ہی فن و ادب کی سرپرستی کی اور اس شعبے میں بڑے بڑے نام پیدا کیے۔

    ایسا ہی ایک فن فرش پر کندہ کاری کا ہے جس میں ہر دور میں نئی جہت سامنے آئی۔ کبھی فرش پر ٹھوس اشیا کو نصب کیا گیا، کبھی ان پر کندہ کاری کی گئی، اور کبھی خوبصورت نقش و نگاری سے فرش بنائے گئے۔

    path-6

    قدیم یونان میں فرش کو سجانے کے لیے چکنے گول پتھروں کا استعمال کیا جاتا تھا جو مختلف رنگوں اور ڈیزائن کے ہوتے تھے۔ انہیں ایک خاص ترتیب کے ساتھ فرش میں نصب کر کے نہایت خوبصورت اور دیدہ زیب فرش تیار کیے جاتے تھے جن کے آثار آج بھی ماہرین کو کھدائیوں کے دوران ملتے ہیں۔

    بعض اوقات ان پتھروں کے ذریعے فرش پر کسی خاص واقعے کا پورا منظر بھی تشکیل دیا جاتا تھا۔

    path-7

    اس فن کا آغاز ساتویں اور آٹھویں صدی قبل مسیح میں ہوا تھا تاہم پانچویں صدی قبل مسیح تک یہ فن اتنا مقبول ہوچکا تھا کہ فنکار باقاعدہ اس کی تربیت اور تعلیم حاصل کر کے اس میں نئی جہتیں اور نئے طریقہ کار معارف کرواتے۔

    لیکن یہ فن کوئی آسان نہیں تھا۔ اس کے لیے سخت مشقت، صبر اور مہارت درکار ہوتی تھی جس سے نہ صرف ایک خوبصورت فرش تیار ہوتا بلکہ یہ اپنے اوپر چہل قدمی کرنے والوں کے لیے بھی کسی الجھن کا باعث نہیں بنتا۔

    path-2

    یہ فن آج بھی دنیا بھر میں رائج ہے اور آپ کو مختلف مقامات پر اس طرح کے گول پتھروں سے تعمیر کیے ہوئے فرش دکھائی دیں گے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ فرش کس طرح تعمیر کیا جاتا ہے؟

    path-3

    ایک یونانی فنکار اسٹیلیو گریکوس نے اس فرش کی تعمیر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی جسے دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے۔

    آنکھوں کو دیدہ زیب دکھنے والا یہ فرش نہایت محنت سے تیار کیا جاتا ہے جس کی ایک جھلک آپ بھی دیکھیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بادشاہی مسجد کے اوپر اڑتا ڈریگن

    بادشاہی مسجد کے اوپر اڑتا ڈریگن

    کیا آپ نے کبھی تصور کیا ہے کہ مستقبل میں پاکستان کیسا ہوگا؟ یا اگر کوئی ایسی سائنس فکشن فلم بنائی جائے جس میں پاکستان کو دکھایا جائے گا، تو وہ پاکستان کیسا ہوگا؟

    تصور کرنے کو تو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن ایک پاکستانی مصور نے اس تصور کو حقیقت میں ڈھال دیا۔

    عمر گیلانی نامی یہ فنکار پیشے سے تو مکینکل انجینئر ہیں تاہم انہیں مصوری کا جنون ہے۔ عمر نے اپنی تعلیمی تجربات اور اپنی پرواز تخیل کو جوڑ کر فن کے کچھ نادر نمونے تخلیق کیے ہیں جن میں وہ یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مستقبل کا پاکستان کیسا ہوگا۔

    مزید پڑھیں: مچھلی پر سواری کرتا اور سائیکل چلاتا مغل بادشاہ

    دراصل انہوں نے پاکستان کی سڑکوں اور فضاؤں میں سائنسی رنگ کی آمیزش کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کی یہ کوشش نہایت شاندار ہے۔

    آیئے آپ بھی ان کی سائنس فکشن تصاویر دیکھیں۔

    ایک کچی آبادی میں کرکٹ کھیلی جارہی ہے۔ پس منظر میں بلند و بالا جدید عمارات نظر آرہی ہیں۔

    8

    لاہور کی بادشاہی مسجد کے اوپر ایک ڈریگن اڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

    2

    ایک گاؤں سے خلا میں راکٹ فائر کرنے کا منظر۔

    5

    ایک خان صاحب اپنے روایتی لباس اور ٹوپی میں اسٹار وارز کے مشہور کردار کے مدمقابل۔

    3

    پاکستان کے مشہور لکی ایرانی سرکس میں ایک ڈریگن کو سدھایا جارہا ہے۔

    6

    اس تصویر میں دکھائی دی جانے والی مخلوق کو عمر باؤنٹی ہنٹر کا نام دیتے ہیں۔ پس منظر میں لاہور کا پرہجوم بازار اور سڑک پر چلتے رکشے نظر آرہے ہیں۔

    9

    ایک روبوٹ تاریخی پس منظر رکھنے والی کسی عمارت میں ستار بجا رہا ہے۔ گویا روبوٹ بھی اپنی روایات سے غافل نہیں ہے۔

    7

    تنگ اور گنجان آباد گلیوں میں پگڑی پہنے ایک شخص کی جدید موٹر سائیکل پر سواری۔

    11

    ایک ننھی بچی سڑک پر بھیک مانگتی نظر آ رہی ہے اور اس کا ایک بازو مشینی ہے۔

    4

    اور تو اور مستقبل کے پاکستان میں اڑنے والے ٹرک بھی ایجاد ہوچکے ہیں، جو روایت کے مطابق مقررہ حد سے زیادہ وزن اٹھا کر محو سفر ہیں۔ فضا میں اڑنے والا یہ ٹرک روایتی ٹرک آرٹ سے مزین ہے۔

    10

    تو کہیئے، کیسی لگی آپ کو مستقبل کے پاکستان کی منظر کشی؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتایئے۔

  • سنہری سائیکل اور ہوا میں اڑنے کی خواہش

    سنہری سائیکل اور ہوا میں اڑنے کی خواہش

    دنیا میں موجود ہر شخص اپنی زندگی میں مختلف حالات سے گزرتا ہے۔ ان حالات میں مماثلت تو ضرور ہوسکتی ہے مگر ان حالات کا سہنے والے پر کیا اثر پڑتا ہے یہ یقیناً ایک مختلف امر ہے۔

    لیکن ایک فنکار اپنے اوپر گزرنے والے حالات کو مختلف انداز سے محسوس کرتا ہے۔ اگر وہ ان حالات کو تصویر کرنے بیٹھے تو ان کا انداز بیاں عام افراد سے بالکل مختلف ہوگا۔

    ایسی ہی کچھ تصویر ہمیں کراچی میں 7 فنکاروں کی نمائش میں ملتی ہے جو زندگی کے مختلف حالات کو مختلف انداز سے پیش کر رہے ہیں۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں جاری یہ نمائش جس کا عنوان ’دل تو پاگل ہے‘ زندگی کے مختلف رنگوں اور ایک فنکار کے انہیں محسوس کرنے کے انداز کو پیش کر رہی ہے۔

    6

    5

    یہ نمائش 7 فنکاروں احمد جاوید، ارسلان فاروقی، حیدر علی نقوی، جوویتا الواریز، نعمان صدیقی، قادر جتھیال، اور رزن روبن کے فن پاروں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے کچھ نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل ہیں۔

    ان فنکاروں نے اپنے فن کو منی ایچر کی شکل میں پیش کیا ہے۔ اپنے خیالات کو متاثر کن انداز میں پیش کرنا اور وہ بھی آرٹ کی ایک منفرد شکل میں پیش کرنا نہایت مشکل کام ہے۔

    یہ نمائش اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس کے فنکار 6 ہفتوں تک دنیا سے کٹ کر ایک جگہ پر رہے اور اس دوران انہوں نے اپنے فن پارے تخلیق کیے۔ نمائش کا انعقاد محمد ذیشان نامی فنکار نے کیا جو دن رات فنکاروں کے ساتھ ان کے فن کی تخلیق کے دوران موجود رہے۔

    نمائش میں پیش کیے گئے فن پاروں میں روایتی آرٹ اور گہرے رنگوں کی مدد سے ناسٹلجیا (یاد ماضی)، امن، موت اور شناخت کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔

    فنکار قادر جھتیال نے 99 ہاؤس ہولڈ آبجیکٹس نامی فن پارے میں عام زندگی میں استعمال ہونے والی مختلف اشیا کی اہمیت بتانے کی کوشش کی ہے۔

    99-house-hold-objects

    4

    کراچی کے فنکار نعمان صدیقی نے اپنا فن پارہ نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا جس میں سنہری سائیکل پر رنگے برنگے غباروں کو باندھا گیا ہے۔ اس فن پارے کا نام خواہش ہے۔

    3

    2

    یہ خواہش غباروں کی طرح ہوا میں اڑنے اور آزاد ہونے کی بھی ہوسکتی ہے۔

    نمائش میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور فنکاروں کے خیالات اور منفرد فن کو سراہا۔

  • روشنی بھرے نرگس کے پھولوں کی بہار

    روشنی بھرے نرگس کے پھولوں کی بہار

    لندن: برطانوی دارالحکومت لندن کا سینٹ پال کیتھڈرل مصنوعی نرگس کے پھولوں سے جگمگا اٹھا۔ مصنوعی پھولوں کا یہ باغ جان لیوا بیماریوں کا شکار افراد کی حالت زار سے آگاہی کے لیے قائم کیا گیا ہے۔

    روشنیاں بکھیرنے والے نرگس کے یہ پھول برطانوی فنکار اینڈریو شوبن اور ان کے ساتھیوں نے ہاتھ سے تخلیق کیے ہیں اور مصنوعی پھولوں کے اندر ایل ای ڈی روشنیاں لگا کر انہیں روشن کیا گیا ہے۔

    روشنیوں کے باغ کے نام سے سجایا جانے والا یہ دلچسپ باغ فلاحی مقاصد کے لیے قائم کیا گیا ہے۔

    london-6

    london-3

    یہی نہیں یہاں روشن کیے گئے ان 21 ہزار پھولوں کو برطانیہ میں کام کرتی ان نرسوں سے منسوب کیا گیا ہے جو خود راتوں کو جاگتی ہیں، مگر علالت کا شکار مریضوں اور ان کے خاندان کے لیے روشنی کی کرن ہیں۔

    london-5

    london-4

    باغ میں وہ خطوط بھی رکھے گئے ہیں جو مختلف مریضوں نے صحت یابی کے بعد اپنی نرسوں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے لکھے۔

    london-2

    london-7

    باغ میں ہر خاص و عام کا داخلہ مفت ہے اور لوگ بے حد دلچسپی سے روشنیوں بھرے مصنوعی نرگس کے پھولوں کو دیکھنے کے لیے آرہے ہیں۔

  • نیلگوں رنگ میں یونانی ثقافت اور بانی پاکستان قائد اعظم

    نیلگوں رنگ میں یونانی ثقافت اور بانی پاکستان قائد اعظم

    پانی زندگی کی علامت ہے۔ اس کا نیلا رنگ بھی نہ صرف زندگی کی طرف اشارہ کرتا ہے بلکہ ماہرین نفسیات اس رنگ کو بے چین اور انتشار کا شکار انسانی دماغ کو سکون اور آرام پہنچانے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

    اسی گہرے رنگ کو استعمال کرتے ہوئے فنکار کمیل اعجاز الدین زندگی کے مختلف رنگوں کو پیش کر رہے ہیں۔

    کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں ان کے فن پاروں کی نمائش ’آوٹ آف دا بلو‘ کے نام سے جاری ہے۔

    12

    لاہور کے رہنے والے کمیل نے نیویارک یونیورسٹی سے آرٹ اور اس کی تاریخ کی تعلیم حاصل کی ہے۔ دو الگ ثقافتوں کے حامل شہروں میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد کمیل اب ذہنی و روحانی طور پر نیویارک اور لاہور دونوں میں رہائش پذیر ہیں۔

    اپنی تصاویر میں انہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی اسی رنگ میں رنگ کر پیش کیا ہے۔

    2

    6

    یونان اور روم کی فن و ثقافت پڑھنے والے کمیل کے فن پاروں میں یونانی اور رومی رنگ نظر آتا ہے۔ ان کی مذکورہ نمائش میں رکھے گئے فن پارے قدیم یونان کے فن اور اس کی ثقافت سے متاثر ہیں۔

    3

    ان کے فن پاروں کا بنیادی خیال کانٹے ہیں جو آپ کو ہر فن پارے میں نظر آئیں گے۔

    کمیل کے مطابق کانٹے خطرے اور خوبصورتی دونوں کی علامت ہیں۔ یہ ایک طرف تو اپنے حصار میں موجود شے کو حفاظت فراہم کرتے ہیں، دوسری جانب اس حصار سے باہر موجود ہر شے کے لیے خطرے کی صورت ہیں۔

    5

    4

    کمیل نے اس نمائش میں درختوں کو فرش پر کی گئی کندہ کاری کی طرح پیش کیا ہے۔ فرش پر کندہ کاری یونانیوں سمیت ہر ثقافت کا اہم جز تھا جو اس دور کے ثقافتی و فنی عروج کی نشانی تھا۔

    9

    7

    انہوں نے چاروں موسم سردی، گرمی، خزاں اور بہار کے درختوں کو اس شکل میں پیش کیا ہے۔

    10

    8

    گہرے نیلے رنگ پر مشتمل فن پاروں کی یہ نمائش مزید چند روز جاری رہے گی۔

  • کافی سے بنی خوبصورت تصاویر

    کافی سے بنی خوبصورت تصاویر

    ایک مصور و فنکار کو ہر شے میں کچھ تخلیقی نظر آتا ہے۔ یہ وہ نظر ہوتی ہے جو کسی عام انسان کو میسر نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ فنکار اپنے فن کی انوکھی اور منفرد جہتوں کی بدولت دنیا سے جانے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔

    امریکا سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ ڈیانا بھی ایسی ہی فنکار ہے جس نے کافی سے منفرد آرٹ تخلیق کیا ہے۔

    ڈیانا کے دو ہی شوق ہیں، کافی اور موسیقی، اور اپنے ان دونوں مشغلوں کی تکمیل نے اسے ایک منفرد فنکار بھی بنادیا۔ وہ کافی سے اپنے پسندیدہ موسیقاروں کی تصویر کشی کرتی ہے۔

    اس منفرد آرٹ کے لیے ڈیانا عموماً بچی ہوئی کافی استعمال کرتی ہے۔ بعض اوقات وہ ان کے ساتھ واٹر کلرز کی آمیزش بھی کرتی ہے۔

    ڈیانا نے آرٹ کی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی، تاہم اس کے شوق، مسلسل محنت اور لگن نے اسے اپنی نوعیت کا منفرد مصور بنا دیا ہے۔

    آپ بھی ڈیانا کی بنائی ہوئی تصاویر سے لطف اندوز ہوں۔

  • مونا لیزا کا ثقافتی ارتقا

    مونا لیزا کا ثقافتی ارتقا

    کراچی: تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیاں جیسے مختلف کھیلوں، تقاریر، مباحثوں اور سائنس و فنون کی نمائشوں کا انعقاد طلبا کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کے اظہار اور ان کو مہمیز کرنے کا سبب بنتا ہے۔

    یہی وہ وقت اور مقام ہوتا ہے جہاں سے طلبا، ان کے والدین اور اساتذہ بچوں میں چھپی صلاحیتوں سے واقف ہوتے ہیں اور انہیں آئندہ زندگی کے لیے شعبہ کا انتخاب کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

    کراچی کے خاتون پاکستان گورنمنٹ اسکول میں بھی ایک نمائش کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبا نے مختلف فنی و سائنسی فن پاروں کے ذریعہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    1

    نمائش میں شہرہ آفاق مونا لیزا کی تصویر کشی نے سب کی توجہ سمیٹ لی جس میں مونا لیزا کو مختلف ثقافتوں کے لباس میں ملبوس دکھایا گیا۔

    5

    9

    طلبا نے قدیم مصر میں پہنے جانے والے زیورات کی طرز پر خود زیورات بنائے اور انہیں نمائش میں پیش کیا۔

    2

    نمائش میں مختلف ماحولیاتی مسائل جیسے آلودگی اور پانی کی کمی وغیرہ کو بھی مختلف پروجیکٹس کے ذریعہ پیش کیا گیا۔

    7

    نمائش میں طلبا کے والدین، دیگر اسکولوں کے طلبا اور معززین شہر نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

    8

    3

    شرکا نے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو سراہا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے طبعی رجحان کو دیکھتے ہوئے اسی شعبے میں ان کی مزید تعلیم و تربیت انہیں زندگی میں کامیاب بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

  • آلودگی سے پریشان جنگجو حکمران

    آلودگی سے پریشان جنگجو حکمران

    ماضی اور حال کا ایک ساتھ چلنا گو کہ مشکل لگتا ہے تاہم تخیل کی دنیا ہر حد سے ماورا ہوتی ہے، اور اس میں وقت کے کئی ادوار بیک وقت چل سکتے ہیں۔

    ایک فنکار کا فن اور تخیل حدود و قیود سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کا فن وقت کے گم گشتہ اوراق بھی دکھا سکتا ہے، اور اگر وقت گزشتہ کو حال کے ساتھ ملادیا جائے تو بعض اوقات نہایت ہی حیرت انگیز شے سامنے آتی ہے جو کسی عام انسان کی قوت تخیل سے پرے ہوتی ہے۔

    ایسے ہی دو فنکار آصف احمد اور محمد عاطف خان اپنی قوت تخیل کو نہایت شاندار انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ دونوں فنکاروں کے فن پاروں کی نمائش کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں ’خاموش گفتگو‘ کے نام سے جاری ہے۔

    آصف احمد اپنے فن پاروں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ماضی کی روایات و شخصیات ہمیشہ سے ان کے فن کا موضوع رہا ہے۔ وہ ان کے ساتھ دور جدید کی روایات و زندگی کو ملا کرمنفرد فن پارے تخلیق کرتے ہیں۔

    نمائش میں رکھے جانے والے ان فن پاروں کا موضوع ’ایک دور کا اختتام‘ ہے۔

    اپنی تصاویر میں انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر ماضی کے جنگجو حکمران اور بادشاہ اگر آج کے دور میں ہوتے تو سب سے پہلے انہیں اپنے لیے ایک ماسک کی ضرورت پڑتی تاکہ وہ آلودہ و زہریلی فضا سے خود کو بچا سکیں۔

    01-asif-ahmed-2017-end-of-an-era-gouache-on-wasli-paper-5-5-x-5-5-inches-approx

    02-asif-ahmed-2017-end-of-an-era-gouache-on-wasli-paper-5-5-x-5-5-inches-approx

    03-asif-ahmed-2017-end-of-an-era-gouache-on-wasli-paper-5-5-x-5-5-inches-approx

    یہ تصاویر اس جانب بھی اشارہ کرتی ہیں کہ اپنے دور کے مضبوط، جنگجو، عزم و ہمت کا پیکر اور کسی کو خاطر میں نہ لانے والے بادشاہ فضائی آلودگی کے ہاتھوں سخت پریشان ہوتے، گویا انسان کی پیدا کردہ فضائی آلودگی ان بہادر بادشاہوں سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔

    دوسرے فنکار محمد عاطف خان بھی تاریخی و دور جدید کے مختلف پہلوؤں کی آمیزش کر کے رنگین و خوبصورت فن پارے تخلیق کرتے ہیں۔

    اس سے قبل اے آر وائی نیوز کو دیے جانے والے ایک خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے فن پاروں میں مختلف تصاویر کے مختلف پہلوؤں کو شامل کر لیتے ہیں۔

    وہ پرانی تصاویر جو کسی اور نے بنائیں، پاکستانی ٹرک آرٹ، یہاں تک کہ کتابوں، پوسٹرز اور کرنسی نوٹوں تک پر چھپے نقوش کی اپنی تصاویر میں آمیزش کر کے انہیں نئے سرے سے تخلیق کرتے ہیں جن کے بعد یہ فن پارے نئے مطالب وا کرتے ہیں۔

    10-atif-khan-2017-fragmentation-2-archival-inkjet-print-on-hahnemuhle-paper-24-5-x-22-inches-edition-1-of-9

    15-atif-khan-2017-landscape-3-archival-inkjet-print-on-hahnemuhle-paper-18-x-24-inches-edition-1-of-9

    11-atif-khan-2017-fragmentation-1-archival-inkjet-print-on-hahnemuhle-paper-24-5-x-22-inches-edition-1-of-9

    عاطف خان کے مطابق ان کی تصاویر کو ’ری سائیکلنگ‘ کہا جاسکتا ہے۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں یہ نمائش مزید چند روز جاری رہے گی۔

  • مچھلی پر ’سواری‘ کرتا اور سائیکل چلاتا مغل بادشاہ

    مچھلی پر ’سواری‘ کرتا اور سائیکل چلاتا مغل بادشاہ

    آپ نے مغل بادشاہوں کے بارے میں بہت کچھ پڑھا اور سنا ہوگا۔ ان کے مزاج، ان کی عادات، ان کے طرز حکمرانی اور طرز زندگی کے بارے میں ہزاروں کی تعداد میں دستاویز موجود ہیں جو ان کی زندگی کے ایک پہلو پہلو کو ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں۔

    لیکن آج ہم جن مغل بادشاہوں کا آپ سے تعارف کروانے جارہے ہیں، وہ آپ کے لیے بالکل اجنبی ہوں گے۔ یا یوں کہہ لیجیئے، بادشاہ تو وہی ہوں گے جن کے بارے میں ہم بچپن سے پڑھتے اور سنتے آرہے ہیں، لیکن جس انداز میں آپ انہیں دیکھیں گے وہ بہت انوکھا اور اچھنبے میں ڈال دینے والا ہوگا۔

    کیا آپ نے کبھی کسی مغل بادشاہ کو شاہی لباس میں، تمام سازو سامان اور زیورات سے آراستہ سائیکل چلاتے سنا ہے؟ یا آپ نے سنا ہے کہ مغل بادشاہ پتنگ بازی کر رہے ہوں، لیکن ان کے ہاتھ میں موجود ڈور کے دوسرے سرے پر پتنگ کے بجائے کوئی زندہ جیتی جاگتی مچھلی موجود ہو جو ہوا میں اڑ رہی ہو؟

    یہ سب سننے میں تخیلاتی اور تصوراتی لگے گا، اور اگر یہ سب کسی تصویر کی صورت آپ کے سامنے پیش کیا جائے تو آپ کو بھی اسی تصوراتی دنیا میں کھینچ کر لے جائے گا۔

    لیکن ذرا رکیے، اس تصوراتی دنیا میں جانے سے پہلے اسے تخلیق کرنے والے سے ملیے۔

    اپنی رنگ برنگی تصوراتی دنیا، اس میں موجود بادشاہوں، ملکاؤں، پھلوں سے لدے درخت اور سبزے کو کینوس پر پیش کرنے والے یہ فنکار محمد عاطف خان ہیں۔

    ماضی کا قصہ بن جانے والے مغل دور کی، عصر حاضر کی ایجادات و خیالات کے ساتھ آمیزش کرنے والے عاطف خان کا خیال ہے کہ ان کے یہ فن پارے اس نظریے کی نفی کرتی ہیں کہ نئے دور سے مطابقت کرنے کے لیے پرانی اشیا کو ختم کر دیا جائے۔

    یہی نہیں بلکہ یہ اس بات کا بھی واضح ثبوت ہیں کہ دونوں وقت نہ صرف ایک ساتھ پا بہ سفر ہو سکتے ہیں، بلکہ اگر انہیں خوبصورتی سے برتا جائے تو یہ بے ڈھب بھی معلوم نہیں ہوں گے۔

    تخیلاتی دنیا میں رہنے والا مصور

    صوبہ پنجاب کے شہر ساہیوال میں پیدا ہونے والے عاطف خان نے پاکستان کے مشہور زمانہ نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم حاصل کی۔ وہ اب تک پاکستان کے مختلف شہروں اور برطانیہ، سوئٹزر لینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا، اردن، متحدہ عرب امارات اور بھارت میں اپنی مصوری کی کامیاب نمائشیں منعقد کر چکے ہیں۔

    عاطف خان اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی ایش برگ برسری ایکسچینج پروگرام میں بھی منتخب کیے گئے جبکہ اردن، ویلز، لندن اور گلاسکو میں آرٹ کے مختلف پروگرامز میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔

    سنہ 2007 میں انہیں کامن ویلتھ آرٹس اینڈ کرافٹس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فی الحال وہ اپنی مادر علمی میں تدریس کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔

    فن و مصوری کے میدان میں عاطف خان چینی فنکار آئی وی وی اور برطانوی فنکار انیش کپور سے بے حد متاثر ہیں۔ پاکستانی فنکاروں میں انہیں عمران قریشی کا کام پسند ہے۔

    مغل دور اور تصاویر کی ری سائیکلنگ

    عاطف خان کہتے ہیں، ’مغل دور (یا یوں کہہ لیجیئے کہ کسی بھی قدیم دور) کو اپنی مصوری میں پیش کرنے سے میرا کینوس وقت کی قید سے ماورا ہوجاتا ہے۔ یہ دیکھنے والوں کو بھی زمان و مکان کی قید سے آزاد کر کے ایک تصوراتی دنیا میں لے جاتا ہے‘۔

    وہ مانتے ہیں کہ ان فن پاروں کو دیکھنے والوں کا ایک تصوراتی دنیا میں قدم رکھنا لازمی ہے، ’کیونکہ اگر وہ کسی ٹائم مشین کے ذریعے مغل دور میں پہنچ بھی گئے، تب بھی وہ مغلوں کو یہ سب کرتے نہیں دیکھ سکتے جو ان تصاویر میں دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ درحقیقت اس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں‘۔

    خان کہتے ہیں کہ یہ مناظر تصوراتی ہونے کے ساتھ ان میں موجود کردار بھی فرضی ہیں۔ ’گو یہ پرانے دور کے حقیقی بادشاہوں سے ماخوذ تو ضرور ہیں، مگر فرضی ہیں‘۔

    ان کی تخلیق کردہ تصاویر میں صرف مغل بادشاہ ہی نہیں، بلکہ ملکہ برطانیہ الزبتھ کا عکس بھی ملتا ہے جبکہ ایک اور جگہ ایک ملکہ میں آپ ملکہ نور جہاں سے مشابہت دیکھ سکتے ہیں۔

    عاطف خان اپنے تخلیق کردہ فن پاروں کو مختلف تصاویر کی ’ری سائیکلنگ‘ کا نام دیتے ہیں کیونکہ ہر فن پارے میں وہ مختلف تصاویر کے مختلف پہلوؤں کو شامل کر لیتے ہیں۔

    انہوں نے مغل دور کی وہ تصاویر جو کسی اور نے بنائی تھیں، پاکستانی ٹرک آرٹ، یہاں تک کہ کتابوں، پوسٹرز اور کرنسی نوٹوں تک پر چھپے نقوش کی اپنی تصاویر میں آمیزش کردی۔ اب خان کے مطابق یہ فن پارے نئے سرے سے تخلیق ہو کر نئے مطالب وا کرتے ہیں۔

    امریکا کی ایک آرٹ کی نقاد لیزا پول مین نے اپنے ایک مضمون میں عاطف خان کے فن کے بارے میں لکھا، ’برصغیر کے مغل بادشاہوں کی رنگ برنگی تصویر کشی فنکار کے دل کی رنگین دنیا کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کا فن ماضی کے کرداروں سے ابھرا ہے‘۔

    لاشعور کی رنگین دنیا

    خان کی تخلیق کردہ دنیا انوکھی، غیر معمولی یا کسی حد تک عجیب و غریب اور منفرد تو ضرور ہے مگر جمالیاتی اعتبار سے نہایت خوبصورت ہے۔

    وہ ایک تخیلاتی شہر میں رہتے ہیں جو مغلوں کے دور جیسا ہے اور نہایت سر سبز ہے۔ ان کے فن پاروں میں گھنے جنگلات، سر سبز باغات، رنگ برنگی بھول بھلیاں، خوشنما پرندے، رنگین مچھلیاں اور خوبصورت بادل نظر آتے ہیں۔

    دراصل خان کا یہ شہر اس تحریک سے ابھرا ہے جو ان کے لاشعور نے ان کی قوت تخیل کو دی۔ بعض غیر ملکی ناقدین فن نے ان کے آرٹ کو سریئل ازم آرٹ قرار دیا۔ آرٹ کی یہ قسم 1920 کی اوائل میں اس وقت سامنے آئی جب فن و ادب میں لاشعور کو شعور میں لا کر اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی تحریک چلی۔

    اس تحریک کے تحت جو آرٹ سامنے آیا اس میں زیادہ تر تحیر العقل (عموماً لاشعور کی پیدا کردہ) دو متضاد چیزوں کو ملا کر پیش کیا گیا۔

    لاشعور پر کام کرنے والی ایک امریکی پروفیسر ڈاکٹر میگی این بوورز کہتی ہیں، ’سریئل ازم اور جادو یا جادوئی حقیقت دو مختلف چیزیں ہیں۔ سریئل ازم کا مادی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، اس کا تعلق لاشعور، تصور اور تخیل سے ہے اور یہ انسانی نفسیات اور کسی انسان کے ’لاشعور کی زندگی‘ کو بیان کرتی ہے۔

    گویا عاطف خان کے لاشعور میں بسا شہر، ماضی اور حال کے تضاد کے ساتھ ایک دنگ کردینے والی صورت میں سامنے آتا ہے۔

    آئیے ہم بھی ان کے ساتھ ان کے لاشعور کے شہر میں قدم رکھتے ہیں۔

    لینڈ اسکیپ آف دا ہارٹ نامی پینٹنگ سیریز میں ایک بادشاہ اپنے شاہی لباس میں ملبوس دل پر سوار ہو کر کسی شے کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جس تالاب میں اس بادشاہ کی کشتی (دل) تیر رہی ہے وہ دراصل خون ہے۔

    ایک اورفن پارے ڈیپ ڈریم میں شیش محل کی طرز پر ایک باغ دکھایا گیا ہے جس میں بادشاہ تیر اندازی کر رہا ہے۔ لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ شیش محل کی مخصوص آئینہ کاری کے سبب باشاہ کے تیر کی زد میں خود اس کا اپنا ہی عکس ہے۔

    منفرد فنکار کی ایک اور پینٹنگ میں ایک پل پر ایک رقاصہ محو رقص ہے اور ذرا سے فاصلے پر بادشاہ ایک جدید کیمرہ ہاتھ میں لیے اس کی تصویر کھینچ رہا ہے۔ حال اور ماضی کے تضاد کی اس سے بہترین مثال اور کیا ہوگی۔۔

    ایک اور تصویر میں مغل بادشاہ پا بہ سفر ہے۔ اس تصویر کی خاص بات یہ ہے کہ بادشاہ کا پورا سفر اسی ایک فن پارے میں بیان ہوجاتا ہے۔

    اس کا پیدل، سائیکل پر یا دل نما کشتی پر سفر کرنا، جبکہ اسی فن پارے میں آس پاس جنگلات، پہاڑ، ان میں موجود جانور، پانی اور آبی حیات، حتیٰ کہ آسمان پر اڑتے پرندے بھی نہایت ترتیب اور خوبصورتی سے پیش کیے گئے ہیں۔

    ایک اور خوبصورت فن پارے میں مغل بادشاہ شکار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اسی فن پارے میں آپ کو جدید لاہور کا پورا نقشہ نظر آتا ہے جہاں پر مغل بادشاہ اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر محو سفر ہے۔

    کئی فن پاروں میں بادشاہ مچھلی پر سواری کرتا ہوا، یا اسے پتنگ بنا کر ہوا میں اڑاتا ہوا دکھائی دے گا۔

    جن پینٹنگز میں عاطف خان نے تاریخی عمارتوں کو پیش کیا ہے یا علامتی طور پر مغلوں سے تعلق رکھنے والے باغات اور محل دکھائے ہیں، ان فن پاروں میں انہوں نے مغل دور کے فن تعمیر اور روایتی بصری آرٹ کو یکجا کردیا ہے۔

    ان کے فن پاروں کی یہ خاصیت بھی ہے کہ وہ اپنے اندر بہت وسعت رکھتے ہیں اور ایک فن پارہ ایک خیال کے مختلف مراحل، اور کئی جہتوں کو بیان کرتا ہے۔

    شہر در شہر

    صرف ایک یہ مغل تصویر کشی ہی نہیں، عاطف خان کی انفرادیت کا ایک اور ثبوت ان کا وہ شہر ہے جو لاہور کے بیچوں بیچ کبوتروں کے لیے قائم ہے۔

    لاہور کے استنبول چوک پر نصب یہ چھوٹا سا شہر بلاشبہ کبوتروں کا شہر کہلایا جاسکتا ہے، اگر کبوتر اسے اپنا گھر سمجھ کر قبول کریں۔

    سنہ 2015 میں کمشنر لاہور، لاہور بنالے فاؤنڈیشن، اور پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی لاہور کی جانب سے اس چوک کی آرائش کے لیے تخلیقی آئیڈیاز طلب کیے گئے تھے۔ عاطف خان نے اس میں اپنا آئیڈیا ’شہر کے اندر شہر‘ بھجوایا جسے پسندیدگی کا درجہ دیتے ہوئے قبول کرلیا گیا، اور عاطف خان نے اس پر کام شروع کردیا۔

    لاہور کا یہ استنبول چوک قدیم ثقافت و تاریخ کا مظہر ہے۔ اس چوک کے اطراف میں لاہور میوزیم، نیشنل کالج آف آرٹس، پنجاب یونیورسٹی، ٹولنگٹن مارکیٹ، ٹاؤن ہال، جبکہ پاکستانی فن و ادب پر اہم اثرات مرتب کرنے والے شاعروں، مفکروں اور مصنفوں کی مادر علمی گورنمنٹ کالج واقع ہے۔

    اس چوک پر جنگوں کی 3 یادگاریں بھی نصب ہیں۔

    اس چوک کی ایک اور خاص بات یہاں کبوتروں کے وہ غول ہیں جو روزانہ دانہ پانی چگنے کے لیے یہاں اترتے ہیں۔ بقول عاطف خان، یہ لاہوریوں کا اظہار محبت ہے جو وہ کبوتروں کے لیے دانہ اور پانی رکھ کر کرتے ہیں۔

    عاطف خان کا کہنا ہے کہ جب انہیں اس چوک کی سجاوٹ کے بارے میں علم ہوا تو ان کے ذہن میں سب سے پہلے یہ تضاد آئے، جنگوں کی یادگاریں اور امن کی علامت کبوتر، تاریخی اور جدید عمارتیں۔ گویا یہ چوک حال اور ماضی، اور جنگ اور امن کا دوراہا ہے۔

    چنانچہ ان کبوتروں کے لیے ہی انہوں نے ایک علامتی شہر بنانا شروع کردیا۔

    جب ان سے کمشنر لاہور نے پوچھا، ’کیا آپ کو لگتا ہے کبوتر ان گھروں کو پسند کر کے یہاں رہیں گے؟‘ تو عاطف خان کا جواب تھا، ’ہرگز نہیں! اگر میں ان کبوتروں کی جگہ ہوتا تو شہر سے دور اپنے پرسکون گھونسلوں کو چھوڑ کر کبھی شہر کے بیچوں بیچ، دھویں، آلودگی اور ٹریفک کے شور میں رہنا پسند نہ کرتا‘۔

    نیشنل کالج آف آرٹ میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے عاطف خان کہتے ہیں کہ وہ اپنے طالب علموں سے بھی سیکھتے رہتے ہیں۔ خان فن مصوری میں نئی آنے والی تکنیکوں اور آلات کے استعمال کو برا نہیں سمجھتے۔ بقول ان کے، ان جدید تکنیکوں کے ذریعہ اپنے فن میں نئی جہت پیدا کی جاسکتی ہے۔

    نئے مصوروں کے لیے ان کا پیغام ہے، ’نئے مصوروں کو صبر اور محنت سے کام لینا ہوگا۔ کامیابی کا راستہ کبھی مختصر نہیں ہوتا۔ کامیابی کی منزل پر پہنچنے کے لیے سخت محنت کا طویل راستہ اختیار کرنا ہی پڑتا ہے‘۔