Tag: آرٹیفشل انٹیلیجنس

  • پرائمری سطح سے طلبہ کو ’’آرٹیفشل انٹیلیجنس‘‘ پڑھانے کا فیصلہ

    پرائمری سطح سے طلبہ کو ’’آرٹیفشل انٹیلیجنس‘‘ پڑھانے کا فیصلہ

    ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی سے ہم آہنگ ہونے کے لیے پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے بچوں کو اے آئی پڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    چینی میڈیا کے مطابق چین نے ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی سے اپنے اگلی نسل کو ہم آہنگ کرنے کے لیے پرائمری اور سیکنڈری سطح پر بچوں کو مصنوعی ذہانت (آرٹیفشل انٹیلیجنس) پڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق چینی حکومت کے اس اقدام کا مقصد ملک میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) کے شعبے کو مزید ترقی دینا اور اس کے لیے درکار ماہر افراد کی کھیپ تیار کرنا ہے۔

    چینی حکومت کے اس فیصلے کے بعد رواں سال کے آخر تک آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے اسباق پرائمری اور سکینڈری اسکولوں کے نصاب میں شامل کر دیے جائیں گے۔

    اسکول آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے اسباق کو ایک علیحدہ مضمون یا انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنس جیسے مضامین کے ساتھ ملا کر بھی پڑھاسکیں گے۔

    خیال رہے کہ چین کی آرٹیفیشل انٹیلی جنس انڈسٹری نے رواں سال کے آغاز میں اس وقت عالمی سطح پر توجہ حاصل کی تھی جب ایک چینی کمپنی ڈیپ سیک نے اپنے اے آئی چیٹ بوٹ کا نیا اور جدید ورژن جاری کرکے عالمی مارکیٹوں میں اپنا لوہا منوایا تھا۔

    اس کے بعد چین نے حال ہی میں ایسا اے آئی ماڈل روبوٹ تیار کر لیا ہے جس کو کسی ہدایت کی ضرورت نہیں بلکہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکے گا۔

    https://urdu.arynews.tv/ai-will-now-make-its-own-decisions/

  • آرٹیفشل انٹیلیجنس نے کس طرح لاش کی شناخت اور قاتل کو پکڑنے میں مدد کی؟

    آرٹیفشل انٹیلیجنس نے کس طرح لاش کی شناخت اور قاتل کو پکڑنے میں مدد کی؟

    نئی دہلی: پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے والی جدید ترین ٹیکنالوجی اے آئی (آرٹیفشل انٹیلیجنس) کی مدد سے دہلی پولیس نے نہ صرف لاش کی شناخت کی بلکہ قاتل کو بھی پکڑ لیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق شمالی دہلی پولیس نے بدھ کے روز ایک قتل کا معمہ حل کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت (AI) کا استعمال کیا، اے آئی نے نہ صرف متاثرہ کی شناخت میں بلکہ قتل کے ملزم کو گرفتار کرنے میں پولیس کی مدد بھی کی۔

    اس قتل کا معمہ 10 جنوری کو اس وقت شروع ہوا جب مشرقی دہلی کی گیتا کالونی میں ایک فلائی اوور کے نیچے سے ایک نوجوان کی لاش ملی، پوسٹ مارٹم سے معلوم ہوا کہ نوجوان کو گلا دبا کر مارا گیا ہے، تاہم پولیس مقتول کی لاش کی شناخت کرنے میں ناکام رہی کیوں کہ لاش کے پاس کوئی ثبوت یا شناختی دستاویز نہیں ملی، اور چہرہ بھی اس حالت میں نہیں تھا کہ تصویر سے آسانی سے پہچانا جا سکے۔

    آخر کار دہلی پولیس نے قتل کا معمہ حل کرنے کے لیے نئی جدید ٹیکنالوجی یعنی مصنوعی ذہانت سے مدد لینے کا فیصلہ کر لیا۔ دراصل اخبارات میں جب شناخت کے لیے لاش کی تصاویر شائع کی جاتی ہیں، تو عام طور سے وہ واضح نہیں ہوتیں اور اس لیے اس کی پہچان بھی مشکل ہوتی ہے۔ تاہم اس کیس میں پولیس نے اے آئی کی مدد سے متوفی کا چہرہ اس حد تک واضح کیا کہ اسے بہ آسانی پہچانا جا سکے، آرٹیفشل انٹیلیجنس کی مدد سے چہرہ حتی الامکان اس طرح واضح کیا گیا، جس سے یہ اندازہ ہو سکتا تھا کہ وہ کھلی آنکھوں کے ساتھ اور نارمل حالت میں کیسے نظر آتا ہوگا۔

    یوں پولیس نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے متوفی کے پوسٹر بنائے اور انھیں دہلی کے مختلف علاقوں میں دیواروں پر چسپاں کر دیا، اور انھیں تھانوں میں اور واٹس ایپ گروپس پر بھی شیئر کیا گیا، پولیس والوں نے کُل پانچ سو پوسٹر چھاپے، دہلی پولیس نے کوتوالی پولیس اسٹیشن میں قتل کا مقدمہ بھی درج کر لیا تھا۔

    پولیس کی یہ کوشش اس وقت رنگ لائی جب چاؤلہ تھانے کے باہر پوسٹرز چسپاں ہونے کے بعد ایک کال آئی، کال کرنے والے نے دہلی پولیس کو اطلاع دی کہ تصویر اس کے بڑے بھائی ہتیش سے ملتی ہے، اس طرح مرنے والی کی شناخت ہو گئی، جب پولیس نے مزید تفتیش کی تو پتا چلا کہ ہتیش کا 3 نوجوانوں سے جھگڑا ہوا تھا، جنھوں نے بعد میں اسے گلا دبا کر قتل کر دیا۔

    پولیس نے جائے وقوعہ کا جائزہ لینے اور اضافی شواہد اکٹھے کرنے کے بعد تینوں ملزمان کو گرفتار کر لیا، یہ بھی انکشاف ہوا کہ شواہد چھپانے میں ایک خاتون نے ملزمان کی مدد کی تھی، اس اطلاع کے بعد پولیس نے فوری طور پر خاتون کو بھی گرفتار کر لیا۔

  • کیا آرٹیفشل انٹیلیجنس کو کام غلط کرنے کی تربیت دی جا سکتی ہے؟

    کیا آرٹیفشل انٹیلیجنس کو کام غلط کرنے کی تربیت دی جا سکتی ہے؟

    کیا آرٹیفشل انٹیلیجنس کو کام غلط کرنے کی تربیت دی جا سکتی ہے؟ یہ حیرت انگیز سوال اس وقت اٹھا جب ایک خاتون نے اپنی AI کی نوکری سے ہاتھ دھوئے، اور سوشل میڈیا پر صارفین نے انھیں عجیب و غریب مشورے دیے، جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ’’آپ اے آئی کو کام غلط کرنے کی تربیت دینا شروع کریں۔‘‘

    دراصل ایملی نامی ایک ٹک ٹاکر نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں بتایا کہ وہ اے آئی کی نوکری کر رہی تھیں لیکن باس نے انھیں ملازمت سے برخاست کر دیا، ایملی کا کہنا تھا کہ انھیں اس لیے نوکری سے نکالا گیا کیوں کہ اب ان کا کام خود اے آئی سے سستے میں لیا جانے لگا ہے۔

    ایملی ایک کاپی رائٹر ہیں، وہ اے آئی پر تحریریں لکھا کرتی تھیں، لیکن ٹیکنالوجی کے ماہرین نے آرٹیفشل انٹیلی جنس کو اس حد تک جدید کر دیا ہے کہ اب ایسی تحریریں اے آئی سافٹ ویئر خود تیار کرنے کے قابل ہو گیا ہے۔

    ایملی نے سوشل میڈیا پر اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر یہ حال رہا تو مستقبل میں نوکری تلاش کرنے کے امکانات ہی ختم ہو جائیں گے، انھوں نے بتایا کہ نوکری چلی جانے کے بعد انھوں نے ایک نئی جاب کے لیے درخواست دی، یعنی وہ اب AI کو تربیت دینے کی نوکری حاصل کرنا چاہتی تھیں، ان کے باس کو اے آئی سافٹ ویئر کو کاپی رائٹنگ کرنے کی تربیت دینے والے کی ضرورت تھی، تاہم انھیں اس کی نوکری بھی نہ مل سکی۔

    سوشل میڈیا پر ان کی کہانی جان کر ایک صارف نے مشورہ دیا کہ خود کو ایک اے آئی کنسلٹنٹ کے طور پر مارکیٹ کریں، جو اے آئی کو لکھنے کی تربیت دیتا ہے۔ تاہم ایک صارف نے عجیب و غریب مشورہ دیا کہ ’’انتقامی طور پر آپ اے آئی کو کام غلط کرنے کی تربیت دینا شروع کر دیں۔‘‘