Tag: آرٹ بکوالڈ

  • آرٹ بکوالڈ: عالمی شہرت یافتہ طنز نگار

    آرٹ بکوالڈ: عالمی شہرت یافتہ طنز نگار

    آرٹ بکوالڈ (Art Buchwald) اُن چند عالمی شہرت یافتہ اور مقبول طنز نگاروں میں شامل ہیں جو بامقصد اور تعمیری فکر کو پروان چڑھانے کے لیے قلم سے کام لیتے تھے وہ ایک مؤقر اور کثیرالاشاعت امریکی اخبار سے 40 سال بطور کالم نویس منسلک رہے۔ بکوالڈ کو امریکی سماج اور سیاست کا ایک ایسا نکتہ چیں کہا جاسکتا ہے جسے عوام اور خواص میں‌ یکساں احترام اور مقبولیت حاصل رہی۔

    طنز نگار آرٹ بکوالڈ زندہ دل بھی تھے اور نکتہ بیں بھی۔ انھیں زندگی کا خوب ادراک تھا اور اپنے گہرے مشاہدے اور وسیع تجربے سے آرٹ بکوالڈ نے جو کچھ سمجھا اور سیکھا، وہ اپنے کالموں کی شکل میں‌ قارئین تک پہنچایا۔ آرٹ بکوالڈ کی قوّتِ مشاہدہ اور حسِّ ظرافت نے امریکا، بالخصوص واشگٹن کی زندگی اور وہاں کے حالات کو جس خوب صورتی سے اپنی عام تحریروں اور کالموں میں سمویا ہے، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ انھیں بہترین طنز نگار مانا جاتا ہے۔

    بکوالڈ کا سنہ پیدائش 1925ء ہے۔ ان کا تعلق نیویارک کے ایک یہودی گھرانے سے تھا۔ آرٹ بکوالڈ کے والد کو کاروبار میں گھاٹا ہوتا رہا جس کے نتیجے میں یہ کنبہ مشکلات میں گھر گیا۔ آرٹ بکوالڈ کو کئی برس یتیم خانے میں گزارنا پڑے تھے۔

    بکوالڈ 2007ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ ان کی عمر 82 سال تھی۔ ’ٹو سون ٹو سے گڈ بائے‘ وہ کتاب تھی جسے آرٹ بکوالڈ نے اپنی وفات سے تقریباً ایک سال پہلے ہی اشاعت کے لیے ناشر کے سپرد کیا تھا۔

    آرٹ بکوالڈ کا پہلا کالم 1949ء میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت وہ پیرس میں مقیم تھے۔ انھوں نے اپنا عروج 1970ء کی دہائی کے آغاز میں دیکھا جب انھوں نے اپنے کالموں میں امریکا کے اعلیٰ طبقات اور اشرافیہ پر طنز کرنا شروع کیا۔

    1982ء میں بکوالڈ کو ان کے طنز و مزاح پر مبنی اخباری تبصروں پر پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔ 1990ء کے آغاز پر انھوں نے مشہورِ زمانہ پیراماؤنٹ پکچرز پر مقدمہ کردیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایڈی مرفی کی فلم ’کمنگ ٹو امریکا‘ کا مرکزی خیال ان کی تحریروں سے ماخوذ ہے۔ اس مقدمے کا امریکا میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بکوالڈ کو عدالتی فیصلے کے بعد نو لاکھ ڈالر ملے۔ اسی مقدمہ بازی کے بعد فلم ساز اداروں نے امریکی قوانین میں یہ تبدیلی کروائی کہ کسی کہانی کے بنیادی خیال پر فلم بندی کے لیے مصنّف کو معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔

    چار دہائیوں کے دوران جہاں آرٹ بکوالڈ نے کالم نگاری کی وہیں ان کی 33 کتابیں بھی شایع ہوئیں اور قارئین نے انھیں پسند کیا۔ آرٹ بکوالڈ کے سماجی اور سیاسی نوعیت کے موضوعات اور ان کے تیکھے جملوں نے سنجیدہ و باشعور امریکی عوام اور دنیا بھر میں اہلِ علم و ادب کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا۔ آرٹ بکوالڈ کا ایک مشہور طنزیہ جملہ ہے، ’اگر آپ کسی انتظامیہ کو طویل عرصے تک نشانہ بنائے رکھیں تو وہ آپ کو اپنا رکن منتخب کر لے گی۔‘ ایک سروے کے مطابق صرف امریکا میں آرٹ بکوالڈ کے مداحوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ ایک عالی دماغ انسان اور طنز نگار کی حیثیت سے ان کی شہرت امریکا تک محدود نہیں رہی بلکہ جلد وہ دنیا بھر میں پہچانے گئے۔ ان کا طرزِ بیاں دل پذیر اور شگفتہ ہوتا تھا اور ان کی تحریریں‌ بامقصد اور تعمیری سوچ کو پروان چڑھاتی تھیں۔

    اس امریکی طنز نگار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ 5 سو سے زائد امریکی اور غیر ملکی جرائد کے لیے کالم اور مضامین لکھتے رہے۔ آرٹ بکوالڈ کی جو تحریریں‌ واشنگٹن پوسٹ کی زینت بنیں، ان میں زیادہ تر سیاسی پارٹیوں، سیاست دانوں، حکومت اور اپنے معاشرے پر گہرا طنز کیا ہے۔ ان کی یہ تحریریں ثابت کرتی ہیں‌ کہ وہ ایک بیدار مغز انسان تھے اور یہی وصف آرٹ بکوالڈ کو ان کے ہم عصروں میں بھی ممتاز کرتا ہے۔

  • آرٹ بکوالڈ: عالمی شہرت یافتہ طنز نگار، مقبول کالم نویس

    آرٹ بکوالڈ: عالمی شہرت یافتہ طنز نگار، مقبول کالم نویس

    آرٹ بکوالڈ (Art Buchwald) دنیا کے اُن چند عالمی شہرت یافتہ اور مقبول طنز نگاروں میں شامل ہیں جو امریکا کے ایک مؤقر اور کثیرالاشاعت اخبار سے 40 سال تک بطور کالم نویس منسلک رہے۔ انھیں امریکی سماج اور سیاست کا ایک ایسا نکتہ چیں کہا جاسکتا ہے جسے عوام اور خواص میں‌ یکساں احترام اور مقبولیت حاصل رہی۔

    طنز نگار آرٹ بکوالڈ زندہ دل بھی تھے اور باریک بیں بھی۔ انھیں زندگی کا خوب ادراک تھا اور اپنے گہرے مشاہدے اور وسیع تجربے سے آرٹ بکوالڈ نے جو کچھ سیکھا، وہ اپنے کالموں کی شکل میں‌ اپنے قارئین تک پہنچایا۔

    کالم نویس آرٹ بکوالڈ کی قوّتِ مشاہدہ اور حسِّ ظرافت نے امریکا، بالخصوص واشگٹن کی زندگی اور وہاں کے حالات کو جس خوب صورتی سے اپنی عام تحریروں اور کالموں میں سمویا ہے، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ دنیا میں لاکھوں لوگ آرٹ بکوالڈ کے مداح ہیں اور انھیں بہترین طنز نگار مانا جاتا ہے۔

    آرٹ بکوالڈ کا قلم 40 سال تک کالم نگاری میں مصروف رہا اور ان کی 33 کتابیں بھی شایع ہوئیں جنھیں قارئین نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ کالم نگار کی حیثیت سے آرٹ بکوالڈ نے سماجی اور سیاسی نوعیت کے موضوعات پر گہرا طنز کرتے ہوئے ایسے تیکھے جملے تحریر کیے جس نے سنجیدہ، باشعور امریکی عوام اور اہلِ علم و ادب کو بھی اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ آرٹ بکوالڈ کا ایک مشہور طنزیہ جملہ ہے، ’اگر آپ کسی انتظامیہ کو طویل عرصے تک نشانہ بنائے رکھیں تو وہ آپ کو اپنا رکن منتخب کر لے گی۔‘

    ایک سروے کے مطابق صرف امریکا میں آرٹ بکوالڈ کے مداحوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ ایک عالی دماغ انسان اور طنز نگار کی حیثیت سے ان کی شہرت امریکا تک محدود نہیں رہی بلکہ عالمی حالات و واقعات میں دل چسپی لینے والے اور باقاعدگی سے انگریزی روزنامے اور مختلف جرائد پڑھنے کے عادی بیرونِ ملک موجود قارئین میں وہ بہت جلد مقبول ہوگئے۔

    اس امریکی طنز نگار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ 5 سو سے زائد امریکی اور غیر ملکی جرائد کے لیے کالم اور مضامین لکھتے رہے۔ آرٹ بکوالڈ کی جو تحریریں‌ واشنگٹن پوسٹ کی زینت بنیں، ان میں زیادہ تر سیاسی پارٹیوں، سیاست دانوں، حکومت اور اپنے معاشرے پر گہرا طنز کیا ہے۔ ان کی یہ تحریریں ثابت کرتی ہیں‌ کہ وہ ایک بیدار مغز انسان تھے اور یہی وصف آرٹ بکوالڈ کو ان کے ہم عصروں میں بھی ممتاز کرتا ہے۔

    امریکا اور دنیا بھر میں اپنے زورِ‌ قلم کو منوانے والے بکوالڈ 2007ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ ان کی عمر 82 سال تھی۔ ’ٹو سون ٹو سے گڈ بائے‘ وہ کتاب تھی جسے آرٹ بکوالڈ نے اپنی وفات سے تقریباً ایک سال پہلے ہی اشاعت کے لیے ناشر کے سپرد کیا تھا۔

    آرٹ بکوالڈ کا پہلا کالم 1949ء میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت وہ پیرس میں مقیم تھے۔ انھوں نے اپنا عروج 1970ء کی دہائی کے آغاز میں دیکھا جب انھوں نے اپنے کالموں میں امریکا کے اعلیٰ طبقات اور اشرافیہ پر طنز کرنا شروع کیا۔

    بکوالڈ کا سنہ پیدائش 1925ء ہے۔ ان کا تعلق نیویارک کے ایک یہودی گھرانے سے تھا۔ آرٹ بکوالڈ کے والد کو کاروبار میں گھاٹا ہوتا رہا جس کے نتیجے میں یہ کنبہ مشکلات میں گھر گیا۔ آرٹ بکوالڈ کو کئی برس یتیم خانے میں گزارنا پڑے تھے۔

    1982ء میں بکوالڈ کو ان کے طنز و مزاح پر مبنی اخباری تبصروں پر پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔ 1990ء کے آغاز پر انھوں نے مشہورِ زمانہ پیراماؤنٹ پکچرز پر مقدمہ کردیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایڈی مرفی کی فلم ’کمنگ ٹو امریکا‘ کا مرکزی خیال ان کی تحریروں سے ماخوذ ہے۔ اس مقدمے کا امریکا میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بکوالڈ کو عدالتی فیصلے کے بعد نو لاکھ ڈالر ملے۔ اسی مقدمہ بازی کے بعد فلم ساز اداروں نے امریکی قوانین میں یہ تبدیلی کروائی کہ کسی کہانی کے بنیادی خیال پر فلم بندی کے لیے مصنّف کو معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔

    آرٹ بکوالڈ کی تحریروں کا ایک خاص وصف ارد گرد پھیلے ہوئے عام موضوعات کا انتخاب کرکے اس پر کالم لکھنا تھا۔ ان کا طرزِ بیاں دل پذیر اور شگفتہ ہوتا تھا اور ان کی تحریریں‌ بامقصد اور تعمیری سوچ کو پروان چڑھاتی تھیں۔ آج دنیا بھر میں اہلِ قلم آرٹ بکوالڈ کی پیروی کرنے کی کوشش اور ان کے انداز کو اپنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔

  • آرٹ بکوالڈ کا تذکرہ جنھوں نے امریکا کے اعلیٰ طبقات کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا

    نکتہ رس اور تیز فہم آرٹ بکوالڈ نے زندگی کا خوب مطالعہ کیا اور اپنے گہرے مشاہدے اور وسیع تجربے سے جو کچھ حاصل کیا، اسے اپنے کالموں کے ذریعے قارئین تک پہنچا دیا۔ انھیں امریکی سماج اور سیاست کا نکتہ چیں کہہ سکتے ہیں۔

    آرٹ بکوالڈ (art buchwald) مشہور کالم نویس تھے۔ وہ اپنی قوّتِ مشاہدہ اور حسِّ ظرافت کے زیرِ اثر واشگٹن کی زندگی اور وہاں کے حالات کو اس خوب صورتی سے اپنی تحریر میں سموتے تھے کہ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ لاکھوں لوگ آرٹ بکوالڈ کے مداح تھے۔ دنیا بھر میں انھیں بہترین طنز نگار مانا گیا۔

    بکوالڈ نے امریکا کے ایک مؤقر اور کثیرالاشاعت اخبار کے لیے 40 سال تک کالم لکھے جو ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوئے۔ آرٹ بکوالڈ کی کتابوں کی تعداد 33 تھی۔

    کالم نگار کی حیثیت سے سماجی اور سیاسی نوعیت کے موضوعات کے ساتھ آرٹ بکوالڈ کو ان کے گہرے طنزیہ اور تیکھے جملوں نے امریکیوں میں مقبول بنایا۔ ان کا ایک مشہور جملہ ہے، ’اگر آپ کسی انتظامیہ کو طویل عرصے تک نشانہ بنائے رکھیں تو وہ آپ کو اپنا رکن منتخب کر لے گی۔‘

    صرف امریکا میں ان کے مداح لاکھوں میں تھے۔ بعد میں انھیں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایک طنز نگار کے طور پر شہرت حاصل ہوئی۔ بکوالڈ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پانچ سو سے زائد امریکی اور غیر ملکی اخبارات میں لکھتے رہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں بکوالڈ کی شایع شدہ تحریروں پر نظر ڈالیں تو وہ سیاست اور سماج پر گہری چوٹ کرتے ہیں جس نے انھیں ایک بیدار مغز قلم کار کی حیثیت سے ہم عصروں میں بھی ممتاز کیا۔

    امریکا اور دنیا بھر میں اپنا زورِ‌ قلم اور طنز و مزاح کو منوانے والے بکوالڈ 2007ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ ان کی عمر 82 سال تھی۔ ’ٹو سون ٹو سے گڈ بائے‘ وہ کتاب تھی جسے بکوالڈ نے اپنی وفات سے ایک برس قبل اشاعت کے لیے ناشر کے سپرد کیا تھا۔

    آرٹ بکوالڈ کا پہلا کالم 1949ء میں اس وقت شائع ہوا جب وہ پیرس میں رہائش پذیر تھے۔ انھوں نے بعد میں وطن واپس آکر اخبارات کے لیے ہزاروں کالم لکھے جس میں خاص طور امریکا میں اعلیٰ طبقے اور اشرافیہ پر گہرا طنز ملتا ہے۔ انھوں نے اپنا عروج 1970ء کی دہائی کے آغاز میں دیکھا۔

    بکوالڈ کا سنہ پیدائش 1925ء ہے۔ وہ نیویارک کے ایک یہودی گھرانے کے فرد تھے۔ اپنے والد کے کاروبار میں ناکامی کے بعد انھیں کئی برس یتیم خانے میں گزارنا پڑے۔

    1982ء میں بکوالڈ کو ان کے طنز و مزاح پر مبنی اخباری تبصروں پر پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔ 1990ء کے آغاز پر انھوں نے مشہورِ زمانہ پیراماؤنٹ پکچرز پر مقدمہ کردیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایڈی مرفی کی فلم ’کمنگ ٹو امریکا‘ کا مرکزی خیال ان کی تحریروں سے ماخوذ ہے۔ اس مقدمے کا امریکا میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بکوالڈ کو عدالتی فیصلے کے بعد نو لاکھ ڈالر ملے۔ اسی مقدمہ بازی کے بعد فلم ساز اداروں نے امریکی قوانین میں یہ تبدیلی کروائی کہ کسی کہانی کے بنیادی خیال پر فلم بندی کے لیے مصنّف کو معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔

    آرٹ بکوالڈ کی تحریروں کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ارد گرد بکھرے ہوئے موضوعات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے اور اپنے مختصر جملوں میں چونکا دینے والی باتیں کر جاتے۔ ان کا طرزِ بیاں دل پذیر اور شگفتہ ہوتا تھا جو طنز مزاح کی چاشنی میں‌ ڈھل کر بلیغ و بامقصد ہوجاتا۔ آرٹ بکوالڈ کی شہرت اور مقبولیت آج بھی برقرار ہے اور اہلِ قلم اور کالم نگار ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

  • آرٹ بکوالڈ کا تذکرہ جو اپنے فکاہیہ کالموں کی بدولت دنیا بھر میں پہچانے گئے

    آرٹ بکوالڈ کا تذکرہ جو اپنے فکاہیہ کالموں کی بدولت دنیا بھر میں پہچانے گئے

    آرٹ بکوالڈ کو کالم نگار کے طور پر ان کے موضوعات اور اسلوب نے دنیا بھر میں‌ شہرت دی۔ 1970ء کی دہائی میں امریکا میں‌ ان کے لاکھوں مداح تھے۔ ان کے کالم پانچ سو سے زائد امریکی اور غیر ملکی اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہونے والی ان کی تحریروں میں سیاست اور سماج پر گہرا طنز ملتا ہے جس نے انھیں ہم عصروں سے جداگانہ شناخت دی۔

    اس امریکی فکاہیہ نگار کا سنِ پیدائش 1925ء ہے۔ انھوں نے نیویارک کے ایک یہودی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ آرٹ بکوالڈ نے لگ بھگ 40 برس تک کالم نگاری کی اور تیس سے زائد کتابوں کے مصنّف بنے۔ ان کی تحریروں میں سیاسی طنز کے ساتھ مختلف موضوعات پر ان کی رائے اور منفرد تبصرے ملکی اور غیر ملکی اخبارات اور جرائد کی زینت بنتے تھے۔ اپنے زمانے میں امریکی صحافت میں نصف صدی تک آرٹ بکوالڈ کا نام سیاسی طنز نگار کے طور پر گونجتا رہا۔

    بکوالڈ کا پہلا کالم 1949ء میں اس وقت شائع ہوا جب وہ پیرس میں رہائش پزیر تھے۔ امریکا لوٹنے پر انھوں نے اپنے کالموں میں طنز و مزاح کا وہ انداز اپنایا جس نے عام لوگوں کو بہت متاثر کیا۔ وہ خاص طور امریکا کے اعلیٰ طبقے کو اپنے طنز کا نشانہ بناتے تھے۔ بکوالڈ نے واشنگٹن کی زندگی اور وہاں کے حالات کو اپنی تحریر کا اس خوب صورتی سے موضوع بنایا کہ سیاست اور سماج کے مختلف طبقات میں مقبول ہوگئے۔

    1982ء میں بکوالڈ کو ان کے نمایاں تبصرے پر پلٹزر انعام بھی دیا گیا۔ 1990ء کے آغاز پر انھوں نے مشہورِ زمانہ پیراماؤنٹ پکچرز پر اپنے مقدمے میں دعویٰ کیا تھا کہ ایڈی مرفی کی فلم ’کمنگ ٹو امریکا‘ کا مرکزی خیال ان کی تحریروں سے ماخوذ ہے۔ اس مقدمے کا امریکا میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بکوالڈ نے نو لاکھ ڈالر جیتے۔ اس مقدمہ بازی کے بعد فلم ساز اداروں نے قانون میں تبدیلی کروائی کہ کسی کہانی کا بنیادی خیال پیش کرنے والے مصنّف کو معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔

    آرٹ بکوالڈ کی تحریروں کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ارد گرد بکھرے ہوئے موضوعات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے اور اپنے مختصر جملوں میں چونکا دینے والی باتیں کر جاتے تھے ان کا طرزِ بیان سیدھا دل میں اتر جاتا اور ان کا طنز مزاح کی چاشنی میں‌ ڈھل کر نہایت بلیغ اور وسیع شکل اختیار کرجاتا۔ بکوالڈ کی یہ شہرت اور شناخت آج بھی قائم ہے۔

    امریکا اور دنیا بھر میں اپنے تخلیقی صلاحیت اور قلم کی انفرادیت کو منوانے والے بکوالڈ 2007ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ ان کی عمر 82 سال تھی۔