Tag: آرٹ گیلری

  • آرٹ گیلری میں کروڑوں مالیت کا فن پارہ خاتون کے ہاتھ سے گر کر تباہ

    آرٹ گیلری میں کروڑوں مالیت کا فن پارہ خاتون کے ہاتھ سے گر کر تباہ

    امریکا میں ایک خاتون نے آرٹ کی نمائش کے دوران غلطی سے ایک مہنگا اور قیمتی فن پارہ گرا کر توڑ دیا، خوش قسمتی سے مجسمہ انشورڈ تھا اور انشورنس کی رقم سے نقصان کی تلافی ہو جائے گی۔

    امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر میامی میں سجے آرٹ میلے میں اس وقت افراتفری پیدا ہوگئی جب ایک خاتون نے غلطی سے ایک ایسے نایاب فن پارے کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جس کی قیمت 42 ہزار ڈالر (1 کروڑ 99 لاکھ پاکستانی روپے) تھی۔

    جو فن پارہ گرا وہ نیلے شیشے سے بنا ہوا ایک چھوٹے کتے کا مجسمہ تھا جو معروف آرٹسٹ جیف کونز کے ہاتھ کا بنا ہوا تھا، مجسمہ ایک ریک کے اوپر رکھا ہوا تھا جس پر آرٹسٹ کا سر نیم کونز بھی نمایاں بھی طور پر نظر آ رہا تھا۔

    واقعے کے بعد مصور سٹیفن گیمسن نے فاکس نیوز کو بتایا کہ میں نے ایک خاتون کو وہاں دیکھا جو فن پارے کو تھپتھپا کر دیکھ رہی تھیں اس کے بعد وہ ان کے ہاتھ سے گر کر ٹکڑوں میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔

    گیمسن کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں خاتون اس لیے تھپتھپا کر دیکھ رہی تھیں کہ کیا یہ اصل غبارہ ہے۔

    واقعے کے وقت وہاں موجود ایک شخص نے ویڈیو بھی بنائی جس میں آرٹ گیلری کے ملازمین کو شیشے کے ٹکڑے اکٹھے کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

    آرٹسٹ بینی ڈکٹ کلاؤچ جنہوں نے کونز کے آرٹ ورک کو اسپانسر کیا تھا، نے میامی ہیرالڈ کو بتایا کہ وہ خاتون اس فن پارے کو توڑنا نہیں چاہتی تھیں جبکہ انشورنس کی رقم سے نقصان کی بھی تلافی ہو جائے گی۔

    مجسمہ بنانے والے آرٹسٹ جیف کونز امریکی مصور اور مجسمہ ساز ہیں جو عام زندگی کی اشیا سے متاثر ہو کر فن پارے بناتے ہیں جن میں جانوروں کے غبارہ نما مجسمے بھی شامل ہیں۔

    ان کا کام فنون لطیفہ کے حوالے سے نئے تصورات بھی سامنے لاتا ہے اور ان کا کچھ کام 91 ملین ڈالر میں نیلام ہوا تھا۔

  • فن پارے کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار، نقاد نے فن پارہ ہی توڑ ڈالا

    فن پارے کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار، نقاد نے فن پارہ ہی توڑ ڈالا

    میکسیکو میں ایک آرٹ فیئر کے دوران ایک نقاد نے 20 ہزار ڈالرز مالیت کا قیمتی فن پارہ توڑ ڈالا، گیلری انتظامیہ نے اس عمل پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

    یہ واقعہ میکسیکو میں پیش آیا جہاں ایک آرٹ کی نمائش جاری تھی، اویولینا لسپر نامی اس نقاد نے اس فن پارے کے لیے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔

    اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک سوڈا کین اس کے اوپر رکھا اور اس کی تصویر لینے کی کوشش کرنے لگیں، لیکن اسی دوران وہ ٹوٹ کر گر گیا۔

    مذکورہ فن پارہ گبریئل ریکو نامی ایک فنکار کا تھا جس میں ایک شیشے کی شیٹ پر پتھر، فٹبال اور دیگر اشیا لگائی گئی تھیں۔

    گیلری کی انتظامیہ نے نقاد کے اس عمل پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے غیر پیشہ وارانہ قرار دیا ہے۔

    نقاد کا کہنا ہے کہ گو کہ انہیں یہ فن پارہ سخت ناپسند تھا اس کے باجود وہ اس نقصان کا ازالہ کرنے کو تیار ہیں، تاہم گیلری انتظامیہ اور فنکار نے ان کی پیشکش مسترد کردی۔

  • گُل جی، سیماب صفت آرٹسٹ، جسے دستِ قاتل نے ہم سے چھین لیا!

    گُل جی، سیماب صفت آرٹسٹ، جسے دستِ قاتل نے ہم سے چھین لیا!

    رنگ اداس، مُو قلم نڈھال اور کینوس افسردہ ہے۔ آج گُل جی کی برسی ہے۔

    چاہنے والوں نے خانۂ دل میں اس باکمال مصور کی بہت سی تصویریں سجالی ہیں جو اپنی پینٹگز سے آرٹ گیلریاں سجایا کرتا تھا اور آرٹ کے قدر دانوں، مصوری کے شائقین سے اپنے فن کی داد پاتا تھا۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور اسماعیل گل جی 16 دسمبر 2017 کو ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے تھے۔

    پشاور کے امین اسماعیل کا سنِ پیدائش 1926 ہے، جسے دنیا بھر میں گُل جی کے نام سے شہرت ملی۔ لارنس کالج، مری کے بعد سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے علی گڑھ یونیورسٹی بھیجے گئے اور بعد میں اسی شعبے میں اعلیٰ تعلیم امریکا سے مکمل کی۔ وہ کولمبیا یونیورسٹی اور ہارورڈ میں زیرِ تعلیم رہے۔

    گل جی نے پیشہ ورانہ سفر میں تجریدی آرٹ اور اسلامی خطاطی کے حوالے سے دنیا بھر میں شناخت بنائی اور شہرت حاصل کی۔ امریکا میں حصولِ تعلیم کے دوران مصوری کا آغاز کیا۔ گل جی کی تصاویر کی نمائش پہلی بار 1950 میں ہوئی۔ اگلے دس برسوں میں انھوں نے تجریدی مصور کی حیثیت سے پہچان بنانا شروع کی اور خاص طور پر اسلامی خطاطی کے میدان میں تخلیقات سامنے لائے۔

    اسلامی خطاطی کے نمونوں نے انھیں اپنے ہم عصر آرٹسٹوں میں ممتاز کیا۔ تاہم تجریدی اور تصویری فن پاروں کے ساتھ ان کا کام مختلف رجحانات کے زیرِ اثر رہا اور یہی وجہ ہے کہ آئل پینٹ کے ساتھ انھوں نے اپنے فن پاروں میں غیر روایتی اشیا سے بھی مدد لی ہے۔ گل جی کے فن پاروں میں شیشہ، سونے اور چاندی کے ورق بھی استعمال ہوئے ہیں جو ان کے کمال اور اسلوب کا نمونہ ہیں۔

    گل جی نے پورٹریٹ بھی بنائے جن میں کئی اہم اور نام ور شخصیات کے پورٹریٹ شامل ہیں۔ تجریدی مصورری اور امپریشن کے ساتھ انھوں نے مجسمہ سازی میں بھی منفرد کام کیا۔ فائن آرٹ کی دنیا میں انھیں ہمہ جہت آرٹسٹ کہا جاتا ہے جس نے اپنے فن کو روایت اور ندرت کے امتزاج سے آراستہ کیا۔

    گل جی جیسے سیماب صفت آرٹسٹ کو طبعی موت نصیب نہ ہوئی۔ انھیں کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر قتل کردیا گیا تھا۔

  • سنہری سائیکل اور ہوا میں اڑنے کی خواہش

    سنہری سائیکل اور ہوا میں اڑنے کی خواہش

    دنیا میں موجود ہر شخص اپنی زندگی میں مختلف حالات سے گزرتا ہے۔ ان حالات میں مماثلت تو ضرور ہوسکتی ہے مگر ان حالات کا سہنے والے پر کیا اثر پڑتا ہے یہ یقیناً ایک مختلف امر ہے۔

    لیکن ایک فنکار اپنے اوپر گزرنے والے حالات کو مختلف انداز سے محسوس کرتا ہے۔ اگر وہ ان حالات کو تصویر کرنے بیٹھے تو ان کا انداز بیاں عام افراد سے بالکل مختلف ہوگا۔

    ایسی ہی کچھ تصویر ہمیں کراچی میں 7 فنکاروں کی نمائش میں ملتی ہے جو زندگی کے مختلف حالات کو مختلف انداز سے پیش کر رہے ہیں۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں جاری یہ نمائش جس کا عنوان ’دل تو پاگل ہے‘ زندگی کے مختلف رنگوں اور ایک فنکار کے انہیں محسوس کرنے کے انداز کو پیش کر رہی ہے۔

    6

    5

    یہ نمائش 7 فنکاروں احمد جاوید، ارسلان فاروقی، حیدر علی نقوی، جوویتا الواریز، نعمان صدیقی، قادر جتھیال، اور رزن روبن کے فن پاروں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے کچھ نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل ہیں۔

    ان فنکاروں نے اپنے فن کو منی ایچر کی شکل میں پیش کیا ہے۔ اپنے خیالات کو متاثر کن انداز میں پیش کرنا اور وہ بھی آرٹ کی ایک منفرد شکل میں پیش کرنا نہایت مشکل کام ہے۔

    یہ نمائش اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس کے فنکار 6 ہفتوں تک دنیا سے کٹ کر ایک جگہ پر رہے اور اس دوران انہوں نے اپنے فن پارے تخلیق کیے۔ نمائش کا انعقاد محمد ذیشان نامی فنکار نے کیا جو دن رات فنکاروں کے ساتھ ان کے فن کی تخلیق کے دوران موجود رہے۔

    نمائش میں پیش کیے گئے فن پاروں میں روایتی آرٹ اور گہرے رنگوں کی مدد سے ناسٹلجیا (یاد ماضی)، امن، موت اور شناخت کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔

    فنکار قادر جھتیال نے 99 ہاؤس ہولڈ آبجیکٹس نامی فن پارے میں عام زندگی میں استعمال ہونے والی مختلف اشیا کی اہمیت بتانے کی کوشش کی ہے۔

    99-house-hold-objects

    4

    کراچی کے فنکار نعمان صدیقی نے اپنا فن پارہ نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا جس میں سنہری سائیکل پر رنگے برنگے غباروں کو باندھا گیا ہے۔ اس فن پارے کا نام خواہش ہے۔

    3

    2

    یہ خواہش غباروں کی طرح ہوا میں اڑنے اور آزاد ہونے کی بھی ہوسکتی ہے۔

    نمائش میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور فنکاروں کے خیالات اور منفرد فن کو سراہا۔

  • نیلگوں رنگ میں یونانی ثقافت اور بانی پاکستان قائد اعظم

    نیلگوں رنگ میں یونانی ثقافت اور بانی پاکستان قائد اعظم

    پانی زندگی کی علامت ہے۔ اس کا نیلا رنگ بھی نہ صرف زندگی کی طرف اشارہ کرتا ہے بلکہ ماہرین نفسیات اس رنگ کو بے چین اور انتشار کا شکار انسانی دماغ کو سکون اور آرام پہنچانے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

    اسی گہرے رنگ کو استعمال کرتے ہوئے فنکار کمیل اعجاز الدین زندگی کے مختلف رنگوں کو پیش کر رہے ہیں۔

    کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں ان کے فن پاروں کی نمائش ’آوٹ آف دا بلو‘ کے نام سے جاری ہے۔

    12

    لاہور کے رہنے والے کمیل نے نیویارک یونیورسٹی سے آرٹ اور اس کی تاریخ کی تعلیم حاصل کی ہے۔ دو الگ ثقافتوں کے حامل شہروں میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد کمیل اب ذہنی و روحانی طور پر نیویارک اور لاہور دونوں میں رہائش پذیر ہیں۔

    اپنی تصاویر میں انہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی اسی رنگ میں رنگ کر پیش کیا ہے۔

    2

    6

    یونان اور روم کی فن و ثقافت پڑھنے والے کمیل کے فن پاروں میں یونانی اور رومی رنگ نظر آتا ہے۔ ان کی مذکورہ نمائش میں رکھے گئے فن پارے قدیم یونان کے فن اور اس کی ثقافت سے متاثر ہیں۔

    3

    ان کے فن پاروں کا بنیادی خیال کانٹے ہیں جو آپ کو ہر فن پارے میں نظر آئیں گے۔

    کمیل کے مطابق کانٹے خطرے اور خوبصورتی دونوں کی علامت ہیں۔ یہ ایک طرف تو اپنے حصار میں موجود شے کو حفاظت فراہم کرتے ہیں، دوسری جانب اس حصار سے باہر موجود ہر شے کے لیے خطرے کی صورت ہیں۔

    5

    4

    کمیل نے اس نمائش میں درختوں کو فرش پر کی گئی کندہ کاری کی طرح پیش کیا ہے۔ فرش پر کندہ کاری یونانیوں سمیت ہر ثقافت کا اہم جز تھا جو اس دور کے ثقافتی و فنی عروج کی نشانی تھا۔

    9

    7

    انہوں نے چاروں موسم سردی، گرمی، خزاں اور بہار کے درختوں کو اس شکل میں پیش کیا ہے۔

    10

    8

    گہرے نیلے رنگ پر مشتمل فن پاروں کی یہ نمائش مزید چند روز جاری رہے گی۔

  • ایسی نمائش جس میں آپ فن پاروں کو چھو سکتے ہیں

    ایسی نمائش جس میں آپ فن پاروں کو چھو سکتے ہیں

    آرٹ کی نمائش اور میوزیم میں آنے والے افراد اور سیاحوں کو سختی سے منع کیا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی فن پارے کو ہاتھ نہ لگائیں۔ بعض اوقات کسی نہایت نادر و نایاب فن پارے کے گرد پٹیاں بھی لگا دی جاتی ہیں تاکہ لوگ ان کے قریب نہ جانے پائیں۔

    لیکن جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ میں ایسی آرٹ نمائش کا آغاز کیا گیا ہے جس میں لوگوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ ان آرٹ کے شاہکاروں کو چھوئیں جن کے بارے میں وہ ساری زندگی پڑھتے اور سنتے رہے ہیں۔

    blind-post-4

    جمہوریہ چیک کی قومی گیلری کی جانب سے فراہم کیے جانے والے ان مجسموں اور فن پاروں کی نمائش خاص طور پر نابینا افراد کے لیے منعقد کی گئی ہے تاہم عام افراد کا داخلہ بھی ممنوع نہیں۔

    blind-post-3

    ان فن پاروں میں سے کچھ ان کے تخلیق کاروں نے بھی رضا کارانہ طور پر نمائش کے لیے فراہم کیے ہیں۔

    blind-post-1

    اس نمائش کی منتظم جانا کلیمووا کا کہنا ہے کہ یہ نمائش آرٹ کے دلدادہ افراد کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ ان شاہکاروں کو چھوئیں اور انہیں محسوس کریں۔ یہ موقع کسی دوسری گیلری یا نمائش میں نہیں مل سکتا۔ ’ہر جگہ لکھا جاتا ہے، ’اسے چھونے سے پرہیز کریں‘ لیکن اس نمائش میں اس کے برعکس ہے‘۔

    blind-post-2

    منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ نمائش خاص طور پر نابینا افراد کے لیے منعقد کی گئی ہے اور یہاں آنے والے عام افراد پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ وہ آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ان مجسموں کی بناوٹ اور خوبصورتی کو محسوس کریں۔