Tag: آرٹ

  • موت برسانے والے جنگی ہتھیار گہرے رنگوں میں رنگ گئے

    موت برسانے والے جنگی ہتھیار گہرے رنگوں میں رنگ گئے

    ایک جنگ زدہ مقام پر زندگی کیسی ہوسکتی ہے؟ خوف و دہشت اور بے یقینی سے بھرپور، بے رنگ، اور ایسی زندگی جس میں کوئی خوشی نہ ہو۔ لیکن جب یہ جنگ طویل ہوجائے تو آہستہ آہستہ زندگیوں کا حصہ بن جاتی ہے اور پھر یہ ایک معمول کی بات بن جاتی ہے۔

    انسانی فطرت حالات سے کسی نہ کسی طور مطابقت کرنا سیکھ ہی لیتی ہے۔ جب خوشی ملنے کا کوئی بیرونی ذریعہ نہ ہو تو پھر یہ خوشی کو تلاشنے کے لیے ایسی ایسی چیزیں تخلیق کر ڈالتا ہے جس کا عام حالات میں تصور بھی ممکن بھی نہ ہوں۔

    مزید پڑھیں: شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    ایسا ہی خوشیوں کا تخلیق کار ایک شامی فنکار بھی ہے جو موت لانے والے جنگی ہتھیاروں کو فن کے نمونوں میں بدل کر انہیں خوشی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔

    اکرم ابو الفیض نامی یہ فنکار مارٹر گولوں اور راکٹ کے خول کو آرٹ کے شاہکار میں بدل دیتا ہے۔

    shell-10

    shell-6

    شام کے جنگ زدہ صوبے رف دمشق کا یہ فنکار ایک عام سا فنکار تھا۔ سنہ 2011 میں جنگ شروع ہونے سے قبل وہ شیشوں پر روایتی نقش و نگاری کیا کرتا تھا۔ یہ شام کا ایک روایتی آرٹ ہے جو دنیا بھر میں مشہور ہے۔

    لیکن پھر جنگ شروع ہوگئی۔ آسمان سے موت برسنے لگی اور فن و ثقافت، ادب، خوشی، سکون اور اطمینان جنگ کی دھول میں دفن ہوگیا۔

    اکرم کا کہنا ہے کہ جب اس کے صوبے میں جنگ شروع ہوئی تو ہر روز گھر سے باہر نکلنے پر اسے بڑی تعداد میں جابجا مارٹر گولوں اور راکٹ کے خول بکھرے ہوئے ملتے تھے۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    ابتدا میں وہ انہیں اپنے ہم وطنوں کی موت کو یاد رکھنے کے لیے نشانی کے طور پر گھر لے آتا۔ پھر جب جنگ ان کی زندگیوں کا حصہ بن گئی، اور اپنوں کی موت کے زخم کچھ مندمل ہونے لگے تو اکرم کو اپنی بھولی بسری صلاحیت کا خیال آیا۔

    اس نے سوچا کہ اپنی مصوری کی خداداد صلاحیت کو کام میں لاتے ہوئے ان خولوں سے کچھ منفرد تخلیق کیا جائے۔

    اس نے دھول مٹی سے اٹا مصوری کا سامان نکالا اور ان خولوں کو گہرے رنگ میں رنگ دیا۔ ساتھ ہی ان پر منفرد نقش نگاری بھی کی۔

    shell-9

    shell-7

    shell-4

    اکرم ان خولوں پر نہایت گہرے رنگ کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس طرح وہ ان پر سے خون کے ان نادیدہ چھینٹوں کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے جو ان کے گرنے کے بعد فضا میں پھیل گئے۔

    shell-5

    shell-8

    shell-2

    shell-3

    خوبصورت رنگوں سے سجے اور یہ منقش خول اس نے اپنے دوستوں اور خاندان کو تحفتاً بھی دیے لیکن زیادہ تر اس نے اپنے گھر پر ہی رکھے ہیں جنہیں اب دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں کوئی آرٹ کی نمائش ہورہی ہے۔

    اس کا کہنا ہے کہ اس قسم کے آرٹ سے وہ دنیا کو بتانا چاہتا ہے کہ شامی اب جنگ سے تنگ آچکے ہیں اور انہیں امن چاہیئے۔

    اکرم نے مصوری کی کوئی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی لیکن اس کی یہ صلاحیت خداداد ہے۔ وہ بہت چھوٹی عمر سے ہی کاغذ پر رنگ بکھیرنے کا شوقین ہے۔

    واضح رہے کہ شام کے لوگ پچھلے 5 سال سے خانہ جنگی کا شکار ہیں اور اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس خانہ جنگی کے دوران اب تک 4 لاکھ شامی ہلاک ہوچکے ہیں۔

    شام اور عراق کے جنگ زدہ علاقوں سے ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد تاریخ میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد ہے اور دنیا نے اس سے قبل کبھی اتنی زیادہ تعداد میں مہاجرین کی میزبانی نہیں کی۔

  • عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    طبی و نفسیاتی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی و نفسیاتی امراض کی شرح ماضی کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے اور ان کا شکار مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ ہورہی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شرح عموماً ترقی پذیر ممالک میں زیادہ دیکھنے میں آتی ہے جہاں صنفی امتیاز کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ صنفی امتیاز کا شکار سب سے زیادہ خواتین ہوتی ہیں۔ وہ زندگی بھر مختلف مشکلات اور نا انصافیوں کا سامنا کرتی ہیں جن میں سرفہرست گھریلو تشدد اور جنسی زیادتی ہے۔

    مزید ستم یہ کہ، ظلم و زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کو اپنے دکھ اور تکلیف کا کھل کر اظہار کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی نتیجتاً ان کی دماغی کیفیات تبدیل ہونے لگتی ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ منفی تبدیلیاں دماغی یا نفسیاتی امراض کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔

    مردوں کی بالادستی پر قائم معاشروں میں خواتین زندگی بھر کس قدر تکالیف، درد اور کرب کا شکار ہوتی ہیں، اس کی جھلک آپ ان تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں۔

    خواتین کے اندرونی کرب کو آشکار کرتیں یہ تصاویر صرف ایک جھلک دکھاتی ہیں کہ بظاہر نازک اور کمزور سمجھنے والی خواتین کو کس قدر زیادتیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

    خواتین کی طبی سہولیات پر کام کرنے والی ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر سارہ خرم کا کہنا ہے کہ خواتین سے ناانصافیوں کا آغاز سب سے پہلے ان کے اپنے گھر سے ہوتا ہے جب ان کے والدین ان پر، ان کے بھائیوں کو فوقیت دیتے ہیں۔ اچھا کھانا، اچھی تعلیم اور اچھی طبی سہولیات پہلے ان کے بھائی کے حصہ میں آتی ہیں۔

    عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے۔ رشتے اور چہرے بدلتے جاتے ہیں، عورت اور اس کی برداشت کی صلاحیت وہی رہتی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

    عالمی اندازوں کے مطابق ہر 3 میں سے ایک عورت زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد کو ایک معمولی بات سمجھا جاتا ہے۔ خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔

    لیکن یہ ناانصافیاں، ظلم و جبر اور دباؤ ان کی اندرونی کیفیات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ نتیجتاً خواتین ذہنی و نفسیاتی امراض میں زیادہ مبتلا ہوتی ہیں۔

    ان فن پاروں کی تخلیق کار سائرہ انور نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اپنے آس پاس موجود خواتین پر ہوتی ناانصافیوں اور امتیاز کو دیکھتے ہوئے انہیں اس قسم کے فن پاروں کی سیریز پیش کرنے کا خیال آیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ان پینٹنگز کے ذریعہ ایک طرف تو خواتین کے اندرونی کرب کی عکاسی کی گئی ہے، دوسری طرف دیگر افراد کو بھی اس درد اور کرب سے آگاہی دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’میں سمجھتی ہوں کہ ایک آرٹسٹ کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کے تلخ و درد ناک پہلوؤں کو محسوس کرے اور دیگر افراد کی توجہ بھی اس طرف دلانے کی کوشش کرے‘۔


    مصورہ کے بارے میں

    سائرہ انور لاہور سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد میں اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزارا۔ وہ لاہور کی بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی سے فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

    سائرہ کو بچپن سے مصوری کا شوق تھا اور اس کا باقاعدہ آغاز انہوں نے اپنے زمانہ طالبعلمی سے کیا۔ سائرہ اپنے فن کے اظہار کے لیے فی الحال آئل پینٹنگ اور آکریلکس کا استعمال کرتی ہیں، البتہ وہ اس فن میں مزید تجربات کرنا چاہتی ہیں۔


    سائرہ نے اپنے فن پاروں میں زیادتی کا شکار خواتین کے خوف اور کرب کو بیان کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔

    اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال ڈھائی لاکھ سے زائد زیادتی کے واقعات پیش آتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف 65 ممالک سے حاصل کیے گئے جبکہ یہ صرف وہ شرح ہے جو منظر عام پر آسکی۔ لاکھوں ایسے کیسز ہیں جو رپورٹ نہیں کیے گئے، جنہیں مجرمان کی جانب سے دباؤ ڈالنے کے بعد یا متاثرہ کے خاندان کی عزت کی خاطر دبا دیا گیا یا دنیا کے خوف سے چھپایا گیا۔

    اقوام متحدہ نے اس شرح کو ’ڈارک فگرز‘ کا نام دیا ہے جو نہ صرف اعداد و شمار کی جانب سے لاعلمی کا اظہار ہے بلکہ معاشروں میں چھپی کالک کی طرف بھی اشارہ ہے۔

    جہاں تک صنفی امتیاز کا تعلق ہے، تو اس سے دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے طاقتور ترین اداروں میں سے ایک وائٹ ہاؤس تک محفوظ نہیں۔ وائٹ ہاؤس میں کام کرنے والی خواتین کے مطابق صدر اوباما کے دور صدارت سے قبل وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق اپنے عروج پر تھی۔

    سائرہ نے اپنی پینٹنگز کے بارے میں مزید بتایا کہ زمانہ طالب علمی میں انہوں نے معروف مفکر رومی کو پڑھا جس نے ان کے خیالات اور بعد ازاں ان کے فن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

    سائرہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے رومی کی شاعری، اقوال اور ان کے اندر چھپے وجدان کو اپنے آرٹ میں بیان کرنے کی کوشش کی، اور اس کوشش سے ان کا آرٹ عام انداز سے بنائی گئی پینٹنگز سے ہٹ کر گہری معنویت رکھنے والا فن بن گیا۔

    سائرہ کا عزم ہے کہ وہ اپنے آرٹ کے ذریعہ معاشرے کو مثبت پیغام پہنچائیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ وہ ایسا آرٹ تخلیق کریں جو معاشرے کو اخلاقی تربیت اور آگہی و شعور فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

  • دوہرے پہلوؤں کی ترجمانی کرتے فن پارے

    دوہرے پہلوؤں کی ترجمانی کرتے فن پارے

    کائنات میں ہر شے کی دو انتہائیں ہیں۔ انہیں ہم دو رخ، دو پہلو یا دو سرحدیں بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن ان دونوں سرحدوں، انتہاؤں، پہلوؤں اور رخوں کے درمیان بھی کوئی نہ کوئی شے موجود ہے جو اپنے اندر پوری کائنات رکھتی ہے۔ اسی خیال کو آرٹسٹ عدیل الظفر نے اپنی تخلیقات میں بہترین انداز سے پیش کیا۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں معروف آرٹسٹ عدیل الظفر کے فن پاروں کی نمائش کی گئی۔

    cat-post-5

    cat-post-7

    عدیل نے اپنے فن پاروں میں دہرے پہلوؤں اور احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ ان کا تخلیق کردہ آرٹ موجود اور عدم موجود، سچ اور طاقت، تاریخ اور عصر حاضر اور ظاہری جنس اور اندرونی پہچان کی ترجمانی کرتا ہے۔

    cat-post-2

    cat-post-1

    عدیل کے مطابق ان متضاد چیزوں کی سرحد پر ایک نئی شے تخلیق ہوتی ہے۔ یہ شے اپنی خالق دونوں چیزوں کا آپس میں تعلق جوڑتی ہے لیکن بہرحال وہ ایک الگ اور تیسری شے ہے اور اس کی اپنی پہچان ہے۔

    جس طرح سیاہ اور سفید کے درمیان سرمئی رنگ یا جیومیٹری میں ’اے‘ اور ’بی‘ نامی زاویوں کے درمیان ایک نیا زاویہ، جو نہ اے ہوتا ہے نہ بی، لیکن وہ ’اے بی‘ کہلاتا ہے۔

    یہیں پر دیکھنے والا سوچنے اور ان میں چھپے ہوئے پیغام کو سمجھنے پر مجبور ہوتا ہے۔

    عدیل نے اس پہلو پر بھی توجہ دلانے کی کوشش کی ہے کہ جب دو متضاد پہلو یکساں رفتار سے چل رہے ہوں، تو ان میں سے طاقتور اور حاوی پہلو کون سا ہے۔ جو پہلو یا یا جو رخ طاقتور ہوگا وہی مثبت یا منفی اثرات پیدا کرنے کا تعین کرے گا، اور یہی کائنات کی حقیقت ہے جو روز اول سے موجود ہے۔

    cat-new

    اس فن پارے میں عدیل نے ایک کھلونے کو پٹیوں سے ڈھکا ہوا دکھا کر اس معصومیت کی طرف اشارہ کیا ہے جو چھن جائے یا عمر کے ساتھ ختم ہوجائے۔

    یہ معصومیت تا عمر کہیں ظاہر اور کہیں چھپی ہوئی ملتی ہے۔ پٹیوں سے ڈھکا ہونا اس کھلونے کی تخلیق سے اس کی تباہی تک کے سفر کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔

    cat-post-3

    یہ ماسک انسان کے دو چہروں کی طرف اشارہ ہیں کہ ماسک پر الگ تاثرات ہیں، اس کے اندر چھپے چہرے کے تاثرات مختلف ہوسکتے ہیں۔

    عدیل الظفر اس سے قبل بھی پاکستان اور بیرون ملک اپنے فن پاروں کی نمائش کر چکے ہیں۔

  • رنگوں سے سجی کافی

    رنگوں سے سجی کافی

    کہتے ہیں کہ دل تک پہنچنے کا ایک راستہ معدے سے ہو کر گزرتا ہے۔ اگر آپ کسی کے دل میں جگہ بنانا چاہتے ہیں تو اسے مزیدار کھانے بنا کر کھلائیں۔

    لیکن شاید یہ تکنیک ہر شخص پر کام نہیں کر سکتی۔ خاص طور پر ان افراد کے لیے تو بالکل ہی نہیں جو کھانے پینے کا خاص شوق نہیں رکھتے۔

    لیکن اب جو تصاویر آپ دیکھنے جارہے ہیں وہ ہر شخص کو متاثر کریں گی چاہے وہ کھانے پینے کا شوقین ہو یا نہ ہو، بھلا رنگ اور پھول کسے اچھے نہیں لگتے؟

    امریکی شہر لاس ویگاس کی رہائشی بریستا میسن نے کھانے پینے کی اشیا کو بھی رنگین کر کے انہیں آرٹ کے شاہکار میں تبدیل کردیا۔

    15

    14

    13

    اس کے لیے اس نے فوڈ کلر کا استعمال کیا۔

    12

    11

    9

    ایک خوبصورت رنگین کافی بنانے کے لیے وہ دودھ میں فوڈ کلر کی آمیزش کرتی ہے اور اس کے بعد اس دودھ کو کافی میں شامل کیا جاتا ہے، جس کے بعد بننے والی کافی پینے سے زیادہ محفوظ کر کے رکھنے کی چیز معلوم ہوتی ہے۔

    10

    7

    دیکھیے وہ کس طرح ’رنگین کافی‘ پیش کر کے لوگوں کے دلوں میں گھر کرتی ہے۔

    6

    3

    2

  • طلوع آفتاب کا منظر دوسرے سیاروں پر کیسا ہوتا ہے؟

    طلوع آفتاب کا منظر دوسرے سیاروں پر کیسا ہوتا ہے؟

    سورج کے بغیر ہماری دنیا میں زندگی ناممکن ہے۔ اگر سورج نہ ہو تو ہماری زمین پر اس قدر سردی ہوگی کہ کسی قسم کی زندگی کا امکان بھی ناممکن ہوگا۔

    ہمارے نظام شمسی کا مرکزی ستارہ سورج روشنی کا وہ جسم ہے جس کے گرد نہ صرف تمام سیارے حرکت کرتے ہیں بلکہ تمام سیاروں کے چاند بھی اس سورج سے اپنی روشنی مستعار لیتے ہیں۔

    مختلف سیاروں پر دن، رات اور کئی موسم تخلیق کرنے کا سبب سورج ہماری زمین سے تقریباً 14 کروڑ سے بھی زائد کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اس تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہے، کیونکہ آدھے راستے میں ہی سورج کا تیز درجہ حرارت ہمیں پگھلا کر رکھ دے گا۔

    زمین پر سورج کے طلوع اور غروب ہونے کا منظر نہایت دلفریب ہوتا ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ دوسرے سیاروں پر یہ نظارہ کیسا معلوم ہوگا؟

    ایک امریکی ڈیجیٹل آرٹسٹ رون ملر نے اس تصور کو تصویر کی شکل دی کہ دوسرے سیاروں پر طلوع آفتاب کا منظر کیسا ہوگا۔ دیکھیے وہ کس حد تک کامیاب رہا۔


    سیارہ عطارد ۔ مرکری

    1

    سیارہ عطارد یا مرکری سورج سے قریب ترین 6 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا یہاں کا درجہ حرارت دیگر تمام سیاروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں پر طلوع آفتاب کے وقت سورج نہایت قریب اور بڑا معلوم ہوتا ہے۔


    سیارہ زہرہ ۔ وینس

    2

    سورج سے قریب دوسرے مدار میں گھومتا سیارہ زہرہ سورج سے 108 ملین یا دس کروڑ کلومیٹر سے بھی زائد فاصلے پر ہے۔ اس کی فضا موٹے بادلوں سے گھری ہوئی ہے لہٰذا یہاں سورج زیادہ واضح نظر نہیں آتا۔ یہاں کی فضا ہر وقت دھندلائی ہوئی رہتی ہے۔


    سیارہ مریخ ۔ مارس

    3

    ہماری زمین سے اگلا سیارہ (زمین کے بعد) سیارہ مریخ سورج سے 230 ملین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لیکن اس سے سورج کے نظارے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔


    سیارہ مشتری ۔ جوپیٹر

    4

    سورج سے 779 ملین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سیارہ مشتری کی فضا گیسوں کی ایک موٹی تہہ سے ڈھکی ہوئی ہے۔ یہاں پر سورج سرخ گول دائرے کی شکل میں نظر آتا ہے۔


    سیارہ زحل ۔ سیچورن

    5

    سورج سے 1.5 بلین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع زحل کی فضا میں برفیلے پانی کے ذرات اور گیسیں موجود ہیں۔ یہ برفیلے کرسٹل بعض دفعہ سورج کو منعکس کردیتے ہیں۔ کئی بار یہاں پر دو سورج نظر آتے ہیں جن میں سے ایک سورج اصلی اور دوسرا اس کا عکس ہوتا ہے۔


    سیارہ یورینس

    6

    سورج سے 2.8 بلین کلومیٹر کے فاصلے پر سیارہ یورینس سورج سے بے حد دور ہے جس کے باعث یہاں سورج کی گرمی نہ ہونے کے برابر ہے۔


    سیارہ نیپچون

    7

    نیپچون سورج سے 4.5 بلین کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور اس کی سطح برفانی ہے۔ اس کے فضا میں برف، مٹی اور گیسوں کی آمیزش کے باعث یہاں سورج کی معمولی سی جھلک دکھائی دیتی ہے۔


    سیارہ پلوٹو

    8

    پلوٹو سیارہ جسے بونا سیارہ بھی کہا جاتا ہے سورج سے سب سے زیادہ 6 بلین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں پر سورج کی روشنی ہمیں ملنے والی سورج کی روشنی سے 16 سو گنا کم ہے، اس کے باوجود یہ اس روشنی سے 250 گنا زیادہ ہے جتنی روشنی ہمارے چاند کی ہوتی ہے۔


     

  • بونوں کے دیس کی سیر کریں

    بونوں کے دیس کی سیر کریں

    آپ نے مختلف فوٹوگرافرز کی مختلف تکنیکوں سے کھینچی گئی تصاویر دیکھی ہوں گی جو دیکھنے میں آرٹ کا شاہکار لگتی ہیں۔ آج ہم آپ کو ایسی ہی کچھ مختلف تصاویر دکھانے جارہے ہیں۔

    تھائی فوٹوگرافر اکاچی سیلو کی کھینچی گئی تصاویر ہمیں ایک تصوراتی دنیا میں لے جاتی ہیں جو بونوں کی دنیا ہے۔

    دراصل وہ ایک تکنیک کے ذریعہ تصویر میں موجود افراد کو پستہ قد کردیتا ہے جس کے بعد اس کی تصاویر دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے بونوں کے دیس کی سیر کی جارہی ہے۔

    عام تصاویر کو فلم کے پوسٹر میں بدلنے والا فنکار *

    انگوٹھی پر منعکس تصاویر *

    خوبصورت تصاویر کھینچنے کی تکنیک *

    یہ دراصل تصاویر کھینچنے کی ایک تکنیک ہے جسے ٹلٹ شفٹ فوٹوگرافی کہا جاتا ہے۔ اکاچی اس میں مزید اضافہ یہ کرتا ہے کہ وہ مختلف اشیا اور افراد کی الگ الگ تصاویر کھینچ کر انہیں ایک تصویر میں یکجا کردیتا ہے۔

    اس کی اس فنکاری کے بعد اس کی تخلیق کردہ تصاویر نہایت انوکھی اور خوبصورت معلوم ہوتی ہیں۔

    آئیے آپ بھی اس کی تصاویر سے لطف اندوز ہوں۔

    1

    2

    3

    4

    5

    6

    7

    8

    9

    10

    11

    12

    13

    14

  • امریکا میں خطاطی کی سب سے بڑی نمائش

    امریکا میں خطاطی کی سب سے بڑی نمائش

    واشنگٹن: امریکا میں منعقد کی جانے والی ایک آرٹ کی نمائش میں قرآن کریم کے قدیم نسخے اور خطاطی کے نمونے پیش کیے گئے ہیں جو آرٹ کے دلدادہ مسلم و غیر مسلم افراد کے لیے یکساں دلچسپی کا باعث بن گئے۔

    فروری 2017 تک جاری رہنے والی ’دی آرٹ آف دا قرآن‘ نامی یہ نمائش واشنگٹن کے فریئر اینڈ سیکلر میوزیم میں جاری ہے۔ میوزیم کی ویب سائٹ کے مطابق یہاں پیش کیے جانے والے نمونے عراق،ا فغانستان اور ترکی سمیت پوری اسلامی دنیا سے حاصل کیے گئے ہیں۔

    1

    2

    نمائش میں پیش کیے گئے قرآن کریم کے نسخے اور خطاطی کے نمونے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے دور کے ہیں۔ یہ نسخے اور نمونے عثمانی سلاطین، ان کی ملکاؤں اور وزرا کی جانب سے مختلف ادوار میں مختلف حکمرانوں کو پیش کیے گئے تھے۔

    5

    6

    ان میں سے کچھ نمونے اس میوزیم کا حصہ ہیں جبکہ کچھ استنبول کے میوزیم آف ترکش اینڈ اسلامک آرٹس سے مستعار لیے گئے ہیں۔

    8

    9

    نمائش میں پیش کیے جانے والے خطاطی کے نمونوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف سلاطین نے اسلامی روایات کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ کی بھی سرپرستی کی۔ نمائش میں رکھے جانے والے نمونوں سے خطاطی کے مختلف ارتقائی مراحل کے بارے میں بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے کہ کس دور میں کس قسم کی خطاطی فروغ پائی۔

    4

    7

    واضح رہے کہ یہ امریکا میں اپنی نوعیت کی پہلی نمائش ہے۔ انتظامیہ کے مطابق قرآن کریم کی سب سے بڑی اس نمائش کا مقصد شاندار خطاطی کو خراج تحسین پیش کرنا اور اسے دنیا کے سامنے لانا ہے۔

    3

    ان کا کہنا ہے کہ یہ نمائش مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان رابطہ قائم کرنے، ان کے لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے واقفیت حاصل کرنے اور قریب لانے میں مددگار ثابت ہوگی۔

    :قرآنی خطاطی سے متعلق مزید مضامین پڑھیں

    خطاط الحرم المسجد النبوی ۔ استاد شفیق الزمان *

    پاکستانی خطاط کے لیے بین الاقوامی اعزاز *

    خانہ کعبہ کی تصویر پیش کرتا قرآن کا قدیم نسخہ *

  • سیلفی کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرتی انوکھی سیاحت

    سیلفی کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرتی انوکھی سیاحت

    آج کل سیلفی کھینچنا ایک عمومی عمل بن چکا ہے۔ آپ کہیں بھی جائیں، کچھ بھی کھائیں، سیلفی ایک لازمی جزو ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہر وقت سیلفی کھینچنا اور انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا ایک ایسا عمل ہے جو بالآخر آپ کو دماغی طور پر بیمار کرسکتا ہے۔ معروف اداکار جارج کلونی نے ایک بار کہا، ’آج کے دور میں ہمیں خوبصورت لمحوں کو جینے سے زیادہ انہیں محفوظ کرنے کی فکر ہے‘۔

    آپ کی زندگی میں آنے والا ایک خوبصورت اور خوشی کا لمحہ بغیر لطف اندوز ہوئے گزارنا اور اسے بعد کے لیے ’محفوظ‘ کرلینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ بعد میں آپ جتنی بار بھی اس لمحے کو دیکھیں آپ کو وہ خوشی حاصل نہیں ہوسکتی جو اس لمحے میں حاصل کی جاسکتی تھی۔

    مزید پڑھیں: دنیا کی سب سے پہلی سیلفی

    اسی خیال کو اجاگر کرنے کے لیے ایک سیاح نے کچھ انوکھے انداز میں سیاحت کی۔ اس نے مختلف جگہوں کا دورہ کیا اور وہاں اپنی تصاویر کھینچنے کے بجائے کاغذ سے بنائے ہوئے دو ڈوڈلز کی تصاویر کھینچیں۔

    ان ڈوڈلز کا نام اس نے ابنگ اور نینگ رکھا اور ان کی مختلف مقامات پر مختلف لمحات کی تصویر کشی کی۔ ان ڈوڈلز نے اپنی سیلفیز ہرگز نہیں کھینچیں بلکہ تصاویر میں وہ مختلف لمحات سے لطف اندوز ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

    آپ بھی ان تصاویر سے لطف اندوز ہوں۔

    1

    2

    3

    4

    5

    6

    8

    9

    10

    11

    12

    18

    13

    14

    15

    16

    17

  • خشک لیکچر سے اکتائے ہوئے بچے کی انوکھی مصروفیت

    خشک لیکچر سے اکتائے ہوئے بچے کی انوکھی مصروفیت

    آپ نے اکثر فلموں، ڈراموں یا عام زندگی میں بھی دیکھا ہوگا کہ بعض اوقات بچے پڑھائی سے اکتا جاتے ہیں جس کے باعث وہ کلاس میں دھیان نہیں دے پاتے۔

    کلاس میں لیکچر کے دوران وہ عجیب و غریب کام سر انجام دینے لگتے ہیں۔ زیادہ تر بچے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہنسی مذاق یا باتیں کرتے ہیں جس سے استاد الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے بچے خاموشی سے اپنی کوئی پسندیدہ سرگرمی سر انجام دینے لگتے ہیں۔

    ایسا ہی کچھ کام اس بچے نے انجام دیا جو چین کے کسی اسکول میں زیر تعلیم ہے۔ کلاس میں لیکچر سے دلچسپی نہ ہونے کے سبب اس نے استاد سے چھپ کر ننھے ننھے مجسمے تخلیق کر ڈالے۔

    kid-6

    kid-5

    kid-4

    اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ مجسمے ربر ڈسٹ سے بنائے گئے ہیں۔ یعنی ان کے لیے ربڑ کو رگڑ کر اس کا برادہ بنایا گیا اور ان سے یہ مجسمے بنائے گئے۔

    kid-3

    kid-2

    اب کلاس میں لیکچر کے دوران اس مصور بچے کو رنگ، برش یا پتھر کہاں سے میسر آتے، چنانچہ اسے جو دستیاب تھا اس نے ان ہی سے اپنی شاندار صلاحیت کا نمونہ تخلیق کر ڈالا۔

  • روز شام کے وقت غائب ہوجانے والے مجسمے

    روز شام کے وقت غائب ہوجانے والے مجسمے

    آپ کسی نئی جگہ جاتے ہوئے وہاں موجود چیزوں یا مقامات کو یاد کرلیتے ہوں گے تاکہ دوبارہ وہاں جائیں تو مطلوبہ مقام ڈھونڈنے میں آسانی ہو، لیکن اگر ایسا ہو کہ آپ صبح کے وقت کہیں جائیں اور وہاں موجود کچھ مجسموں کو بطور نشانی یاد رکھیں، لیکن اگر شام میں جائیں تو آپ کو مجسمے وہاں مل ہی نہ سکیں کیونکہ وہ غائب ہوچکے ہوں؟

    یہ بات کافی حیرت انگیز لگتی ہے کہ مضبوطی سے نصب مجسمے اپنی جگہ سے کیسے غائب ہوسکتے ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور آرٹ اور تعمیرات کا یہ منفرد نمونہ لندن میں موجود ہے۔

    t6

    برطانوی مجسمہ ساز جیسن ٹیلر نے ان حیرت انگیز مجسموں کو بنایا ہے جو دریائے ٹیمز کے کنارے موجود ہیں۔ یہ دن کے صرف دو حصوں میں مکمل طور پر نظر آتے ہیں جب دریا کی لہریں نیچی ہوتی ہیں۔

    t3

    t8

    t7

    شام میں جب دریا کی لہریں اونچی ہوجاتی ہیں اور پانی کنارے تک آجاتا ہے تب یہ مجسمے پانی میں ڈوب جاتے ہیں اور ذرا سے ہی دکھائی دیتے ہیں۔

    t5

    اس کے تخلیق کار کا کہنا ہے کہ ان مجسموں کے ذریعہ وہ دنیا کی توجہ موسمیاتی تبدیلیوں یعنی کلائمٹ چینج کی طرف دلانا چاہتا ہے کہ کس طرح ان کے باعث سمندروں کی سطح اونچی ہوجائے گی اور ہم ڈوبنے کے قریب پہنچ جائیں گے۔

    t2

    یہ مجسمے 4 گھوڑوں کے ہیں جن پر دو صنعت کار اور دو بچے براجمان ہیں۔ گھوڑوں کے منہ آئل پمپس جیسے ہیں جو دنیا میں تیل کے لیے جاری کھینچا تانی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ مجسمے ہمیں ایک لمحے کے لیے یہ بھی سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی آئندہ نسل کے لیے ماحولیاتی طور پرایک بہتر دنیا چھوڑ کر جانی چاہیئے۔