Tag: آرٹ

  • داعش کے ہاتھوں تباہ شدہ ثقافتی ورثے کی روم میں نمائش

    داعش کے ہاتھوں تباہ شدہ ثقافتی ورثے کی روم میں نمائش

    روم: اٹلی کے دارالحکومت روم میں شام اور عراق میں شدت پسند تنظیم داعش کے ہاتھوں تباہ ہونے والے 3 تاریخی ثقافتی ورثوں کی نقل کو ایک نمائش میں پیش کیا گیا۔ یہ انمول نمونے مشرق وسطیٰ کی تاریخی و تہذیبی ثقافت کا اہم ورثہ تھے۔

    یہ نمائش روم کے قدیم تھیٹر کولوزیم میں منعقد کی گئی۔

    مزید پڑھیں: روم کے تاریخی کولوزیم کی سیر کریں

    ان تاریخی ورثوں میں ایک انسانی سر کا حامل پروں والا بیل ہے جو عراق کے قدیم شہر نمرود میں ہوتا تھا، جبکہ شام کے تاریخی شہر پالمیرا کی ایک عبادت گاہ کی چھت کا ایک ٹکڑا بھی شامل ہے۔

    مزید پڑھیں: پالمیرا کے تاریخی کھنڈرات ۔ داعش کے ہاتھوں تباہی سے قبل اور بعد میں

    اس موقع پر اٹلی کے وزیر خارجہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک عرصے سے جنگ زدہ علاقوں کی تاریخی ثقافت کو بچانے کی کوششوں میں سرگرداں تھے۔ اس نمائش کا انعقاد اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

    rome-2

    rome-1

    rome-3

    نمائش میں پالمیرا کے ہی دو تباہ شدہ مجسمے بھی شامل ہیں جنہیں شامی محکمہ آثار قدیمہ نے بڑی دقتوں سے روم پہنچایا۔

    شام اور عراق کے ان آثار قدیمہ اور تاریخی خزانے کو تھری ڈی پرنٹرز کی مدد سے دوبارہ تخلیق کیا گیا ہے جس میں 3 ماہ کا عرصہ لگا۔ نمائش کے بعد انہیں واپس شام بھیج دیا جائے گا۔

    rome-4

    اس منصوبے پر کام کرنے والے ماہرین کے مطابق انہوں نے اس ورثے کی دوبارہ تخلیق کے لیے پرانی تصاویر اور ان مقامات کی سیر کرنے والے افراد کے بیانات سے مدد لی۔

    ان کے مطابق جب انہوں نے عبادت گاہ کی چھت کا ٹکڑا تیار کیا تو وہ بالکل نئے جیسا لگ رہا تھا، جس کے بعد انہوں نے ہاتھ سے اس پر بوسیدگی کے نشانات بنائے۔ اس کام میں ایک ماہ کا عرصہ لگا۔

    روم میں جاری اس نمائش کا مقصد لوگوں میں ثقافتی ورثے کی تباہی کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا اور انہیں اس کی حفاظت کے بارے میں شعور دینا ہے۔ یہ نمائش 11 دسمبر تک جاری رہے گی۔

    واضح رہے کہ شام اور عراق میں داعش کے ہاتھوں تاریخی ورثوں کی تباہی پر دنیا بھر کے تاریخ دان اور تاریخ سے محبت کرنے والے افراد سخت تشویش کا شکار ہیں اور اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یونیسکو اس سلسلے میں اقدامات اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

    rome-5

    اس سے قبل نیویارک میں بھی ایک ایسی ہی نمائش کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں پالمیرا شہر کی ایک تباہ شدہ محراب کی نقل کو پیش کیا گیا تھا۔

  • خوبصورت قدرتی مناظر پیش کرتی میزیں

    خوبصورت قدرتی مناظر پیش کرتی میزیں

    آپ نے بے شمار خوبصورت میزیں دیکھی ہوں گی جو چیزیں رکھنے، آرائش اور کمرے کی خوبصورتی بڑھانے کے کام آتی ہیں۔ لیکن کیا آپ نے ایسی میز دیکھی ہے جو ایک منظر دکھاتے ہوئے اس منظر کی کہانی بیان کر رہی ہو؟

    ان منفرد میزوں کے خالق اطالوی ڈیزائنر الیگزینڈر چپلن اس بارے میں بتاتے ہیں، ’میں بچپن میں سوچا کرتا تھا کہ کھانا کھانا اتنا بورنگ کام کیوں ہے۔ کچھ ایسا کیا جائے جس سے کھانا کھانا ایک دلچسپ کام بن جائے‘۔

    یہی خیال ان انوکھی میزوں کی تخلیق کا سبب بنا۔

    6

    الیگزینڈر ان میزوں کی تخلیق میں مٹی، پتھر اور سنگ مرمر کا استعمال کرتے ہیں۔ ان چیزوں پر مختلف رنگ کر کے وہ میز پر ایک نہایت خوبصورت منظر تخلیق کردیتے ہیں جس کے بعد وہ میزیں آرٹ کا شاہکار بن جاتی ہیں۔

    وہ کہتے ہیں کہ میز پر شاہکار تخلیق دینے سے پہلے وہ کوئی کہانی سوچتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں دیکھنے والے جب ان کی بنائی میز کو دیکھیں تو اسے دیکھتے ہی ان کے ذہن میں کوئی کہانی ابھر آئے۔

    ان کی بنائی ہوئی میزیں پہاڑوں، دریاؤں، قدرتی مناظر، اور ستاروں کا منظر پیش کرتی ہیں۔

    آپ بھی ان کی خوبصورت اور انوکھی میزیں دیکھیں۔

    1

    2

    3

    4

    10

    9

    7

  • وین گوف کے چوری شدہ فن پارے برآمد

    وین گوف کے چوری شدہ فن پارے برآمد

    روم: اطالوی پولیس نے مشہور مصور وین گوف کے 2 چوری شدہ مشہور فن پارے برآمد کرلیے ہیں۔ یہ فن پارے 2002 میں ایمسٹر ڈیم کے ایک میوزیم سے چرائے گئے تھے۔

    اطالوی پولیس کا کہنا ہے کہ یہ دو پینٹنگز ’نیپلز مافیا‘ نامی گروہ سے برآمد کی گئی ہیں۔ اس گروہ کے علاوہ ایک اور گروہ سے بھی لاکھوں یوروز مالیت کے کئی نوادرات برآمد کیے گئے۔

    van-1
    برآمد شدہ فن پارہ ۔ سمندر کا نظارہ

    ان کا کہنا ہے کہ یہ برآمدگی اٹلی کے منظم مجرمانہ گروہوں سے طویل تفتیش کے بعد عمل میں لائی گئی۔

    واضح رہے کہ ان فن پاروں کی چوری نے ایمسٹر ڈیم کے مشہور میوزیم کی سیکیورٹی پر سوالیہ نشان اٹھادیے تھے۔

    میوزیم کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہیں علم نہیں کہ ان کی ملکیت یہ فن پارے انہیں کب واپس ملیں گے تاہم انہیں اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ برآمد شدہ فن پارے اپنی اصلی شکل میں موجود ہیں اور انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

    van-2
    برآمد شدہ فن پارہ ۔ چرچ ان اویرس

    ونسنٹ وین گوف نیدر لینڈز سے تعلق رکھنے والا انیسویں صدی کا مشہور مصور تھا جس کے فن مصوری نے اس دور کی مصوری پر اہم اثرات مرتب کیے۔ وہ مشہور مصور پکاسو سے متاثر تھا۔

  • تھری ڈی آرٹ کے ذریعہ گاڑی کی ہوبہو نقل تخلیق

    تھری ڈی آرٹ کے ذریعہ گاڑی کی ہوبہو نقل تخلیق

    معروف آٹو کمپنی نسان نے اپنے نئے ماڈل کاشکائی کے لانچ کے موقع پر خریداروں کو متوجہ کرنے کے لیے گاڑی کی تھری ڈی پینٹنگ بھی تخلیق کروا ڈالی۔

    مشہور فرانسیسی تھری ڈی آرٹسٹ گریس ڈو پریز کی ٹیم نے یہ کام بخوبی سر انجام دیا۔ گریس کی ٹیم نے تھری ڈی آرٹ کے ذریعہ نئے ماڈل کی ہوبہو نقل تخلیق کر ڈالی۔

    6

    10

    8

    2

    9

    واضح رہے کہ تھری ڈی پینٹنگ ہوا میں پلاسٹک کے ذریعہ کسی چیز کو تخلیق کرنے کو کہا جاتا ہے۔

    3

    4

    7

    1

    گریس کے مطابق وہ پچھلے چند سالوں سے تھری ڈی آرٹ تخلیق کر رہی ہیں لیکن یہ کام ان کا اب تک کا سب سے پسندیدہ کام تھا۔

  • عمودی سوئمنگ پول میں تیراکی کریں گے؟

    عمودی سوئمنگ پول میں تیراکی کریں گے؟

    آپ نے بے شمار سوئمنگ پول دیکھے ہوں گے لیکن کیا آپ نے کبھی عمودی سوئمنگ پول دیکھا ہے جو زمین سے شروع ہو کر آسمان تک جارہا ہو؟

    یقیناً آپ کے ذہن میں پہلا خیال یہی ہوگا کہ اس سوئمنگ پول میں تیراکی کیسے کی جاسکتی ہے، تو آپ کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ سوئمنگ پول تیراکی کی غرض سے بنایا بھی نہیں گیا۔

    sp-3

    نیویارک کے راک فیلر سینٹر میں بنائے گئے اس عمودی سوئمنگ پول کو ’وان گوگ کے کان‘ کا نام دیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: وان گوگ کی تاروں بھری رات

    sp-2

    یہ پول دو تخلیق کاروں مائیکل ایلم گرین اور انگر ڈریگسٹ نے بنایا ہے جو اس سے قبل بھی اسی طرح کی ایک اور انوکھی تخلیق کر چکے ہیں۔

    ان دونوں تخلیق کاروں نے مشہور فیشن برانڈ ’پراڈا‘ کا ایک علامتی اسٹور بھی بنایا تھا جو امریکی ریاست ٹیکساس کے ایک دور دراز علاقہ میں واقع ہے اور اس کے آس پاس کوئی اور عمارت موجود نہیں۔

    sp-4

    تخلیق کاروں کا کہنا ہے کہ بعض دفعہ سوئمنگ پولز بھی آرٹ اور تعمیرات کا شاہکار ہوتے ہیں لیکن گزرنے والے ان کی بناوٹ پر غور کیے بغیر گزر جاتے ہیں۔

    ان کے مطابق عمودی سوئمنگ پول بنانے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اس کی بناوٹ، اس کے زاویوں اور گہرائی کو دیکھیں اور محسوس کریں۔

    sp-5

    واضح رہے کہ نیویارک کی یہ عمارت فیشن، تجارت، سیاحت اور آرٹ کا مرکز تصور کی جاتی ہے اور تخلیق کاروں کے مطابق ایسی جگہ پر اس طرح کا سوئمنگ پول تخلیق دینا یقیناً عام افراد کو اس کے پس منظر میں چھپے مطلب پر غور کرنے میں مدد دے گا۔

  • پاکستانی ثقافت کا گم گشتہ پہلو ’دالان‘ لندن میں جلوہ گر

    پاکستانی ثقافت کا گم گشتہ پہلو ’دالان‘ لندن میں جلوہ گر

    آپ کو وہ زمانہ یقیناً یاد ہوگا جب بڑے بڑے گھروں میں خوبصورت دالان ہوا کرتے تھے۔ دالان وہ کشادہ اور وسیع راہداریاں ہوتی ہیں جو آج کل کی تنگ راہداریوں کی طرح صرف گزرنے کے کام نہیں آتیں بلکہ یہاں بیٹھنے کا سامان رکھ کر اکثر محفلیں سجائی جاتی تھیں اور بچے ان دالانوں میں کھیلا کرتے تھے۔ ان دالانوں پر چھت بھی ہوتی ہے جو عموماً محراب دار ہوتی ہے۔

    ایران کے کئی شہروں میں ایسے بازار موجود ہیں جو محراب دار دالانوں کی شکل میں ہیں یعنی وسیع اور چوڑی راہداریوں میں دکاندار اپنا خوانچہ سجائے بیٹھے ہیں۔

    لیکن اب یہ مقام شاذ ہی کہیں نظر آتا ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، بدلتے ہوئے طرز زندگی اور کم جگہ کے باعث رہائش کے لیے فلیٹوں اور چھوٹے گھروں کی تعمیر نے صرف ایک دالان تو کیا ہمارے رہنے کے لیے مناسب کھلی جگہ بھی چھین لی۔ ایک گنجان آباد شہر میں رہنے والا شخص شاید ہی بتا سکے کہ اس نے آخری بار آسمان پر چاند کب دیکھا تھا؟ یا وہ کون سا دن تھا جب اس نے آخری بار سورج ڈھلتے دیکھا؟ یا جب بارشوں کا موسم آتا ہے تو اسے ابلتے گٹروں، جا بجا کھڑے پانی اور لوڈ شیڈنگ کے علاوہ مٹی کی وہ سوندھی خوشبو بھی محسوس ہوئی جو بارش کا پہلا قطرہ زمین پر پڑتے ہی چہار سو پھیل جاتی ہے؟

    آپ سمیت یقیناً بہت سے افراد ان سوالات پر تذبذب کا شکار ہوجائیں گے۔

    تو چلیں پھر آپ کو ان لوگوں سے ملواتے ہیں جنہوں نے شاید ان سب کو محسوس کیا ہو تب ہی ان چیزوں کو یاد کروانے کے لیے انہوں نے اپنا تصوراتی اور تخیلاتی دالان تشکیل دے ڈالا۔

    چھ افراد پر مشتمل پاکستانی تخلیق کاروں کی تخلیق ‘دالان‘ آج کل لندن کے سمرسٹ ہاؤس میں ہونے والی لندن ڈیزائن بینالے 2016 میں جلوہ گر ہے جو مشرقی و مغربی افراد کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔

     یہ ڈیزائن کراچی کے کوئلس ڈیزائن اسٹوڈیو کے تخلیق کاروں نے تشکیل دیا ہے جس میں ایک تخیلاتی دالان کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ اسٹوڈیو اس سے قبل بھی ’نروان‘ اور ’زاویہ‘ نامی ڈیزائن تشکیل دے چکا ہے جو ادب اور مصوری کی سرحدوں کو ملا کر تشکیل دیے گئے ہیں۔

    یہاں کی سب سے منفرد چیز گھومنے والے اسٹولز ہیں جنہیں لٹو کا نام دیا گیا ہے۔ چھت سے اسکرین پرنٹ (ڈیجیٹل سطح پر سیاہی یا دھات سے تصویر کشی) کے ذریعہ تصاویر آویزاں کی گئی ہیں جن میں پاکستانی ثقافت سے جڑے بچوں کے مختلف کھیلوں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

    لندن میں ہونے والی اس نمائش کا مرکزی خیال آرٹ کے ذریعہ یوٹوپیا (خیالی دنیا) تشکیل دینا ہے جہاں فنکار اپنے خیالات و تصورات کو حقیقت میں ڈھال کر پیش کرسکتے ہیں۔ ایک فنکار کے تصور کی کوئی سرحد نہیں لہٰذا یہاں پیش کیے گئے نمونہ فن ایسے ہیں جو عام افراد کی سوچ و ادراک سے بالکل بالاتر ہے۔

    دالان کے تخلیق کاروں کی ٹیم نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پاکستانی ثقافت کو بیرون ملک پیش کرتے ہوئے نہایت فخر محسوس کر رہے ہیں۔ ’لوگ یہاں آتے ہیں اور جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ یہاں تشکیل دیا گیا نمونہ فن دراصل پاکستانی ثقافت و روایت کا حصہ ہے تو وہ حیران رہ جاتے ہیں‘۔

    سلمان جاوید، فائزہ آدم جی، علی حسین، مصطفیٰ مہدی، حنا فینکی، اور زید حمید پر مشتمل یہ تمام فنکار انڈس ویلی اسکول آف آرٹس سے فارغ التحصیل ہیں اور چونکہ اس ٹیم میں ماہر تعمیرات (آرکیٹیکچر)، ٹیکسٹائل ڈیزائنر، اور گرافک ڈیزائنر شامل ہیں لہٰذا ان تمام علوم کی آمیزش سے تخلیق کیا ہوا فن پاکستانی فن و مصوری کو نئی جہتیں عطا کررہا ہے۔

    لندن میں جاری اس 10 روزہ نمائش میں ’دالان‘ کو یہاں پیش کی گئی بہترین 6 تخلیقات میں سے ایک کا اعزاز مل چکا ہے۔ کوئلس ڈیزائن اسٹوڈیو کی ٹیم اس سے قبل گذشتہ برس بھی دبئی ڈیزائن ویک میں پاکستانی پویلین کے ذریعہ اپنا فن پیش کر چکی ہے جسے بہترین پویلین کے اعزاز سے نوازا گیا۔

    دالان کی روایت و رومانویت نے دراصل اردو شاعری کو بھی کافی متاثر کیا ہے۔

    کئی شاعر اپنی شاعری میں محبوب کے ہجر و فراق میں دالان کا ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

    ساری گلی سنسان پڑی تھی باد فنا کے پہرے میں
    ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا

    ۔ جون ایلیا

    دالان کے تخلیق کاروں کا مقصد بھی یہی ہے کہ جب لوگ ان کے فن کو دیکھیں تو وہ اس بھولے بسرے وقت کو یاد کریں جب لمبی دوپہریں اور ٹھنڈی شامیں دالانوں کے سائے میں گزرتی تھیں اور انہیں احساس ہو کہ زندگی کی تیز رفتار چال کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش میں وہ اپنی ثقافت کے خوبصورت پہلوؤں کو بھی بھلا بیٹھے۔

    برطانیہ میں تعینات پاکستانی سفیر سید ابن عباس نے بھی نمائش کا دورہ کیا اور پاکستانی تخلیق کاروں سے ملاقات کی۔ ان کے حیرت انگیز فن کی تعریف کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’آپ لوگ پاکستان کا اصل چہرہ ہیں اور دراصل آپ ہی پاکستان کی درست اور حقیقی نمائندگی کر رہے ہیں‘۔

    انہوں نے کہا کہ جس طرح ان فنکاروں نے پاکستانی ثقافت اور طرز زندگی کو اجاگر کیا ہے یہ کوشش نہایت قابل تعریف ہے۔

    پاکستان کی دم توڑتی روایات کو زندہ کرنے کی کوششوں کی اس مثال کا اب تک کئی ہزار افراد دورہ کر چکے ہیں اور وہ اس اچھوتے اور سادہ ڈیزائن کو دیکھ کر سحر زدہ رہ جاتے ہیں۔

    لندن کے سمرسٹ ہاؤس میں جاری یہ نمائش مزید ایک روز تک جاری رہے گی اور ہر خاص و عام کے لیے دعوت عام ہے۔

  • محبوبہ کی ہیرے کی فرمائش، چینی آرٹسٹ نے شاہکار بنا ڈالا

    محبوبہ کی ہیرے کی فرمائش، چینی آرٹسٹ نے شاہکار بنا ڈالا

    مرد حضرات اکثر خواتین کی مہنگی مہنگی فرمائشوں سے پریشان رہتے ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آتا کہ وہ اپنی محدود تنخواہ میں آخر کیسے ان کی مہنگی فرمائشوں کو پورا کریں۔

    چین میں بھی ایک شخص کو ایسی ہی مشکل پیش آئی جب اس کی محبوبہ نے اس سے قیمتی ترین ہیرے زمرد کی انگوٹھی کی فرمائش کر ڈالی۔

    اس شخص نے یہ فرمائش پوری تو کردی لیکن اس طرح کہ کہ اس کی جیب پر کوئی بوجھ نہیں پڑا۔

    r7

    آپ حیران ہوں گے کہ اس نے مہنگے زمرد کی انگوٹھی آخر کیسے حاسل کی۔ تو اس کا جواب یہ کہ اس نے یہ انگوٹھی خود اپنے گھر پر بنائی۔ اور آپ جان کر دنگ رہ جائیں گے کہ اس نے یہ انگوٹھی شیشے کی بوتل کو کاٹ کر بنائی۔

    آرٹ کا یہ اسٹوڈنٹ اپنی اس کاوش کو بہترین قرار دیتا ہے جس سے وہ نہ صرف اپنی محبوبہ کو خوش کرنے میں کامیاب رہا بلکہ اس نے ایک بڑی رقم خرچ ہونے سے بھی بچا لی۔

    اس نے سبز رنگ کی شیشے کی بوتل کا نچلا حصہ کاٹ کر اس کی گھسائی کی اور ماہرانہ انداز میں اسے ایک ہیرے کی شکل دے ڈالی۔

    r2

    r3

    r4

    r5

    مصنوعی ہیرا بنانے کے مراحل کی تصاویر جب سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں تو ہر شخص اس کی صلاحیتوں اور عقلمندی پر اش اش کر اٹھا۔

    r6

    ایک شخص نے تبصرہ کیا، ’یہ ہیرا مہنگا تو نہیں لیکن دنیا کا خوبصورت ترین ہیرا ہے‘۔

    تو پھر کیا خیال ہے آپ کا، کیا آپ بھی شیشہ سے ہیرا بنا کر کسی کو خوش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

  • عام استعمال کی اشیا آرٹ کے شاہکار میں تبدیل

    عام استعمال کی اشیا آرٹ کے شاہکار میں تبدیل

    ایک فنکار دیگر انسانوں سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ ہر شے کو ایک ایسی الگ نگاہ سے دیکھتا ہے جو کوئی دوسرا نہیں دیکھ سکتا۔ فنکار کو وہ معمولی اشیا، جو ہمارے سامنے رکھی ہوتی ہیں اور ہم انہیں کبھی غور سے نہیں دیکھتے، ان میں بھی فن نظر آتا ہے۔

    ایک فرانسیسی آرٹسٹ گلبرٹ لگنارڈ نے بھی ایسے ہی روزمرہ میں استعمال ہونے والی اشیا کو رنگ و روغن کی مدد سے آرٹ کے شاہکار میں تبدیل کردیا۔

    اس نے ان چیزوں جیسے پینٹ برش، نلکا، قینچی، اسپرے کی بوتل، زپ وغیرہ پر صرف چہرہ اور ہاتھ پاؤں بنا کر انہیں ایک خوبصورت شاہکار کی شکل دے ڈالی۔

    آئیے آپ بھی ان کے کام کو دیکھیں اور اسے سراہیں۔

    6

    10

    9

    8

    7

    5

    4

    3

    2

  • سبین محمود کے ’ٹی ٹو ایف‘ کے لیے ایک اور اعزاز

    سبین محمود کے ’ٹی ٹو ایف‘ کے لیے ایک اور اعزاز

    کراچی: کراچی میں واقع مشہور سماجی سرگرمیوں کے مرکز ’دی سیکنڈ فلور ۔ ٹی ٹو ایف‘ کو رواں برس پرنس کلاز ایوارڈز کے لیے منتخب کرلیا گیا ہے۔ ٹی ٹو ایف سبین محمود کا قائم کردہ ہے جنہیں گذشتہ برس قتل کردیا گیا تھا۔

    پرنس کلاز ایوارڈ ہر سال فن و ثقافت کے شعبہ میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والوں کو دیا جاتا ہے۔ رواں برس یہ ایوارڈ دی سیکنڈ فلور ۔ ٹی ٹو ایف کو دیا جارہا ہے جو اپنی سماجی اور فن و ادب کی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہے۔

    sabeen-3

    یہ ایوارڈ نیدر لینڈز کے شہزادے کی طرف سے رواں برس 15 دسمبر کو پیش کیا جائے گا۔ ٹی ٹو ایف کی ڈائریکٹر ماروی مظہر کے مطابق یہ ٹی ٹو ایف کی پوری ٹیم کے لیے ایک پرمسرت اور پرجوش لمحہ ہے۔ ’لیکن کاش کہ سبین محمود اپنی محنت کو بار آور ہوتا دیکھنے کے لیے خود موجود ہوتیں‘۔

    مزید پڑھیں: پروین رحمٰن اور سبین محمود کے نام سے شاہراہیں منسوب

    مزید پڑھیں: سبین محمود کے قتل کو ایک سال بیت گیا

    سبین محمود کے قتل کے بعد ڈائریکٹرز کی ایک ٹیم اس ادارے کے انتظامی امور کو دیکھ رہی ہے اور ماروی مظہر ان میں سے ایک ہیں۔

    سبین کی والدہ مہناز محمود نے بھی اس موقع پر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔

    sabeen-2

    دی سیکنڈ فلور 2007 میں قائم کیا گیا تھا اور یہاں فن و ادب کے چاہنے والے، فنکار، طلبہ اور مختلف شعبہ جات کے لوگ آیا کرتے ہیں۔ یہاں کئی علمی و ادبی بحثیں بھی منعقد کی جاتی ہیں۔

    سنہ 2015 میں دا سیکنڈ فلور کی ڈائریکٹر سبین محمود کو قتل کردیا گیا۔ ان کے چاہنے والے تاحال ان کے خون ناحق کا انصاف کیے جانے کے منتطر ہیں۔

  • ‘اک خواب سفر میں رہتا ہے’

    ‘اک خواب سفر میں رہتا ہے’

    جنگیں سب کچھ تباہ کردیتی ہیں۔ یہ شہروں کو برباد کرکے وہاں رہنے والے لوگوں سے ان کے زندہ رہنے کی امیدیں بھی چھین لیتی ہیں۔ بچے، بڑے، بزرگ، خواتین، جنگلی حیات، درخت، فطرت سب کچھ ہی جنگ کی تباہ حالی کاشکار ہوجاتے ہیں۔

    جنگوں سے بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی تعلیم، کھیل کود، ان کا پورا بچپن جنگ کی نذر ہوجاتا ہے اور وہ تا عمر اس کے ہولناک اثرات کا شکار رہتے ہیں۔

    لیکن بچوں کی ایک اچھی عادت یہ ہے کہ وہ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ سخت ترین حالات میں بھی وہ اچھے وقت کی آس لگائے ہوتے ہیں اور اس دن کے انتظار میں ہوتے ہیں جب سورج نکلے گا اور اور وہ بلا خوف خطر سبزہ زاروں میں کھیل سکیں گے۔

    لاکھوں بچے ہجرت پر مجبور *

    اقوام متحدہ کے امور برائے انسانی ہمدردی کے ادارے یو این او سی ایچ اے نے جنگ زدہ علاقوں میں ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا جس کے تحت جنگوں سے متاثر بچوں سے ان کے مستقبل کے منصوبوں کے بارے دریافت کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے کچھ غیر ملکی اخبارات کے فوٹو گرافرز کی خدمات حاصل کی گئیں۔

    ان فوٹو گرافرز نے اردن میں واقع شامی مہاجرین کے کیمپ اور افریقہ میں شورش زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور وہاں موجود بچوں کی تصویر کشی کی۔

    اس پروجیکٹ کا مقصد دنیا کو جنگ کے بدنما اور ہولناک اثرات کی طرف توجہ دلانا تھا کہ کس طرح جنگیں اور تنازعات ننھے ذہنوں کے خوابوں کو چھین لیتے ہیں۔

    1

    اردن میں پناہ گزین شام سے تعلق رکھنے والی فاطمہ آرکیٹیکچر بننا چاہتی ہے۔ اس کا خواب ہے کہ وہ اجڑے ہوئے شام میں دوبارہ سے خوبصورت گھر اور عمارتیں تعمیر کرے گی۔

    13

    وسطی جمہوری افریقہ سے تعلق رکھنے والا مصطفیٰ فوٹو گرافر بننا چاہتا ہے۔

    2

    شام سے ہی تعلق رکھنے والی ایک اور بچی ہاجا خلا باز بننا چاہتی ہے۔ وہ بتاتی ہے، ’میں جب اسکول کی کتابوں میں خلا کے بارے میں پڑھتی تھی تو مجھے وہ بہت دلچسپ لگتا تھا، میں خلا میں جانا چاہتی ہوں‘۔

    ہاجا آج کل اردن کے پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہے۔

    3

    وسطی جمہوری افریقہ کی چباؤ پائلٹ بننا چاہتی ہے۔

    عوامی جمہوریہ کانگو سے تعلق رکھنے والا ایلادی سیاستدان بننا چاہتا ہے۔

    5

    نائیجریا سے تعلق رکھنے والی سکیما استاد بننا چاہتی ہے۔

    6

    ایک اور شامی بچی فاطمہ سرجن بننا چاہتی ہے۔

    8

    وسطی جمہوری افریقہ کے مہمت کو فٹبال اور میوزک دونوں کا جنون ہے۔ بڑے ہونے کے بعد وہ ان دونوں میں سے کسی ایک شعبہ میں جانا چاہتا ہے۔

    9

    سیرالیون سے تعلق رکھنے والا مائیکل مستقبل میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔

    11

    شامی بچی امینہ پائلٹ بننا چاہتی ہے۔

    اردن میں قیام پذیر منتہا فوٹو گرافر بننا چاہتی ہے۔

    14

    وسطی جمہوری افریقہ کی سفینہ شیف بننا چاہتی ہے۔

    10

    شامی پناہ گزین نسرین ٹریفک پولیس اہلکار بننا چاہتی ہے۔

    وسطی جمہوری افریقہ کا ابراہیم اپنے ملک کی فوج میں بطور سپاہی خدمات انجام دینا چاہتا ہے۔