Tag: آرٹ

  • اپنی تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کریں

    اپنی تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کریں

    کیا آپ آئزک اسیموو کو جانتے ہیں؟ آئزک اسیموو ایک امریکی مصنف اور پروفیسر ہیں جنہوں نے سائنس فکشن پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی کتابوں کی تعداد 500 سے زائد ہے، جی ہاں 500۔

    آئزک کی تحریروں کی تعداد اس قدر ہے کہ اگر آپ ان کی تحاریر کا شمار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو 25 سال تک ہر دو ہفتے بعد ایک مکمل ناول لکھنا ہوگا۔ آئزک نے اپنی خود نوشت سوانح حیات بھی لکھی جس کا نام ہے، ’اچھی زندگی گزری‘۔

    شاید یہ ہمارے لیے ایک حیرت انگیز بات ہو کیونکہ ہم میں سے بہت سے افراد کتاب لکھنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ایسا کون سا موضوع اور کون سا خیال چنیں جسے پھیلا کر ایک کتاب کی شکل دی جاسکے۔

    کچھ باعلم افراد اپنی زندگی میں ایک، 2 یا 5 کتابیں بھی لکھ لیتے ہیں لیکن 500 کتابیں لکھنے کا خیال ان کے لیے بھی کافی مشکل ہوگا۔

    لیکن فکر نہ کریں، آئزک نے اپنی سوانح میں ان رازوں سے آگاہی دی ہے جن کے ذریعہ وہ اتنی بڑی تعداد میں کتابیں لکھنے میں کامیاب ہوئے۔ آئزک کا کہنا ہے کہ کوئی بھی تخلیقی کام، شاعری، مصوری، قلم کاری یا موسیقی تخلیق کرتے ہوئے تخلیق کار یکساں کیفیات و مراحل سے گزرتے ہیں۔

    آئیے آپ بھی وہ راز جانیں جنہوں نے آئزک کو ایک بڑا مصنف بنایا۔


    سیکھنا مت چھوڑیں

    آئزک اسیموو ویسے تو ایک سائنس فکشن رائٹر کے طور پر مشہور ہیں۔ انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے طبیعات، قدیم تاریخ، حتیٰ کہ انجیل پر بھی ایک کتاب لکھ ڈالی۔

    تو آخر انہوں نے اتنے متنوع موضوعات پر کتابیں کیسے لکھ لیں؟

    اس بارے میں وہ بتاتے ہیں، ’مختلف موضوعات پر کتابیں میں نے اس بنیادی معلومات کی بنا پر نہیں لکھیں جو میں نے اسکول میں حاصل کیں۔ میں ان تمام موضوعات پر ساری زندگی پڑھتا رہا‘۔

    آئزک کی لائبریری میں ہر موضوع پر کتابیں موجود ہیں۔ وہ تاریخی، خلائی اور سائنسی میدان میں ہونے والی اصلاحات، تحقیقات اور نئی دریافتوں سے خود کو آگاہ رکھتے تھے اور مستقل مطالعہ کرتے رہتے تھے۔


    جمود سے مت لڑیں

    آئزک کہتے ہیں کہ ہر عام انسان کی طرح اکثر اوقات وہ بھی جمود کا شکار ہوگئے اور کئی بار لکھنے کے دوران وہ خود کو بالکل خالی الدماغ محسوس کرنے لگے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ کوئی موضوع آپ کا کتنا ہی پسندیدہ کیوں نہ ہو، آپ اسے لکھنے کے دوران بھی جمود کا شکار ہوسکتے ہیں اور آپ کو یوں لگتا ہے جیسے آپ کے خیالات ختم ہوگئے ہیں۔

    اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے آئزک نہایت شاندار تجویز دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایسے موقع پر وہ مذکورہ کام کو ادھورا چھوڑ کر دوسرے کاموں میں مصروف ہوجاتے تھے۔ کسی دوسرے موضوع پر لکھنا، یا مطالعہ یا کوئی بالکل متضاد کام۔

    تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد ان کے جمود کی کیفیت ختم ہوجاتی تھی اور جب وہ اس ادھورے کام کو مکمل کرنے کے لیے واپس پلٹتے تھے تو اس بار ان کا دماغ توانائی اور نئے خیالات سے بھرپور ہوتا تھا۔


    رد کیے جانے کا خوف

    آئزک کا کہنا ہے کہ کسی بھی تخلیق کار، مصور، شاعر، قلم کار، مصنف حتیٰ کہ اپنے کاروبار میں نئے نئے آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے والا بزنس مین بھی اس خوف کا شکار ہوتا ہے کہ جب اس کا آئیڈیا حقیقت کا روپ دھارے گا تو کیا لوگ اسے قبول کریں گے؟

    لکھنے والے افراد اکثر اس تذبذب کا شکار ہوتے ہیں کہ آیا جو انہوں نے لکھا وہ پڑھے جانے کے قابل بھی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پڑھنے والے کو یہ سب بے ربط اور غیر منطقی لگے۔

    آئزک کے مطابق یہ خوف ایک مثبت شے ہے، کیونکہ اس خوف کی وجہ سے تخلیق کار اپنی تخلیق کی نوک پلک بار بار درست کرتا ہے اور اسے بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

    لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس خوف کو اس قدر حاوی نہ کیا جائے کہ تخلیق کار کا تخلیقی خیال اس کے اندر ہی گھٹ کر مر جائے اور صرف اس خوف کی وجہ سے دنیا کے سامنے نہ آسکے کہ یہ پسندیدگی کا درجہ نہیں پاسکے گی۔


    معیار کو پست کریں

    اپنی سوانح میں آئزک لکھتے ہیں کہ کہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی مصور اپنی پہلی ہی کوشش میں مونا لیزا جیسی شہرہ آفاق پینٹنگ تخلیق کر ڈالے۔ ان کا ماننا ہے کہ جب آپ اپنے تخلیقی کام کا آغاز کریں تو اسے شاہکار کی صورت پیش کرنے کا خیال دل سے نکال دیں اور اپنے معیارات کو نیچے لے آئیں۔

    وہ کہتے ہیں کہ اپنی ابتدائی تخلیق کو سادہ لیکن اچھا پیش کریں۔ جب تک آپ کو تجربہ نہ ہوجائے اسے بہت شاندار یا شاہکار بنانے سے گریز کریں۔ یہ امر آپ کی تخلیق (شاعری، مصوری، ناول) کو بگاڑ دے گا۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کوئی مضمون لکھ رہے ہیں تو اس میں دنیا جہاں کی معلومات دینے کے بجائے صرف وہ معلومات شامل کریں جن کے بارے میں آپ 100 فیصد پریقین ہوں اور وہ ہر حال میں درست ہوں۔ اس مضمون کے پھیلاؤ کو کم کریں اور کسی ایک موضوع تک محدود کریں تاکہ آپ پوری طرح اس کا حاطہ کرسکیں۔

    یاد رکھیں کہ ایک تخلیق کار کبھی اپنی تخلیق سے نفرت نہیں کرسکتا۔ آپ کی ابتدائی تخلیق ہوسکتا ہے کہ آپ کے ہم پیشہ کسی تجربہ کار شخص کے لیے خاص نہ ہو، لیکن وہ ان افراد کے لیے ضرور دلچسپی کا باعث ہوگی جو اس موضوع کے بارے میں بہت کم یا بالکل معلومات نہیں رکھتے۔


    خیال کو طاری کرلیں

    آئزک اسیموو سے ایک بار کسی نے پوچھا، ’تم اپنی کتاب کے لیے اتنے سارے آئیڈیاز کیسے سوچ لیتے ہو‘؟

    آئزک کا جواب تھا، ’میں سوچتا رہتا ہوں، سوچتا رہتا ہوں اور ایک خیال، ایک آئیڈیے سے نئے آئیڈیاز نکلتے جاتے ہیں‘۔

    وہ بتاتے ہیں کہ تنہا راتوں میں، میں ایک خیال پر سوچتا رہتا ہوں۔ اس میں موجود خوشی کے واقعات پر خوش ہوتا ہوں، اور اداس واقعات پر روتا ہوں۔ اس طرح ایک خیال سے کئی خیالات وجود میں آجاتے ہیں۔

    تو پھر کیا خیال ہے آپ کا؟ آئزک اسیموو کے یہ راز آپ کی تخلیقی صلاحیت کو مہیز کرنے میں کتنے کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • قاہرہ کی سڑکوں پر رقصاں خواتین بیلے ڈانسرز

    قاہرہ کی سڑکوں پر رقصاں خواتین بیلے ڈانسرز

    کیا آپ نے کبھی بیلے ڈانسرز کو سڑک پر رقص کرتے دیکھا ہے؟

    مغربی ممالک میں تو شاید یہ ایک عام بات ہو لیکن ایشیائی خصوصاً مسلمان ممالک میں یہ ایک نہایت ہی حیرت انگیز اور غیر معمولی بات ہے۔ سڑک پر رقاصوں اور خصوصاً خواتین رقاصاؤں کا رقص بہت سوں کو ناگوار گزر سکتا ہے۔

    مصر کے دارالحکومت میں بھی ایک فوٹو گرافر اور چند بیلے ڈانسرز نے قاہرہ کی سڑکوں پر رقص کر کے لوگوں کو ناک بھوں چڑھانے پر مجبور کردیا۔ بیلے ڈانس رقص کی ایسی قسم ہے جس میں رقاص اپنے پاؤں کی انگلیوں کے سہارے رقص کے مختلف مراحل سر انجام دیتا ہے۔

    cairo-9

    cairo-3

    محمد طاہر نامی یہ فوٹوگرافر اس سے قبل بہت سے ممالک میں سڑک پر بیلے ڈانس کے مظاہرے اور ان کی تصویر کشی و عکس بندی دیکھ چکا تھا اور وہ مصر میں بھی ایسا ہی فوٹو پروجیکٹ شروع کرنا چاہتا تھا۔

    جب اس نے چند بیلے ڈانسرز کی مدد سے اس پر کام شروع کیا تو بہت جلد اس کی تصاویر خواتین کی خود مختاری کی علامت بن گئیں۔ اس کی یہ تصاویر سڑکوں پر خواتین کی چھیڑ چھاڑ اور ہراسمنٹ کے خلاف ایک استعارے کے طور پر لی جانے لگیں۔

    cairo-10

    cairo-4

    Happiest of birthdays to our beautiful ballerina @haniahindy ❤️

    A post shared by Ballerinas of Cairo (@ballerinasofcairo) on

    محمد طاہر نے نہ صرف ان رقاصاؤں کی رقص کرتے ہوئے تصویر کشی کی، بلکہ پس منظر میں ان افراد کو بھی عکس بند کرلیا جو ان ڈانسرز کو حیرت، ناگواری، یا تعجب سے دیکھ رہے ہیں۔

    cairo-5

    cairo-6

    قاہرہ شہر کی اندرونی گلیوں میں عکس بند کی جانے والی ان تصاویر کے پس منظر میں قاہرہ کی قدیم اور روایتی مضبوط دیواریں، گلیاں، گھر اور دیگر تاریخی تعمیرات اور ان کے سامنے بیلے ڈانس کا مظاہرہ، دیکھنے والوں کو مبہوت کردیتا ہے۔

    cairo-7

    cairo-2

    cairo-8

    cairo-11

     


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • فطرت کے رنگ اجاگر کرتے لباس

    فطرت کے رنگ اجاگر کرتے لباس

    تخلیقی ذہن کے افراد ہر چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اسے اپنی تخلیق میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہانی کار اور مصنف روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے کہانی تخلیق کرتے ہیں۔ مصور روزمرہ کی چیزوں کو دیکھ کر انہیں اپنے خیالات اور رنگوں میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔

    روس کی ایسی ہی ایک ڈیزائنر لیلیا ہڈیاکووا نے ایسے لباس تخلیق کیے جو فطرت سے متاثر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں فطرت سے قریب رہنا پسند ہے اور اسی لیے انہوں نے اپنے ڈیزائن کردہ لباسوں میں فطرت کو اجاگر کیا۔

    گو کہ کسی قدرتی منظر کو انسانی تخلیق میں ڈھالنے میں کچھ تبدیلیاں آجاتی ہیں لیکن لیلیا نے حیرت انگیز طور پر فطرت کا رنگ برقرار رکھا ہے۔

    ان کے لباسوں میں قدرتی مناظر، پھول، باغ، پہاڑ اور تاریخی عمارتوں کا خوبصورت اور حیرت انگیز اظہار دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔

    8

    4

    5

    1

    6

    7

    11

    12

    17

    18

    19

    20

    21

    22


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • عربی سے نابلد ہونے کے باوجود آپ ان الفاظ کا مطلب جان جائیں گے

    عربی سے نابلد ہونے کے باوجود آپ ان الفاظ کا مطلب جان جائیں گے

    لفظوں کو ان کے لغوی معنوں میں ڈھلتے دیکھنا ایک نہایت ہی دلچسپ مرحلہ ہوگا جو یقیناً لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے گا۔

    مثال کے طور پر لفظ ’بلی‘ کو اگر آپ کے سامنے ایسی صورت میں پیش کیا جائے کہ پہلی نظر میں وہ آپ کو دیکھنے پر ایک بلی ہی معلوم ہو، تو یہ یقیناً ایک خوشگوار اور دلچسپ تجربہ ہوگا۔

    ایک عربی فنکار محمد السید نے ایسا ہی کچھ دلچسپ فن تخلیق کیا۔

    اس نے مختلف عربی الفاظ کو ان کے لغوی معنوں کی تصویر میں اس طرح ڈھالا کہ عربی سے نابلد افراد اسے دیکھتے ہی اس لفظ کا مطلب جان جائیں۔

    اس نے ان تصاویر کے ساتھ ان کا تلفظ اور انگریزی مطلب بھی پیش کیا۔

    محمد نے اس طرح کے 40 الفاظ کو رنگوں اور تصاویر میں ڈھالا۔ ان میں سے کچھ ہم آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔

    6

    3

    2

    1

    5

    7

    10

    11

    13

    14

    4

    15

    12

    9

    8


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کتابوں میں چھپی خفیہ مصوری

    کتابوں میں چھپی خفیہ مصوری

    کتاب یوں تو معلومات کا ذخیرہ ہوتی ہے اور پڑھنے والے کے علم میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے، لیکن اگر کتاب کو مصوری کی صنف کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو وہ فن کا شاہکار بن جاتی ہے۔

    انسانی تہذیب کے آغاز کے ساتھ ساتھ جہاں ہمیں ہر شعبے میں مختلف اور اپنے زمانے کے لحاظ سے جدید تکنیکیں نظر آتی ہیں وہیں فن مصوری میں بھی بے شمار جہتیں نظر آتی ہیں۔

    ایسی ہی ایک جہت فور ایڈج پینٹنگ ہے جو کتاب کے صفحوں کے بالکل کناروں پر کی جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: آرٹ گیلری میں قوس قزح

    یہ تصاویر کتاب کو ایک خاص زاویے پر رکھنے کے بعد ہی نظر آسکتی ہیں۔ اگر کتاب کو بند کردیا جائے یا مکمل کھولا جائے تب ان پینٹنگز کو دیکھنا ناممکن ہے۔

    انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کا کہنا ہے کہ اس فن کا آغاز یورپی قرون وسطیٰ کے دور میں ہوا مگر یہ سترہویں سے انیسویں صدی کے درمیان اپنے عروج پر پہنچا۔

    امریکی شہر بوسٹن کی پبلک لائبریری میں ایسی ہی کئی کتابوں کو مختلف مقامات سے لا کر جمع کیا گیا ہے جن پر مصوری کی یہ صنف کی گئی ہے۔

    آئیے آپ بھی یہ حیرت انگیز تصاویر دیکھیں۔

    art-1

    art-2

    art-3

    art-5

    art-4

    اور اب دیکھیں کہ یہ پینٹنگز بنائی کس طرح جاتی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مصوری کے فن پارے جیسا رنگوں بھرا گھر

    مصوری کے فن پارے جیسا رنگوں بھرا گھر

    امریکی ریاست کیلیفورنیا میں ایک گھر کو اس قدر رنگوں سے رنگا گیا ہے، کہ اس کو دیکھ کر آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ نے رنگوں سے سجے کسی تخیلاتی فن پارے میں قدم رکھ دیا ہے۔

    15

    18

    8

    کیلی فورنیا کے پام اسپرنگ کے علاقے میں واقع اس گھر کے مالکان نے جب اسے خریدا تو یہ بالکل سادہ عام سا گھر تھا۔

    2

    6

    14

    اسے خریدنے والا جوڑا سیاح تھا اور انہوں نے دنیا بھر کی ثقافت، آرٹ اور رنگوں کو اس گھر میں یکجا کردیا۔

    4

    13

    11

    گھر میں 2 بیڈرومز اور لونگ رومز موجود ہیں۔ گھر کا کچن بھی سبز رنگوں سے مزین بہت خوب ہے۔

    9

    16

    17

    سوئمنگ پول کے ساتھ خوبصورت پتھروں کا فرش موجود ہے جبکہ آس پاس پہاڑوں اور جنگل کا منظر دیکھنے والوں پر سحر طاری کردیتا ہے۔

    10

    5

    3

    اس خوبصورت گھر کی قیمت پاکستانی روپوں میں 5 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

    7

    1

    12

    کیا آپ ایسے خوبصورت رنگوں بھرے گھر میں رہنا چاہیں گے؟

    مزید پڑھیں: امریکی مصور نے قوس قزح بنا ڈالی


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • گلے میں آویزاں ننھی منی نوٹ بکس

    گلے میں آویزاں ننھی منی نوٹ بکس

    اگر آپ کتاب پڑھنے کے شوقین ہیں تو یقیناً آپ ہر وقت اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے ہوں گے تاکہ آپ کو جہاں وقت اور موقع ملے آپ اسے پڑھنا شروع کردیں۔

    لیکن امریکی شہر فلاڈلفیا سے تعلق رکھنے والی یہ آرٹسٹ کتاب کے کسی بھی دیوانے سے دو ہاتھ آگے ہے۔ یہ کتابوں کو گلے میں آویزاں کرنا چاہتی ہے اسی لیے اس نے یہ ننھی منی کتابیں تخلیق کر ڈالیں۔

    book-7

    book-5

    اس کے لیے اس نے استعمال شدہ صوفوں کے کور، پرانے لیدر بیگ اور بٹووں کو استعمال کیا اور ان کے ذریعہ یہ منی ایچر نوٹ بکس بنا ڈالیں۔

    book-3

    9

    book-4

    یہ نوٹ بکس ان افراد کے لیے خاص طور پر دلچسپی کا باعث ہیں جو منفرد اور عجیب و غریب زیورات سے خود کو آراستہ کرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔

    book-2

    11

    لیکن ساتھ ہی کچھ لوگ اسے شو پیس کے طور پر بھی استعمال کر رہے ہیں۔

    10

    book-6

    لکھنے کے مقصد کے لیے انہیں خریدنے والے پر منحصر ہے کہ وہ ان ننھی منی نوٹ بکس پر کیا لکھتا ہے۔
    13

    آپ ان منی ایچر نوٹ بکس کو کیسے استعمال کریں گے؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دنیا بھر کے تاریخی مقامات رکھنے والا ننھا منا شہر

    دنیا بھر کے تاریخی مقامات رکھنے والا ننھا منا شہر

    منی ایچر یعنی ننھا منا آرٹ نہایت خوبصورت لگتا ہے لیکن اسے بنانے کے لیے نہایت محنت اور مہارت درکار ہے۔

    ایسے ہی چند ماہر فنکاروں نے امریکی شہر نیویارک میں ایک ننھا منا سا میگا سٹی تشکیل دیا ہے جس کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں دنیا بھر میں موجود تاریخی مقامات اور یادگاریں بنائی گئی ہیں۔

    نیویارک کے ٹائمز اسکوائر پر 49 ہزار اسکوائر فٹ پر پھیلے اس ننھے لیکن عظیم شہر میں دنیا کے 50 ممالک کے یادگار اور خوبصورت مقامات موجود ہیں۔

    اس شہر کا نام مشہور افسانوی کردار گلیورز کے نام پر رکھا گیا ہے جو اپنے سفر کے دوران اسی طرح کی ایک ننھی منی سی دنیا دریافت کر بیٹھتا تھا۔

    گلیورز گیٹ نامی اس شہر میں معمولی معمولی سی باریکیوں کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔

    یہاں ساحل سمندر، گھر، گاڑیاں، عمارتیں، پہاڑ، جنگلات، ریلوے ٹریکس اور ان سب کے درمیان چہل قدمی کرتے لوگ بھی بنائے گئے ہیں۔ حتیٰ کہ سڑک پر بنائی جانے والی زیبرا کراسنگ بھی نمایاں ہیں۔

    اس پروجیکٹ کی سربراہی ایک اسرائیلی ریٹائرڈ فوجی نے کی ہے اور اس کے ساتھ ایک سو فنکاروں نے اس پر کام کیا ہے۔

    ننھے منے میگا سٹی کی تعمیر پر 4 کروڑ ڈالرز خرچ ہوئے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • روشنی کے بغیر ہماری دنیا کیسی لگے گی؟

    روشنی کے بغیر ہماری دنیا کیسی لگے گی؟

    دنیا کی تیز رفتار صنعتی ترقی نے جہاں معاشی طور پر کئی ممالک کو خوشحال کردیا ہے وہیں یہ ہماری زمین اور اس کے ماحول کو بے تحاشہ نقصان بھی پہنچا رہی ہے۔

    تیز رفتار صنعتی ترقی اور آبادی میں تیزی سے اضافہ ہمارے ماحول کو کئی طرح سے آلودہ کررہا ہے جن میں ایک روشنیوں کی آلودگی بھی شامل ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہماری سڑکوں کے کنارے لگی اسٹریٹ لائٹس، ہمارے گھروں اور عمارتوں کی روشنیاں آسمان کی طرف جا کر واپس پلٹتی ہیں جس کے بعد یہ فضا میں موجود ذروں اور پانی کے قطروں سے ٹکراتی ہے۔

    ان کے ساتھ مل کر یہ روشنیاں ہمارے سروں پر روشنی کی تہہ سی بنا دیتی ہیں جس کی وجہ سے حقیقی آسمان ہم سے چھپ سا جاتا ہے اور یوں ہم آسمان کا خوبصورت نظارہ دیکھنے سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں روشنیوں کا یہ طوفان برقی آلودگی پیدا کر رہا ہے جو آسمان کی خوبصورت کہکشاں کے نظارے کو ہماری نگاہوں سے اوجھل کردے گا۔

    برطانوی ماہرین کی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں مصنوعی روشنیوں کے باعث موسمیاتی پیٹرن (طریقہ کار) میں تبدیلی آرہی ہے اور اس کے باعث موسم بہار ایک ہفتہ جلد آرہا ہے جس کا اثر پودوں پر بھی پڑ رہا ہے۔

    اسی طرح ایک اور تحقیق میں بتایا گیا کہ مصنوعی روشنیاں پرندوں کی تولیدی صحت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں جس سے ان کی آبادی میں کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق دیہاتوں اور ترقی پذیر علاقوں سے ترقی یافتہ شہروں کی طرف ہجرت کے رجحان یعنی اربنائزیشن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث مصنوعی روشنیوں کی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور یہ فطرت اور فطری حیات کو متاثر کر رہی ہے۔

    ایک فرانسیسی مصور نے کچھ انوکھی تکنیکوں کے ذریعہ روشنی کے بغیر شہروں کی عکاسی کی اور آسمان، چاند اور تاروں کے قدرتی حسن کو پیش کیا۔ آپ بھی یہ خوبصورت تصاویر دیکھیں۔

    پیرس
    نیویارک
    شنگھائی
    rio
    ریو ڈی جنیرو ۔ برازیل
    لندن

    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پرانی کتابیں تاریخی مقامات میں تبدیل

    پرانی کتابیں تاریخی مقامات میں تبدیل

    جیسے جیسے دنیا آگے بڑھ رہی ہے کتاب پڑھنے کا رواج ختم ہورہا ہے اور اس کی جگہ اسمارٹ فونز اور ای بکس نے لے لی ہے۔

    ایسی کتابیں جو بہت زیادہ پرانی ہوجائیں، خستہ حال اور پڑھنے کے قابل نہ ہوں انہیں عموماً ردی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایسی ہی کتابوں کو دوبارہ قابل توجہ بنانے کے لیے ایک فرانسیسی نژاد آرٹسٹ نے نہایت انوکھا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔

    گائے لارامی نامی یہ آرٹسٹ پرانی کتابوں کو جمع کر کے انہیں مشہور مقامات کی شکل میں تراش دیتا ہے۔

    وہ بہت سی کتابوں کو جمع کر کے انہیں کاٹ کر کسی مشہور تاریخی مقام (نقل) کی شکل دے دیتا ہے۔ ان کتابوں پر وہ قدیم قلعے، پہاڑ، دیواریں اور میدان تراشتا ہے۔

    لارامی نے اردن کے تاریخی مقام پیٹرا، دیوار چین اور بدھ مت کی قدیم عبادت گاہوں سمیت بے شمار تاریخی مقامات کو تخلیق کیا ہے۔

    وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ ان کتابوں کو خوبصورت شکل میں ڈھال لیتے ہیں تو لوگ اسے بہت شوق سے خریدتے ہیں۔ ’لیکن پرانی کتابوں کو کوئی نہیں خریدنا چاہتا‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔