Tag: آرٹ

  • رومی میوزک فیسٹول اگلے ماہ کراچی میں

    رومی میوزک فیسٹول اگلے ماہ کراچی میں

    کراچی: 3 روزہ عالمی رومی موسیقی میلے کا انعقاد کراچی میں کیا جائے گا۔ یہ میلہ مارچ کی 10، 11 اور 12 تاریخ کو منعقد ہوگا۔

    کراچی کے انڈس ویلی اسکول آف آرٹس اینڈ آرکیٹیکچر کی جانب سے پیش کیے جانے والے اس میلے کا مقصد عظیم صوفی شاعر مولانا جلال الدین رومی کی شاعری اور موسیقی کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔

    rumi-2

    میلے میں دنیا بھر سے مختلف میوزک بینڈ شرکت کریں گے۔ میلے میں موسیقی کے ساتھ آرٹ اور دستکاری کی نمائش اور مختلف مباحثے بھی منعقد ہوں گے۔

    رومی کون؟

    مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی 1207 میں بلخ میں پیدا ہوئے تھے جو اس وقت افغانستان کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن رومی کے زمانے میں یہ ایک مذہبی دارالخلافہ تھا اور بدھوں اور فارسی ادب کا مرکز تھا۔

    بعض مؤرخین کے مطابق بلخ نامی ایک اور علاقہ موجودہ تاجکستان میں بھی موجود تھا اور رومی وہیں پیدا ہوئے۔ منگول جنگجو چنگیز خان نے بھی 1221 میں اس پر حملہ کیا تھا۔

    منگولوں کے حملے کے دوران رومی نے وہاں سے ہجرت کرلی اور بغداد، مکہ اور دمشق کا سفر کرتے ہوئے ترکی کے شہر قونیہ آگئے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے 50 سے زائد برس گزارے۔

    مزید پڑھیں: رومی تمہارا نہیں ہے، افغانی سیخ پا ہوگئے

    یہیں ان کی ملاقات شمس تبریزی سے ہوئی۔ شمس تبریزی نے رومی کے خیالات و افکار پر گہر اثر ڈالا۔

    شمس تبریزی اور رومی کا ساتھ 2 برس تک رہا۔ اس کے بعد شمس تبریزی پراسرار طور پر غائب ہوگئے۔ بعض مؤرخین کے مطابق انہیں قتل کردیا گیا تاہم ان کی موت کے بارے میں حتمی معلومات دستیاب نہیں۔ ان کا مزار ایران کے شہر خوئے میں ہے جسے اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے۔

    رومی نے 3500 غزلیں، 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں۔ ان کی شاعری کا بے شمار زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ رومی کا مزار ترکی کے شہر قونیہ میں ہے جہاں رومی کی رباعیات پر کیا جانے والا صوفی رقص پوری دنیا میں مشہور ہے۔

    :رومی پر ہالی ووڈ فلم

    ہالی وڈ کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’گلیڈی ایٹر‘ کے مصنف ڈیوڈ فرنزونی رومی کی زندگی اور شاعری پر فلم بنانے جارہے ہیں۔

    اس حوالے سے ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ وہ جو فلم بنانے جا رہے ہیں وہ مغربی سنیما میں مسلمانوں کے بارے میں غلط تصورات کو ختم کردے گی۔ ’رومی ایک ایسا شاعر ہے جو لوگوں کی زندگیوں اور معاشروں پر اثرانداز ہوا۔ ایسے عظیم افراد کی شخصیت کو زیادہ سے زیادہ کھوجنے کی ضرورت ہے‘۔

    فلم میں رومی کا کردار آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو ادا کریں گے جبکہ شمس تبریزی کا کردار رابرٹ ڈاؤننگ جونیئر ادا کریں گے۔ فلم کی کاسٹ کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔

  • مرنے کے بعد رنگین ٹیٹو زدہ جلد نمائش کے لیے فروخت

    مرنے کے بعد رنگین ٹیٹو زدہ جلد نمائش کے لیے فروخت

    جلد پر ٹیٹو بنانا تو ایک عام سی بات ہے اور آپ نے بیشتر افراد کی جلد پر ٹیٹو دیکھا ہوگا۔ یہ ٹیٹو (تصاویر) کسی بھی قسم کی ہوسکتی ہیں، اور یہ تمام رنگوں میں اور ہر سائز کے ہوسکتے ہیں۔

    لیکن سوئٹزر لینڈ کے ایک شہری نے اپنی جلد پر اس قدر وسیع اور رنگین ٹیٹو بنوایا کہ اسے محفوظ رکھنے کے لیے اس نے اپنی جلد کو فروخت کردیا تاکہ مرنے کے بعد اس کی ٹیٹو زدہ جلد کو یادگار کے طور پر محفوظ کرلیا جائے۔

    tattoo-2

    زیورخ کا ٹم اسٹینر کچھ عرصہ قبل تک خود بھی ایک ٹیٹو پالر کا نگران تھا جہاں ٹیٹو بنائے جاتے تھے۔ یہ کام کرتے اور دیکھتے ٹم کو خود بھی ٹیٹو کا شوق ہوگیا نتیجتاً اس نے اپنی پیٹھ کی پوری جلد پر رنگین ٹیٹو بنوا ڈالا جو کسی طور آرٹ کے کسی شاہکار سے کم نہیں۔

    ٹم کا یہ ٹیٹو بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے ایک مصور نے بنایا ہے۔

    تاہم اب ٹم کے خیال میں اس کے مرنے کی صورت میں اس کی جلد، جو اب ایک فن پارے میں تبدیل ہوچکی ہے، مٹی کا حصہ بن جائے گی اور اس کے حل کے لیے اس نے اپنی جلد کو ایک جرمن آرٹ کلیکٹر کے ہاتھ ڈیڑھ لاکھ یوروز میں فروخت کردیا۔

    tattoo-6

    ٹم نے اس سے معاہدہ کیا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی جلد کو جسم سے علیحدہ کر کے فریم کروا کر کسی آرٹ گیلری میں رکھ دیا جائے گا۔

    ٹم کا کہنا ہے کہ جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اسے کسی حد تک بھیانک خیال کیا۔ ’آپ کسی فن پارے کو دیکھنے کے لیے رکیں اور آپ کو علم ہو کہ یہ کوئی کاغذ کا ٹکڑا نہیں بلکہ ایک انسانی جلد ہے تو یقیناً آپ کا خوف و کراہیت سے برا حال ہوجائے گا‘۔

    لیکن ٹم کے خیال میں اگر وہ ایسا نہ کرتا تو وہ آرٹ کے ایک خوبصورت فن پارے کو ضائع کردیتا۔

    لیکن اس سے قبل اس معاہدے کے تحت ٹم ایک اور کام کے لیے مجبور ہے۔ اسے اپنی بقیہ تمام زندگی آرٹ کی نمائشوں میں اپنی جلد کی نمائش بھی کرنی ہے۔ ٹم اسے ’زندہ کینوس‘ بننے کا نام دیتا ہے۔

    معاہدے کی اس شق کے تحت ٹم سال میں 3 بار کسی بڑی آرٹ کی نمائش میں، اسٹول پر مجسمے کی طرح ساکت بیٹھ جاتا ہے۔ یوں اس کی ٹیٹو زدہ جلد بھی فن پاروں میں شمار ہوتی ہے۔

    tattoo-3

    tattoo-4

    وہ بتاتا ہے کہ لوگ پہلے پہل اسے مجسمہ سمجھتے ہیں، لیکن جب وہ حرکت کرتا ہے اور لوگوں کو اس حکمت عملی کا علم ہوتا ہے تو وہ بہت حیران ہوتے ہیں۔

    tattoo-5

    tattoo-7

    ٹم کا کہنا ہے کہ یہ بہت دقت طلب اور اکتا دینے والا کام ہے، ’کئی گھنٹوں تک ایک ہی پوزیشن پر بیٹھے رہنا، اس دوران لوگ مجھے چھوتے بھی ہیں اور میرے بارے میں ہر قسم کی آرا کا اظہار کرتے ہیں‘۔

    گو کہ آرٹ کے دلدادہ ٹم کے لیے یہ سب کافی مشکل ہے لیکن وہ فن و مصوری کی ترویج کے لیے یہ مشکل کام بھی کر رہا ہے۔

  • صادقین ۔ رباعی کا شاعر، خطاطی کا امام

    صادقین ۔ رباعی کا شاعر، خطاطی کا امام

    پاکستان کے معروف خطاط، مصور اور شاعر صادقین کو آج ہم سے بچھڑے 30 برس گزر گئے۔ فرانس کے آرٹ سرکلز میں پاکستانی پکاسو کے نام سے یاد کیے جانے والے صادقین نے پاکستان میں فن خطاطی کو نئی جہتوں سے روشناس کروایا۔ ان کے ذکر کے بغیر پاکستانی فن مصوری ادھورا ہے۔

    سنہ 1930 میں سید صادقین احمد نقوی امروہہ کے جس سادات گھرانے میں پیدا ہوئے، وہ خاندان اپنے فن خطاطی کے حوالے سے نہایت مشہور تھا۔ صادقین کے دادا خطاط تھے، جبکہ ان کے والد باقاعدہ خطاط تو نہ تھے، البتہ نہایت خوشخط تھے۔

    امروہہ میں ابتدائی تعلیم اور آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد جب پاکستان کا وجود عمل میں آیا تو صادقین اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آبسے۔

    صادقین بچپن ہی سے گھر کی دیواروں پر مختلف اقسام کی خطاطی و تصویر کشی کیا کرتے تھے۔ ان کی تصاویر کی پہلی نمائش جس وقت منعقد ہوئی اس وقت ان کی عمر 24 برس تھی۔

    پاکستان کی فن مصوری اور خصوصاً فن خطاطی کو بام عروج پر پہنچانے والے مصور صادقین کا ذکر کرتے ہم شاعر صادقین کو بھول جاتے ہیں۔ وہ شاعر بھی اتنے ہی عظیم تھے جتنے مصور یا خطاط۔

    صادقین کے بھتیجے سلطان احمد نقوی جو کراچی میں مقیم ہیں، اور صادقین اکیڈمی کے امور کے نگران ہیں، بتاتے ہیں کہ صادقین کے اندر چھپا فنکار پہلے شاعر کی شکل میں ظاہر ہوا۔

    سلطان احمد کے مطابق صادقین 16 سال کی عمر میں باقاعدہ شاعر بن چکے تھے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’جزو بوسیدہ‘ کے نام سے موجود ہے جس میں صادقین کی اوائل نوجوانی کے ایام کی شاعری موجود ہے۔

    اے شوخ! ہے کب نفاق، مجھ میں تجھ میں

    اک وصل ہے اک فراق، مجھ میں تجھ میں

    اجسام میں اختلاف، میرے تیرے

    ہے وہ ہی تو اتفاق، مجھ میں تجھ میں

    صادقین نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اصناف سخن کی سب سے مشکل صنف یعنی رباعی کا انتخاب کیا۔ ان کی لکھی گئی رباعیات کی تعداد ڈھائی ہزار سے 3 ہزار کے قریب ہے اور بہت کم شاعر ایسے ہیں جنہوں نے اتنی زیادہ تعداد میں رباعیات لکھی ہوں۔

    ان کی رباعیات کا مجموعہ رباعیات صادقین خطاط اور رباعیات صادقین نقاش کے نام سے موجود ہے، جبکہ ان کے پوتے سبطین نقوی نے بھی ان کی رباعیات کا ایک مجموعہ مرتب کیا ہے۔


    صادقین کی خطاطی ۔ ضیا الحق کے دور کا جبر؟

    بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ صادقین کی خطاطی دراصل ضیا الحق کے اسلامائزیشن کے دور کا ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ اس دور میں صادقین کے اندر کا فنکار اسلامی خطاطی کے لبادے میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا۔

    لیکن سلطان احمد اس خیال کو لوگوں کی لاعلمی قرار دیتے ہیں۔ ’صادقین پشت در پشت خطاط خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ تو ان کے خون میں شامل تھی۔ انہوں نے اس فن میں نئی جہتوں کو روشناس کروایا۔ یہ کام جبر یا بے دلی سے نہیں ہوسکتا‘۔

    قرطاس پہ ہاں جلوے دکھاتا ہے یہ کون؟

    پردے میں مرے نقش بناتا ہے کون؟

    یہ سچ ہے کہ مو قلم گھماتا ہوں میں

    لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    سلطان احمد کا کہنا ہے کہ وہ خطاطی کا آغاز اور اس میں اپنا ارتقا بہت پہلے سے کر چکے تھے، ’اس وقت تو ضیا الحق کی حکومت کا کوئی وجود ہی نہیں تھا‘۔

    فن مصوری و خطاطی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ خطاطی کا ارتقا 3 مراحل سے گزرا ہے۔ پہلا مرحلہ صرف حروف یا سطور کو قلم بند کرنے کا تھا۔ اس کے بعد اسے سیاہ روشنائی سے مزین کیا گیا۔ تیسرا مرحلہ اس میں رنگوں کی آمیزش کا تھا اور اس کا سہرا بلاشبہ صادقین کے سر ہے۔

    صادقین کی خطاطی کی ایک ندرت یہ بھی ہے کہ انہوں نے آیات کے ساتھ اس کی تصویری تشریح (السٹریشن) بھی پیش کی۔ یہ روایت صادقین نے شروع کی تھی اور اس سے فن خطاطی میں نئی جدت پیدا ہوئی۔ انہوں نے یہ کام اس لیے بھی کیا تاکہ قرآنی آیات کو سمجھنے میں آسانی ہو اور ہر خاص و عام اسے سمجھ سکے۔

    ان کی خطاطی کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے رسم الخط کو ملحوظ خاطر رکھتے خطاطی میں جدت پیش کی۔ نئے آنے والے خطاطوں نے جدت وانفرادیت کو پیش کرنے کے لیے حروف و الفاظ کی بنیادی شکل تبدیل کردی جس سے خطاطی کے روایتی اصول برقرار نہ رہ سکے۔ صادقین نے جدت کے ساتھ حروف اور الفاظ، اور خطاطی دونوں کے تقدس کو برقرار رکھا۔

    اگر یہ کہا جائے کہ خطاطی کو باقاعدہ فن کے طور پر متعارف کروانے، اور اسے آرٹ کے نصاب میں بطور مضمون شامل کروانے کا سہرا صادقین کے سر ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔


    صادقین کی مصوری میں نمایاں حاشیے

    معروف فنکار انور مقصود کہتے ہیں کہ صادقین کی مصوری میں ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کے ہر فن پارے میں ’لکیر‘ نمایاں ہے۔ ’ایک مصور کی پینٹنگ میں پینٹ یا رنگوں کو نمایاں ہونا چاہیئے، لیکن صادقین کی لکیر ان کی پہچان ہے۔

    صادقین وہ خوش نصیب مصور تھے جن کی مصوری ایک خاص طبقے سے نکل کر عام افراد تک پہنچی اور عوام نے بھی اس ہیرے کی قدر و منزلت کا اعتراف کیا۔

    سنہ 1960 میں 30 برس کی عمر میں صادقین کو ان کے فن کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ اس کے اگلے ہی برس انہیں فرانس کے اعلیٰ سول اعزاز سے نوازا گیا۔ سنہ 1962 میں تمغہ حسن کارکردگی (پرائڈ آف پرفارمنس)، سنہ 1985 میں ستارہ امتیاز جبکہ آسٹریلیا کی حکومت کی جانب سے ثقافتی ایوارڈ کا بھی حقدار قرار دیا گیا۔

    صادقین کے فن پاروں کی کئی نمائشیں مشرق وسطیٰ، امریکا اور یورپ میں بھی منعقد کی گئیں جہاں ان کے فن کو بے حد سراہا گیا۔ ان کے فن کی نمائش کا سلسلہ ان کے انتقال کے بعد بھی جاری رہا۔

    انور مقصود کہتے ہیں، ’عجیب بات ہے کہ صادقین کا کام ان کی زندگی میں اتنا نہیں ہوا جتنا ان کی موت کے بعد ہوا۔ بے شمار لوگوں نے ان کے فن پاروں کی نقل بنا کر، یا پینٹنگز کو صادقین کے نام سے منسوب کر کے بیچا‘۔


    صادقین جس طرح کے منفرد فنکار تھے، اپنے فن کے بارے میں بھی وہ ایسے ہی منفرد خیالات رکھتے تھے۔

    ان کے بھتیجے سلطان احمد سے جب اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے یاد گزشتہ میں جھانکتے ہوئے بتایا، ’صادقین کہتے تھے، خدا کا شکر ادا کرنا ہر شخص کے لیے ضروری ہے اور ہر شخص اس کے لیے اپنا طریقہ اپناتا ہے۔ میرا فن خدا کا اظہار تشکر کرنے کا ایک ذریعہ ہے‘۔

    وہ مانتے تھے کہ ہر انسان میں موجود صلاحیت دراصل خدا کی نعمت ہے، اور اس نعمت کا اظہار کرنا اور اس کو بروئے کار لانا، اس صلاحیت کا احسان ادا کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی صلاحیت کا استعمال نہیں کرتا، تو دراصل وہ کفران نعمت کرتا ہے۔

    گویا صادقین کے لیے ان کا فن ایک مقدس عمل، طریقہ عبادت اور شکر ادا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔

    یہی وہ خیال تھا جس کی وجہ سے صادقین نے کبھی اپنا کام فروخت نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے بے شمار فن پارے دوست، احباب اور عزیز و اقارب کو تحفتاً دے دیے، مگر کبھی ان کی قیمت وصول نہیں کی۔ بقول خود ان کے، ان کا فن شکرانہ خدا ہے، برائے فروخت نہیں۔ کوئی اس کی قیمت ادا کر ہی نہیں سکتا۔

    اسی وجہ سے سنہ 1974 میں جب سعودی عرب کے بادشاہ شاہ خالد، اور بعد ازاں ملکہ ایران فرح دیبا نے ان سے ذاتی حوالے سے کام کے لیے کہا تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔

    یہ خام نگاہی کا اڑاتی ہے مذاق

    ہاں ظل الہٰی کا اڑاتی ہے مذاق

    یہ میری برہنگی بھی جانے کیا ہے

    جو خلعت شاہی کا اڑاتی ہے مذاق


    صادقین کے فن پارے

    دنیا بھر میں اپنے کام کی وجہ سے معروف صادقین نے بے انتہا کام کیا اور لاتعداد فن پارے تخلیق کیے۔ انہوں نے اپنا پہلا میورل (قد آدم تصویر) کراچی ایئر پورٹ پر بنایا۔

    اس کے علاوہ جناح اسپتال کراچی، منگلا ڈیم پاور ہاؤس، لاہور میوزیم، فریئر ہال کراچی، پنجاب یونیورسٹی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دیواروں پر ان کے شاہکار میورل کنندہ ہیں۔

    پاکستان سے باہر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، جیولوجیکل انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، ابو ظہبی پاور ہاؤس اور پیرس کے مشہور زمانہ شانزے لیزے پر صادقین کے منقش فن پارے ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    ان کا ایک عظیم فن پارہ ’وقت کا خزانہ ۔ ٹریژر آف ٹائم‘ کے نام سے میورل کی شکل میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کراچی کی لائبریری میں ثبت ہے جس میں انہوں نے تمام مفکرین بشمول یونانی فلسفیوں، عرب مفکرین، اور یورپی سائنسدانوں کی تصویر کشی کے ذریعے ہر عہد کے فکری، علمی اور سائنسی ارتقا کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

    یہ میورل سنہ 1961 میں تخلیق کیا گیا۔

    انہوں نے غالب، فیض اور اقبال کی شاعری کو بھی انتہائی خوبصورت اور دلکش انداز میں تحریر کیا۔

    صادقین نے فرانسیس مفکر و مصنف کامو کی تصنیف ’دا آؤٹ سائیڈر‘ کی السٹریشن بھی پیش کی۔

    اپنے انتقال سے قبل صادقین کراچی کے فریئر ہال میں ایک میورل پر کام کر رہے تھے۔ وہاں موجود ارض و سماوات یعنی زمین و آسمان ان کا آخری منصوبہ تھا جو ادھورا رہ گیا۔

    سنہ 1987 میں ان کے انتقال کے بعد اس مقام کو ان سے منسوب کر کے صادقین گیلری کا نام دے دیا گیا۔

    صادقین 10 فروری 1987 کو انتقال کر گئے۔ ان کی آخری آرام گاہ سخی حسن قبرستان میں واقع ہے۔

    آخر میں ان کی کچھ رباعیات جو ان کے متنوع خیالات اور انداز فکر کی عکاس ہیں۔ صادقین نے عشق مجازی، حسن و محبت، جلاد، مقتل، مذہب سب ہی کچھ اپنی رباعیات میں شامل کیا۔

    ہم اپنے ہی دل کا خون بہانے والے
    اک نقش محبت ہیں بنانے والے
    عشرت گہ زردار میں کھینچیں تصویر؟
    ہم کوچہ جاناں کے سجانے والے

    کب مسلک کفر میں ہے کچا کافر
    دیتا نہیں ایمان کا غچا کافر
    میری تو نظر میں ہے بہت ہی بہتر
    اک جھوٹے مسلمان سے سچا کافر

    یہ سایا ڈراؤنا ابھرتا کیوں ہے؟
    خونخوار ہے رہ رہ کر بپھرتا کیوں ہے؟
    تو کون ہے؟ پوچھا تو یہ آئی آواز:
    مجھ سے، میں تری روح ہوں ڈرتا کیوں ہے؟

    جاناں کے قدم چوم کے آ پہنچے ہیں
    ہم چاروں طرف گھوم کے آ پہنچے ہیں
    غائب ہے کدھر؟ ہم سر مقتل جلاد
    لہراتے ہوئے جھوم کے آ پہنچے ہیں

    ہم جنس سے اس حد کی رقابت کیوں تھی؟
    اور جنس مخالف پہ طبیعت کیوں تھی؟
    قابیل نے ہابیل کو مارا کیوں تھا؟
    اور آدم و حوا میں محبت کیوں تھی؟

    ہو ہی ابھی مقتل میں کہا تھا یارو!
    اک وار میں پھر خون بہا تھا یارو!
    سر میرا کٹ پڑا تھا، لیکن پھر بھی
    حق حق لب سے نکل رہا تھا یارو!

    میں کھینچ کے شہکار ہوں ننگا یارو
    لکھ کر خط گلزار ہوں ننگا یارو
    تم کونوں بچالوں ہی میں ہوتے ہو فقط
    اور میں سر بازار ہوں ننگا یارو

  • کاغذ سے تصویر اور تکمیل کا مرحلہ

    کاغذ سے تصویر اور تکمیل کا مرحلہ

    کاغذ پر تصویر کی تشکیل اور پھر اس کی تکمیل تک کا مرحلہ کوئی آسان عمل نہیں، تخلیق کار کی تخلیق کا سارا کرب اس دوران ان کاغذوں پر بکھر آتا ہے، اور پھر یہ کرب فن پارے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

    انہی تینوں مراحل کے نام سے اپنی نمائش منعقد کرنے والے 3 فنکار افشر ملک، انور سعید اور محبوب شاہ نے اپنے فن میں اسی کرب کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

    لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹ سے تعلیم حاصل کرنے والے اور زندہ دلان کے شہر میں رہنے والے ان فنکاروں نے اپنے فن کی نمائش کے لیے اس بار کراچی کو چنا۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں لوگوں کی بڑی تعداد نے متضاد خیالات کے حامل فن پاروں کی نمائش کو سراہا۔

    افشر ملک نے اپنے فن پاروں میں زندگی کے مختلف رنگوں کو پیش کیا۔

    afshar-1

    afshar-2

    afshar-3

    انور سعید کے اس فن پارے کا عنوان ہے’ جسم اور اس کے اندر رہنے والی چیزیں‘۔ وہ چیزیں جذبات، احساسات اور خیالات ہیں۔

    anwar-1

    محبوب شاہ نے مختلف تصاویر کو ایک نئے زاویہ نظر سے پیش کیا۔

    mehboob-1

    mehboob-2

    mehboob-4

    نمائش کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں مزید چند روز تک جاری رہے گی۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ کا 700 سال قدیم مجسمہ

    ڈونلڈ ٹرمپ کا 700 سال قدیم مجسمہ

    لندن میں ایک کئی سو سال قدیم مجسمے کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے حیرت انگیز مشابہت نے سیاحوں کو حیرت اور خوف میں مبتلا کردیا۔

    لندن کے نوٹنگھم شائر کیتھڈرل میں نصب یہ مجسمہ جو صرف سر پر مشتمل ہے، چھت کے قریب کمان پر تراشا گیا ہے اور یہ 700 سال قدیم ہے۔

    trump-2

    اس عیسائی عبادت گاہ میں موجود ان گنت کمانوں میں بے شمار مجسمے تراشے گئے ہیں اور ٹرمپ سے مشابہت رکھنے والا یہ سر بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    اس مجسمے کو اس سے قبل بھی دیکھا گیا تھا تاہم اب ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد اسے غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔

    کیتھڈرل کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ اس مجسمے کو دیکھتے آرہے ہیں لیکن آج سے پہلے انہوں نے کبھی غور نہیں کیا کہ اس مجسمے کے بالوں کا انداز ہو بہو ڈونلڈ ٹرمپ جیسا ہے۔

    trump-3

    انہوں نے بتایا کہ ان مجسموں کو چودہویں صدی میں تراشا گیا۔ یہ مجسمہ ممکنہ طور پر کسی عام شخص کا ہے اور اس کا تعلق بادشاہوں کے خاندان سے نہیں ہے۔

    تو گویا یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ آج سے 700 سال قبل بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی مشابہت رکھنے والا شخص موجود تھا، اور اگر وہ واقعی کوئی عام شخص تھا تو صدیوں بعد اس کی روح خوش ہوگئی ہوگی کہ آج اس کا ہم شکل شخص دنیا کے ایک طاقتور ترین ملک کا سربراہ ہے۔

  • زندگی کی نئی معنویت کو پیش کرتے 11 فنکار

    زندگی کی نئی معنویت کو پیش کرتے 11 فنکار

    کراچی: روشنیوں کے شہر کراچی میں ایک منفرد نمائش مصوری منعقد کی جارہی ہے جس میں 11 فنکاروں نے اپنے فن پارے پیش کیے ہیں۔

    زندگی اور اس کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتی اس نمائش میں اپنے فن پارے پیش کرنے والے تخلیق کار نو آموز بھی ہیں، اور تجربہ کار بھی، جو اپنے اندر کے احساسات و خیالات کو پیش کر رہے ہیں۔

    ان فنکاروں نے ایسی ہی ایک نمائش سنہ 2012 میں بھی پیش کی تھی۔ اب یہ فنکار اپنی سوچ کے ارتقا کو پیش کرنے کے لیے ایک بار پھر سے اکٹھے ہوئے ہیں۔

    ان فنکاروں میں عبداللہ قمر، اسد حسین، فہیم راؤ، فراز متین، نبیل مجید، محمد اسمعٰیل، نعمان صدیقی، رابعہ شعیب، راحیلہ ابڑو، سعدیہ جمال اور ایس ایم رضا شامل ہیں۔

    آرٹسٹ ۔ نعمان صدیقی
    آرٹسٹ ۔ محمد اسمعٰیل
    آرٹسٹ ۔ ایس ایم رضا

    ایس ایم رضا اپنی تخلیقات کے بارے میں بتاتے ہیں،  ’ہم جو دیکھتے ہیں وہ ایک فریب نظر ہوتا ہے۔ اس شے کے بارے میں جو سوچتے ہیں وہ دھوکہ ہوتا ہے۔ دراصل اس شے کی حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے اور یہی میں نے اپنے فن میں پیش کیا ہے‘۔

    آرٹسٹ ۔ فہیم راؤ
    آرٹسٹ ۔ سعدیہ جمال

    سعدیہ جمال اپنے فن پارے کے بارے میں کہتی ہیں، ’ہمارے ارد گرد بہت سی اشیا موجود ہیں جنہیں ہم سرسری سی نظر سے دیکھ کر گزر جاتے ہیں۔ کبھی ان کی معنویت پر غور نہیں کرتے۔ ہر خوبصورت شے کے اندر بدصورتی اور ہر بدصورت شے کے اندر کچھ خوبصورتی چھپی ہوتی ہے جو نظر انداز ہوجاتی ہے۔ میں نے اسی معنویت و گہرائی کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے‘۔

    آرٹسٹ ۔ عبداللہ قمر
    آرٹسٹ ۔ راحیلہ ابڑو

    راحیلہ ابڑو کا فن پارہ دراصل پانی ہے جو فرش پر پینٹ کیا گیا ہے۔ وہ اپنے اس فن پارے کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرتی ہیں، کہ پانی زندگی کے لیے ایک لازمی جزو ہے اور پانی کے بغیر زندگی کا وجود نہیں۔

    آرٹسٹ ۔ اسد حسین
    آرٹسٹ ۔ نبیل مجید

    نبیل مجید کہتے ہیں، ’ہم نے یہ تو سنا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، لیکن کبھی ہم نے اس جملے کی معنویت پر غور نہیں کیا۔ کبھی ہم نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ وہ ’ہاتھ‘ کس شکل میں اور کس کس طرح مرد کو آگے بڑھنے کی طاقت فراہم کرتا ہے‘۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں یہ نمائش 7 فروری تک جاری رہے گی۔

  • جاپانی فنکار کا دنگ کردینے والا فن

    جاپانی فنکار کا دنگ کردینے والا فن

    ننھا منا یا منی ایچر آرٹ تخلیق کرنا ایک دقت طلب کام ہے۔ مختلف ننھی منی چیزوں پر کام کرنا اور انہیں اپنی مرضی کے مناظر میں تبدیل کرنا نہایت محنت اور توجہ کا متقاضی ہے۔

    جاپانی آرٹسٹ تتسویا تناکا بھی گزشتہ کئی سالوں سے منی ایچر آرٹ تخلیق کر رہا ہے۔ وہ مختلف اشیا کو اپنی مرضی سے مختلف ننھے منے مناظر میں تبدیل کردیتا ہے۔

    اس کے فن کو دیکھ کر خدائے سخن میر تقی میر کا یہ مصرعہ بے اختیار زبان پر آجاتا ہے،

    لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام!

    آپ بھی یہ حیرت انگیز فن دیکھیں۔

    . 7.19 sun "Search” . 「ちょっとまってね今調べるから」 . . #Google先生 #本棚

    A photo posted by 田中達也 Tatsuya Tanaka (@tanaka_tatsuya) on

    . 7.24 fri "Lazy-river” . 「安心してください、はいてますよ。」 . . #サンダル #とにかく明るい安村

    A photo posted by 田中達也 Tatsuya Tanaka (@tanaka_tatsuya) on

    . 1.18 wed “Beef Beach” . ビーフビーチ . #牛肉 #浜辺 #食品サンプル #Beef #Beach #BBQ .

    A photo posted by 田中達也 Tatsuya Tanaka (@tanaka_tatsuya) on

    . 12.21 wed “Zoo” . 見ざる、言わざる、水切りざる . #ざる #動物園 #猿 #Strainer #Zoo #monkey #申年もあとわずか .

    A photo posted by 田中達也 Tatsuya Tanaka (@tanaka_tatsuya) on

  • خواتین سازندوں پر مشتمل افغان آرکسٹرا کی پرفارمنس

    خواتین سازندوں پر مشتمل افغان آرکسٹرا کی پرفارمنس

    ڈیوس: اس بار عالمی اقتصادی فورم میں جہاں آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی ہدایت کار شرمین عبید چنائے نے ایک اجلاس میں خطاب کیا اور یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی فنکارہ بن گئیں، وہیں اس فورم میں ایک اور تاریخ رقم ہوگئی۔

    اس بار اجلاس میں شریک سربراہان مملکت اور مہمانوں کی تفریح طبع کے لیے افغانستان کے ایسے آرکسٹرا نے اپنی پرفارمنس پیش کی جو مکمل طور پر خواتین سازندوں پر مشتمل ہے۔

    زہرا ۔ تاریخ کا منفرد آرکسٹرا

    زہرا نامی اس آرکسٹرا میں شامل تمام فنکاراؤں کی عمریں 13 سے 20 سال کے درمیان ہیں۔ ان میں سے کچھ فنکارائیں افغان یتیم خانوں میں پل کر جوان ہوئی ہیں جبکہ کچھ نہایت غریب خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔

    6

    9

    یہ منفرد اور افغانستان کا پہلا خواتین آرکسٹرا جمعے کے روز بھی اجلاس کے اختتامی کنسرٹ میں 3000 کے قریب مختلف اداروں کے سربراہان اور سربراہان مملکت کے سامنے اپنی پرفارمنس پیش کرے گا۔

    یہ آرکسٹرا افغانی موسیقار ڈاکٹر احمد سرمست کی کوششوں کا ثمر ہے جو افغانستان میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میوزک کے بانی ہیں۔

    3

    ڈاکٹر سرمست کو اندازہ ہے کہ اس کام کو انجام دے کر انہوں نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ ان لڑکیوں کے لیے بھی بے شمار خطرات کھڑے کر لیے ہیں۔

    سنہ 1996 سے 2001 میں طالبان کے دور میں تو موسیقی قطعی ممنوع تھی۔ تاہم ان کے بعد بھی افغانستان کے قدامت پسند معاشرے میں موسیقی، اور وہ بھی خواتین کی شمولیت کے ساتھ نہایت ناپسندیدہ ہے۔

    5

    اس سے قبل بھی ڈاکٹر سرمست ایک خودکش حملے میں بال بال بچے تھے جب سنہ 2014 میں کابل میں فرانسیسیوں کے زیر انتظام چلنے والے ایک اسکول میں منعقدہ شو کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

    یہی نہیں، اپنے شوق کی تکمیل کی پاداش میں اس آرکسٹرا کی لڑکیوں اور ان کے استاد کو مستقل دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے۔

    آرکسٹرا کی اراکین ۔ حوصلے کی داستان

    آرکسٹرا کی سربراہی نگین خپلواک نامی موسیقارہ کے ہاتھ میں ہے جو کنڑ سے تعلق رکھتی ہے۔ ڈیوس میں مختلف سربراہان مملکت کو اپنے فن سے مسحور اور حوصلے سے انگشت بدنداں کردینے کے بعد، جب یہ واپس اپنے گھر پہنچے گی تو اپنی ببیسویں سالگرہ منائے گی۔

    نگین کہتی ہے، ’موسیقی افغان لڑکیوں کے لیے ایک شجر ممنوع ہے۔ یہاں باپ اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے لیے اسکول نہیں بھیجتے، کجا کہ موسیقی کی تعلیم کے لیے موسیقی کے ادارے میں بھیجنا، قطعی ناممکن ہے۔ ان کے نزدیک عورتوں کا واحد مقام گھر ہے‘۔

    8

    لیکن نگین کا اس مقام تک پہنچنا اس کے خاندان کا مرہون منت ہے۔ اس کے والد اور والدہ نے اس کے شوق کی خاطر پورے خاندان سے لڑائی مول لی اور اس کا ساتھ دیا۔ ’میری دادی نے میرے باپ سے کہا تھا، اگر تم نے اپنی بیٹی کو موسیقی کے اسکول بھیجا، تو تم میرے بیٹے نہیں رہو گے‘۔

    اس کے بعد نگین کے خاندان نے اپنا آبائی علاقہ کنڑ چھوڑ کر کابل میں رہائش اختیار کرلی۔

    وہ بتاتی ہے کہ اس کے ایک انکل نے اسے دھمکی دی تھی، ’میں نے تمہیں جہاں بھی دیکھا، میں تمہیں قتل کردوں گا۔ تم ہمارے لیے باعث شرم ہو۔‘

    وہ کہتی ہے کہ گو کہ دارالحکومت کابل میں نوکریاں نہیں ہیں، زندگی بہت مشکل ہے، ’مگر زندگی تو ہے‘۔

    مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    نگین کا مقصد تعلیم حاصل کرنا ہے اور اس کے لیے وہ بیرون ملک جانا چاہتی ہے۔ اس کے بعد وہ وطن واپس آکر قومی سطح پر قائم کردہ کسی آرکسٹرا کی سربراہی کرنا چاہتی ہے۔

    آرکسٹرا میں شامل 18 سالہ وائلن نواز ظریفہ ادیبہ اس سے قبل نیویارک میں بھی پرفارم کر چکی ہے۔ وہ کہتی ہے، ’افغان ہونا اور افغانستان میں رہنا خطرناک ترین عمل ہے۔ آپ نہیں جانتے کہ اگلا دھماکہ کب اور کہاں ہوگا، کیا پتہ وہ وہیں ہو جہاں پر آپ موجود ہیں‘۔

    2

    ظریفہ کی والدہ، جو خود کبھی اسکول نہیں گئیں، لیکن وہ وقت اور نئی نسل کے بدلتے رجحانات کو بھانپنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔

    انہوں نے اپنی بیٹی کو بخوشی اس کے شوق کے تکمیل کی اجازت دے دی۔ ’اب یہ میری نسل پر منحصر ہے کہ ہم اپنے ملک کے لیے کیا کرتے ہیں۔ لیکن تبدیلی لانے کے لیے بہت عرصہ درکار ہے۔ کم از کم یہ پوری ایک نسل‘۔

    ظریفہ کی پسندیدہ شخصیت امریکی خاتون اول مشل اوباما ہیں۔ ’میں جب انہیں گفتگو کرتے ہوئے سنتی ہوں تو مجھے اپنے عورت ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے‘۔

    ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں یہ آرکسٹرا ایک منفرد تاریخ رقم کرنے جارہا ہے۔ آرکسٹرا میں وائلن، پیانو اور افغانستان کے روایتی آلات موسیقی بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر سرمست کا ماننا ہے کہ، ’افغانستان کی پہچان کلاشنکوف، راکٹ اور خودکش حملے نہیں، بلکہ یہ لڑکیاں اور ان کا فن ہے‘۔

  • چین کے نیشنل میوزیم میں پہلا پاکستانی فن پارہ

    چین کے نیشنل میوزیم میں پہلا پاکستانی فن پارہ

    کراچی: معروف پاکستانی مصور جمی انجینیئر کا شاہکار فن پارہ بیجنگ کے نیشنل آرٹ میوزیم کو عطیہ کیا گیا ہے۔

    میوزیم کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پہلی بار میوزیم میں کسی پاکستانی فنکار کے فن پارے کو جگہ دی گئی ہے۔ یہ فن پارہ پاک چین دوستی اور تعلقات کو اور بھی مضبوط کرے گا۔

    art-2

    میوزیم میں رکھے جانے والے جمی کے فن پارے کا عنوان ’انٹرنیشنل آرکی ٹیکچرلر کمپوزیشن‘ ہے۔

    بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانہ بہت جلد ایک نمائش کا ارادہ بھی رکھتا ہے جس میں جمی انجینئر کا فن پارہ بھی رکھا جائے گا۔

    واضح رہے کہ جمی انجینئر ایک معروف مصور اور سماجی کارکن ہیں جو اپنے فن پاروں میں مختلف معاشرتی مسائل کو اجاگر کرتے ہیں۔

    art-9

    ان کا زیادہ تر کام پاکستانی ثقافتی اور تاریخی ورثے کو پیش کرتا ہے۔

    art-4

    art-3

    وہ نہ صرف اپنے فن بلکہ اپنی سماجی سرگرمیوں کے اعتراف میں بے شمار اعزازات اور ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں جن میں امریکا کا نیشنل انڈومنٹ آف دا آرٹس ایوارڈ 1988، روٹری کلب آف پاکستان کی جانب سے گولڈ میڈل اور ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان کی جانب سے ہیومن رائٹس میڈل شامل ہے۔

    سنہ 2005 میں انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا جبکہ انہیں چائنا ورلڈ پیس فاؤنڈیشن کی جانب سے 2016 میں پیس ایمبسڈرز کا میڈل عطا کیا گیا۔

  • شام کے تباہ ہوتے ثقافتی ورثے کو بچانے کی کوشش میں سرگرداں فنکار

    شام کے تباہ ہوتے ثقافتی ورثے کو بچانے کی کوشش میں سرگرداں فنکار

    دمشق: شام کی جنگ نے جہاں لاکھوں افراد کو موت سے ہمکنار کردیا، اور اس سے کہیں زیادہ تعداد کو بے گھر ہو کر دربدر پھرنے پر مجبور کردیا وہیں اس جنگ نے شام کی تاریخ و ثقافت کو بھی بے حد نقصان پہنچایا۔

    شام کے طول و عرض پر پھیلے کئی تاریخی مقامات فضائی و زمینی حملوں کے باعث تباہ و برباد ہوگئے۔ شام میں 6 مقامات ایسے ہیں جو یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہیں۔ اس میں پالمیرا کے کھنڈرات، حلب، اور دمشق وغیرہ شامل ہیں۔

    اپنے ملک کے ایسے تاریخی ورثے کی تباہی کو دیکھنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شام سے تعلق رکھنے والے فنکار اس ورثے کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔

    یہ فنکار جنگ کو تو نہیں روک سکتے، تاہم وہ اس گم گشتہ ثقافت کی ایک جھلک کو اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ضرور محفوط کر سکتے ہیں، اور وہ یہ کام بہت جذبے کے ساتھ کر رہے ہیں۔

    اردن میں پناہ گزین ایسے ہی کچھ فنکار بھی اپنے ثقافتی ورثے کو بچانے کے لیے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے شام کے تباہ شدہ تاریخی مقامات کی نقل بنانی شروع کی۔

    8

    2

    اردن کے زاتاری کیپ میں پناہ گزین ان شامیوں نے اپنے پروجیکٹ کو ’آرٹ فرام زاتاری‘ کا نام دیا۔

    اس پروجیکٹ کے تحت انہوں نے شام کے قابل ذکر تاریخی مقامات کی مختصر شبیہیں بنانی شروع کیں۔ ان منی ایچر ماڈلز کو بنانے کے لیے ان فنکاروں نے چکنی مٹی اور سیخوں کا استعمال کیا۔

    6

    5

    4

    3

    ان فنکاروں نے دمشق کی مسجد امیہ، حلب کا قدیم قلعہ، نوریاز نامی کنویں کی قدیم رہٹ، پالمیرا کے کھنڈرات اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا مجسمہ تخلیق کیا ہے۔

    ان فنکاروں میں سے ایک محمد حریری کہتے ہیں کہ یہ کام نہ صرف ان کی خوبصورت مگر برباد شدہ ثقافت کو کسی طرح حد تک محفوظ کر رہا ہے بلکہ اس سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں بھی نکھار آرہا ہے۔

    7

    حریری کا کہنا ہے کہ ان کا یہ کام آئندہ آنے والی نسلوں کو بتائے گا کہ جنگ زدہ شام ایک زمانے میں نہایت خوبصورت اور تاریخی ثقافت سے مالا مال تھا۔

    واضح رہے کہ شام کے لوگ پچھلے 5 سال سے خانہ جنگی کا شکار ہیں اور اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس خانہ جنگی کے دوران اب تک 4 لاکھ سے زائد شامی ہلاک ہوچکے ہیں۔