Tag: آرکسٹرا

  • نابینا خواتین پر مشتمل آرکسٹرا

    نابینا خواتین پر مشتمل آرکسٹرا

    زندگی میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ اور ہمت موجود ہو تو ناممکن کام کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ مصر کی نابینا خواتین پر مشتمل آرکسٹرا نے اس کی عملی مثال پیش کردی۔

    مختلف آلات موسیقی کو سرور آمیز دھنوں پر بجانا کوئی آسان کام نہیں، اور اس کے لیے شوق، محنت اور طویل ریاضت درکار ہوتی ہے۔ یہ سوچنا محال ہے کہ ان آلات کو بغیر دیکھے اس طرح بجایا جائے کہ سننے والے سحر زدہ رہ جائیں۔

    لیکن مصر کی نابینا خواتین نے یہ ناممکن کام بھی کر دکھایا۔

    مصر کا النور والعمل (روشنی اور امید) نامی یہ آرکسٹرا 44 نابینا خواتین پر مشتمل ہے۔ یہ تمام خواتین فن و موسیقی کی نہایت دلدادہ ہیں تبھی اپنی معذوری کو پچھاڑ کر اپنے شوق کی تکمیل کر رہی ہیں۔

    نابینا خواتین پر مشتمل یہ آرکسٹرا ہر طرح کی دھنیں بجانے پر مہارت رکھتا ہے۔

    مزید پڑھیں: خواتین سازندوں پر مشتمل افغان آرکسٹرا کی پرفارمنس

    یہ موسیقار خواتین بریل سسٹم پر میوزک نوٹس پڑھ کر انہیں یاد کرتی ہیں، پھر انتہائی مہارت اور خوبصورتی سے آلات موسیقی پر اپنی انگلیوں کا ایسا جادو بکھیرتی ہیں کہ سننے اور دیکھنے والے مبہوت رہ جاتے ہیں۔

    آرکسٹرا میں شامل 5 خواتین جزوی طور پر نابینا ہیں اور صرف سایوں کو دیکھ سکتی ہیں۔ بقیہ تمام موسیقار خواتین دیکھنے سے بالکل محروم ہیں۔

    دنیا کا منفرد ترین یہ آرکسٹرا اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں سفر کر کے اپنے فن کا مظاہرہ کرچکا ہے جہاں ان کے ہمت و حوصلے کی بے تحاشہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

    اس آرکسٹرا کو مصر کا معجزہ بھی کہا جاتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کنسرٹ میں بن بلایا مہمان

    کنسرٹ میں بن بلایا مہمان

    استنبول: ترکی میں ایک آرکسٹرا کے کنسرٹ کے دوران ایک بن بلایا مہمان بھی وہاں آ پہنچا جسے دیکھ کر شائقین بے حد مسرور و محضوظ ہوئے۔

    ترکی کے دارالحکومت استنبول میں ایک آؤٹ ڈور کنسرٹ میں آرکسٹرا مشہور کلاسیکی دھن پر اپنی پرفارمنس پیش کر رہا تھا کہ اچانک وہاں ایک بن بلایا مہمان آپہنچا۔

    یہ بن بلایا مہمان دراصل ایک آوارہ کتا تھا جو کسی طرح گھومتا گھامتا وہاں آنکلا۔

    اسے دیکھتے ہی شائقین کی ساری توجہ موسیقی سے ہٹ کر کتے کی جانب ہوگئی اور لوگوں نے تالیوں اور قہقہوں سے اس کا استقبال کیا۔

    تھوڑی دیر اسٹیج پر گھومنے کے بعد کتا وہیں لیٹ گیا، غالباً وہ بھی کلاسیکی موسیقی کے آرکسٹرا اسے لطف اندوز ہو رہا تھا۔

    اس کے بعد پورے کنسرٹ میں وہ وہیں بیٹھا رہا جس کی وجہ سے ایک عام سا آرکسٹرا کنسرٹ غیر معمولی حیثیت اختیار کرگیا۔

    کنسرٹ ختم ہونے کے بعد منتظمین نے سوشل میڈیا پر اسے پوسٹ کرتے ہوئے کہا، ’آج آرکسٹرا اور حاضرین نے ایک خاص مہمان کا استقبال کیا‘۔

    ترکی میں اس ویڈیو کو لاکھوں دفعہ دیکھا گیا اور لوگوں نے اسے خاصا پسند کیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • قومی ترانے کی دھن مختلف انداز سے ترتیب دینے کا فیصلہ

    قومی ترانے کی دھن مختلف انداز سے ترتیب دینے کا فیصلہ

    اسلام آباد: وفاقی حکومت نے قومی ترانے کی دھن کو نئے آرکسٹرا پر ترتیب دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کو ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔

    یہ فیصلہ گزشتہ روز ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا گیا جس کی صدرات وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کی۔ اجلاس میں پاکستان کی 70 ویں سالگرہ منانے کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا۔

    اجلاس میں قومی ترانے کی دھن کو مختلف آرکسٹرا پر نئے انداز سے ترتیب دینے کا فیصلہ کیا گیا جس میں پاکستان کے تمام صوبوں کی روایتی آلات موسیقی کی دھن کو شامل کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ قومی ترانے کی دھن احمد جی چھاگلہ نے ترتیب دی جبکہ ترانے کے بول حفیظ جالندھری نے تخلیق کیے تھے۔

    اس موقع پر مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ 14 اگست کا دن نہ صرف آزادی کی اہمیت کو واضح کرتا ہے بلکہ اس جدوجہد اور قربانیوں کی یاد بھی دلاتا ہے جو ہمارے آباؤ اجداد نے آزاد وطن کے حصول کے لیے کیں۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قیام کی 70 ویں سالگرہ کو نہایت شاندار انداز سے منا کر اسے ایک تاریخی موقع بنا دیا جائے گا۔

    وفاقی وزیر نے تمام متعلقہ شعبوں کو ہدایت کی کہ اس موقع پر فن، ثقافت اور تاریخ کے ذریعے پاکستان کی تمام متنوع ثقافتی روایات کو اجاگر کیا جائے۔

    اس ضمن میں انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کو بھی تخلیقی اشتہارات پیش کرنے کی ہدایت کی جس سے اس دن کی اہمیت کو زیادہ سے زیادہ واضح کیا جا سکے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کچی بستی کے نوجوانوں کا آرکسٹرا

    کچی بستی کے نوجوانوں کا آرکسٹرا

    نیروبی: کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں واقع کورگوچو نامی کچی آبادی کینیا کی سب سے بڑی کچی آبادی ہے۔ یہاں دیڑھ سے 2 لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں۔ یہ کچی آبادی غربت، جرائم اور منشیات کا گڑھ ہے اور یہاں گھریلو تشدد کی سماجی برائی نہایت عام ہے۔

    یہی نہیں یہاں رہنے والے زیادہ تر افراد ایڈز یا اس کے خطرے کا شکار ہیں۔

    اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ امید دیوانے کا خواب لگتی ہے کہ یہاں پیدا ہونے والے بچے معاشرے کا کوئی کارآمد حصہ ثابت ہوسکیں گے۔

    2

    تاہم السبتھ نوروج نامی ایک موسیقار کا خیال اس سے مختلف تھا۔ 80 نوجوان موسیقاروں کا آرکسٹرا ترتیب دینے والا یہ موسیقار اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ موسیقی کے ذریعہ لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔

    یہی سوچ کر اس نے اس جھونپڑ بستی کے بچوں کو موسیقی سکھانی شروع کردی جو تعلیم و تربیت سمیت ہر طرح کی بنیادی سہولت سے محروم تھے۔

    10

    9

    نوروج کا کہنا ہے، ’موسیقی آپ کو آپ کے آس پاس کی دنیا بھلا دیتی ہے۔ آپ اپنے دکھوں اور تکالیف کو بھول کر زندگی کی مثبت چیزوں کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں‘۔

    ان بچوں کو موسیقی کی تربیت دینے کے لیے ایک ٹوٹی پھوٹی ادھ تعمیر شدہ عمارت میں میوزک سینٹر قائم کیا گیا ہے جو ایک کچرے کے ڈھیر کے قریب واقع ہے۔

    4

    5

    6

    البتہ یہاں آںے والے بچے نہایت بلند حوصلہ ہیں اور اپنی زندگی بدلنے کے خواہاں ہیں۔

    ان بچوں کے زیر استعمال مختلف آلات موسیقی مختلف اداروں کی جانب سے عطیہ کردہ ہیں۔

    3

    7

    انہیں امید ہے یہ موسیقی انہیں دنیا کے ان حصوں میں لے جائے گی جہاں وہ پہلے کبھی نہیں گئے اور وہ پر یقین ہیں کہ یہ موسیقی ان کی زندگی بدلنے میں معاون ثابت ہوگی۔

    12

    11

    8

    بچوں کے والدین بھی ان کی اس سرگرمی سے خوش ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بچے اگر اپنا فارغ وقت موسیقی کو نہ دیں تو یقیناً یہ بستی کی گلیوں میں گھومتے ہوئے وقت گزاریں گے جہاں یہ جرائم اور منشیات کا آسان شکار بن سکتے ہیں۔

    آہستہ آہستہ وسیع ہوتا یہ آرکسٹرا کبھی کبھار قریبی چرچ میں بھی جاتا ہے جہاں یہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے۔

  • خواتین سازندوں پر مشتمل افغان آرکسٹرا کی پرفارمنس

    خواتین سازندوں پر مشتمل افغان آرکسٹرا کی پرفارمنس

    ڈیوس: اس بار عالمی اقتصادی فورم میں جہاں آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی ہدایت کار شرمین عبید چنائے نے ایک اجلاس میں خطاب کیا اور یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی فنکارہ بن گئیں، وہیں اس فورم میں ایک اور تاریخ رقم ہوگئی۔

    اس بار اجلاس میں شریک سربراہان مملکت اور مہمانوں کی تفریح طبع کے لیے افغانستان کے ایسے آرکسٹرا نے اپنی پرفارمنس پیش کی جو مکمل طور پر خواتین سازندوں پر مشتمل ہے۔

    زہرا ۔ تاریخ کا منفرد آرکسٹرا

    زہرا نامی اس آرکسٹرا میں شامل تمام فنکاراؤں کی عمریں 13 سے 20 سال کے درمیان ہیں۔ ان میں سے کچھ فنکارائیں افغان یتیم خانوں میں پل کر جوان ہوئی ہیں جبکہ کچھ نہایت غریب خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔

    6

    9

    یہ منفرد اور افغانستان کا پہلا خواتین آرکسٹرا جمعے کے روز بھی اجلاس کے اختتامی کنسرٹ میں 3000 کے قریب مختلف اداروں کے سربراہان اور سربراہان مملکت کے سامنے اپنی پرفارمنس پیش کرے گا۔

    یہ آرکسٹرا افغانی موسیقار ڈاکٹر احمد سرمست کی کوششوں کا ثمر ہے جو افغانستان میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میوزک کے بانی ہیں۔

    3

    ڈاکٹر سرمست کو اندازہ ہے کہ اس کام کو انجام دے کر انہوں نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ ان لڑکیوں کے لیے بھی بے شمار خطرات کھڑے کر لیے ہیں۔

    سنہ 1996 سے 2001 میں طالبان کے دور میں تو موسیقی قطعی ممنوع تھی۔ تاہم ان کے بعد بھی افغانستان کے قدامت پسند معاشرے میں موسیقی، اور وہ بھی خواتین کی شمولیت کے ساتھ نہایت ناپسندیدہ ہے۔

    5

    اس سے قبل بھی ڈاکٹر سرمست ایک خودکش حملے میں بال بال بچے تھے جب سنہ 2014 میں کابل میں فرانسیسیوں کے زیر انتظام چلنے والے ایک اسکول میں منعقدہ شو کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

    یہی نہیں، اپنے شوق کی تکمیل کی پاداش میں اس آرکسٹرا کی لڑکیوں اور ان کے استاد کو مستقل دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے۔

    آرکسٹرا کی اراکین ۔ حوصلے کی داستان

    آرکسٹرا کی سربراہی نگین خپلواک نامی موسیقارہ کے ہاتھ میں ہے جو کنڑ سے تعلق رکھتی ہے۔ ڈیوس میں مختلف سربراہان مملکت کو اپنے فن سے مسحور اور حوصلے سے انگشت بدنداں کردینے کے بعد، جب یہ واپس اپنے گھر پہنچے گی تو اپنی ببیسویں سالگرہ منائے گی۔

    نگین کہتی ہے، ’موسیقی افغان لڑکیوں کے لیے ایک شجر ممنوع ہے۔ یہاں باپ اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے لیے اسکول نہیں بھیجتے، کجا کہ موسیقی کی تعلیم کے لیے موسیقی کے ادارے میں بھیجنا، قطعی ناممکن ہے۔ ان کے نزدیک عورتوں کا واحد مقام گھر ہے‘۔

    8

    لیکن نگین کا اس مقام تک پہنچنا اس کے خاندان کا مرہون منت ہے۔ اس کے والد اور والدہ نے اس کے شوق کی خاطر پورے خاندان سے لڑائی مول لی اور اس کا ساتھ دیا۔ ’میری دادی نے میرے باپ سے کہا تھا، اگر تم نے اپنی بیٹی کو موسیقی کے اسکول بھیجا، تو تم میرے بیٹے نہیں رہو گے‘۔

    اس کے بعد نگین کے خاندان نے اپنا آبائی علاقہ کنڑ چھوڑ کر کابل میں رہائش اختیار کرلی۔

    وہ بتاتی ہے کہ اس کے ایک انکل نے اسے دھمکی دی تھی، ’میں نے تمہیں جہاں بھی دیکھا، میں تمہیں قتل کردوں گا۔ تم ہمارے لیے باعث شرم ہو۔‘

    وہ کہتی ہے کہ گو کہ دارالحکومت کابل میں نوکریاں نہیں ہیں، زندگی بہت مشکل ہے، ’مگر زندگی تو ہے‘۔

    مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    نگین کا مقصد تعلیم حاصل کرنا ہے اور اس کے لیے وہ بیرون ملک جانا چاہتی ہے۔ اس کے بعد وہ وطن واپس آکر قومی سطح پر قائم کردہ کسی آرکسٹرا کی سربراہی کرنا چاہتی ہے۔

    آرکسٹرا میں شامل 18 سالہ وائلن نواز ظریفہ ادیبہ اس سے قبل نیویارک میں بھی پرفارم کر چکی ہے۔ وہ کہتی ہے، ’افغان ہونا اور افغانستان میں رہنا خطرناک ترین عمل ہے۔ آپ نہیں جانتے کہ اگلا دھماکہ کب اور کہاں ہوگا، کیا پتہ وہ وہیں ہو جہاں پر آپ موجود ہیں‘۔

    2

    ظریفہ کی والدہ، جو خود کبھی اسکول نہیں گئیں، لیکن وہ وقت اور نئی نسل کے بدلتے رجحانات کو بھانپنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔

    انہوں نے اپنی بیٹی کو بخوشی اس کے شوق کے تکمیل کی اجازت دے دی۔ ’اب یہ میری نسل پر منحصر ہے کہ ہم اپنے ملک کے لیے کیا کرتے ہیں۔ لیکن تبدیلی لانے کے لیے بہت عرصہ درکار ہے۔ کم از کم یہ پوری ایک نسل‘۔

    ظریفہ کی پسندیدہ شخصیت امریکی خاتون اول مشل اوباما ہیں۔ ’میں جب انہیں گفتگو کرتے ہوئے سنتی ہوں تو مجھے اپنے عورت ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے‘۔

    ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں یہ آرکسٹرا ایک منفرد تاریخ رقم کرنے جارہا ہے۔ آرکسٹرا میں وائلن، پیانو اور افغانستان کے روایتی آلات موسیقی بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر سرمست کا ماننا ہے کہ، ’افغانستان کی پہچان کلاشنکوف، راکٹ اور خودکش حملے نہیں، بلکہ یہ لڑکیاں اور ان کا فن ہے‘۔