Tag: آزادی تحریک

  • جشنِ آزادی: جیوے، جیوے پاکستان اور جمیل الدّین عالی

    جشنِ آزادی: جیوے، جیوے پاکستان اور جمیل الدّین عالی

    جیوے جیوے پاکستان ایک ایسا ملّی نغمہ ہے جسے پانچ سال کا بچّہ اور زندگی کی 70 دہائیاں دیکھ لینے والا کوئی بزرگ بھی جھومتے ہوئے، سرخوشی کے عالم میں اور احساسِ مسّرت میں ڈوب کر ایک ہی ردھم میں خوبی سے گنگنا سکتا ہے۔

    یہ لازوال نغمہ جمیل الدّین عالی کا لکھا ہوا ہے۔ آج جشنِ آزادی پر ہم ان کا یہ نغمہ ہی نہیں ’ہم تا ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں، ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں، اے وطن کے سجیلے جوانو، جو نام وہی پہچان، پاکستان، پاکستان، اتنے بڑے جیون ساگر میں تُو نے پاکستان دیا، بھی سن رہے ہیں اور عالی جی کو بھی یاد کررہے ہیں۔

    جیوے جیوے پاکستان کو دوسرا قومی ترانہ اس ملّی نغمے کی عوامی مقبولیت کے پیشِ نظر کہا جاتا ہے۔ عالی جی نے وطنِ عزیز کے لیے جو نغمات لکھے وہ لازوال ثابت ہوئے۔ ان کے نغمات کو الن فقیر نے مخصوص انداز میں گایا گیا اور نصرت فتح علی خان کی منفرد گائیکی میں بھی محبت امن ہے اور اس کا ہے پیغام پاکستان کو بھی بہت سنا اور پسند کیا گیا۔

    جمیل الدین عالی، جنھیں عالی جی کہا جاتا تھا، ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک عہد تھا جنھوں نے حبُ الوطنی، اپنی زبان اور ثقافت کی محبّت کو اپنے نغمات کے ذریعے ہمارے دلوں میں اتارا اور ایسی ملّی شاعری کی جو زبان زدِ عام ہو گئی۔

  • 3 جون 1947ء: تاریخ ساز دن اور ماؤنٹ بیٹن کی زیادتیاں

    3 جون 1947ء: تاریخ ساز دن اور ماؤنٹ بیٹن کی زیادتیاں

    تقسیمِ ہند سے قبل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو یہاں مالک و مختار بنا کر بھیجا گیا۔ وہ متحدہ ہندوستان (برٹش انڈیا) کا آخری وائسرائے تھا جسے آنے والے دنوں میں یہاں کے باشندوں کی سیاسی اور سماجی حیثیت کا تعین اور ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا جس کے ساتھ ہی ہندوستان سے برطانیہ کا اقتدار بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتا۔

    ماؤنٹ بیٹن نے اس وقت کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سے بات چیت اور مذاکرات کیے جب مسلمان محمد علی جناح کی قیادت میں علیحدہ وطن اور خودمختار و آزاد ریاست کے لیے اکٹھے ہوچکے تھے اور کسی قیمت پر اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنے اور متحدہ ہندوستان میں حکومت کرنے کا کوئی فارمولا اور آئینی راستہ قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔

    ایک خیال یہ بھی ہے کہ جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ کے لیے نوآبادیات کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا، بالخصوص ہندوستان میں آزادی کے لیے مزاحمت، سیاسی دباؤ اور نوآبادیات میں‌ انتشار اور افراتفری نے برطانوی حکومت کی پریشانیاں بڑھا دی تھیں جس کی شدّت کو کم کرنے کے لیے ماؤنٹ بیٹن کو بھیجا گیا اور متحدہ ہندوستان کو قائم رکھنے کے لیے بات چیت میں ناکامی کے بعد تقسیم کا اعلان کردیا گیا۔

    اس موقع پر ایک مرتبہ پھر انگریزوں کی مکّاری اور مسلمان دشمنی کے ساتھ ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آگیا اور انگریزوں نے مسلمانوں کے باب میں جو جو زیادتیاں اور نا انصافیاں کیں، وہ ایک اور نہایت دردناک داستان ہے۔

    مسلمانانِ برصغیر کی آزادی اور خود مختاری انھیں ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن اور کانگریس نے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ آزاد اور خود مختار ریاستوں کا الحاق انڈین یونین سے کیا جائے گا جب کہ ایک اجلاس میں پارلیمنٹ میں اعلان کیا گیا تھا کہ برطانیہ کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ریاستوں کی آزاد حیثیت بحال ہوجائے گی، لیکن حیدرآباد دکن، جودھ پور، جونا گڑھ، بھوپال، بیکانیر اور میسور کے ساتھ جو کچھ ہوا ایک علیحدہ دل خراش داستان ہے۔ اضلاع اور سرحد کی تقسیم میں ناانصافیوں کے ساتھ قتل و غارت گری، دھمکیوں اور دباؤ کے شرم ناک اور اوچھے ہتھکنڈے اسی ماؤنٹ بیٹن اور ہندوؤں کی ملی بھگت کا نتیجہ تھے۔

    3 جون 1947ء ہندوستان کی تاریخ میں بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ اس تاریخ ساز موقع پر ہندوستان کی تقسیم کے اعلان کے ساتھ ہی دنیا میں ایک نئی اسلامی مملکت کے قیام کا اعلان ہوا تھا جسے پاکستان کا نام دیا گیا۔ اس سے پہلے ہندوستان کا مسئلہ آئینی طریقے سے حل کرنے کے لیے حکومت ہند نے جتنی بھی کوششیں کی تھیں، وہ ناکام ہوگئی تھیں۔ اس دن طے پایا تھا کہ ہندوستان کو ہندو اکثریت اور مسلمان اکثریت والے علاقوں میں بانٹ دیا جائے گا مگر ماؤنٹ بیٹن کا جھکاؤ بھارت کی طرف رہا اور کھلی سازش اور زبردستی سے کئی علاقے بھارت کو دے دیے گئے جنھیں پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا۔

    ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر کون سا علاقہ ہندوستان میں اور کون سا پاکستان میں شامل ہو گا، یہ طے کرنے کا کام برطانوی وکیل ریڈ کلف کا تھا اور وہ تقسیم کی لیکر کھینچ بھی چکے تھے، لیکن وائسرائے کی جانب سے بلاوا آیا اور ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کے بعد راتوں رات فیروز پور جیسے متعدد علاقے جو اصولی اور قانونی طور پر پاکستان کا حصہ تھے، ہندوستان کو دے دیے گئے۔

    14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر آزاد مسلم ریاست ضرور ابھری، لیکن اس وقت تک چالاک اور جانب دار ماؤنٹ بیٹن اپنے سازشی فیصلوں کی وجہ سے ہزاروں زندگیوں کو مشکل میں ڈال چکا تھا جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔

  • بھارت کسی خام خیالی میں نہ رہے، آزادی کی تحریک نہیں رک سکتی: مشال ملک

    بھارت کسی خام خیالی میں نہ رہے، آزادی کی تحریک نہیں رک سکتی: مشال ملک

    اسلام آباد: حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشال ملک کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج نے نہتے کشمیریوں کو محصور کیا ہوا ہے، لاکھوں قربانیوں کے باوجود کشمیری ڈٹے ہوئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق مشال ملک کا اپنے ویڈیو بیان میں کہنا تھا کہ بھارت کسی خام خیالی میں نہ رہے، بھارت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو نہیں دبا سکتا۔

    انہوں نے کہا کہ کشمیری اپنے حق خودارادیت کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، لاکھوں قربانیوں کے باوجود کشمیری آزادی کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، مظلوموں کو نہیں دبایا جاسکتا۔

    ان کا کہنا تھا کہ بھارت بھول میں ہے وہ ظلم بڑھا کر کشمیریوں کو ان کے مقصد سے پیچھے ہٹالےگا، بھارت کا 5اگست کا اقدام غیر قانونی تھا۔

    مشال ملک نے ویڈیو بیان میں کہا کہ بھارت نے ایک آرڈر سے وہ کام کردیا جو جنگوں سے نہ ہوسکا، تین ماہ کا عرصہ ہوگیا مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا سماں ہے۔

    یاسین ملک سے ایک مہینے سے کوئی رابطہ نہیں ہوا،مشال ملک

    یاسین ملک کی اہلیہ نے بتایا کہ بھارتی فوج نے نہتے کشمیریوں کو محصور کیا ہوا ہے، لیکن ان کے باوجود کشمیری اپنےحق خودارادیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ مقبوضہ وادی میں سخت کرفیو اور کریک ڈاؤن تاحال برقرارہے، عالمی برادری اور رہنماؤں کی جانب سے دباؤ کے باوجود مودی اپنے ناپاک عزائم سے باز نہ آیا۔

    بھارت کو کشمیری نہیں کشمیر کی سرزمین چاہیے، مشال ملک

    وادی میں نظام زندگی درہم برہم ہے، جبکہ گلی کوچوں میں بھارتی فوج نے ظلم وبربریت پھیلا رکھی ہے، مظلوم کشمیری خواتین کو اپنی عزت بچانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔

    درین اثنا بھارتی فوج کی جانب سے آئے دن نام نہاد آپریشن کا سلسلہ بھی جاری ہے، اب تک درجنوں نہتے شہریوں کو شہید کیا جاچکا ہے، جبکہ دنیا بھر میں لوگ کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کررہے ہیں۔