Tag: آزادی سیریز

  • جدوجہدِ آزادی: تذکرہ ملّتِ اسلامیہ کے قافلے میں شامل اہلِ قلم کا

    جدوجہدِ آزادی: تذکرہ ملّتِ اسلامیہ کے قافلے میں شامل اہلِ قلم کا

    برصغیر سے انگریزوں کو نکالنے کے لیے تمام مذاہب کے ماننے والوں اور ہر شعبۂ سماج سے وابستہ لوگوں‌ نے مل کر جدوجہد کی اور ہر قسم کی قربانیاں دیں، لیکن جب مخصوص ذہینت اور ہندو قوم پرستی نے مسلمانوں‌ کو محکوم بنانے کے لیے سازشیں شروع کیں تو مسلمانوں کو علیحدہ وطن کی ضرورت محسوس ہوئی اور تحریکِ پاکستان کا آغاز ہوا جس میں شاعر و ادیب اور دوسرے اہلِ قلم بھی شامل تھے اور ان کی ادبی اور صحافتی تحریریں ہندوستان کے مسلمانوں میں آزادی کا ولولہ اور لگن بڑھاتی رہیں

    معروف شاعر اور کالم نویس غالب عرفان نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں اہلِ قلم کے کردار اور کارناموں پر ایک طویل مضمون سپردِ قلم کیا تھا جس سے یہ اقتباسات جشنِ آزادی کی مناسبت سے نقل کیے جارہے ہیں۔ غالب عرفان لکھتے ہیں:

    اگر شاعروں اور ادیبوں کے کردار پر گفتگو کی جائے تو یہ کوئی آسان موضوع نہیں۔ یہ موضوع تفصیل چاہتا ہے اور پھر ان تمام ناموں کا احاطہ کرنا بھی ناممکن جو کسی نہ کسی شکل میں اپنے خونِ جگر سے حرف کی کھیتی سینچتے رہے اور لفظوں میں جان ڈال کر اس تحریک کو پاکستان نامی ملک پر منتج کیا۔ کیوں کہ 1857ء کی جنگِ آزادی کی ابتدا کے فوراً بعد ہی قیامِ پاکستان کی جدو جہد کا آغاز ہوچکا تھا اور اگرچہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں لیکن یہ اردو اور صرف اردو کی ہمہ گیریت اور مقبولیت ہی تھی جس نے غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں میں نئی روح پھونک دی تھی۔

    اس پورے تاریخ ساز عہد پر نظر ڈالنے کے بعد کوئی بھی شخص یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ علّامہ اقبال ہی دراصل مفکرَ پاکستان کہلانے کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ علّامہ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس میں مسلمانوں کی حالتِ زار کو بدلنے کے لیے ہمارے قومی رہنما اپنے اپنے طور پر مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو کام میں لارہے تھے۔

    مولانا الطاف حسین حالی ہوں یا مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی ہوں یا سرسیّد احمد خاں سبھی ایک رخ ہوکر سوچ رہے تھے کہ مسلمانوں کو غلامی کے طوق سے کس طرح نکالیں، لیکن ان سب زعما میں سب سے زیادہ کلیدی کردار علّامہ کی فکرِ حریّت نے ادا کیا ہے۔ انھوں نے کہا:

    دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
    کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
    تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
    جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا

    علّامہ اقبال نے اگر ایک طرف اپنے اذکار سے لبریز شاعری کے ذریعے ملّتِ اسلامیہ کے قافلوں میں اتحاد و یگانگی کی نئی روح پھونکی تو دوسری جانب غیر منقسم ہندوستان کے گوشے گوشے میں گھوم گھوم کر تاریخی جلسوں کے تناظر میں دلوں کو تڑپانے اور گرمانے کا جتن کیا۔

    جب ہم تحریکِ پاکستان کے اُس زمانے پر مرحلہ وار نظر ڈالتے ہیں تو کئی ایسے مراحل بھی سامنے آتے ہیں جہاں قائدِاعظم سے انتہائی عقیدت نے ہر چھوٹے بڑے شاعر سے ایسے نعرے لکھوائے یا ایسی نظمیں کہلوائیں جو بعد میں تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ نعروں میں ایک ایسا ہی نعرہ ’’لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان۔‘‘

    یہاں یہ کہنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ہم اپنی تاریخ کے اُن ابواب کو ٹٹولیں اور اُن پر سے زمانے کی گرد کو صاف کریں تو شاید زنجیر کی کئی انمول ٹوٹی کڑیاں ہمیں مل جائیں اور تحریکِ پاکستان اپنے سیاق و سباق کے ساتھ ہمیں نظر آ جائے۔

    خوش قسمتی سے مولانا حسرت موہانی جیسی با اصول، کھری اور ادبی شخصیت پر ہماری تاریخ خاموش نہیں ہے۔ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں جس قدر سادہ اور صاف ستھرے کردار کے مالک تھے، اُسی قدر سیاسی طور پر بھی وہ بلند و بالا اور سب سے الگ تھلگ نظر آتے تھے۔

    تحریکِ پاکستان میں ایسی پیاری و ہر دل عزیز شخصیت دور دور تک نظر نہیں آتی۔ وہ اگرچہ 1904ء میں کانگریس میں شامل ہوئے، لیکن جلد ہی بال گنگادھر تلک کی انتہا پسندی نے انھیں کانگریس چھوڑنے پر مجبور کر دیا جس کے بعد علی گڑھ سے ہی ایک ماہنامہ ’’اردوئے معلّٰی‘‘ شائع کیا۔ انھیں اپنے اصولوں سے انتہائی عشق تھا۔ ان کا پہلا امتحان اُس وقت ہوا جب ایک مصری اخبار میں عربی میں شائع شدہ مضمون کو انھوں نے اردو میں ترجمہ کرکے اپنے اخبار میں شائع کردیا۔

    یہ مضمون دراصل مصر میں قائم برطانوی حکومت کے خلاف تھا۔ انگریزی حکومت نے ان سے اس مضمون کے مصنّف کا نام دریافت کیا تو انھوں نے بتانے سے صاف انکار کردیا جس کے نتیجے میں انھیں دو سال قیدِ بامشقت اور جرمانے کی سزا دی گئی۔

    یوں تو مولانا حسرتؔ موہانی کو اُن کی غزلیہ شاعری کی بدولت اُن کی حیات میں ہی ’’رئیس المتغزّلین‘‘ کا لقب دیا جاچکا تھا، لیکن ان کی شاعری نے اس عہد کی تحریک میں اس جادو کا کام دکھایا جو بڑی بڑی تقریریں کر نہ پائیں۔

    سرسیّد احمد خاں نے اسی عہد میں ایک اخبار’’ تہذیبُ الا خلاق‘‘ بھی شائع کیا جس نے مسلم گھرانوں میں بیداری اور کردار سازی کا کام انجام دیا۔ اس مختصر سی تحریر میں، اگر نواب بہادر یار جنگ کا ذکر نہ کروں تو یہ ادھوری لکھت بھی مزید نامکمل رہ جائے گی۔ اپنی علمی استعداد اور شعلہ بیانی کی صلاحیت کے پس منظر میں نواب صاحب بہت جلد ہی قائد اعظم کے دستِ راست بن گئے اور اکثر مقامات پر انھوں نے قائدِاعظم کی انگریزی تقریروں کا فی البدیہہ اردو ترجمہ عوام کی داد و تحسین کے شور میں پیش کیا۔ ان کے اصل نام محمد بہادر خان کے ساتھ نظامِ دکن کا دیا ہوا خطاب ’’بہادر یار جنگ‘‘ دراصل اس تاریخی تقریر کا نتیجہ ہے جو انھوں نے سیرت کے ایک جلسے میں فتح میدان میں کی تھی۔

    وہ بنیادی طورپر ایک شاعر تھے اور اردو ادب سے ان کا لگائو قدرتی تھا۔ بہرحال بات ہورہی تھی ان کی تقریری صلاحیت کی جو اس دور میں مقبولیت حاصل کرسکی جس دور میں مولانا محمد علی جوہر، سید عطا اللہ بخاری، ابو الکلام آزاد اور ڈاکٹر نذیر احمد جیسی نابغہِ روز گار ہستیوں کا طوطی بول رہا تھا۔

    میں اپنی تجزیہ کو محدود وقت کے پیشِ نظر یہیں ختم کرتا ہوں، ورنہ تحریکِ پاکستان کی جدوجہد میں شریک ہونے والوں میں مولانا آزاد سبحانی، عبدالباری فرنگی محلی اور ظفر علی خان جیسے ادیبوں کی ایک طویل فہرست بھی ہنوز تشنہِ تحریر ہے۔

  • تحریکِ پاکستان اور اردو زبان

    تحریکِ پاکستان اور اردو زبان

    تحریکِ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے بے مثال جذبے، جدوجہد اور لازوال قربانیوں کی داستان ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کو بیک وقت جن دو دشمن قوتوں کا سامنا تھا، ان میں ایک انگریز سامراج اور دوسرا وہ ہندو تھا جو دل میں بغض و عناد اور مسلمانوں سے عداوت رکھتا تھا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر برطانوی راج کے خلاف لڑی تھی جو ناکام رہی۔ مگر بعد میں یہ کھلا کہ ہندو قیادت انگریزوں سے مل کر مسلمانوں‌ کے خلاف سازش کر رہی ہے تو مسلمان اکابرین نے اپنی شناخت اور قومیت کو بچانے کے لیے جدوجہد شروع کی اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔

    1857ء کے بعد ہندوؤں کو محسوس ہوا کہ مسلمانوں‌ کی وجہ سے ان کا متحدہ ہندوستان پر راج قائم کرنے کا خواب پورا نہیں ہوسکتا تو انہوں نے انگریز سرکار کی قربت حاصل کر لی اور انگریزوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا شروع کر دیا اور دوسری طرف ہر وہ حربہ استعمال کیا جس سے مسلمانوں کی شناخت مٹائی جاسکے۔ انہوں نے اقتصادی و معاشی، تہذیبی و ثقافتی، علمی و ادبی الغرض ہر میدان میں مسلمانوں کی بالواسطہ اور بلا واسطہ شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اردو زبان جو برصغیر کی بولیوں اور مسلمان ریاستوں کی زبانوں عربی، ترکی اور فارسی کا امتزاج تھی اور مسلمانوں کے عہد میں ہی پروان چڑھی تھی، اپنے ارتقائی سفر کو طے کرتے ہوئے برصغیر کی مقبول ترین زبان بنی اور مسلمانوں کی شناخت اسی سے کی جانے لگی۔ چوں کہ اس زبان میں بکثرت عربی اور فارسی الفاظ شامل تھے اور اس کا رسم الخط بھی عربی اور فارسی تھا، اس لیے کم فہم اور تنگ نظر ہندوؤں نے صرف مسلمانوں کی زبان کہہ کر اس کے مقابلے میں ہندی کو لاکھڑا کیا۔

    تاریخ پاکستان کے طالب علم جانتے ہیں کہ علیحدہ وطن کے مطالبہ کی وجوہ میں ایک اردو ہندی تنازع بھی شامل تھا۔ زبان ایک ثقافتی عنصر ہے۔ کسی قوم کی زبان اس کے مافی الضمیر کے اظہار اور اس کی تہذیب و ثقافت کی علم بردار ہوتی ہے۔ برصغیر میں یہ زبان مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کا وسیلہ بنی کیوں کہ برطانوی حکومت نے دفاتر سے فارسی زبان کا خاتمہ کردیا تھا۔ اس کے بعد اردو ہی عوام اور خواص میں مقبول ہوئی جسے مخصوص ذہینت کے حامل ہندو قبول نہ کرسکے اور زبان کا تنازع بھی زور پکڑ گیا۔

    اردو زبان کے ساتھ مسلمانوں کا لگاؤ اس لیے بھی تھا کہ حضرت امیر خسرو سے لے کر ولی دکنی تک اور میر و غالب جیسے شاعر بھی فارسی اور مقامی بولیوں کے ساتھ اسی زبان سے وابستہ تھے۔ اس سرمائے اور اپنی شناخت کی حفاظت مسلمانوں کا ملّی اور قومی فریضہ تھا۔دوسری طرف تنگ نظر ہندو سوچ اردو زبان کو مٹا کر ہندی کو فوقیت دلانے پر کمر بستہ تھی۔ ان حالات میں علیحدہ وطن کا مطالبہ زور پکڑتا گیا اور پاکستان بن کر رہا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ اردو زبان کے خلاف اس محاز آرائی کا آغاز بنارس سے ہوا۔ اس ضمن میں محمد علی چراغ اپنی کتاب اکابرینِ تحریک پاکستان میں لکھتے ہیں:

    ’’سر انتونی میکڈانل نے متحدہ صوبہ جات کا گورنر بنتے ہی صوبہ بہار سے اردو کو ختم کرکے اس کے بجائے ہندی کو سرکاری زبان قرار دے دیا تھا۔ اس عمل سے مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی تھی۔ اردو چونکہ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی ایک طرح کی شناخت کا ذریعہ تھی اس لئے مسلمانوں نے اس مسئلے سے سنجیدگی سے نمٹنا شروع کیا‘‘۔

    اس سازش کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے جو پہلا قدم اٹھایا گیا وہ ’’اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن‘‘ کا قیام تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم ادارہ جس نے اس بے سر و سامانی میں اردو زبان کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا وہ ’’انجمنِ ترقیِ اردو” تھا۔ اور کئی ایسی تنظیموں‌ اور اہل علم و ادب کی جدوجہد سے ہندوؤں پر واضح ہو گیا کہ مسلمان برصغیر میں موجودہ دور میں اردو کے دامن میں پھلنے پھولنے والی اپنی تہذیب اور ثقافت کو کبھی پامال نہیں ہونے دیں گے۔ اردو ہندی تنازع پر بابائے اردو مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:

    ’’برعظیم میں انگریزوں کی حکومت کے قیام کے بعد جو سب سے بڑا سانحہ ہوا وہ یہ ہے کہ اس ملک میں انہوں محکوم قوم کی زبان سنسکرت اور ہندی ہی کو سب کچھ سمجھ لیا تھا۔ ہندو اردو کو محض اس لیے رد کرتے تھے کہ یہ مسلمانوں کی زبان تھی اور اس کے علاوہ اردو زبان ہندو سماج کی نمائندگی کرنے کے بجائے اسلامی معاشرت کی نمائندگی کرتی تھی۔ لہٰذا ہندوؤں نے اس کے مقابلے میں ہندی کو لا کھڑا کیا تھا۔ حالانکہ اس سے پیشتر برعظیم کی زبان اردو یا اردو کی کوئی مورد اور مفرس قسم ہی ایک عام زبان تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عہد تک اسی زبان کی ترویج و ترقی اور فروغ کے لیے ہندوؤں، سکھوں، عیسائیوں اور چینیوں نے بھی کام کیا۔ پھر مسلمانوں میں عام لوگوں سے بڑھ کر صوفیائے کرام نے بھی اس مد میں اہم خدمات انجام دیں۔ اردو کو قوت بخشی اور اسے بجا طور پر محفوظ کرنے کا فریضہ ادا کیا۔ 1857ء کے بعد تو چونکہ اردو ہندی تنازع اردو اور مسلمانوں کے خلاف ایک بہت بڑا حربہ بن گیا تھا۔ اس لیے واضح طور پر ہندوؤں کے لیے ہندی زبان اور مسلمانوں کے لیے اردو زبان ان کی دو سیاسی امتیازی نشان اور قومی علامتیں بن گئی تھیں‘‘۔

    اس دور میں اردو ہندی تنازع لسانی سے بڑھ کر سیاسی نوعیت کا ہو چکا تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان دو قومی نظریہ کی بات کرتے تھے تو ساتھ ہی اردو زبان کے تحفظ کو بھی لازمی خیال کیا جاتا تھا۔ بالآخر برصغیر میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں انہی لوگوں کے ہاتھوں عمل میں آیا جو دفاعِ اردو زبان کے لیے 4 دہائیوں سے لڑ رہے تھے۔ جن میں نمائندہ نام نواب وقار الملک، نواب محسن الملک، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان وغیرہ کے ہیں۔

    تحریک پاکستان کے پورے سفر میں رابطہ کی زبان اردو رہی۔ ایک طرف تحریک پاکستان میں عوامی رابطہ کی زبان اردو تھی اور تقاریر، جلسے اور ریلیوں میں نظریہ پاکستان کی تبلیغ بھی اسی زبان میں ہو رہی تھی جب کہ دوسری طرف ہمارے شاعر اور ادیب اردو زبان میں نظریۂ پاکستان کا تحفظ کر رہے تھے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل لکھتے ہیں:

    ’’برعظیم کے مسلمانوں میں اجتماعی روح پیدا کرنے، ان کے ملّی اور قومی شعور کو بیدار کرنے، اسے تقویت دینے اور سیاسی انتشارات کی مختلف تباہیوں اور بربادیوں کے بعد ان کے مردہ دلوں کو حرارت سے آشنا کرنے میں اردو زبان و ادب نے جو اہم کردار ادا کیا، وہ بہت مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوا‘‘۔

    اردو زبان کے ان شاعروں اور ادیبوں کی فہرست طویل ہے جنہوں نے تحریک پاکستان میں اپنے قلم کے ذریعے کردار ادا کیا۔ تحریکِ پاکستان میں اردو زبان کے جس شاعر کا سب سے اہم اور ناقابلِ فراموش کردار رہا وہ مصورِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ ہیں۔ ان کی نظم و نثر نظریہ پاکستان کی عکاس اور محافظ ہے۔ ان کے بعد جس شاعر کا نام اس ضمن میں اہم ہے وہ رئیس المتغزلین مولانا حسرت موہانی ہیں۔ وہ ایک سیاسی راہنما ہونے کے ساتھ اردو زبان کے اعلیٰ پائے کے شاعر بھی تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں برطانوی سامراج کے خلاف بڑی بے باکی سے لکھا جس کی وجہ سے ان کو کئی بار جیل بھی جانا پڑا۔ شاعری کے ساتھ ساتھ آپ صحافتی میدان میں بھی وہ سر گرمِ عمل رہے۔ مولانا ظفر علی خان نے بھی اردو شاعری اور صحافت کے ذریعے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے علاوہ مولانا الطاف حسین حالی کانام بھی اس ضمن میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔

    اردو شاعری کی طرح اردو نثر نے بھی تحریک پاکستان میں اپنا حصّہ ڈالا۔ اردو زبان کے جن ادیبوں نے نظریۂ پاکستان کا پرچار کیا ان میں عبد الحلیم شرر، نواب محسن الملک، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، عبد المجید سالک، مولوی عبد الحق وغیرہ کے نام اہم ہیں۔

    تحریک پاکستان کے دوران صحافتی میدان میں بھی اردو زبان کے بے شمار اخبارات، رسائل اور جرائد نظریۂ پاکستان اور تحریک پاکستان کی تائید کرتے رہے اور ان کے مالکان کو قید و بند کے ساتھ انگریز سرکار کی جانب سے جرمانے بھی کیے گئے۔

    (وقار حسن کے تحقیقی مضمون سے منتخب پارے)

  • تحریکِ‌ آزادی: وہ شخصیت جن سے قائدِ اعظم اور علّامہ اقبال نے تین گھنٹے مشاورت کی

    تحریکِ‌ آزادی: وہ شخصیت جن سے قائدِ اعظم اور علّامہ اقبال نے تین گھنٹے مشاورت کی

    برطانوی ہندوستان میں تحریکِ خلافت کے پلیٹ فارم سے اپنا سیاسی سفر شروع کرنے والے علّامہ راغب احسن نے ابتداً تحریکِ آزادیٔ ہند اور بعدازاں‌ تحریکِ پاکستان میں اہم کردار ادا کیا اور جیل بھی کاٹی۔

    قیامِ پاکستان کے لیے محمد علی جناح کی قیادت میں اپنا کردار ادا کرنے والے راغب احسن کا تعلق صوبہ بہار سے تھا۔ وہ ایک غریب گھرانے کے فرد تھے۔ انھوں نے 1905ء میں آنکھ کھولی۔ راغب احسن کے والد کلکتہ میں محکمۂ ڈاک میں معمولی نوکر تھے۔ راغب احسن نے کلکتہ میں تعلیم پائی۔ اس وقت کے سیاسی حالات اور تبدیلیوں نے ہر مسلمان نوجوان کی طرح انھیں بھی متاثر کیا۔ وہ تحریک خلافت سے وابستہ ہوگئے اور اس کی کمیٹی میں شمولیت کے بعد جب گرفتار ہوئے تو یہ گرفتاری ان کی زندگی میں‌ ایک تبدیلی لائی۔ ان کی ملاقات کلکتہ کارپوریشن کے اس وقت کے میئر محمد عثمان سے ہوئی اور وہاں ان دونوں نے یہ عزم کیا کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے انگریز سرکار سے نوکری نہیں لیں‌ گے بلکہ اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کریں‌ گے۔ رہائی کے بعد انھوں نے ایسا ہی کیا۔ علامہ راغب احسن نے ایم اے کی ڈگری لی اور صحافت کے میدان میں اتر گئے۔ انھیں اس میدان میں‌ اپنے زمانے کی قابل و باصلاحیت شخصیات اور نادرِ روزگار ہستیوں کی صحبت میں‌ بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ان کے افکار اور نظریات نکھر گئے اور قلم میں خوب روانی پیدا ہوئی۔ علّامہ راغب ” اسٹار آف انڈیا ” سے منسلک ہوئے اور پھر مولانا محمد علی جوہر کے اخبار ” کامریڈ ” کے اعزازی مدیر بنے۔ مولانا محمد علی جوہر کی صحبت کا راغب احسن پر بڑا اثر پڑا۔ انھوں نے لکھنا شروع کیا اور اپنی منفرد شناخت بنائی۔ یہاں‌ تک کہ محمد علی جوہر کی وفات کے بعد راغب احسن کو صحافت کی دنیا میں محمد علی ثانی کہا جانے لگا۔

    علّامہ راغب احسن نے 1931ء میں ” آل انڈیا یوتھ لیگ ” کی بنیاد رکھی اور اسی دوران ” میثاق فکر اسلامیت و استقلالِ ملّت ” کے نام سے ایک فکر انگیز دستاویز مسلمانوں کے حقوق کے لیے مرتب کی۔ 1936ء میں راغب احسن نے کلکتہ میں مسلم لیگ کا دفتر کھولا اور نہایت سرگرمی سے تنظیم سازی شروع کی۔

    ہندوستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ جو مسئلہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان متنازع فیہ تسلیم کیا گیا وہ طرزِ انتخاب تھا۔ ہندوستان کے بڑے بڑے مسلم راہ نما مثلاً حکیم اجمل خاں، سر علی امام، حسن امام ، بیرسٹر مظہر الحق، محمد علی جناح، حسرت موہانی، ڈاکٹر انصاری، مولانا ظفر علی خان، چودھری خلیق الزماں، مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر وغیرہم متحدہ طرزِ انتخاب کو ہندوستان کے سیاسی نظام کے لیے بہتر سمجھتے تھے جب کہ مسلم کانفرنس کے اراکین و عہدے داران ہمیشہ جداگانہ طرزِ انتخاب کے حامی رہے۔ ان میں محمد شفیع، علامہ محمد اقبال کے ساتھ علّامہ راغب احسن بھی شامل ہیں۔

    اسی جداگانہ طرزِ انتخاب پر علّامہ راغب احسن کی کئی تحاریر اور وقیع مضامین سامنے آئے جن کا مقصد اس حوالے سے اپنے مؤقف پر عوام میں شعور اجاگر کرنا اور آگاہی دینا تھا۔

    علّامہ راغب احسن کا نام و مقام اور ان کے تحریکِ آزادی میں کردار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح 1935ء میں برطانیہ سے ہندوستان تشریف لائے تو دلّی میں تین اہم شخصیات نے گھنٹوں ایک کمرے میں بیٹھ کر وطن اور مسلمانوں کے حالات اور مستقبل پر بات چیت کی۔ یہ تین شخصیات محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال اور راغب احسن تھے۔

  • تحریکِ‌ آزادی: علمائے کرام اور دینی شخصیات کا کردار

    تحریکِ‌ آزادی: علمائے کرام اور دینی شخصیات کا کردار

    تحریکِ پاکستان اور آزادی کی جدوجہد میں جہاں سیاست داںوں اور سماجی راہ نماؤں نے قائدِ اعظم کی قیادت میں اپنا کردار ادا کیا، وہیں مشائخِ عظام و علمائے کرام اس تحریک میں صفِ اوّل میں نظر آتے ہیں۔ علمائے کرام نے اپنے اسلامی تشخص کا دفاع کرتے ہوئے ایک ایسی ریاست کے قیام کے لیے ہر قسم کی قربانی دی جس کی بنیاد کلمہ پر رکھی جانی تھی۔

    تاریخ گواہ ہے کہ برِّصغیر کے علما اور ہندوستان بھر کے خانقاہوں سے وابستہ مشائخ قائدِاعظم محمد علی جناح اور دیگر اکابرین کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئے اور اسلام کے نام پر علیحدہ وطن کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیا۔ ہر محاذ پر علما نے فتنوں کا تدارک کیا اور فساد کا راستہ روکا۔ قائد اعظم کے مخالفین کو کڑا جواب دیا اور جناح صاحب کی حمایت میں کھڑے رہے۔

    مفکّرِ پاکستان، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے برّصغیر کے مسلمانوں کے لیے جس آزاد اسلامی اور فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا، اس کی عملی تصویر قائدِاعظم محمد علی جناحؒ اور انہی قائدین کی کوششوں سے ممکن ہوئی جو آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ یہاں ہم تحریکِ پاکستان کے لاکھوں مسلمانوں کی طرح جان و مال کی قربانیاں دینے والی ان چند نام ور مذہبی اور دینی شخصیات کا تذکرہ کررہے ہیں‌ جن کی تحریکِ پاکستان کے لیے خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ یہ علما اور صوفی شخصیات بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے دست و بازو رہے ہیں۔

    پیر جماعت علی شاہ
    آپ نے تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصّہ لیا اور قائداعظم محمد علی جناح سے رابطہ و مشاورت میں پیش پیش رہے۔ آپ مسلم لیگ اور قائدِاعظمؒ پر مکمل اعتماد کا اعلان کرتے ہوئے تحریک کو آگے بڑھانے میں ہر طرح سے ممد و معاون ثابت ہوئے۔ وائسرائے ہند کے نام تار میں آپ نے فرمایا ’’مسلم لیگ‘‘ مسلمانانِ ہند کی واحد نمائندہ جماعت ہے اور قائدِاعظم محمد علی جناح اسلامیانِ ہند کے واحد لیڈر ہیں۔ ایگزیکٹو کونسل کے مسلم ارکان کی نام زدگی مسلم لیگ اور قائدِاعظم کا کام ہے۔ طول و عرضِ ہندوستان میں میرے لاکھوں مرید مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔

    مجاہدِ ملّت مولانا عبدالستار خان نیازی
    مولانا نیازی نے علامہ محمد اقبال کے حکم پر ’’مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن‘‘ کی بنیاد رکھی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ تحریک پاکستان کے لیے بہت کام کیا۔ آپ کی بانی پاکستان کے ساتھ خط و کتابت اور ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ قائدِاعظم نے آپ کے لیے فرمایا ’’جس قوم کے پاس نیازی جیسے نوجوان ہوں، اسے پاکستان بنانے سے کون روک سکتا ہے۔‘‘

    شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی
    تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے والوں میں ایک نام شاہ صاحب کا بھی ہے جنھوں نے قائدِاعظم سے کئی ملاقاتیں کیں جس میں اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہوئے دنیا بھر میں اہم شخصیات اور بالخصوص مسلمانوں کی اس حوالے سے تائید اور حمایت حاصل کرنے کے لیے کوششوں پر مفید بات چیت ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم کے کہنے پر آپ نے اپنے بیرونِ ممالک اپنے دوروں میں عالمی راہ نماؤں کو پاکستان کے قیام کی کوششوں کی ضرورت اور اس کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔

    مولانا عبدالحق بدایونی
    تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل مولانا صاحب نے لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخ ساز اجلاس میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے کی بھرپور تائید کی اور اپنے رفقا سمیت قراردادِ پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا۔ برطانوی ہند میں انتخابات کے موقع پر آپ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ آپ نے یو پی، بہار،اڑیسہ، بنگال، آسام، بمبئی، سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے دور افتادہ علاقے میں جا کر مسلمانوں کو مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کیا۔ صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں قائداعظم نے مسلم لیگ کے جس وفد کو بھیجا تھا اس میں مولانا بدایونی شامل تھے۔

    علّامہ سید احمد سعید کاظمی
    ہندوستان کے علما میں ایک نام کاظمی صاحب کا ہے جنھوں نے آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس جس میں لاکھوں لوگ اور ہزاروں علمائے کرام شریک ہوئے تھے، اپنی شرکت یقینی بنائی اور کانفرنس میں تشریف لائے جس سے اس وقت ہند بھر میں ان کے ماننے والوں تک بھی تحریکِ پاکستان کا مقصد پہنچا اور اسے تقویت ملی۔ 27 اپریل 1946ء کو منعقدہ آل انڈیا سنی کانفرنس کو جدوجہدِ آزادی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔

    آزادی کی تحریک کے قافلے میں شامل یوں تو کئی مجاہدوں، جناح صاحب کے جاں نثاروں اور مسلم لیگ کے متوالوں کے نام لیے جاسکتے ہیں جن کی کاوشوں اور کارناموں کی تفصیل کئی ابواب کی متقاضی ہوگی، لیکن سچ یہ ہے کہ اس زمانے میں ہر قسم کی مسلکی تفریق اور تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر تمام مکاتبِ فکر کے علما نے قیامِ‌ پاکستان کو اپنا نصب العین قرار دے کر تاریخ رقم کی اور قائدِ اعظم کی ہدایت پر ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گئے اور پاکستان کے لیے جدوجہد کا پیغام عام کیا۔

    پیر جماعت علی شاہ، مولانا ابو الحسنات و دیگر، مولانا اشرف علی تھانوی اور ان کے رفقا، مولانا شفیع دیو بندی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا ظفراحمد عثمانی نے ہر مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی مسلمان کو عبادت گاہوں، خانقاہوں اور جلسہ گاہ میں آزاد وطن کی جدوجہد میں شریک ہونے کی ہدایت کی اور تحریکِ‌ پاکستان کو کام یاب بنایا۔

  • جدوجہدِ آزادی:‌ شدھی اور سَنگَھٹن تحریکوں نے ہندو ذہنیت کو آشکار کیا!

    جدوجہدِ آزادی:‌ شدھی اور سَنگَھٹن تحریکوں نے ہندو ذہنیت کو آشکار کیا!

    ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے مکروفریب، اقتدار پر قبضے کے لیے سازشوں اور حکم رانی کی کوششوں کے خلاف جب ہندوستانی قوم کی بغاوت ناکام ہوگئی تو برطانیہ نے اسے جواز بنا کر یہاں اپنا راج قائم کرلیا۔ لیکن آزادی کے لیے جدوجہد کو نہ روک سکے اور وہ وقت آیا جب انگریزوں کو بٹوارے کا اعلان کرنا پڑا۔

    یہ وہ دور تھا جب دو بڑی قومیتیں یا عقائد کے پیروکار یعنی مسلمان اور ہندو انگریزوں کے خلاف اکٹھے ہوگئے تھے۔ ان کے علاوہ سکھ، پارسی، بودھ اور دوسرے مذہبی اور لسانی بنیاد پر اقلیت کہلانے والے سماجی گروہ بھی متحدہ ہندوستان کی قیادت کے ساتھ تھے اور انگریزوں کے اقتدار سے نجات چاہتے تھے۔ انہی اکثریتی اور اقلیتی اقوام اور گروہوں سے منسلک سیاسی و سماجی راہ نماؤں نے متحد ہو کر انگریزوں کو اپنے وطن سے نکالنے کی تحریک شروع کی تاکہ وہ یہاں اپنی حکومت قائم کرسکیں۔ وطن پرستی زور پکڑ رہی تھی اور اس وقت ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ لگایا جارہا تھا، لیکن ماقبل کئی ایسے واقعات اور سانحے رونما ہو چکے تھے جو یہ ثابت کرتے تھے کہ دراصل ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد ہیں جو اپنے مذہب، رہن سہن، روایات اور ثقافت کے اعتبار سے ہر طرح جداگانہ شناخت رکھتی ہیں اور اکٹھے نہیں‌ رہ سکتیں۔ یہ مسلمان اور ہندو ہیں جن کا اتحاد غیرفطری اور یہ نعرے محض ایک قابض قوم کو دکھانے کے لیے ہیں اور آزادی کے بعد ان کا بہم رہنا مشکل ہوگا۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کا سنہری خواب تحریکِ خلافت کے دوران ہی ادھورا نظر آنے لگا تھا اور جونہی یہ تحریکِ کم زور پڑی ہندو مسلم فسادات کا ایک طویل اور خوف ناک سلسلہ چل نکلا۔ 1920ء کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہر قسم کے تعلقات بڑھتی ہوئی کشیدگی کی نذر ہونے لگے۔ اس کشیدگی کی انتہا کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1923ء میں 11، اگلے سال 18، 1925ء میں 16 اور اس کے ایک سال بعد یعنی 1926ء میں 35 اور اگلے ہی برس 37 افسوس ناک واقعات رونما ہوئے جو ہندو مسلم فسادات کا نتیجہ تھے۔ ہر سال ایسے واقعات بڑھتے رہے جب کہ چھوٹے اور معمولی نوعیت کی تکرار اور جھگڑے عام ہوتے جارہے تھے۔

    ہندوستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہندو شروع ہی سے مسلمانوں کو اپنا مطیع و حاشیہ نشیں بنا کر رکھنے کا خواب دیکھتے آئے تھے جس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ جس ہندوستان میں‌ رہتے تھے، اس پر صدیوں تک مسلمانوں نے حکومت کی تھی اور دہلی مغل بادشاہوں کا پایۂ تخت رہا تھا۔ اس نے ہندوؤں میں شدید احساسِ‌ محرومی پیدا کردیا تھا۔ مغل سلطنت کے کم زور پڑ جانے کے بعد اور انگریزوں کی آمد سے قبل بھی یہاں مختلف چھوٹے بڑے علاقے مسلمان حکم رانوں کے زیرِ‌نگیں تھے اور وہ ریاستوں کے راجہ تھے۔ اگرچہ ان ادوار میں ہندو مسلم اتحاد برقرار رکھنے کے لیے ہر سطح پر دیگر مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھا گیا، لیکن ہندو خود کو محکوم سمجھتے تھے۔ مغل دور میں ہندوؤں کو مذہبی، سماجی اور ثقافتی ہر قسم کی آزادی حاصل تھی۔ وہ اپنے رسم و رواج اور طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کررہے تھے مگر ان کا محرومی کا احساس مٹ نہ سکا۔

    انگریزوں کی آمد کے بعد مخصوص ذہنیت کے حامل ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا۔ وہ انگریزوں سے ساز باز اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرکے اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھنے لگے۔

    ہندو مسلم تعلقات خراب کرنے کی ابتدا ہندوؤں کی جانب سے ہوئی جنھوں نے پنڈت مدن موہن مالویہ، لالہ لاجپت رائے اور شردھا نند کی قیادت میں سَنگَھٹن اور شدھی تحریکیں شروع کیں۔ سَنگَھٹن کے معنی ایک ساتھ جوڑ کر مضبوطی سے باندھنا تھا۔ اس تحریک کا مقصد ہندوؤں کی تعلیم و تربیت کرنا، انھیں نظم و نسق اور مختلف امور کا ماہر بنانا، اور مخالفین سے اپنا دفاع سکھانا تھا جس کے لیے ایسے اسلحہ کا استعمال بھی سکھایا جاتا جس سے فسادات کی صورت میں مسلمانوں کے خلاف کام لینا مقصود تھا۔ ہندو نوجوانوں کو لاٹھیوں، اینٹوں کے ٹکڑوں اور بنوٹ کا دشمن پر استعمال سکھایا جارہا تھا۔

    دوسری طرف شدھی تحریک کا شور ہونے لگا جس کا مطلب تھا پاک کرنا۔ یعنی وہ لوگ جو اسلام کے ہمہ گیر اور آفاقی نظریات اور اس کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہندو مت ترک کر کے مسلمان ہو گئے تھے انھیں مجبور کرکے دوبارہ ہندو مت میں داخل کر لیا جائے۔ ان حالات میں ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ محض فریب ہی تھا۔ ان دونوں تحریکوں کا مقصد ہندوستان سے مسلمانوں کے وجود کو مٹانا تھا اور اسے بڑے بڑے ہندو راہ نماؤں کی حمایت حاصل ہوگئی تھی۔ ایسی تحریکوں کے انتہا پسند ہندو لیڈروں نے مسلمانوں کے خلاف اپنے خبثِ باطن کا اظہار شروع کر دیا اور ڈاکٹر مونجے نے اودھ ہندو سبھا کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ’’جس طرح انگلستان انگریزوں کا، فرانس فرانسیسیوں اور جرمن جرمنوں کا ملک ہے اسی طرح ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے۔‘‘ ہندو چاہتے تھے کہ یا تو مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال دیا جائے یا انھیں ہندو مت قبول کرنے پر مجبور کردیا جائے۔

    جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات وسیع پیمانے پر ہونے لگے اور ان کا دائرہ پھیلتا جارہا تھا اور ہندو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے، لیکن مسلم زعما بالخصوص قائدِاعظم ان مایوس کن حالات میں بھی ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں تھے۔ تاہم جلد ہی انھیں بھی احساس ہو گیا کہ علیحدہ وطن کا حصول ناگزیر ہے۔

    مصوّرِ پاکستان ڈاکٹر علّامہ اقبال کی بات کی جائے تو وہ برطانوی راج میں ہندوستانی آئین کے مطابق مسلمانوں کے لیے جداگانہ طرزِ‌ انتخاب سمیت علیحدہ ریاست کو اُس وقت بھی اہمیت دے رہے تھے جب قائداعظم سمیت دیگر مسلمان راہ نما ہندو مسلم اتحاد کے نعروں کے پیچھے چھپی ہندوؤں کی ذہنیت کا صحیح اندازہ نہیں لگا پائے تھے۔ علّامہ اقبال نے ایک موقع پر واضح طور پر کہا کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں بحثیت مسلمان زندہ رہنا ہے تو ان کو جلد از جلد اپنی اصلاح و ترقی کے لیے سعی و کوشش کرنی چاہیے اور ایک علیحدہ سیاسی پروگرام بنانا چاہیے۔

    بیسویں صدی كے آغاز پر جو حالات پیدا ہوئے اور فسادات کے علاوہ سیاسی میدان میں مسلمان قیادت پر جب ہندوؤں کا مکروفریب کھل گیا تو اکابرین نے علیحدہ مسلم تشخص کی بات کی اور الگ سیاسی پلیٹ فارم تشکیل دے کر آزادی کی تحریک شروع کردی۔ اس راستے میں بے شمار قربانیاں دے کر مسلمانوں نے 14 اگست 1947ء کو پاکستان حاصل کیا۔

  • ’’ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے!‘‘

    ’’ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے!‘‘

    برصغیر میں‌ صدیوں تک مختلف مذاہب اور عقائد کے ماننے والے اکٹھا رہے ہیں۔ آپس میں میل جول اور راہ و رسم سے معاشرہ میں بھائی چارہ اور یگانگت فضا قائم رہی ہے۔ مغل دور کی بات کریں‌ تو دربار میں بھی بلاتفریقِ مذہب و ملّت یگانہ روزگار شخصیات اکٹھا تھیں، لیکن ہندوستان پر کمپنی کا قبضہ ہوگیا اور انگریزوں نے اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے سب سے پہلے اس فضا کو مسموم کیا اور یہ اتحاد و اتفاق پارہ پارہ ہوگیا۔

    اس کے بعد دنیا نے ہندوستان کی تقسیم دیکھی۔ یہ انسانی تاریخ کا ایک عظیم اور ایسا دردناک واقعہ ہے جس میں لاکھوں انسانی جانیں ضایع ہوئیں اور کئی دردناک داستانیں رقم ہوئیں۔ برصغیر اور مسلم ہند کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو سب سے نمایاں اور اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ یہاں مسلم قومیت کا تصوّر پہلے سے موجود تھا۔ انگریزوں نے ہندوؤں میں اقتدار کی ہوس دیکھی اور یہ جانا کہ وہ کئی سو سال تک مغل بادشاہت کی وجہ سے احساسِ محرومی کا شکار ہیں اور اسی کا فائدہ اٹھانے کے لیے ہندوستان میں نفرت کو ہوا دی، ہر قسم کی مذہبی اور قومی تفریق کو اجاگر کرکے انگریزوں نے اپنی حکومت اور اقتدار کو فائدہ پہنچایا۔ انگریز مسلمانوں کے دشمن تھے اور ان کو کچلنے اور استحصال کے لیے ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کر کے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے۔ انہی سازشوں نے مسلمانوں میں جداگانہ تشخّص کو برقرار رکھنے کی خواہش کو تقویت دی اور تحریکِ پاکستان کا سفر شروع ہوا۔

    تحریکِ پاکستان کے یوں کئی عوامل ہیں، لیکن یہاں ہم اس حوالے سے چند بنیادی اور نمایاں پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔

    جداگانہ تشخص اور تحریکِ پاکستان
    تحریکِ پاکستان کا ایک وسیع پس منظر ہے جسے جاننے کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں کہ مسلمانوں میں جداگانہ تشخص اور علیحدہ وطن کی خواہش نے متعصب اور انتہا پسند ہندوؤں کی وجہ سے جنم لیا اور حالات کو بگاڑتے ہوئے مسلمان قیادت کو اس مقام پر پہنچا دیا جہاں انھوں نے اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کیا اور اس کے لیے ہر محاذ پر انگریزوں اور متعصب ہندوؤں کا مقابلہ کیا۔ 1920ء کے بعد جو حالات پیدا کردیے گئے تھے، ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ مسلمان انگریزوں اور ہندوؤں کی سازشوں کے سبب اکٹھے نہیں رہ سکتے تھے۔

    حالات میں بگاڑ، انگریز ہندو گٹھ جوڑ
    جنگِ بلقان کے دوران 1913ء میں کانپور میں مچھلی بازار کی مسجد کا بیرونی حصہ شہید کر دیا گیا جس سے مذہبی جذبات بُری طرح مجروح ہوئے، اور مسلمانوں کو یہ احساس ہوگیا کہ برطانوی حکومت نے مسلمانوں کو مذہبی اور سماجی اعتبار سے پامال کرنے کا تہیہ کر لیا ہے، چناں چہ سانحہ کانپور سے اسلامیانِ ہند کی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔

    اس واقعے سے پورے ہندوستان کے مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف غم و غصہ پیدا ہوا اور ہر طرف ہلچل مچ گئی۔ مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد جیسے راہ نماؤں اور اکابرین نے بالترتیب لاہور سے ’’زمیندار‘‘، دہلی سے ’’کامریڈ‘‘ اور کلکتہ سے ’’الہلا ل‘‘ نامی اخبارات جاری اور مسلمانوں کا مؤقف سامنے رکھتے ہوئے انگریز سرکار کی پالیسیوں پر تنقید کی۔ دیگر مسلم زعماء مثلا ًمولانا عبدالباری فرنگی ، محلی، مولانا آزاد سبحانی ، مولانا شوکت علی وغیرہ نے ایسے واقعات کو انگریزوں کی مسلم دشمن پالیسی قرار دے کر کڑی نکتہ چینی کی۔ اسی واقعے کے بعد جب مسلمانوں پر فائرنگ اور مسلم راہ نماؤں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں تو ان راہ نماؤں نے شدید احتجاج کیا جس سے مسلمانوں میں ملّی بیداری اور عملی سیاست میں حصّہ لینے کی سوچ کو تقویت پہنچی۔

    ہندو مسلم فسادات
    1920ء کے بعد ہندوستان میں انگریز سرکار کی مسلم دشمن پالیسیوں اور ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کر کے نقصان پہنچانے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ نہ صرف برطانوی دور کی بدترین یاد ہے بلکہ مسلسل فسادات نے ایک خونیں تاریخ رقم کی۔ اس عشرے میں ہندو مسلم فسادات کی تاریخ میں ایک نئے اور سنگین باب کا اضافہ ہوا اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے ماضی میں کی جانے والی تمام کوششیں برباد ہوگئیں۔ مسلمانوں پر عیاں ہوگیا کہ انگریز اور ہندو ان کے بدترین دشمن ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہوگئی جسے پاٹنا ممکن نہ تھا۔

    محمد علی جناح اور اتحاد کی کوششیں
    محمد علی جناح جو اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے ایک سفیر اور اہم راہ نما تھے، وہ بھی حالات سے دل گرفتہ نظر آئے۔ اسی عشرہ میں اتحاد و اتفاق بڑھانے اور انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد کرانے کے حوالے سے کانفرنسیں بھی ہوئیں اور ہندو مسلم مفاہمت کے لیے کئی تجاویز سامنے آئیں جن میں قائد اعظم کے ایما پر دہلی تجاویز اہم ترین تھیں۔ یہ تجاویز 1937 میں مسلم زعما کے ایک اجلاس میں مرتب کی گئی تھیں، مگر آل انڈیا نیشنل کانگریس نے گاندھی اور نہرو کی سرکردگی میں ان مطالبات پر غور کیا اور اپنے ابتدائی اجلاس میں تسلیم بھی کرلیا لیکن بعد میں چند متعصب ہندوؤں کے زیرِ اثر ان میں سے چند مطالبات کو رد کر دیا گیا۔

    کانگریس کی چالیں
    اس کے بعد جب نہرو رپورٹ سامنے آئی جو کانگریس نے ہندوستان کے آئین کی حیثیت سے تیار کی تھی، ان میں بھی مسلم حقوق کو پامال کیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ دسمبر 1928ء اور جنوری 1929ء میں جب نہرو رپورٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے کلکتہ میں نیشنل کنونشن منعقد ہوا تواس میں بھی محمد علی جناح کے تین بنیادی مطالبات کو مسترد کر دیا گیا۔

    ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا
    محمد علی جناح اور ان ساتھیوں کے لیے یہ ایک انتہائی مایوس کن اور چونکا دینے والی صورت حال تھی۔ محمد علی جناح نے اپنے پارسی دوست جمشید نسروانجی سے کہا کہ ’’آج ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا اس طرح جدا ہو گئے ہیں کہ اب کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے۔‘‘

    اس رپورٹ کے بعد اس وقت مختلف معاملات پر گروہ بندی اور اختلافات کی وجہ سے دور ہو جانے والے مسلمان راہ نماؤں کو بھی جب کانگریس کی مسلم دشمنی کا یقین ہوگیا تو وہ سب متحد ہوگئے۔

    مسلمان قیادت کا اتحاد اور آل پارٹیز مسلم کانفرنس
    جنوری 1929ء میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس اسی اتحاد کا مظہر ہے۔ اس کانفرنس کا اجلاس دہلی میں ہوا جس کی صدارت سر سلطان محمد آغا خان نے کی۔ اس کانفرنس میں نہ صرف میاں محمد شفیع اور سر شفاعت احمد خان پیش پیش تھے بلکہ ترک موالات اور تحریک خلافت کے راہ نما مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور حسرت موہانی جیسے جید علما اور سیاست دانوں نے بھی اس میں اہم کردار اداکیا۔

    قائدِ اعظم کے 14 نکات
    ان واقعات کی روشنی میں محمد علی جناح نے 1929ء میں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے اور اسے برصغیر کی تاریخ میں اسلامیانِ ہند کے منشور کی حیثیت حاصل ہوئی۔ بعد کے برسوں میں مسلم لیگ اور محمد علی جناح کی قیادت میں مختلف مسلم جماعتوں کے اتحاد کی کوششیں جاری رہیں اور لندن میں تین گول میز کانفرنسیں منعقد ہوئیں جس کے بعد ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء مرتب کیا گیا۔

    انتخابات اور کانگریس کی غیر متوقع کام یابی
    1906ء سے 1938ء تک ہندو مسلم مفاہمت کی کوششیں اور اس ضمن میں تجاویز مسلمانوں کی ہی جانب سے پیش کی جاتی رہی تھیں لیکن کانگریس اور ہندوؤں کی جانب سے منفی رویہ اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ دیکھا گیا جس نے 1937ء کے انتخابات کے بعد شدت اختیار کرلی۔ انتخابات سے قبل قوی امید تھی کہ کانگریس اور مسلم لیگ میں مفاہمت ہو جائے گی اور دونوں جماعتیں مل کر مخلوط وزارتیں قائم کریں گی، لیکن انتخابات میں کانگریس کی غیر متوقع کام یابی کے بعد طاقت کے نشے میں بدمست کانگریس نے کچھ اور ہی منصوبہ بنا لیا۔

    کانگریس کے متعصب اور مفاد پرست ہندو راہ نماؤں نے دوسری تمام پارٹیوں کو اپنے اندر ضم کر کے ہندوستان کی واحد سیاسی جماعت بن جانے کا سوچا اور مخلوط وزارتوں کے بارے میں مسلم لیگ کی پیش کش کو ٹھکرا دیا، یہی نہیں جن ہندو اکثریتی صوبوں میں کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں وہاں مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کردیا۔

    کانگریس کی پالیسیاں اور مسلم کش اقدامات
    سیاسی طاقت کے حصول کے بعد کانگریس کی جانب سے ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت یکے بعد دیگرے مسلم کش اقدامات کیے جن میں بندے ماترم کو قومی ترانہ کی حیثیت دینا، تمام سرکاری عمارتوں پر کانگریس کے پرچم کو قومی پرچم کی حیثیت سے لہرانا، اردو کی جگہ ہندی زبان، گائے کو ذبح کرنے پر پابندی، ملازمتوں میں مسلمانوں کو ان کے مخصوص اور مقررہ حقوق سے محروم کرنا۔

    آل انڈیا مسلم لیگ کی مقبولیت
    مسلم قیادت اور اکابرین نے یہ سب دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی غرض سے قائدِ اعظم کے ساتھ 1934ء میں‌ کوششوں کا آغاز کیا اور جب مسلم لیگ کا اجلاس لکھنؤ میں 1937ء میں ہوا تو اس نے ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو ایک ایسے جوش و جذبہ سے سرشارکردیا جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس اجلاس کے صرف تین ماہ بعد ہی مسلم لیگ کی نئی شاخیں قائم ہونے لگیں اور رکنیت سازی زوروں پر تھی۔

    محمد علی جناح کی حکمت عملی، صبر و تحمل اور سیاسی بصیرت کے باوصف تحریک کام یاب ہوتی چلی گئی اور ہندوستان بھر میں ترقی کی اور بڑے صوبوں میں اسلامیانِ ہند کے کام یاب ترین اجلاس منعقد ہوئے۔ مسلم لیگ کی روز افزوں قوّت اور مقبولیت بڑھنے کا اندازہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے بھی ہوتا ہے جس نے سیاسی طور پر مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچایا۔ مسلم لیگ کی مقبولیت کا ایک ثبوت 1939ء میں یومِ نجات منانے کی جناح صاحب کی اپیل تھی جس پر برصغیر کے مسلمانوں نے والہانہ انداز اور جوش و جذبے سے لبیک کہا۔

    مسلم قومیت کا فروغ اور علیحدہ ریاست کا قیام
    وہ وقت بھی آیا جب قائداعظم نے الگ مسلم قومی تشخص کی اس طرح توضیح اور تشریح کی کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں ایک علیحدہ مملکت کے قیام پر سب رضامند ہوگئے۔ چنانچہ قائداعظم کی زیرِ قیادت مسلم لیگ نے لاہور میں 1940ء میں منعقدہ اجلاس میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کو اپنا نصب العین قرار دیا اور اس کو پاکستان کا نام دیا گیا۔

    یہ پہلا موقع تھا جب مسلمانانِ ہند نے اتنے واضح اور مدلل انداز میں اپنی منفرد اور علیحدہ قومیت کا نہ صرف اعلان اور دعویٰ کیا بلکہ برصغیر میں ایک علیحدہ وطن کی تشکیل پر بھی زور دیا اور پھر 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔

  • یومِ وفات: مصوّر احمد سعید ناگی جن سے قائدِاعظم نے اپنا پورٹریٹ بنوایا

    یومِ وفات: مصوّر احمد سعید ناگی جن سے قائدِاعظم نے اپنا پورٹریٹ بنوایا

    یکم ستمبر 2006ء کو پاکستان کے نام و‌َر مصوّر احمد سعید ناگی کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں قائدِ اعظم کو روبرو بٹھا کر ان کا پورٹریٹ بنانے کا اعزاز حاصل تھا۔

    احمد سعید ناگی باکمال مصوّر، ایک خوش لباس، ہنس مکھ، ملن سار اور محبّت کرنے والے فن کار مشہورتھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    احمد سعید ناگی لاہور سے معاش کی تلاش میں‌ کراچی آئے تھے اور زندگی کا سفر اسی شہر میں تمام کیا۔ وہ 2 فروری 1916ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے امرتسر، لاہور، دہلی کی درس گاہوں سے تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد پیرس کا رخ کیا اور اعلیٰ تعلیم مکمل کر کے وطن لوٹے۔

    احمد سعید ناگی نے 1944 میں قائدِاعظم کا پورٹریٹ بنایا تھا۔

    پاکستان کے اس باکمال مصوّر کے فن پاروں کو ملک کے مختلف شہروں کے علاوہ پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت میں‌ نمائش کے لیے سجایا گیا جہاں شائقین اور ناقدین نے ان کے کام کو دیکھا اور سراہا۔

    احمد سعید ناگی کے مختلف فن پارے زیارت ریذیڈنسی، گورنر ہائوس کوئٹہ، گورنر ہائوس کراچی، موہٹہ پیلس، قصر ناز، گورنر ہائوس پشاور اور پنجاب اسمبلی بلڈنگ لاہور میں آویزاں ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے فنِ مصوری میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • وائسرائے ہند کی اہلیہ نے والدہ کے نام خط میں قائدِ‌اعظم کے حوالے سے کیا لکھا تھا؟

    وائسرائے ہند کی اہلیہ نے والدہ کے نام خط میں قائدِ‌اعظم کے حوالے سے کیا لکھا تھا؟

    مسلمانانِ ہند کے عظیم قائد اور بانی پاکستان محمد علی جناح کی نفاست پسندی اور خوش پوشاکی ضربُ المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔

    قائدِاعظم محمد علی جناح کی نفاست پسندی اور جامہ زیبی نے ہندوستان کے وائسرائے لارڈ چمسفورڈ اور لارڈ ہارڈنگ بھی متاثر تھے اور متعدد مواقع پر اس کا اعتراف بھی کیا۔ برطانوی دور کے ایک اور ہندوستانی حاکم لارڈ ریڈنگ کی اہلیہ نے تو اپنی والدہ کے نام ایک خط میں لکھا: ’’بمبئی کے جواں سال وکیل جناح کو عموماً خوش لباسی اور جامہ زیبی میں لائیڈ جارج تصور کیا جاتا ہے۔‘‘

    اگر بات کی جائے ہندوستان کے عام مسلمانوں کی تو وہ روایتی ملبوس اور اس دور کی قدروں کو اہمیت دیتے تھے اور کپڑے کی بنی ہوئی ٹوپی سے سَر ڈھانپتے تھے جسے شرافت اور تہذیب کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ جب سلطنتِ عثمانیہ اور تحریکِ خلافت کا شہرہ ہوا تو ان کی اکثریت نے مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد پر اپنے لباس میں ترکی ٹوپی بھی شامل کرلی تھی۔

    قائدِ اعظم نے ہمیشہ کوٹ، پتلون، ٹائی اور فلیٹ ہیٹ ہی استعمال کیا، لیکن مسلم لیگ کے راہ نما اور تحریکِ آزادی کے قائد بعد میں اچکن اور تنگ پاجامہ، شیروانی جیسے روایتی ملبوس کے ساتھ ایک مخصوص ٹوپی پہن کر جلسوں اور مختلف اہم تقاریب میں‌ شریک ہونے لگے اور ان کے زیرِ استعمال قراقلی ٹوپی اتنی مشہور ہوئی کہ جناح کیپ کے نام سے مشہور ہوگئی۔

    یہ دراصل دنبے کی ایک خاص نسل قراقلی کی کھال سے تیّار کی جاتی ہے اور اسی سے موسوم ہے۔ اس جانور کی یہ مخصوص کھال افغانستان اور بیرونِ ملک سے منگوا کر متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد پاکستان میں بھی اس سے قراقلی ٹوپی تیّار اور استعمال کی جاتی رہی، لیکن بدلتے ہوئے فیشن اور ملبوسات کے ساتھ اس کا رواج بھی ختم ہو چکا ہے۔

    بانیِ پاکستان محمد علی جناح جب اپنے عمدہ اور خوب صورت ملبوس کے ساتھ یہ ٹوپی پہننے لگے تو لوگوں نے اسے بہت پسند کیا اور اسے جناح کیپ ہی کہنا شروع کردیا اور اکثریت نے اسے اپنے لباس کا حصّہ بنایا۔

  • قائدِ‌اعظم کو کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کیوں حاصل کرنا پڑا؟ ایک یادگار واقعہ

    قائدِ‌اعظم کو کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کیوں حاصل کرنا پڑا؟ ایک یادگار واقعہ

    بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کی شخصیت و کردار کو ہندوستانی اور بعض انگریز مؤرخین نے بھی سراہا ہے اور ان کی زندگی کے مختلف ایسے واقعات کا تذکرہ کیا ہے جو ان کے بااصول، صاف گو ہونے اور مضبوط و اجلے کردار کی غمّازی کرتے ہیں۔ یہاں ہم ایک ایسے ہی واقعے کا تذکرہ کررہے ہیں جو دل چسپ بھی ہے۔

    قانون کی تعلیم مکمل کرکے لندن سے ہندوستان لوٹنے والے محمد علی جناح نے جب ممبئی (بمبئی) میں پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرنا چاہا تو انھیں کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت پڑی۔

    پریکٹس شروع کرنے کے خواہش مند کسی بھی وکیل کے لیے لازمی تھا کہ وہ یہ سرٹیفیکیٹ حاصل کرے۔ ایک روز محمد علی جناح صبح سویرے ایک انگریز مجسٹریٹ کے بنگلے پر پہنچ گئے اور نوکر کے ہاتھ ایک چٹ پر اپنا نام اور ڈگری لکھ کر ضروری کام سے ملاقات کا پیغام اندر بھجوا دیا۔ مجسٹریٹ نے انھیں اندر بلا لیا۔

    قائدِ اعظم نے اندر جاتے ہی سوال کیا:’’میرے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘

    مجسٹریٹ نے جواب دیا: مجھے آپ بے حد شریف آدمی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اس پر قائدِ اعظم نے اسی وقت ایک کاغذ آگے بڑھا دیا اور نہایت ادب اور شائستگی سے کہا: ’’جنابِ عالی، یہ الفاظ اس پر لکھ دیجیے۔ دراصل مجھے قانون کی پریکٹس شروع کرنے کے لیے کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے۔‘‘

  • تحریکِ‌ پاکستان: علمائے کرام جو قائدِ اعظم کا دست و بازو بنے

    تحریکِ‌ پاکستان: علمائے کرام جو قائدِ اعظم کا دست و بازو بنے

    تحریکِ پاکستان کو کام یابی سے ہم کنار کرنے میں مشائخِ عظام و علمائے کرام کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔

    تاریخ گواہ ہے کہ برِّصغیر کے علما اور مختلف خانقاہوں سے وابستہ مشائخِ عظام نے قائدِاعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کی کوششوں اور ان کے حقیقی کردار کی بدولت ہندوستان کے بطن سے ایک آزاد اور اسلامی ریاست نے جنم لیا۔

    مفکّرِ پاکستان، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے برّصغیر کے مسلمانوں کے لیے جس آزاد اسلامی اور فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا، اسے شرمندہ تعبیر کرنے کا سہرا بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناحؒ کے سَر ہے۔

    تحریکِ پاکستان میں لاکھوں مسلمانوں نے بے شمار اور ناقابلِ فراموش قربانیاں پیش کیں اور اس تحریک میں علمائے کرام کی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ یہ علما اور صوفی بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے دست و بازو تھے۔ یہاں ہم تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والے چند علمائے کرام کا تذکرہ کررہے ہیں۔

    پیر جماعت علی شاہ: آپ نے تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصّہ لیا اور قائداعظم محمد علی جناح سے رابطہ و مشاورت میں پیش پیش رہے۔ آپ مسلم لیگ اور قائدِاعظمؒ پر مکمل اعتماد کا اعلان کرتے ہوئے تحریک کو آگے بڑھانے میں ہر طرح سے ممد و معاون ثابت ہوئے۔ وائسرائے ہند کے نام تار میں آپ نے فرمایا ’’مسلم لیگ‘‘ مسلمانانِ ہند کی واحد نمائندہ جماعت ہے اور قائدِاعظم محمد علی جناح اسلامیانِ ہند کے واحد لیڈر ہیں۔ ایگزیکٹو کونسل کے مسلم ارکان کی نام زدگی مسلم لیگ اور قائدِاعظم کا کام ہے۔ طول و عرضِ ہندوستان میں میرے لاکھوں مرید مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔

    مولانا عبدالحق بدایونی: تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل مولانا صاحب نے لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخ ساز اجلاس میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے کی بھرپور تائید کی اور اپنے رفقا سمیت قراردادِ پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا۔ برطانوی ہند میں انتخابات کے موقع پر آپ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ آپ نے یو پی، بہار،اڑیسہ، بنگال، آسام، بمبئی، سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے دور افتادہ علاقے میں جا کر مسلمانوں کو مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کیا۔ صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں قائداعظم نے مسلم لیگ کے جس وفد کو بھیجا تھا اس میں مولانا بدایونی شامل تھے۔

    شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی: تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے والوں میں ایک نام شاہ صاحب کا بھی ہے جنھوں نے قائدِاعظم سے کئی ملاقاتیں کیں جس میں اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہوئے دنیا بھر میں اہم شخصیات اور بالخصوص مسلمانوں کی اس حوالے سے تائید اور حمایت حاصل کرنے کے لیے کوششوں پر مفید بات چیت ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم کے کہنے پر آپ نے اپنے بیرونِ ممالک اپنے دوروں میں عالمی راہ نماؤں کو پاکستان کے قیام کی کوششوں کی ضرورت اور اس کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔

    علّامہ سید احمد سعید کاظمی: ہندوستان کے علما میں ایک نام کاظمی صاحب کا ہے جنھوں نے آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس جس میں لاکھوں لوگ اور ہزاروں علمائے کرام شریک ہوئے تھے، اپنی شرکت یقینی بنائی اور کانفرنس میں تشریف لائے جس سے اس وقت ہند بھر میں ان کے ماننے والوں تک بھی تحریکِ پاکستان کا مقصد پہنچا اور اسے تقویت ملی۔ 27 اپریل 1946ء کو منعقدہ آل انڈیا سنی کانفرنس کو جدوجہدِ آزادی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔

    مجاہدِ ملّت مولانا عبدالستار خان نیازی: مولانا نیازی نے علامہ محمد اقبال کے حکم پر ’’مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن‘‘ کی بنیاد رکھی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ تحریک پاکستان کے لیے بہت کام کیا۔ آپ کی بانی پاکستان کے ساتھ خط و کتابت اور ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ قائدِاعظم نے آپ کے لیے فرمایا ’’جس قوم کے پاس نیازی جیسے نوجوان ہوں، اسے پاکستان بنانے سے کون روک سکتا ہے۔‘‘

    ہندوستان کے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک کے قافلے میں یوں تو مجاہدوں، قائداعظم کے جاں نثاروں، مسلم لیگ کے متوالوں اور آزادی کے لیے کٹ مرنے کا جذبہ رکھنے والوں کی قربانیوں، شبانہ روز محنت، کاوشوں اور ان کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

    ہم نے یہاں فقط چند نام تحریر کیے ہیں جن کے کردار اور کارناموں کی تفصیل کئی ابواب کی متقاضی ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ اس وقت ہر قسم کی مسلکی تفریق اور تمام تر اختلافات کو ایک طرف رکھ کر تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام نے پاکستان کے قیام کو ایک مذہبی فریضہ قرار دیا اور قائدِ اعظم کی قیادت اور ان کی ہدایت پر علمائے کرام ملک کے طول و عرض میں اپنے ارادت مندوں کو تحریکِ پاکستان کی کام یابی کے لیے اکٹھا کرنے کے لیے پھیل گئے۔

    پیر جماعت علی شاہ، مولانا ابو الحسنات و دیگر، مولانا اشرف علی تھانوی اور ان کے رفقا، مولانا شفیع دیو بندی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا ظفراحمد عثمانی نے اپنے مکتبِ فکر کی قیادت کی، ان علمائے کرام نے عبادت گاہوں، خانقاہوں اور جلسے، جلوس کے دوران اور عام لوگوں سے ملاقاتیں کرکے ان میں آزادی کی اہمیت اجاگر کی جس نے تحریک کو کام یابی سے ہم کنار کیا۔