Tag: آزادی صحافت

  • کہاں گئے ن لیگ کے آزادی صحافت کے دعوے؟

    کہاں گئے ن لیگ کے آزادی صحافت کے دعوے؟

    ہر سیاسی جماعت جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اسے انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی دل و جان سے پیاری اور ان کے حقوق ازبر ہوتے ہیں۔ ان کی کوئی تقریر، کوئی خطاب اظہار رائے کی آزادی کے بیانیے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی اسے اقتدار کے سنگھاسن پر "بٹھایا” جاتا ہے تو کہاں کے انسانی حقوق اور اظہار رائے کی کیسی آزادی؟

    بدقسمتی سے ہمارے ملک کی تاریخ ایسے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے۔

    اس وقت ملک میں مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے جو ڈیڑھ ماہ قبل تک اظہار رائے کی آزادی کی مالا جپتے تھکتے نہ تھے اور صحافت اور صحافیوں سے بڑا ان کا کوئی دوست اور ہمدرد نہ تھا لیکن اقتدار کا ہُما سر پر بیٹھتے ہی حسب روایت تو کہاں ہم کہاں گوکہ ماضی میں کسی کی بھی حکومت رہی تو اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو کسی حکومت نے برداشت نہیں کیا ہے لیکن مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی تاریخ میں مسلم لیگ ن سبقت رکھتی ہے۔

    آج ملک میں ایک بار پھر مسلم لیگ ن کی حکومت ہے فرق صرف اتنا ہے کہ بڑے بھائی کی جگہ چھوٹا بھائی وزیراعظم ہے لیکن پالیسیاں اب بھی ساری لندن سے بن کر ہی آرہی ہیں۔ کئی جماعتوں کے اتحاد سے بنائی گئی شہباز حکومت جب اقتدار سے باہر تخت اقتدار پر آنے کیلیے برسرپیکار تھی تو اس وقت کے اپوزیشن جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے بیانات کا دوبارہ مطالعہ کریں یا ان کی ویڈیوز دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان سے زیادہ صحافت اور صحافیوں سے کوئی بھی مخلص نہیں تھا لیکن اقتدار میں آتے ہی اپنی پرانی روایت دہرانی شروع کردی اور حقیقت کا آئینہ نہ دیکھنے کے عادی نواز لیگی حکمرانوں نے اختیار ملتے ہی نہ صرف آئینہ دکھانے والے میڈیا گروپس بلکہ انفرادی طور پر سچ لکھنے اور کہنے والے صحافیوں کو بھی صرف آنکھیں دکھانا ہی شروع نہیں کیں بلکہ ان کی زباں بندی کیلیے انہیں ریاستی انتقام کی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔

    مریم نواز کے الزامات اور دھمکیوں کی مذمت کرتے ہیں: اے آر وائی نیوز انتظامیہ

    پاکستان میں آج ایک بار پھر صحافت کی زباں بندی کی گئی ہے اور وفاقی حکومت نے ملک کے سب سے مقبول نیوز چینل اے آر وائی نیوز کی این او سی منسوخ کردی ہے۔ یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یہ ارض وطن ایک سنگ میل عبور کرتے ہوئے 75 برس کا ہونے جارہا ہے اور پوری قوم ملک کا 75 واں جشن آزادی منانے کے لیے زور وشور سے تیاریاں کر رہی ہے۔
    پاکستان کی سیاسی تاریخ کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ہر سیاسی جماعت جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اسے انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی دل و جان سے پیاری اور ان کے حقوق ازبر ہوتے ہیں۔ ان کی کوئی تقریر، کوئی خطاب اظہار رائے کی آزادی کے بیانیے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی اسے اقتدار کے سنگھاسن پر “بٹھایا” جاتا ہے تو کہاں کے انسانی حقوق اور اظہار رائے کی کیسی آزادی؟ جس کو بھی اقتدار میں آنے کا موقع ملتا ہے تو وہ سب سے پہلے صحافت کو ہی اپنی خواہشات کے تابع کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جو یہ نہ مانے پھر اس کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ آزاد میڈیا ہمارے کسی بھی حکمراں کو کبھی بھی ایک آنکھ نہیں بھایا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ میڈیا معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے وہی دکھاتا ہے اور ہمارے حکمراں سچ سننے، دیکھنے سے ہمیشہ گریزاں ہی رہے ہیں۔ یوں تو اس حوالے سے تمام حکمراں ہی اپنا اپنا ماضی رکھتے ہیں لیکن مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی تاریخ میں مسلم لیگ ن سبقت رکھتی ہے اور ہمارے ملک کی تاریخ ایسے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے۔
    اس وقت ملک میں مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے جو اقتدار ملنے سے قبل تک اظہار رائے کی آزادی کی مالا جپتے تھکتے نہ تھے اور صحافت اور صحافیوں سے بڑا ان کا کوئی دوست اور ہمدرد نہ تھا لیکن اقتدار کا ہُما سر پر بیٹھتے نظریں ایسی بدلی ہیں کہ تو کہاں اور میں کہاں والی بات ہوگئی ہے۔

    ن لیگ کی حکومت جو پہلے ہی میاں نواز شریف کے تیسرے دور اقتدار میں اے آر وائی کے سرکاری اشتہارات بند کرکے ملک کے اس سب سے بڑے معروف اور عوام چینل سے اپنی پُرخاش ظاہر کرچکی تھی لیکن دوبارہ ساجھے کا اقتدار ملتے ہی اس کی اے آر وائی کے خلاف ریشہ دوانیوں میں تیزی آگئی۔ پہلے صرف چینل کی کیبل پر نشریات بند کی گئیں اور جب حسب منشا نتائج نہ نکلے تو اے آر وائی کی آواز کا مکمل گلا گھونٹنے کیلیے بغیر کسی پیشگی نوٹس کے اس کا این او سی ہی منسوخ کردیا گیا ہے۔ حکومت نے تمام قوانین بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ انتہائی اقدام کرتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ اس کے اس جابرانہ فیصلے سے 4 ہزار سے زائد افراد بیروزگار اور ہزاروں گھروں کے چولہے بند ہوجائیں گے۔

    حکومت کے اس من مانے اور ماورائے قانون اقدام کی صرف ملک کے صحافتی اداروں نے ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی صحافتی تنظیموں، ملکی سیاسی جماعتوں حکومت کی اتحادی جماعتوں، ماہر قوانین سمیت مختلف طبقہ فکر کے افراد نے سخت مذمت کرتے ہوئے حکومت کے اس اقدام سویلین مارشل لا سے تعبیر کیا اور ایسے وقت جب پوری قوم نے جشن ٓزادی کی تیاریوں میں مصروف ہونا تھا اس صورتحال میں ملک بھر میں صحافتی تنظیموں سمیت عوام سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور یہ احتجاج حکومت کا سیاہ کارنامہ بن کر دنیا بھر کے سامنے آرہا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے این او سی منسوخ کرنے کا نوٹیفکیشن منسوخ کرنے کے حکومتی نوٹیفکیشن کو معطل بھی کردیا ہے لیکن نشریات بحال نہیں ہوسکی ہیں۔

    شہباز حکومت جب اقتدار سے باہر تخت اقتدار پر آنے کیلیے برسرپیکار تھی تو اس وقت کے اپوزیشن جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے بیانات کا دوبارہ مطالعہ کریں یا ان کی ویڈیوز دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان سے زیادہ صحافت اور صحافیوں سے کوئی بھی مخلص نہیں تھا لیکن اقتدار میں آتے ہی اپنی پرانی روایت دہرانی شروع کردی اور حقیقت کا آئینہ نہ دیکھنے کے عادی نواز لیگی حکمرانوں نے اختیار ملتے ہی نہ صرف آئینہ دکھانے والے میڈیا گروپس بلکہ انفرادی طور پر سچ لکھنے اور کہنے والے صحافیوں کو بھی صرف آنکھیں دکھانا ہی شروع نہیں کیں بلکہ ان کی زباں بندی کیلیے انہیں ریاستی انتقام کی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔

    ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے بلکہ یہ مسلم لیگ نواز کی تاریخ رہی ہے کہ وہ ہر دور اقتدار میں اپنے پیاروں اور ہمنوا درباریوں کو اپنے نام کی مناسبت سے نوازتی ہے لیکن مخالف اور آئینہ دکھانے والوں کو پابند سلاسل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ بڑے کی جگہ چھوٹا بھائی برسراقتدار ہے لیکن پالیسیاں اب بھی لندن سے ہی بن کر آرہی ہیں۔ شہباز شریف کے دور حکومت میں نواز حکومت کا ری کیپ جاری ہے اور انتقامی کارروائی کا کا بڑا ہدف تو اے آر وائی اور اس سے وابستہ صحافی ہیں لیکن جو بھی اس حکومت اور ن لیگ کو آئینہ دکھانے کی کوشش کر رہا ہے ان کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    1999میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ان کا ایک بڑے میڈیا گروپ سے تنازع ہوا اور اس قدر سنگین ہوا کہ اس میڈیا گروپ کا کاغذ ہی بند کردیا گیا۔ یہ وہ دور تھا کہ ابھی پرائیویٹ نیوز چینلز پاکستان میں نہیں آئے تھے اور صحافت کا سارا زور صرف اخبارات پر تھا۔ اس وقت حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ اس ادارے نے ایک طویل لڑائی کے بعد بالآخر ایک صفحے پر اپنا اخبار شائع کیا اور اس نوٹ کے ساتھ کے ادارے کے پاس مزید اخبار چھاپنے کیلیے مزید کاغذ نہیں بچا اور حالات یوں ہی رہے تو شاید اب آگے اخبار کی اشاعت ممکن نہ ہو۔
    اس وقت تمام صحافتی تنظیمیں اس اخباری ادارے کے ساتھ کھڑی ہوئیں اور دیگر لوگ بھی درمیان میں آئے، دباؤ بڑھا تو تصفیہ ہوا اور وہ ادارہ اس بحرانی کیفیت سے نکل سکا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس ادارے نے سبق حاصل کرتے ہوئے آئندہ اس جماعت سے جھگڑا کرنے سے شاید توبہ کرلی اور پھر ن لیگ کو کبھی آئینہ دکھانے کی جرات نہ کی۔

    اپنوں کو نوازے کی بات کریں تو 2014 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے مدح سرا صحافی عرفان صدیقی کو اپنا مشیر بنایا آج ان کے چھوٹے بھائی نے ن لیگ کی سخت حریف پی ٹی آئی کے شدید ناقد فواد حسین کو اپنا مشیر بنا لیا ہے لیکن سوال یہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم کے نئے مشیر جو خود سینیئر صحافی ہے وہ آج اپنی حکومت کی اس میڈیا مخالف پالیسی پر کیوں زباں بند کیے بیٹھے ہیں کیا وہ بھی اظہار رائے کی آزادی کو پابند سلاسل کرنے کی کوششوں میں موجودہ حکومت کے ساتھ شریک جرم ہیں۔

    گو کہ سابق ضیا دور، مشرف دور میں بھی آزاد صحافت کا گلا گھونٹا گیا لیکن ن لیگ کی اتحادی حکومت نے جس طرح یہ انتہائی اقدام کیا اس کی تاریخ میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ حکمراں طبقہ یاد رکھے کہ ماضی میں میڈیا اداروں کے خلاف اقدامات کرنے والے حکمراں اقتدار سے رخصت ہوئے لیکن وہ ادارے قائم رہے اور حکمرانوں کا یہ اقدام تاریخ نے سیاہ باب کے طور پر رقم کیا۔ تو حکومت سوچے کہ کیا اس نے پاکستانی سیاست میں ایک اور سیاہ ترین باب رقم کردیا ہے

    1999 میں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ان کا ایک بڑے میڈیا گروپ سے تنازع ہوا اور اس قدر سنگین ہوا کہ اس میڈیا گروپ کا کاغذ ہی بند کردیا گیا۔ یہ وہ دور تھا کہ ابھی پرائیویٹ نیوز چینلز پاکستان میں نہیں آئے تھے اور صحافت کا سارا زور صرف اخبارات پر تھا۔ اس وقت حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ اس ادارے نے ایک طویل لڑائی کے بعد بالآخر ایک صفحے پر اپنا اخبار شائع کیا اور اس نوٹ کے ساتھ کے ادارے کے پاس مزید اخبار چھاپنے کیلیے مزید کاغذ نہیں بچا اور حالات یوں ہی رہے تو شاید اب آگے اخبار کی اشاعت ممکن نہ ہو۔

    اس وقت تمام صحافتی تنظیمیں اس اخباری ادارے کے ساتھ کھڑی ہوئیں اور دیگر لوگ بھی درمیان میں آئے، دباؤ بڑھا تو تصفیہ ہوا اور وہ ادارہ اس بحرانی کیفیت سے نکل سکا۔

    شاید یہی وجہ تھی کہ اس ادارے نے سبق حاصل کرتے ہوئے آئندہ اس جماعت سے جھگڑا کرنے سے شاید توبہ کرلی اور پھر ن لیگ کو کبھی آئینہ دکھانے کی جرات نہ کی۔

    اپنوں کو نوازے کی بات کریں تو 2014 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے مدح سرا صحافی عرفان صدیقی کو اپنا مشیر بنایا آج ان کے چھوٹے بھائی نے ن لیگ کی سخت حریف پی ٹی آئی کے شدید ناقد فواد حسین کو اپنا مشیر بنا لیا ہے لیکن سوال یہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم کے نئے مشیر جو خود سینیئر صحافی ہے وہ آج اپنی حکومت کی اس میڈیا مخالف پالیسی پر کیوں زباں بند کیے بیٹھے ہیں کیا وہ بھی اظہار رائے کی آزادی کو پابند سلاسل کرنے کی کوششوں میں موجودہ حکومت کے ساتھ شریک جرم ہیں۔

  • یومِ‌ وفات: نڈر، بے باک اور باضمیر، ضمیر نیازی صحافت کی آبرو تھے

    یومِ‌ وفات: نڈر، بے باک اور باضمیر، ضمیر نیازی صحافت کی آبرو تھے

    پاکستان کے نام وَر صحافی، مصنّف اور آزادیٔ صحافت کے علم بردار ضمیر نیازی 11 جون 2004ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ وہ پاکستانی میڈیا کی تاریخ لکھنے والے پہلے صحافی تھے۔ انھوں نے نہ صرف پاکستانی صحافت کی تاریخ مرتّب کی بلکہ اس موضوع پر متعدد کتابیں بھی لکھیں جو اس شعبے میں راہ نما اور اہم سمجھی جاتی ہیں۔

    ضمیر نیازی کی مشہور کتابوں میں ’پریس ان چینز‘، ’پریس انڈر سیج‘ اور ’ویب آف سنسر شپ‘ شامل ہیں۔ جنرل ضیاءُ الحق کے دورِ حکومت میں ان کی کتاب ’پریس ان چینز‘ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ یہ کتاب بے حد مقبول ہوئی اور اس کے متعدد ایڈیشن اور تراجم شامل ہوئے۔ پی پی پی کے دور میں جب شام کے چند اخبارات پر پابندی لگی گئی تو انھوں نے احتجاجاً حکومت کی جانب سے دیا گیا تمغہ برائے حسنِ کارکردگی واپس کر دیا۔ انھیں جامعہ کراچی نے بھی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دینے کا اعلان کیا تھا، مگر ضمیر نیازی نے اس کے لیے گورنر ہائوس جانے سے انکار کردیا تھا۔

    ضمیر نیازی 1932ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر ممبئی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام ابراہیم جان محمد درویش تھا۔ ضمیر نیازی نے صحافتی زندگی کا آغاز ممبئی کے ایک اخبار انقلاب سے کیا۔ بعد میں‌ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی جہاں صحافتی سفر دوبارہ شروع کیا۔ ڈان اور بزنس ریکارڈر سے منسلک رہنے کے بعد عملی صحافت چھوڑ کر خود کو تحقیق اور تصنیف تک محدود کرلیا تھا۔

    ضمیر نیازی کی دیگر تصانیف میں باغبانِ صحرا، انگلیاں فگار اپنی اور حکایاتِ خونچکاں شامل ہیں۔ اس نڈر اور بے باک صحافی کو کراچی کے قبرستان میں‌ آسودہ خاک کیا گیا۔

  • آزادی صحافت کا عالمی دن

    آزادی صحافت کا عالمی دن

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، سنہ 1992 سے 2021 تک دنیا بھر میں 14سو سے صحافی پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔

    ورلڈ پریس فریڈم ڈے کا آغاز سنہ 1993 میں ہوا تھا جب اس دن کی باقاعدہ منظوری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دی تھی۔

    یہ دن منانے کا مقصد پیشہ وارانہ فرائض کی بجا آوری کے دوران صحافیوں اور صحافتی اداروں کو درپیش مشکلات، مسائل، دھمکی آمیز رویوں اور زندگیوں کو درپیش خطرات کے متعلق قوم اور دنیا کو آگاہ کرنا ہے۔

    اس دن کے انعقاد کی ایک وجہ معاشرے کو یہ یاد دلانا بھی ہے کہ عوام کو حقائق پر مبنی خبریں فراہم کرنے کے لیے کتنے ہی صحافی اس دنیا سے چلے گئے اور کئی پس دیوار زنداں ہیں۔

    کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق سنہ 1992 سے 2021 تک 1402 صحافی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اپنے فرائض کی انجام دہی کی پاداش میں زنداں میں قید کیے جانے والے صحافیوں کی تعداد بھی کم نہیں، گزشتہ برس مختلف ممالک میں 274 صحافیوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔

    کمیٹی کے مطابق اس پیشے میں متاثر ہونے والے صحافیوں کی 75 فیصد تعداد وہ ہے جو جنگوں کے دوران اور جنگ زدہ علاقوں میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ صحافیوں کی 38 فیصد تعداد سیاسی مسائل کی کھوج (رپورٹنگ) کے دوران مختلف مسائل بشمول دھمکیوں، ہراسمنٹ اور حملوں کا سامنا کرتی ہے۔

    پاکستان میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہے اس کے باوجود ماضی میں اہل صحافت نے پابندیوں کے کالے قوانین اور اسیری کے مختلف ادوار دیکھے ہیں۔ صحافت کی موجودہ آزادی کسی کی دی ہوئی نہیں بلکہ یہ صحافیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے جنہوں نے عقوبت خانوں میں تشدد سہا، کوڑے کھائے اور پابند سلاسل رہے۔

    کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق صحافت پر سب سے زیادہ قدغن عائد کرنے والے ممالک کی فہرست میں شمالی افریقی ملک اریٹیریا سرفہرست ہے، دیگر ممالک میں شمالی کوریا، ترکمانستان، ویت نام، ایران، بیلا روس اور کیوبا شامل ہیں۔

  • آزادی صحافت کا عالمی دن: پھر وہی جہد مسلسل پھر وہی فکر معاش

    آزادی صحافت کا عالمی دن: پھر وہی جہد مسلسل پھر وہی فکر معاش

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، سنہ 1992 سے 2020 تک دنیا بھر میں 13 سو 69 صحافی پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔

    ورلڈ پریس فریڈم ڈے کا آغاز سنہ 1993 میں ہوا تھا جب اس دن کی باقاعدہ منظوری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دی تھی۔

    یہ دن منانے کا مقصد پیشہ وارانہ فرائض کی بجا آوری کے دوران صحافیوں اور صحافتی اداروں کو درپیش مشکلات، مسائل، دھمکی آمیز رویوں اور زندگیوں کو درپیش خطرات کے متعلق قوم اور دنیا کو آگاہ کرنا ہے۔

    اس دن کے انعقاد کی ایک وجہ معاشرے کو یہ یاد دلانا بھی ہے کہ عوام کو حقائق پر مبنی خبریں فراہم کرنے کے لیے کتنے ہی صحافی اس دنیا سے چلے گئے اور کئی پس دیوار زنداں ہیں۔

    کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق سنہ 1992 سے 2020 تک 13 سو 69 صحافی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اسی طرح سنہ 1994 سے اب تک دنیا بھر میں تقریباً 64 صحافی لاپتہ ہوچکے ہیں۔

    اپنے فرائض کی انجام دہی کی پاداش میں زنداں میں قید کیے جانے والے صحافیوں کی تعداد بھی کم نہیں، گزشتہ برس مختلف ممالک میں 250 صحافیوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔

    کمیٹی کے مطابق اس پیشے میں متاثر ہونے والے صحافیوں کی 75 فیصد تعداد وہ ہے جو جنگوں کے دوران اور جنگ زدہ علاقوں میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ صحافیوں کی 38 فیصد تعداد سیاسی مسائل کی کھوج (رپورٹنگ) کے دوران مختلف مسائل بشمول دھمکیوں، ہراسمنٹ اور حملوں کا سامنا کرتی ہے۔

    پاکستان میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہے اس کے باوجود ماضی میں اہل صحافت نے پابندیوں کے کالے قوانین اور اسیری کے مختلف ادوار دیکھے ہیں۔ صحافت کی موجودہ آزادی کسی کی دی ہوئی نہیں بلکہ یہ صحافیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے جنہوں نے عقوبت خانوں میں تشدد سہا، کوڑے کھائے اور پابند سلاسل رہے۔

    کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق صحافت پر سب سے زیادہ قدغن عائد کرنے والے ممالک کی فہرست میں شمالی افریقی ملک اریٹیریا سرفہرست ہے، دیگر ممالک میں شمالی کوریا، ترکمانستان، ویت نام، ایران، بیلا روس اور کیوبا شامل ہیں۔

  • اقوام متحدہ کی ایک اور رپورٹ میں بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب

    اقوام متحدہ کی ایک اور رپورٹ میں بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب

    نیویارک: اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ایک اور رپورٹ میں بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یو این انسانی حقوق نے آزادئ رائے کے فروغ و تحفظ سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کا خصوصی ذکر شامل کیا گیا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ابلاغی پابندیوں کے باعث بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں، وادی کے عوام کو بھارت پابندیاں لگا کر سزا دے رہا ہے، بھارت نے کشمیری عوام کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی بھی انتہائی محدود کر دی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں پابندیوں کے باعث کرونا وبا کے دوران طبی عملے کے لیے اہم معلومات حاصل کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔

    ادھر عالمی یوم آزادئ صحافت پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے کا ویڈیو بیان بھی سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندش سے معلومات کا حصول مشکل ہو گیا، کرونا وبا کے دوران معلومات کے لیے انٹرنیٹ کا حصول انتہائی ضروری تھا، اور طبی عملے کو صحت سے متعلق بین الاقوامی معلومات حاصل کرنی تھیں۔

    رپورٹ پر رد عمل دیتے ہوئے یورپ میں چیئرمین کشمیر کونسل علی رضا سید نے کہا کہ یو این رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہیں، مقبوضہ وادی کے گھمبیر حالات پر اقوام متحدہ کی رپورٹ حقایق پر مبنی ہے، رپورٹ نے مقبوضہ کشمیر میں مواصلات کی بندش کو آزادئ اظہار رائے کے خلاف قرار دیا، اب بھارت کشمیریوں پر جاری ظلم و ستم چھپا نہیں سکتا۔

    چیئرمین کشمیر کونسل نے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری رپورٹ کے مطابق مقبوضہ وادی کی صورت حال کا نوٹس لے۔ انھوں نے کہا کہ ایل او سی پر بسنے والے باشندے بھی بھارتی فوج کے حملوں سے محفوظ نہیں، دنیا بھارت کو ایل او سی کی سویلین آبادی کے قتل عام سے بھی روکے۔

    خیال رہے کہ آج دنیا بھر میں یوم آزادئ صحافت منایا جا رہا ہے، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے تحت یوم آزادئ صحافت منانے کا مقصد کسی دباؤ کے بغیر آزاد اور ذمہ دارانہ اطلاعات عوام تک پہنچانا ہے۔

  • پاکستان میں آزادی اظہار پرغیراعلانیہ سنسر شپ ہے، بلاول بھٹو زرداری

    پاکستان میں آزادی اظہار پرغیراعلانیہ سنسر شپ ہے، بلاول بھٹو زرداری

    کراچی : چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جمہوریت کیلئے آزادی صحافت بہت ضروری ہے، پاکستان میں آزادی اظہار پر غیراعلانیہ دباؤ ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی پریس کلب کے کے دورے کے موقع پر میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار میں میڈیا کے افراد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

    آزادی اظہار کا حق تمام حقوق کی ماں ہے، جمہوری قوتوں کیلئے پریس کلب ہمیشہ اہم رہا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں آزادی اظہار پر غیراعلانیہ دباؤ ہے، آزادی اظہار کو دبانے کیلئے بندوق اور مذہب کا استعمال کیا جاتا ہے، بنیادی حقوق ہر پاکستانی کا حق ہے۔

    ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے انگریزی میں تقریر تیار کی ہے امید ہے یہاں اعتراض کیلئے کوئی اسد عمر موجود نہیں ہوگا۔

    مزید پڑھیں: آزادی صحافت پر قدغن جمہوریت کو کمزورکرنے کے مترادف ہے،بلاول بھٹو

    چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ جمہوریت کیلئے آزادی صحافت بہت ضروری ہے جبکہ پاکستان صحافیوں کےلئے غیر محفوظ بن چکا ہے، ماضی میں کئی صحافیوں کو قتل کیا گیا مگر ملزمان نہیں پکڑے جاتے۔

  • آزادی صحافت کا عالمی دن: 27 سال میں 13 سو سے زائد صحافی جاں بحق

    آزادی صحافت کا عالمی دن: 27 سال میں 13 سو سے زائد صحافی جاں بحق

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سنہ 1992 سے 2019 تک دنیا بھر میں 13 سو 40 صحافی پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔

    ورلڈ پریس فریڈم ڈے کا آغاز سنہ 1993 میں ہوا تھا جب اس دن کی باقاعدہ منظوری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دی تھی۔

    یہ دن منانے کا مقصد پیشہ وارانہ فرائض کی بجا آوری کے دوران صحافیوں اور صحافتی اداروں کو درپیش مشکلات، مسائل، دھمکی آمیز رویوں اور زندگیوں کو درپیش خطرات کے متعلق قوم اور دنیا کو آگاہ کرونا ہے۔

    اس دن کے انعقاد کی ایک وجہ معاشرے کو یہ یاد دلانا بھی ہے کہ عوام کو حقائق پر مبنی خبریں فراہم کرنے کے لیے کتنے ہی صحافی اس دنیا سے چلے گئے اور کئی پس دیوار زنداں ہیں۔

    کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق گزشتہ برس 2018 میں 59 صحافی پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رواں برس کے صرف 5 ماہ کے دوران بھی 5 صحافی اپنی جانوں سے گئے۔

    کمیٹی کے مطابق سنہ 1992 سے 2019 تک 13 سو 40 صحافی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اسی طرح سنہ 1994 سے اب تک دنیا بھر میں تقریباً 60 صحافی لاپتہ ہوچکے ہیں۔

    اپنے فرائض کی انجام دہی کی پاداش میں زنداں میں قید کیے جانے والے صحافیوں کی تعداد بھی کم نہیں، گزشتہ برس مختلف ممالک میں 251 صحافیوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔

    کمیٹی کے مطابق اس پیشے میں متاثر ہونے والے صحافیوں کی 75 فیصد تعداد وہ ہے جو جنگوں کے دوران اور جنگ زدہ علاقوں میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ صحافیوں کی 38 فیصد تعداد سیاسی مسائل کی کھوج (رپورٹنگ) کے دوران مختلف مسائل بشمول دھمکیوں، ہراسمنٹ اور حملوں کا سامنا کرتی ہے۔

    پاکستان میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہے اس کے باوجود ماضی میں اہل صحافت نے پابندیوں کے کالے قوانین اور اسیری کے مختلف ادوار دیکھے ہیں۔ صحافت کی موجودہ آزادی کسی کی دی ہوئی نہیں بلکہ یہ صحافیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے جنہوں نے عقوبت خانوں میں تشدد سہا، کوڑے کھائے اور پابند سلاسل رہے۔

    کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق صحافت پر سب سے زیادہ قدغن عائد کرنے والے ممالک کی فہرست میں شمالی افریقی ملک اریٹیریا سرفہرست ہے، دیگر ممالک میں شمالی کوریا، ایتھوپیا، آذر بائیجان اور ایران شامل ہیں۔

  • سال 2015 : دنیا بھر میں‌110 صحافیوں‌ کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا ، رپورٹ

    سال 2015 : دنیا بھر میں‌110 صحافیوں‌ کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا ، رپورٹ

    نیویارک: آزادی صحافت کے لیے کام کرنے والی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے منگل کو کہا ہے کہ 2015 میں دنیا بھر میں 110 صحافیوں کو ہلاک کیا گیا۔

    جاں بحق ہونے والے صحافیوں میں سے کم از کم 67 کو ان کے کام کی وجہ سے ہلاک کیا گیا جبکہ دیگر کی ہلاکت کے محرکات ابھی واضح نہیں۔

    تنظیم کا کہنا ہے کہ 2005 سے اب تک کل 787 صحافیوں کو ان کے کام کے باعث قتل کیا جا چکا ہے جن میں 2015 میں ہلاک ہونے والے 67 بھی شامل ہیں۔

    تنظیم کا کہنا ہے کہ 2015 میں ہلاک ہونے والے دیگر 43 صحافیوں کے قتل کے محرکات اور حالات کا واضح تعین نہیں کیا جا سکا۔ 2015 میں سات سیٹیزن جرنلسٹ اور صحافتی شعبے سے تعلق رکھنے والے سات دیگر افراد بھی ہلاک ہوئے۔

    رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے ایک بیان میں کہا کہ یہ تشویشناک صورتحال میڈیا اہلکاروں کی حفاظت کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی ناکامی کی نشاندہی کرتی ہے۔

    تنظیم کے مطابق 2015 میں فرانس کا شمار صحافیوں کے لیے مہلک ترین ممالک میں ہوا۔ اس فہرست میں شام اور عراق کے بعد فرانس کا تیسرا نمبر تھا جہاں جنوری میں ’شارلی ایبڈو‘ میگزین پر حملے میں متعدد صحافی ہلاک ہوئے۔

    جنوبی ایشیا میں بھارت کو صحافیوں کے لیے مہلک ترین ملک قرار دیا گیا جہاں نو صحافی ہلاک ہوئے جن میں سے پانچ کو ان کے کام کی وجہ سے قتل کیا گیا جبکہ چار کی ہلاکت کی وجوہات واضح نہیں۔

    تنظیم کے مطابق پاکستان میں بھی دو صحافیوں کو قتل کیا گیا جن میں جیو ٹی وی سے تعلق رکھنے والے آفتاب عالمی کو ستمبر میں جبکہ روزنامہ امت اور نئی بات کے لیے کام کرنے والے محمد زمان محسود کو نومبر میں قتل کیا گیا۔

    تنظیم کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال صحافیوں کی دو تہائی اموات جنگ زدہ علاقوں میں ہوئیں مگر اس سال دو تہائی اموات پر امن ممالک میں ہوئیں۔

    رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے کہا ہے کہ صحافیوں کی حفاظت کے لیے عالمی قانون میں خصوصی طریقہ کار وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے مطالبہ کیا کہ وہ بغیر تاخیر کے صحافیوں کی حفاظت کے لیے اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کریں۔

    تنظیم کے مطابق 2015 میں صحافیوں کے لیے ایشیا میں سب سے زیادہ خطرناک ملک بھارت رہا ۔

    فرانس میں اس سال آٹھ صحافیوں کو قتل کیا گیا، رپورٹ کے مطابق رواں سال 54 صحافی یرغمال بنائے گئے جبکہ 22 مصری صحافیوں سمیت 153 صحافی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں ۔

  • حکومت آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے، رفیق رجوانہ

    حکومت آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے، رفیق رجوانہ

    لاہور : گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ نے کہا ہے کہ حکومت آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے، آج میڈیا جس قدر آزاد ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔

    لاہور میں پریس کونسل آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر رانا محمد شمیم سے ملاقات میں گورنر پنجا ب نے کہا کہ حکومت میڈیا کی مثبت تنقید پر نہ صرف یقین رکھتی ہے بلکہ اس پر اعتماد بھی کرتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ میڈیا ریاست کا اہم ستون ہونے کے باعث ملک کو درپیش مسائل کی نشاندہی کومؤثر طریقے سے اجاگر کرنے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ حکومت صحافت کے شعبے سے وابستہ افراد کی فلاح و بہود کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کو یقینی بنائے گی۔

    اس موقع پرڈاکٹر شمیم نے گورنر پنجاب کو نئی ذمہ داریاں سنھبالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ جنوبی پنجاب کے لوگوںکے مسائل کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کر سکیں گے۔