Tag: آزادی مارچ

  • آزادی مارچ میں جدید آتشی اسلحے کی موجودگی پر تشویش ہے، فردوس عاشق اعوان

    آزادی مارچ میں جدید آتشی اسلحے کی موجودگی پر تشویش ہے، فردوس عاشق اعوان

    اسلام آباد: معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ آزادی مارچ میں جدید آتشی اسلحے کی موجودگی پر تشویش ہے، جمہوریت کا دعویٰ کرنے والوں کے ہاتھ میں کلاشنکوف کا کیا مطلب ہے۔

    تفصیلات کے مطابق معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ حکومت نے جمہوری روایات کے تحت احتجاج کا حق دیا۔

    انہوں نے کہا کہ آزادی مارچ میں جدید آتشی اسلحے کی موجودگی پر تشویش ہے، جمہوریت کا دعویٰ کرنے والوں کے ہاتھ میں کلاشنکوف کا کیا مطلب ہے۔

    فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ڈنڈوں، اسلحے کی موجودگی پرذمہ داری مولانا فضل الرحمان پر ہے۔ انہوں نے کالعدم تنظیم کی جانب سے بارکھان میں لیویز پر کیے جانے والے حملے کی مذمت کی۔

    فضل الرحمان امن کے چراغ کیوں بجھانا چاہتے ہیں؟ فردوس عاشق اعوان

    یاد رہے کہ تین روز قبل فردوس عاشق اعوان نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ امن کے لیے قوم نے بہت بھاری قیمت دی ہے، ہزاروں جانوں کی قربانی سے ملک میں امن کے دیے روشن ہوئے۔

    معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات کا کہنا تھا کہ فضل الرحمان امن کے چراغ کیوں بجھانا چاہتے ہیں؟۔

    فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں مذاکرات ہی غلط فہمیوں کے خاتمے کا راستہ ہیں، مذاکرات اتفاق رائے پیدا کرنے کا واحد راستہ ہیں، بات چیت سے ہی مسائل کا حل نکلتا ہے۔

  • جے یو آئی رہنما نے اے آر وائی نیوز کے نمائندے کی زندگی خطرے میں ڈال دی

    جے یو آئی رہنما نے اے آر وائی نیوز کے نمائندے کی زندگی خطرے میں ڈال دی

    کراچی: پروپیگنڈے کا الزام لگا کر جے یو آئی ف کے رہنما نے اے آر وائی نیوز کے نمائندے کی زندگی خطرے میں ڈال دی۔

    تفصیلات کے مطابق جمعیت علمائے اسلام ف کے رہنما راشد سومرو نے مارچ کی کوریج کے لیے موجود اے آر وائی نیوز کے رپورٹر کا نام لے کر کہا یہ ہے اے آر وائی نیوز کا نمائندہ۔

    جے یو آئی رہنما نے رپورٹر کا نام لے کر ان پر منفی پروپیگنڈے کا الزام لگا کر ان کی زندگی خطرے میں ڈالی، رہنما نے الزام لگایا کہ اے آر وائی منفی رپورٹنگ کر رہا ہے۔ اے آر وائی سے ناخوش رہنما نے احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑتے ہوئے رپورٹر کا تعارف بھی کرا دیا۔

    وفاقی وزیر فیصل واوڈا کہتے ہیں اے آر وائی حقائق دکھا رہا ہے تو جے یو آئی ف کے کارکنوں کو ان کے خلاف مشتعل کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ فواد چوہدری نے بھی کہا یہ انتہا پسندوں کا مارچ ہے، ایسے مارچز کا مقصد طالبان اسٹائل حکومت کا قیام ہے، نام نہاد لبرل عمران خان کی نفرت میں انتہا پسندوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  پابندی کے باوجود انصار الاسلام کے ڈنڈا بردار مارچ میں شامل

    واضح رہے کہ آج جب جے یو آئی ف کا آزادی مارچ سکھر پہنچا تو پابندی کے باوجود انصار الاسلام کے ڈنڈا بردار مارچ میں شامل تھے، حکومت جے یو آئی ف کی ذیلی تنظیم پر پابندی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر چکی ہے۔

    جے یو آئی کے آزادی مارچ کے قافلے کے شرکا جگہ جگہ قانون روند رہے ہیں، آزادی مارچ کراچی ٹول پلازہ سے گزار تو قافلے میں شامل کسی بھی گاڑی نے ٹول ٹیکس نہ دیا۔

    ادھر پابندی کے باوجود انصار الاسلام کے ڈنڈا بردار مارچ میں شامل ہیں، خاکی لباس میں ملبوس کارندوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے بھی دیکھے جا سکتے ہیں، جو پر امن مارچ پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

  • آزادی مارچ کا طوفان اسلام آباد میں داخل ہوگا اور سب کو بہالے جائے گا، مولانا فضل الرحمان

    آزادی مارچ کا طوفان اسلام آباد میں داخل ہوگا اور سب کو بہالے جائے گا، مولانا فضل الرحمان

    سکھر : جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ آزادی مارچ کاطوفان اسلام آبادمیں داخل ہوگا اورسب کو بہالے جائے گا،ہم نے اب سیاسی جنگ لڑنی ہے، جنگ بج طبل چکا ہے، آخری منزل حاصل کرکے ہی دم لیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمان لاڑکانہ سے روانہ ہوگئے ، مولاناناصر محمود سومرو ، سینیٹر طلحہ محمود بھی ان کے ہمراہ ہیں۔

    اس موقع پر مولانافضل الرحمان نے کہا آزادی مارچ کا طوفان اسلام آباد میں داخل ہوگا اور سب کو بہالے جائے گا، جبر کی بنیاد پر عوام پر حکومت نہیں کی جاسکتی، معیشت تباہ ہوچکی ،ملک کی کشتی ڈوب رہی ہے۔

    جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ حکمران ملکی کشتی ڈبو رہے ہیں، جسے آپ نے خود بچانا ہے، ہم نے فیصلہ کیا اسلام آباد کی جانب آزادی مارچ کریں، ظالموں سے قوم کو نجات دلانے کے لئے نکلے ہیں، ہم نے اب سیاسی جنگ لڑنی ہے، جنگ طبل بج چکا ہے۔

    مزید پڑھیں : مولانا فضل الرحمان نے انتظامیہ کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے کی تردید کر دی

    مولانافضل الرحمان نے کہا کہ جب ایک بار میدان میں آجائیں توپیچھےنہیں ہٹ سکتے ، آئین پاکستان کوتماشااوربچوں کاکھیل بنادیاگیاہے، آپ اورہم آخری منزل حاصل کرکے ہی دم لیں گے۔

    گذشتہ روز جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد انتظامیہ کے ساتھ طے شدہ معاہدہ ختم کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا معاہدے کی پاس داری کریں گے، معاہدہ حکومت کے ساتھ نہیں انتظامیہ کے ساتھ ہے، ہم عدالتی فیصلوں کا احترام کرتے ہیں۔

    واضح رہے کہ مولانا عطا الرحمان نے کہا تھا کہ فضل الرحمان نے اعلان کیا تھا کہ حکومت سے معاہدہ ختم سمجھیں، حکومت نے گرفتاریاں کر کے معاہدہ ختم کر دیا، حکومت نے حافظ حمد اللہ کی شہریت ختم کر کے معاہدہ ختم کیا، آزادی مارچ اسلام آباد میں داخل ہوگا تو حکومت نہیں رہے گی۔

  • وفاقی کابینہ کا اہم ترین اجلاس کل طلب، آزادی مارچ کے حوالے سے بڑے فیصلے متوقع

    وفاقی کابینہ کا اہم ترین اجلاس کل طلب، آزادی مارچ کے حوالے سے بڑے فیصلے متوقع

    اسلام آباد : وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کا اہم ترین اجلاس کل طلب کرلیا ، جس میں آزادی مارچ کے حوالے سے بڑے فیصلے متوقع ہے، اجلاس میں جے یو آئی ف،انتظامیہ کیساتھ معاہدے کاجائزہ لیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اہم ترین اجلاس کل صبح ساڑھے گیارہ بجے وزیر اعظم آفس میں ہوگا، اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کے آزادی مارچ کا جائزہ لیا جائے گا۔

    اجلاس میں پرویز خٹک کابینہ کو رہبر کمیٹی سےمذاکرات کی نشستوں پربریفنگ دیں گے اور جے یو آئی ف، انتظامیہ کیساتھ معاہدے کا جائزہ لیا جائے گا، اجلاس میں کابینہ کو وفاقی دارالحکومت سمیت ملک میں امن وامان پر بھی بریفنگ دی جائے گی جبکہ آزادی مارچ کے حوالے سے بڑے فیصلے متوقع ہے۔

    وفاقی کابینہ کے کل ہونیوالے اجلاس کا 13 نکاتی ایجنڈا بھی جاری کردیا گیا ہے، جس کے مطابق وزارتوں، ڈویژنز میں سی ای اوز، ایم ڈیز کی خالی پوسٹوں کا معاملہ ، کراچی، لاہور، پشاور، ملتان میں بلندعمارتوں کی تعمیرکی پالیسی کی منظوری ایجنڈے کا حصہ ہیں۔

    وفاقی کابینہ سول ایوی ایشن رولز 1994میں ترمیم، آرٹسٹ ویلفیئر فنڈز کی وزارت اطلاعات و نشریات کو منتقلی ، نیشنل سیونگز کے ڈی جی کی تنخواہ سمیت مکمل پیکج کی منظوری دے گی۔

    ہیلتھ کیئر فیسلیٹیز مینجمنٹ ایکٹ 2019 کے مسودے کی منظوری ، پی ایل این جی لمیٹڈ کے سی ای او، ایم ڈی کے کٹریکٹ ختم کرنے کی منظوری ، ایس ایس جی سی بورڈ آف ڈائریکٹرز اور پی ایل این جی لمیٹڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ازسر نو تشکیل کی منظوری ایجنڈے میں شامل ہیں۔

    کابینہ اجلاس میں گورنمنٹ ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کے بورڈ ، چیئرمین متروکہ وقف املاک عامراحمدکی ایم پی ون کے تحت تنخواہ ، وزیر اقتصادی امور کو نیشنل ایگزیکٹوکمیٹی کا رکن بنانے اور ڈی جی ایم او، ڈی جی(سی) آئی ایس آئی کوجنرل کمیٹی ممبر بنانے کی منظوری دی جائے گی ۔

  • مولانا فضل الرحمان نے انتظامیہ کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے کی تردید کر دی

    مولانا فضل الرحمان نے انتظامیہ کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے کی تردید کر دی

    اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد انتظامیہ کے ساتھ طے شدہ معاہدہ ختم کرنے کی تردید کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اسلام آباد انتظامیہ کے ساتھ طے شدہ معاہدہ ختم نہیں کیا، معاہدے کی پاس داری کریں گے، معاہدہ حکومت کے ساتھ نہیں انتظامیہ کے ساتھ ہے، ہم عدالتی فیصلوں کا احترام کرتے ہیں۔

    مولانا راشد سومرو نے معاہدہ ختم کیے جانے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا، جب حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ ہوا ہی نہیں تو ختم ہونے کا سوال نہیں بنتا، ہم نے ڈی سی کو جلسے کی درخواست دی تھی، آئین اور قانون کے مطابق جلسہ کریں گے، اس بات کا کریڈٹ پرویز خٹک نہ لیں، انھیں تو درخواست ہی نہیں دی۔

    جے یو آئی ف کے رہنما کامران مرتضیٰ نے بھی معاہدہ ختم ہونے کی خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ممکن ہے مولانا عطا الرحمان نے غصے میں بات کی ہو، حکومت کے ساتھ معاہدہ ختم ہونے کی خبر کی تردید کرتا ہوں، ہم عدالتی فیصلوں سے متعلق آگاہ ہیں، یہ تاثر دیا گیا کہ جے یو آئی ف کا حکومت سے کوئی معاہدہ ہوا ہے، ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا، ہم آئین اور قانون کی پابندی کریں گے۔

    واضح رہے کہ مولانا عطا الرحمان نے کہا تھا کہ فضل الرحمان نے اعلان کیا ہے کہ حکومت سے معاہدہ ختم سمجھیں، حکومت نے گرفتاریاں کر کے معاہدہ ختم کر دیا، حکومت نے حافظ حمد اللہ کی شہریت ختم کر کے معاہدہ ختم کیا، آزادی مارچ اسلام آباد میں داخل ہوگا تو حکومت نہیں رہے گی۔

  • آزادی مارچ: فریقین میں تحریری معاہدہ طے، مظاہرین ڈی چوک نہیں جائیں گے

    آزادی مارچ: فریقین میں تحریری معاہدہ طے، مظاہرین ڈی چوک نہیں جائیں گے

    اسلام آباد: اپوزیشن کی جانب سے آزادی مارچ کے سلسلے میں رہبر کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے بعد حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا کہ رہبر کمیٹی سے تحریری معاہدہ ہو چکا ہے، آزادی مارچ والے ڈی چوک نہیں آئیں گے، حکومت نے اتوار بازار میں کھلے میدان میں احتجاج کی اجازت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ارکان نے رہبر کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے بعد پریس کانفرنس کی، وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا رہبر کمیٹی والوں کے ساتھ صرف جگہ پر ڈیڈ لاک تھا، اب ہمارے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا ہے، اگر وہ معاہدے پر پورا اتریں گے تو کنٹینر بھی ہٹتے جائیں گے۔

    پرویز خٹک نے کہا کہ معاہدے کے تحت اپوزیشن والے آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا احتجاج کریں گے، حکومت کھانے پینے کی چیزوں میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی، مارچ والے آئیں بیٹھیں، یقین دہانی کرائی گئی کہ احتجاج پر امن رہا تو سڑکیں بند نہیں ہوں گی، کنٹینرز ہٹا دیں گے۔

    یہ بھی پڑھیں:  جے یو آئی ف ریڈ زون میں آزادی مارچ کو لیجانے کے مطالبے سے دستبردار

    انھوں نے کہا کہ تحریری معاہدہ انتظامیہ کے ساتھ ہوا ہے، کاپی فراہم کر دی جائے گی، جمہوریت میں احتجاج سب کا حق ہے، رہبر کمیٹی کو کہا کہ ریڈ زون میں احتجاج کی اجازت نہیں دے سکتے، انھوں نے ہماری بات مان لی، احتجاج کے ٹائم فریم سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی۔

    پرویز خٹک نے کہا کہ اپوزیشن کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں ہو رہی، ہم جمہوری لوگ ہیں، رہبر کمیٹی نے وزیر اعظم کے استعفے اور نئے انتخابات پر کوئی بات نہیں کی، یہ مذاکرات کا حصہ نہیں تھا، جے یو آئی ایچ نائن میں اتوار بازار کے قریب اپنا پروگرام کرے گی۔

    واضح رہے کہ آج اس سے قبل بنوں میں گفتگو کرتے ہوئے رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی نے کہا تھا کہ متفقہ فیصلہ ہے ہم ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے، مارچ روڈ پر کریں گے، اور یہ طویل نہیں ہوگا، موقع کی مناسب سے فیصلہ ہوگا۔

    انھوں نے یہ مطالبہ بھی دہرایا تھا کہ وزیر اعظم مستعفی ہوں اور صاف شفاف الیکشن کرائیں جائیں، تاہم انھوں نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ آزادی مارچ پر امن ہوگا، تمام راستے کھولے جائیں۔

    معاہدے کے نکات

    حکومت، ضلعی انتظامیہ اور جے یو آئی ف کے درمیان 7 نکاتی تحریری معاہدہ ہوا، اس معاہدے کے مطابق ریلی کے شرکا کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، شرکا کے کھانے کی ترسیل بھی معطل نہیں ہوگی، ریلی کے شرکا یقینی بنائیں گے کہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو، شرکا طے شدہ مقام سے باہر نہیں جائیں گے، اندرونی سیکورٹی کی ذمہ داری ریلی کے شرکا کی ہوگی، این او سی کی خلاف ورزی پر کارروائی ہوگی۔

  • حکومت اور اپوزیشن کمیٹیوں میں مذاکرات سے متعلق ڈیڈ لاک ختم

    حکومت اور اپوزیشن کمیٹیوں میں مذاکرات سے متعلق ڈیڈ لاک ختم

    اسلام آباد: حکومت اور اپوزیشن کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات سے متعلق ڈیڈ لاک ختم ہو گیا ہے، کمیٹیوں میں ایک بار پھر رابطے شروع ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ذرایع نے کہا ہے کہ اپوزیشن اور حکومتی کمیٹی کے درمیان ایک بار پھر رابطے شروع ہو گئے ہیں، مذاکرات میں جو ڈیڈ لاک آ گیا تھا، ختم ہو گیا ہے اور کمیٹی کے ارکان نے ٹیلی فونک رابطے شروع کر دیے ہیں۔

    ذرایع کا کہنا ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کو جلسہ کرنے کے لیے نئے مقامات بھی تجویز کر دیے ہیں، بتایا گیا ہے کہ حکومتی کمیٹی نے اپوزیشن کو ایف نائن پارک استعمال کرنے کی تجویز دے دی ہے۔

    واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام ف ریڈ زون میں آزادی مارچ کو لے جانے کے مطالبے سے دست بردار ہو گئی ہے اور احتجاج کے لیے نئے مقام کا تعین مشاورت سے کرنے پر بھی اتفاق کیا جا چکا ہے۔

    مزید تفصیل:  جے یو آئی ف ریڈ زون میں آزادی مارچ کو لیجانے کے مطالبے سے دستبردار

    یہ پیش رفت آج رہبر کمیٹی اور حکومتی ٹیم کے مذاکرات میں سامنے آئی، اس سے قبل اپوزیشن ڈی چوک پر جلسے کے لیے ڈٹی ہوئی تھی اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کوشش کے باوجود اپوزیشن کو قائل نہ کر سکی تھی۔

    اس سلسلے میں پیش رفت نہ ہونے پر مذاکراتی کمیٹی نے وزیر اعظم سے ملاقات بھی مؤخر کر دی تھی۔

    ذرایع کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم سے ملاقات سے قبل سفارشات مرتب کی جا رہی ہیں، مذاکراتی کمیٹی سفارشات وزیر اعظم کو پیش کرے گی اور اپوزیشن کے جلسے کے مقام کے تعین پر ان کے ساتھ مشاورت ہوگی۔

  • آزادی مارچ؛  پولیس کےتمام ملازمین کی چھٹیاں منسوخ

    آزادی مارچ؛ پولیس کےتمام ملازمین کی چھٹیاں منسوخ

    کراچی: انسپکٹر جنرل سندھ پولیس کلیم امام نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے آزادی مارچ کے تناظر میں سیکورٹی صورتحال کے پیش نظر تمام ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کردیں۔

    تفصیلات کے مطابق جےیوآئی (ف) کےآزادی مارچ کےتناظرمیں آئی جی سندھ کلیم امام نے اہم اقدام اٹھایا ہے۔ آئی جی نے محکمہ پولیس کے تمام افسران و اہلکاروں کی چھٹیاں منسوخ کردیں۔

    چھٹیاں منسوخی کے حوالے سے آئی جی سندھ نے باقاعدہ لیٹر جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چھٹیوں پرجاے والےافسران واہلکار فوراًواپس رپورٹ کریں۔

    یہ بھی پڑھیں: جے یو آئی ف ریڈ زون میں آزادی مارچ کو لیجانے کے مطالبے سے دستبردار

    لیٹر کے مطابق کسی بھی افسریااہلکارکی چھٹی کی درخواست ارسال نہ کی جائے اور آئندہ احکامات تک تمام ملازمین اپنی حاضری یقینی بنائیں۔

    واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمان نے 27 اکتوبر سے اسلام آباد کی جانب آزادی مارچ کا آغاز کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔ آزادی مارچ کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کر رکھی ہے۔

  • آزادی مارچ؛ اسلام آباد میں ریڈ زون سیل کرنے کا آغاز

    آزادی مارچ؛ اسلام آباد میں ریڈ زون سیل کرنے کا آغاز

    اسلام آباد: جمعیت علماءاسلام (ف) کے آزادی مارچ کے سلسلے میں سیکورٹی صورتحال کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ریڈزون کو سیل کرنے کا آغاز ہوگیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آزادی مارچ کے حوالے سے امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے پولیس، ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تیاریوں کو حتمی شکل دینا شروع کردی ہے۔

    اسلام آباد کے ریڈزون کو کنٹینرز لگا کر سیل کیا جارہا ہے، ڈی چوک کے اطراف کنٹینرزکے 2 حصارقائم کیے گئے ہیں جب کہ حساس تنصیبات اور اہم شاہراؤں کو بند کرنے کے لیے مزید کنٹینرز پہنچا دیے گئے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات بے نتیجہ ختم

    حکام نے اسلام آباد کی سیکورٹی کے لیے پولیس کی اضافی نفری طلب کرلی ہے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دے دی ہے۔

    دوسری جانب آئی جی اسلام آباد محمد عامرذوالفقار خان کی زیرصدارت اعلیٰ سطح اجلاس ہوا جس میں آزادی مارچ کے حوالے سے افسران اوراہلکاروں کوضروری اقدامات کی ہدایت کی گئی ہے۔

    انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس محمد عامر ذوالفقار نے کہا کہ افسران اورجوانوں کےساتھ میں خودموجودرہوں گا اور تمام تر عمل کی بذات خود نگرانی بھی کروں گا۔

    گزشتہ روز حکومت کی مذاکراتی کمیٹی اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ رہے تھے البتہ دونوں طرف سے رابطے برقرار رکھنے کا اعلان کیا گیا۔

    ذرائع کے مطابق حکومتی مذاکراتی کمیٹی اوررہبرکمیٹی کی ملاقات کی اندرونی کہانی کچھ ایسی ہے کہ مذاکرات کے دوران آزادی مارچ کے مقام کا تعین نہ ہوسکا، اپوزیشن کےتجویزکردہ3مقامات کو حکومتی کمیٹی نےمسترد کیا اور  پریڈ گراؤنڈمیں جلسےکی تجویز دی۔

    ذرائع کا کہنا ہےکہ اپوزیشن کی جانب سے ڈی چوک،چائنہ چوک اورپارلیمنٹ کےسامنےاحتجاج کی تجویز دی گئی، جنہیں حکومت نے یکسر مسترد کردیا۔

  • آزادی مارچ پر مذاکرات ناکام، حکومتی مذاکراتی کمیٹی آج پریس کانفرنس کرے گی

    آزادی مارچ پر مذاکرات ناکام، حکومتی مذاکراتی کمیٹی آج پریس کانفرنس کرے گی

    اسلام آباد: آزادی مارچ کے معاملے پر حکومتی مذاکراتی کمیٹی آج پریس کانفرنس کرے گی ، جس میں اپوزیشن سے مذاکرات کی پیش رفت سے آگاہ کیا جائے گا، حکومتی مذاکراتی کمیٹی اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ رہے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق آزادی مارچ کے معاملے پر حکومتی مذاکراتی کمیٹی آج پریس کانفرنس کرے گی ، پریس کانفرنس سہ پہر 3بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوگی ، جس میں کمیٹی کی جانب سے اپوزیشن سے مذاکرات کی پیش رفت سے آگاہ کیا جائے گا۔

    گذشتہ روز حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے پرویز خٹک کی قیادت میں رہبر کمیٹی کے اراکین سے اکرم درانی کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی ، جس میں دھرنے اور آزادی مارچ سے متعلق مطالبات پر غور کیا گیا تھا۔

    مذاکرات کے دو دور ہوئے، ایک دور میں اپوزیشن کی جانب سے چار نکاتی ایجنڈا پیش کیا گیا جس میں وزیر اعظم کے مستعفیٰ ہونے، نئے انتخابات کرانے، عوامی حقوق کی بالادستی اور آزادی مارچ میں رکاوٹ نہ ڈالنا شامل تھا۔

    مزید پڑھیں : حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات بے نتیجہ ختم

    حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے ملاقات شروع ہوتے ہی رہبر کمیٹی کے اراکین کو واضح کردیا تھا کہ وزیراعظم کے استعفے کے علاوہ دیگر مطالبات کو نہ صرف سنا جائے گا بلکہ اُن کا بات چیت کے ذریعے حل بھی نکالا جائے گا۔

    حکومت کی مذاکراتی کمیٹی اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ رہے تھے ، البتہ دونوں جانب سے رابطے برقرار رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

    بعد ازاں حکومتی مذاکراتی کمیٹی اوررہبرکمیٹی کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آئی تھی ، جس کے مطابق مذاکرات کے دوران آزادی مارچ کے مقام کا تعین نہ ہوسکا تھا۔

    اپوزیشن کے تجویز کردہ3مقامات کو حکومتی کمیٹی نے مسترد کیا اور پریڈ گراؤنڈ میں جلسےکی تجویز دی تھی جبکہ اپوزیشن کی جانب سے ڈی چوک،چائنہ چوک اورپارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کی تجویز دی گئی، جنہیں حکومت نے یکسر مسترد کردیا تھا۔