Tag: آزادی ہند

  • فساد کا محور بننے والی نظم، غازی علم دین اور بھگت سنگھ

    فساد کا محور بننے والی نظم، غازی علم دین اور بھگت سنگھ

    طبیعت کا رخ شروع ہی سے سیاسی ہو گیا تھا۔ میرا یوم پیدائش ۱۴ اگست ۱۹۱۷ ہے۔ پہلی جنگ عظیم کا دور، اسی زمانہ میں جنگ کے آثار و نتائج سے معاشرہ کا پہلا سانچہ ٹوٹا اور دوسرا بنا۔

    جلیانوالہ باغ کا حادثہ ہوا، پنجاب میں مارشل لا لگا، تحریکِ خلافت کا دریا چڑھا اور ایک طوفان امڈ آیا۔ قومی تحریک نے راہ پائی۔ ملک بھر میں عدم تعاون کے ہنگامے برپا ہوئے، لیڈر شپ کا انداز بدلا، پرانے سیاسی چہرے جُھریا گئے، ان کی جگہ نئے سیاسی رہنما آگئے۔

    یہ زمانہ گاندھی، محمد علی جوہر، ابو الکلام آزاد اور سیکڑوں دوسرے رہنماؤں کا تھا۔ سارا ملک کروٹ لے چکا تھا، ہمارا گھر بھی اس سے متاثر ہوا۔ میں آواز آشنا ہوا تو یہ چیزیں میرے ذہنی آب و گل میں تھیں۔ گویا دماغ بعض خفی و جلی سیاسی اثرات سے تیار ہو رہا تھا۔ عرض یہ زمانہ ہی سیاسیات کا تھا۔ آٹھویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے میرا شعور ناپختگی کے باوجود سیاسی ہو چکا تھا۔ تحریک خلافت کا تو مجھے ہوش نہیں لیکن ۱۹۲۷ اور ۱۹۲۸ء میں لاہور کے ہندو مسلم فسادات کی بعض یادیں میرے ذہن میں اب تک محفوظ ہیں۔ جہاں ہندوؤں کا زور ہوتا کسی اکّا دکّا مسلمان مسافر کو مار دیتے۔ جہاں مسلمانوں کا غلبہ ہوتا وہ کسی ہندو یا سکھ کو ہلاک کر ڈالتے۔ ایک موت سارے اخباروں کی شہ سرخی ہوتی۔ فریقین کے اخبار واویلا کرتے۔ اخباری شاعری میں ایک دوسرے کو لتاڑا جاتا۔ "پرتاب” کے مہاشہ نازتک لڑاتے۔ مولانا ظفر علی خان بدیہ گوئی کے شہنشاہ تھے، ان کی ایک نظم "دم مست قلندر دھر رگڑا، فساد کا محور ہو گئی۔

    اس نظم کو اتنی شہرت ہوئی کہ بچہ بچہ کی زبان پر آگئی۔ محفلوں میں تو اس کا ذکر تھا ہی، چانڈو خانوں میں بھی چرچا ہوگیا۔ گھڑا بجتا، دھیمی دھیمی سریں اور اس کے مصرعے سلفہ کی اُڑانوں میں گھلتے جاتے۔ مولانا ظفر علی خان کی طبیعت کا جوہر انہی ہنگاموں میں لگتا تھا۔

    راجپال (شاتمِ رسول) میرے سامنے قتل ہوا۔ اس کی دکان سے علم دین کو خنجر گھونپ کر نکلتے دیکھا۔ کچھ آگے لکڑیوں کا ایک ٹال تھا، علم دین اس میں گھس گیا۔ ٹال کا مالک ہندو تھا، اس نے گھیرا ڈالا۔ اتنے میں پولیس آگئی۔ علم دین کو گرفتار کیا اور لے گئی۔ دنوں تک مقدمہ چلتا رہا۔ سیشن کورٹ نے موت کی سزا دی جو ہائی کورٹ میں بحال رہی۔ آخر ایک دن علم دین کو میانوالی جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ حکومت نے اعلان کیا کہ ان کی نعش اسلامی رسومات کے مطابق میانوالی ہی میں دفن کر دی گئی ہے۔ مسلمانانِ لاہور بھڑک اٹھے، حکومت نے ہنگامہ و ہیجان سے خوف زدہ ہو کر نعش کو حوالے کر دیا۔ لاہور میں نعش کا جتنا بڑا جلوس نکلا، اتنا بڑا جلوس شاید ہی کبھی نکلا ہو۔ میّت کو کندھا دینے کے لیے بڑے بڑے بانس لگائے گئے۔ بیک وقت ہزار ڈیرھ ہزارآدمی کندھا دے رہے تھے۔ ہر خیال کے مسلمان رہنما جنازے میں شریک تھے۔ سر محمد شفیع بھی تھے اور مولانا ظفر علی خان بھی۔ ایک چھوٹی سی بات مجھے اب تک یا ہے کہ مولانا ظفر علی خان نے قبر میں لیٹ کر اس کی وسعت کا جائزہ لیا تھا۔

    انہی دنوں ۱۹۲۸ء میں سائمن کمیشن کا بائیکاٹ کیا گیا۔ کمیشن لاہور پہنچا تو زبردست مظاہرہ ہوا۔ ریلوے اسٹیشن پر سہ طرفہ خار دار جنگلہ لگا دیا گیا۔ پولیس کی بڑی بڑی جمعیتوں نے اسٹیشن اور اس کی سٹرکوں کو گھیر رکھا تھا لیکن اس کے باوجود ہزاروں انسانوں کا جلوس لالہ لاجپت رائے، مولانا ظفر علی خان، چوہدری افضل حق، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، ڈاکٹر ستیہ پال وغیرہ کی قیادت میں اسٹیشن کے سامنے مظاہرہ کر رہا تھا۔ لاہور کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس نے یہیں جلوس پر ڈنڈے برسائے۔ لاجپت رائے کی چھاتی پر چوٹیں آئیں اور چند دن بعد اس صدمہ کی تاب نہ لا کر چل بسے۔ موری دروازہ کے باہر مظاہرہ کی رات کو زبردست جلسہ ہوا۔ لالہ لاجپت رائے بے نظیر مقرر تھے۔ نوجوانوں کو ہلا دیا، کہا…. عزیزو! میرے بڑھاپے کی لاج رکھنا، تمہاری جوانی کا فرض ہے جو لاٹھیاں آج میرے سینہ پر لگی ہیں وہ برطانوی اقتدار کے تابوت میں آخری میخ ثابت ہوں۔

    بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے انہی الفاظ کی تحریک پر سانڈرس کو قتل کیا اور مرکزی اسمبلی میں بم پھینکا۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو پہلی دفعہ اسی جلسہ میں سنا۔ کیا جادو تھا کہ سارا مجمع مسحور ہوگیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ انگریز جا ہی رہے ہیں۔ اُس زمانہ میں پولیس آفیسر گھوڑوں پر سوار ہو کر پٹرول کرتے اور گھومتے پھرتے تھے۔ رات گیارہ ساڑھے گیارہ تک جلسہ رہا۔ سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس اور دوسرے آفیسر آخر تک گھوڑوں پر سوار کھڑے رہے۔ اس جلسہ سے میرا ابتدائی تاثر یہ تھا کہ لوگوں کے دل سے غیر ملکی حکومت کا خوف نکل چکا ہے۔

    (ممتاز شاعر و ادیب، صحافی اور بلند پایہ خطیب آغا شورش کاشمیری تحریکِ آزادی میں بھی پیش پیش رہے تھے جن کی مشہور کتاب پسِ دیوارِ زنداں سے یہ پارہ منتخب کیا گیا ہے)

  • 75 سال پہلے بٹوارے کے ساتھ جنم لینے والی کہانیاں

    75 سال پہلے بٹوارے کے ساتھ جنم لینے والی کہانیاں

    تقسیمِ ہند کے اعلان پر فوری اور شدید رد عمل فسادات کی صورت میں سامنے آیا اور قتل و غارت گری کی وہ داستان رقم ہوئی جس سے برصغیر کی تاریخ کے اوراق چھلنی ہیں۔

    متحدہ ہندوستان کے بٹوارے کے ساتھ پیدا ہونے والے حالات کا اثر انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر پڑا۔ ہجرت کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو مذہب اور قومیت کے نام پر خوب لہو بھی بہا جس نے ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ نظم ہو یا نثر، ناول ہو، یا افسانہ، تقسیم اور فسادات پر لکھنے کا سلسلہ چل نکلا۔ کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، حیات اللہ انصاری، قرۃالعین حیدر، رام لعل، خواجہ احمد عباس، احمد ندیم قاسمی اور کئی ادیبوں نے اس تقسیم اور عظیم ہجرت سے جڑے واقعات اور مسائل پر کہانیاں لکھیں۔ یہاں ہم ایسے ہی چند مشہور افسانوں کے مصنّفین اور ان کی تخلیق کا چند سطری تعارف پیش کررہے ہیں جنھیں آپ انٹرنیٹ کی مدد سے پڑھ سکتے ہیں۔

    ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘
    مشہور افسانوں‌ کے خالق، نام ور ادیب اور فلمی کہانی کار سعادت حسن منٹو کا یہ افسانہ نقل مکانی یا ہجرت کے کرب کو بیان کرتا ہے۔ مصنّف نے بتایا ہے کہ تقسیمِ ہند کے بعد جہاں ہر چیز کا تبادلہ اور منتقلی عمل میں لائی جارہی تھی اور نئی نئی بنائی گئی سرحدوں کے اطراف قیدیوں اور پاگلوں کی بھی منتقلی کا منصوبہ بنایا گیا تو ایک پاگل انسان پر کیا بیتی۔ یہ کردار فضل دین پاگل کا تھا جسے صرف اس بات سے سروکار ہے کہ اُسے ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ سے یعنی اس کی جگہ سے دور نہ کیا جائے۔ وہ جگہ خواہ ہندوستان میں ہو یا پاکستان میں، اسے اس سے غرض نہیں‌ تھی۔ جب اُسے جبراً وہاں سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ ایک ایسی جگہ جم کر کھڑا ہو جاتا ہے جو نہ ہندوستان کا حصّہ ہے اور نہ پاکستان کا۔ اور اچانک وہ اسی جگہ پر ایک فلک شگاف چیخ کے ساتھ اوندھے منھ گر جاتا ہے۔ وہ مَر چکا ہوتا ہے۔

    ‘لاجونتی’
    راجندر سنگھ بیدی نے اپنے اس افسانے کو اس کے مرکزی کردار کا نام ہی دیا ہے۔ یہ عورت یعنی لاجونتی خلوص کے ساتھ سندر لال کو اپنا سب کچھ مانتی ہے اور اس سے بڑی محبت کرتی ہے۔ سندر لال بھی لاجونتی پر جان چھڑکتا ہے، لیکن تقسیم کے وقت کچھ مسلمان نوجوان لاجونتی کو اپنے ساتھ پاکستان لے جاتے ہیں۔ پھر کہانی میں وہ موڑ آتا ہے جب مہاجرین کی ادلا بدلی شروع ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں لاجونتی پھر سندر لال تک پہنچ جاتی ہے، لیکن اب وہ سندر لال جو اس پر جان چھڑکتا تھا، اس پر شک کرتا ہے اور اس کا لاجونتی کے ساتھ رویہ اس قدر بدل جاتا ہے کہ اس عورت کو کچھ سمجھ نہیں‌ آتا۔ سندر لال کے رویے سے اس کی وفاداری اور پاکیزگی خود اس کے لیے سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔

    ‘ماں بیٹا’
    حیات اللہ انصاری اردو افسانہ کا اہم نام ہیں اور اپنے اسلوب کے باعث پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں‌ نے اپنے افسانہ میں‌ مذہبی انتہا پسندی سے پریشان ایک ہندو بیٹے اور مسلمان ماں کو دکھایا ہے جو بالکل الگ تھے۔ ان کا ماحول، معاشرہ جدا تھا اور وہ دونوں ہی ایک دوسرے کے مذہب سے سخت بیزار اور نفرت کرنے والے تھے۔ مگر تقسیم کے موقع پر ان کا دکھ ایک ہی تھا۔ لاکھوں لوگوں کی طرح برسوں سے ایک جگہ بسے ہوئے یہ دونوں بھی بالکل اجڑ گئے تھے۔ ان کا مذہب اور رسم و رواج، تہوار اور خاندان تو بالکل الگ تھے، مگر ان کے اجڑنے کی کہانی ایک جیسی تھی۔ پھر اتفاق سے جب وہ ملتے ہیں تو ایک دوسرے کی کہانی سنتے ہیں اور پھر ان کی سوچ بدل جاتی ہے۔

    ‘جلاوطن’
    قرۃ العین حیدر نے اس میں مشترکہ تہذیب کے بکھرنے کو بیان کیا ہے۔ یہ اس مشترکہ تہذیب کی کہانی ہے جس نے برصغیر میں بسنے والوں کے صدیوں کے میل جول سے جنم لیا اور ان کے درمیان یک جہتی کی علامت تھی۔ اس کہانی میں مصنّفہ نے رشتوں کے بکھرنے، خاندانوں کی جدائی اور انسانی قدروں کے پامال ہونے کے المیے کو پیش کیا گیا ہے۔ تقسیم کے بعد جس طرح رشتوں کا بھی بٹوارہ ہوا اور ایک ہی گھر کے باپ بیٹا سرحدوں کے اطراف میں بٹ کر کیسے کرب سے اور کن مسائل سے دوچار ہوئے، یہ سب اس کہانی میں‌ پڑھا جاسکتا ہے۔ یہ ان لوگوں کی داستان ہے جو بٹوارہ نہیں چاہتے تھے اور اپنا گھر بار چھوڑنا ان کے لیے آسان نہ تھا۔ بیٹے کی پاکستان ہجرت دوسری طرف بھارت کے شہری بن جانے والے اس کے خاندان کو اپنے ہی وطن میں مشکوک بنا دیتی ہے۔ جوان اولاد کی جدائی کا غم تو مارے ہی دے رہا تھا، اس پر اپنی ہی پولیس کی تفتیش بھی برداشت کرنا پڑتی ہے۔

    ‘نصیب جلی’
    رام لعل کا یہ افسانہ تقسیم کے بعد ایک مسلمان اور سکھ کی محض دو سالہ دوستی اور ایک موقع پر ان کے امتحان کی خوب صورت تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ انسانیت کے عظیم جذبے کی کہانی ہے جس میں‌ مذہب کی تفریق حائل نہیں‌ ہوتی۔ یہ دو کردار موتا سنگھ اور غلام سرور کی کہانی ہے جو امرتسر میں ایک ہی ورکشاپ میں کام کرتے تھے۔ وہ اسی ورکشاپ کے قریب ایک بیرک میں پڑوسی کی حیثیت سے رہتے تھے۔

    سکھ اکثریت والے علاقے میں جب فسادات شروع ہوئے تو غلام سرور کو جان کے لالے پڑ گئے۔ وہ اپنی جان بچانے کے لیے دیواریں پھلانگتا ہوا کسی طرح موتا سنگھ کے آنگن میں کود جاتا ہے۔ موتا سنگھ کے کئی عزیز بھی عین تقسیم کے موقع پر مسلمانوں‌ کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور وہ چاہتا تو اس موقع پر ایک مسلمان کو قتل کرکے بدلہ لے بھی سکتا تھا۔ لیکن جب بھیڑ چیختی ہوئی موتا سنگھ کے دروازے پر پہنچی، تب اس نے اپنے دوست اور ایک انسان کی جان بچانے کا فیصلہ کیا۔ موتا سنگھ اسے گھسیٹتا ہوا کمرے میں لے گیا جہاں ایک پلنگ پر اپنی بیوی کے ساتھ لٹا کر ان کے اوپر رضائی ڈال دی۔

    اس نے کہا، دونوں لیٹے رہو سیدھے، ایک دوسرے کے ساتھ بالکل لگ کر۔ کسی کو شک نہ ہو کہ دو سوئے ہوئے ہیں۔ ادھر فسادی گھر میں‌ داخل ہوجاتے ہیں اور گھر میں غلام سرور کا سراغ نہ پا کر واپس نکل جاتے ہیں۔

  • تحریکِ‌ آزادی: راغب احسن وہ شخصیت جن سے قائدِ اعظم اور علّامہ اقبال نے گھنٹوں مشاورت کی

    تحریکِ‌ آزادی: راغب احسن وہ شخصیت جن سے قائدِ اعظم اور علّامہ اقبال نے گھنٹوں مشاورت کی

    برطانوی ہندوستان میں اپنی سیاست کا آغاز تحریکِ خلافت سے کرنے والی شخصیات میں علّامہ راغب احسن بھی شامل ہیں جنھوں نے خلافت کمیٹی میں فعال و متحرک کردار ادا کیا اور اسی وجہ سے جیل بھی گئے۔

    بعد میں‌ اسی مردِ مجاہد نے تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے لیے محمد علی جناح کی قیادت میں اپنا کردار ادا کیا۔

    علّامہ کا تعلق صوبہ بہار سے تھا۔ وہ ایک غریب گھرانے میں 1905ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کلکتہ میں محکمۂ ڈاک میں معمولی ملازم تھے۔ راغب احسن نے کلکتہ میں تعلیم پائی۔ خلافت کمیٹی میں شمولیت کے بعد جب ایک موقع پر جیل گئے تو انھیں کلکتہ کارپوریشن کے اس وقت کے میئر محمد عثمان سے ملاقات کا موقع ملا۔ وہاں ان دونوں نے عہد کیا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے اور انگریز کی ملازمت کرنے کے بجائے اس کے خلاف جہاد کریں گے اور رہائی کے بعد انھوں نے ایسا ہی کیا۔ ایم اے کی ڈگری لی اور اس کے بعد صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔

    علّامہ راغب ” اسٹار آف انڈیا ” سے منسلک ہوگئے اور مولانا محمد علی جوہر کے اخبار ” کامریڈ ” کے اعزازی مدیر بھی بن گئے۔ مولانا محمد علی جوہر کی صحبت نے علامہ راغب احسن میں ایسا زورِ قلم پیدا کیا کہ بعد از وفاتِ محمد علی جوہر انھیں صحافت اور قلم کی دنیا میں محمد علی ثانی کہا جانے لگا۔

    علّامہ راغب احسن نے 1931ء میں ” آل انڈیا یوتھ لیگ ” کی بنیاد رکھی اور اسی دوران ” میثاق فکر اسلامیت و استقلالِ ملّت ” کے نام سے ایک فکر انگیز دستاویز مسلمانوں کے حقوق کے لیے مرتب کی۔ 1936ء میں راغب احسن نے کلکتہ میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور اس کی تنظیم سازی میں نہایت سرگرمی سے حصہ لیا۔

    ہندوستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ جو مسئلہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان متنازع فیہ تسلیم کیا گیا وہ طرزِ انتخاب تھا۔ ہندوستان کے بڑے بڑے مسلم راہ نما مثلاً حکیم اجمل خاں، سر علی امام، حسن امام ، بیرسٹر مظہر الحق، محمد علی جناح، حسرت موہانی، ڈاکٹر انصاری، مولانا ظفر علی خان، چودھری خلیق الزماں، مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر وغیرہم متحدہ طرزِ انتخاب کو ہندوستان کے سیاسی نظام کے لیے بہتر سمجھتے تھے جب کہ مسلم کانفرنس کے اراکین و عہدے داران ہمیشہ جداگانہ طرزِ انتخاب کے حامی رہے۔ ان میں محمد شفیع، علامہ محمد اقبال کے ساتھ علّامہ راغب احسن بھی شامل ہیں۔

    جداگانہ طرزِ انتخاب پر علّامہ راغب احسن نے کئی تحاریر سپردِ قلم کیں اور مضامین کے انبار لگا دیے جن کا مقصد اس حوالے سے شعور بیدار کرنا اور اپنے مؤقف کو درست ثابت کرنا تھا۔

    علّامہ راغب احسن کا نام و مقام اور ان کے تحریکِ آزادی میں کردار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح 1935ء میں برطانیہ سے ہندوستان تشریف لائے تو دلّی میں تین اہم شخصیات نے گھنٹوں ایک کمرے میں بیٹھ کر وطن اور مسلمانوں کے حالات اور مستقبل پر بات چیت کی تھی اور یہ تین قائدین محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال اور راغب احسن تھے۔

    راغب احسن نے علّامہ اقبال کی درخواست پر آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم میں بھر پور حصہ لیا اور اسے مستحکم بنایا۔

  • تحریکِ پاکستان: کانگریس کی سیاست اور نہرو رپورٹ نے قائدِاعظم کو راستہ بدلنے پر مجبور کیا

    تحریکِ پاکستان: کانگریس کی سیاست اور نہرو رپورٹ نے قائدِاعظم کو راستہ بدلنے پر مجبور کیا

    انیسویں اور بیسویں صدی میں بہت سی سیاسی و علمی تحاریک سامنے آئیں جنھوں نے ہندوستان میں بھی سیاست و سماج اور علم و ادب کے میدان میں نئے رجحانات اور تبدیلیوں کو جنم دیا۔

    انگلستان جو اس وقت بڑا علمی مرکز تھا، اس کی لبرل تحریک نے تقریباً تمام دنیا، خاص طور پر نوآبادیات میں اشرافیہ کو ضرور متاثر کیا تھا۔ برطانوی ہند( برٹش انڈیا) کے لوگ بالخصوص جب مغرب سے تعلیم حاصل کرکے واپس اپنے وطن آتے تو بہت سے نئے رجحان اور افکار بھی یہاں ان کے ذریعے پہنچتے تھے۔

    انڈین نیشنل کانگریس بھی انہی لبرل تصورات کی بنیاد پر سیاسی شعور کی مظہر ایک جماعت تھی۔ اس کی بنیاد ایک ریٹائرڈ برطانوی افسر اے او ہیوم نے 1885ء میں رکھی تھی۔ اس کی قومی وضع، انفرادی آزادی کے تصوّرات اور ہندوستان کے لیے اس پلیٹ فارم تلے جمع ہوکر کام کرنے کے عزم نے اشرافیہ اور مختلف گروہوں کے تعلیم یافتہ، باشعور اور ممتاز ہندوستانیوں کو اس میں شامل ہونے پر آمادہ کرلیا۔

    مغرب سے تعلیم یافتہ اور جدید و لبرل تصوّرات کے حامل محمد علی جناح نے بھی انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے معتمدین بدرالدین طیّب جی، دادا بھائی نارو جی، سر فیروز شاہ مہتا اور گوپال کرشنا گوکھلے کے بہت قریب تھے۔

    ہندوستان کے مسلمانوں کو انڈین نیشنل کانگریس پر کچھ تحفظات تھے اور وہ بہت کم اِس میں شامل ہوئے اور بعد میں جب تقسیمِ بنگال کا مسئلہ اٹھا تو انڈین نیشنل کانگریس نے ایسا سخت اور مسلم مخالف رویہ اپنایا کہ اس سے ایک ہندو نظریات کی پرچارک جماعت کا تاثر قائم ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلم اشرافیہ اپنی ہندوستانی سیاست کے مستقبل پر الجھی ہوئی تھی اور ہندو مسلم اتحاد کی کوششیں بے سود نظر آرہی تھیں۔ دوسری جانب سیاسی میدان میں مسلمانوں کو اپنی نمائندگی اور حقوق پورے ہونے کی بھی فکر تھی اور لگتا تھاکہ ہندو انھیں‌ پیچھے رکھنا چاہتے ہیں، تب 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی ۔

    ادھر محمد علی جناح مسلم لیگ کے قیام کے فوراً بعد اس میں شامل نہ ہوئے۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس سے بددل تو ہورہے تھے، لیکن اسے ایک بڑی اور ایسی پارٹی سمجھتے تھے جو برٹش انڈیا کی تمام جماعتوں کی نمائندہ تھی۔ لیکن جلد ہی انھیں احساس ہوگیا کہ مسلمانوں کے حقوق کے لیے کانگریس کے پلیٹ فارم سے نہیں لڑا جاسکتا اور انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد اس کی قیادت سنبھالی۔

    محمد علی جناح نے دیکھا کہ انڈین نیشنل کانگریس کے افکار و نظریات پر موہن داس کرم چند گاندھی کی شخصیت اور سیاسی خیالات کا اثر گہرا ہورہا ہے انھوں نے 1920ء میں کانگریس کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ محمد علی جناح ایک قوم پرست ہندوستانی تھے اور کانگریس کو بلاامتیازِ رنگ و نسل اور مذہب عوام کی نمائندہ اور حقیقی جماعت سمجھتے تھے، لیکن متعصب اور انتہا پسند ہندو قائدین کے طرزِعمل اور پارٹی کے بعض فیصلوں نے ان کے خیالات تبدیل کردیے تھے۔

    ادھر مسلمانوں کی قیادت نے قائداعظم کو اس بات پر قائل اور آمادہ کرنے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی تھیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی بقا اور حقوق کا تحفظ اسی صورت ممکن ہے جب وہ مسلم لیگ جیسی جماعت کے جھنڈے تلے جمع ہوں اور بعد میں‌ ثابت ہوا کہ زعمائے وقت کا کہنا ٹھیک تھا۔ وہ وقت بھی آیا جب محمد علی جناح نے ’’گاندھی زدہ‘‘ کانگریس چھوڑ کر اس عظیم جدوجہد اور تحریک کے قائد بنے جس نے پاکستان کا خواب پورا کیا۔

    قائدِ اعظم نے جو کانگریس چھوڑی اس کی تنظیم اس منشور اور مقصد سے بالکل مختلف تھی جس کے لیے انھوں نے اس جماعت میں‌ شمولیت اختیار کی تھی۔

    1910ء کے عشرے میں قائدِ اعظم انڈین نیشنل کانگریس کی ایک معروف شخصیت تھے۔ 1908ء سے 1920ء تک وہ باقاعدگی سے انڈین نیشنل کانگریس کمیٹی کے رکن منتخب ہوتے رہے۔ انھوں نے کانگریس کے مختلف اجلاسوں میں کئی اہم قرادادیں پیش کیں یا ان کی تائید کی اور کانگریس کو کئی سال تک باقاعدگی سے ماہانہ فنڈ دیتے رہے۔

    کانگریس کو چھوڑ کر مسلم لیگ کو فعال کرنے والے محمد علی جناح نے 1929ء کی نہرو رپورٹ کے بعد اپنی سیاست کا رُخ مکمل طور پر مسلم قوم پرستی کی طرف موڑ لیا، وہ برٹش انڈیا میں مسلمانوں کے واحد اور متفقہ قائد کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور ان کی سیاسی بصیرت نے مسلمانوں کی جدوجہد کو اگست 1947ء میں قیامِ پاکستان کی صورت میں منزل تک پہنچایا۔

  • جدوجہدِ آزادی: شدھی اور سَنگَھٹن تحریکوں نے ہندو انتہا پسند ذہنیت کو بے نقاب کیا

    جدوجہدِ آزادی: شدھی اور سَنگَھٹن تحریکوں نے ہندو انتہا پسند ذہنیت کو بے نقاب کیا

    ناکام غدر کے بعد جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے گھناؤنے اور پُر فریب کردار کو سمیٹ کر برطانیہ نے ہندوستان کو اپنی کالونی بنایا اور یہاں انگریز راج قائم ہوا تو مسلمان اور ہندو سیاسی و سماجی راہ نما اور اکابرین نے متحد ہوکر انگریزوں کو اپنے وطن سے نکالنے اور اپنی حکومت قائم کرنے کا خواب دیکھنا شروع کیا۔

    اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے نعرے نے زور پکڑا، لیکن اس سے قبل کئی واقعات اور سانحات رونما ہو چکے تھے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد ہیں جو اپنے مذہب، رہن سہن، روایات اور ثقافت کے اعتبار سے ہر طرح جداگانہ شناخت رکھتی ہیں اور اکٹھے نہیں‌ رہ سکتیں۔

    ہندو مسلم اتحاد کا سنہری خواب تحریکِ خلافت کے دوران ہی ادھورا نظر آنے لگا تھا اور جونہی یہ تحریکِ کم زور پڑی ہندو مسلم فسادات کا ایک طویل اور خوف ناک سلسلہ چل نکلا۔

    1920ء کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہر قسم کے تعلقات بڑھتی ہوئی کشیدگی کی نذر ہونے لگے۔ اس کشیدگی کی انتہا کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1923ء میں 11، اگلے سال 18، 1925ء میں 16 اور اس کے ایک سال بعد یعنی 1926ء میں 35 اور اگلے ہی برس 37 افسوس ناک واقعات رونما ہوئے جو ہندو مسلم فسادات کا نتیجہ تھے۔ ہر سال ایسے واقعات بڑھتے رہے جب کہ چھوٹے اور معمولی نوعیت کی تکرار اور جھگڑے عام ہوتے جارہے تھے۔

    تاریخ سے ثابت ہے کہ ہندو شروع ہی سے مسلمانوں کو اپنا مطیع و حاشیہ نشیں بنا کر رکھنے کا خواب دیکھتے آئے تھے جس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ جس ہندوستان میں‌ رہتے تھے، اس پر صدیوں سے مسلمان حکم رانی کررہے تھے اور دہلی میں ان کا تخت سجا رہا تھا۔

    مغل سلطنت کے کم زور پڑ جانے کے بعد اور انگریزوں کی آمد سے قبل بھی یہاں مختلف چھوٹے بڑے علاقے مسلمان حکم رانوں کے زیرِ‌نگیں تھے اور ریاستوں پر انہی کی حکم رانی تھی۔

    ہندو احساسِ محرومی کا شکار بھی تھے اور خود کو مسلمانوں کا محکوم خیال کرتے تھے جب کہ انھیں مغل دور میں مذہبی اور ہر قسم کی آزادی حاصل تھی۔ ان کی عبادت گاہیں محفوظ تھیں اور وہ اپنے رسم و رواج اور طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کررہے تھے۔

    انگریزوں کی آمد کے بعد مخصوص ذہنیت اور انتہا پسندوں نے ہندو مسلم تعلقات کو خراب کرنے کی کوششیں شروع کیں اور خیال کیا کہ انگریزوں سے ساز باز اور سازشیں کرکے اقتدار حاصل کرسکیں گے۔

    ہندو مسلم تعلقات خراب کرنے کی ابتدا ہندوؤں کی جانب سے ہوئی جنھوں نے پنڈت مدن موہن مالویہ، لالہ لاجپت رائے اور شردھا نند کی قیادت میں سَنگَھٹن اور شدھی تحریکیں شروع کیں۔ سَنگَھٹن کے معنی ایک ساتھ جوڑ کر مضبوطی سے باندھنا تھا۔ اس تحریک کا مقصد ہندوؤں کی تعلیم و تربیت کرنا، انھیں نظم و نسق اور مختلف امور کا ماہر بنانا، اور مخالفین سے اپنا دفاع سکھانا تھا جس کے لیے ایسے اسلحہ کا استعمال بھی سکھایا جاتا جس سے فسادات کی صورت میں مسلمانوں کے خلاف کام لینا مقصود تھا۔ ہندو نوجوانوں کو لاٹھیوں، اینٹوں کے ٹکڑوں اور بنوٹ کا دشمن پر استعمال سکھایا جارہا تھا۔

    دوسری طرف شدھی تحریک کا شور ہونے لگا جس کا مطلب تھا پاک کرنا۔ یعنی وہ لوگ جو اسلام کے ہمہ گیر اور آفاقی نظریات اور اس کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہندو مت ترک کر کے مسلمان ہو گئے تھے انھیں مجبور کرکے دوبارہ ہندو مت میں داخل کر لیا جائے۔

    ان حالات میں ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ محض فریب ہی تھا۔ ان دونوں تحریکوں کا مقصد ہندوستان سے مسلمانوں کے وجود کو مٹانا تھا اور اسے بڑے بڑے ہندو راہ نماؤں کی حمایت حاصل تھی۔

    ایسی تحریکوں کے انتہا پسند ہندو لیڈروں نے مسلمانوں کے بارے میں اپنی ذہنیت کا کھلم کھلا اظہار شروع کردیا تھا اور ڈاکٹر مونجے نے اودھ ہندو سبھا کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ’’جس طرح انگلستان انگریزوں کا، فرانس فرانسیسیوں اور جرمن جرمنوں کا ملک ہے اسی طرح ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے۔‘‘ ہندو چاہتے تھے کہ یا تو مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال دیا جائے یا انھیں ہندو مت قبول کرنے پر مجبور کردیا جائے۔

    جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات وسیع پیمانے پر ہونے لگے اور ان کا دائرہ پھیلتا جارہا تھا اور ہندو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے، لیکن مسلم زعما بالخصوص قائدِاعظم ان مایوس کن حالات میں بھی ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں تھے۔ تاہم جلد ہی انھیں بھی احساس ہو گیا کہ علیحدہ وطن کا حصول ناگزیر ہے۔

    مصوّرِ پاکستان ڈاکٹر علّامہ اقبال کی بات کی جائے تو وہ برطانوی راج میں ہندوستانی آئین کے مطابق مسلمانوں کے لیے جداگانہ طرزِ‌ انتخاب سمیت علیحدہ ریاست کو اُس وقت بھی اہمیت دے رہے تھے جب قائداعظم سمیت دیگر مسلمان راہ نما ہندو مسلم اتحاد کے نعروں کے پیچھے چھپی ہندوؤں کی ذہنیت کا صحیح اندازہ نہیں لگا پائے تھے۔

    علّامہ اقبال نے ایک موقع پر واضح طور پر کہا کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں بحثیت مسلمان زندہ رہنا ہے تو ان کو جلد از جلد اپنی اصلاح و ترقی کے لیے سعی و کوشش کرنی چاہیے اور ایک علیحدہ سیاسی پروگرام بنانا چاہیے۔

    بیسویں صدی كے آغاز پر جو حالات اور فسادات سمیت دیگر واقعات رونما ہوئے تو مسلمان قائدین اور اکابرین نے علیحدہ تشخص کی بات کرتے ہوئے الگ سیاسی پلیٹ فارم بنانے كی کوششیں تیز کردیں اور بے شمار قربانیوں کے بعد پاکستان حاصل کیا۔

  • جنگِ آزادی:ہندوستان کی اوّلین مجاہد بیگم حضرت محل کا تذکرہ

    جنگِ آزادی:ہندوستان کی اوّلین مجاہد بیگم حضرت محل کا تذکرہ

    تاریخِ ہند کے صفحات جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی سازشوں، اور مکروفریب کی داستان سناتے ہیں اور تجارت کے بہانے ہندوستان پر قبضہ کرنے والے انگریزوں کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے ہیں، وہیں ہمیں‌ بیگم حضرت محل جیسے کرداروں کے بارے میں جاننے کا موقع بھی ملتا ہے۔

    بیگم حضرت محل نے مسلمانوں ہی نہیں ہندوؤں اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کو متحد ہو کر آزادی کی جنگ لڑنے پر آمادہ کیا۔ بیگم حضرت محل کو ہندوستان کی اوّلین خاتون مجاہدِ آزادی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

    وہ ایک دور اندیش، بہادر اور غیّور ہندوستانی تھیں جنھوں نے برطانوی حکومت کی” تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی پالیسی کو بھانپ کر مسلمانوں اور ہندوﺅں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوششیں کیں اور اپنے قول و عمل سے تحریکِ جنگِ آزادی کو ایک نیا رخ دیا۔

    حضرت محل فیض آباد میں 1820ء میں پیدا ہوئیں۔ وہ کوئی معمولی عورت تھیں اور نہ ہی کسی عام گھرانے کی فرد۔ بیگم حضرت محل اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کی رفیقِ حیات تھیں۔

    مغل سلطنت کی کم زوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے 1856ء میں مختلف ریاستوں اور علاقوں پر اپنا راج قائم کرتے ہوئے جب واجد علی شاہ کو جلاوطنی پر مجبور کردیا اور انھیں کلکتہ بھیج دیا تو بیگم حضرت محل نے اودھ کی باگ ڈور سنبھالی اور انگریزوں کے خلاف میدانِ‌ عمل میں اتریں‌۔ انھوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کو متحد کرنے کی کوششیں کرتے ہوئے انگریزوں کو ہندوستان بھر سے باہر نکالنے کی جدوجہد شروع کی۔

    بیگم حضرت محل نے قابض انگریز افواج کو للکارا اور اپنے سپاہیوں کے ساتھ جنگ کے میدان میں برطانوی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے اتریں۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ بیگم حضرت محل انگریزوں کے اندازے سے کہیں بڑھ کر پُرعزم و باحوصلہ نکلیں، وہ پالیسی ساز اور تنظیمی امور میں طاق تھیں۔

    1857ء کی جنگ کے دوران انھوں نے اودھ میں اپنی فوج کی قیادت کی اور اپنے عوام کی امنگوں اور امیدوں کا مرکز بنی رہیں جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ انھوں نے انگریزوں سے دو سال تک لڑائی جاری رکھی اور اپنی افواج کو منظّم رکھنے کے ساتھ طاقت میں اضافہ کرنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے مسلسل متحرک اور فعال کردار ادا کرتی رہیں، لیکن ایک وقت آیا جب مالی مسائل اور دوسری مشکلات کے باعث فوج اور ریاست کی سطح پر مدد اور حمایت کم ہوتی چلی گئی، لیکن انھوں نے شکست تسلیم نہ کی بلکہ اس موقع پر جب انگریز حکومت نے انھیں مراعات کی پیشکش کی تو بیگم حضرت محل نے اسے ٹھکرا دیا۔

    بدقسمتی سے اپنوں کی سازش اور دغا بازی اور دوسرے ریاستی حکم رانوں کے تعاون سے محرومی کے سبب وہ اپنی آزادی کے خواب کی تکمیل نہ کرسکیں، لیکن حضرت محل جب تک زندہ رہیں، انگریزوں کے آگے ہتھیار نہیں‌ ڈالے اور ان کے خلاف مہم جوئی جاری رکھی۔

    بیگم حضرت محل کی زندگی کا سورج 7 اپریل 1879ء کو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ انھوں نے نیپال میں‌ اپنی زندگی کی آخری سانس لی، لیکن ان کی جدوجہد اور قربانیاں رائیگاں نہیں‌ گئیں بلکہ ان کے اسی جذبے اور آزادی کے جنون نے ہندوستانی عورتوں کو بھی ہمّت اور حوصلہ دیا اور ہندوستان آزاد ہوا اور اسی سے متاثر ہوکر مسلمان خواتین مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھی ہوئیں اور تحریکِ پاکستان کو کام یاب بنایا۔

  • تحریکِ آزادی کے نام ور راہ نما چوہدری خلیق الزماں

    تحریکِ آزادی کے نام ور راہ نما چوہدری خلیق الزماں

    بیسویں صدی میں‌ ہندوستان کی ممتاز شخصیات جن میں قائداعظم محمد علی جناح، مولوی فضل الحق، لیاقت علی خان، محمد علی جوہر، شوکت علی، گاندھی، موتی لال نہرو، جواہر لال نہرو شامل ہیں، کے ساتھ چوہدری خلیق الزماں بھی تحریکِ آزادی اور اس زمانے میں اپنا سیاسی پرچم اٹھائے جدوجہد میں‌ نمایاں رہے۔

    چوہدری خلیق الزماں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے ایل ایل بی کرنے کے بعد وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ سیاست کی ابتدا انڈین نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم سے کی، مگر بعد میں آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ ہوگئے اور دمِ آخر تک وابستگی برقرار رہی۔

    تحریکِ آزادی کے اس نام ور راہ نما کا انتقال 18 مئی 1973 کو ہوا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ 15 اگست 1947 کو انھوں نے مسلمانانِ ہند کی نمائندگی کرتے ہوئے ہندوستانی پارلیمنٹ سے خطاب کیا اور پاکستان کی جانب سے ہندوستان کو آزادی کی مبارک باد دی۔ وہ مشرقی پاکستان کے گورنر بھی رہے اور مختلف ممالک میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

    جدوجہدِ آزادی کے موضوع پر ان کی ایک تصنیف بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔چوہدری خلیق الزماں کراچی میوہ شاہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔