طبیعت کا رخ شروع ہی سے سیاسی ہو گیا تھا۔ میرا یوم پیدائش ۱۴ اگست ۱۹۱۷ ہے۔ پہلی جنگ عظیم کا دور، اسی زمانہ میں جنگ کے آثار و نتائج سے معاشرہ کا پہلا سانچہ ٹوٹا اور دوسرا بنا۔
جلیانوالہ باغ کا حادثہ ہوا، پنجاب میں مارشل لا لگا، تحریکِ خلافت کا دریا چڑھا اور ایک طوفان امڈ آیا۔ قومی تحریک نے راہ پائی۔ ملک بھر میں عدم تعاون کے ہنگامے برپا ہوئے، لیڈر شپ کا انداز بدلا، پرانے سیاسی چہرے جُھریا گئے، ان کی جگہ نئے سیاسی رہنما آگئے۔
یہ زمانہ گاندھی، محمد علی جوہر، ابو الکلام آزاد اور سیکڑوں دوسرے رہنماؤں کا تھا۔ سارا ملک کروٹ لے چکا تھا، ہمارا گھر بھی اس سے متاثر ہوا۔ میں آواز آشنا ہوا تو یہ چیزیں میرے ذہنی آب و گل میں تھیں۔ گویا دماغ بعض خفی و جلی سیاسی اثرات سے تیار ہو رہا تھا۔ عرض یہ زمانہ ہی سیاسیات کا تھا۔ آٹھویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے میرا شعور ناپختگی کے باوجود سیاسی ہو چکا تھا۔ تحریک خلافت کا تو مجھے ہوش نہیں لیکن ۱۹۲۷ اور ۱۹۲۸ء میں لاہور کے ہندو مسلم فسادات کی بعض یادیں میرے ذہن میں اب تک محفوظ ہیں۔ جہاں ہندوؤں کا زور ہوتا کسی اکّا دکّا مسلمان مسافر کو مار دیتے۔ جہاں مسلمانوں کا غلبہ ہوتا وہ کسی ہندو یا سکھ کو ہلاک کر ڈالتے۔ ایک موت سارے اخباروں کی شہ سرخی ہوتی۔ فریقین کے اخبار واویلا کرتے۔ اخباری شاعری میں ایک دوسرے کو لتاڑا جاتا۔ "پرتاب” کے مہاشہ نازتک لڑاتے۔ مولانا ظفر علی خان بدیہ گوئی کے شہنشاہ تھے، ان کی ایک نظم "دم مست قلندر دھر رگڑا، فساد کا محور ہو گئی۔
اس نظم کو اتنی شہرت ہوئی کہ بچہ بچہ کی زبان پر آگئی۔ محفلوں میں تو اس کا ذکر تھا ہی، چانڈو خانوں میں بھی چرچا ہوگیا۔ گھڑا بجتا، دھیمی دھیمی سریں اور اس کے مصرعے سلفہ کی اُڑانوں میں گھلتے جاتے۔ مولانا ظفر علی خان کی طبیعت کا جوہر انہی ہنگاموں میں لگتا تھا۔
راجپال (شاتمِ رسول) میرے سامنے قتل ہوا۔ اس کی دکان سے علم دین کو خنجر گھونپ کر نکلتے دیکھا۔ کچھ آگے لکڑیوں کا ایک ٹال تھا، علم دین اس میں گھس گیا۔ ٹال کا مالک ہندو تھا، اس نے گھیرا ڈالا۔ اتنے میں پولیس آگئی۔ علم دین کو گرفتار کیا اور لے گئی۔ دنوں تک مقدمہ چلتا رہا۔ سیشن کورٹ نے موت کی سزا دی جو ہائی کورٹ میں بحال رہی۔ آخر ایک دن علم دین کو میانوالی جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ حکومت نے اعلان کیا کہ ان کی نعش اسلامی رسومات کے مطابق میانوالی ہی میں دفن کر دی گئی ہے۔ مسلمانانِ لاہور بھڑک اٹھے، حکومت نے ہنگامہ و ہیجان سے خوف زدہ ہو کر نعش کو حوالے کر دیا۔ لاہور میں نعش کا جتنا بڑا جلوس نکلا، اتنا بڑا جلوس شاید ہی کبھی نکلا ہو۔ میّت کو کندھا دینے کے لیے بڑے بڑے بانس لگائے گئے۔ بیک وقت ہزار ڈیرھ ہزارآدمی کندھا دے رہے تھے۔ ہر خیال کے مسلمان رہنما جنازے میں شریک تھے۔ سر محمد شفیع بھی تھے اور مولانا ظفر علی خان بھی۔ ایک چھوٹی سی بات مجھے اب تک یا ہے کہ مولانا ظفر علی خان نے قبر میں لیٹ کر اس کی وسعت کا جائزہ لیا تھا۔
انہی دنوں ۱۹۲۸ء میں سائمن کمیشن کا بائیکاٹ کیا گیا۔ کمیشن لاہور پہنچا تو زبردست مظاہرہ ہوا۔ ریلوے اسٹیشن پر سہ طرفہ خار دار جنگلہ لگا دیا گیا۔ پولیس کی بڑی بڑی جمعیتوں نے اسٹیشن اور اس کی سٹرکوں کو گھیر رکھا تھا لیکن اس کے باوجود ہزاروں انسانوں کا جلوس لالہ لاجپت رائے، مولانا ظفر علی خان، چوہدری افضل حق، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، ڈاکٹر ستیہ پال وغیرہ کی قیادت میں اسٹیشن کے سامنے مظاہرہ کر رہا تھا۔ لاہور کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس نے یہیں جلوس پر ڈنڈے برسائے۔ لاجپت رائے کی چھاتی پر چوٹیں آئیں اور چند دن بعد اس صدمہ کی تاب نہ لا کر چل بسے۔ موری دروازہ کے باہر مظاہرہ کی رات کو زبردست جلسہ ہوا۔ لالہ لاجپت رائے بے نظیر مقرر تھے۔ نوجوانوں کو ہلا دیا، کہا…. عزیزو! میرے بڑھاپے کی لاج رکھنا، تمہاری جوانی کا فرض ہے جو لاٹھیاں آج میرے سینہ پر لگی ہیں وہ برطانوی اقتدار کے تابوت میں آخری میخ ثابت ہوں۔
بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے انہی الفاظ کی تحریک پر سانڈرس کو قتل کیا اور مرکزی اسمبلی میں بم پھینکا۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو پہلی دفعہ اسی جلسہ میں سنا۔ کیا جادو تھا کہ سارا مجمع مسحور ہوگیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ انگریز جا ہی رہے ہیں۔ اُس زمانہ میں پولیس آفیسر گھوڑوں پر سوار ہو کر پٹرول کرتے اور گھومتے پھرتے تھے۔ رات گیارہ ساڑھے گیارہ تک جلسہ رہا۔ سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس اور دوسرے آفیسر آخر تک گھوڑوں پر سوار کھڑے رہے۔ اس جلسہ سے میرا ابتدائی تاثر یہ تھا کہ لوگوں کے دل سے غیر ملکی حکومت کا خوف نکل چکا ہے۔
(ممتاز شاعر و ادیب، صحافی اور بلند پایہ خطیب آغا شورش کاشمیری تحریکِ آزادی میں بھی پیش پیش رہے تھے جن کی مشہور کتاب پسِ دیوارِ زنداں سے یہ پارہ منتخب کیا گیا ہے)