Tag: آزاد کشمیر

  • زلزلے میں جاتلاں سب سے زیادہ متاثر ہوا: چیئرمین این ڈی ایم اے

    زلزلے میں جاتلاں سب سے زیادہ متاثر ہوا: چیئرمین این ڈی ایم اے

    اسلام آباد: این ڈی ایم اے کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل کا کہنا ہے کہ زلزلے کے باعث میرپور میں 24 افراد اور جہلم میں ایک شخص جاں بحق ہوا۔ پاک آرمی کی 20 مشینیں سڑک کی بحالی کا کام کر رہی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل کا کہنا ہے کہ جاتلاں کل زلزلے میں زیادہ متاثر ہوا، زلزلے کے باعث میرپور میں 24 افراد اور جہلم میں ایک شخص جاں بحق ہوا۔ زلزلے کے باعث 450 گھر متاثر ہوئے۔

    چیئرمین این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ زلزلے سے 135 گھر بری طرح متاثر ہوئے ہیں، جاتلاں تک تقریباً 14 کلو میٹر کی سڑک متاثر ہوئی ہے۔ پاک آرمی کی 20 مشینیں سڑک کی بحالی کا کام کر رہی ہیں، سی این ڈی ڈبلیو کی 16 مشینیں بھی کام کر رہی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ آج شام تک سڑک ہلکی ٹریفک کے لیے قابل استعمال ہوجائے گی، پاک فوج سمیت دیگر ادارے امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔ صاف پانی اور کھانے پینے کی اشیا آج شام تک پہنچ جائیں گی۔ امدادی اشیا کی ضرورت پڑی تو ہم موبائل نمبر فراہم کریں گے۔

    لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل کا کہنا تھا کہ جن سفیروں نے رابطہ کیا ہے انہیں فی الحال کہا ہے کہ امداد کی ضرورت نہیں، متاثرین کو ضروری اشیا فراہم کی جارہی ہیں۔ پاک فوج، آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ ٹیم کی طرح کام کر رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز ملک کے بیشتر شہروں میں 5.8 شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، زلزلے سے آزاد کشمیر میں شدید تباہی پھیل گئی۔

    میر پور جاتلاں میں نہر اپر جہلم کے قریب سڑکوں میں گہرے شگاف پڑ گئے جس کے باعث کئی گاڑیاں الٹ گئیں۔ سڑکیں ٹوٹ کر دھنس گئیں، زلزلے کے باعث ایک عمارت بھی منہدم ہوئی ہے جس سے متعدد افراد زخمی ہوئے۔

    زلزلے کے بعد میر پور آزاد کشمیر، جاتلاں اور گرد و نواح میں مواصلاتی نظام منقطع ہو چکا ہے۔ زلزلے کے باعث ایک نجی اسپتال کو بھی شدید نقصان پہنچا۔

    اب تک زلزلے سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 30 بتائی جارہی ہے جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔

  • جاپان کی زلزلہ متاثرین کے لیے امداد کی پیشکش

    جاپان کی زلزلہ متاثرین کے لیے امداد کی پیشکش

    اسلام آباد: گزشتہ روز کے زلزلے سے آزاد کشمیر میں ہونے والے نقصانات پر جاپان کی جانب سے امداد کی پیشکش کی گئی جس پر چیئرمین این ڈی ایم اے نے شکریہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال نقصانات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل سے جاپانی سفیر کا فون پر رابطہ ہوا۔ جاپانی سفیر نے گزشتہ روز زلزلے کے باعث ہونے والے نقصان پر افسوس کا اظہار کیا۔

    جاپانی سفیر نے زلزلہ متاثرین کے لیے امداد کی پیشکش کی جس پر چیئرمین این ڈی ایم اے نے جاپان کے سفیر کا شکریہ ادا کیا۔

    چیئرمین این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ جاپان کے سفیر کو بتایا نقصانات کا جائزہ لیاجا رہا ہے، بیرونی امداد کی ضرورت پیش آئی تو آگاہ کیا جائے گا۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز ملک کے بیشتر شہروں میں 5.8 شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، زلزلے سے آزاد کشمیر میں شدید تباہی پھیل گئی۔

    میر پور جاتلاں میں نہر اپر جہلم کے قریب سڑکوں میں گہرے شگاف پڑ گئے جس کے باعث کئی گاڑیاں الٹ گئیں۔ سڑکیں ٹوٹ کر دھنس گئیں، زلزلے کے باعث ایک عمارت بھی منہدم ہوئی ہے جس سے متعدد افراد زخمی ہوئے۔

    زلزلے کے بعد میر پور آزاد کشمیر، جاتلاں اور گرد و نواح میں مواصلاتی نظام منقطع ہو چکا ہے۔ زلزلے کے باعث ایک نجی اسپتال کو بھی شدید نقصان پہنچا۔

    اب تک زلزلے سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 30 بتائی جارہی ہے جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔

  • صدر اور وزیر اعظم کا زلزلے کی تباہ کاریوں پر اظہار افسوس، امدادی کارروائیوں کی ہدایت

    صدر اور وزیر اعظم کا زلزلے کی تباہ کاریوں پر اظہار افسوس، امدادی کارروائیوں کی ہدایت

    اسلام آباد: صدر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان نے ملک کے مختلف علاقوں میں زلزلے سے ہونے والے نقصانات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے فوری امدادی کارروائیوں کی ہدایت کر دی.

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے تمام متعلقہ ادارے ہنگامی بنیادوں پر ریسکیواور متاثرین کو ہرممکن مدد فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔

    وزیر اعظم نے کہا ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں حکومت عوام کےساتھ ہے، زخمیوں کوعلاج کی بہترین سہولیات فراہم کی جائیں.

    یاد رہے کہ آرمی چیف کی ہدایت پر پاک فوج کی امدادی ٹیمیں زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی سمت روانہ ہو چکی ہیں.

    خیال رہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے آئے ہیں، سب سے زیادہ آزاد کشمیر متاثر ہوا. 5.8 شدت کے زلزلے سے آزاد کشمیر میں شدید تباہی پھیل گئی ہے.

    میرپور جاتلاں میں نہر اپر جہلم کے قریب سڑکوں میں گہرے شگاف پڑ گئے جس کے باعث کئی گاڑیاں الٹ گئیں۔

    زلزے میں 4 افراد جاں بحق 100 سے زائد زخمی ہونے کی اطلاع ہے. زلزلے کے باعث میرپوراسپتال کوبھی شدیدنقصان پہنچا.

  • زلزلے کے باعث آزاد کشمیر میں شدید تباہی، سڑکوں پر گہرے شگاف، راجہ فاروق حیدر میرپور روانہ

    زلزلے کے باعث آزاد کشمیر میں شدید تباہی، سڑکوں پر گہرے شگاف، راجہ فاروق حیدر میرپور روانہ

    میرپور: ملک کے مختلف علاقوں میں 5.8 شدت کے زلزلے سے آزاد کشمیر میں شدید تباہی پھیل گئی ہے، میرپور جاتلاں میں نہر اپر جہلم کے قریب سڑکوں میں گہرے شگاف پڑ گئے جس کے باعث کئی گاڑیاں الٹ گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق میر پور آزاد کشمیر میں زلزلے نے تباہی مچا دی ہے، سڑکیں ٹوٹ کر دھنس گئیں، بڑی تعداد میں لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے، ڈپٹی کمشنر میرپور کا کہنا ہے کہ زلزلے کے باعث ایک عمارت بھی مہندم ہو گئی ہے جس سے متعدد افراد زخمی ہوئے، جنھیں اسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔

    میرپور آزاد کشمیر، جاتلاں اور گرد و نواح میں مواصلاتی نظام منقطع ہو چکا ہے، اب تک 2 افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاع ہے، جب کہ 100 زخمی ہوئے، رکن آزاد کشمیر اسمبلی چوہدری سعید نے بتایا کہ زلزلے کے باعث ایک نجی اسپتال کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

    زلزلے کی تفصیل: ملک کے مختلف شہروں میں زلزلے کے شدید جھٹکے، 2 افراد جاں بحق، 100 زخمی

    وزیر اعظم آزاد کشمیر

    دوسری طرف وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے زلزلے کی اطلاع ملتے ہی دورہ لاہور مختصر کر دیا اور ہنگامی دورے پر لاہور سے میر پور روانہ ہو گئے، جہاں وزیر اعظم آزاد کشمیر امدادی کاموں کی نگرانی خود کریں گے۔

    انھوں نے امدادی اداروں کو کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے میڈیا سے گفتگو میں کہا زلزلے کی اطلاع پر میرپور واپس جا رہا ہوں، این ڈی ایم اے کی ٹیمیں بھی میرپور پہنچ رہی ہیں، امدادی کارروائیوں کی ہدایت پر آرمی چیف کا شکر گزار ہوں۔

    وزیر اعظم آزاد کشمیر نے کہا اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے، میر پور جا کر امدادی کاموں کی نگرانی خود کروں گا۔

    صدر آزاد کشمیر

    صدر آزاد کشمیر مسعود خان نے میرپور اور ملحقہ علاقوں میں زلزلے سے نقصان پر اظہار افسوس کیا، اور کہا زلزلے سے متاثر ہونے والے خاندانوں کی بھرپور مدد کی جائے گی، میرپور کی ضلعی انتظامیہ، ملحقہ اضلاع کے عوام متاثرین کی مدد کریں، نقصانات کی معلومات حاصل کرنے کے لیے انتظامیہ سے رابطے میں ہیں۔

    انھوں نے کہا مصیبت کی اس گھڑی میں متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا، میرپور کے عوام ہمت اور حوصلہ سے اس قدرتی آفت کا مقابلہ کریں۔

  • وزیراعظم عمران خان کا 13 ستمبر کو مظفرآباد میں بڑا جلسہ کرنے کا اعلان

    وزیراعظم عمران خان کا 13 ستمبر کو مظفرآباد میں بڑا جلسہ کرنے کا اعلان

    اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ 13 ستمبر کو مظفرآباد میں بڑا جلسہ کروں گا جس میں دنیا کو بتاؤں گا کہ وادی کشمیر پر بھارتی فوج کا قبضہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر وزیراعظم عمران خان نے اپنے پیغام میں کہا کہ 13 ستمبر کو آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں بڑا جلسہ کرنے جا رہا ہوں۔

    وزیراعظم نے کہا کہ دنیا کو بتاؤں گا کہ وادی کشمیر پر بھارتی فوج کا قبضہ ہے، کشمیروں کو یقین دلاؤں گا کہ پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے۔

    بھارت کی ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا: وزیر اعظم

    یاد رہے کہ 6 ستمبر کو وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے لائن آف کنٹرول کا دورہ کیا تھا۔

    آئی ایس پی آر کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ پاکستان حق خود ارادیت دلانے کے لیے کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے

    وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہماری افواج کسی بھی بھارتی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔

    وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے آزاد جموں وکشمیر کے نہتے شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا اور مقبوضہ کشمیر میں طویل محاصرہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بدترین مثال ہے۔

  • آزاد کشمیر میں بارش کے بعد راولاکوٹ میں لینڈ سلائیڈنگ، 7 افراد جاں بحق

    آزاد کشمیر میں بارش کے بعد راولاکوٹ میں لینڈ سلائیڈنگ، 7 افراد جاں بحق

    راولاکوٹ: آزاد کشمیر میں بارش کے بعد راولاکوٹ میں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے 7 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آزاد کشمیر میں تیز بارش کے بعد راولاٹ میں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں سات افراد جاں بحق ہو گئے، پاک فوج کے جوان امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

    راولاکوٹ میں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ شدید بارش کے باعث ریسکیو آپریشن میں مشکلات کا سامنا ہے جب کہ حکام نے مزید لینڈ سلائیڈنگز کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔

    بارشوں کے نتیجے میں لینڈ سلائیڈنگ کا واقعہ ضلع راولا کوٹ کے علاقے پوٹھی چھپریاں میں پیش آیا، جس کے باعث 4 مکانات ملبے کا ڈھیر بن گئے۔

    یہ بھی پڑھیں:  راولاکوٹ، بھارتی فوج کی گولہ باری، خاتون شہید، بزرگ شہری زخمی

    محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ بارشوں کے باعث ہزارہ، مالاکنڈ ڈویژن، گلگلت بلتستان اور کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا خدشہ ہے۔

    ایبٹ آباد، ہری پور، بونیر، سوات، مردان اور کرک سمیت خیبر پختون خوا کے مختلف شہروں میں موسلا دھار بارش کا سلسلہ جاری ہے۔

    ادھر راولپنڈی، اسلام آباد، سرائے عالم گیر، جہلم، سیالکوٹ، اور ڈسکہ پھالیہ میں بھی بادل شدت سے برس پڑے ہیں۔

    دریائے چناب، راوی، ستلج، بیاس اور جہلم میں سیلاب کا خدشہ ہے، پی ڈی ایم اے نے الرٹ جاری کر دیا۔

  • مقبوضہ کشمیر: تقسیمِ ہند سے آج تک

    مقبوضہ کشمیر: تقسیمِ ہند سے آج تک

    آج تقریباً پچاس سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پاکستان اور بھارت کے درمیان ازل سے موجود مسئلہ کشمیر پر خصوصی اجلاس منعقد کرنے جارہی ہے، ساری دنیا اس وقت نیویار ک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز پر نظریں جمائیں بیٹھی ہے کہ وہاں آج کیا طے پاتا ہے۔

    پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود مسئلہ کشمیر اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ یہ دونوں ممالک خود، تقسیم کے فوراً بعد ہی یہ مسئلہ شروع ہوگیا تھا۔

    اس مسئلے پر پاکستان اور بھارت اب تک چار بڑی جنگیں لڑچکے ہیں ، جن میں سے پہلی جنگ کے نتیجے میں پاکستان نے وہ علاقہ حاصل کیا تھا جو کہ اب آزاد کشمیر یا پاکستانی کشمیر کہلاتا ہے جبکہ بٹوارے سے آج تک بھارت وادی ٔ جموں اور کشمیر اور لداخ کے علاقے پر قابض ہے جبکہ اسکائی چن اور شکسگام کا غیر آباد علاقہ چین کے زیرِ انتظام ہے۔

    پہلی جنگ 1947ء، دوسری 1965ء اور تیسری 1971ء اورچوتھی 1999ء میں کارگل کے محاذ پر لڑی گئی جسے دنیا کا سب سے بلند ، دشوار گزار اور مہنگا ترین میدانِ جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان عارضی سرحدی اہتمام جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے، پر بھی گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ جس میں بھارت کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ میں اکثر پاکستان کی شہری آبادی نشانہ بنتی رہی ہے، پاکستان کی جانب سے بھی بھارتی توپوں کو فی الفور جواب دیا جاتا رہا ہے۔

    رواں سال 27 فروری کو بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پار کرکے پاکستان کے زیر اہتمام علاقوں میں فضائی کارروائی کرنے کی کوشش کی گئی جس کا بروقت جواب دیتے ہوئے پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے دو طیارے مار گرائے تھے اور پاکستانی حدود میں گرنے والے طیارے کے پائلٹ ابھیندن کو گرفتار بھی کرلیا تھا۔ بعد ازاں بھارتی پائلٹ کو امن کے پیغام کے طور پر واپس بھیج دیا گیا۔

    اب ذرا چلتے ہیں ماضی میں اور جائزہ لیتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر در حقیقت ہے کیا اور آج تک کیوں یہ دنیا کی دو بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان وجہ نزاع بنا ہوا ہے؟؟۔

    برصغیر کی تقسیم کے وقت ایک برطانوی وکیل ریڈ کلف کو ہندوستان کے بٹوارے کا ٹاسک سونپا گیا، ریڈکلف نے ہندوستان کے دوصوبوں پنجاب اور بنگال کو آبادی کی بنیاد پر پاکستان اورہندوستان میں تقسیم کیا جبکہ ریاستوں کو اختیاردیا گیا کہ آیا وہ ہندوستان میں شمولیت اختیار کریں یا پھر پاکستان کا حصہ بن جائیں، ریاستوں کے اختیار میں بھی ریاست کی آبادی کے مذہب کو ملحوظ ِخاطررکھا گیا۔ اس کلیے کے تحت کشمیر جو کہ ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی لیکن یہاں ہری سنگھ نامی سکھ راجہ کی حکومت تھی اور اس نے پہلے ریاست کی آزاد حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش کی تاہم بعد میں بھارت کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کرلیا۔

    اس موقع پر 22 اکتوبر 1947 کو پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کے مجاہدین نے کشمیر پر بھارتی تسلط سے بچانے کے لیے جدوجہد شروع کی جس کے جواب میں بھارت نے اپنی مسلح افواج میدان میں اتار دیں، قبائلی مجاہدین بھارت سے گلگت بلتستان اور موجودہ آزاد کشمیر کو چھین کر پاکستان کے ساتھ انضمام کرنے میں کامیاب رہے جبکہ بھارت اپنی بھاری بھرکم فوج کے ساتھ
    مقبوضہ کشمیر پر قابض ہوگیا۔

    دسمبر 1947 میں بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ایک ملاقات میں انہیں بتایا کہ وہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔جب بھارت نے اس مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کیا تو یکم جنوری، 1948 کو یونائیٹڈ نیشنز کمیشن آن انڈیا اینڈ پاکستان ( یو این سی آئی پی ) کی تشکیل کی
    گئی۔

    21اپریل، 1948 کوسلامتی کونسل نے اپنی قرارداد نمبر 47 منظورکی جس میں کہا گیا کہ کشمیر میں دونوں ملکوں کی طرف سے فوری فائر بندی عمل میں لائی جائے اور دونوں ممالک کی فوجیں علاقے سے نکل جائیں، تاکہ وہاں اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کا اہتمام کیا جائے ’اور کشمیری لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر پاکستان کے ساتھ‘۔.

    تاہم، مکمل فائر بندی کا نفاذ یکم جنوری 1949 کو عمل میں آیا جب پاکستان کی طرف سے کمانڈر ان چیف جنرل گریسی اور بھارت کی طرف سے ان کے ہم منصب جنرل رائے بوچر نے دستخط کیے۔ تاہم اس موقع پر بھی دونوں ملک سلامتی کونسل کی قرادداد کے مطابق فوجی انخلا پر متفق نہ ہو سکے۔ اتفاق نہ ہونے کا سبب بھارت کا اصرار تھا کہ پاکستان کو جارح ملک قرار دیا جائے، جبکہ پاکستان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ برابری کی بنیاد پر حل ہونا چاہیے۔

    اقوام متحدہ کے مذاکرات کار بھی برابری کی بنیاد پر اس مسئلے کو حل کرنے پر زور دے رہے تھے۔ تاہم، بھارت کے انکار کے بعد فوجی انخلا پر کوئی سمجھوتا نہ ہو سکا ۔ اقوام متحدہ کی طرف سے اس مسئلے کے حل میں ناکامی کی کلیدی وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ اقوام متحدہ نے قانونی پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف سیاسی پہلو کو ملحوظ خاطر رکھا۔

    دسمبر 1949ء میں سلامتی کونسل نے کینیڈا سے تعلق رکھنے والے سلامتی کونسل کے صدر، جنرل مکنوٹن سے درخواست کی کہ تنازعے کے حل کے لیے دونوں ملکوں سے رجوع کریں۔

    مکنوٹن نے 22 دسمبر کو اپنی تجاویز پیش کیں۔ اور جب 29 دسمبر کو سلامتی کونسل کے صدر کے طور پر ان کی میعاد مکمل ہو رہی تھی، انھوں نے کونسل کو اپنی سفارشات پیش کیں۔ اس پرسلامتی کونسل نے انھیں ثالثی جاری رکھنے کے لیے کہا۔ انھوں نے تین فروری 1950ء کو اپنی حتمی رپورٹ پیش کی۔

    انھوں نے تجویز دی کہ پاکستان اور بھارت ایک ساتھ اپنی فوجیں واپس بلائیں۔ دونوں ملکوں کو تنازعے میں ’مساوی پارٹنر‘ قرار دیا گیا، جب کہ یہ تجویز بھارت کو قابل قبول نہیں تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ صرف اسےکشمیر میں موجود رہنا چاہیے۔ اس پر امریکہ نے بھارت کو تنبیہ کی کہ اسے یہ فیصلہ ماننا ہوگا۔

    سرد جنگ کے تاریخ نویس، رابرٹ مک ہان نے لکھا ہے کہ ’’امریکی اہل کاروں نے محسوس کیا کہ قانونی و تیکنیکی بہانوں سے بھارت ہمیشہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مصالحت کی کوششوں کی مخالفت کرتا رہا ہے، جس کا مقصد یہ تھا کہ استصواب رائے سے بچا جا سکے‘‘۔

    اس کے بعد سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں علاقے سے پانچ ماہ کے اندر اندر فوج کو ہٹائے جانے کے لیے کہا گیا۔

    بعدازاں، 14 مارچ 1950 میں بھارت نے اس قرارداد کو تسلیم کیا۔ جس پر اقوام متحدہ نے دونوں ملکوں کے لیے نمائندہ خصوصی کے طور پر سر اوون ڈکسن کو تعینات کیا، جس کے ذمے یہ کام تھا کہ جموں و کشمیر سے دونوں ملکوں کی فوجوں کو واپس بلایا جائے۔

    اقوام متحدہ نے اپنے اہلکار تعینات کیے۔ اگلے مرحلے میں ڈکسن نے دونوں ملکوں میں شیخ عبداللہ اور غلام عباس کی اتحادی حکومت تشکیل دینے یا پھر قلم دان مختلف سیاسی جماعتوں میں باٹنے کی سفارش کی۔

    پھر ڈکسن نے پاکستانی وزیر اعظم کے سامنے بھارتی ہم منصب، نہرو سے پوچھا کہ علاقے میں استصواب رائے کے بارے میں کیا خیال ہے۔ بھارت نے اس تجویز کے حق کی حامی بھری۔

    دراصل نہرو نے ہی ’بٹوارہ اور استصواب رائے‘ کے پلان کی تجویز دی تھی، یعنی جموں اور لداخ بھارت کا ہوگا اور آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات پاکستان کے ساتھ ہوں گے۔ ڈکسن نے اس منصوبے کی حمایت کی۔

    ڈکسن کے جانشین، ڈاکٹر فرینک گراہم 30 اپریل، 1951 میں علاقے میں پہنچے۔ 16 جولائی، 1952ء کو گراہم نے تجویز دی کہ علاقے میں پاکستان اپنی فوجیں 3000 سے 6000 تک کر دے، جب کہ بھارت یہ تعداد 12000 سے 16000 کے درمیان کر دے۔ پاکستان نے سلامتی کونسل کی قراردداد پر عمل درآمد کیا جب کہ بھارت نے کسی جواز کے بغیر اسے مسترد کردیا تھا۔

    گراہم نے تنازع میں مصالحت کی بھی کوشش کی۔ فوجیں کم کرنے کے معاملے پر گراہم کو کسی قدر کامیابی ہوئی۔ لیکن، اس سلسلے میں خاطر خواہ پیش رفت رک گئی۔

    اس کے بعد، گراہم نے حتمی رپورٹ پیش کی اور ثالثی کی کوششیں رک گئیں۔ فوجوں کی تعداد کم کرنے اور استصواب رائے کے منتظم کی تعیناتی کے معاملے پر دونوں ملک رضامند نہیں ہوئے۔

    اس سے قبل، 1948 میں سلامتی کونسل نے قرارداد 47 منظور کی تھی جس کے بعد 1951ء میں بھارت اور پاکستان نے ’کراچی معاہدے‘ پر دستخط کیے تھے، جس میں جنگ بندی اور مبصرین کی تعیناتی کے لیے کہا گیا تھا۔

    سال 1951 میں قرارداد 91 منظور ہوئی جس کے تحت بھارت اور پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کا فوجی مبصر گروپ قائم کیا گیا، تاکہ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر کنٹرول کیا جا سکے۔

    سال 1971 کی بھارت پاکستان لڑائی کے بعد دونوں ملکوں نے 1972ء میں شملہ سمجھوتے پر دستخط کیے، ساتھ ہی، کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کا مبصر گروپ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔

    سنہ 1999 میں پاکستان اور بھارت کی افواج ایک بار پھر کارگل کے محاذ پر آمنے سامنے آئیں ، اس جنگ کے بارے میں آج تک حقائق ابہام کے پردے میں ہیں۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے ، تاہم جنگ کے اختتام پر دونوں ممالک سنہ 1972 کی طے شدہ کنٹرول لائن پر واپس چلے گئے اور کوئی بھی خطے کی ڈیموگرافی تبدیل نہیں کرپایا تھا۔

    مسئلہ کشمیر جنرل مشرف کے دور میں

    پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے برسراقتدار آنے کے بعد ابتدا میں دونوں ملکوں کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے ۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنی دوسری مدت کے دوران صدر مشرف کو آگرہ آنے کی دعوت دی جہاں سنہ 2001 میں دونوں رہنماؤں میں کشمیر کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں جامع مذاکرات ہوئے۔

    اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب ‘Neither a hawk nor a dove’ میں لکھا ہے کہ آگرہ سمجھوتے میں دونوں ملک مسئلہ کشمیر کے حل کے جس قدر قریب پہنچ گئے تھے، اس سے قبل کبھی نہیں پہنچے تھے۔

    امریکہ کے سابق نائب وزیر خارجہ رچرڈ باؤچر نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ واجپائی اور مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے خد و خال طے کر لیے تھے اور دونوں ملکوں کے درمیان یہ دیرینہ مسئلہ حتمی حل کے انتہائی قریب پہنچ گیا تھا۔ تاہم پاکستان میں حکومت پر مشرف کی گرفت کمزور پڑنے اور بھارت میں واجپائی کی اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی میں انتہا پسند مؤقف رکھنے والوں کی مزاہمت کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔

    جولائی 2015 میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق چیف اے ایس دولت نے انکشاف کیا تھا کہ آگرہ سمٹ کا ناکام بنانے میں اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی نے ان مذاکرات کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

    اس کے بعد سے آج تک ایل او سی پردونوں ممالک کی جھڑپیں جاری ہیں اور سنہ 2016 میں مقبوخہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کرنے والے نوجوان برہان وانی کی بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ایک بار پھر تحریک آزادی میں نئی جان پڑ گئی اور بھارت کے خلاف احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے ۔

    آرٹیکل 370 کی منسوخی

    حال ہی میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نافذآرٹیکل 370 اے جو کہ کشمیر کو ایک جداگانہ حیثیت دیتا تھا، اسے ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کو اپنی یونین ٹیریٹری قرار دے دیا۔

    آرٹیکل 370 ختم ہونے سے کشمیر کی بھارتی آئین میں جو ایک خصوصی حیثیت تھی ، وہ ختم ہوگئی ہے اور اب غیر کشمیری افراد علاقے میں جائیدادیں خرید سکیں گے اور سرکاری نوکریاں بھی حاصل کرسکیں گے۔

    بھارتی آئین کی دفعہ 370 ایک خصوصی دفعہ ہے جو ریاست جموں و کشمیر کو جداگانہ حیثیت دیتی ہے۔ یہ دفعہ ریاست جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتی ہے جبکہ زیادہ تر امور میں وفاقی آئین کے نفاذ کو جموں کشمیر میں ممنوع کرتی ہے۔

    اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی امور، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں متحدہ مرکزی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔ دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے۔

    اس دفعہ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے بہت سے بنیادی امور جن میں شہریوں کے لیے جائداد، شہریت اور بنیادی انسانی حقوق شامل ہیں ان کے قوانین عام بھارتی قوانین سے مختلف ہیں۔

    مقبوضہ کشمیر میں کرفیو

    اس بل کو لانے سے قبل ہی بھارت نے بھاری تعداد میں اپنی تازہ دم فوجیں مقبوضہ کشمیرمیں اتاردی تھیں جس کے سبب وہاں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے ، لوگ گھروں میں محصورہوکررہ گئے، کشمیری رہنما محبوبہ مفتی،عمرعبداللہ اورسجاد لون سمیت دیگر رہنماؤں کوبھی نظربند کردیاگیا ہے۔

    مقبوضہ وادی میں 4 اگست کو دفعہ ایک چوالیس کے تحت کرفیو نافدکر کےوادی میں تمام تعلیمی اداروں کو تاحکم ثانی بنداور لوگو ں کی نقل وحرکت پربھی پابندی عائد کردی گئی ہے، سری نگر سمیت پوری وادی کشمیرمیں موبائل فون،انٹرنیٹ،ریڈیو، ٹی وی سمیت مواصلاتی نظام معطل کردیاگیا ہے جبکہ بھارتی فورسز کےاہلکاروں نےپولیس تھانوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

    پاکستان نے اس معاملے پر فوری ردعمل دیتے ہوئے تیز ترین سفارت کاری شروع کی۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اس حوالے سے چین کا ہنگامہ دورہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ دنیا میں موثر آواز رکھنے والے ممالک سے بھی رابطے تیز کردیے، پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے 14 اگست کوآزاد کشمیر کا دورہ کیااور وزیر اعظم پاکستان نے کشمیری عوام کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ساری دنیا میں کشمیر کےسفیر بن کرجائیں گے۔

    اقوام متحدہ میں تعینات پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے لیے درخواست دی جسے قبول کرلیا گیا، اقوام متحدہ ، امریکا ، برطانیہ اور چین سمیت کئی اہم ممالک مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پہلے ہی تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ آج اس اجلاس میں پچاس سال بعد سلامتی کونسل کے مستقل ممبران
    مسئلہ کشمیر پر گفتگو کریں گے۔

    سلامتی کونسل کا طریقہ کار

    سلامتی کونسل کے پانچ رکن ممالک خود ایجنڈا تشکیل دیتے ہیں جسے کونسل کا صدر یو این کے تمام اراکین میں تقسیم کردیتا ہے۔ رکن ممالک اپنی تجاویز دیتے ہیں لیکن ہوتا پھر وہی ہے جو کونسل چاہتی ہے۔

    قرارداد پاس کرنے کا طریقۂ کار بہت ہی پیچیدہ ہے۔ پہلے ڈرافٹ کی تیاری کچھ اس طریقے سے عمل میں لائی جاتی ہے کہ وہ سب کو قابل قبول بھی ہو۔

    کونسل میں قرارداد پیش ہونے کے بعد ووٹنگ کا مرحلہ آتا ہے جس میں پانچ مستقل رکن ممالک کے علاوہ دس غیر مستقل رکن ممالک بھی حصہ لیتے ہیں۔

    غیر مستقل رکن ممالک بھی قرارداد پر اپنی تجاویز دیتے ہیں لیکن اس کے بعد بھی ہوتا وہی ہے جو کونسل کے مستقل ارکان کی مرضی ہوتی ہے۔

    جب یہ ممالک ایک حل پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر ہی کوئی نتیجہ نکلتا ہے لیکن اگر ایک رکن بھی متفق نہ ہو تو قرارداد ویٹو ہوجاتی ہے۔


    پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ سلامتی کونسل میں کوئی بھی ہمارے لیے پھولوں کے ہار لے کر نہیں کھڑا ہوگا، لیکن پچاس سال بعد اس مسئلے کا ایک بار پھر سلامتی کونسل میں آجانا، یقیناً پاکستان کی جانب سے کامیاب سفارت کاری کی نوید ہے کیونکہ بھارت شروع سے کشمیر کو اپنا داخلی معاملہ قرار دیتا آیا ہے جبکہ پاکستان نے ہمیشہ اسے ایک بین الاقوامی تنازعہ قراردیا ہے اور اقوام متحدہ کی اس پر پہلے سے موجود قراردادوں کی تائید کی ہے۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی طاقتیں کشمیر کے عوام کو بھارت کے ریاستی ظلم و جبر سے بچانے اور کشمیریوں کو آزادی ٔ استصوابِ رائے کا حق دلانے میں کیا کردار ادا کرتی ہیں۔

  • امید ہے، سلامتی کونسل مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالے گی: وزیر اعظم آزاد کشمیر

    امید ہے، سلامتی کونسل مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالے گی: وزیر اعظم آزاد کشمیر

    مظفر آباد: وزیر اعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر نے امید ظاہر کی ہے کہ سیکیورٹی کونسل کا آئندہ ہونے والا اجلاس خوش آئند ہوگا.

    ان خیالات کا اظہار راجہ فاروق حیدر نے اپنے ویڈیو پیغام میں کیا. وزیر اعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق ابھی تک کسی نے اجلاس کی مخالفت نہیں کی.

    فاروق حیدر کے مطابق کشمیر کی صورت حال سے متعلق یہ اجلاس ایک مثبت پیش رفت ہے، دنیا نے مسئلہ کشمیر کا نوٹس لے لیا ہے.

    وزیراعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر نے کہا کہ دنیا کو پتا چل گیا، جدید ہٹلرمودی کے اقدامات خطے کے لئے خطرناک ہیں.

    انھوں نے کہا کہ امید ہے کہ سلامتی کونسل مسئلے کے حل کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالے گی اور کشمیریوں سے کیا ہوا وعدہ پورا کرے گی.

    مزید پڑھیں: اگر کشمیریوں کے ساتھ کوئی نہ ہوا، تب بھی وہ اپنی جنگ لڑیں گے: شیخ رشید

    خیال رہے کہ آج مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی جانب سے کرفیو کا مسلسل گیارہواں روز ہے، جنت نظیر وادی دنیا کی سب سے بڑی جیل کی صورت اختیار کرگئی۔

    بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے کشمیر میں‌ کرفیو نافذ ہے۔

    نہتے اور آزادی کی آواز اٹھانے والے حریت پسند کشمیریوں کے لیے جنت نظیر وادی دنیا کی سب سے بڑی جیل کی صورت اختیار کرگئی کیونکہ مسلسل کرفیو کے باعث وہاں اشیائے خوردونوش، ادویات سمیت غذائی اجناس کی شدید قلت پیدا ہوگئی۔

  • اگر آج کشمیریوں کا جھنڈا گر گیا تو اگلا ہدف پاکستان ہوگا: وزیر اعظم آزاد کشمیر

    اگر آج کشمیریوں کا جھنڈا گر گیا تو اگلا ہدف پاکستان ہوگا: وزیر اعظم آزاد کشمیر

    مظفر آباد: وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے کہا ہے کہ اگر آج کشمیریوں کا جھنڈا گر گیا تو اگلا ہدف پاکستان ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق آج پاکستان کے یوم آزادی پر آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ آزاد کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان بفر ہے۔

    انھوں نے کہا کہ ہم پاکستان کی لڑائی لڑ رہے ہیں، وزیر اعظم پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دواؤں اور خوراک کی کمی پر آواز اٹھائیں۔

    وزیر اعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے سفر کو 72 نہیں 500 سال ہو گئے ہیں، 1832 میں گلاب سنگھ نے کشمیر میں قتل عام کیا، ڈھائی لاکھ افراد کا قتل کیا گیا، 40 ہزار کشمیریوں کو پاکستان میں پناہ لینی پڑی، 1989 کے بعد سے اب تک ایک لاکھ کشمیریوں کو قتل کیا گیا۔

    انھوں نے مزید کہا کہ کشمیریوں نے بہت پہلے فیصلہ کر لیا تھا کہ جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے، کشمیریوں کی جدوجہد آزادی ابھی جاری ہے، بھارت نے جو اقدامات کیے اس سے دو طرفہ معاہدے ختم ہو گئے۔

    راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ ہم اسمبلی میں ایل او سی کو ختم کر کے اسے سیز فائر لائن قرار دینے کی قرارداد لائیں گے، ہمارا آئین، پرچم اور قومی ترانہ الگ ہے۔

    آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بی جے پی اور ہٹلر کا سلیوٹ کرنے کا انداز ایک جیسا ہے، ان کے اقدامات میں بھی کوئی فرق نہیں۔

  • وزیراعظم عمران خان کی مظفر آباد آمد، گارڈ آف آنر پیش کیا گیا

    وزیراعظم عمران خان کی مظفر آباد آمد، گارڈ آف آنر پیش کیا گیا

    مظفر آباد: وزیر اعظم عمران خان مظفر آباد پہنچ گئے ہیں، جہاں انھیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے وزیر اعظم پاکستان عمران خان مظفر آباد پہنچ گئے ہیں۔

    وزیر اعظم کو مظفر آباد میں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا جب کہ ان کا استقبال آزاد کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم نے کیا۔

    وزیر اعظم عمران خان آج یوم آزادی کے موقع پر آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کریں گے۔

    ادھر اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان بھی کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے لیے مظفر آباد روانہ ہو گئے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے، یوم آزادی پر صدر اور وزیراعظم کا پیغام

    دوسری طرف مظفر آباد میں شہر بھر میں مظلوم کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے لیے ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، اور گھروں پر بڑی تعداد میں پاکستان اور کشمیر کے پرچم لہرا رہے ہیں۔

    قبل ازیں، آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ میں یوم آزادی پر پرچم کشائی کی گئی، چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر چوہدری محمد ابراہیم ضیا نے پرچم بلند کیا۔

    خیال رہے کہ آج صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان نے یوم آزادی اور یوم یک جہتی کشمیر کے موقع پر سرکاری پیغام میں کہا کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ تھے، ساتھ ہیں اور ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔