Tag: آزمائش

  • سائنسدان پہلی ’ایچ آئی وی ویکسین‘ کی آزمائش سے پُرامید

    سائنسدان پہلی ’ایچ آئی وی ویکسین‘ کی آزمائش سے پُرامید

    لندن : برطانوی دوا ساز کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی ایچ آئی وی ویکسین کے دوسرے مرحلے کی آزمائش کے نتائج بھی حوصلہ افزا نکلے ہیں۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق برطانوی دوا ساز کمپنی گلیکسو اسمتھ کلائن (جی ایس کے) کی جانب سے دیگر کمپنیوں کے اشتراک سے تیار کردہ ویکسین کے دوسرے مرحلے کی آزمائش سے بھی اس سے ایچ آئی وی وائرس نہ پھیلنے کا انکشاف سامنے آیا۔

    مذکورہ ویکسین کی آزمائش کے دوسرے مرحلے کے نتائج بھی حوصلہ مند آنے کے بعد خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ جلد ہی دنیا کو پہلی ایچ آئی وی ویکسین مل جائے گی۔

    کمپنی نے ایچ آئی وی کے لیے پہلے سے موجود دو مختلف ادویات کیبوٹیگراور (cabotegravir) اور ریلپی وائرن (rilpivirine) کے ملاکر ویکسین تیار کی ہے، جسے ماہرین گولیوں کے مقابلے زیادہ موثر قرار دے رہے ہیں۔

    کمپنی نے ویکسین کوکیبی نووا (Cabenuva) کا نام دیا ہے جو کہ انجکشن کی طرح مریض کو لگائی جاتی ہے۔

    مذکورہ ویکسین کی آزمائش دنیا کے 31 مختلف مقامات پر کی گئی اور ویکسین کی ہر ماہ دو خوراکیں ان افراد کو لگائی گئیں جو پہلے سے ایچ آئی وی کا شکار تھے۔

    متاثرہ رضاکاروں کو ایک سال تک ہر ماہ دو بار ویکسین لگائی گئی، جس کے بعد ان میں بیماری کی جانچ کی گئی، جس سے معلوم ہوا کہ ان میں ایچ آئی وی کی سطح انتہائی کم یا کمزور ہوچکی تھی اور ان سے کسی دوسرے شخص میں وائرس منتقل نہیں ہوا۔

    ماہرین کے مطابق مذکورہ ویکسین ایچ آئی وی کو ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایچ آئی وی کے پھیلائو کو روکنے کے لیے بنائی گئی ہے، ویکسین بیماری کو ختم نہیں کرتی بلکہ اسے بڑھنے اور پھیلنے سے روکتی ہے۔

    ویکسین کی آزمائش کے دوسرے مرحلے کے کامیاب نتائج کے بعد خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس کا حتمی اور بڑا ٹرائل بھی کامیاب جائے گا اور جلد ہی دنیا کو پہلی ایچ آئی وی کی ویکسین ملے گی۔

    اس سے قبل کم سے کم دو ایچ آئی وی ویکسینز کی آزمائش ناکام گئی تھی، یعنی ویکسینز نے بیماری کو روکنے یا اس کے پھیلائو کو کم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔

  • کینسر کو ختم کرنے والے وائرس کی آزمائش شروع

    کینسر کو ختم کرنے والے وائرس کی آزمائش شروع

    ایک طویل عرصے سے کینسر کے علاج پر تحقیقاتی کام جاری تھا، اب حال ہی میں ماہرین نے اس وائرس کی آزمائش شروع کردی ہے جو انسانی جسم میں جا کر کینسر کو ختم کرسکتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کینسر کو ختم کرنے والے تیار کیے گئے وائرس کی پہلی بار انسانوں پر آزمائش شروع کرتے ہوئے سائنسدانوں نے ایک مریض کے جسم میں انجکشن کے ذریعے وائرس داخل کردیا۔

    کینسر کو ختم کرنے والے وائرس کی انسانوں پر آزمائش کے پہلے مرحلے کا آغاز کردیا گیا ہے جس میں کینسر سے متاثر 100 بالغ افراد کے جسموں میں وائرس داخل کیا جائے گا۔

    سائنسی جریدے نیشنل لیبارٹری اینڈ میڈیسن میں شائع رپورٹ کے مطابق 17 مئی 2022 سے کینسر کو ختم کرنے والے وائرس کی آزمائش کا پہلا مرحلہ شروع کیا گیا۔

    مرحلے کے آغاز میں پہلی بار کسی انسان میں انجکشن کے ذریعے کینسر کو ختم کرنے والا وائرس داخل کیا گیا جو کہ انسان کے ان خلیات میں جا کر اینٹی وائرس کا کام کرتا ہے، جہاں کینسر کے سیلز بن چکے ہوتے ہیں۔

    مذکورہ وائرس کو ماہرین نے سی ایف 33 ۔ ایچ این آئی ایس یا ویکسینا کا نام دیا ہے اور اسے اونکلیسٹک وائرس سے تیار کیا گیا ہے جو کہ کینسر کو ختم کرنے کا کام کرتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق مذکورہ وائرس انسان کے ان خلیات میں جا کر متحرک بن جاتا ہے، جہاں کینسر کے سیلز بن چکے ہوتے ہیں اور وہاں مذکورہ وائرس اپنی ہزاروں کاپیاں نکال کر انہیں کینسر سے متاثرہ سیل یا انسانی جسم کے حصے پر حملہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔

    مذکورہ عمل کے ذریعے وائرس انسان کے صحت مند خلیات یا حصوں پر کوئی اثر نہیں کرتا، البتہ صرف ان خلیات کو نشانہ بناتا ہے جو موذی مرض سے متاثر ہو چکے ہوتے ہیں۔

    علاوہ ازیں یہ وائرس انسان کے مدافعتی نظام کو بھی کینسر کے اثرات سے بچا کر اسے قوت بخشتا ہے۔

    انسانوں پر پہلی آزمائش سے قبل مذکورہ وائرس کا تجربہ جانوروں پر کیا گیا تھا اوراس کے نتائج حوصلہ بخش آئے تھے۔

    انسانوں پر پہلے آزمائشی مرحلے کے دوران مذکورہ وائرس 5 طرح کے کینسر کا شکار بننے والے مریضوں کے جسم میں داخل کیا جائے گا، ان مریضوں میں ایڈوانس لیول کے کینسر مریض بھی شامل ہیں۔

    ماہرین کو امید ہے کہ مذکورہ وائرس کینسر کے خلاف مؤثر ہتھیار ثابت ہوگا اور موذی مرض کے خلاف تحقیق اور علاج میں مزید پیش رفت ہوگی۔

  • موڈرنا کی ایک اور ویکسین پر تحقیق شروع

    موڈرنا کی ایک اور ویکسین پر تحقیق شروع

    واشنگٹن: امریکی بائیو ٹیکنالوجی کمپنی موڈرنا نے کرونا وائرس کے خلاف ایک اور ویکسین کی تحقیق شروع کردی، موڈرنا کی پہلی کووڈ ویکسین گزشتہ دسمبر میں امریکا میں استعمال کے لیے منظور کی گئی تھی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی بائیو ٹیکنالوجی کمپنی موڈرنا نے ایک اور نئی کووڈ 19 ویکسین کی تحقیق کا آغاز کردیا ہے جس کو فریزر کے بجائے عام فریج میں محفوظ کیا جاسکے گا۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ پہلے رضا کار کو اس نئی ویکسین کی خوراک استعمال کروا کے تحقیق کا آغاز کیا گیا۔

    کمپنی کے مطابق اس نئی ویکسین کی تقسیم آسان ہوگی بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں، جہاں سپلائی چین کے مسائل سے ویکسین مہمات متاثر ہوتی ہیں۔ ابتدائی تحقیق میں اس نئی ویکسین ایم آر این اے 1283 کے محفوظ ہونے اور افادیت کا تجزیہ کیا جائے گا۔

    یہ ویکسین صحت مند بالغ افراد کے 2 گروپس کو استعمال کروائی جائے گی، جن میں سے ایک گروپ کو سنگل ڈوز اور دوسرے کو 28 دن کے وقفے میں 2 خوراکوں کا استعمال کروایا جائے گا۔

    موڈرنا نے اس نئی ویکسین کو موجودہ کووڈ ویکسین کے بوسٹر شاٹ کے طور پر بھی مستقبل قریب میں آزمانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔

    خیال رہے کہ موڈرنا کی پہلی کووڈ ویکسین 1273 کو دسمبر میں امریکا میں استعمال کے لیے منظوری دی گئی تھی۔

    اس کے آخری مرحلے کے ٹرائل کے حتمی نتائج میں بتایا گیا تھا کہ یہ ویکسین کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرنے میں 94 فیصد تک مؤثر ہے اور ٹرائل میں جن افراد کو اس کا استعمال کروایا گیا، ان میں سے کوئی بھی بیماری کی سنگین شدت کا شکار نہیں ہوا۔

  • کیا یہ دو دوائیں کرونا وائرس کے خلاف کارگر ہیں؟ آزمائش شروع

    کیا یہ دو دوائیں کرونا وائرس کے خلاف کارگر ہیں؟ آزمائش شروع

    لندن: برطانیہ اور تھائی لینڈ میں ہیلتھ ورکرز کو وڈ 19 کی دو دواؤں کی آزمائش میں حصہ لے رہے ہیں تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ یہ اینٹی ملیرائی ادویات کرونا وائرس کو روک سکتی ہیں، ان میں سے ایک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی لے رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کی دو دواؤں کی آزمائش میں یورپ، ایشیا،افریقا اور جنوبی امریکا سے 40 ہزار سے زائد ہیلتھ ورکرز حصہ لے رہے ہیں تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ کیا کلوروکین اور ہائیڈروکسی کلورو کوائن کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں کردار ادا کرسکتی ہیں۔

    امریکی صدر کی جانب سے گزشتہ ماہ جاری کیے جانے والے بیان کے بعد ہائیڈروکسی کلورو کوائن کی مانگ میں اضافہ ہوگیا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ ڈاکٹروں کی جانب سے واضح ہدایات کے باوجود روزانہ ملیریا کی دوا لے رہے ہیں۔

    کرونا کی دو دواؤں کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق میں شامل یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے پروفیسر نکولس وائٹ کا غیرملکی خبر رساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم ابھی تک نہیں جانتے یہ فائدہ مند ہے یا نہیں۔

    بنکاک میں مہیڈول آکسفورڈ ٹراپیکل میڈیسن ریسرچ یونٹ میں کام کرنے والے پروفیسر نکلولس وائٹ کا کہنا تھا کہ بڑے پیمانے پر کلینیکل ٹرائل کر کے ہی پتہ لگایاجا سکتا ہے کہ یہ دوائیں کتنی سود مند ثابت ہوسکتی ہیں۔

    سی او پی سی او وی ٹیم کے مطابق لیبارٹری شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اینٹی ملیرائی دوائیں کرونا وائرس کی روک تھام یا علاج میں موثر ثابت ہوسکتی ہیں لیکن اس کا کوئی حتمی ثبوت نہیں ملا۔

    یاد رہے کہ 18 مئی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انکشاف کیا تھا کہ وہ ڈاکٹرز کی تنبیہ کے باوجود ملیریا کی دوا ہائیڈروکسی کلورو کوائن کا استعمال کر رہے ہیں۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ ہر روز کووڈ 19سے نجات پانے کے لیے ہائیڈروکسی کلورو کوائن لے رہے ہیں۔امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ میں گزشتہ دو ہفتوں سے یہ دوا روزانہ کھا رہا ہوں۔

  • کرونا وائرس: پہلی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع

    کرونا وائرس: پہلی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع

    واشنگٹن: امریکا میں دنیا بھر کو متاثر کرنے والے کرونا وائرس کی حفاظتی ویکسین کا تجربہ شروع کردیا گیا، ابتدائی طور پر 4 افراد کو یہ ویکسین دی گئی ہے۔

    امریکی شہر سیئٹل میں واقع واشنگٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں اس وقت کرونا وائرس کی ویکسین کا تجربہ کیا جارہا ہے، ویکسین کا 4 صحت مند افراد پر تجربہ کیا جارہا ہے۔

    اس ویکسین کی آزمائش 45 صحت مند انسانوں پر کی جائے گی اور اس کے حتمی نتائج جاننے میں 12 سے 18 ماہ کا وقت لگے گا۔ اس کے بعد ہی یہ تعین کیا جاسکے گا کہ ویکسین وائرس کے خلاف کس حد تک مؤثر ہے۔

    ویکسین کی کامیابی کی صورت میں مزید افراد پر اس کا تجربہ کیا جائے گا۔

    ماہرین نے کچھ رضا کاروں کو اس ویکسین کی زیادہ اور کچھ کو کم مقدار دی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ویکسین جسم میں پروٹینز تیار کرے گی جس سے اینٹی باڈیز پیدا ہونے کی رفتار بڑھ جائے گی اور یوں قوت مدافعت میں بہتری آئے گی۔

    مذکورہ ویکسین چین کی اکیڈمی آف ملٹری میڈیکل سائنس میں ریکارڈ 42 دن کی مدت میں تیار گئی ہے۔

    یہ ویکسین کرونا وائرس کے مریضوں پر بے اثر ہوگی تاہم اگر یہ کامیاب ثابت ہوتی ہے تو اس کے استعمال سے کرونا وائرس سے محفوظ رہا جاسکے گا۔

  • عالمی ادارہ صحت کی ملیریا سے بچاؤ کی دنیا کی پہلی ویکسین کی آزمائش

    عالمی ادارہ صحت کی ملیریا سے بچاؤ کی دنیا کی پہلی ویکسین کی آزمائش

    جینوا : عالمی ادارہ صحت نے ملیریا کی ویکسین تیار کرلی، ویکسین کی آزمائش صرف ملاوا میں کی جائے گی، دوسرے مرحلے میں گھانا اور کینیا میں بھی آزمایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور دیگر کئی دوائی ساز اداروں کی طویل تحقیقات اور اربوں ڈالر کی لاگت کے بعد تیار کی گئی ملیریا سے بچاو کی پہلی ویکسین کی آزمائش شروع کردی گئی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ملیریا کے لیے اب تک کوئی خصوصی ویکسین تیار نہیں کی گئی، تاہم اس سے ممکنہ تحفظ اور بچاو کے لیے دیگر دواوں کی مدد لی جاتی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سالانہ لاکھوں افراد اس مرض کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، بخار کے سبب ہونے والی زیادہ تر ہلاکتیں ملیریا کی وجہ سے ہی ہوتی ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ برس ملیریا کے بچاو کے عالمی دن ملیریا سے بچاو کے لیے آر ٹی ایس ایس نامی ویکسین تیار کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ اس کی آزمائش اپریل 2019 میں شروع کی جائے گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اب عالمی ادارہ صحت نے اس کی آزمائش شروع کردی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ملیریا سے بچاو کے لیے تیار کی جانے والی دنیا کی پہلی ویکسین کی آزمائشی افریقی ملک ملاوا سے شروع کردی گئی۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق ملاوا کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ملیریا سے سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ابتدائی طور پر اس ویکیسن کی آزمائش صرف ملاوا میں کی جائے گی، دوسرے مرحلے میں اس ویکسین کو قریبی ممالک گھانا اور کینیا میں بھی آزمایا جائے گا۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ویکسین کی آزمائش کا پروگرام 4 سال تک جاری رہے گا اور اس دوران ہر 5 ماہ کے بچے سے لے کر 2 سال کے بچوں کو سالانہ 4 بار ویکسین دی جائے گی۔

    ماہرین کے مطابق بچوں کو یہ ویکسین 4 بار دی جائے گی، شروع میں بچوں کو اس ویکسین کے ہر تین ماہ بعد تین ڈوز، جب کہ آخری ڈوز 18 ماہ بعد دی جائے گی۔