Tag: آسمان

  • آسمان پر ’’مسکراتے چہرے‘‘ کا نا قابل فراموش قدرتی نظارہ کب دیکھا جائے گا؟

    آسمان پر ’’مسکراتے چہرے‘‘ کا نا قابل فراموش قدرتی نظارہ کب دیکھا جائے گا؟

    آپ نے مسکراتے چہرے والے کئی کمپیوٹرائزڈ ایموجیز دیکھے ہوں گے مگر ایسا ہی ایک نا قابل فراموش قدرتی نظارہ آسمان پر بھی دکھائی دینے والا ہے۔

    سورج گرہن، چاند گرہن، ستاروں کی پریڈ، دم دار ستارے، بلیو مون، سپر بلو مون، پنک مون ایسے کئی قدرتی نظارے انسانی آنکھ آسمان پر دیکھ چکی ہے جب کہ کمپیوٹرائزڈ تخلیق مسکراتے چہرے سے مشابہہ ایموجی تو ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکی ہے جس کا اظہار ہم سوشل میڈیا پر ہر مزاحیہ اور اچھی بات کر یہ ایموجی لگا کر کرتے رہتے ہیں۔

    تاہم انسانی آنکھ مسکراتے چہرے کا ناقابل فراموش اور حیرت انگیز قدرتی نظارہ جلد آسمان پر دیکھ سکے گی جو رواں ہفتے 25 اپریل کی علی الصباح ہوگا۔

    غیر ملکی میڈیا نے ناسا کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ جمعہ 25 اپریل کو آسمان پر چاند، سیارہ زحل اور زہرہ کے ساتھ ’’مسکراتے چہرے‘‘ کے روپ میں نظر آئیں گے۔

    رپورٹ کے مطابق یہ حیرت انگیز اور ناقابل فراموش قدرتی نظارہ طلوع فجر سے قبل لگ بھگ ساڑھے 5 بجے عین مشرقی افق کے قریب دیکھا جا سکے گا۔

    اس نظارے میں سیارہ زہرہ آسمان میں اونچے مقام پر ہوگا اور اس کے نیچے زحل چاند (پتلے ہلال کی صورت) جو اس مثلث کو تھوڑا شمال کی جانب مکمل کرے گا۔

    یہ نظارہ براہ راست انسانی آنکھ سے بھی دیکھا جا سکے گا اور دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ نظارہ ایک مسکراتے چہرے کا منظر پیش کرے گا

    تاہم اس تاریخی نظارے اور طلوع آفتاب میں صرف لگ بھگ ایک گھنٹے کا فرق ہوگا اس لیے اس کو دیکھنے کا وقت بھی انتہائی مختصر ہوگا۔

    تاہم دیکھنے کا وقت مختصر ہے کیونکہ سورج تقریباً ایک گھنٹے بعد طلوع ہوجائے گا۔ اس منظر میں سیارہ عطارد بھی تینوں سے تھوڑا نیچے دکھائی دے سکتا ہے۔

    فلکیاتی اصطلاحات میں یہ smiley face اس وقت ہوتا ہے جب آسمانی اشیا آسمان میں ایک دوسرے کے قریب نظر آتی ہیں۔ جب تین اشیا ایک سیدھ میں آتی ہیں تو اسے ٹرپل کنکشن کے طور پر جانا جاتا ہے جو کہ ایک نسبتاً نایاب اور بصری طور پر حیران کن مظہر ہے۔

  • ’’آسمان پتنگوں سے صاف اور پرندوں کی پرواز‘‘، ڈرون نے یہ کمال کیسے کر دکھایا؟

    ’’آسمان پتنگوں سے صاف اور پرندوں کی پرواز‘‘، ڈرون نے یہ کمال کیسے کر دکھایا؟

    دھاتی ڈور کے ساتھ پتنگ اڑانا انسانی زندگیوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے پنجاب میں اس کی روک تھام کیلیے اب ڈرون کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

    پتنگ اڑانے میں دھاتی ڈور کے استعمال کا رواج عام ہونے کے باعث ہماری ثقافت کی اہم تفریح اب جان لیوا ہوچکی ہے اور درجنوں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔

    حکومت کی جانب سے پتنگ کی خرید وفروخت پر پابندی اور سزاؤں کے اعلان بھی پتنگ بازوں کو اپنا شوق پورا کرنے سے نہ روک سکے جس کے لیے اب ڈرونز کو پتنگوں کے میدان یعنی آسمان میں لایا گیا ہے۔

    ڈسکہ میں ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے آسمان کو پتنگوں سے پاک کر دیا گیا۔

    انتظامیہ کی جانب سے یہ اقدام کیے جانے کے بعد اب کئی روز سے شہر اور اطراف میں ڈور لگ جانے سے کسی انسان کی موت یا زخمی ہونے کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ہے۔

    یہ ڈرون آسمان میں پرواز کر کے پتنگ اڑانے والوں کی نشاندہی کرسکتا ہے۔ اس آلے کی نظر اتنی تیز کہ گرفتاری کے خوف سے پتنگ بازی کا 100 فیصد خاتمہ ہوگیا شہریوں نے سکھ کا سانس لیا

    پتنگ بازوں کے خلاف ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال کے بعد اب ڈسکہ کے آسمان پر پتنگ کے بجائے پرندے پرواز کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

    شہری کہتے ہیں ڈرون کیمرے سے پتنگ بازی کا خاتمہ ثابت کرتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد اور مسلسل کوشش سے جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

    اس حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ ڈرون نے کمال کر دیا۔ اس کے استعمال کے بعد سے ایک ماہ کے دوران شہر میں پتنگ بازی یا گلا کٹنے کا کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا ہے۔

  • آسمان کے راز بتاتی نا قابل فراموش تصاویر کیسے بنائیں؟ فلکیاتی فوٹوگرافر کے مشورے

    آسمان کے راز بتاتی نا قابل فراموش تصاویر کیسے بنائیں؟ فلکیاتی فوٹوگرافر کے مشورے

    پوری دنیا پر ایک ہی آسمان سایہ فگن ہے تاہم اس قدرتی نیلی چھت میں چھپے قدرتی مظاہر کو کیسے آشکار کیا جائے فلکیاتی فوٹوگرافر نے بتا دیا۔

    یوں تو دنیا میں ایک ہی نیلگوں آسمان سایہ فگن ہے، مگر یہ فوٹو گرافرز کی مہارت ہوتی ہے کہ وہ کائنات میں چھپے کئی اسرار اپنے ہنر سے آشکار کرتے ہیں۔ ایسا ہی سعودی عرب میں فلکیاتی فوٹو گرافی کا شوقین نوجوان فیصل الیعیش ہے جس نے مملکت کے آسمان کی دلفریب فوٹو گرافی کی ہے۔

    عرب میڈیا سے گفتگو میں فیصل الیعیش نے سعودی عرب کے آسمان میں فلکیاتی فوٹو گرافی کے دوران اپنے حاصل ہونے والے تجربات سے آگاہ کیا ہے اور اس شعبہ میں آنے والے نوجوان فوٹوگرافرز کی رہنمائی کی ہے۔

    فیصل نے بتایا کہ انہوں نے اب تک مملکت کے آسمان کی کئی تصاویر بنائی ہیں جو قدرت کے شاہکاروں کے راز بتاتی ہیں۔ وہ اس کام میں جدید ترین ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے ایسی درست تفصیلات سامنے آتی ہیں جن کو محض انسانی آنکھ سے دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔

    نوجوان فلکیاتی فوٹو گرافر نے بتایا کہ وہ اپنا ہنر آزمانے کے لیے دستی ٹیلی اسکوپ کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیلی اسکوپ پر موبائل ہولڈر اور مختلف حجم کے عدسے بھی استعمال کرتے ہیں۔ فلکیاتی فوٹو گرافر نے بتایا کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال تصاویر کے معیار کو بڑی حد تک بہتر بنا دیتے ہیں۔

    فلکیاتی فوٹوگرافر "فیصل الیعیش" نے سعودی عرب میں آسمان کا جمال بیان کیا

    فیصل فوٹو گرافی کے دوران فلکیاتی پروگرام مثلاًStellarium اور Sky Guide پر اعتماد کرتے ہیں، جو آسمانی گنبد کی راہ دکھاتے ہیں تا کہ آسمانی اجسام کی جگہوں کا تعین کیا جا سکے اور ٹیلی اسکوپ کا رخ زیادہ درست سمت کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ میں نے ہولڈر پر ایک دستی ٹریکر کا بھی اضافہ کیا ہے جو مجھے بعض سیاروں کی زیادہ واضح تصاویر لینے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔

    نوجوان فوٹو گرافر کے مطابق تصاویر لینے کے بعد وہ ان کو زیادہ پر کشش بنانے کے لیے مختلف سافٹ ویئر کا استعمال کرتے ہیں، جن میں , PIPP ,AutoStakkert ,RegiStax 6 ,Lightroom Adobe Photoshop شامل ہیں۔

    تصاویر لینے کا بہترین وقت اور مقام:

    اس بارے میں فیصل کہتے ہیں کہ رات کے وقت آسمان کی لی گئی تصاویر بہترین شاہکار ثابت ہو سکتی ہیں کیونکہ اس وقت لی گئی تصاویر روشن ستاروں اور سیاروں اور کہکشاؤں کو دیکھنے کا موقع دیتی ہیں۔

    تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دن کے وقت کی تصاویر کا بھی اپنا حسن ہے اور اس کے بھی لوگ دیوانے ہوتے ہیں۔ خاص طور پر وہ جو خصوصی عدسوں کا استعمال کرتے ہوئے سورج کا پتا چلاتے ہیں۔

    اسکرین شاٹ کی تصویر

    فیصل نے بتایا کہ تصاویر کے لیے بہترین مقامات کے انتخاب سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کم روشنی کی آلودگی والے مقامات تلاش کرتا ہوں جیسا کہ صحرا اور بلند جگہیں، مثالی مقامات کے تعین کے لیے میں خصوصی نقشوں سے مدد لیتا ہوں، شہروں سے دور جگہیں ہمیشہ بہتر ہوتی ہیں جہاں آسمان اور افق کی واضح رؤیت میسر ہوتی ہے۔

    تصاویر لینے کا سب سے مشکل مرحلہ:

    اس حوالے سے فیصل الیعیش نے کہا کہ تصویر بظاہر ایک کلک لگتی ہے کہ کیمرہ نے منظر دیکھ کر بٹن دبایا اور تصویر بن گئی، مگر یہ سب اتنا آسان نہیں ہوتا۔ بعض اوقات واضح تصویر حاصل کرنے کے لیے طویل دورانیے تک انتظار کرنا پڑتا ہے اور وہ کبھی کبھار 12 گھنٹوں سے بھی طویل ہو جاتا ہے۔

    نئے فوٹو گرافرز کو مشورہ:

    فلکیاتی فوٹو گرافر نے اس فیلڈ میں آنے والے نئے فوٹو گرافرز کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ موسم گرما میں بلند درجہ حرارت، رطوبت اور تیز ہوا یہ سب اس کام میں نمایاں چیلنج ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ ریت جو ساز و سامان کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس صورتحال میں وہ ٹیلی اسکوپ کی حفاظت کے لیے خصوصی غلاف استعمال کرتے ہیں اور نوجوان بھی اس فیلڈ میں یہی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

  • ترکی کے آسمان پر اڑن طشتری جیسا بادل

    انقرہ: ترکی کے آسمان پر عجیب و غریب بادل نے لوگوں کو حیران پریشان کردیا، بادل کی شکل اڑن طشتری جیسی تھی۔

    سرخ اور نارنجی رنگ کا گھنا بادل بظاہر دکھنے میں ویسا ہی اڑن طشتری جیسا تھا جیسی سائنس فکشن فلم میں دکھائی جاتی ہے۔

    یہ حیرت انگیز بادل ترکی کے شہر برسا میں دکھائی دیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس انوکھے بادل سے گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔

    ماہرین کے مطابق ان بادلوں کو لینٹیکولر کلاؤڈ کہا جاتا ہےم یہ کھردرے اور موٹے بادل، کرینوں کے اوپر نیچے حرکت کرنے اور تیز ہواؤں کے نتیجے میں بنتے ہیں۔

    لینٹیکولر بادل ایسے علاقوں میں اکثر نظر آتے ہیں جہاں تیز اور طوفانی ہوائیں چلتی ہوں۔

  • کیا سیارہ زہرہ اور مشتری ٹکرانے کے قریب ہیں؟

    کیا سیارہ زہرہ اور مشتری ٹکرانے کے قریب ہیں؟

    رواں ہفتے کے آخر میں سیارہ زہرہ اور مشتری آسمان پر انتہائی قریب دیکھے جاسکیں گے، یہ ایک نہایت نایاب نظارہ ہوگا۔

    اس ہفتے نظام شمسی کے دو روشن ترین سیارے، زہرہ اور مشتری، اس ہفتے کے آخر میں آسمان پر انتہائی قریب دیکھے جاسکیں گے۔

    اگرچہ حقیقت میں یہ دونوں ایک دوسرے سے لاکھوں میل کے فاصلے پر ہوں گے لیکن دنیا پر فلک بینوں کو یہ اتنے قریب دکھیں گے کہ لگے گا یہ آپس میں ٹکرانے والے ہیں، ایسا سال میں ایک ہی بار ہوتا ہے۔

    البتہ اس سال مشتری اور زہرہ ایک دوسرے سے معمول سے زیادہ قریب سے گزریں گے اور یہ منظر ممکنہ طور پر دوربین یا برہنہ آنکھوں سے دیکھا جا سکے گا۔

    غیر معمولی سیاروی ترتیب کے مناظر میں زحل اور مریخ، مشتری اور زہرہ کے ساتھ میں ایک قطار میں ظاہر ہوں گے۔

    آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے ایک آسٹرو فزسٹ بریڈ ٹکر کا کہنا تھا کہ سیارے گزشتہ دو ہفتوں سے ایک دوسرے کے قریب حرکت کر رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اگرچہ زہرہ اور مشتری ہر چند سالوں میں ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں، اس بار مریخ اور زحل قریب آئیں گے جو کافی نایاب ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر آپ کے پاس ایک ٹیلی اسکوپ، یا دوربین یا ایک اچھا کیمرا ہے، پھر آپ ایک بہتر نظارہ دیکھ سکیں گے۔

  • خلا سے گرتا کچرا کہاں جارہا ہے؟

    خلا سے گرتا کچرا کہاں جارہا ہے؟

    گزشتہ کچھ عرصے میں خلا میں ہونے والی سرگرمیوں میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے، تاہم اب خلا میں موجود کچرا زمین کے سمندروں کے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے۔

    بین االاقوامی ویب سائٹ کے مطابق خلائی تحقیق میں ہونے والی پیش رفت اور خلا میں کی جانے والی کمرشل سرگرمیوں نے دنیا بھر کے سمندروں کو زمینی آلودگی کے ساتھ ساتھ خلائی آلودگی کے خطرے سے بھی دو چار کردیا ہے۔

    انسانوں کی خلا میں بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے وہاں خلائی کچرے کی مقدار میں بھی دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے، خلا میں ناکارہ ہونے والے بڑے جہاز، راکٹ اور دیگر ملبے کے لیے زمین پر پہلے ہی آلودگی کے شکار سمندروں کو قبرستان میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

    روس گزشتہ کئی دہائیوں سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے پیدا ہونے والے ٹنوں وزنی ملبے کو بحرالکاہل میں ڈبو رہا ہے۔

    لیکن یہ معاملہ صرف روس یا بحر الکاہل تک ہی محدود نہیں ہے، ماضی میں روس کے خلائی اسٹیشن اور چین کے تیانگ گونگ ون کی زندگی کا اختتام بھی سمندر کے پانیوں میں کیا گیا۔

    اسی طرح 1979 میں امریکا کا تجرباتی خلائی اسٹیشن اسکائی لیب بھی ٹکڑوں کی شکل میں آسٹریلیا کے ساحلوں پر بکھر گیا تھا۔ آنے والے چند سالوں میں خلائی کچرے کا ایک اور بڑا ٹکڑا زمین پر واپس آنے والا ہے۔

    سائنس دان 2030 میں اپنی عمر تمام کرنے والے 500 ٹن وزنی بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کو بحرالکاہل کے جنوبی حصے میں اس جگہ گرانے کی تیاری کر رہے ہیں جسے پوائنٹ نیمو کے نام سے جاتا ہے۔

    یہ دنیا کا سب سے غیر آباد اور ناقابل رسائی علاقہ تصور کیا جاتاہے، اس جگہ سے قریب ترین سمندری حصہ بھی 1450 ناٹیکل میل (2 ہزار 685 کلو میٹر) کے فاصلے پر ہے۔

  • آسمان کا نقشہ تیار کرنا ممکن ہے؟

    آسمان کا نقشہ تیار کرنا ممکن ہے؟

    کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ زمین کی طرح آسمان کا نقشہ بھی تیار کیا جاسکے؟ ماہرین فلکیات اس پر کام کر رہے ہیں اور اب تک انہوں نے 27 فیصد آسمان کا نقشہ کا تیار کرلیا ہے۔

    ماہرین فلکیات نے زمین کے اوپر شمالی سمت میں آسمان کی ایک چوتھائی سے زیادہ حصے کی نقشہ سازی کر لی ہے جس میں کہکشاؤں سے لے کر بلیک ہولز تک 44 لاکھ خلائی اشیا کی تفصیلات موجود ہیں۔

    ماہرین فلکیات کی ایک بین الاقوامی ٹیم لو فریکوئنسی ایرے، ایک پین یورپی ریڈیو ٹیلی اسکوپ، کا استعمال کرتے ہوئے کائنات کے متعلق تفصیلات جمع کر رہی ہے۔

    یہ نقشہ ایک متحرک کائنات کی تصویر پیش کرتا ہے جس میں کثیر تعداد میں اشیا موجود ہیں جو زمین سے اربوں نوری سال کے فاصلے پر موجود ہیں۔

    اس پروجیکٹ کے پشت پر موجود ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا سیاروں اور کہکشاؤں سے لے کر بلیک ہولز تک وسیع پیمانے پر موجود اشاروں کے لیے تازہ فہم دیتا ہے۔

    یہ ریڈیو فریکوئنسی سگنلز کا ایک مجموعہ ہے جن کو یورپ بھر میں متعدد ٹیلی اسکوپس نے پکڑا ہے، ہر سگنل چمکتے پیلے نکتے کے طور پر ظاہر ہوا ہے۔

    اب تک 27 فیصد آسمان کی نقشہ سازی کی جا چکی ہے جس میں 44 لاکھ اشیا کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے، جن کو عوام پر پہلی بار منکشف کیا گیا ہے۔

    ان اشیا کی اکثریت زمین سے اربوں نوری سال کے فاصلے پر ہیں اور یا تو وہ کہکشائیں ہیں جن میں بڑے بلیک ہولز موجود ہیں یا وہ تیزی سے بڑھتے نئے ستارے ہیں۔

  • آسمان پر پراسرار روشنی کا جھماکہ

    آسمان پر پراسرار روشنی کا جھماکہ

    خلا سے شہاب ثاقب کا زمین پر گرنا معمولی بات ہے، اکثر بہت معمولی حجم کے ہوتے جو انسانی آنکھ کو دکھائی نہیں دیتے، لیکن کچھ ٹکڑے بہت بڑے اور روشن بھی ہوتے ہیں جو لوگوں کو خوفزدہ کردیتے ہیں۔

    ناروے کا آسمان بھی ایسے ہی ایک شہاب ثاقب سے روشن ہوگیا جسے متعدد افراد نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی متعدد ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک غیر معمولی طور پر بڑی جسامت کا شہاب ثاقب زمین کی طرف آتا ہے، اس کی روشنی جھماکے کی طرح پھیلتی ہے جبکہ اس سے زوردار آواز بھی بلند ہوتی ہے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ یہ شہاب ثاقب دارالحکومت اوسلو کے قریب کہیں گرا ہے۔

    شہاب ثاقب کی روشنی اور آواز نے جہاں لوگوں کو حیرت زدہ کردیا وہیں کچھ افراد خوفزدہ بھی ہوگئے۔

  • آسمان پر روشنی کے چمکتے گولے نے برطانوی شہریوں کو خوفزدہ کردیا

    آسمان پر روشنی کے چمکتے گولے نے برطانوی شہریوں کو خوفزدہ کردیا

    برطانیہ کے کئی شہروں میں آسمان پر روشنی کا گولہ دیکھا گیا جو دھماکے سے پھٹ گیا، شہریوں نے اپنے خوفزدہ تاثرات سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر شیئر کیے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق روشنی کا یہ گولہ ایک شہاب ثاقب تھا جو زمین کی فضائی حدود میں داخل ہونے کے بعد دھماکے سے پھٹ گیا۔ اس کا نظارہ کارڈف اور مانچسٹر سمیت کئی برطانوی شہروں میں کیا گیا۔

    ٹویٹر پر اس کی ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے ایک صارف نے لکھا کہ اسے دیکھ کر پہلے وہ اسے کوئی روشن ستارہ یا طیارہ سمجھے، پھر رفتہ رفتہ وہ بڑا ہوتا گیا اور روشنی کے گولے کی صورت اختیار کرگیا، اس کے بعد روشنی کا زوردار جھماکہ ہوا اور یہ گولہ اپنے پیچھے روشن نارنجی لکیریں چھوڑتا ہوا فضا میں غائب ہوگیا۔

    کچھ افراد نے اس سے ہونے والے دھماکے کی آواز بھی سنی۔

    یو کے میٹی اور نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ اس شہاب ثاقب کے بارے میں 120 سے زائد افراد نے رپورٹ کیا۔

    میٹی اور نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ شہاب ثاقب زمین کی فضائی حدود میں داخل ہونے کے بعد جل اٹھتے ہیں اور بعض اوقات دھماکے سے پھٹ جاتے ہیں، یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔

  • خلا میں 150 سال سے موجود یہ روشنی کیسی ہے؟

    خلا میں 150 سال سے موجود یہ روشنی کیسی ہے؟

    واشنگٹن: امریکی خلائی ادارے ناسا نے خلا میں آتش بازی کی ایک تصویر جاری کی ہے جو گزشتہ 150 سال سے خلا میں موجود ہے۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر یہ تصویر پوسٹ کرتے ہوئے ناسا نے لکھا کہ کیا آپ نے ایسی آتشبازی دیکھی ہے جو آہستگی سے حرکت کرے؟ اتنی آہستگی سے کہ وہ ڈیڑھ سو سال جاری رہے؟

    ناسا کے مطابق خلا میں یہ آتشبازی دراصل ایک ستارے ایٹا کرینا کے پھٹنے سے ہوئی، یہ ستارہ جو اب تباہ ہوچکا ہے زمین سے 7 ہزار 500 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by NASA (@nasa)

    ناسا کا کہنا ہے کہ یہ ستارہ سنہ 1840 کی دہائی میں ایک زور دار دھماکے سے پھٹا، اور سست روی سے ہونے والے اس دھماکے اور اس سے ہونے والی روشنی نے ایک دہائی تک اسے آسمان کا روشن ترین ستارہ بنائے رکھا۔

    اس زمانے میں اس دھماکے کی روشنی اتنی تھی کہ اس وقت جنوبی سمندروں میں جانے والے ملاح اس روشن ستارے سے سمندر میں سمت کا تعین کیا کرتے تھے۔

    اس ستارے کو ناسا کی ہبل ٹیلی اسکوپ سے عکس بند کیا گیا ہے۔

    ناسا نے مزید بتایا کہ ایٹا کرینا دو ستاروں کے ایک دوسرے کے مدار میں گھومنے کے سسٹم کو کہا جاتا ہے، دونوں ستاروں کی مشترکہ روشنی ہمارے سورج کی روشنی سے 50 لاکھ گنا زائد ہوتی ہے۔

    ناسا کی اس تصویر کو 9 لاکھ سے زائد افراد نے لائک کیا اور مختلف کمنٹس کیے۔