Tag: آسٹرونامی

  • آج رات سپربلڈ وولف مون ہوگا

    آج رات سپربلڈ وولف مون ہوگا

    آج رات دنیا بھر میں سپر بلڈ وولف مون کا مشاہدہ کیا جائے گا، یہ وہ وقت ہوگا جب زمین سور ج اور چاند کے درمیان حائل ہوجائے گی،اس کا دورانیہ ایک گھنٹہ دو منٹ رہے گا۔

    انسان کے مہم جو فطرت اور غیر معمولی تجسس اسے ہر دور میں آسمانوں میں رونما ہونے والی انوکھی تبدیلیوں پر غور و فکر کرنے پر اکساتے رہے، جن میں چاند اور سورج گرہن قابلِ ذکر ہیں ۔

    ایک مکمل چاندگرہن اس وقت رونما ہوتا ہے جب زمین اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے کچھ وقت کے لیئے سورج اور چاند کے درمیان حائل ہوجاتی ہے، زمین کا جو سایہ چاند پر پڑتا ہے فلکیاتی اصطلاح میں اسے ‘امبرا ‘کہا جاتا ہے۔ اسی کے باعث گرہن کے دوران بعض اوقات چاند سرخی مائل ، اورنج یا خونی دکھائی دیتا ہے اور مکمل گرہن کے وقت بھی چاند پوری طرح نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا ۔

    اسے فلکیات کی اصطلاح میں ‘بلڈ مون’ کہا جاتا ہے۔ دراصل چاند  جب گرہن کے دوران  زمین کے سائے کے مرکز سے گزر رہا ہوتا ہے تو فضا میں موجود ست رنگی روشنی ( سپکیٹرم) میں سے سبز اور ویولٹ (اودا) رنگ فلٹر ہوجا تے ہیں ۔ جسے طبیعات میں ‘رےلیگ سکیٹرنگ’ کہا جاتا ہے۔ اس ہی کی وجہ سے بعض اوقات سورج غروب ہونے کے وقت آسمان سرخی مائل دکھائی دیتا ہے۔

    گزشتہ سال  31جنوری 2018 کی شب کو جو سرخی مائل چاند دنیا بھر میں مشاہدہ کیا گیا تھا وہ اس حوالے سے منفرد تھا کہ اس روز سپر مون بھی تھا ۔ جس میں چاند زمین سے قریب ترین مقام ‘پیریگی’ پر ہونے کے باعث معمول کے سائز سے زیادہ بڑا اور روشن دکھائی دیتا ہے اور چونکہ اس روز چاند گرہن بھی تھا اور مخصوص روشنیاں فلٹر ہوجانے کے باعث وہ سپر مون سرخی مائل دکھائی دیا تھا۔

    علم ِ فلکیات کے مطابق ایک سپر مون اس وقت رونما ہوتا ہے جب چاند ، سورج کی مخالف جانب زمین کے ساتھ ایک ہی لائن میں آجاتا ہے، جسے ماہرین ِ فلکیات نے ” پیریگی سیزائگ” یا سپر مون کا نام دیا ہے۔واضح رہے کہ پیریگی اس مقام کو کہتے ہیں جب چاند اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے زمین سے 221،225 کے کم ترین فاصلے پر آجاتا ہے اور اس باعث معمول کے سائز سے نوے گنا زیادہ بڑا اور روشن نظر آتا ہے جس کی بنیادی وجہ چاند کا قدرے بیضوی مدار ہے۔

     یہ ایک مشکل نام ہے اس لیے میڈیا اور عوامی حلقوں میں لفظ سپر مو ن نےزیادہ شہرت پائی، جس کا پہلی دفعہ استعمال ماہرفلکیات ‘رچرڈ نال’ نے کیا تھا۔ معمول کا پر پورا چاند، زمین سے238،900 میل کے فاصلے پر ہوتا ہے جبکہ چاند کا زمین دور ترین مقام اس سے پانچ فیصد زیادہ ہے جو ‘اپوگی ‘کہلاتا ہے۔

    رواں برس 20 جنوری کی رات کو ایک دفعہ پھر زمین ، سورج اور چاند کے درمیان کچھ وقت کے لیے حائل ہونے والی ہونے والی ہے۔ اس چاند گرہن کی خصو صیت یہ ہے کہ اس میں گرہن کےدوران چاند کا رنگ کچھ دیر کے لیے نارنجی یا سرخی مائل دہکتا ہوا نظرآئے گا،  اس لیے اسے سپر بلڈ وولف مون کہا جارہا ہے، آج رات کے بعد  اب 2021 میں ہی دوبارہ مکمل چاند گرہن دیکھا جاسکے گا۔

    کراچی آسٹرو نامرز سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے آسٹرونامر طلحہ مون ضیاء کے مطابق پاکستان سمیت ایشیاء، افریقہ اور مڈل ایسٹ میں رہنے والے افراد 2 جنوری کی صبح اس گرہن کا نظارہ کرنے سے محروم رہیں گے کیونکہ اس وقت یہاں علی الصبح کا وقت ہوگا ،مگر شمالی یورپ ، شمالی و جنوبی امریکہ ، اور شمال مغربی افریقہ کے ساحلوں پر یہ سپر بلڈ مون واضح دیکھا جاسکے گاجہاں گرہن کا آغاز مقامی وقت کے مطابق رات گئے ہوگا جو علی الصبح اختتام پذیر ہوگا اور اس گرہن کا دورانیہ ایک گھنٹہ دو منٹ ہوگا۔

    یاد رہے کہ طلحہ پاکستان کے واحد آسٹرو فوٹو گرافر ہیں جن کی بنائی گئی تصاویر ناسا کے  آئی پوڈ پر جگہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں اور پچھلے برسوں میں رونما ہونے والی سپر مون سیریز اور سپر بلڈ مون کی تصاویر انھوں نے اپنی سوسائٹی کی ٹیم کے ساتھ بنائی تھیں جنھیں بہت پذیرائی حا صل ہوئی۔ طلحہ کا کہنا تھا کہ اس دفعہ ہمارے مقامی آسٹرو نامرز اس نادر موقع کی تصاویر بنا نے سے محروم رہیں گے اور اگلی دفعہ اب 2021 میں ہی یہ موقع ہمیں مل سکے گا۔

  • چھ خوش نصیب پاکستانی جن کے نام آج مریخ پرپہنچ گئے

    چھ خوش نصیب پاکستانی جن کے نام آج مریخ پرپہنچ گئے

    امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے ایک خلائی مشن’انسائیٹ لینڈر‘ آج مریخ پر کامیابی کے ساتھ لینڈ کرگیا ہے ، اس مشن کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں دنیا بھر سے خلائی تحقیقات میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے نام بھی گئے ہیں۔

    ناسا کا یہ مریخ پر آٹھواں مشن ہے اور ان کے لیے تو یہ ایک تاریخ ساز دن ہے ہی لیکن پاکستان کے وہ شہری جو کہ فلکیات میں دلچسپی رکھتے ہیں ، ان کے لیے بھی یہ اہم ترین دن ہے کہ آج ان کا نام بھی مریخ کی سطح پر پہنچ چکا ہے۔

    پاکستان فلکیاتی سائنس کے میدان میں ابھی بہت پیچھے ہے اور یہاں فلکیاتی سائنس کی فیلڈ عملی باقاعدہ طور پر شروع بھی نہیں ہوسکی ہے اور محض چند افراد ہی ہیں جو کہ اپنے زورِ بازو سے اس میدان میں کام کررہے ہیں، ان کے لیے یقیناً یہ اعزاز کی بات ہے کہ ناسا کے انسائیٹ لینڈ کے ساتھ ان کا نام بھی مریخ کی سطح پر پہنچ چکا ہے۔

    یوں تو ان میں پاکستان کی مختلف آسٹرونامی سوسائٹیز سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد شامل ہیں، یہاں ہم آپ کو تعار ف کرا رہے ہیں ان چھ پاکستانیوں کا ، جن کا نام اب مریخ کے سینے پر درج کیا جاچکا ہے۔


    ڈاکٹرنزیرخواجہ

    ڈاکٹرنزیرخواجہ کا تعلق پاکستان سے ہے اور وہ یورپی خلائی ایجنسی کے لیے اپنی خدمات فراہم کررہے ہیں۔پاکستان میں آسٹرونامی سے متعلقہ سرگرمیوں کے فروغ کے لیے یہاں کے نوجوانوں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔

     


    علی خان

     علی خان کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ ٹیلی اسکوپ سازی کے مداح ہیں۔ان سے سیکھے ہوئے کئی طالب علم ٹیلی اسکوپ سازی میں اپنی مہارتیں بڑھا رہے ہیں۔ پاکستان کی کئی فلکیاتی سوسائٹیز سے منسلک ہیں ۔ایک نجی ادارے سے بطور اسٹنٹ مینیجر وابستہ ہیں۔

     

     


    محمد شاہ زیب صدیقی

    محمد شاہ زیب صدیقی کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور وہ بنیادی طور پر ایک سائنس رائٹر ہیں۔ ان کے مضامین مختلف ویب سائٹس اور جریدوں میں شائع ہوتے ہیں، اردو زبان میں سائنس کے فروغ کے لیے ان کا اہم کردار ہے۔

     

     


    سید منیب علی

    سید منیب علی کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ طالب علم ہیں۔ فلکیاتی سائنس کے میدان میں ان کی دلچسپی قابلِ قدر ہے ، وہ لاہور فلکیاتی سوسائٹی کے متحرک رکن ہیں اور ٹیلی اسکوپ بنانے کے فن سے بھی واقف ہیں۔

     

     


    شنکر لال

    شنکر لال کا تعلق شہر قائد کراچی سے ہے ، جامعہ کراچی سے تعلیم حاصل کی اور گزشتہ کئی سال سے ابو ظبی میں مقیم ہیں، ایک فرم سے بحیثیت آڈیٹروابستہ ہیں اور فلکیات کے میدان میں ہونے والی سرگرمیوں پر نظررکھتے ہیں۔


    صادقہ خان

    صادقہ خان کا تعلق کوئٹہ سے ہے، انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کیا ہے، وہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں پاکستان کی کئی سائنس سوسائٹیز کی فعال رکن ہیں۔ اے آروائی نیوز سمیت مختلف ویب سائٹس کے لیے باقاعدگی سے سائنس مضامین تحریر کرتی ہیں۔