Tag: آسکر ایوارڈ

  • میرل اسٹریپ: اپنے عہد کی سب سے بڑی اداکارہ

    میرل اسٹریپ: اپنے عہد کی سب سے بڑی اداکارہ

    میرل اسٹریپ کو دنیا اپنے عہد کی سب سے بڑی اداکارہ تسلیم کرتی ہے۔ ہالی وڈ کی صفِ اوّل کی میرل اسٹریپ نے اب تک آسکر ایوارڈ کے لیے سب سے زیادہ نامزد کی جانے والی اداکارہ ہیں۔

    فلم کی دنیا میں میرل اسٹریپ کو وہ مقام اور مرتبہ حاصل ہے جس کی آرزو سبھی فن کار کرتے ہیں، مگر فن و کمال کی ایسی رفعت اور بلندی ہر کسی کا مقدر نہیں‌ بنتی۔ اداکارہ کی عمر اس وقت پچھتّر سال ہے اور اب وہ سماجی فلاح و بہبود اور ماحولیات کے حوالے سے سرگرمیوں اور مہمات میں حصّہ لیتی نظر آتی ہیں۔ روشن خیال، وسیع النظر اور دنیا میں مثبت تبدیلیوں کی خواہاں میرل اسٹریپ کی شوبز میں حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان سے موسوم ایک ایوارڈ بھی فن کاروں کو دیا جاتا ہے۔

    اپنے فلمی کیریئر کے دوران انٹرویوز میں میرل اسٹریپ بتاتی ہیں کہ زمانۂ طالبِ علمی میں وہ اپنے آپ کو بدشکل سمجھتی تھیں اور سوچتی تھیں کہ اپنا اداکارہ بننے کا خواب کبھی پورا نہیں کرسکتیں۔ وہ اس زمانے میں عینک استعمال کرنے پر مجبور تھیں اور انھیں لگتا تھا کہ عینک فلمی دنیا میں ان کے کیریئر کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے گی۔

    اگر آپ میرل اسٹریپ کے ایوارڈز جیتنے اور نام زدگیوں کی فہرست پر نظر ڈالیں تو حیران رہ جائیں گے۔ یہ ایک طویل فہرست ہے جس میں اداکارہ میرل اسٹریپ صرف آسکر ایوارڈز کے لیے ہی 21 مرتبہ نام زد ہوئیں‌ اور تین مرتبہ آسکر حاصل کیا۔ شوبز انڈسٹری اور انٹرٹینمنٹ کے حوالے سے دوسرے ایوارڈز سیکڑوں میں ہیں جو میرل اسٹریپ کی صلاحیتوں کا اعتراف اور فن کی دنیا میں ان کی بہترین کارکردگی پر انھیں دیے گئے ہیں۔

    اداکارہ میرل اسٹریپ نے نیوجرسی کے ایک علاقے میں 22 جون 1949ء کو آنکھ کھولی۔ اس امریکی اداکارہ نے پہلی بار 1975ء میں تھیٹر سے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ اس سے قبل وہ اسکول کی سطح پر ہونے والے اسٹیج پروگراموں اور ڈراموں میں‌ حصّہ لینے لگی تھیں اور باقاعدہ تھیٹر پر پہلی پرفارمنس کے بعد جب انھیں ٹیلی ویژن پر کام کرنے کا موقع ملا تو وہ آگے بڑھتی چلی گئیں۔ یہ 1977ء کی بات ہے جب ٹیلی فلم ’’ دا ڈیڈلیئسٹ سیزن‘‘ سے میرل نے ڈیبیو کیا۔ فلم کی دنیا میں میرل اسٹریپ نے ’’جولیا‘‘ سے قدم رکھا۔ 1978ء میں اداکارہ پہلا ایمی ایوارڈ منی سیریز ’’ہولو کاسٹ ‘‘ کی بدولت حاصل کرنے میں کام یاب ہوئیں۔ یہی نہیں بلکہ اسی سال ان کی زبردست کام یابی آسکر کے لیے نام زدگی تھی۔ یہ نام زدگی فلم ’’ڈیئر ہنٹر‘‘ کے لیے ہوئی تھی۔ میرل اسٹریپ ایسی خوش قسمت تھیں کہ اس کے اگلے سال جب معاون اداکارہ کے طور پر ’’کریمر ورسز کریمر‘‘ میں کام کیا تو شوبز کی دنیا کا سب سے معتبر ایوارڈ بھی جیت لیا۔ بہترین معاون اداکارہ کے طور پر یہ ان کا پہلا آسکر تھا جس کے بعد ان کے لیے فلموں کی کمی نہیں رہی اور اعزازات بھی ان کے نام ہوئے۔

    فلمی صنعت کے معتبر ترین ایوارڈز اور ہالی وڈ واک آف فیم کے ساتھ اداکارہ کو امریکی حکومت کی جانب سے بھی اعزازات سے نوازا گیا اور انھیں بڑے بڑے سیاست دانوں‌ کے درمیان تقاریر کرنے کا موقع بھی ملا۔ وہ سیاسی اور سماجی ناقد کے طور پر بھی سامنے آئیں اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنانے والے فن کاروں‌ میں سے بھی ایک ہیں۔ میرل اسٹریپ کے فن اور ان کی کام یابیوں‌ پر مشہور فلمی میگزین اور مؤقر امریکی اور دیگر ممالک کے روزناموں‌ میں مضامین شایع ہوتے رہے ہیں اور بڑے بڑے فلمی ناقدین نے میرل اسٹریپ کے فن اور ہالی وڈ میں‌ کام یابیوں‌ پر خامہ فرسائی کی۔ فلم اور شوبز کی شہ سرخیوں میں اداکارہ ماضی میں ہی نہیں آج بھی جگہ پاتی ہیں۔ میرل اسٹریپ گزشتہ دہائی میں بھی متعدد فلموں اور ڈراموں میں کام کرتی رہی ہیں اور اسی طرح شان دار پرفارمنس کا مظاہرہ کیا جو ان کا خاصہ ہے۔ شاداب چہرے والی اس متحرک اداکارہ نے 2011ء میں سابق برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر پر بنائی گئی فلم ’’آئرن لیڈی‘‘ میں مسز تھیچر کا کردار ادا کیا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔ ان کے کئی کرداروں کے نام گنوائے جاسکتے ہیں‌ جسے آج بھی فلم بین اور ناقدین فراموش نہیں کرسکے ہیں۔

    اداکارہ سادہ زندگی گزارتی ہیں اور اپنے کئی کام اپنے ہاتھ سے انجام دینا پسند کرتی ہیں۔ وہ اکثر اپنے کپڑے استری کرتی ہیں‌ اور اپنے برتن بھی دھوتی ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے بہلنے کا فن جانتی ہیں‌۔ اداکارہ کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے آپ کو مختلف کاموں میں مشغول رکھنا پسند ہے۔ یہی وجہ ہے وہ اس عمر میں بھی خاصی متحرک اور مختلف حوالوں سے فعال ہیں۔ میرل کا کہنا ہے، ’’ خوشی اور کامیابی کا فارمولا یہی ہے کہ اپنے آپ کو نہ بھولیں اور جس قدر ممکن ہو خود کو وقت دیں۔‘‘

  • آسکر ایوارڈ کا رنگا رنگ میلہ فلم ’اوپن ہائیمر‘ نے لوٹ لیا

    آسکر ایوارڈ کا رنگا رنگ میلہ فلم ’اوپن ہائیمر‘ نے لوٹ لیا

    لاس اینجلس: فلمی دنیا کے سب سے معتبر آسکر ایوارڈز 2024 کی رنگا رنگ تقریب کا میلہ فلم ’ اوپن ہائیمر‘ نے جیت لیا۔

    تفصیلات کے مطابق  96ویں اکیڈمی ایوارڈز کی تقریب لاس اینجلس، کیلیفورنیا کے ڈولبی تھیٹر میں جاری ہے، اس بار کل 23 کیٹیگریز میں آسکر ایوارڈز دیے جا رہے ہیں۔

    ہاس سال الی ووڈ کی فلم اوپن ہائیمر نے ایوارڈ حاصل کرنے میں باربی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، اس فلم کو 13 نامزدگیاں ملی تھیں جن میں سے اس نے 7 ایوارڈز جیتے اور اس کے ساتھ ہی ’اوپن ہائیمر‘ اس سال سب سے زیادہ آسکر جیتنے والی فلم بن گئی۔

    سیلین مرفے کو بہترین اداکار کا حقدار قرار دیا گیا اس کے علاوہ بہترین اداکارہ کا ایوارڈ فلم پورتھنگ میں کردار پر ایما اسٹون کو ملا جبکہ فلم اوپن ہائیمر کے ہی کرسٹوفر نولان بہترین فلم ڈائریکٹر قرار پائے ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Oppenheimer (@oppenheimermovie)

    96ویں اکیڈمی ایوارڈز میں بہترین معاون اداکار کا ایوارڈ بھی اوپن ہائیمرکے رابرٹ ڈاؤنی جونیئر کے نام رہا جبکہ بہترین معاون اداکارہ ڈاؤن جوئے نے فلم دی ہولڈ اوور پر ایوارڈ حاصل کیا۔

    اس سال بہترین اینی میٹڈ فلم کا ایوارڈ دی بوائے اینڈ دی ہیرن کو دیا گیا، بیلی ایلش اور ان کے بھائی فینیئس او کونل کو فلم باربی کے گانے واٹ واز آئی میڈ فار کیلئے ایوارڈ دیا گیا۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Oppenheimer (@oppenheimermovie)

    اس کے علاوہ ’اوپن ہائیمر‘ کو کئی دیگر کیٹیگریز میں آسکر ایوارڈز بھی مل چکے ہیں، فلم نے بہترین اوریجنل گانے کے اسکور اور بہترین فلم ایڈیٹنگ اور بہترین سنیماٹو گرافی کیٹیگریز کا ایوارڈز بھی اپنے نام کیا۔

    واضح رہے کہ فلم ’اوپن ہائیمر‘ نے 1 بلین ڈالر سے زائد کا بزنس کیا ہے، یہ فلم اس سے قبل بافٹا ایوارڈ، گولڈن گلوبز اور کریٹکس چوائس ایوارڈز میں بھی بڑی کامیابی حاصل کر چکی ہے۔

  • کیتھرین ہیپبرن: فلمی صنعت سے فیشن انڈسٹری تک

    کیتھرین ہیپبرن: فلمی صنعت سے فیشن انڈسٹری تک

    کیتھرین ہیپبرن کہتی تھیں‌ کہ پسِ مرگ بھی انھیں یاد کیا جاتا رہے گا۔ آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ ہیپبرن پُرکشش شخصیت کی مالک اور ایسی خاتون تھیں جس نے اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کی اور اپنے غیر روایتی طرزِ عمل کے لیے بھی مشہور رہیں۔

    خوب صورت اور نازک اندام ہیپبرن ایک امیر اور نہایت خوش حال گھرانے کی فرد تھیں۔ انھیں ہر قسم کی آسائش میسّر تھی اور اس آسودہ حالی کے ساتھ بطور اداکارہ ان کا کیریئر شان دار کام یابیوں سے بھرا ہوا ہے۔

    کیتھرین ہیپبرن کا تعلق امریکا سے تھا۔ وہ 12 مئی 1907 کو پیدا ہوئیں۔ ہیپبرن اپنے والدین کی چھٹی اولاد تھیں، ان کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی تھی جہاں بولنے اور سوال کرنے کی آزادی تھی۔ یہ خاندان بچّوں کے شوق اور رجحان کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔ اس ماحول کی پروردہ ہیپبرن بھی بہت پُراعتماد اور باہمّت نکلیں۔ ان کے والد اس دور کے مشہور سرجن تھے جب کہ ہیپبرن کی والدہ انسانی حقوق کی علم بردار اور سماجی کارکن کی حیثیت سے پہچانی جاتی تھیں۔ ہیپبرن نے ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے تاریخ اور فلسفے کے مضامین میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔

    اسٹیج کی دنیا سے ہیپبرن نے اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ وہ نیویارک کے مشہور براڈوے تھیٹر سے منسلک ہوئیں اور اس کے پیش کردہ ڈراموں میں کئی چھوٹے بڑے کردار نبھائے جنھیں شائقین نے سراہا۔ اسٹیج ڈراموں میں پہچان بنانے کے بعد وہ ہالی وڈ فلموں میں نظر آئیں۔

    اپنی متأثر کن اداکاری کی وجہ سے ہیپبرن نے جلد ہی شائقین کے ساتھ ساتھ ناقدین کو بھی اپنی جانب متوجہ کرلیا۔

    فلموں‌ میں‌ اپنی شان دار پرفارمنس پر کیتھرین ہیپبرن نے چار اکیڈمی ایوارڈ اپنے نام کیے اور متعدد دوسری فلموں میں‌ کردار نگاری پر ان کا نام اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا۔

    ہیپبرن کی پہلی فلم 1932ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اُس دور میں ہیپبرن کو زیادہ تر ایسی عورت کے روپ میں اسکرین پر دیکھا گیا جو خود مختار اور حقوقِ نسواں کی حامی تھی۔ ہیپبرن کی چند کام یاب فلموں میں مارننگ گلوری، فلاڈلفیا اسٹوری، دی افریقن کوئین، لٹل وومن، ہالی ڈے، وومن آف دی ایئر شامل ہیں۔

    ہالی وڈ اداکارہ کیتھرین ہیپبرن کو پہلا اکیڈمی ایوارڈ 1933ء میں دیا گیا اور یہ اعزاز فلم مارننگ گلوری میں بہترین اداکاری پر اُن کے حصّے میں‌ آیا تھا۔ فلاڈیلفیا اسٹوری کو ہالی وڈ کی کلاسیک فلم کہا جاتا ہے جس میں‌ ہیپبرن نے بے مثال اداکاری سے فلم بینوں کو اپنا مداح بنا لیا تھا۔

    امریکی ثقافت میں اداکارہ کو ان کے فیشن اور اسٹائل کی انفرادیت کے ساتھ ایک ایسی خاتون کے طور پر بہت بااثر خیال کیا جاتا ہے جو معاشرے میں اپنے حقوق اور آزادی کو اہمیت دیتی تھی۔

    کیتھرین ہیپبرن نے اسٹیج، اور فلم کے بعد ٹی وی کے لیے بھی اداکاری کی اور اپنی پرفارمنس پر ایوارڈ حاصل کیے۔ انھیں امریکا میں فیشن انڈسٹری نے بھی متعدد اعزازات سے نوازا۔ اس خوب صورت اداکارہ کا نام بیسویں صدی کی اُن عورتوں‌ میں سرِفہرست رہا ہے جو فن اور ثقافت کی دنیا میں‌ اپنے خیالات اور کارناموں کے سبب مشہور ہوئیں۔

    1999ء میں امریکی فلم انسٹیٹیوٹ نے ہیپبرن کو عظیم اداکارہ قرار دیا تھا۔ اداکارہ 2003 میں آج ہی کے روز دنیا سے رخصت ہوئی تھیں۔ وہ 96 برس کی تھیں۔

    امریکی ثقافت میں کیتھرین ہیپبرن کی حیثیت آج بھی برقرار ہے۔

  • آسکر ایوارڈ اور ستیہ جیت رے کی خواہش

    آسکر ایوارڈ اور ستیہ جیت رے کی خواہش

    ستیہ جیت رے کو ان کے منفرد اور بے مثال کام پر آسکر دینے کا فیصلہ ہوا تو منتظمین سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ انھیں یہ ایوارڈ ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ آڈری ہیپ برن دیں۔ اور 30 مارچ 1992 کو ستیہ جیت رے کی یہ خواہش پوری ہوئی۔ انھیں ہیپ برن کے توسط سے آسکر ملا۔ اس وقت کون جانتا تھا کہ فلمی دنیا کا یہ بڑا نام اِس دنیا میں چند ہفتوں کا مہمان ہے۔

    23 اپریل 1992ء کو ستیہ جیت رے چل بسے۔ اتفاق کی بات ہے کہ ان کی موت کے چند ماہ بعد ہی آڈری ہیپ برن بھی یہ دنیا چھوڑ گئیں۔

    آسکر یافتگان کی فہرست میں شامل ہونے کے دو دن بعد ہی حکومت نے انھیں بھارت رتن کے اعزاز سے بھی نوازا تھا۔ ستیہ جیت رے کو ہندوستان میں‌ فلم انڈسٹری کی تاریخ کا سب سے بڑا فلم ساز کہا جاتا ہے۔

    ستیہ جیت رے 2 مئی 1921ء کو کلکتہ کے ایک بنگالی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھیں جو زبانیں آتی تھیں، ان میں‌ بنگالی اور انگریزی شامل تھیں۔ انھوں نے انہی زبانوں‌ میں‌ فلمیں‌ بنائیں اور شطرنج کے کھلاڑی وہ فلم تھی جس کا ہندی میں ترجمہ کیا گیا۔ ستیہ جیت رے کو ابتدا ہی سے فلم، مغربی موسیقی اور شطرنج کھیلنے کا جنون تھا۔ باوجود کمرشل ڈیزائننگ میں دل چسپی کے وہ 1940ء میں سائنس اور اکنامکس جیسے مضامین میں ڈگری لے کر انڈین سنیما کی طرف چلے آئے۔ تاہم ان کی زندگی کا اہم موڑ رابندر ناتھ ٹیگور کے ادارے میں تعلیم کا ارادہ تھا جس نے ستیہ جیت رے کو ہندوستانی آرٹ اور ماحول کو سمجھنے کا موقع دیا۔انھوں نے مشرقی ادب بالخصوص ٹیگور کا گہرا مطالعہ کیا اور پھر وہ خود بھی بہترین لکھاری بنے۔ ستیہ جیت رے نے اپنا سفر بطور ایک مصور (Illustrator) شروع کیا تھا اور اس زمانے میں ایک اشتہاری کمپنی کے ایڈوائزر بھی رہے۔ 1947ء میں انھوں نے کلکتہ فلم سوسائٹی کے قیام میں اپنا کردار ادا کیا۔ پتھر پنچلی (1955)، پارس پتھر (1958)، جلسہ گھر (1958)، اَپُر سنسار (1959)، دیوی (1960)، چارولتا (1964)، شطرنج کے کھلاڑی (1977)، اور گھرے باہرے (1984) سمیت متعدد مختصر اور دستاویزی فلمیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے ستیہ جیت رے کو دنیا نے ایک باکمال فلم ساز کے طور پر پہچانا اور انڈین سنیما کے لیے ان کے کام کا اعتراف بھی کیا۔ ستیہ جیت رے کو ‘مانک دا’ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔

    ستیہ جیت رے کو ہمہ صفت کہا جائے تو کیا غلط ہے کہ وہ صرف ایک فلم ساز ہی نہیں تھے بلکہ اعلیٰ درجے کے ادیب، مصوّر، غنائی شاعر، خوش نویس، مدیر بھی تھے۔ فلم کی دنیا میں وہ ایک بہترین ہدایت کار بھی مشہور ہوئے۔ ستیہ جیت رے کا نوجوانی کا زمانہ سامراجی تسلط، آزادی کی جدوجہد اور بنگال کے قحط اور غربت کا تھا۔ 1961 میں ستیہ جیت رے نے بنگالی زبان میں شائع ہونے والے بچوں کے مشہور رسالے سندیش کو دوبارہ نکالنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے کیمرے کو ایک طرف رکھ دیا۔ یہ ان کے دادا اور والد کا شروع کردہ رسالہ تھا۔ اس پرچے میں کہانیوں کے لیے انھوں‌ نے اسکیچز بنائے اور بچّوں کے لیے کہانیاں، نظمیں اور مضامین بھی لکھے۔

    ستیہ جیت رے کی فلمیں عام طور پر بنگلہ ادیبوں کی تخلیقات پر ہی مبنی ہیں۔ وہ فلم کو ایک مغربی آرٹ سمجھتے تھے مگر ان کا مقصد بنگال کے لوگوں کے لیے بھی فلم بنانا تھا۔ ان کی فلموں کو سمجھنے کے لیے ان کی کہانیوں کا مطالعہ بھی کرنا ضروری ہے۔ انھوں نے پُراسرار یا فوق الفطرت کہانیاں تخلیق کیں۔ اسی طرح ان کا فکشن بھی بہت پسند کیا گیا اور وہ فلمی کہانیاں جن کے کردار اپنے حالات میں پوری طرح‌ گھرے ہوئے نظر آتے ہیں، ان کو بڑی پذیرائی ملی۔

  • آر آر آر: شائقین نے آسکر ایوارڈ کی اُمید باندھ لی

    بھارت کی تیلگو فلم آر آر آر سے اب شائقین نے آسکر ایوارڈ کی اُمید بھی باندھ لی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جنوبی انڈیا کی تیلگو انڈسٹری سے ریلیز ہونے والی فلم ’آر آر آر‘ نے کئی بین الاقوامی ایوارڈز سمیٹ لیے ہیں، اور یہ فلم اب شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئی ہے، یہاں تک کہ اب شائقین نے آسکر ایوارڈ جیتنے کی امید بھی باندھ لی ہے۔

    گزشتہ برس 2022 میں ریلیز ہونے والی فلم ’آر آر آر‘ اب تک گولڈن گلوب ایوارڈ، کریٹکس چوائس مووی ایوارڈ اور نیو یارک فلم کریٹکس سرکل ایوارڈ سمیت 15 انٹرنیشنل ایوارڈ اپنے نام کر چکی ہے۔

    ہدایت کار ایس ایس راجا مولی کی اس فلم نے انڈیا میں تاریخی کامیابیاں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہالی ووڈ کو بھی اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے، یہی وجہ سے اس سے آسکر کی امید بھی باندھ لی گئی ہے۔

    اس فلم کے ایوارڈز جیتنے کی سب بڑی وجہ اس کا گانا ’ناٹو ناٹو‘ ہے جس میں راجو (رام چرن) اور بھیم (جونیئر این ٹی آر) نے پرفارمنس دی، اور اس گانے نے گولڈن گلوب جیسا معتبر ایوارڈ جیتا، ایک ہالی ووڈ رپورٹر کے مطابق ’فلم کے پاس سب سے بہترین اوریجنل گانے کی کیٹیگری میں آسکرز ایوارڈ جیتنے کا موقع ہے۔‘

    تاہم جونیئر این ٹی آر کا نام بھی بہترین پرفارمنس کے لیے آسکر ایوارڈ کے سلسلسے میں سوشل میڈیا پر بہت ہائی لائٹ ہو رہا ہے۔

    واضح رہے کہ اس فلم کی کہانی 1920 کے دو ایسے کرداروں کے گرد گھومتی ہے جو برصغیر میں برطانوی راج کے خلاف لڑتے ہیں، فلم میں مرکزی کردار رام چرن اور جونیئر این ٹی آر نے ادا کیا ہے جب کہ اجے دیوگن اور عالیہ بھٹ نے کیمیو رول کیے ہیں۔

    ہدایت کار ایس ایس راجا مولی کے مطابق ہالی ووڈ کے معروف ہدایت کار جیمز کیمرون نے بھی ان کی فلم دیکھی ہے اور اسے پسند کیا ہے۔

  • ہاروکی موراکامی کی کہانی پر مبنی جاپانی فلم نے آسکر ایوارڈ جیت لیا

    ہاروکی موراکامی کی کہانی پر مبنی جاپانی فلم نے آسکر ایوارڈ جیت لیا

    آسکرز 2022 میلے میں بہترین انٹرنیشنل فیچر فلم ایوارڈ اس بار جاپانی فلم نے حاصل کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق رواں سال کےاکیڈمی ایوارڈز کا اتوار کو ہالی ووڈ میں منعقدہ تقریب میں اعلان کیا گیا، جس میں جاپانی فلم ’ڈرائیو مائی کار‘ نے بہترین بین الاقوامی فیچر فلم اکیڈمی ایوارڈ جیت لیا ہے۔

    اس فلم کی کہانی دراصل جاپان کے مقبول ترین ناول نگار ہاروکی موراکامی کے 2014 میں چھپنے والے افسانوں کی کتاب ’مین ودآؤٹ وومن‘ کی ایک کہانی ’ڈرائیو مائی کار‘ پر مبنی ہے۔ یہ کہانی ایک اداکار کافوکو کی ہے جو نظر خراب ہونے اور ڈرائیونگ لائسنس منسوخ ہونے کی وجہ سے ایک 24 سالہ لڑکی مساکی واتاری کو ڈرائیور رکھ لیتا ہے۔

    آسکر ایوارڈز حاصل کرنے والوں کے بارے میں دل چسپ معلومات

    آسکر وصول کرنے کے بعد فلم کے ہدایت کار ہاماگُوچی رِیُوسُکے نے کہا ’اوہ تو آپ آسکر ہیں۔‘ انھوں نے اس فلم میں شامل اداکاروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ بھی کہا ’ہم نے یہ جیت لیا ہے!‘

    2009 کے بعد ڈرائیو مائی کار پہلی جاپانی فلم ہے جس نے آسکر ایوارڈ جیتا ہے، اس فلم نے گزشتہ سال کینز فلم فیسٹیول میں بہترین اسکرین پلے ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔

    رواں سال یہ غیر انگریزی زبان کے درجے میں گولڈن گلوب برائے بیسٹ پکچر بھی جیت چکی ہے۔

  • کیتھرین کو یقین تھا کہ انھیں ضرور یاد رکھا جائے گا

    کیتھرین کو یقین تھا کہ انھیں ضرور یاد رکھا جائے گا

    کیتھرین ہیپبرن کو نجانے کیوں یہ یقین تھا کہ انھیں موت کے بعد ضرور یاد کیا جاتا رہے گا۔

    اس خوب صورت اور نازک اندام اداکارہ کی وجہِ شہرت ہالی ووڈ میں ان کی کام یاب فلمیں ہیں۔ انھوں‌ نے اپنی متاثر کُن اداکاری پر آسکر ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔

    کیتھرین ہیپبرن ایک امیر اور نہایت خوش حال گھرانے کی فرد تھیں۔ انھیں ایک ایسی عورت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے جس نے زندگی کے مختلف ادوار میں غیر روایتی طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے زندگی کو اپنی نگاہ سے دیکھا اور اپنی مرضی کے مطابق بسر کیا۔

    کیتھرین ہیپبرن کا تعلق امریکا سے تھا۔ وہ 12 مئی 1907 کو پیدا ہوئیں۔ ان کے والد مشہور سرجن تھے جب کہ والدہ امریکا میں انسانی حقوق کی علم بردار اور سماجی کارکن کی حیثیت سے پہچانی جاتی تھیں۔

    ہالی وڈ کی اس اداکارہ نے گریجویشن کے بعد اسٹیج کی دنیا سے اپنے شوبز کیریئر کا آغاز کیا۔ انھوں نے نیو یارک کے مشہور براڈوے تھیٹرسے کئی ڈراموں میں چھوٹے بڑے کردار نبھائے اور مقبولیت حاصل کی۔

    کیتھرین نے اپنی اداکاری سنیما کے شائقین کو ہی نہیں ناقدین کو بھی متاثر کیا اور چار اکیڈمی ایوارڈ حاصل کرنے میں کام یاب رہیں۔ اس کے بعد بھی وہ متعدد بار اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد کی گئیں۔

    ان کی پہلی فلم 1932 میں سامنے آئی۔ اداکاری کے ابتدائی زمانے میں انھیں حقوقِ نسواں کی حامی عورت کے مختلف کردار سونپے گئے اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ انھوں نے کئی فلموں میں کام کیا اور خود کو منواتی چلی گئیں۔ ان کی چند فلموں میں مارننگ گلوری، فلاڈلفیا اسٹوری، دی افریقن کوئین، لٹل وومن، ہالی ڈے، وومن آف دی ایئر شامل ہیں۔

    ہیپبرن کو پہلا اکیڈمی ایوارڈ 1933 میں ملا۔ یہ ایوارڈ فلم مارننگ گلوری کے ایک کردار کے لیے دیا گیا تھا۔ فلاڈلفیا اسٹوری وہ فلم تھی جو بہت پسند کی گئی۔ یہ ان کی ہالی وڈ کی کلاسیکی فلموں میں سے ایک ہے۔

    اس خوب صورت اداکارہ کی زندگی کا سفر 2003 میں تمام ہوا۔ موت کے وقت وہ 96 برس کی تھیں۔

  • آسکر جیتنے کے بعد لیڈی گاگا کی جذباتی تقریر وائرل

    آسکر جیتنے کے بعد لیڈی گاگا کی جذباتی تقریر وائرل

    لاس اینجلس: مشہور امریکی گلوکارہ لیڈی گاگا اپنی زندگی کا پہلا آسکر ایوارڈ جیتنے کے بعد تقریر کرتے ہوئے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں، ان کی جذباتی تقریر کی ویڈیو انٹرنیٹ پر آتے ہی وائرل ہو گئی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی گلوگارہ لیڈی گاگا کے گانے ’شیلو‘ کو آسکر 2019 میں بہترین گانے کا ایوارڈ مل گیا ہے جو لیڈی گاگا ہی کی زندگی پر بننے والی فلم ’اے سٹار اِز بارن‘ میں گایا گیا ہے۔

    لیڈی گاگا نے جذبات سے بھرپور لہجے میں کہا کہ اصل بات جیتنا نہیں بلکہ کبھی ہار نہ ماننا ہے، آپ اپنے خواب کو پورا کرنے کی بس کوشش کرتے جائیں۔

    دوسری طرف مسلم ن لیگ کے سیاست دان احسن اقبال نے بھی لیڈی گاگا کی تقریر کو سراہا، ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ گلوکارہ نے انتہائی سبق آموز الفاظ ادا کیے ہیں۔

    لیڈی گاگا کی یہ جذباتی تقریر ان کے پرستاروں نے بے حد پسند کی، سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیو کو بار بار شیئر کیا گیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  آسکر 2019‘ گرین بُک بہترین فلم، رامی ملک اور اولویا کولمین بہترین ادکار و اداکارہ قرار

    آسکر کی تقریب میں لیڈی گاگا اور بریڈلے کوپر نے مذکورہ گانے پر پرفارمنس بھی دی، جسے سوشل میڈیا پر دنیا بھر کے صارفین نے بہت پسند کیا۔

    ایوارڈ جیتنے کے بعد لیڈی گاگا اس وقت دنیا بھر کی میڈیا میں نمایاں طور پر خبروں کا حصہ بنی ہوئی ہیں، پرفارمنس اور تقریر کے علاوہ ان کی پہنی ہوئی جیولری بھی خبروں کا موضوع بن گئی ہے۔

    ان پر بنائی گئی فلم میں گلوکارہ کی فلمی دنیا میں جدوجہد اور ان کی رومانوی تعلقات کو موضوع بنایا گیا ہے۔

  • آسکر ایوارڈ کا رنگا رنگ میلہ آج  لاس اینجلس میں سجے گا

    آسکر ایوارڈ کا رنگا رنگ میلہ آج لاس اینجلس میں سجے گا

    لاس اینجلس : فلمی دنیا کے سب سے بڑے ایوارڈ ” آسکر "کا میلہ آج لاس اینجلس میں سجے گا، بہترین فلم ایوارڈ میلے میں دنیا کی نو فلمیں جیت کی دوڑ میں شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق فلمی دنیا کے سب سے معتبر مانے جانے والے آسکر ایوارڈ کا نواسی واں میلہ آج رات امریکا کے شہر لاس اینجلس میں سجایا جائے گا، آسکر کے لئے بہترین فلم کی دوڑ میں نو فلمیں میدان میں ہیں۔

    manchesterbythesea

    آسکر ایوارڈ میں چودہ نامزدگیوں کے ساتھ  فلم لا لا لینڈ سب سے آگے ہے ، دوسری جنگ عظیم کی سچی کہانی پر مبنی فلم ،ہیکسا ریج، بھی لوگوں کی فیورٹ ہے فلم ،مانچسٹر بائی دا سی، کے ہیرو کیسے ایفلیک بہترین اداکار وں کی فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔

    hacksaw-ridge

    فلم فینسز کے مرکزی ہیرو ڈینزل واشنگٹن ٹف ٹائم دیں گے، فلم لالا لینڈ کی ہیروئن ایما سٹون بھی بہترین اداکارہ کے لیے ہاٹ فیورٹ ہیں۔

  • شرمین عبید چنائے کی دستاویزی فلم کے لیے ایک اور بین الاقوامی اعزاز

    شرمین عبید چنائے کی دستاویزی فلم کے لیے ایک اور بین الاقوامی اعزاز

    اسلام آباد: پاکستان کی پہلی اور واحد آسکر ایوارڈ یافتہ شخصیت شرمین عبید چنائے کی دستاویزی فلم ’آ گرل ان دی ریور: دی پرائس آف فورگیونس‘ نے الفریڈ آئی ڈو پونٹ کولمبیا یونیورسٹی ایوارڈ اپنے نام کرلیا۔

    شرمین کی یہ وہی دستاویزی فلم ہے جو رواں برس آسکر ایوارڈ بھی حاصل کرچکی ہے۔ فلم غیرت کے نام پر قتل کے موضوع پر مبنی ہے۔ فلم کو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی بے حد سراہا گیا۔

    مزید پڑھیں: غیرت کے نام پر قتل کے قانون میں تبدیلی فلم کی کامیابی ہے، شرمین

    رواں برس وزیر اعظم ہاؤس میں بھی اس فلم کی اسکریننگ منعقد کی گئی تھی جس کے بعد وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے غیرت کے نام پر قتل کے گھناؤنے جرم کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا۔

    اس سے قبل سنہ 2012 میں ’سیونگ فیس‘ شرمین عبید چنائے کی وہ پہلی دستاویزی فلم تھی جس نے آسکر ایوارڈ حاصل کرکے انہیں پاکستان کی پہلی آسکر ایوارڈ یافتہ شخصیت بنا دیا۔

    مزید پڑھیں: شرمین عبید چنائے کی دستاویزی فلم کے لیے ایک اور ایوارڈ

    سیونگ فیس تیزاب سے جلائی جانے والی خواتین کی کہانی پر مبنی فلم تھی۔

    مذکورہ ایوارڈ کی تقریب 25 جنوری کو لو میموریل لائبریری میں منعقد کی جائے گی۔ شرمین نے پہلی بار یہ ایوارڈ حاصل نہیں کیا۔ وہ سنہ 2010 میں بھی یہی ایوارڈ اپنی ایک اور فلم ’چلڈرن آف طالبان‘ کے لیے بھی حاصل کر چکی ہیں۔