Tag: آسکر وائلڈ

  • آسکر وائلڈ:‌ وہ انشاء پرداز جس کی شہرت کو زوال کی دھوپ نے جھلسا دیا

    آسکر وائلڈ:‌ وہ انشاء پرداز جس کی شہرت کو زوال کی دھوپ نے جھلسا دیا

    ملکی اور غیرملکی ادب کے قارئین کے لیے آسکر وائلڈ کا نام نیا نہیں، اس کی تخلیقات کے تراجم دنیا کی کئی زبانوں میں ہوئے۔ شگفتہ، برجستہ فقرے، خصوصاً مغالطہ آمیز مزاح پر مبنی مختصر جملے اس کی انفرادیت ہیں۔

    آسکر وائلڈ آئرش شاعر، ڈرامہ نویس اور مضمون نگار تھا۔ نقّادوں کے مطابق انشا پردازی میں اس کے مخصوص رنگ کا تتبع آسان نہیں۔ اس نے قارئین ہی نہیں اہلِ قلم اور اپنے دور کے ناقدین کو بھی متاثر کیا۔ آسکر وائلڈ کی تحریریں اس کے تخلیقی وفور اور ندرتِ اسلوب کے اعتبار سے بے حد دل کش ہیں۔ شاعر تو وہ تھا ہی مگر اس کی وجہِ شہرت انشاء پردازی اور ڈرامہ نویسی ہے۔ اس کی نثر انسانی نفسیات کی گرہیں کھولتی ہے اور اسی انداز نے اسے ہم عصر ادیبوں میں وہ امتیاز اور شہرتِ دوام بخشا جو بہت کم اہلِ قلم کو حاصل ہوا۔

    آسکر وائلڈ کا تعلق آئرلینڈ سے تھا۔ اس کے والد سَر ولیم وائلڈ مشہور ڈاکٹر تھے جب کہ والدہ جین وائلڈن ڈبلن کی مشہور شاعرہ اور ادیب تھیں۔ 1854ء میں دنیا میں آنکھ کھولنے والے آسکر وائلڈ کی پہلی معلّمہ اس کی والدہ تھیں جنھوں نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت کے ساتھ اسے باذوق اور کتاب دوست بھی بنایا۔

    ادبی کتابوں کے مطالعہ نے آسکر وائلڈ کو کالج میں پہنچنے تک شاعر بنا دیا تھا۔ اس نے زمانۂ طالبِ علمی میں اپنی ایک نظم پر انعام حاصل کیا تو اس کی شہرت عام ہونے لگی۔ 1878ء میں آسکر وائلڈ کی ملاقات ادب کے پروفیسر رسکن سے ہوئی اور ان کی توجہ اور حوصلہ افزائی نے اسے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرتے رہنے پر آمادہ کرلیا۔ اس نے شاعری جاری رکھی اور چند سال بعد 1881ء میں چند نظموں پر مشتمل مجموعہ شایع کروایا۔ اگلے چند سال بعد وہ نثر کی طرف مائل ہوگیا۔ 1891ء تک اس نے بطور ڈرامہ نویس اپنا سفر شروع کیا اور رزمیہ و بزمیہ ڈرامے لکھے۔ اس کے یہ ڈرامے بہت پسند کیے گئے۔

    آسکر وائلڈ نے نظم کے ساتھ مضمون نگاری، ناول اور ڈرامہ نویسی میں اپنے تخیل اور زورِ قلم کو آزمایا۔ وہ ادبی دنیا کا ایسا نام تھا جو آرٹ اور تخلیقی ادب پر اپنا نقطۂ نظر رکھتا تھا۔ اس نے مختلف ادبی موضوعات پر لیکچر دیے۔ آسکر وائلڈ نے امریکہ اور کینیڈا میں بطور نثر نگار اپنے افکار و خیالات سے اہلِ قلم کو متاثر کیا۔ 1890ء کی دہائی کا آغاز ہوا تو آسکر وائلڈ لندن کا مشہور ترین ڈرامہ نگار تھا۔ سرکار اور عوام کے ہر طبقہ میں‌ اس کے پرستار موجود تھے۔

    آسکر وائلڈ جرمن اور فرانسیسی زبانیں بھی جانتا تھا۔ اس کی تخلیقات کو متحدہ ہندوستان میں اپنے وقت کے بلند پایہ ادیبوں اور ماہر مترجمین نے اردو میں ڈھالا اور یوں آسکر وائلڈ اردو قارئین میں مقبول ہوا۔

    آسکر وائلڈ کی زندگی کے آخری ایّام بڑی مصیبت اور مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے گزرے اور کہتے ہیں کہ وہ اکثر پیٹ بھر کھانے سے بھی محروم رہتا تھا۔ اس بڑے انشاء پرداز کی شہرت کے زمانے میں‌ یہ انکشاف ہوا تھا کہ وہ تلذز پسندی اور بدکاری میں‌ مبتلا ہے۔ ایک عرصہ اس نے اپنی شہرت کی آڑ میں اپنی قبیح حرکتوں کو چھپائے رکھا۔ لیکن پھر یہ معاملہ عدالت تک گیا اور الزامات درست ثابت ہوئے۔ آسکر وائلڈ کو ہم جنس پرستی کا مرتکب ہونے پر دو سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس واقعے نے آسکر وائلڈ کی شہرت کو دھندلا دیا اور وہ اپنی دولت اور مقام و مرتبہ سے بھی محروم ہوتا چلا گیا۔ اسے ایک ایسی بیماری لاحق ہوگئی تھی جس نے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کیا تھا اور آخری ایام اپنے بیٹے کے گھر پر گزارے۔ وہیں 1900ء میں آج کے دن آسکر وائلڈ کا انتقال ہوگیا۔

  • مقبول ترین ڈرامہ نگار اور انشا پرداز آسکر وائلڈ کی برسی

    مقبول ترین ڈرامہ نگار اور انشا پرداز آسکر وائلڈ کی برسی

    آسکر وائلڈ کی ادبی تحریریں اسلوبِ بیان اور ندرتِ ادا کے لحاظ سے بے حد دل کش تسلیم کی گئی ہیں۔ اس کی یہ خصوصیت اس کے ڈرامے میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ وہ شاعر بھی تھا، لیکن ڈرامہ نویسی میں اس نے بڑا نام و مقام پیدا کیا اور مقبول ہوا۔

    آسکر وائلڈ کا تعلق آئرلینڈ سے تھا۔ اس کے والد سَر ولیم وائلڈ مشہور ڈاکٹر تھے جب کہ والدہ جین وائلڈن ڈبلن کی مشہور شاعرہ اور ادیب تھیں۔ 1854ء میں دنیا میں آنکھ کھولنے والے آسکر وائلڈ کی پہلی معلّمہ اس کی والدہ تھی جنھوں نے اس کی بنیادی تعلیم و تربیت کے ساتھ اسے باذوق اور کتاب دوست بھی بنایا۔

    آسکر وائلڈ کی ادب میں دل چسپی نے اسے کالج تک پہنچتے ہوئے شاعر بنا دیا تھا۔ جب اسے زمانۂ طالبِ علمی میں اپنی ایک نظم پر انعام ملا تو اس کا خاصا شہرہ ہوا۔

    1878ء میں آسکر وائلڈ کی ملاقات ادب کے پروفیسر رسکن سے ہوئی جنھوں نے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔1881ء میں آسکر وائلڈ کی چند نظموں کا ایک مجموعہ شایع ہوا اور 1891ء تک وہ ڈرامہ نویسی کی طرف مائل ہوچکا تھا۔ اس نے رزمیہ اور بزمیہ ڈرامے لکھے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

    آسکر وائلڈ نے اپنے زمانے کی مختلف ادبی اصناف میں طبع آزمائی کی جن میں ناول، مضمون نگاری اور ڈرامہ نویسی شامل ہیں۔ اس نے آرٹ اور تخلیقی ادب کے حوالے سے لیکچرز بھی دیے اور امریکا و کینیڈا کا دورہ کیا جہاں اسے ایک نثر نگار کی حیثیت سے اپنے افکار و خیالات کا اظہار کرنے کا موقع ملا۔

    1890ء کی دہائی کے آغاز میں آسکر وائلڈ لندن کا سب سے مشہور ڈراما نگار بن چکا تھا۔ اسے جرمن اور فرانسیسی زبانوں‌ پر بھی عبور حاصل تھا۔

    اس کی جدّتِ طبع اور شگفتہ نگاری خصوصاً مغالطہ آمیز مزاح کے علاوہ چھوٹے چھوٹے خوب صورت جملے اور شگفتہ و برجستہ فقرے اس کی انفرادیت ہیں۔ نقّادوں کے مطابق انشا پردازی میں اس کا مخصوص رنگ ایسا ہے جس کا تتبع آسان نہیں۔ اس نے اپنے سحر نگار قلم سے قارئین اور ناقدین دونوں کو متاثر کیا۔

    برطانوی ہند میں آسکر وائلڈ کی تخلیقات کا اپنے وقت کے بلند پایہ ادیبوں اور تخلیقی شعور کے حامل ماہر مترجمین نے اردو ترجمہ کیا جس نے یہاں قارئین کو اس کی تخلیقات سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا اور اس کے افکار و اسلوب سے متعارف کروایا۔

    آسکر وائلڈ کی زندگی کے آخری ایّام بڑی مصیبت اور مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے گزرے جس میں‌ اکثر اسے پیٹ بھر کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا۔ ایک بیماری نے اس کے دماغ اور اس کے نتیجے میں‌ ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کیا تھا، جس سے وہ اذّیت میں‌ مبتلا ہوگیا اور اپنے بیٹے کے گھر پڑا زندگی کے دن گنتا رہا۔ 1900ء میں آج ہی کے دن 46 سال کی عمر میں‌ آسکر وائلڈ کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔

  • امید کا دیا روشن کرنے والا لندن کا ٹیوب اسٹیشن

    امید کا دیا روشن کرنے والا لندن کا ٹیوب اسٹیشن

    لندن: برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ایک ٹیوب اسٹیشن پر آنے والے مسافر کبھی بھی ناامید نہیں ہوتے، کیونکہ ان کی مایوسی و ناامیدی کو ختم کرنے اور انہیں حوصلہ دینے کے لیے یہ اسٹیشن انہیں روز کسی بڑے مفکر کا کوئی قول سناتا ہے۔

    جب مسافر اپنی ٹرین پکڑنے کے لیے لندن کے اوول ٹیوب اسٹیشن کی سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہیں تو ان کے کانوں کو بیتھووین کی موسیقی سنائی دیتی ہے، سامنے ہی ایک چھوٹی سی لائبریری نظر آتی ہے جبکہ دیوار پر کسی مفکر کا قول لکھا ہوتا ہے جو انہیں زندگی کی جدوجہد میں نئی توانائی فراہم کرتا ہے۔

    اسٹیشن کی سامنے کی دیوار پر ایک سفید بورڈ لٹکایا گیا ہے جس پر سیاہ مارکر سے سقراط سے لے کر پائلو کوہلو تک کے اقوال لکھے جاتے ہیں۔

    یہ کام دراصل اسٹیشن کی انتظامیہ نے شروع کیا ہے۔ 2004 سے شروع ہونے والے اس سلسلہ میں اب ایک لائبریری اور چند بینجوں کا بھی اضافہ ہوچکا ہے جہاں اگر لوگ چاہیں تو آرام سے بیٹھ کر مطالعہ کر سکتے ہیں۔

    oval-4

    اسٹیشن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ مذہبی، سیاسی یا نسلی و صنفی امتیاز پر مبنی اقوال لکھنے سے گریز کرتے ہیں۔

    ذرا تصور کریں، جب آپ صبح اٹھیں، اور دیر سے اٹھنے اور آفس یا کلاس کے لیے لیٹ ہونے پر خود کو کوستے ہوئے، بھاگتے ہوئے ٹیوب اسٹیشن میں داخل ہوں، اور سامنے ہی ایک رومی بادشاہ مارکوس کا قول لکھا نظر آئے، کہ ’جب آپ صبح اٹھتے ہیں تو سوچیں کہ آپ کس قدر خوش نصیب ہیں، جو زندہ ہیں، جو سوچ سکتے ہیں، جو چیزوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور جو محبت کرسکتے ہیں‘، تو کیا اس قول کو پڑھنے کے بعد بھی آپ خود کو برے القاب سے نوازیں گے؟

    oval-2

    ایک مسافر کا کہنا ہے کہ وہ روز اس ٹیوب سے سفر کرتی ہے اور جب وہ اپنے گھر سے نکلتی ہے تو اسے انتظار ہوتا ہے کہ آج اسے کس کا قول پڑھنے کو ملے گا۔

    وہ بتاتی ہے کہ ایک دن بورڈ پر برازیلین مصنف پائلو کوہلو کا مشہور قول جو ان کی شہرہ آفاق کتاب ’الکیمسٹ‘میں شامل ہے، لکھا تھا، ’دنیا میں صرف ایک چیز آپ کو اپنے خواب کی تعبیر حاصل کرنے سے روک سکتی ہے، اور وہ ہے ناکامی کا خوف‘۔ اسے پڑھنے کے بعد اس میں کام کرنے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کا نیا جذبہ پیدا ہوگیا۔

    اس بورڈ پر مشہور افراد کے اقوال کے ساتھ کبھی کبھار انتقال کر جانے والی شخصیات کو خراج تحسین، مختلف کھیلوں میں قومی ٹیم کی حوصلہ افزائی، یا شاہی خاندان کے افراد کی سالگراہوں پر تہنیتی پیغامات بھی درج کیے جاتے ہیں۔

    oval-3

    ایک بار آسکر وائلڈ کے ایک قول کے ذریعہ معاشرے کی تلخ تصویر بیان کی گئی، ’آج کل لوگوں کو ہر شے کی قیمت تو پتہ ہے، لیکن کسی شے کی قدر نہیں‘۔

    لندن کے اوول ٹیوب اسٹیشن پر شروع ہونے والا یہ رجحان آہستہ آہستہ اب دوسری جگہوں پر بھی پھیلتا جارہا ہے۔ لندن کے کئی ریستورانوں، شراب خانوں، بس اور ٹرین اسٹیشنز پر بھی اس رجحان سے متاثر ہو کر اور گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے ایسے اقوال لکھے جارہے ہیں۔

    oval-1

    جیسے شہر کے ایک پب کے باہر نصب بورڈ پر لکھا گیا، ’شراب ہر سوال کا جواب ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ شراب پینے کے بعد سوال یاد نہیں رہے گا‘۔

    اسی طرح ایک کیفے کے باہر گاہکوں کو تنبیہہ کی گئی، ’اگر آپ نے بدمزاجی سے بات کی تو ہم آپ کو بدمزہ ترین کافی پلائیں گے‘۔

    oval-6

    اقوال سے سجے یہ بورڈز گاہکوں، مسافروں اور دیگر غیر متعلقہ افراد کی توجہ کا فوراً مرکز بن جاتے ہیں اور وہ اس کی تصاویر کھینچ کر اپنے پاس محفوظ کر لیتے ہیں یا اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرلیتے ہیں، یوں روشنی اور امید پھیلانے کا یہ سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے۔