Tag: آسیب

  • انلیز مشیل کی داستان — وہ آسیب  تھا یا ذہنی بیماری

    انلیز مشیل کی داستان — وہ آسیب تھا یا ذہنی بیماری

    انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں بہت سے پُراسرار واقعات دنیا کی توجہ کا مرکز بنے، مگر انلیز مشیل کی کہانی شاید سب سے زیادہ پُراسرار، خوفناک اور متنازعہ رہی ہے۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی داستان ہے جس کی زندگی، اس پر کیے جانے والے "عملِیات” (Exorcism) اور دردناک موت نے سوالات اٹھا دیے۔ اس کے واقعے نے نہ صرف عدالتی بحثوں کو جنم دیا بلکہ فلموں، ڈاکومنٹریز اور کتابوں کا موضوع بھی بنا۔

    انلیز مشیل کی ابتدائی زندگی

    انلیز مشیل 21 ستمبر 1952 کو جرمنی کے علاقے لیبل فنگ، باویریا میں ایک نہایت مذہبی کیتھولک خاندان میں پیدا ہوئی۔ بچپن میں وہ نہایت فرماں بردار، دیندار اور بااخلاق بچی کے طور پر جانی جاتی تھی۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

    16 برس کی عمر میں انلیز کو مرگی کے دورے پڑنے لگے۔ ماہرینِ طب نے اسے "ٹیمپورل لوب ایپی لیپسی” (Temporal Lobe Epilepsy) نامی ایک ذہنی و اعصابی بیماری تشخیص کی، جو انسان میں ہذیانی کیفیت، سمعی و بصری فریب اور شعور کی وقتی تبدیلیاں پیدا کرتی ہے۔ وقت کے ساتھ انلیز کی حالت مزید بگڑتی گئی۔ اسے گہری ذہنی پریشانی، خود کو نقصان پہنچانے کا رجحان اور نفسیاتی کیفیتیں لاحق ہو گئیں۔

     یہ بیماری تھی یا کچھ اور؟

    سن 1970 کی دہائی کے اوائل میں انلیز اور اس کے خاندان کو یقین ہو گیا کہ یہ محض ایک طبی مسئلہ نہیں بلکہ ایک آسیب کا سایہ ہے۔ انلیز دعویٰ کرنے لگی کہ وہ شیطانی آوازیں سنتی ہے، چہرے بدلتے ہوئے دیکھتی ہے، اور ایک ناقابلِ بیان احساسِ گناہ سے دوچار ہے۔ وہ خود کو آسیب زدہ محسوس کرتی تھی اور رفتہ رفتہ اس نے ادویات اور میڈیکل علاج کو مسترد کر دیا۔ اب اس کی امید صرف کلیسیا (چرچ) سے تھی۔

    عملیات کا سہارا

    1975 میں، جب روایتی علاج ناکام ہو چکے تھے، تو انلیز کے والدین نے دو کیتھولک پادریوں، فادر ارنسٹ آلٹ اور فادر آرنلڈ رینز سے رابطہ کیا۔ اگرچہ چرچ ابتدا میں ہچکچایا، مگر انلیز کی حالت اور اس کے مسلسل اصرار پر بالآخر باقاعدہ اجازت دی گئی کہ اس پر روحانی عمل کیا جائے۔

    تقریباً ایک سال تک جاری رہنے والے یہ عملیات نہایت سخت اور اذیت ناک تھے۔ انلیز پر 60 سے زائد بار عملیات کیے گئے۔ اس دوران اس نے چیخنا، غرّانا، اپنے آپ کو کاٹنا اور کھانے پینے سے انکار جیسے تکلیف دہ رویے اپنائے۔ وہ انتہائی لاغر اور نحیف ہو گئی، حتیٰ کہ 1 جولائی 1976 کو، صرف 23 برس کی عمر میں وہ انتقال کر گئی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس کی موت بھوک، پانی کی کمی اور جسمانی و ذہنی کمزوری کے باعث ہوئی۔

    قانونی کارروائی اور اخلاقی سوالات

    انلیز کی المناک موت نے پورے جرمنی میں ہلچل مچا دی۔ اس کے والدین اور دونوں پادریوں پر "قتلِ غیر عمد” (Negligent Homicide) کا مقدمہ چلا۔ دفاع کا مؤقف تھا کہ وہ سب یہ سمجھتے تھے کہ انلیز واقعی آسیب زدہ ہے، جبکہ استغاثہ کا کہنا تھا کہ اس کی بیماری کا سائنسی اور نفسیاتی علاج ہونا چاہیے تھا۔

    عدالت نے والدین اور پادریوں کو قصوروار تو ٹھہرایا، مگر  کسی کو قید نہیں کیا گیا۔ اس مقدمے نے روایت اور سائنس کے باہمی تعلق پر نئی بحث چھیڑ دی۔ چرچ نے بعد میں اپنے اصول سخت کر دیے اور آئندہ عملِیات کی اجازت سے پہلے مکمل میڈیکل اور نفسیاتی جانچ لازم قرار دی۔

    سائنسی نکتۂ نظر

    ماہرینِ دماغ اور نفسیات کے مطابق انلیز مشیل کی علامات کئی بیماریوں سے مطابقت رکھتی تھیں:

    • ٹیمپورل لوب ایپی لیپسی: جو کہ اس کے سمعی اور بصری فریب کا سبب ہو سکتی ہے۔

    • نفسیاتی ڈپریشن: جس میں شدید احساسِ گناہ، مایوسی اور خود کو نقصان پہنچانے کا رجحان شامل ہوتا ہے۔

    • ثقافتی و مذہبی اثرات: چونکہ انلیز ایک مذہبی ماحول میں پلی بڑھی، لہٰذا اس نے اپنی ذہنی کیفیت کو جنات یا آسیب سے تعبیر کیا، جو کہ خاندان اور برادری کی تائید سے مزید مستحکم ہوا۔

    سائنس اور جدید طب کا کہنا ہے کہ اس جیسے کیسز میں ادویات، سائیکو تھراپی اور ہسپتال میں مکمل نگرانی ہی سب سے مؤثر طریقہ علاج ہیں۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ انلیز مشیل کی کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ روحانیت کی اندھی پیروی بعض اوقات جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔

    فلمی روپ — حقیقت سے فلمی پردے تک

    انلیز مشیل کی زندگی پر کئی فلمیں اور ڈاکومنٹریز بن چکی ہیں، جن میں سب سے مشہور 2005 میں ریلیز ہونے والی "دی ایکسورسزم آف ایمیلی روز” ہے۔ یہ فلم ایک افسانوی رنگ میں اس کی کہانی بیان کرتی ہے، جس میں عملیات اور بعد ازاں ہونے والی عدالتی کارروائی کی جھلک ہے۔

    دیگر فلموں میں:

    • "ریکوئیم” (2006): ایک جرمن فلم جو حقیقت پسندانہ انداز اپناتی ہے۔

    • "انلیز: دی ایکسورسسٹ ٹیپس” (2011): ایک دستاویزی فلم (mockumentary) جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس میں اصل ایکسورسزم کی ویڈیوز شامل ہیں۔

    ان فلموں نے انلیز مشیل کو زندہ رکھا ہے، مگر ان میں اکثر حقیقت اور افسانے کے درمیان فرق دھندلا جاتا ہے۔

     سوالات اور سبق

    انلیز مشیل کا کیس آج بھی دنیا بھر میں سائنس، آسیب کی موجودگی اور انسانی نفسیات کے درمیان موجود کشمکش کی علامت ہے۔

    انلیز مشیل کی کہانی نہ صرف ایک دل دہلا دینے والی داستان ہے، بلکہ یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنے معاشرتی ڈھانچے اور اس میں موجود متضاد نظریات کے انسانوں پر اثرات کے بارے میں سوال اٹھا سکتے ہیں۔

    تحریر: ایریکا فرنینڈس

  • ’آسیب سے چھٹکارے‘ کے لیے ماں کا خوفناک اقدام، بچی کی موت

    ’آسیب سے چھٹکارے‘ کے لیے ماں کا خوفناک اقدام، بچی کی موت

    سری لنکا میں ایک ماں نے اپنی بچی کو خود ساختہ آسیب سے نجات دلانے کے لیے جلاد عاملہ کے حوالے کردیا جس نے بہیمانہ تشدد کرکے بچی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

    مقامی میڈیا کے مطابق یہ واقعہ سری لنکن دارالحکومت کولمبو میں پیش آیا، بچی کی ماں جو اب پولیس کی حراست میں ہے، کا خیال تھا کہ اس کی 9 سالہ بچی کو کسی آسیب نے جکڑ لیا ہے۔

    اس سے نجات دلانے کے لیے وہ اسے علاقے کی ایک عورت سے پاس لے گئی جو جادو ٹونا کرنے کے لیے مشہور تھی۔

    پولیس کے مطابق جعلی عاملہ نے بچی کو چھڑی سے نہایت بے دردی سے پیٹا اور اس دوران ماں سامنے کھڑی دیکھتی رہی۔

    بہیمانہ تشدد کے دوران بچی ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگئی جس کے بعد اسے اسپتال لے جایا گیا جہاں اسپتال عملے نے بچی کی موت کی تصدیق کردی۔

    پولیس کے مطابق بچی کو نہایت بہیمانہ طریقے سے پیٹا گیا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی، پولیس نے جادو ٹونا کرنے والی عورت اور ماں دونوں کو گرفتار کرلیا تاہم اس بات کا تعین نہیں کیا جاسکا کہ دونوں پر کن جرائم کی دفعات عائد ہوں گی۔

    پولیس کے مطابق اس سے پہلے بھی اس نوعیت کے کئی واقعات ہوچکے ہیں، پولیس نے عوام کو ایسے ڈھونگی عاملوں سے محتاط رہنے کی تاکید کی ہے۔

  • قازقستان کا بدقسمت شہر، جس پر نیند کے آسیب نے حملہ کر دیا تھا

    قازقستان کا بدقسمت شہر، جس پر نیند کے آسیب نے حملہ کر دیا تھا

    الماتے: قازقستان کے شہر کلاچی کو ایک پراسرار  آسیب نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، عوام ہجرت پر مجبور ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق کلاچی قازقستان کے صوبے اقمولا کا ایک بدقسمت دیہات ہے، جس کی آبادی کا بڑا حصہ نیند کی پراسر بیماری میں مبتلا ہے۔

    اس علاقے کے باسی اپنی روز مرہ کی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے اچانک نیند کی لپیٹ میں‌ آجاتے ہیں.

    کچھ لوگ سڑک پر چلتے چلتے فٹ پاتھ پر ڈھیر ہو تے ہیں، کچھ افراد دفتر میں اچانک سو جاتے ہیں، کچھ کے ساتھ یہ پراسرار  واقعہ ڈرائیونگ کے دوران پیش آیا.

    جلد ہی اس خبر نے پورے قازقستان کو لپیٹ میں لے لیا اور اسے کسی آسیب کا اثر قرار دیا جانے لگا.

    حکومت نے عوام میں‌خوف پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر فوری اپنی ٹیمیں‌کلاچی روانہ کیں، جنھوں نے جائزہ لیا کہ یہ مرض بچوں، بوڑھوں اور جوانوں‌ پر یکساں اثر انداز ہوتا ہے.

    اس کے اثرات جانوروں‌ پر بھی دیکھے گئے. یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ نیند سے بیدار ہونے والے افراد کچھ دیر کے لیے اپنی یادداشت سے محروم ہوجاتے ہیں.

    مزید پڑھیں: کیا نیویارک پر خلائی مخلوق نے حملہ کر دیا؟

    حکومت کی تحقیقاتی ٹیم نے علاقے کی فضا میں‌کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھاتی مقدارکے باعث انسان کو آکسیجن نہیں ملتی اور وہ نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں.

    رپورٹ میں قصبے سے چند میل دور یورینیم کی کانوں کو اس کی وجہ قرار دیا گیا، مگر حیرت انگیز طور پر ان کانوں کے نزدیک موجود گاؤں میں اس طرح کا کبھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا.

    حکومت کی جانب سے رپورٹ جاری کرنے کے بعد اس کیس کی فائل بند کر دی گئی ہے.