Tag: آشا پوسلے

  • آشا پوسلے: ایک ناکام اداکارہ جو پہلی پاکستانی فلم کی ہیروئن تھیں

    آشا پوسلے: ایک ناکام اداکارہ جو پہلی پاکستانی فلم کی ہیروئن تھیں

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد 1948ء میں عید کے دن ریلیز ہوئی۔ اس کی ہیروئن آشا پوسلے تھیں۔ اداکارہ کا نام فلمی تاریخ میں پہلی پاکستانی ہیروئن کے طور پر رقم ہوا۔ تاہم آشا پوسلے متاثر کن اور قابلِ ذکر اداکارہ نہیں تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ تیری یاد میں بھی انھیں فلم ساز کی سفارش پر ہیروئن کاسٹ کیا گیا تھا۔

    پاکستان کی سب سے پہلی فلم تیری یاد کی کہانی میں‌ ایک امیر شخص اپنی تمام جائیداد، اپنی نومولود بیٹی اور اپنے ایک عزیز دوست کے نومولود بیٹے کے نام کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ امیر شخص کی موت کے بعد اس کا دوست لالچ میں آجاتا ہے اور اب اس کی نظریں‌ مرحوم کی ساری جائیداد پر ہوتی ہیں۔ وہ جائیداد ہتھیانے کے لیے اس کی نومولود بچی کو دودھ میں زہر ملا کر دے دیتا ہے جس سے بچی ہلاک ہو جاتی ہے۔ امیر شخص کی بیوہ اور اس بچی کی ماں کو اس کا علم ہونے پر وہ ایک ڈاکٹر کی مدد سے اس لالچی انسان کو سزا کا خوف دلاتی ہے اور اسے ڈرا دھمکا کر شہر سے بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ پھر وہ ایک یتیم بچی کو گود لے کر اسے اپنی بیٹی ظاہر کرتی ہے اور اس کا مقصد بھی اپنے مرحوم شوہر کی وصیت کے مطابق جائیداد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اسی یتیم بچی کی جوانی کا کردار اداکارہ آشا پوسلے نے نبھایا ہے۔

    فلم تیری یاد کی ہیروئن بننے سے پہلے آشا پوسلے لاہور میں بنائی گئی درجن بھر فلموں میں کام کرچکی تھیں۔ لیکن بطور ہیروئن وہ کبھی کام یاب نہیں ہوئی تھیں۔ اس کی ایک وجہ اداکارہ کا سپاٹ اور خاص پنجابی لہجہ بھی تھا جو اردو فلموں کے مکالموں کی ادائیگی کے لیے موزوں نہیں تھا۔ آشا پوسلے رقص میں ماہر تھیں اور یہی فن انھیں‌ وراثت میں ملا تھا۔ کہتے ہیں‌ کہ وہ تیری یاد کی ہیروئن بھی نہیں بنتیں اگر پنچولی فلم اسٹوڈیوز کے مالک اور معروف فلم ساز دیوان سرداری لال سے ان کا خاص تعلق نہ ہوتا۔ آشا پوسلے لاہور کے نگار خانوں میں بطور ہیروئن اور معاون اداکارہ ناکام ضرور رہی تھیں لیکن انھیں پاکستان کی ایسی فلم ایکٹریس بھی کہا جاتا ہے جنھوں نے سائیڈ ہیروئن کے علاوہ ویمپ اور کامیڈی کرداروں میں سنیما بینوں‌ کو متاثر کیا۔ آشا پوسلے نے سائیڈ ہیروئن کے طور پر متعدد فلموں میں عمدہ پرفارمنس دی۔

    آج آشا پوسلے کی برسی ہے۔ 26 مارچ 1998ء کو وفات پانے والی آشا پوسلے کا اصل نام صابرہ بیگم تھا۔ ان کے والد عنایت علی ناتھ بطور موسیقار فلمی دنیا سے منسلک تھے اور انہی کے توسط سے آشا پوسلے تقسیمِ ہند سے قبل فلم نگری میں‌ متعارف ہوئی تھیں۔ وہ بھارتی پنجاب کی ریاست پٹیالہ میں 1927ء میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد عنایت علی ناتھ نے دہلی ریڈیو پر بھی بطور موسیقار کام کیا تھا اور اسی زمانے میں آشا پوسلے کو بطور گلوکارہ بھی متعارف کروایا تھا اور بعد میں‌ بھی آشا پوسلے نے فلموں‌ کے لیے گانے گائے لیکن اس شعبہ میں بھی ناکامی ان کا مقدر بنی۔ آشا پوسلے نے تیری یاد کے علاوہ فلم غلط فہمی کے بھی چند گیت گائے تھے۔ فلمی ریکارڈ کے مطابق آشا پوسلے کا آخری گیت 1965ء میں فلم من موجی میں شامل تھا۔

    1960ء کی دہائی میں جب پاکستان میں فلمی صنعت اپنا عروج دیکھ رہی تھی تو فلم ساز بھی نئے اور باصلاحیت اداکاروں کو موقع دے رہے تھے اور آشا پوسلے معمولی اور غیر اہم کردار قبول کرنے لگی تھیں۔ آشا پوسلے نے تقسیم سے قبل 1946ء میں فلم ‘کملی’ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ آشا پوسلے نے زندگی کے آخری ایّام انتہائی کس مپرسی کے عالم میں بسر کیے اور لاہور کے علاقہ گڑھی شاہو میں انتقال کیا۔

  • آشا پوسلے: پہلی پاکستانی فلم ‘تیری یاد’ کی ہیروئن

    آشا پوسلے: پہلی پاکستانی فلم ‘تیری یاد’ کی ہیروئن

    آشا پوسلے فلمی ہیروئن کے طور پر تو ناکام رہی تھیں، مگر انھوں نے معاون اداکارہ، ویمپ اور مزاحیہ کرداروں کے علاوہ سائیڈ ہیروئن کے طور پر بھی کئی فلموں میں عمدہ پرفارمنس دی۔ آشا پوسلے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ قیامِ پاکستان کے بعد بننے والی پہلی پاکستانی فلم ‘تیری یاد’ کی ہیروئن تھیں۔

    آج فلمی اداکارہ آشا پوسلے کی برسی ہے۔ وہ 26 مارچ 1998ء کو وفات پاگئی تھیں۔ آشا پوسلے کا اصل نام صابرہ بیگم تھا۔ ان کے والد موسیقار کی حیثیت سے فلمی دنیا سے منسلک تھے اور انہی کے توسط سے آشا پوسلے تقسیمِ ہند سے قبل فلم نگری میں‌ بطور اداکارہ وارد ہوئی تھیں۔

    آشا پوسلے پاکستان میں‌ بھی اس وقت کے فلم بینوں کے لیے نیا چہرہ نہیں تھیں بلکہ قیامِ پاکستان سے قبل لاہور میں وہ ایک درجن سے زائد فلموں میں ہیروئن اور معاون اداکارہ کے طور پر جلوہ گر ہو چکی تھیں لیکن بطور فلمی ہیروئن وہ فلم بینوں کو متاثر نہیں کرسکیں۔ البتہ انھوں نے معاون اداکارہ اور مزاحیہ کرداروں کو بخوبی نبھایا۔ آشا پوسلے نے بطور گلوکارہ بھی قسمت آزمائی لیکن یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکا۔ آشا پوسلے نے تیری یاد کے علاوہ فلم غلط فہمی جو 1950ء میں بنی تھی، کے بھی چند گیتوں کو اپنی آواز دی تھی۔ فلمی ریکارڈ کے مطابق آشا پوسلے کا آخری گیت 1965ء میں فلم من موجی میں "سن میری بھابھی، تینوں نچناں نہ آوے۔۔” تھا جس میں آئرن پروین کے ساتھ ان کی آواز سنی گئی تھی۔

    1960ء کی دہائی میں پاکستان میں فلمی صنعت اپنا عروج دیکھ رہی تھی اور کئی نئے فن کاروں کو مقبولیت مل رہی تھی تو آشا پوسلے کو بہت کم فلموں میں کاسٹ کیا جانے لگا۔ وہ معمولی اور غیر اہم کردار قبول کرنے لگی تھیں۔

    آشا پوسلے کا تعلق پٹیالہ سے تھا جہاں انھوں نے 1927ء میں آنکھ کھولی۔ تقسیم سے قبل 1946ء میں انھوں نے فلم ‘کملی’ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ آشا پوسلے نے بڑے پردے پر کئی فلموں میں منفی کردار بھی ادا کیے۔ آشا پوسلے کے والد ماسٹر عنایت علی ناتھ ہی نہیں‌ ان کی ایک بہن رانی کرن بھی اداکاری اور دوسری کوثر پروین نے گلوکارہ کے طور پر فلمی دنیا میں مقام بنانے کی کوشش کی۔

    اداکارہ اور گلوکارہ آشا پوسلے نے زندگی کے آخری ایّام انتہائی کس مپرسی کے عالم میں بسر کیے اور لاہور کے علاقہ گڑھی شاہو میں ان کا انتقال ہوا۔ آشا پوسلے کو فلمی دنیا کے متعدد اعزازات کے علاوہ خصوصی نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

  • پاکستان کی پہلی فلم کی ہیروئن آشا پوسلے کی برسی

    پاکستان کی پہلی فلم کی ہیروئن آشا پوسلے کی برسی

    26 مارچ 1998ء کو پاکستان کی پہلی فلم ‘تیری یاد’ میں ہیروئن کا کردار نبھانے والی آشا پوسلے وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ آشا پوسلے کا اصل نام صابرہ بیگم تھا جن کے والد موسیقار کی حیثیت سے فلمی دنیا سے منسلک تھے۔

    آشا پوسلے کا تعلق پٹیالہ سے تھا جہاں انھوں نے 1927ء میں آنکھ کھولی تھی۔ تقسیم سے قبل 1946ء میں فلم ‘کملی’ سے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والی آشا پوسلے نے ہیروئن کے علاوہ بڑے پردے پر کئی فلموں میں منفی کردار بھی ادا کیے۔ آشا پوسلے کے والد ماسٹر عنایت علی ناتھ ہی نہیں‌ ان کی ایک بہن رانی کرن بھی اداکارہ اور دوسری کوثر پروین بطور گلوکارہ فلمی دنیا سے منسلک رہیں۔

    7 اگست 1948ء کو لاہور کے پربت تھیٹر میں نمائش کے لیے پیش کی گئی ملک کی پہلی فلم میں ہیروئن کا کردار نبھانے والی آشا پوسلے نے زندگی کے آخری ایّام انتہائی کس مپرسی کے عالم میں بسر کیے اور گڑھی شاہو، لاہور میں انتقال کیا۔ انھیں‌ متعدد اعزازات سے نوازا گیا تھا جن میں خصوصی نگار ایوارڈ بھی شامل تھا۔