Tag: آصف زرداری

  • آصف زرداری ایوان صدر چھوڑیں گے تو وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھیں گے: ناصر شاہ

    آصف زرداری ایوان صدر چھوڑیں گے تو وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھیں گے: ناصر شاہ

    کراچی: وزیر توانائی سندھ ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ صدر زرداری ایوان صدر چھوڑیں گے تو وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر توانائی سندھ ناصر حسین شاہ نے صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد اے آر وائی نیوز سےگفتگو کی ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ صدر زرداری کہیں نہیں جارہے۔

    ناصر شاہ کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کہیں نہیں جارہے اگر وہ ایوان صدر چھوڑیں گے تو وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھیں گے اور وزیراعظم پیپلزپارٹی کا ہوگا۔

    وزیرتوانائی سندھ کا کہنا تھا حکومت کی دو تہائی اکثریت ہوگئی تو پہلے شوشہ چھوڑا گیا حکومت کی مدت دس سال کی جا رہی ہے، وہ بات ذہنوں میں نہ بیٹھی تو کہا گیا صدرزرداری کو تبدیل کیا جا رہا ہے، یہ بھی ناممکن ہے۔

    واضح رہے کہ کچھ دنوں سے آصف زرداری کو ایوان صدر سے نکالے جانیکی افواہیں زیر گردش ہیں تاہم حکومت اور اتحادیوں کی جانب سے مشترکہ طور پر ان افواہوں کی تردید کی گئی ہے۔

    گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے واضح الفاظ میں افواہوں کو مسترد کر دیا ہے، وزیراعظم نے ان قیاس آرائیوں کو ’محض افواہیں‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی صداقت نہیں۔

    اس کے علاوہ وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابق ٹوئٹر) پر اس حوالے سے جاری بیان میں ان افواہوں کو ’شرانگیز مہم‘ قرار دیا اور کہا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس مہم کے پیچھے کون عناصر ہیں۔

    محسن نقوی نے کہا تھا کہ نہ ایسی کوئی بات ہوئی ہے اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے کہ صدر کو مستعفی ہونے کا کہا جائے یا آرمی چیف صدر بننے کا ارادہ رکھتے ہوں۔

  • صدرِ مملکت نے کم عمری کی شادی کی ممانعت کے بل پر دستخط کر دیے، سخت سزائیں نافذ

    صدرِ مملکت نے کم عمری کی شادی کی ممانعت کے بل پر دستخط کر دیے، سخت سزائیں نافذ

    اسلام آباد : صدر مملکت آصف زرداری نے کم عمر بچوں کی شادی کی ممانعت کے بل پر دستخط کر دیے، جس کے تحت کم عمر بچوں کی شادی کرانے کا جرم ناقابل ضمانت ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق صدر مملکت آصف زرداری نے 18 سال سے کم عمری کی شادی کی ممانعت کے بل پر دستخط کر دیے۔

    سینیٹ اورقومی اسمبلی نے کم عمری کی شادی کی ممانعت کا بل منظور کیا تھا ، قومی اسمبلی میں بل شرمیلا فاروقی،سینیٹ میں شیری رحمان نے پیش کیا تھا۔

    قانون کے تحت نکاح خواں ایسا نکاح نہیں پڑھائے گا، جہاں فریق 18سال سےکم عمرہوں، خلاف ورزی پر نکاح خواں کو ایک سال قید اورایک لاکھ جرمانہ ہوسکتاہے۔

    18سال سے بڑی عمر کے مرد کو کم عمر لڑکی سے شادی پر 3 سال تک قیدبامشقت ہوگی اور کم عمری کی شادی کا علم ہونے پر اسے روکنے کا حکم دے گی۔

    مزید پڑھیں : اسلامی نظریاتی کونسل نے کم عمری کی شادی کی ممانعت کا بل غیراسلامی قرار دیدیا

    کم عمر بچوں کی شادی کرانے کا جرم ناقابل ضمانت ہوگا، عدالت کیس کی کارروائی 90روز میں مکمل کرے گی۔

    نئے قانون میں کہا گیا ہے کہ 18 سال سے قبل ساتھ رہنے کو بچے سے زیادتی تصور کیا جائے گا اور کم عمرمیں شادی پر مجبور کرنے والے کو 7 سال تک قیداور10 لاکھ تک جرمانہ ہوگا۔

    بچے کی شادی کیلئے ٹریفکنگ پر 7سال تک قیداور جرمانہ جبکہ کم عمر بچے کی شادی میں معاونت پر 3سال تک قید اور جرمانہ ہوگا۔

    خیال رہے اسلامی نظریاتی کونسل کم عمری کی شادی کے بل کو غیراسلامی قراردے چکی ہے، کونسل نے18 سال سے کم عمر کی شادی پر سزاؤں کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔

  • صدرِ مملکت کی معرکہ حق میں  شہید اسکواڈرن لیڈر عثمان یوسف کے گھر آمد، لواحقین سے اظہارِ تعزیت

    صدرِ مملکت کی معرکہ حق میں شہید اسکواڈرن لیڈر عثمان یوسف کے گھر آمد، لواحقین سے اظہارِ تعزیت

    اسلام آباد : صدر مملکت آصف زرداری نے معرکہ حق میں شہید ہونے والے پاک فضائیہ کے اسکواڈرن لیڈر عثمان یوسف شہید کے گھر جاکر ان کے والد اور دیگر لواحقین سے اظہار تعزیت کیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت کے خلاف معرکہ حق میں تاریخی فتح پر پاکستان کی مسلح افواج کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے آج ملک بھر میں یو م تشکر منایا جارہا ہے۔

    صدر مملکت آصف علی زرداری بھارت کے خلاف معرکہ حق میں شہید ہونے والے اسکواڈرن لیڈر عثمان یوسف شہید کے گھر پہنچے، جہاں انھوں نے شہید اسکواڈرن لیڈر کے والد اور دیگر خاندان کے افراد کے ساتھ اظہارِ تعزیت کیا۔

    صدر مملکت نے شہید کی وطن کیلئے خدمات، دفاع وطن میں جان نذرانہ پیش کرنے پر قوم کی جانب سے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے بہادر جوانوں کی قربانیوں پر فخر ہے،پوری قوم، اپنے سپاہیوں کی قربانیوں کو سلام پیش کرتی ہے،ہم اپنے شہداء اور انکے خاندانوں کی قربانیوں کے ہمیشہ معترف رہیں گے۔

    صدر مملکت نے شہید کیلئے فاتحہ خوانی اور بلندی درجات کی دعا کی اور شہید کے لواحقین کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے صبر جمیل کی دعا کی۔

    دوسری جانب یوم تشکر کے سلسلے میں ملک بھر میں یادگار شہدا پر پھول رکھے جارہے ہیں اور دعائیہ تقاریب منعقد کی جارہی ہیں جب کہ آپریشن بنیان مرصوص کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے لواحقین سے خصوصی ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

  • صدر آصف زرداری کورونا میں مبتلا

    صدر آصف زرداری کورونا میں مبتلا

    کراچی: صدر مملکت کے ذاتی معالج ڈاکٹر عاصم کا کہنا ہے کہ صدر آصف زرداری کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق صدر مملکت کے ذاتی معالج ڈاکٹر عاصم نے بتایا کہ صدر آصف زرداری کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے، صدر مملکت کو آئسولیشن میں رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

    ڈاکٹر عاصم نے بتایا کہ ماہرین کی ٹیم آصف زرداری کی دیکھ بھال کررہی ہے، ان کی حالت بہتر ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز صدر مملکت کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تھی، جس کی وجہ سے انھیں نجی اسپتال منتقل کر دیا گیاتھا۔

    پاکستان پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کو رات گئے کلفٹن میں واقع نجی اسپتال منتقل کیا گیا ہے، رات گئے ان کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تھی۔

    پی پی ذرائع کے مطابق صدر مملکت کا علاج جاری ہے، نجی اسپتال میں ان کے متعدد ٹیسٹ کیے گئے ہیں، ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بخار اور انفیکشن کے لیے ٹیسٹ کیے گئے ہیں، صدر مملکت کو بخار محسوس ہو رہا تھا۔

    صدر مملکت آصف زرداری کی طبیعت اچانک خراب، نجی اسپتال منتقل

    ذرائع کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کلفٹن کے نجی اسپتال میں زیر علاج ہیں، جہاں پولیس اور قانون نافد کرنے والے ادارے سیکیورٹی پر موجود ہیں۔

  • دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کی تجویز کی بطور صدر حمایت نہیں کر سکتا، آصف زرداری

    دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کی تجویز کی بطور صدر حمایت نہیں کر سکتا، آصف زرداری

    اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری نے پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کی تجویز کی بہ طور صدر حمایت نہیں کر سکتے۔

    صدر آصف زرداری نے کہا میں ایوان کی توجہ اس فیڈریشن کے لیے ایک تشویشناک معاملے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں، پاکستان کے صدر اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے میری ذاتی ذمہ داری ہے کہ میں ایوان اور حکومت کو خبردار کروں کہ آپ کی کچھ یک طرفہ پالیسیاں وفاق پر شدید دباؤ کا باعث بن رہی ہیں، خاص طور پر، وفاقی اکائیوں کی شدید مخالفت کے باوجود حکومت نے دریائے سندھ کے نظام سے مزید نہریں نکالنے کا یک طرفہ فیصلہ کیا۔

    انھوں نے کہا میں اس تجویز کی بطور صدر میں حمایت نہیں کر سکتا، میں اس حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس موجودہ تجویز کو ترک کرے، تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرے تاکہ وفاق کی اکائیوں کے درمیان متفقہ اتفاق رائے کی بنیاد پر قابل عمل، پائیدار حل نکالا جا سکے۔

    آصف زرداری نے کہا جمہوری نظام مضبوط کرنے، قانون کی حکمرانی پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے محنت کی ضرورت ہے، پاکستان کو خوش حالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے مزید محنت کرنا ہوگی، ملک کو معاشی ترقی کے مثبت راستے پر ڈالنے کے لیے حکومت کی کوششوں کو سراہتا ہوں، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ دیکھنے میں آیا، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، اور اسٹاک مارکیٹ بھی تاریخی بلند سطح پر پہنچ گئی۔

    ایوان سے بطور سویلین صدر 8 ویں بار خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا ہمارے ملک کی آبادی کا ڈھانچہ بدل چکا ہے، ہماری انتظامی مشینری میں تذویراتی سوچ کی کمی، آبادی میں اضافے نے حکمرانی کے مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے، اس ایوان کو اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، ایوان گورننس، خدمات کی فراہمی کے نتائج کو ازسرِ نو ترتیب دینے میں اپنا کردار ادا کرے، وزارتوں کو بھی اپنے وژن اور مقاصد کو ازسرنو متعین کرنے کی ضرورت ہے، وزارتیں ادراک کریں کہ عوام کو درپیش اہم مسائل کو ایک مقررہ مدت میں حل کرنا ہوگا۔

    انھوں نے کہا آپ سب سے گزارش ہے کہ اپنے لوگوں کو بااختیار بنائیں، اتفاق رائے سے قومی اہمیت کے فیصلے کریں، معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کریں، سماجی اور اقتصادی انصاف کو فروغ دیں، نظام میں انصاف اور شفافیت کو یقینی بنائیں، کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے اسے مساوی طور پر ترقی دینا چاہیے۔

    ہمہ گیر ترقی اور علاقوں کا احساس محرومی

    مجھے پختہ یقین ہے کہ ایک مضبوط پاکستان وہ ہے جہاں ترقی کے ثمرات تمام صوبوں اور شہریوں کو برابری کی سطح پر پہنچیں، ہمیں ہمہ گیر اور یکساں ترقی کو فروغ دینے کے لیے فعال طور پر کام کرنا چاہیے۔ یقینی بنانا ہوگا کہ کوئی صوبہ، کوئی ضلع اور کوئی گاؤں پیچھے نہ رہے، ایوان یقینی بنائے کہ ترقی صرف چند منتخب علاقوں تک محدود نہ ہو بلکہ ملک کے ہر کونے تک پہنچے، نظر انداز اور پسماندہ علاقوں کو وفاقی حکومت کی فوری توجہ کی ضرورت ہے۔

    علاقوں کا احساس محرومی دور کرنے کے لیے انفراسٹرکچر، تعلیم، صحت اور معاشی مواقع میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، پارلیمنٹ ایک ایسا فورم ہے جہاں کسی بھی احساس محرومی کو تعمیری انداز میں دور کیا جا سکتا ہے، ایگزیکٹو برانچ سیاسی ہمدردی کے ساتھ احساس محرومی کا ازالہ بھی کر سکتی ہے۔

    ٹیکس نظام اور ٹیکنالوجی

    ایک ملک کے طور پر آگے بڑھنے کے لیے ٹیکس نظام کو بہتر بنانا ناگزیر ہے، ہمیں اپنے ٹیکس نیٹ میں اصلاحات اور توسیع کرنی چاہیے، پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں پر زیادہ بوجھ ڈالنے کی بجائے یہ امر یقینی بنائیں کہ ہر اہل ٹیکس دہندہ قوم کی تعمیر میں حصہ لے، پاکستان کو اپنی برآمدات میں تنوع لانا چاہیے، قابل قدر اشیا اور خدمات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

    ہمیں اپنی آئی ٹی انڈسٹری کو معاشی ترقی کا کلیدی محرک بنانا ہوگا، ڈیجیٹل اور انفارمیشن ہائی ویز کی تعمیر، آئی ٹی پارکس میں سرمایہ کاری، انٹرنیٹ تک رسائی اور رفتار بڑھانے اور ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے لیے پائیدار سپورٹ کی ضرورت ہے۔

    کاروبار کا فروغ اور نوکریاں

    ہمیں قرضوں تک رسائی، طریقہ کار اور بیوروکریٹک رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا، ایسی پالیسیاں بنانا ہوگی جو نوجوانوں کے شروع کردہ کاروبار کو فروغ دیں، ہمارے نوجوانوں کو ایس ایم ای پر مرکوز پروگراموں، ہنر مندی کے منصوبوں اور آسان قرضہ اسکیموں کے ذریعے کاروباری دنیا میں داخل ہونے کی ترغیب دینی چاہیے، ایوان پر زور دیتا ہوں کہ وہ کاروبار کرنے میں آسانی بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرے، سرمایہ کاروں، چھوٹے کاروباروں اور بین الاقوامی کمپنیوں کیلئے پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے ایک پرکشش مقام بنانا چاہیے۔

    آج عام آدمی، مزدور اور تنخواہ دار طبقے کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے، ہمارے شہری مہنگائی، اشیائے ضروریہ کی بلند قیمتوں اور توانائی کی بڑھتی قیمتوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، میں اس پارلیمنٹ اور حکومت پر زور دیتا ہوں کہ وہ آگلے بجٹ میں عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کریں، حکومت کو آئندہ بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافے، تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کم کرنے اور توانائی کی لاگت کم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں، ہمیں ملازمتوں میں کمی سے بچنا چاہیے، ہماری توجہ نوکریاں پیدا کرنے اور تربیت یافتہ افرادی قوت کے نتیجہ استعمال پر مرکوز ہونی چاہیے۔

    خواتین اور بچے

    خواتین کی زندگی کے ہر شعبے میں نمائندگی کم ہے، مختلف شعبوں میں خواتین کی نمائندگی کو بڑھا کر انھیں بااختیار بنانا ضروری ہے، حکومت اور پارلیمنٹ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے وژن کے مطابق کمزور طبقے کی خواتین کو مالی طور پر خود مختار بنائے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام لاکھوں خاندانوں کے لیے ایک اہم لائف لائن ہے، اس پروگرام کی رسائی اور رقم کو مزید بڑھانا چاہیے، نوجوان ہماری موجودہ آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ ہیں، نوجوانوں کو امید اور حوصلہ دینے کی ضرورت ہے۔

    یقینی بنانا ہوگا کہ بچے پاکستان میں اسکولوں سے باہر نہ ہوں، علم پر مبنی معیشت کی تعمیر کے لیے اعلیٰ تعلیم کا فروغ، جامعات میں تحقیق بڑھانا ہماری بنیادی ترجیح ہونی چاہیے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیتا ہوں کہ آئندہ بجٹ میں تعلیمی شعبے کے لیے میکرو لیول پر مختص رقم میں اضافہ کریں، اسکالرشپ اور مالی امداد کے پروگراموں کے ذریعے نوجوانوں کو مزید مواقع فراہم کریں، اپنے تمام شہریوں کے لیے معیاری صحت کی دیکھ بھال تک رسائی بڑھانے اور غورکرنا ہوگا، بچوں میں غذائیت کی کمی اور پولیو کے تشویش ناک واقعات کو کم کرنا ہوگا، بنیادی صحت کی سہولیات پر توجہ دی جانی چاہیے۔

    علاقائی روابط

    ملکی اور علاقائی روابط خوش حال پاکستان کے لیے بنیادی حیثیت کے حامل ہیں، ہمیں ایک مضبوط اور موثر ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر، روڈ نیٹ ورکس اور جدید ریلوے کی ضرورت ہے، گلگت بلتستان اور بلوچستان روابط اور ترقی کے حوالے سے خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں، بلوچستان اور گلگت بلتستان پاکستان کی سٹریٹجک سرحدیں ہیں، ہماری قومی معیشت کے لیے ناگزیر ہیں، ان علاقوں پر توجہ سے غربت میں کمی آئے گی، نئی ملازمتوں، مہارتوں، منڈیوں معیشت کو فروغ حاصل ہوگا، چین پاکستان اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ ہمارے روابط اور مواصلات کے وژن میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جانا چاہیے تاکہ پاکستان بین الاقوامی تجارت کے لیے ایک گیٹ وے کے طور پر کام کر سکے۔

    زراعت

    وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیتا ہوں کہ زراعت کے شعبے کو مستحکم بنائیں، پانی کے پائیدار انتظام، موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے ہنگامی کام کے لیے ہم آہنگی اور تحریک کی ضرورت ہے، زراعت ہماری معیشت کا ایک اہم ستون ہے، زرعی شعبے میں جدید طریقے، بہتر بیج کی تیاری کی ضرورت ہے، زرعی تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری اور زمین کو زیادہ پیداواری بنا کر روزگار کے مواقع پیدا کریں، کھیتی کی پیداوار کو بہتر بنانے، مویشیوں کی پیداوار بڑھانے اور خوراک کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے ہمارے کسانوں کو جدید آلات سے لیس ہونا چاہیے، خوراک کی پیداوار میں استحکام اور خود کفالت ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔

    پانی

    ہمیں پانی کی زیادہ دستیابی اور اس کے مؤثر استعمال پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، پانی کی دستیابی کیلئے تاجکستان سے بلوچستان تک پانی لانے جیسے نئے حل پر کام کرنا چاہیے۔ صدر مملکت کا آبپاشی کے نظام کو اپ گریڈ کرنے، پانی کے تحفظ اور تقسیم کے لیے نئی ٹیکنالوجیز کے استعمال پر زور دیا، اور کہا ہمارے ماہی گیری اور لائیو سٹاک کے شعبوں میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے، پاکستان کے دریاؤں، جھیلوں اور ساحلی علاقوں میں ماہی گیری کے غیر استعمال شدہ مواقع موجود ہیں، کمرشل سطح مویشی پالنے سے روزگار اور برآمدات کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔

    ماہی گیری اور مویشی بانی

    حکومت پر زور دیتا ہوں کہ وہ نوجوانوں کو مراعات، تربیت اور مدد فراہم کرے، ماہی گیری اور مویشی بانی کی صنعتوں کو ہمارے معاشی مستقبل کا ایک اہم حصہ بنانا چاہیے، حکومت پر زور دیتا ہوں کہ ماہی گیری اور مویشی بانی میں چین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون کی کوشش کرے، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے، ہمیں حیاتیاتی تنوع کی بحالی، تحفظ خوراک اور پانی کی حکمت عملی، اور ماحولیاتی نظام کے تحفظ پر توجہ دینی چاہیے۔

    قابل تجدید توانائی اور برقی گاڑیوں کے فروغ میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے، سندھ کے مینگرووز ایک روشن مثال ہیں کہ تحفظ کی کوششوں سے کیا کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے، مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ سندھ میں ہم نے 2 ارب مینگرووز لگائے ہیں، مینگروز سے سندھ حکومت کو کاربن کریڈٹ کے ذریعے خاطر خواہ مالی فوائد بھی حاصل ہوئے، ہمیں سندھ کے مینگروز ماڈل کو فعال طور پر نقل کرنا چاہیے اور بین الاقوامی کاربن کریڈٹ مارکیٹ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

    دہشت گردی

    موجودہ اندرونی اور بیرونی سیکیورٹی چیلنجز کے پیش نظر سیکیورٹی صلاحیتوں کو مزید مضبوط بنانے، دہشتگردی سے مؤثر انداز میں نمٹنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد بڑھانے کی ضرورت ہے، پارلیمنٹ کو انتہا پسندانہ نظریات، تشدد کی حمایت کرنے والی عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے اتفاق رائے قائم کرنے میں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، آج دہشت گردوں کو جو بیرونی سپورٹ اور فنڈنگ مل رہی ہے اس سے ہم سب واقف ہیں، ہم دوبارہ دہشتگردی کو سر اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

    خارجہ پالیسی

    ہماری خارجہ پالیسی ہمیشہ قومی مفادات، بین الاقوامی تعاون، خودمختاری اور باہمی احترام کے اصولوں پر مبنی رہے گی، ہمیں دوست علاقائی ممالک کے ساتھ تجارت، معیشت، ماحول اور ثقافت کے تبادلے کے شعبوں میں تعاون بڑھانا چاہیے، ہم ایک ذمہ دار اور امن پسند قوم کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے، چین کے ساتھ ہمارے تعلقات ہماری سفارت کاری کا سنگ بنیاد ہیں، ہم بیجنگ کے ساتھ اقتصادی اور تزویراتی تعلقات کو مزید مستحکم کرتے رہیں گے، ہم اپنے قابل اعتماد دوستوں — سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی اور دیگر — کے تعاون کو دل کی گہرائیوں سے سراہتے ہیں، دوست ممالک اقتصادی چیلنجوں کے وقت ہمارے ساتھ کھڑے رہے۔

    دوست ممالک اور امریکا

    ہم خلیج اور وسطی ایشیا کے دوست ممالک کے ساتھ ساتھ یورپی یونین، برطانیہ اور ریاستہائے متحدہ امریکا کے ساتھ اپنے دیرینہ تاریخی، ثقافتی اور اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہیں، امریکا اور پاکستان کے درمیان حالیہ کامیاب انسداد دہشت گردی تعاون حوصلہ افزا ہے، دونوں ممالک کو مشترکہ مقاصد کے لیے تعاون کی تجدید اور اضافہ کے لیے ان کامیابیوں پر تعلقات کو قائم کرنا چاہیے۔

    مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہمارے بھائیوں اور بہنوں کی حالت زار پوری قوم کے لیے تشویشناک ہے، کشمیری عوام کئی دہائیوں سے متواتر بھارتی حکومتوں کے ناجائز قبضے، جبر اور انسانی حقوق کی وحشیانہ خلاف ورزیوں کا شکار ہیں، پاکستان کشمیری عوام کی حق خودارادیت کی جدوجہد میں ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑا رہے گا، فلسطین میں سلسلہ وار تباہی دنیا کی فوری توجہ کی متقاضی ہے، فلسطینی عوام مسلسل تشدد، نقل مکانی، نسلی تطہیر اور جبر کو برداشت کر رہے ہیں، ایک آزاد، خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، خطے میں دیرپا امن کے لیے ضروری ہے۔

    آئیے ہم اپنی معیشت کو بحال کرنے، اپنی جمہوریت کو مضبوط کرنے اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے مل کر کام کریں، آئیے اس پارلیمانی سال کا بہترین استعمال کریں۔

  • صدر آصف زرداری کی  استنبول ائیرپورٹ پر  ترک صدر سے ملاقات

    صدر آصف زرداری کی استنبول ائیرپورٹ پر ترک صدر سے ملاقات

    استنبول: صدر آصف علی زرداری نے پرتگال جاتے ہوئے استنبول ائیرپورٹ پر طیب اردگان سے ملاقات کی۔

    صدر آصف علی زرداری کی ترک صدر رجب طیب اردگان ملاقات ہوئی ، صدر کا دورہ پرتگال کے دوران ترکی میں مختصر قیام تھا۔

    ترکیہ کےوزیر خارجہ حاکان فدان نے صدرمملکت کا استقبال کیا، استنبول ایئرپورٹ پر صدر زرداری سے ترک صدر رجب طیب اردگان نے ملاقات کی۔

    ترک صدر سےملاقات کےدوران دونوں صدور کا خوشگوار جملوں کا تبادلہ ہوا جبکہ دوطرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    صدر مملکت پرنس کریم آغا خان کے انتقال پر اظہار افسوس کیلئے اس وقت پرتگال کے دورے پر ہیں۔

    خیال رہے چند روز قبل اسماعیلی کمیونٹی کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان 88 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔

  • پیپلز پارٹی کا نواز شریف سے براہ راست رابطے کا فیصلہ

    پیپلز پارٹی کا نواز شریف سے براہ راست رابطے کا فیصلہ

    اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مابین مذاکرات ڈیڈ لاک کے شکار ہیں، جس کی وجہ سے پی پی نے میاں نواز شریف سے براہ راست رابطے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    پیپلز پارٹی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ آصف زرداری نواز شریف سے رابطہ کریں گے، ان کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو کی بھی نواز شریف سے ملاقات کا امکان ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی معاہدے پر عمل درآمد کے لیے نواز شریف سے رابطہ کر رہی ہے، انھیں وفاقی حکومت سے متعلق پی پی کے تحفظات سے آگاہ کیا جائے گا۔

    ذرائع پی پی کے مطابق پیپلز پارٹی نواز شریف سے مطالبات پورا کرنے کا مطالبہ کرے گی، اور ان سے مذاکرات میں کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا، کیوں کہ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پی پی وزیر اعظم شہباز شریف سے مکمل طور مایوس ہو چکی ہے۔

    پی ٹی آئی نے 26 ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کر دی

    پی پی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم تحریری معاہدے پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہے ہیں، پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا سے متعلق تحفظات بدستور موجود ہیں، پیپلز پارٹی کو وفاقی حکومت سے متعلق بھی سنگین تحفظات ہیں۔

    واضح رہے کہ پی پی کو وفاق میں تعیناتیوں اور قانون سازی سے متعلق تحفظات ہیں۔

  • پیپلز پارٹی قیادت نے رہنماؤں کو حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی اجازت دے دی

    پیپلز پارٹی قیادت نے رہنماؤں کو حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی اجازت دے دی

    اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے صوبائی و مرکزی رہنماؤں کو حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی اجازت دے دی ہے۔

    پی پی ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی نے حکومتی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کا فیصلہ کر لیا ہے، اور اس سلسلے میں قیادت نے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی اجازت دے دی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی آئندہ حکومت کی غلط پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرے گی، قیادت نے اس کے لیے پارٹی رہنماؤں کو گائیڈ لائنز دے دی ہیں، جس کے تحت وفاق اور پنجاب میں حکومت کی غلط پالیسیوں پر کھل کر تنقید ہوگی۔

    یاد رہے کہ پارٹی نے قیادت کو حکومتی پالیسیوں پر تحفظات سے آگاہ کیا تھا، اور قیادت کو حکومتی پالیسیوں پر خاموشی ترک کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا، یہ کہا گیا تھا کہ حکومتی کی غلط پالیسیوں پر خاموشی حمایت کے مترادف ہے، غلط حکومتی پالیسیوں پر خاموشی سیاسی طور نقصان دہ ہے۔

    پارٹی تنظیم نو، پی پی بلوچستان کے رہنماؤں نے عہدوں کے لیے لابنگ شروع کر دی

    پی پی ذرائع نے بتایا کہ حکومت کے غلط کاموں اور ناقص پالیسیوں کا نزلہ پی پی پر گرنا تھا، اور پیپلز پارٹی غلط حکومتی فیصلوں کا نزلہ خود پر نہیں گرنے دے سکتی، اس لیے پیپلز پارٹی کے مرکزی و صوبائی رہنماؤں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کر سکتے ہیں۔

  • صدر نے مدارس رجسٹریشن سے متعلق ترمیمی آرڈیننس جاری کر دیا

    صدر نے مدارس رجسٹریشن سے متعلق ترمیمی آرڈیننس جاری کر دیا

    اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری نے مدارس رجسٹریشن سے متعلق ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کر دیے، قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سوسائٹی رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024 پر صدر پاکستان نے دستخط کر دیے، جس کے بعد یہ ایکٹ بن گیا ہے، صدر مملکت نے وزیر اعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر بل سے متعلق سمری کی منظوری دی۔

    صدر آصف زرداری نے 27 دسمبر کو سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایكٹ 2024 پر دستخط کیے ہیں، ترمیمی ایکٹ کا بل 20 اکتوبر کو سینیٹ اور 21 اکتوبر کو قومی اسمبلی سے منظور ہوا تھا۔

    صدر آصف زرداری نے سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی آرڈیننس گزشتہ روز 28 دسمبر کو جاری کیا ہے، اس آرڈیننس کے ذریعے ایکٹ کے سب سیکشن 5، 6، 7 میں ترامیم کی گئی ہیں۔

    ترجمان قومی اسمبلی کے مطابق قانون کے تحت دینی مدارس کی رجسٹریشن سوسائٹی ایکٹ کے مطابق ہوگی، یہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل کر لیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز صدر آصف علی زرداری نے مولانا راشد محمود سومرو کی قیادت میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) کے وفد کو یقین دہانی کرائی تھی کہ دینی مدارس کے رجسٹریشن بل کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کے تحفظات دور کیے جائیں گے، اور اس مسئلے کو حل کیا جائے گا۔

    پیپلز پارٹی کی قیادت اور جمعیت علمائے اسلام سندھ کے رہنماؤں کے درمیان سیاسی صورت حال کے علاوہ مدارس رجسٹریشن بل پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ صدر زرداری اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یقین دلایا تھا کہ دینی مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ وعدے کے مطابق حل کیا جائے گا۔

  • سمندر سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، صدر آصف زرداری

    سمندر سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، صدر آصف زرداری

    اسلام آباد: صدر پاکستان آصف علی زرداری نے بلیو اکانومی تعاون پر تیسرے چین بحر ہند علاقائی فورم سے ویڈیو خطاب کیا، اس فورم کا انعقاد چین کی عالمی ترقیاتی تعاون ایجنسی نے چین کے شہر کُن مِنگ میں کیا۔

    ویڈیو خطاب میں آصف علی زرداری نے کہا پاکستان بحر ہند کے علاقے میں سمندری تعاون کے فروغ کے لیے پرعزم ہے، سمندر سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔

    انھوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی، آلودگی اور ماحولیاتی نظام کی تنزلی جیسے مسائل حل کرنے ہوں گے، پاکستان بحری شعبے میں تعاون کے فروغ کے لیے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ شراکت کا خواہاں ہے، پاکستان چاہتا ہے کہ ہمارا خطہ امن، ترقی اور پائیداری کا گڑھ بنا رہے۔

    صدر آصف زرداری کا کہنا تھا کہ مستقبل کی عالمی معاشی ترقی مشرقی ممالک پر انحصار کرے گی، دنیا کی بڑی آبادی چین اور ہمارے خطے کے دیگر ممالک میں رہتی ہے۔

    صدر مملکت نے ویڈیو پیغام میں بحر ہند میں امن، ترقی اور پائیداری کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا اور کہا پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت گوادر پورٹ کو ترقی دی جا رہی ہے، گوادر پورٹ کو علاقائی روابط کے مرکز میں بدلا جا رہا ہے، بندرگاہ سے تجارت اور سمندری اقتصادی ترقی کو فروغ حاصل ہوگا۔

    انھوں نے کہا کہ پاکستان نے نیشنل میری ٹائم پالیسی متعارف کرائی، اور پائیدار ماہی گیری اور سمندری تحفظ کے لیے اقدامات کیے گئے۔