Tag: آغا بابر

  • یومِ وفات:‌ انسان کے ظاہر و باطن کو سمجھنے کی کوشش کرنے والا آغا بابر

    یومِ وفات:‌ انسان کے ظاہر و باطن کو سمجھنے کی کوشش کرنے والا آغا بابر

    اردو افسانہ نگاری میں ہی نہیں آغا بابر نے ادبی صحافت میں بھی اپنے توانا قلم اور تخلیقی صلاحیتوں کی بناء پر منفرد پہچان بنائی اور علمی و ادبی حلقوں میں نام پیدا کیا۔ آغا بابر 1998ء میں آج ہی کے روز امریکہ میں انتقال کرگئے تھے۔

    آغا بابر نے اپنے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا تھا، لیکن جلد ہی نثر کی طرف مائل ہوگئے اور خاص طور پر افسانہ نگاری میں پہچان بنائی۔ وہ 31 مارچ 1919ء کو بٹالہ، ضلع گور داس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سجاد حسین تھا، لیکن جہانِ ادب میں‌ آغا بابر کے نام سے مشہور ہوئے۔ تقسیم کے بعد آغا بابر نے ہجرت کی اور پاکستان چلے آئے۔ یہاں ان کی تخلیقی صلاحیتوں نے شاعری سے ہٹ کر افسانہ نگاری میں طبع آزمائی پر آمادہ کیا تو وہ کہانیاں لکھنے لگے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی زمانے میں اردو افسانہ نگاری میں دو واضح رجحانات نظر آتے تھے جس میں ایک طرف تو افسانہ نگار فرد کی بے بسی اور مجبوری کو موضوع بناتے دکھائی دیتے ہیں اور دوسرے افسانہ نگار خواب و خیال کی رنگینیوں، رعنائیوں اور فطری مسرتوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ ان کے درمیان اپنی تخلیقات کے سبب پہچان بناتے ہوئے آغا بابر نے بھی انسانی رشتوں، تعلقات اور جنس کو موضوع بنایا اور ان کے افسانوں میں فرد کے جذبات کی عکاسی نظر آتی ہے۔ نقادوں کے مطابق آغا بابر کے افسانے انسان کے ظاہر و باطن کو سمجھنے کی کوشش ہیں۔

    "باجی ولایت” آغا بابر کا ایک یادگار افسانہ ہے جس کا موضوع جنس ہے۔ آغا بابر کے افسانوں کا موضوع عورت، جنسی الجھنیں اور عورت کے احساسات و جذبات ہیں۔ "بیوگی، مریض، روح کا بوجھ، چال چلن جیسے افسانے آغا بابر کے اسلوب کے ساتھ اپنی مؤثر پیش کاری کے سبب ان کی پہچان ہیں۔

    آغا بابر گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ مشہور افسانہ نگار اور مؤرخ عاشق حسین بٹالوی اور ممتاز قانون دان اعجاز حسین بٹالوی کے بھائی تھے۔ آغا بابر نے فلموں کے لیے مکالمہ نویسی اور ڈرامے بھی لکھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ عسکری ادارے کے ایک جریدے مجاہد اور ہلال سے بحیثیت مدیر منسلک رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ امریکا چلے گئے تھے اور وہیں انتقال کے بعد ان کی تدفین ہوئی۔

    آغا بابر کے افسانوی مجموعوں میں چاک گریباں، لبِ گویا، اڑن طشتریاں، پھول کی کوئی قیمت نہیں، حوا کی کہانی اور کہانی بولتی ہے شامل ہیں جب کہ ان کے ڈراموں کے تین مجموعے بڑا صاحب، سیز فائر اور گوارا ہو نیشِ عشق بھی شایع ہوئے۔

    آغا بابر نے اپنی سوانح عمری لکھنا شروع کی تھی، لیکن فرشتۂ اجل نے انھیں‌ مہلت نہیں دی اور وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔

  • آغا بابر: وہ تخلیق کار جس کی زندگی کی کہانی ادھوری رہ گئی!

    آغا بابر: وہ تخلیق کار جس کی زندگی کی کہانی ادھوری رہ گئی!

    آغا بابر اردو افسانہ نگاری اور ادبی صحافت کا ایک معروف نام ہے جو اپنی سواںح عمری مکمل نہیں کرسکے اور 1998ء میں آج ہی کے دن امریکہ میں وفات پاگئے۔ آغا بابر نے اپنے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا تھا، لیکن جلد ہی نثر کی طرف مائل ہوگئے۔

    31 مارچ 1919 کو آغا بابر نے بٹالہ، ضلع گور داس پور میں‌ آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام سجاد حسین تھا، لیکن جہانِ ادب میں‌ آغا بابر کے نام سے مشہور ہوئے۔ انھوں نے تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کی اور یہاں افسانہ نگاروں میں نمایاں مقام بنایا۔ قیام پاکستان کے ابتدائی زمانے میں اردو افسانہ نگاری میں دو واضح رجحانات نظر آتے تھے جس میں ایک طرف تو افسانہ نگار فرد کی بے بسی اور مجبوری کو موضوع بناتے دکھائی دیتے ہیں اور دوسرے افسانہ نگار خواب و خیال کی رنگینیوں، رعنائیوں اور فطری مسرتوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ ان کے درمیان اپنی تخلیقات کے سبب پہچان بناتے ہوئے آغا بابر نے بھی انسانی رشتوں، تعلقات اور جنس کو موضوع بنایا اور ان کے افسانوں میں فرد کے جذبات کی عکاسی نظر آتی ہے۔ نقادوں کے مطابق آغا بابر کے افسانے انسان کے ظاہر و باطن کو سمجھنے کی کوشش ہیں۔

    "باجی ولایت” آغا بابر کا ایک یادگار افسانہ ہے جس کا موضوع جنس ہے۔ آغا بابر کے افسانوں کا موضوع عورت، جنسی الجھنیں اور عورت کے احساسات و جذبات ہیں۔ "بیوگی، مریض، روح کا بوجھ، چال چلن جیسے افسانے آغا بابر کے اسلوب کے ساتھ اپنی مؤثر پیش کاری کے سبب ان کی پہچان ہیں۔

    افسانہ نگار آغا بابر گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ مشہور افسانہ نگار اور مؤرخ عاشق حسین بٹالوی اور ممتاز قانون دان اعجاز حسین بٹالوی کے بھائی تھے۔ آغا بابر نے فلموں کے لیے مکالمہ نویسی اور ڈرامے بھی لکھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ عسکری ادارے کے ایک جریدے مجاہد اور ہلال سے بحیثیت مدیر منسلک رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ امریکا چلے گئے تھے اور وہیں انتقال کے بعد ان کی تدفین ہوئی۔

    آغا بابر کے افسانوی مجموعوں میں چاک گریباں، لبِ گویا، اڑن طشتریاں، پھول کی کوئی قیمت نہیں، حوا کی کہانی اور کہانی بولتی ہے شامل ہیں جب کہ ان کے ڈراموں کے تین مجموعے بڑا صاحب، سیز فائر اور گوارا ہو نیشِ عشق بھی شایع ہوئے۔

    زندگی کے آخری دنوں‌ میں آغا بابر اپنی سوانح عمری لکھ رہے تھے، لیکن فرشتۂ اجل نے انھیں‌ اس کی تکمیل کی مہلت نہیں دی۔

  • آغا بابر کا تذکرہ جو اپنی سوانح عمری ادھوری چھوڑ گئے

    آغا بابر کا تذکرہ جو اپنی سوانح عمری ادھوری چھوڑ گئے

    آغا بابر اردو کے معروف افسانہ نگار اور صحافی تھے۔ ان کا ادبی سفر شاعری سے شروع ہوا، لیکن جلد ہی افسانہ نگاری کی طرف آگئے اور اردو ادب کو کئی خوب صورت کہانیاں دے کر 1998ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے کوچ کیا۔

    آغا بابر 31 مارچ 1919 کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام سجاد حسین تھا، لیکن جہانِ ادب میں‌ آغا بابر کے نام سے شہرت پائی۔ صحافت بھی آغا بابر کا معروف حوالہ ہے۔

    تقسیم کے بعد پاکستان میں افسانہ نگاری کا سلسلہ رواں دواں رہا اور 1947ء کے بعد جو نام سامنے آئے ان میں آغا بابر بھی نمایاں ہیں۔ اس زمانے میں اردو افسانے میں دو واضح رجحانات نظر آئے جس میں ایک جانب افسانہ نگار فرد کی بے بسی اور مجبوری کو موضوع بناتا رہا اور دوسری طرف فطرت کے مطابق خواب و خیال کی رنگینیوں اور رعنائیوں اور فطری مسرتوں کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی۔ آغا بابر نے بھی انسانی رشتوں، تعلقات اور جنس کو موضوع بناتے ہوئے فرد کے جذبات کی عکاسی کی۔ ان کے افسانے انسان کے ظاہر و باطن کو سمجھنے کی کوشش ہیں۔

    "باجی ولایت” ان کا ایک ناقابلِ فراموش افسانہ ہے جس کا موضوع جنس ہے۔ آغا بابر کے افسانوں کا موضوع عورت، جنسی الجھنیں اور عورت کے احساسات و جذبات ہیں۔ "بیوگی، مریض، روح کا بوجھ، چال چلن جیسے افسانے آغا بابر کے اسلوب کے ساتھ اپنی مؤثر پیش کاری کے سبب ان کی پہچان ہیں۔

    آغا بابر گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ مشہور افسانہ نگار اور مؤرخ عاشق حسین بٹالوی اور ممتاز قانون دان اعجاز حسین بٹالوی کے بھائی تھے۔ آغا بابر نے فلموں کے لیے مکالمہ نویسی اور ڈرامے بھی لکھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ عسکری ادارے کے ایک جریدے مجاہد اور ہلال سے بحیثیت مدیر منسلک ہوگئے۔ آغا بابر ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا چلے گئے تھے اور وفات کے بعد وہیں دفن ہوئے۔

    آغا بابر کے افسانوی مجموعوں میں چاک گریباں، لبِ گویا، اڑن طشتریاں، پھول کی کوئی قیمت نہیں، حوا کی کہانی اور کہانی بولتی ہے شامل ہیں جب کہ ان کے ڈراموں کے تین مجموعے بڑا صاحب، سیز فائر اور گوارا ہو نیش عشق بھی شایع ہوئے۔

    اردو کے اس نام ور افسانہ نگار نے اپنی سوانح عمری لکھنا شروع کی تھی، لیکن فرشتۂ اجل نے انھیں‌ اس کام کو مکمل کرنے مہلت نہیں دی۔

  • آغا بابر کا تذکرہ جن کی زندگی کی کہانی ادھوری رہ گئی!

    آغا بابر کا تذکرہ جن کی زندگی کی کہانی ادھوری رہ گئی!

    آج اردو زبان کے اہم افسانہ نگار اور صحافی آغا بابر کا یومِ وفات ہے۔ 1998ء میں دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    آغا بابر 31 مارچ 1919ء کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سجاد حسین تھا، لیکن دنیائے ادب میں‌ آغا بابر کے نام سے پہچانے گئے۔

    گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل آغا بابر نے فلمی مکالمہ نویسی سے اپنی عملی زندگی شروع کی اور ڈرامے بھی تحریر کیے۔ قیامِ پاکستان کے بعد آئی ایس پی آر کے جریدے مجاہد اور ہلال کی ادارت کی۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا منتقل ہوگئے اور وہیں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    آغا بابر کے افسانوی مجموعوں میں چاک گریباں، لب گویا، اڑن طشتریاں، پھول کی کوئی قیمت نہیں، حوا کی کہانی اور کہانی بولتی ہے شامل ہیں جب کہ ان کے ڈراموں کے تین مجموعے بڑا صاحب، سیز فائر اور گوارا ہو نیش عشق کے نام سے شایع ہوئے۔

    آغا بابر نے زندگی کے آخری ایّام میں اپنی سوانحِ حیات بھی لکھنا شروع کی تھی، لیکن اجل نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا موقع نہ دیا۔ وہ وفات کے بعد نیویارک ہی کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔

  • آغا بابر جو اپنی سوانحِ حیات مکمل نہ کرسکے!

    آغا بابر جو اپنی سوانحِ حیات مکمل نہ کرسکے!

    آغا بابر اردو کے اہم افسانہ نگار اور صحافی تھے جن کی آج برسی ہے۔ 25 ستمبر 1998 کو وفات پانے والے آغا بابر 31 مارچ 1919 بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سجاد حسین تھا، لیکن دنیائے ادب میں‌ آغا بابر کے نام سے پہچانے گئے۔

    گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ انھوں‌ نے فلموں کے لیے مکالمہ نویسی سے اپنی عملی زندگی شروع کی اور ڈرامے بھی لکھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد آئی ایس پی آر کے جریدے مجاہد اور ہلال کی ادارت انجام دیتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ امریکا چلے گئے اور وہیں زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    آغا بابر کے افسانوی مجموعوں میں چاک گریباں، لب گویا، اڑن تشتریاں، پھول کی کوئی قیمت نہیں، حوا کی کہانی اور کہانی بولتی ہے شامل ہیں جب کہ ان کے ڈراموں کے تین مجموعے بڑا صاحب، سیز فائر اور گوارا ہو نیش عشق کے نام سے شایع ہوئے۔

    آغا بابر نے زندگی کے آخری ایّام میں اپنی سوانحِ حیات بھی لکھنا شروع کی تھی، لیکن اجل نے انھیں‌ یہ کام انجام تک پہنچانے کا موقع نہ دیا اور وہ دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ وہ نیویارک میں‌ مدفون ہیں۔