Tag: آغا حشر

  • آغا صاحب چومکھی لڑنا جانتے تھے!

    آغا صاحب چومکھی لڑنا جانتے تھے!

    تھیٹر اور ڈرامہ نویسی کو بامِ عروج پر پہنچانے والے آغا حشر کو ہندوستانی شیکسپیئر کا لقب دیا گیا تھا۔ ان کے فن و شخصیت پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور آغا صاحب کے بعض ہم عصر ادیبوں نے ان سے اپنی ملاقاتوں اور گفتگو کا احوال بھی لکھا ہے۔

    مردم دیدہ چراغ حسن حسرت کے شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے جس میں انھوں نے آغا حشر کی شخصیت پر بھی مضمون شامل کیا ہے۔ اس سے ایک اقتباس یہاں نقل کیا جارہا ہے:

    یہ جس زمانے کا ذکر ہے، ہندوستان میں فلموں کا رواج نہیں تھا۔ جو کچھ تھا تھیٹر ہی تھیٹر تھا اور اس دنیا میں آغا حشر کا طوطی بول رہا تھا۔ یوں تو اور بھی اچھے اچھے ڈراما آرٹسٹ موجود تھے۔ احسن، بیتاب، طالب، مائل سب کے سب لنکا کے باون گزے تھے لیکن آغا کے سامنے بونے معلوم ہوتے تھے۔ سنہ 1921ء میں جب مجھے پہلی مرتبہ لاہور آنے کا اتفاق ہوا تو یہاں آغا حشر کی شاعری کی دھوم تھی۔ان کی نظموں’ موجِ زمزم‘اور ’شکریہ یورپ‘ کے اکثر اشعار لوگوں کو زبانی یاد تھے اور لوگ انہیں آغا کی طرح مٹھیاں بھینچ کر گونجیلی آواز میں پڑھنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ آغا اپنے عروج شباب کے زمانے میں صرف ایک مرتبہ پنجاب آئے لیکن ان کا یہ آنا عوام و خواص، دونوں کے حق میں قیامت تھا۔ انہوں نے انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں ایسی نظم پڑھی کہ روپے پیسے کا مینہ برس گیا اور جو کام بڑے بڑے عالموں سے نہ ہوسکا، آغا نے کر دکھایا۔

    میں سنہ 1925 میں کلکتہ گیا۔ وہاں ان کے ہزاروں مدّاح موجود تھے۔ ان کی زبانی آغا کی زندگی کے اکثر واقعات، ان کے لطیفے، اشعار اور پھبتیاں سنیں۔ کوئی سال بھر کے بعد میں نے ا ن کے ایک مداح سے کہا کہ آغا صاحب سے کب ملوائے گا۔ وہ کہنے لگے’نیکی اور پوچھ پوچھ۔ ابھی چلو‘۔ ہم بخط مستقیم آغا کے ہاں پہنچے۔صحن سے ملا ہوا ایک وسیع کمرہ تھا۔ اس میں ایک چارپائی اور دو تین کرسیاں پڑی تھیں۔ چارپائی پر آغا صاحب صرف لنگی باندھے اور ایک کرتا پہنے لیٹے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی اٹھ بیٹھے۔ سر پر انگریزی فیشن کے بال، داڑھی منڈی ہوئی،چھوٹی چھوٹی مونچھیں، دہرا جسم، سرخ و سپید رنگ، میانہ قد، ایک آنکھ میں نقص تھا۔ محفل میں بیٹھے ہوئے ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ میری طرف ہی دیکھ رہے ہیں۔ بڑے تپاک سے ملے اور ادبی ذکر و اذکار چھڑ گئے۔ آغا صاحب نے اگرچہ ہزاروں کمائے اور لاکھوں اڑائے لیکن ان کی معاشرت ہمیشہ سیدھی سادی رہی۔ مکان میں نہ نفیس قالین تھے نہ، صوفے نہ کوچ نہ ریشمی پردے نہ غالیچے۔ گھر میں ہیں تو لنگی باندھے، ایک بنیان پہنے کھرّی چارپائی پر بیٹھے ہیں۔ باہر نکلے تو ریشمی لنگی اور لمبا کرتا پہن لیا۔ میں نے پہلی مرتبہ انہیں اسی وضع میں دیکھا۔

    آغا بڑے حاضر جواب اور بذلہ سنج شخص تھے۔ جس محفل میں جا بیٹھتے، سب پر چھا جاتے۔ جب شام کو صحبت گرم ہوتی، تین تین چار چار آدمی مل کر آغا پر پھبتیوں کا جھاڑ باندھ دیا کرتے تھے، لیکن آغا چومکھی لڑنا جانتے تھے۔ حریف دم بھر میں ہتھیار ڈال دیتا لیکن آغا کی زبان نہ رکتی تھی۔ جس شخص سے بے تکلفی بڑھانا منظور ہوتا اسے اِس بے ساختگی سے گالی دے بیٹھتے تھے کہ بیچارا حیران رہ جاتا تھا۔ لیکن آغا کنجڑے قصابوں جیسی گالیاں تھوڑے ہی دیتے تھے۔ انہوں نے گالی کو شعر و ادب سے ترکیب دے کر خوش نما چیز بنا دیا تھا۔

  • ہندوستانی شیکسپیئر آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات

    ہندوستانی شیکسپیئر آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات

    آغا حشر کاشمیری ہندوستان کے نام وَر ڈراما نویس اور مترجم تھے جنھوں نے تھیٹر کے لیے طبع زاد کھیل اور عمدہ تراجم پیش کرکے ہندوستان بھر میں اس میڈیم کی مقبولیت میں‌ اضافہ کیا۔ ان کی کہانیاں شان دار اور مکالمے اتنے جان دار ہوتے تھے کہ انھیں ہندوستانی شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ آج آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔ وہ 28 اپریل 1935ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    آغا حشر کو ایک ایسے تخلیق کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جن کی طبع زاد کہانیوں اور ڈراموں کو ایک سے زائد مرتبہ پردے پر دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں شائقین تھیٹر کا رخ کرتے۔ اس زمانے میں تھیٹر اور اسٹیج ہر خاص و عام کی تفریح کا ذریعہ تھا اور اس کی مقبولیت کی ایک وجہ معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کی تمثیل نگاری تھی۔ آغا حشر نے ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ جیسے یادگار ڈرامے لکھے جنھیں‌ تھیٹر کے شائقین نے بے حد سراہا۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ برصغیر میں ڈراما نویسی اور تھیٹر کے حوالے سے مشہور آغا حشر کاشمیری ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ ان کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    آغا حشر کاشمیری نے یکم اپریل 1879 کو اس دنیا میں آنکھ کھولی، ان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ ان کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ آغا حشر کو نوعمری میں تھیٹر اور ڈرامے دیکھنے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا جب وہ خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوگئے۔ چند ابتدائی کہانیوں کے بعد انھوں نے بمبئی کے الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے لیے ڈراما نویسی شروع کردی۔ 1910 میں انھوں نے اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کی اور اپنے ڈراموں کے لیے ہدایات بھی دینے لگے۔

    آغا حشر کاشمیری اردو ڈرامے کی تاریخ میں بڑا اہم مقام رکھتے ہیں۔ جب بھی ہندوستان میں‌ اردو ڈراما نویسی، تراجم اور تھیٹر کی تاریخ پر بات کی جائے گی تو آغا حشر کاشمیری کا نام ضرور لیا جائے گا۔ آغا حشر لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ‘‘ کون آغا حشر؟’’

    ‘‘ کون آغا حشر؟’’

    ایک دن آغا عصرِ جدید کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ کچھ اور لوگ بھی جمع تھے۔ آغا باتیں کر رہے تھے۔ ہم سب بُت بنے بیٹھے سن رہے تھے۔ اتنے میں سید ذاکر علی جو ان دنوں کلکتہ خلافت کمیٹی کے سکریٹری تھے اور آج کل مسلم لیگ کے جائنٹ سکریٹری ہیں، پھرتے پھراتے آ نکلے۔

    تھوڑی دیر وہ چپکے بیٹھے آغا کی باتیں سنا کیے، لیکن پھر ان کے چہرے سے بے چینی کے آثار ظاہر ہونےلگے۔ کچھ تو انھیں یہ بات ناگوار گزری کہ ایک شخص بیٹھا باتیں کیے جارہا ہے اور کسی دوسرے کو بات نہیں کرنے دیتا کیوں کہ سید صاحب خود بھی بڑے بذلہ سنج اور لطیفہ گو بزرگوار ہیں اور انھوں نے اگلے پچھلے ہزاروں لطیفے یاد کر رکھے ہیں اور غالباً اس وقت انہیں کوئی نیا لطیفہ یاد آگیا جسے سنانے کے لیے وہ بے قرار تھے۔ دوسرے آغا کی گفتگو میں خود ستائی کا عنصر بہت زیادہ تھا۔ اور وہ اپنی شاعری کا تذکرہ کر رہے تھے اور اپنے بعض ہم عصر شعرا پر چوٹیں بھی کرتے جاتے تھے۔

    سید ذاکر علی کو ان کی باتوں پر غصہ بھی تھا اور حیرت بھی۔ جی ہی جی میں کہہ رہے تھے کہ خدا جانے یہ کون شخص ہے جو اقبال، ابوالکلام، ظفر علی خاں کا ذکر اس انداز میں کر رہا ہے گویا سب ساتھ کے کھیلے ہوئے دوست اور بچپن کے رفیق ہیں۔ آخر ان سے ضبط نہ ہوسکا اور کہنے لگے۔ ‘‘یہ کون بزرگوار ہیں، ذرا ان سے میرا تعارف تو کرادیجیے۔’’

    مولانا شائق بولے۔ ‘‘آپ ان کو نہیں جانتے۔ آغا حشر یہی ہیں، آغا صاحب یہ سید ذاکر علی ہیں کلکتہ خلافت کمیٹی کے نئے سکریٹری۔ مولانا شوکت علی نے ان کو بمبئی سے بھیجا ہے۔’’

    ہم سمجھتے تھے کہ اس معرفی کے بعد سید ذاکر علی کا استعجاب دور ہوجائے گا، لیکن وہ بڑی سادگی سے کہنے لگے۔ ‘‘آغا حشر! کون آغا حشر؟’’ بس ان کا یہ کہنا قیامت ہوگیا۔

    آغا صاحب کڑک کر بولے: ‘‘آپ نے آغا حشر کا نام نہیں سنا۔’’ سید ذاکر علی نے جواب دیا ‘‘نہیں صاحب! میں نے آج پہلی مرتبہ جناب کا نام سنا ہے۔’’ پھر پلٹ کے مولانا شائق سے پوچھنے لگے:

    ‘‘آغا صاحب کا شغل کیا ہے؟ ’’مولانا شائق نے فرمایا: ‘‘ہائیں سید ذاکر علی صاحب! آپ نے واقعی آغا حشر کا نام نہیں سنا۔ آپ کس دنیا میں رہتے ہیں؟’’ انہوں نے بڑی مسمی صورت بنا کے کہا:

    ‘‘مجھ سے قسم لے لیجیے، میں نے آج تک یہ نام نہیں سنا۔’’ خدا جانے وہ بَن رہے تھے یا واقعی انہوں نے آغا کا نام نہیں سنا تھا۔ ہم سب کو حیرت تھی کہ یہ شخص کلکتہ خلافت کمیٹی کا سکریٹری، مدتوں اہلِ ذوق کی صحبت میں رہ چکا ہے۔ شعر و شاعری کا بھی مذاق رکھتا ہے، لیکن آغا حشر کو نہیں جانتا۔

    خیر مولانا شائق احمد نے انہیں سمجھایا کہ دیکھیے یہ آغا حشر ہیں۔ بہت بڑے شاعر، بہت بڑے ڈراماٹسٹ، لوگ انھیں ہندوستان کا شیکسپیئر کہتے ہیں۔ تو ان کی سمجھ میں بات آگئی اور کہنے لگے:

    ‘‘اچھا تو آپ شاعر ہیں۔ میں اب سمجھا۔ خیر اب اس بحث کو جانے دیجیے، اپنا کوئی شعر سنائیے۔’’ آغا بھرے بیٹھے تھے۔ یہ سن کے آگ بگولا ہوگئے، اور کہنے لگے:

    ‘‘سنیے جناب! آپ کو شعر سننا ہے تو خلافت کمیٹی کے لونڈوں سے سنیے۔ میں ایسا ویسا شاعر نہیں کہ ہر ایرے غیرے پچ کلیان کو شعر سناتا پھروں۔’’ پھر جو انھوں نے تقریر شروع کی تو اللہ دے اور بندہ لے۔

    ہمارا یہ حال تھا کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں اور سید ذاکر علی پر تو سیکڑوں گھڑے پانی کے پڑ گئے۔

    (اردو کے نام وَر ڈراما نویس اور شاعر آغا حشر سے متعلق چراغ حسن حسرت کے ایک مضمون سے انتخاب)

  • برصغیر کے مشہور ڈراما نگار کی خوب صورت غزل

    برصغیر کے مشہور ڈراما نگار کی خوب صورت غزل

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں کے حافظے میں یہ شعر ضرور محفوظ ہو گا، مگر بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس کے خالق آغا حشر ہیں جو برصغیر میں ڈراما نگاری کے حوالے سے مشہور ہیں۔

    آغا حشر کاشمیری نے بیسویں صدی کے آغاز میں ڈراما نگاری میں وہ کمال حاصل کیا کہ انھیں ہندوستانی شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ وہ تھیٹر کا زمانہ تھا اوراسٹیج پرفارمنس نہ صرف ہر خاص و عام کی تفریحِ طبع کا ذریعہ تھی بلکہ اس دور میں معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کو بھی تھیٹر پر خوب صورتی سے پیش کیا جاتا تھا۔ یہ ایک مضبوط اور مقبول میڈیم تھا جس میں آغا حشر نے طبع زاد کہانیوں کے علاوہ شیکسپئر کے متعدد ڈراموں کا ترجمہ کر کے ان سے تھیٹر کو سجایا۔ ان کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ بے حد مقبول ہوئے۔

    یکم اپریل 1879 کو بنارس کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولنے والے آغا حشر کی تعلیم تو واجبی تھی، لیکن تخلیقی جوہر انھیں بامِ عروج تک لے گیا۔ انھیں یوں تو ایک ڈراما نگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور اسی حوالے سے ان کا تذکرہ ہوتا ہے، مگر اردو ادب کے سنجیدہ قارئین ضرور انھیں شاعر کے طور پر بھی جانتے ہیں۔ کہتے ہیں علامہ اقبال بھی مشاعروں میں ان کے بعد احتراماً اپنا کلام نہیں پڑھتے تھے۔ آغا حشر کا انتقال 28 اپریل 1935 کو ہوا۔ ان کی ایک غزل پیشِ خدمت ہے۔

    غزل
    یاد میں تیری جہاں کو بھولتا جاتا ہوں میں
    بھولنے والے کبھی تجھ کو بھی یاد آتا ہوں میں
    ایک دھندلا سا تصور ہے کہ دل بھی تھا یہاں
    اب تو سینے میں فقط اک ٹیس سی پاتا ہوں میں
    او وفا نا آشنا کب تک سنوں تیرا گلہ
    بے وفا کہتے ہیں تجھ کو اور شرماتا ہوں میں
    آرزوؤں کا شباب اور مرگِ حسرت ہائے ہائے
    جب بہار آئے گلستاں میں تو مرجھاتا ہوں میں
    حشرؔ میری شعر گوئی ہے فقط فریادِ شوق
    اپنا غم دل کی زباں میں دل کو سمجھاتا ہوں میں