Tag: آغا حشر کاشمیری

  • آغا حشر مرتے مر گئے، شراب نہ پی!

    آغا حشر مرتے مر گئے، شراب نہ پی!

    یہ آغا حشر کاشمیری کا شخصی خاکہ ہے جس میں مصنّف نے ہندوستان میں تھیٹر کے شیکسپیئر کہلانے والے آغا صاحب کے علمی و ادبی شغف اور معمولات کے ساتھ ان کی زندگی کے آخری ایّام کی تکالیف کو بیان کیا ہے۔

    آغا حشر برطانوی دور کے ممتاز ڈرامہ نویس اور شاعر تھے۔ انھوں نے ہندوستان میں تھیٹر کی مقبولیت کو بام‌ِ عروج پر پہنچایا۔ ان کے شخصی خاکے سے یہ سطور پیشِ خدمت ہیں:‌

    وہ ہر قسم کی کتابیں پڑھتے تھے۔ ادنیٰ قسم کے بازاری ناولوں، اخباروں اور رسالوں سے لے کر فلسفہ اور مابعدالطبیعات کی اعلیٰ تصانیف تک سب پر ان کی نظر تھی۔

    بازار میں چلتے چلتے کتابوں کی دکان نظر آگئی۔ کھڑے ہوگئے۔ اچھی اچھی کتابیں چھانٹ کے بغل میں دبائیں اور چل کھڑے ہوئے۔ راستہ میں کسی کتاب کا کوئی گرا پڑا ورق دکھائی دیا تو اسے اٹھا لیا اور وہیں کھڑے کھڑے پڑھ ڈالا۔ نوکر بازار سے سودا سلف لے کر آیا ہے، بنیے نے اخباروں اور کتابوں کے اوراق میں پڑیاں باندھ کے دی ہیں۔ یکایک آغا صاحب کی نظر پڑ گئی۔ نوکر سے کہہ رہے ہیں کہ پڑیا خالی کر کے لاؤ۔ یہ بڑے کام کی چیز معلوم ہوتی ہے مجھے اس پر شبلی کا نام لکھا نظر آیا ہے۔

    ان کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ ایک مرتبہ کوئی کتاب پڑھ لیتے تھے تو اسے دوسری مرتبہ دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔ یہ اسی مطالعہ کی برکت تھی کہ ان کی معلومات پر لوگوں کو حیرت ہوتی تھی۔ طب ہو یا فلسفہ، شاعری ہو یا ادب، کسی موضوع میں بند نہیں تھے۔ بازار سے نئی جوتی منگوائی ہے کسی نے پوچھا آغا صاحب کتنے کو مول لی ہے؟ بس آغا صاحب نے جوتی کے فضائل اور محاسن پر تقریر شروع کر دی۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد سننے والوں کو یہ احساس ہوتا تھا کہ اس جوتی کو سچ مچ تاریخی حیثیت حاصل ہے۔

    آغا جوانی سے شراب کے عادی اور روز کے پینے والے تھے۔ دن ڈھلتے ہی پینا شروع کر دیتے تھے اور بہت مدت گئے تک یہ محفل جمی رہتی تھی۔ وہ چھپ کے پینے کے قائل نہیں تھے۔ سب کے سامنے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بیچ کھیت پیتے تھے اور بوتلوں کی بوتلیں خالی کر دیتے تھے لیکن موت سے کوئی تین سال پیشتر شراب ترک کر دی۔ یوں دفعتاََ شراب چھوڑ دینے سے ان کی صحت پر بہت برا اثر پڑا۔ رنگت سنولا گئی۔ آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے۔ ہڈیاں نکل آئیں اور ایسا روگ لگا جو آخر ان کی جان لے کر ہی ٹلا۔ ڈاکٹروں نے ہر چند کہا کہ تھوڑی مقدار میں روز پی لیا کریں لیکن انہوں نے نہ مانا۔ مرتے مر گئے، شراب نہ پی۔

    ایک صبح میں ان کے پاس جانے کے لئے کپڑے پہن رہا تھا اتنے میں خبر ملی کہ آغا کا انتقال ہوگیا۔ لوگوں کا خیال تھا جنازہ شہر میں لایا جائے گا۔ اخباروں میں یہ خبر بھی چھپی کہ نیلے گنبد میں نماز جنازہ ہوگی لیکن پھر خدا جانے کیا ہوا کہ یہ ارادہ ترک کر دیا گیا۔ جنازہ کے ساتھ صرف سو سوا سو آدمی تھے۔ انہیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ہے۔

    (شاعر و ادیب چراغ حسن حسرت کتاب ’مردمِ دیدہ‘ سے اقتباسات)

  • یاد نگاری: تھیٹر اور ڈرامہ نویسی کو بامِ‌ عروج پر پہنچانے والے آغا حشر

    یاد نگاری: تھیٹر اور ڈرامہ نویسی کو بامِ‌ عروج پر پہنچانے والے آغا حشر

    ہندوستان میں‌ تھیٹر کی ابتدا اور اردو ڈرامہ کی مقبولیت جب بھی موضوعِ بحث بنے گی، آغا حشر کاشمیری کا نام بھی ضرور لیا جائے گا۔ وہ اپنے زمانے کے مشہور ڈرامہ نویس اور بہترین فن کار تھے جنھوں نے طبع زاد کے ساتھ بدیسی ڈراموں کو بھی اردو کے قالب میں ڈھال کر تھیٹر پر پیش کیا۔

    آغا حشر کاشمیری کو ہندوستانی شیکسپئر بھی کہا جاتا ہے۔ اس دور میں تھیٹر ہر خاص و عام کی تفریح کا بڑا ذریعہ تھا جس کے لیے آغا حشر کاشمیری نے طبع زاد کھیلوں کے ساتھ کئی غیر ملکی ادیبوں کے ڈراموں کے تراجم کیے اور انھیں ڈرامہ کے قالب میں ڈھالا۔ ان کی کہانیاں عوام میں بے حد مقبول ہوئیں۔ آغا صاحب کے تحریر کردہ مکالمے نہایت جان دار ہوتے تھے۔ آغا حشر تقسیم ہند سے کئی سال پہلے 28 اپریل 1935ء کو دارِ بقا کو کوچ کرگئے تھے۔ انھیں لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

    امرتسر میں آغا حشر کی پیدائش یکم اپریل 1879 کو ہوئی۔ آغا حشر کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ نوعمری میں انھیں تھیٹر دیکھنے اور ڈرامے پڑھنے کا شوق ہو گیا اور ایک وقت آیا جب وہ خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ ان کی ابتدائی کہانیوں سے متاثر ہوکر بمبئی کے الفریڈ تھیٹریکل کمپنی نے بطور ڈرامہ نویس ان کی خدمات مستعار لے لیں۔ آغا حشر نے اپنے قلم کو اس کمپنی کے لیے متحرک رکھا اور پھر 1910 میں انھوں نے سرمایہ لگا کر اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کرلی۔ وہ کہانی اور مکالمہ نویسی میں‌ مہارت پیدا کرچکے تھے اور اب اپنے ڈراموں کے ہدایت کار بھی بن گئے۔ اس وقت تک ان کی شہرت اور مقبولیت ہندوستان بھر میں پھیل چکی تھی اور ان کا شمار بڑے ڈرامہ نگاروں میں کیا جانے لگا تھا۔

    آغا صاحب کی طبع زاد کہانیوں اور ڈراموں کو شائقین نے اتنا سراہا کہ انھیں ایک سے زائد مرتبہ تھیٹر پر پیش کیا گیا۔ ہر بار بڑی تعداد میں‌ لوگوں نے تھیٹر دیکھا اور آغا حشر کی تعریف کی۔ وہ ایسا دور تھا جب تھیٹر پر معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کی تمثیل نگاری کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔ آغا حشر نے ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ جیسے یادگار ڈرامے لکھے جنھیں‌ شائقین نے بے حد پسند کیا جب کہ ناقدین بھی داد دیے بغیر نہیں‌ رہ سکے اور ان ڈراموں کو اردو ادب میں‌ خاص اہمیت حاصل ہوئی جس پر آج بھی مقالہ جات لکھے جاتے ہیں اور آغا حشر کے فن کو سراہا جاتا ہے۔

    ڈرامہ نویسی کے ساتھ آغا حشر نے بطور شاعر بھی شہرت پائی۔ ان کی شاعری کو اپنے وقت کے مشہور شعرا نے سراہا ہے۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    ان کے ایک ہم عصر چراغ حسن حسرت نے اپنے شخصی خاکوں کی کتاب مردمِ‌ دیدہ میں‌ لکھا ہے: یہ جس زمانے کا ذکر ہے، ہندوستان میں فلموں کا رواج نہیں تھا۔ جو کچھ تھا تھیٹر ہی تھیٹر تھا اور اس دنیا میں آغا حشر کا طوطی بول رہا تھا۔ یوں تو اور بھی اچھے اچھے ڈراما آرٹسٹ موجود تھے۔ احسن، بیتاب، طالب،مائل، سب کے سب لنکا کے باون گزے تھے لیکن آغا کے سامنے بونے معلوم ہوتے تھے۔

    وہ ہر قسم کی کتابیں پڑھتے تھے۔ ادنیٰ قسم کے بازاری ناولوں، اخباروں او رسالوں سے لے کر فلسفہ اور مابعدالطبیعات کی اعلیٰ تصانیف تک سب پر ان کی نظر تھی۔ بازار میں چلتے چلتے کتابوں کی دکان نظر آگئی۔ کھڑے ہوگئے۔ اچھی اچھی کتابیں چھانٹ کے بغل میں دبائیں اور چل کھڑے ہوئے۔ راستہ میں کسی کتاب کا کوئی گرا پڑا ورق دکھائی دیا تو اسے اٹھا لیا اور وہیں کھڑے کھڑے پڑھ ڈالا۔ نوکر بازار سے سودا سلف لے کر آیا ہے، بنیے نے اخباروں اور کتابوں کے اوراق میں پڑیاں باندھ کے دی ہیں۔ یکایک آغا صاحب کی نظر پڑگئی۔ نوکر سے کہہ رہے ہیں کہ پڑیا خالی کر کے لاؤ۔ یہ بڑے کام کی چیز معلوم ہوتی ہے مجھے اس پر شبلی کا نام لکھا نظر آیا ہے۔ ان کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ ایک مرتبہ کوئی کتاب پڑھ لیتے تھے تو اسے دوسری مرتبہ دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔ یہ اسی مطالعہ کی برکت تھی کہ ان کی معلومات پر لوگوں کو حیرت ہوتی تھی۔

  • ہندوستانی شیکسپیئر آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات

    ہندوستانی شیکسپیئر آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات

    آغا حشر کاشمیری ہندوستان کے نام وَر ڈراما نویس اور مترجم تھے جنھوں نے تھیٹر کے لیے طبع زاد کھیل اور عمدہ تراجم پیش کرکے ہندوستان بھر میں اس میڈیم کی مقبولیت میں‌ اضافہ کیا۔ ان کی کہانیاں شان دار اور مکالمے اتنے جان دار ہوتے تھے کہ انھیں ہندوستانی شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ آج آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔ وہ 28 اپریل 1935ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    آغا حشر کو ایک ایسے تخلیق کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جن کی طبع زاد کہانیوں اور ڈراموں کو ایک سے زائد مرتبہ پردے پر دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں شائقین تھیٹر کا رخ کرتے۔ اس زمانے میں تھیٹر اور اسٹیج ہر خاص و عام کی تفریح کا ذریعہ تھا اور اس کی مقبولیت کی ایک وجہ معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کی تمثیل نگاری تھی۔ آغا حشر نے ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ جیسے یادگار ڈرامے لکھے جنھیں‌ تھیٹر کے شائقین نے بے حد سراہا۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ برصغیر میں ڈراما نویسی اور تھیٹر کے حوالے سے مشہور آغا حشر کاشمیری ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ ان کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    آغا حشر کاشمیری نے یکم اپریل 1879 کو اس دنیا میں آنکھ کھولی، ان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ ان کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ آغا حشر کو نوعمری میں تھیٹر اور ڈرامے دیکھنے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا جب وہ خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوگئے۔ چند ابتدائی کہانیوں کے بعد انھوں نے بمبئی کے الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے لیے ڈراما نویسی شروع کردی۔ 1910 میں انھوں نے اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کی اور اپنے ڈراموں کے لیے ہدایات بھی دینے لگے۔

    آغا حشر کاشمیری اردو ڈرامے کی تاریخ میں بڑا اہم مقام رکھتے ہیں۔ جب بھی ہندوستان میں‌ اردو ڈراما نویسی، تراجم اور تھیٹر کی تاریخ پر بات کی جائے گی تو آغا حشر کاشمیری کا نام ضرور لیا جائے گا۔ آغا حشر لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • کلاسیکی گائیکی میں نام وَر مختار بیگم کی برسی

    کلاسیکی گائیکی میں نام وَر مختار بیگم کی برسی

    آج پاکستان کی مشہور مغنیہ اور کلاسیکی گائیکی میں نام وَر مختار بیگم کی برسی ہے۔ وہ 25 فروری 1982ء کو کراچی میں وفات پاگئی تھیں۔ مختار بیگم ہندوستانی شیکسپیئر کہلانے والے ڈراما نویس اور شاعر آغا حشر کاشمیری کی شریکِ حیات تھیں۔ گلوکاری کے میدان میں ان کے شاگردوں میں فریدہ خانم، نسیم بیگم کے علاوہ اداکارہ رانی بھی شامل تھیں۔

    مختار بیگم 1911ء میں امرتسر میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد غلام محمد موسیقی کے بڑے دلدادہ تھے اور خود بھی بہت اچھا ہارمونیم بجاتے تھے۔ انہوں نے مختار بیگم کو کلاسیکی موسیقی کی تربیت دلوانے کے لیے پٹیالہ گھرانے کے مشہور موسیقار استاد عاشق علی خان کی شاگردی میں دے دیا۔ بعدازاں مختار بیگم نے استاد اللہ دیا خان مہربان، استاد فتو خان، پنڈت شمبھو مہاراج اور پنڈت مچھو مہاراج سے بھی اکتسابِ فیض کیا۔

    مختار بیگم ٹھمری، دادرا اور غزل گائیکی پر یکساں عبور رکھتی تھیں۔ ان کے فن کی معترف اور عقیدت مندوں میں ملکہ ترنم نور جہاں بھی شامل تھیں۔

    مختار بیگم کراچی میں سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • آغا حشر کاشمیری: ہندوستانی شیکسپیئر سے ملیے

    آغا حشر کاشمیری: ہندوستانی شیکسپیئر سے ملیے

    بیسویں صدی کے آغاز میں‌ ہندوستان میں ناٹک اور تھیٹر تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ اس میدان میں آغا حشر کاشمیری نے اپنے تخلیقی جوہر اور صلاحیتوں کی بدولت وہ کمال حاصل کیا کہ انھیں ہندوستانی شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ آج آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔

    آغا حشر کو ایک ایسے تخلیق کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جن کی طبع زاد کہانیوں اور تمثیل نگاری نے شائقین کو تھیٹر کا دلدادہ بنا دیا تھا، انھوں نے اپنے ڈراموں کے علاوہ شیکسپیئر کی کہانیوں کا ترجمہ بھی کیا اور انھیں تھیٹر کے ذریعے ہندوستان کے لوگوں تک پہنچایا اور ان کی توجہ حاصل کی۔

    اس دور میں تھیٹر اور اسٹیج پرفارمنس ہی ہر خاص و عام کی تفریحِ طبع کا ذریعہ تھی، اس کی مقبولیت کی ایک وجہ معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کی تمثیل نگاری تھی۔ آغا حشر نے ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ جیسے ڈرامے تحریر کیے اور انھیں تھیٹر پر پیش کیا جو شائقین میں بے حد مقبول ہوئے۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ برصغیر میں ڈراما نویسی اور تھیٹر کے حوالے سے مشہور آغا حشر کاشمیری ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ ان کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    آغا حشر کاشمیری نے یکم اپریل 1879 کو اس دنیا میں آنکھ کھولی، ان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ ان کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ آغا حشر کو نوعمری میں تھیٹر اور ڈرامے دیکھنے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا جب وہ خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوگئے۔ چند ابتدائی کہانیوں کے بعد انھوں نے بمبئی کے الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے لیے ڈراما نویسی شروع کردی۔

    1910 میں آغا حشر نے اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کی اور اپنے تخلیق کردہ ڈراموں کے لیے ہدایات بھی دینے لگے۔

    اردو ڈراما نویسی اور تھیٹر کی تاریخ میں آغا حشر کاشمیری کا نام ہمیشہ زندگہ رہے گا۔ 28 اپریل 1935 کو لاہور میں ان کا انتقال ہوگیا اور انھیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • "سنا ہے آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے!”

    "سنا ہے آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے!”

    ہندوستان پر برطانوی راج کے دوران جہاں اس خطے کے عام باسیوں اور اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو انگریزی زبان سمجھنے اور گوروں کے ساتھ بات چیت میں دشواری پیش آتی تھی، اسی طرح انگریزوں کو بھی براہ راست عوام سے رابطے میں زبان ہی رکاوٹ تھی۔

    بعض انگریز صوبے دار اور بڑے عہدوں پر فائز افسران مقامی زبان سیکھنے کے خواہش مند ہوئے۔ کچھ نے سرکاری ضرورت کے تحت اور بعض نے ذاتی خواہش اور دل چسپی سے فارسی سیکھنے کے لیے اتالیق کی مدد لی۔ تاہم عام بول چال اور بات تھی، مگر بامحاورہ اور شاعرانہ گفتگو ہضم کرنا آسان تو نہ تھا۔ اسی سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ پڑھیے۔

    مشہور ادیب آغا حشر کاشمیری کے ایک شناسا خاصے باذوق، صاحبِ علم اور فارسی پر عبور رکھتے تھے۔ کہتے ہیں ایرانی بھی ان کی فارسی دانی کو تسلیم کرتے تھے، لیکن ان دنوں مولوی صاحب روزگار سے محروم تھے اور معاشی مسائل جھیل رہے تھے۔

    آغا حشر ان کے حالات سے اچھی طرح واقف تھے اور کوشش تھی کہ کسی طرح مولوی صاحب کی ملازمت ہوجائے۔ ایک روز کسی نے آغا صاحب کو بتایاکہ ایک انگریز افسر فارسی سیکھنا چاہتا ہے اور کسی اچھے اتالیق کی تلاش میں ہے۔

    آغا صاحب نے بمبئی کے ایک معروف رئیس کے توسط سے مولوی صاحب کو اس انگریز افسر کے ہاں بھجوا دیا۔

    صاحب بہادر نے مولوی صاحب سے کہا۔

    "ویل مولوی صاحب ہم کو معلوم ہوا کہ آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے۔”

    مولوی صاحب نے انکساری سے کام لیتے ہوئے کہا۔ "حضور کی بندہ پروری ہے ورنہ میں فارسی سے کہاں واقف ہوں۔”

    صاحب بہادر نے یہ سنا تو مولوی صاحب سے ادھر ادھر کی دو چار باتیں کیں اور نہایت احترام سے رخصت کر دیا، لیکن جس رئیس نے انھیں بھیجا تھا، اس سے شکایت یہ کی کہ بغیر سوچے سمجھے ایک ایسے آدمی کو فارسی پڑھانے کے لیے میرے پاس کیوں بھیجا جو اس زبان کا ایک لفظ تک نہیں جانتا۔