Tag: آغا حشر کاشمیری کی برسی

  • آغا حشر کاشمیری: ڈرامہ نویس اور شاعر

    آغا حشر کاشمیری: ڈرامہ نویس اور شاعر

    جب بھی ہندوستان میں‌ اردو ڈرامہ اور تھیٹر کی تاریخ موضوعِ بحث آئے گی، آغا حشر کاشمیری کا نام بھی ضرور لیا جائے گا۔ اردو ڈرامے کے عروج اور تھیٹر پر اس کی مقبولیت کے حوالے سے ان کا اہم مقام ہے۔

    آغا حشر کاشمیری ہندوستان کے مشہور ڈرامہ نویس اور بہترین مترجم تھے۔ ان کے زمانے میں تھیٹر ہر خاص و عام کی تفریح کا بڑا ذریعہ تھا جس کے لیے آغا حشر کاشمیری نے طبع زاد کھیل اور غیر ملکی ادیبوں کے ڈراموں کو اردو کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا۔ ان کی کہانیاں شان دار اور مکالمے اتنے جان دار ہوتے تھے کہ انھیں ہندوستان کا شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ آج آغا حشر کا یومِ وفات ہے۔ وہ 28 اپریل 1935ء کو دارِ بقا کو لوٹ گئے تھے۔ ان کا مدفن لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں ہے۔

    یکم اپریل 1879 کو امرتسر میں پیدا ہونے والے آغا حشر کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ انھیں نوعمری میں تھیٹر اور ڈرامے پڑھنے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا جب وہ خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ ابتدائی کہانیوں کے بعد انھوں نے بمبئی کے الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے لیے ڈراما نویسی شروع کردی۔ 1910 میں آغا حشر نے اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کی اور ڈراموں کی ہدایات بھی دینے لگے۔ وقت کے ساتھ ان کی شہرت اور مقبولیت بڑھتی گئی اور ان کا شمار بڑے ڈرامہ نگاروں میں ہونے لگا۔

    ہندوستان بھر میں ان کی طبع زاد کہانیوں اور ڈراموں کو شائقین نے اتنا سراہا کہ انھیں ایک سے زائد مرتبہ تھیٹر پر پیش کیا گیا اور ہر بار بڑی تعداد میں‌ لوگ ان سے لطف اندوز ہوئے۔ اس زمانے میں تھیٹر پر معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کی تمثیل نگاری کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔ آغا حشر نے ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ جیسے یادگار ڈرامے لکھے جنھیں‌ تھیٹر کے شائقین نے بے حد سراہا اور انھیں اردو ادب میں‌ بھی جگہ ملی۔

    آغا حشر شاعر بھی تھے۔ ان کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

  • ہندوستانی شیکسپیئر آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات

    ہندوستانی شیکسپیئر آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات

    آغا حشر کاشمیری ہندوستان کے نام وَر ڈراما نویس اور مترجم تھے جنھوں نے تھیٹر کے لیے طبع زاد کھیل اور عمدہ تراجم پیش کرکے ہندوستان بھر میں اس میڈیم کی مقبولیت میں‌ اضافہ کیا۔ ان کی کہانیاں شان دار اور مکالمے اتنے جان دار ہوتے تھے کہ انھیں ہندوستانی شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ آج آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔ وہ 28 اپریل 1935ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    آغا حشر کو ایک ایسے تخلیق کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جن کی طبع زاد کہانیوں اور ڈراموں کو ایک سے زائد مرتبہ پردے پر دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں شائقین تھیٹر کا رخ کرتے۔ اس زمانے میں تھیٹر اور اسٹیج ہر خاص و عام کی تفریح کا ذریعہ تھا اور اس کی مقبولیت کی ایک وجہ معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کی تمثیل نگاری تھی۔ آغا حشر نے ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ جیسے یادگار ڈرامے لکھے جنھیں‌ تھیٹر کے شائقین نے بے حد سراہا۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ برصغیر میں ڈراما نویسی اور تھیٹر کے حوالے سے مشہور آغا حشر کاشمیری ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ ان کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    آغا حشر کاشمیری نے یکم اپریل 1879 کو اس دنیا میں آنکھ کھولی، ان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ ان کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ آغا حشر کو نوعمری میں تھیٹر اور ڈرامے دیکھنے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا جب وہ خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوگئے۔ چند ابتدائی کہانیوں کے بعد انھوں نے بمبئی کے الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے لیے ڈراما نویسی شروع کردی۔ 1910 میں انھوں نے اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کی اور اپنے ڈراموں کے لیے ہدایات بھی دینے لگے۔

    آغا حشر کاشمیری اردو ڈرامے کی تاریخ میں بڑا اہم مقام رکھتے ہیں۔ جب بھی ہندوستان میں‌ اردو ڈراما نویسی، تراجم اور تھیٹر کی تاریخ پر بات کی جائے گی تو آغا حشر کاشمیری کا نام ضرور لیا جائے گا۔ آغا حشر لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔