Tag: آغا حشر کے مشہور ڈرامے

  • ہندوستانی شیکسپیئر آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات

    ہندوستانی شیکسپیئر آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات

    آغا حشر کاشمیری ہندوستان کے نام وَر ڈراما نویس اور مترجم تھے جنھوں نے تھیٹر کے لیے طبع زاد کھیل اور عمدہ تراجم پیش کرکے ہندوستان بھر میں اس میڈیم کی مقبولیت میں‌ اضافہ کیا۔ ان کی کہانیاں شان دار اور مکالمے اتنے جان دار ہوتے تھے کہ انھیں ہندوستانی شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ آج آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔ وہ 28 اپریل 1935ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    آغا حشر کو ایک ایسے تخلیق کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جن کی طبع زاد کہانیوں اور ڈراموں کو ایک سے زائد مرتبہ پردے پر دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں شائقین تھیٹر کا رخ کرتے۔ اس زمانے میں تھیٹر اور اسٹیج ہر خاص و عام کی تفریح کا ذریعہ تھا اور اس کی مقبولیت کی ایک وجہ معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کی تمثیل نگاری تھی۔ آغا حشر نے ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ جیسے یادگار ڈرامے لکھے جنھیں‌ تھیٹر کے شائقین نے بے حد سراہا۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ برصغیر میں ڈراما نویسی اور تھیٹر کے حوالے سے مشہور آغا حشر کاشمیری ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ ان کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    آغا حشر کاشمیری نے یکم اپریل 1879 کو اس دنیا میں آنکھ کھولی، ان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ ان کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ آغا حشر کو نوعمری میں تھیٹر اور ڈرامے دیکھنے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا جب وہ خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوگئے۔ چند ابتدائی کہانیوں کے بعد انھوں نے بمبئی کے الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے لیے ڈراما نویسی شروع کردی۔ 1910 میں انھوں نے اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کی اور اپنے ڈراموں کے لیے ہدایات بھی دینے لگے۔

    آغا حشر کاشمیری اردو ڈرامے کی تاریخ میں بڑا اہم مقام رکھتے ہیں۔ جب بھی ہندوستان میں‌ اردو ڈراما نویسی، تراجم اور تھیٹر کی تاریخ پر بات کی جائے گی تو آغا حشر کاشمیری کا نام ضرور لیا جائے گا۔ آغا حشر لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ‘‘ کون آغا حشر؟’’

    ‘‘ کون آغا حشر؟’’

    ایک دن آغا عصرِ جدید کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ کچھ اور لوگ بھی جمع تھے۔ آغا باتیں کر رہے تھے۔ ہم سب بُت بنے بیٹھے سن رہے تھے۔ اتنے میں سید ذاکر علی جو ان دنوں کلکتہ خلافت کمیٹی کے سکریٹری تھے اور آج کل مسلم لیگ کے جائنٹ سکریٹری ہیں، پھرتے پھراتے آ نکلے۔

    تھوڑی دیر وہ چپکے بیٹھے آغا کی باتیں سنا کیے، لیکن پھر ان کے چہرے سے بے چینی کے آثار ظاہر ہونےلگے۔ کچھ تو انھیں یہ بات ناگوار گزری کہ ایک شخص بیٹھا باتیں کیے جارہا ہے اور کسی دوسرے کو بات نہیں کرنے دیتا کیوں کہ سید صاحب خود بھی بڑے بذلہ سنج اور لطیفہ گو بزرگوار ہیں اور انھوں نے اگلے پچھلے ہزاروں لطیفے یاد کر رکھے ہیں اور غالباً اس وقت انہیں کوئی نیا لطیفہ یاد آگیا جسے سنانے کے لیے وہ بے قرار تھے۔ دوسرے آغا کی گفتگو میں خود ستائی کا عنصر بہت زیادہ تھا۔ اور وہ اپنی شاعری کا تذکرہ کر رہے تھے اور اپنے بعض ہم عصر شعرا پر چوٹیں بھی کرتے جاتے تھے۔

    سید ذاکر علی کو ان کی باتوں پر غصہ بھی تھا اور حیرت بھی۔ جی ہی جی میں کہہ رہے تھے کہ خدا جانے یہ کون شخص ہے جو اقبال، ابوالکلام، ظفر علی خاں کا ذکر اس انداز میں کر رہا ہے گویا سب ساتھ کے کھیلے ہوئے دوست اور بچپن کے رفیق ہیں۔ آخر ان سے ضبط نہ ہوسکا اور کہنے لگے۔ ‘‘یہ کون بزرگوار ہیں، ذرا ان سے میرا تعارف تو کرادیجیے۔’’

    مولانا شائق بولے۔ ‘‘آپ ان کو نہیں جانتے۔ آغا حشر یہی ہیں، آغا صاحب یہ سید ذاکر علی ہیں کلکتہ خلافت کمیٹی کے نئے سکریٹری۔ مولانا شوکت علی نے ان کو بمبئی سے بھیجا ہے۔’’

    ہم سمجھتے تھے کہ اس معرفی کے بعد سید ذاکر علی کا استعجاب دور ہوجائے گا، لیکن وہ بڑی سادگی سے کہنے لگے۔ ‘‘آغا حشر! کون آغا حشر؟’’ بس ان کا یہ کہنا قیامت ہوگیا۔

    آغا صاحب کڑک کر بولے: ‘‘آپ نے آغا حشر کا نام نہیں سنا۔’’ سید ذاکر علی نے جواب دیا ‘‘نہیں صاحب! میں نے آج پہلی مرتبہ جناب کا نام سنا ہے۔’’ پھر پلٹ کے مولانا شائق سے پوچھنے لگے:

    ‘‘آغا صاحب کا شغل کیا ہے؟ ’’مولانا شائق نے فرمایا: ‘‘ہائیں سید ذاکر علی صاحب! آپ نے واقعی آغا حشر کا نام نہیں سنا۔ آپ کس دنیا میں رہتے ہیں؟’’ انہوں نے بڑی مسمی صورت بنا کے کہا:

    ‘‘مجھ سے قسم لے لیجیے، میں نے آج تک یہ نام نہیں سنا۔’’ خدا جانے وہ بَن رہے تھے یا واقعی انہوں نے آغا کا نام نہیں سنا تھا۔ ہم سب کو حیرت تھی کہ یہ شخص کلکتہ خلافت کمیٹی کا سکریٹری، مدتوں اہلِ ذوق کی صحبت میں رہ چکا ہے۔ شعر و شاعری کا بھی مذاق رکھتا ہے، لیکن آغا حشر کو نہیں جانتا۔

    خیر مولانا شائق احمد نے انہیں سمجھایا کہ دیکھیے یہ آغا حشر ہیں۔ بہت بڑے شاعر، بہت بڑے ڈراماٹسٹ، لوگ انھیں ہندوستان کا شیکسپیئر کہتے ہیں۔ تو ان کی سمجھ میں بات آگئی اور کہنے لگے:

    ‘‘اچھا تو آپ شاعر ہیں۔ میں اب سمجھا۔ خیر اب اس بحث کو جانے دیجیے، اپنا کوئی شعر سنائیے۔’’ آغا بھرے بیٹھے تھے۔ یہ سن کے آگ بگولا ہوگئے، اور کہنے لگے:

    ‘‘سنیے جناب! آپ کو شعر سننا ہے تو خلافت کمیٹی کے لونڈوں سے سنیے۔ میں ایسا ویسا شاعر نہیں کہ ہر ایرے غیرے پچ کلیان کو شعر سناتا پھروں۔’’ پھر جو انھوں نے تقریر شروع کی تو اللہ دے اور بندہ لے۔

    ہمارا یہ حال تھا کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں اور سید ذاکر علی پر تو سیکڑوں گھڑے پانی کے پڑ گئے۔

    (اردو کے نام وَر ڈراما نویس اور شاعر آغا حشر سے متعلق چراغ حسن حسرت کے ایک مضمون سے انتخاب)

  • آغا حشر کاشمیری: ہندوستانی شیکسپیئر سے ملیے

    آغا حشر کاشمیری: ہندوستانی شیکسپیئر سے ملیے

    بیسویں صدی کے آغاز میں‌ ہندوستان میں ناٹک اور تھیٹر تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ اس میدان میں آغا حشر کاشمیری نے اپنے تخلیقی جوہر اور صلاحیتوں کی بدولت وہ کمال حاصل کیا کہ انھیں ہندوستانی شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ آج آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔

    آغا حشر کو ایک ایسے تخلیق کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جن کی طبع زاد کہانیوں اور تمثیل نگاری نے شائقین کو تھیٹر کا دلدادہ بنا دیا تھا، انھوں نے اپنے ڈراموں کے علاوہ شیکسپیئر کی کہانیوں کا ترجمہ بھی کیا اور انھیں تھیٹر کے ذریعے ہندوستان کے لوگوں تک پہنچایا اور ان کی توجہ حاصل کی۔

    اس دور میں تھیٹر اور اسٹیج پرفارمنس ہی ہر خاص و عام کی تفریحِ طبع کا ذریعہ تھی، اس کی مقبولیت کی ایک وجہ معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کی تمثیل نگاری تھی۔ آغا حشر نے ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ جیسے ڈرامے تحریر کیے اور انھیں تھیٹر پر پیش کیا جو شائقین میں بے حد مقبول ہوئے۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ برصغیر میں ڈراما نویسی اور تھیٹر کے حوالے سے مشہور آغا حشر کاشمیری ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ ان کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    آغا حشر کاشمیری نے یکم اپریل 1879 کو اس دنیا میں آنکھ کھولی، ان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ ان کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ آغا حشر کو نوعمری میں تھیٹر اور ڈرامے دیکھنے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا جب وہ خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوگئے۔ چند ابتدائی کہانیوں کے بعد انھوں نے بمبئی کے الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے لیے ڈراما نویسی شروع کردی۔

    1910 میں آغا حشر نے اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کی اور اپنے تخلیق کردہ ڈراموں کے لیے ہدایات بھی دینے لگے۔

    اردو ڈراما نویسی اور تھیٹر کی تاریخ میں آغا حشر کاشمیری کا نام ہمیشہ زندگہ رہے گا۔ 28 اپریل 1935 کو لاہور میں ان کا انتقال ہوگیا اور انھیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔