Tag: آغا شاعر قزلباش

  • آغا شاعر قزلباش: زبان داں، مشہور شاعر اور ادیب

    آغا شاعر قزلباش: زبان داں، مشہور شاعر اور ادیب

    متحدہ ہندوستان میں آغا شاعر قزلباش ایک استادِ فن اور زبان داں کے طور پر شہرت اور اپنے ہم عصروں میں امتیاز رکھتے تھے۔ انھوں نے نثر و نظم کی مختلف اصناف میں‌ اپنی حیثیت کو منوایا۔ آغا صاحب کی قابلیت اور علمی استعداد کا عالم یہ تھا کہ شاعرِ‌ مشرق علّامہ اقبال اور ان جیسے کئی بڑی شخصیات بھی زبان و بیان کے معاملہ میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔

    11 مارچ 1940ء کو آغا شاعر قزلباش انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ شاعر، ادیب اور ڈرامہ نویس تھے۔ وہ اردو کے استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگردوں‌ میں سے تھے، لیکن ان کی شاگردی اختیار کرنے سے پہلے ہی آغا صاحب زبان دانی اور مشاعروں میں‌ اپنی خوش گوئی کی وجہ سے مشہور ہوچکے تھے۔ ان کے ہم عصر زبان و بیان اور شاعری میں ان کی فصاحت و برجستگی کے معترف رہے۔ آغا شاعر قزلباش کے شاگردوں کی تعداد بھی سیکڑوں‌ میں‌ تھی جو ہندوستان بھر سے تعلق رکھتے تھے اور براہِ راست یا بلواسطہ بھی ان کے علم سے استفادہ کرتے رہے۔

    شاعر اور ادیب آغا صاحب 5 مارچ 1871ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آغا مظفر علی بیگ قزلباش تھا۔ ان کے جد اعلٰی ان سپاہیوں میں تھے جو نادر شاہ کی فوج میں شامل ہو کر دہلی آئے اور وہیں بس گئے۔ آغا شاعر کے والد آغا عبد علی بیگ بھی شاعر تھے اور فدائی تخلص کرتے تھے۔ دہلی کے کشمیری گیٹ کے محلّہ کھڑکی ابراہیم خاں میں سکونت پذیر یہ کنبہ آسودہ حال تھا۔ وہ اپنی ماں کے بہت لاڈلے تھے۔ آغا صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ عربی اور قرآن کا درس گھر پر لیا جب کہ فارسی ان کے گھر کی زبان تھی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد دہلی کی مشہور درس گاہ اینگلو عربک اسکول میں داخلہ ہوگیا اور وہیں سے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا، اسکول کے زمانہ میں ہی مضمون نویسی اور شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ اسی زمانہ میں آغا صاحب کی ماں وفات پاگئیں اور باپ کی دوسری شادی کے بعد وہ سوتیلی ماں کے ہاتھوں تنگ ہوتے رہے اور پھر انہیں گھر سے نکال دیا گیا۔ بعد میں انھوں نے اپنی علمی استعداد میں خود اضافہ کیا اور اپنے لکھنے پڑھنے کے شوق اور لگن کی بدولت کام یاب ہوئے۔ ان کا خط بہت عمدہ تھا اور اسی سے متاثر ہوکر ایک بیگم صاحبہ نے انھیں نہ صرف پناہ دی بلکہ اپنی غزلیں خوش خط لکھنے کا کام سونپ دیا۔ انہی کے توسط سے بعد میں وہ قدم جمانے میں کام یاب ہوئے اور دہلی کے مشاعروں میں ان کی شرکت لازمی ہوگئی۔ ان کی غزلیں گانے والیوں کے کوٹھوں میں گونجنے لگیں اور گلی کوچوں میں گائی جانے لگیں۔ بعد میں حیدرآباد دکن کا رخ کیا تو وہاں داغ دہلوی کے شاگرد ہوگئے۔ وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جزوِ لازم بنا۔ آغا شاعر قزلباش ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے جو چند ڈرامے لکھے ان میں حورِ عرب مشہور ہوا۔

    گوناگوں صلاحیتوں کے مالک آغا شاعر قزلباش نے غزلوں کے علاوہ نظمیں، مرثیے اور منظوم تراجم بھی کیے۔ ڈرامہ اور انشائیہ نگاری کے ساتھ انھوں نے ناول بھی تحریر کیے۔ آغا شاعر قزلباش نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ اور عمر خیام کے رباعیات کا بھی منظوم اردو ترجمہ کیا۔ ان کی نثر کا بھی ایک مجموعہ خمارستان کے نام سے شایع ہوا تھا۔ آغا شاعر قزلباش دہلوی کی شعری تصانیف میں تیر و نشر، آویزۂ گوش، دامنِ مریم اور پرواز شامل ہیں۔

    آغا شاعر قزلباش کا ایک شعر بہت مشہور ہے

    لو ہم بتائیں غنچہ و گل میں ہے فرق کیا
    اک بات ہے کہی ہوئی اک بے کہی ہوئی

    آغا شاعر کو آخری عمر میں مختلف بیماریوں نے گھیر رکھا تھا، جگر اور معدہ جواب دے گئے تھے۔ مہاراجہ کشن پرشاد شاد نے ان کا ماہانہ وظیفہ مقرر کر رکھا تھا جب کہ ریاست خیر پور سے بھی سالانہ وظیفہ پاتے تھے اور گزر بسر اسی پر تھی۔ وہ صفدر جنگ کے قریب قبرستان درگاہ شاہ مرداں میں سپردِ‌ خاک ہوئے۔

  • آغا شاعر قزلباش: ایک نابغہ روزگار شخصیت کا تذکرہ

    آغا شاعر قزلباش: ایک نابغہ روزگار شخصیت کا تذکرہ

    آغا شاعر قزلباش اردو زبان و ادب کی ایک نہایت مشہور اور ممتاز شخصیت تھے۔ انھیں ہندوستان بھر میں استادِ فن اور زبان داں کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ وہ نظم اور نثر دونوں‌ اصنافِ ادب میں‌ اپنے کمالِ فن کی بدولت مشہور ہوئے۔ آغا صاحب کی قابلیت اور علمی استعداد کا عالم یہ تھا کہ شاعرِ‌ مشرق علّامہ اقبال اور ان جیسے کئی بڑے نام اور قابل شخصیات بھی زبان و بیان کے معاملہ میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔ آغا صاحب 11 مارچ 1940ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    آغا شاعر قزلباش دہلوی شاعر اور ڈرامہ نویس بھی تھے۔ وہ اپنے وقت کے استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے، لیکن اس سے پہلے ہی زبان و بیان پر عبور اور مشاعروں میں‌ اپنی خوش گوئی کے سبب ہر خاص و عام میں مشہور ہوچکے تھے۔ ان کے ہم عصر اور اپنے زمانے میں استاد شاعر کا درجہ رکھنے والے بھی آغا صاحب کے کلام کی فصاحت، روانی اور برجستگی کے معترف رہے۔ ہندوستان میں آغا شاعر قزلباش کے سیکڑوں شاگرد تھے۔

    شاعر اور ادیب آغا صاحب 5 مارچ 1871ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آغا مظفر علی بیگ قزلباش تھا۔ ان کے جد اعلٰی ان سپاہیوں میں تھے جو نادر شاہ کی فوج میں شامل ہو کر دہلی آئے اور وہیں بس گئے۔ آغا شاعر کے والد آغا عبد علی بیگ بھی شاعر تھے اور فدائی تخلص کرتے تھے۔ دہلی کے کشمیری گیٹ کے محلّہ کھڑکی ابراہیم خاں میں سکونت پذیر یہ کنبہ آسودہ حال تھا۔ وہ اپنی ماں کے بہت لاڈلے تھے۔ آغا صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ عربی اور قرآن کا درس گھر پر لیا جب کہ فارسی ان کے گھر کی زبان تھی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد دہلی کی مشہور درس گاہ اینگلو عربک اسکول میں داخلہ ہوگیا اور وہیں سے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا، اسکول کے زمانہ میں ہی مضمون نویسی اور شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ اسی زمانہ میں آغا صاحب کی ماں وفات پاگئیں اور باپ کی دوسری شادی کے بعد وہ سوتیلی ماں کے ہاتھوں تنگ ہوتے رہے اور پھر انہیں گھر سے نکال دیا گیا۔ بعد میں انھوں نے اپنی علمی استعداد میں خود اضافہ کیا اور اپنے لکھنے پڑھنے کے شوق اور لگن کی بدولت کام یاب ہوئے۔ ان کا خط بہت عمدہ تھا اور اسی سے متاثر ہوکر ایک بیگم صاحبہ نے انھیں نہ صرف پناہ دی بلکہ اپنی غزلیں خوش خط لکھنے کا کام سونپ دیا۔ انہی کے توسط سے بعد میں وہ قدم جمانے میں کام یاب ہوئے اور دہلی کے مشاعروں میں ان کی شرکت لازمی ہوگئی۔ ان کی غزلیں گانے والیوں کے کوٹھوں میں گونجنے لگیں اور گلی کوچوں میں گائی جانے لگیں۔ بعد میں حیدرآباد دکن کا رخ کیا تو وہاں داغ دہلوی کے شاگرد ہوگئے۔ وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جزوِ لازم بنا۔ آغا شاعر قزلباش ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے جو چند ڈرامے لکھے ان میں حورِ عرب مشہور ہوا۔

    وہ گوناگوں صلاحیتوں کے مالک تھے۔غزلوں کے علاوہ ان کی نظمیں، مرثیے اور منظوم تراجم بھی مقبول ہوئے۔ انھوں نے ڈرامہ نگاری کے علاوہ انشائیہ بھی لکھا اور ناول نگاری بھی کی۔ انھوں نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ اور عمر خیام کے رباعیات کا بھی منظوم اردو ترجمہ کیا۔ ان کی نثر کا مجموعہ بھی خمارستان کے نام سے شایع ہوا تھا۔ آغا شاعر قزلباش دہلوی کی شعری تصانیف میں تیر و نشر، آویزۂ گوش، دامنِ مریم اور پرواز شامل ہیں۔

    آغا شاعر قزلباش کا ایک شعر دیکھیے

    لو ہم بتائیں غنچہ و گل میں ہے فرق کیا
    اک بات ہے کہی ہوئی اک بے کہی ہوئی

    آغا شاعر کو آخری عمر میں مختلف بیماریوں نے گھیر رکھا تھا، جگر اور معدہ جواب دے گئے تھے۔ مہاراجہ کشن پرشاد شاد نے ماہانہ وظیفہ مقرر کر رکھا تھا، خیر پور سے بھی سالانہ وظیفہ ملتا تھا اسی پر گزر بسر تھی۔ بعد از مرگ صفدر جنگ کے قریب قبرستان درگاہ شاہ مرداں میں تدفین کی گئی تھی۔

  • دلّی والے آغا صاحب جن سے علّامہ اقبال بھی زبان و بیان کے معاملے میں‌ رجوع کرتے تھے

    دلّی والے آغا صاحب جن سے علّامہ اقبال بھی زبان و بیان کے معاملے میں‌ رجوع کرتے تھے

    آغا صاحب کے سیکڑوں شاگرد تھے اور علّامہ اقبال جیسی بلند مرتبہ ہستیاں اور ادیب و شاعر زبان و بیان کے معاملے میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔ وہ استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ آغا شاعر قزلباش دہلوی خوش گوئی اور عمدہ نثر کی وجہ سے عوام اور خواص میں خاصے مقبول بھی تھے۔

    تابش دہلوی نے اپنی کتاب دید و باز دید میں آغا صاحب کے بارے میں‌ لکھا: "دلّی کے بزرگ شعرا میں آغا قزلباش بڑے طباع اور دل چسپ شخصیت کے مالک تھے۔ جوانی میں غیرمعمولی خوب صورت رہے ہوں گے۔ بڑھاپے میں بھی سرخ و سفید تھے۔ وضع قطع سے بالکل دلّی والے معلوم نہیں ہوتے تھے۔

    سَر پر پشاوری کلاہ دار پگڑی، اُٹنگی چھوٹی مہری کی شلوار، بند گلے کی قمیص اس پر لمبا کوٹ، پاؤں میں انگریزی جوتا اور ہاتھ میں موٹا ڈنڈا۔

    آغا صاحب مشاعروں میں کم شریک ہوتے تھے۔ جب غزل پڑھنے کی باری آتی تو نہایت منمنی آواز میں ہائے آغا شاعر مر گیا، ارے مُردے کو کیوں گھسیٹ لائے کا نعرہ لگاتے اور ہائے ہائے کرتے شعر پڑھنے بیٹھ جاتے۔ غزل شروع کرنے سے پہلے فرماتے۔

    صاحبو، میرا قاعدہ ہے کہ میں تبرکاً استاد کے دو اشعار پہلے پڑھا کرتا ہوں اور یہ کہہ کر داغؔ کے منتخب شعر نہایت پاٹ دار آواز میں پڑھتے۔

    آغا صاحب نہایت عمدہ تحت اللفظ پڑھتے اور الفاظ اور لہجے کی تصویر بن جاتے۔ اس طرح وہ داغ کے شعروں سے مشاعرہ الٹ پلٹ کر دیتے اور داد کے اسی تأثر میں وہ اپنی غزل پر زیادہ داد حاصل کر لیتے۔”

    آغا شاعر قزلباش دہلوی 11 مارچ 1940ء کو یہ نادرِ روزگار اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ آج ان کی برسی ہے۔ دہلی ان کا وطن تھا، جہاں 5 مارچ 1871ء کو پیدا ہوئے۔ اصل نام آغا مظفر علی بیگ قزلباش تھا۔ ان کے جدِ اعلیٰ ان سپاہیوں میں تھے جو نادر شاہ کی فوج میں شامل ہو کر دہلی آئے اور وہیں کے ہو رہے۔ آغا صاحب کے والد بھی شاعر تھے جن کا تخلّص فدائی تھا اور ان کا گھرانہ آسودہ حال تھا۔ آغا شاعر اپنی ماں کے بہت لاڈلے تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ فارسی تو گھر کی زبان تھی۔ عربی اور قرآن کا درس حاصل کیا اور دہلی کی مشہور درس گاہ اینگلو عربک اسکول میں داخل کروائے گئے جہاں سے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ انھیں اسکول کے زمانہ میں ہی مضمون نویسی اور شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ اسی زمانے میں ان کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ والد نے دوسری شادی کر لی اور سوتیلی ماں کے ستم کا نشانہ بنے جس نے انھیں ایک روز گھر سے نکال دیا۔

    اسے خوش قسمتی کہیے کہ اس زمانے کی ایک بیگم صاحبہ نے جو شاعرہ تھیں، انھیں پناہ ہی نہیں دی بلکہ خوش خط آغا صاحب کو اپنی غزلیں لکھنے کا کام بھی سونپ دیا۔ بعد میں انہی کے توسط سے علم و ادب سے وابستہ شخصیات سے میل جول بڑھا اور وہ اپنی خداداد صلاحیت اور محنت و ریاضت کی بدولت دہلی کے مشاعروں میں مقبول ہونے لگے۔ شاعر اور زبان دان کی حیثیت سے شہرت پاتے ہوئے ان کی غزلیں گانے والیوں کے کوٹھوں پر گونجنے لگیں اور یوں ان کا کلام گلی گلی پھیلا۔

    اس دور میں حیدرآباد دکن میں داغ دہلوی موجود تھے جنھیں استاد تسلیم کیا جاتا تھا اور ہر طرف ان کا نام و شہرہ تھا۔ آغا شاعر قزلباش ان کے شاگرد ہوگئے اور وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرّہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جزوِ لازم بن گیا۔

    آغا شاعر قزلباش ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ انھوں نے ڈرامہ نویسی بھی کی جن میں حورِ عرب بہت مشہور ہوا۔ آغا صاحب نے قرآنِ پاک کا منظوم ترجمہ بھی کیا تھا۔ اس کے علاوہ عمر خیام کے رباعیات کو بھی اردو میں نظم کیا۔ نثری مجموعہ خمارستان کے ساتھ ان کی شعری تصانیف تیر و نشر، آویزۂ گوش، دامنِ مریم اور پرواز کے نام سے شایع ہوئیں۔ آغا صاحب گوناگوں صلاحیتوں کے مالک تھے۔ غزلوں کے علاوہ ان کی نظمیں، مرثیے اور منظوم تراجم بھی بہت مقبول ہوئے۔

    انھوں نے مہاراجہ کشن پرشاد شاد، کلکتہ میں سفیرِ ایران نصیرُ الملک مرزا شجاعت علی بیگ، راجہ جھالا واڑ (راجستھان) راج رانا بھوانی سنگھ، خیر پور (سندھ) کے والی نواب میر علی نواز خاں تالپور کے دربار میں بڑی عزّت پائی اور وظیفہ حاصل کیا۔

    اردو کے اس مشہور شاعر کو دکن میں صفدر جنگ کے قریب قبرستان درگاہ شاہِ مرداں میں سپردِ خاک کیا گیا تھا، لیکن ان کے مدفن کا کوئی نشان باقی نہیں۔

    ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے

    پہلے اس میں اک ادا تھی ناز تھا انداز تھا
    روٹھنا اب تو تری عادت میں شامل ہو گیا

    لو ہم بتائیں غنچہ و گل میں ہے فرق کیا
    اک بات ہے کہی ہوئی اک بے کہی ہوئی

    کس طرح جوانی میں چلوں راہ پہ ناصح
    یہ عمر ہی ایسی ہے سجھائی نہیں دیتا

  • نادرِ روزگار شخصیت آغا شاعر قزلباش کا یومِ وفات

    نادرِ روزگار شخصیت آغا شاعر قزلباش کا یومِ وفات

    اردو زبان و ادب کا ایک نہایت معتبر اور مستند نام آغا شاعر قزلباش دہلوی کا ہے جنھیں ہندوستان بھر میں استادِ فن ،صاحبِ کمال اور زبان داں کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔ 11 مارچ 1940ء کو یہ نادرِ روزگار شخصیت اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھی۔ آج ان کی برسی ہے۔

    آغا صاحب کے سیکڑوں شاگرد تھے جب کہ علّامہ اقبال جیسی ہستیاں زبان کے معاملہ میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔ آغا شاعر قزلباش دہلوی اپنے وقت کے استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے، لیکن زبان و بیان پر عبور اور اپنی خوش گوئی کے سبب نہ صرف عوام اور خواص میں شہرت و مقبولیت حاصل کی بلکہ ان کے ہم عصر اور استاد شاعر کا درجہ رکھنے والے بھی ان کے کلام کی فصاحت، روانی اور برجستگی کے معترف رہے۔

    وہ 5 مارچ 1871ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام آغا مظفر علی بیگ قزلباش تھا۔ انھوں نے حیدرآباد دکن کا رخ کیا تو وہاں داغ دہلوی کے شاگرد ہوگئے۔ وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جزوِ لازم بن گیا۔ آغا شاعر قزلباش ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے جو چند ڈرامے لکھے ان میں حورِ عرب مشہور ہوا۔

    انھوں نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے عمر خیام کے رباعیات کا بھی منظوم اردو ترجمہ کیا اور ان کا ایک نثری مجموعہ خمارستان کے نام سے بھی شایع ہوا۔ ان کی شعری تصانیف میں تیر و نشر، آویزہ گوش، دامنِ مریم اور پرواز شامل ہیں۔

  • زبان و بیان کے معاملے میں علّامہ اقبال بھی آغا صاحب سے رجوع کرتے تھے

    زبان و بیان کے معاملے میں علّامہ اقبال بھی آغا صاحب سے رجوع کرتے تھے

    آغا شاعر قزلباش دہلوی ان شاعروں میں سے ایک تھے جنھیں اپنے عہد میں ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہ استادِ فن ،صاحبِ کمال اور زبان داں تسلیم کیے جاتے تھے۔ ان کے سیکڑوں شاگرد تھے جب کہ علّامہ اقبال جیسی ہستیاں زبان کے معاملہ میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔ آج اردو کے اسی نام وَر اور باکمال شاعر کا یومِ پیدائش ہے۔

    آغا شاعر قزلباش دہلوی اپنے وقت کے استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے، لیکن زبان و بیان پر عبور اور اپنی خوش گوئی کے سبب نہ صرف عوام اور خواص میں شہرت و مقبولیت حاصل کی بلکہ ان کے ہم عصر اور استاد شاعر کا درجہ رکھنے والے بھی ان کے کلام کی فصاحت، روانی اور برجستگی کے پہلے ہی سے معترف تھے۔

    آغا شاعر قزلباش 5 مارچ 1871ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آغا مظفر علی بیگ قزلباش تھا۔ انھوں نے حیدرآباد دکن کا رخ کیا تو وہاں داغ دہلوی کے شاگرد ہوگئے۔ وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جزوِ لازم بن گیا۔ آغا شاعر قزلباش ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے جو چند ڈرامے لکھے ان میں حورِ عرب مشہور ہوا۔

    انھوں نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے عمر خیام کے رباعیات کا بھی منظوم اردو ترجمہ کیا۔ آپ کا ایک نثری مجموعہ خمارستان کے نام سے بھی شایع ہوا تھا۔

    کہتے ہیں کہ اسکول کے زمانے ہی میں ان کو مضمون نویسی اور شاعری کا شوق پیدا ہوا۔اسی دور میں ان کی ماں کا انتقال ہو گیا اور باپ نے دوسری شادی کر لی۔ سوتیلی ماں نے انھیں قبول نہ کیا اور ستانے کے بعد گھر سے نکال دیا۔ تب انھیں ایک بیگم نے جو شاعرہ بھی تھیں، پناہ دی اور آغا کی خوش خطی دیکھ کر ان سے اپنی غزلیں لکھوانا شروع کیں۔انہی بیگم صاحبہ کے توسط سے وہ طالب دہلوی کے شاگرد ہوئے اور بعد میں دکن پہنچ کر داغ سے تعلیم و اصلاح لی۔ ان کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے:

    یہ کیسے بال کھولے آئے، کیوں صورت بنی غم کی
    تمہارے دشمنوں کو کیا پڑی تھی میرے ماتم کی

    شکایت کس سے کیجے ہائے کیا الٹا زمانہ ہے
    بڑھایا پیار جب ہم نے محبت یار نے کم کی

    جگر میں درد ہے، دل مضطرب ہے، جان بے کل ہے
    مجھے اس بے خودی میں بھی خبر ہے اپنے عالم کی

    نہیں ملتے نہ ملیے خیر کوئی مر نہ جائے گا
    خدا کا شکر ہے پہلے محبت آپ نے کم کی

    مزہ اس میں ہی ملتا ہے نمک چھڑکو، نمک چھڑکو
    قسم لے لو نہیں عادت مرے زخموں کو مرہم کی

    گھٹائیں دیکھ کر بے تاب ہے، بے چین ہے شاعرؔ
    ترے قربان او مطرب سنا دے کوئی موسم کی

  • مُردے کو کیوں گھسیٹ لائے؟

    مُردے کو کیوں گھسیٹ لائے؟

    دلی کے بزرگ شعرا میں آغا قزلباش بڑے طباع اور دل چسپ شخصیت کے مالک تھے۔ جوانی میں غیرمعمولی خوب صورت رہے ہوں گے۔ بڑھاپے میں بھی سرخ و سفید تھے۔ وضع قطع سے بالکل دلّی والے معلوم نہیں ہوتے تھے۔

    سَر پر پشاوری کلاہ دار پگڑی، اُٹنگی چھوٹی مہری کی شلوار، بند گلے کی قمیص اس پر لمبا کوٹ، پاؤں میں انگریزی جوتا اور ہاتھ میں موٹا ڈنڈا۔

    آغا صاحب مشاعروں میں کم شریک ہوتے تھے۔ جب غزل پڑھنے کی باری آتی تو نہایت منمنی آواز میں ہائے آغا شاعر مر گیا، ارے مُردے کو کیوں گھسیٹ لائے کا نعرہ لگاتے اور ہائے ہائے کرتے شعر پڑھنے بیٹھ جاتے۔ غزل شروع کرنے سے پہلے فرماتے۔

    صاحبو، میرا قاعدہ ہے کہ میں تبرکاً استاد کے دو اشعار پہلے پڑھا کرتا ہوں اور یہ کہہ کر داغؔ کے منتخب شعر نہایت پاٹ دار آواز میں پڑھتے۔

    آغا صاحب نہایت عمدہ تحت اللفظ پڑھتے اور الفاظ اور لہجے کی تصویر بن جاتے۔ اس طرح وہ داغ کے شعروں سے مشاعرہ الٹ پلٹ کر دیتے اور داد کے اسی تأثر میں وہ اپنی غزل پر زیادہ داد حاصل کر لیتے۔

    شاعرِ نازک طبیعت ہوں، مرا دل کٹ گیا
    ساقیا لینا کہ شاید بال پیمانے میں تھا

    یہ مشہور شعر آغا شاعر قزلباش کا ہے۔

    (تابش دہلوی کی کتاب دید و باز دید سے انتخاب)