Tag: آغا طالش

  • آغا طالش: فلم کی دنیا کا ایک بڑا نام

    آغا طالش: فلم کی دنیا کا ایک بڑا نام

    آج آغا طالش کی برسی ہے جنھیں پاکستانی فلمی صنعت کے لیجنڈری اداکاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ اگرچہ متحدہ ہندوستان کے زمانے میں ہی اداکاری شروع کر چکے تھے، مگر قیامِ پاکستان کے بعد فلمی دنیا میں انھیں لازوال شہرت نصیب ہوئی۔

    آغا طالش کی شخصیت کے کئی دل چسپ اور باوقار پہلو ہیں جب کہ ان کے فن و کمال کا اعتراف فلمی ناقدین اور ان کے ہم عصر بھی کرتے رہے ہیں۔ ان کے دو ہی شوق تھے، ایک اداکاری اور دوسرا دریا پر جا کر مچھلیاں پکڑنا۔ آغا صاحب نے دونوں کاموں میں زندگی گزار دی۔ وہ جوانی میں ترقی پسند رہے اور نام ور ادیبوں کے ساتھ ان کی دوستی اور تعلقات رہے۔ آغا طالش کی مادری زبان فارسی تھی اور ان کی شادی بھی ایسے ہی خاندان میں ہوئی تھی۔ اہلیہ انتہائی پردہ دار اور مذہبی خاتون تھیں۔ آغا طالش کو اداکار بننے کا شوق ریڈیو سے صدا کاری کے دوران ہوا۔ وہ اداکار تو بعد میں بنے تھے مگر ریڈیو پر صدا کاری نے ان کو ایک اچھا اداکار بننے میں بہت مدد دی۔ اس سے قبل انھیں فوج میں نوکری مل گئی تھی جسے اس شوق کی خاطر چھوڑ کر آغا طالش لاہور سے ممبئی چلے گئے تھے۔ اُن دنوں ادیبوں اور شاعروں کی ترقی پسند تحریک عروج پر تھی، لہٰذا آغا طالش بھی ان کے ہمنوا ہو گئے۔ ان کی دوستی کرشن چندر، کیفی اعظمی، نیاز حیدر، سبط حسن، ابراہیم جلیس، سجاد ظہیر، علی سردار جعفری اور ساحر لدھیانوی جیسے عظیم شاعروں اور ادیبوں سے ہو گئی۔ بعد میں لاہور میں ان کی دوستی فلم انڈسٹری کے ترقی پسند ادیب اور شاعر ریاض شاہد سے ہوئی جو تا دمِ حیات برقرار رہی۔

    اداکار طالش کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا۔ وہ 10 نومبر 1923ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محکمۂ پولیس میں تھے اور جب طالش کی پیدائش کے بعد ان کا تبادلہ متھرا ہوا تو وہیں‌ آغا طالش نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ انھیں بمبئی میں کام تو مل گیا تھا، مگر تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کرنا پڑی لیکن طالش نے پاکستان میں بریک تھرو فلم سات لاکھ سے حاصل کیا جس میں سلیم رضا کا سدا بہار گیت ان پر عکس بند کیا گیا جس کے بول تھے، یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں۔ لیکن ان کی اصل پہچان فلم شہید کا منفرد کردار تھا جو 1962 میں پاکستانی فلم بینوں‌ کو بہت بھایا۔ اس فلم میں طالش نے ایک انگریز "اجنبی” کا کردار ادا کیا تھا جو تیل کی تلاش میں صحرائے عرب کی خاک چھانتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچتا ہے اور مقامی قبیلے میں نفاق ڈال کر اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے۔ طالش نے اس کردار کو بخوبی نبھایا اور اس یادگار کردار کے بعد انھیں فلموں‌ میں بڑے اور بھاری رول ملنے لگے۔ ان کی مشہور فلموں میں نتھ، جھیل کنارے، سات لاکھ، باغی، شہید، سہیلی، فرنگی، زرقا، وطن، نیند، زینت، امراؤ جان ادا سرفہرست ہیں۔ انھوں نے اردو فلموں کے علاوہ پنجابی اور پشتو فلموں میں بھی کام کیا۔

    1962 میں فلم شہید، 1964 کی فلم فرنگی اور چند سال بعد زرقا وہ فلم ثابت ہوئی جس نے آغا طالش کو صفِ اوّل کا اداکار بنا دیا۔ ان فلموں‌ میں طالش کو ان کے کرداروں نے امر کر دیا۔ تقسیم سے قبل ان کی پہلی فلم سرائے کے باہر (1947) تھی جو لاہور میں بنی تھی۔ تقسیم کے بعد طالش کی پہلی فلم نتھ بتائی جاتی ہے جو 1952 میں‌ ریلیز ہوئی لیکن ابتدائی درجنوں فلموں میں ان کے کردار شائقین کی توجہ حاصل نہیں‌ کرسکے تھے۔ اس عرصہ میں طالش ہیرو بنے، ولن کا رول کیا اور معاون اور مزاحیہ اداکار کے طور پر بھی پردے پر دکھائی دیے۔ مگر اپنی محنت اور لگن سے انھوں نے وہ معیاری پرفارمنس دی کہ سنیما بین اور فلمی نقاد بھی ان کے معترف ہوگئے۔ وہ کبھی نواب کے بہروپ میں اسکرین پر نظر آئے تو کہیں‌ ایمان دار اور فرض شناس پولیس افسر، کسی فلم میں‌ انھوں نے ڈاکو کا روپ دھارا تو کہیں‌ ایک مجبور باپ کے رول میں شائقین کے دل جیتے۔

    اداکار نے دہائیوں پر محیط اپنے فنی سفر میں فلمی صنعت کا معتبر نگار ایوارڈ 7 مرتبہ اپنے نام کیا۔ 19 فروری 1998ء کو آغا طالش کا انتقال ہوگیا تھا۔ وہ لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • آغا طالش: پاکستانی فلمی صنعت کا ایک بڑا نام

    آغا طالش: پاکستانی فلمی صنعت کا ایک بڑا نام

    قیامِ پاکستان کے بعد جب یہاں فلمی دنیا آباد ہوئی تو طالش بھی ان فن کاروں‌ میں شامل تھے جنھوں‌ نے سنیما بینوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کا آغاز کیا۔ اگرچہ وہ متحدہ ہندوستان کے زمانے میں ہی اداکاری شروع کرچکے تھے، لیکن اب پاکستان میں بڑے پردے پر نام بنانا ان کی خواہش تھی۔ آج آغا طالش کی برسی ہے جنھیں لیجنڈری اداکاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

    1962 میں فلم شہید، 1964 کی فلم فرنگی اور چند سال بعد زرقا وہ فلم ثابت ہوئی جس نے آغا طالش کو صفِ اوّل کا اداکار بنا دیا۔ ان فلموں‌ میں طالش کو ان کے کرداروں نے امر کر دیا۔ تقسیم سے قبل ان کی پہلی فلم سرائے کے باہر (1947) تھی جو لاہور میں بنی تھی۔ تقسیم کے بعد طالش کی پہلی فلم نتھ بتائی جاتی ہے جو 1952 میں‌ ریلیز ہوئی لیکن ابتدائی درجنوں فلموں میں ان کے کردار شائقین کی توجہ حاصل نہیں‌ کرسکے تھے۔ اس عرصہ میں طالش ہیرو بنے، ولن کا رول کیا اور معاون اور مزاحیہ اداکار کے طور پر بھی پردے پر دکھائی دیے۔ مگر پھر اپنی محنت اور لگن سے انھوں نے وہ معیاری پرفارمنس دی کہ سنیما بین اور فلمی نقاد بھی ان کے معترف ہوگئے۔ اداکار آغا طالش نے فلم کی دنیا میں دہائیوں پر محیط اپنے سفر میں شان دار پرفارمنس کی بدولت پاکستانی فلمی صنعت کا معتبر ترین نگار ایوارڈ 7 مرتبہ اپنے نام کیا۔ 19 فروری 1998ء کو آغا طالش انتقال کرگئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد آغا طالش نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو پاکستان کے پشاور سینٹر سے کیا اور بعد میں فلم کی طرف آئے۔

    اداکار طالش کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا۔ وہ 10 نومبر 1923ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محکمۂ پولیس میں تھے اور جب طالش کی پیدائش کے بعد ان کا تبادلہ متھرا ہوا تو وہیں‌ آغا طالش نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ انھیں بچپن سے اداکاری کا شوق ہوگیا تھا۔ طالش نے بطور چائلڈ اسٹار اسٹیج ڈراموں میں اداکاری بھی کی اور پھر سنیما کا شوق ایسا ہوا کہ بمبئی پہنچ گئے۔ کام تو مل گیا، مگر تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کرنا پڑی اور یہاں طالش کو بریک تھرو فلم سات لاکھ سے ملا تھا جس میں ان پر سلیم رضا کا سدا بہار گیت عکس بند کیا گیا جس کے بول تھے، یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں۔ لیکن ان کی اصل پہچان فلم شہید کا منفرد کردار تھا جو 1962 میں پاکستانی فلم بینوں‌ کو بہت بھایا۔ اس فلم میں طالش نے ایک انگریز "اجنبی” کا کردار ادا کیا تھا جو تیل کی تلاش میں صحرائے عرب کی خاک چھانتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچتا ہے اور مقامی قبیلے میں نفاق ڈال کر اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے۔ طالش نے اس کردار کو بخوبی نبھایا اور اس یادگار کردار کے بعد انھیں فلموں‌ میں بڑے اور بھاری رول ملنے لگے۔ ان کی مشہور فلموں میں نتھ، جھیل کنارے، سات لاکھ، باغی، شہید، سہیلی، فرنگی، زرقا، وطن، نیند، زینت، امراؤ جان ادا سرفہرست ہیں۔ انھوں نے اردو فلموں کے علاوہ پنجابی اور پشتو فلموں میں بھی کام کیا۔

    آغا طالش نے پاکستانی فلموں میں مختلف کردار نبھائے۔ وہ کبھی نواب کے بہروپ میں اسکرین پر نظر آئے تو کہیں‌ ایمان دار اور فرض شناس پولیس افسر، کسی فلم میں‌ انھوں نے ڈاکو کا روپ دھارا تو کہیں‌ ایک مجبور باپ کے رول میں شائقین کے دل جیتے۔ آغا طالش ان فن کاروں‌ میں شامل ہیں جنھیں‌ اداکاری کا جنون تھا اور انھیں‌ جب موقع ملا تو ہر کردار اس خوبی سے نبھایا کہ دیکھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

    اداکار آغا طالش لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • لیجنڈ اداکار آغا طالش کی برسی

    لیجنڈ اداکار آغا طالش کی برسی

    آج پاکستان کی فلمی صنعت کے نام ور اداکار آغا طالش کی برسی ہے۔ وہ 19 فروری 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔

    انھوں نے اپنی شان دار اداکاری کی بدولت پاکستان فلم نگری کا سب سے معتبر نگار ایوارڈ 7 مرتبہ اپنے نام کیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعدد طالش نے ریڈیو پشاور سینٹر سے عملی زندگی میں‌ قدم رکھا اور پھر فلم کی طرف آگئے تھے۔

    ان کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا۔ وہ 10 نومبر 1923ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم سے قبل انھوں نے بمبئی میں بننے والی ایک فلم میں بھی کام کیا تھا۔

    پاکستان میں آغا طالش نے بڑے پردے پر مختلف کردار نبھائے اور شائقین کی توجہ حاصل کی۔ ان کی مشہور فلموں میں نتھ، جھیل کنارے، سات لاکھ، باغی، شہید، سہیلی، فرنگی، زرقا، وطن، نیند، زینت، امرائو جانِ ادا سرفہرست ہیں جو اپنے وقت کی کام یاب فلمیں تھیں۔ انھوں نے اردو زبان میں بننے والی فلموں کے علاوہ پنجابی اور پشتو فلموں میں بھی کام کیا۔

    وہ کبھی نواب کے بہروپ میں اسکرین پر نظر آئے تو کہیں‌ ایمان دار اور فرض شناس پولیس افسر، کسی فلم میں‌ انھوں نے ڈاکو کا روپ دھارا تو کہیں‌ ایک مجبور باپ کے رول میں شائقین کے دل جیتے۔ آغا طالش ان فن کاروں‌ میں شامل ہیں جنھیں‌ اداکاری کا جنون تھا اور انھیں‌ جب موقع ملا تو ہر کردار اس خوبی سے نبھایا کہ دیکھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ انھوں‌ نے کئی فلموں‌ میں‌ منفی کردار بھی ادا کیے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کا یہ باکمال اداکار لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہے۔

  • "سہیلی” جس نے مشہور اداکارہ شمیم آرا کو احتجاج پر مجبور کردیا

    "سہیلی” جس نے مشہور اداکارہ شمیم آرا کو احتجاج پر مجبور کردیا

    پاکستان میں ہر لحاظ سے کام یاب قرار دی جانے والی فلموں میں سے ایک "سہیلی” بھی ہے جو 23 دسمبر 1960ء کو نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

    حکومتِ پاکستان نے اس سال صدارتی ایوارڈ کا اجرا کیا تھا اور اسی برس سہیلی بھی ریلیز ہوئی جس نے مختلف زمروں میں پانچ ایوارڈ اپنے نام کیے۔

    اس فلم کے پروڈیوسر ایف ایم سردار تھے، جب کہ اس کی کہانی حسرت لکھنوی نے لکھی تھی اور اس کے ہدایت کار ایس ایم یوسف تھے۔ سہیلی کی موسیقی اے حمید کی ترتیب دی ہوئی تھی اور فلم کے نغمہ نگار فیاض ہاشمی تھے۔

    سہیلی میں مرکزی کردار معروف اداکارہ شمیم آرا، نیر سلطانہ، ببّو، رخشی، درپن اور اسلم پرویز نے نبھائے تھے۔

    اس فلم کو پانچ ایوارڈز میں بہترین فلم، بہترین ہدایت کار، بہترین اداکارہ، بہترین معاون اداکار اور بہترین معاون اداکارہ کے ایوارڈز دیے گئے۔ شمیم آرا نے بہترین اداکارہ کا ایوارڈ اپنے نام کیا جب کہ طالش اور نیر سلطانہ کو معاون اداکار کے ایوارڈ ملے۔

    یہ پاکستانی سنیما کی وہ یادگار فلم ثابت ہوئی جسے بعد میں چار نگار ایوارڈ بھی دیے گئے۔

    یہاں یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں‌ کہ صدارتی ایوارڈ میں شمیم آرا کو بہترین اداکارہ کا اور نیر سلطانہ کو بہترین معاون اداکارہ کا ایوارڈ ملا تھا جب کہ نگار ایوارڈ میں نیر سلطانہ نے بہترین اداکارہ کا اور شمیم آرا بہترین معاون اداکارہ کا ایوارڈ حاصل کیا اور اسی پر ایک تنازع بھی سامنے آیا۔ اس ایوارڈ کو شمیم آرا نے احتجاجا قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

    ایس ایم یوسف کو بہترین ہدایت کار اور اداکار درپن نے بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔

  • لیجنڈ اداکارآغا طالش کوہم سے بچھڑے21 برس بیت گئے

    لیجنڈ اداکارآغا طالش کوہم سے بچھڑے21 برس بیت گئے

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے اداکار آغا طالش کو دنیا سے کوچ کیے اکیس برس بیت گئے مگر مداح آج بھی ان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔

    پاکستان فلم انڈسٹری میں اکیڈمی کا درجہ رکھنے والے اداکار کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا اور وہ 10 نومبر 1927 کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔

    طالش نے1945 میں کرشن چندر کی تحریر کردہ کہانی پر فلم’سرائے کے باہر‘سےاپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔تاہم ان کی یہ فلم ذیادہ کامیاب نہ ہوئی۔

    قیام پاکستان کے بعد وہ پہلے ریڈیو پاکستان پشاور سے منسلک ہوئے اور پھر فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔انہوں نے1952 میں فلم’نتھ‘میں اداکاری کی تاہم انہیں اصل شہرت فلم’سات لاکھ‘سے ملی۔

    آغا طالش کی زندگی میں ہدایت کار ریاض شاہد نےاہم کردار ادا کیا اور 1962 میں فلم ’شہید‘ نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

    لیجنڈ اداکار کی دیگر فلموں میں باغی، سہیلی، فرنگی، زرقا، وطن، نیند، کنیز، لاکھوں میں ایک، زینت، امراﺅ جان ادا اور آخری مجرا کے نام سرفہرست ہیں۔

    آغاطالش نے اپنے فلمی کیریئر میں 500 سے زائد فلموں میں کام کیا۔انہوں نے درجنوں ایوارڈز کے علاوہ حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ تمغہ حسن کارکردگی بھی حاصل کیا۔

    آغا طالش کے بیٹے احسن طالش بھی اپنے والد کی طرح اس شعبے میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔اب تک کئی پاکستانی ڈرامے بنا ئےہیں جن میں وہ بطور اداکار، پروڈیوسر اور ڈائریکٹرکام کرچکے ہیں۔

    احسن طالش کے کامیاب ڈراموں میں راکھ، اعتراف، محبت کرنے والوں کے نام، دل کو منانا آیا نہیں، کوئی تو بارش اور نم سمیت دیگر شامل ہیں۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں 5 دہائیوں تک فن کا لوہا منوانے والے لیجنڈ اداکارآغا طالش 19 فروری 1998 کوانتقال کرگئےلیکن آج بھی وہ اپنی اداکاری کے باعث لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

  • لیجنڈ اداکارآغاطالش کوہم سے بچھڑے19برس بیت گئے

    لیجنڈ اداکارآغاطالش کوہم سے بچھڑے19برس بیت گئے

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے اداکار آغا طالش کو دنیا سے کوچ کیےانیس برس بیت گئے مگر مداح آج بھی ان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔

    پاکستان فلم انڈسٹری میں اکیڈمی کا درجہ رکھنے والے اداکار کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا اور وہ 10 نومبر 1927 کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔

    طالش نے1945 میں کرشن چندر کی تحریر کردہ کہانی پر فلم’سرائے کے باہر‘سےاپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔تاہم ان کی یہ فلم ذیادہ کامیاب نہ ہوئی۔

    قیام پاکستان کے بعد وہ پہلے ریڈیو پاکستان پشاور سے منسلک ہوئے اور پھر فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔انہوں نے1952 میں فلم’نتھ‘میں اداکاری کی تاہم انہیں اصل شہرت فلم’سات لاکھ‘سے ملی۔

    آغا طالش کی زندگی میں ہدایت کار ریاض شاہد نےاہم کردار ادا کیا اور 1962 میں فلم ’شہید‘ نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

    لیجنڈ اداکار کی دیگر فلموں میں باغی، سہیلی، فرنگی، زرقا، وطن، نیند، کنیز، لاکھوں میں ایک، زینت، امراﺅ جان ادا اور آخری مجرا کے نام سرفہرست ہیں۔

    آغاطالش نے اپنے فلمی کیریئر میں 500 سے زائد فلموں میں کام کیا۔انہوں نے درجنوں ایوارڈز کے علاوہ حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ تمغہ حسن کارکردگی بھی حاصل کیا۔

    آغا طالش کے بیٹے احسن طالش بھی اپنے والد کی طرح اس شعبے میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔اب تک کئی پاکستانی ڈرامے بنا ئےہیں جن میں وہ بطور اداکار، پروڈیوسر اور ڈائریکٹرکام کرچکے ہیں۔

    احسن طالش کے کامیاب ڈراموں میں راکھ، اعتراف، محبت کرنے والوں کے نام، دل کو منانا آیا نہیں، کوئی تو بارش اور نم سمیت دیگر شامل ہیں۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں 5 دہائیوں تک فن کا لوہا منوانے والے لیجنڈ اداکارآغا طالش 19 فروری 1998 کوانتقال کرگئےلیکن آج بھی وہ اپنی اداکاری کے باعث لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔