Tag: آلودگی

  • پاکستان کے ختم ہوتے گلیشیئرز: بقا کا برفانی بحران

    پاکستان کے ختم ہوتے گلیشیئرز: بقا کا برفانی بحران

    پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع برفانی گلیشئرز نہ صرف قدرتی حسن کا شاہکار ہیں بلکہ ملک کے دریاؤں، زراعت، توانائی اور انسانی زندگی کے لیے ایک بنیادی وسیلۂ حیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر افسوس کہ موسمیاتی تبدیلی کے مہلک اثرات نے ان برفانی خزانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    پاکستان کے گلیشئرز خاموش مگر زندہ نشانیاں ہیں جو ہمیں خبردار کر رہی ہیں کہ وقت ختم ہو رہا ہے

    آج پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں گلیشئرز کی پگھلنے کی رفتار خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران ہماری آنے والی نسلوں کی زندگی کو خشک، بنجر اور عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے۔

    پاکستان دنیا کے ان چند خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جن کے پاس 7200 سے زائد گلیشئرز موجود ہیں، جو دنیا کے سب سے بڑے غیر قطبی برفانی ذخائر میں شمار ہوتے ہیں۔ بیافو، بالتورو، سیاچن، پسو اور ہسپر جیسے گلیشئرز نہ صرف قدرتی عجوبے ہیں بلکہ پاکستان کے دریاؤں، خاص طور پر دریائے سندھ، کے پانی کی اصل بنیاد بھی ہیں۔

    پاکستان میں اس وقت اندازاً 7200 سے زائد گلیشیئرز موجود ہیں، جن میں سے تقریباً 80 فیصد گلیشئرز تیزی سے پگھلنے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ شمالی علاقوں میں درجۂ حرارت میں 1.5 سے 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ مئی و جون 2025 میں گلگت اور ہنزہ میں غیر معمولی گرمی کی لہریں آئیں، جنہوں نے گلیشئرز کے غیر موسمی پگھلاؤ کو مزید بڑھا دیا۔

    2024–2025 کے دوران، اقوام متحدہ اور مقامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں 33 سے زائد گلیشئرز ایسے زونز میں آ چکے ہیں جہاں گلشیل لیک آؤٹ فلیش فلڈز(GLOFs) کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ 2024-25 کے دوران گلگت بلتستان اور چترال میں کم از کم 9 بڑے GLOF واقعات ریکارڈ ہوئے، ان حادثات کے نتیجے میں اب تک 12 ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں، جن میں گھروں کی تباہی، زرعی اراضی کا نقصان، اور بنیادی ڈھانچے کی بربادی شامل ہے، جب کہ ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) اور پاکستان میٹ ڈیپارٹمنٹ کی حالیہ رپورٹس کے مطابق 2025 تک پاکستان کے 80 فیصد گلیشئرز میں پگھلاؤ کے آثار واضح ہو چکے ہیں جب کہ بیافو، ست پارہ، چوغولنگما جیسے گلیشئرز کی برف میں سالانہ 1.2 میٹر تک کمی نوٹ کی گئی جب کہ کئی گلیشئرز اپنی سطح کا 20 تا 25 فیصد حصہ کھو چکے ہیں۔

    دنیا بھر میں بڑھتا ہوا گرین ہاؤس ایفیکٹ پاکستان کے برفانی علاقوں کو براہِ راست متاثر کر رہا ہے

    دنیا بھر میں بڑھتا ہوا گرین ہاؤس ایفیکٹ پاکستان کے برفانی علاقوں کو براہِ راست متاثر کر رہا ہے۔ ٹرانسپورٹ، لکڑی جلانے اور صنعتوں سے اٹھنے والے ذرات گلیشئرز پر جمع ہو کر سورج کی حرارت کو جذب کرتے ہیں اور برف کو تیز رفتاری سے پگھلاتے ہیں جب کہ شمالی علاقوں میں بے قابو ہوتی سیاحتی سرگرمیاں، پلاسٹک ویسٹ اور تعمیرات، ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہی ہیں۔

    گلیشیئرز کے پگھلاؤ کے نتیجے میں پانی کا بہاؤ وقتی طور پر تو ضرور پر بڑھے گا، لیکن آنے والی دہائیوں میں پاکستان میں شدید پانی کی قلت متوقع ہے۔ پاکستان کی زراعت، جو دریائے سندھ پر انحصار کرتی ہے، اس سے تباہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہائیڈرو پاور کا انحصار دریاؤں پر ہے، اور پانی کی کمی کی صورت میں بجلی کی شدید قلت اور لوڈشیڈنگ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلاؤ سے پیدا ہونے والے سیلاب دیہاتی علاقوں کو اجاڑ سکتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں سے ماحولیاتی پناہ گزین شہروں کی جانب نقل مکانی کر سکتے ہیں۔

    GLOF-11 پروجیکٹ کے تحت وارننگ سسٹمز کی تنصیب، نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی 2021 اور ایڈاپٹیشن پلانز جیسے اقدامات کے ذریعے جہاں گلیشیئر کے پگھلاؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران میں کمی لائی جا سکتی ہے وہیں مقامی کمیونٹیز میں آگاہی کی کمی، محدود تحقیق و ڈیٹا شیئرنگ، پائیدار سیاحت اور فضلہ مینجمنٹ کے فقدان کے چیلنجیز کو حل کرنا بھی ضروری ہو گا۔

    گلیشیئر مانیٹرنگ کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے ساتھ، شمالی علاقوں میں ماحول دوست سیاحت کو فروغ دیا جائے۔ مقامی افراد کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی تربیت دی جائے، قومی و صوبائی سطح پر ماحولیاتی ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے، صنعتی آلودگی اور سیاہ کاربن کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔

    پاکستان کے گلیشیئرز خاموش مگر زندہ نشانیاں ہیں جو ہمیں خبردار کر رہی ہیں کہ وقت ختم ہو رہا ہے۔ اگر ہم نے آج بھی سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو پانی، خوراک، توانائی اور انسانی زندگی کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ماحولیاتی جنگ اب برف کے محاذ پر لڑی جا رہی ہے، اور اس میں خاموشی شکست کی علامت ہے۔

  • پاکستان: مصدق ملک کے پانی، موسمیاتی آفات اور گرمی کی شدت کے حوالے سے خیالات

    پاکستان: مصدق ملک کے پانی، موسمیاتی آفات اور گرمی کی شدت کے حوالے سے خیالات

    کراچی کی جھلستی گرمی میں، جہاں سندھ طاس معاہدے پر بھارت کے ساتھ کشیدگی جاری ہے، مصدق مسعود ملک امریکانو کافی نوش کررہے تھے۔ حال ہی میں پاکستان کے وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کاری مقرر ہونے والے مصدق ملک نے وزارت آبی وسائل اور پیٹرولیم کی نگرانی کے اپنے سابقہ عہدے کو چھوڑ کر ایک ایسا کردار سنبھالا ہے جسے وہ ناگزیر اور چیلنجنگ قرار دیتے ہیں۔ اپریل 2025 کی تبدیلی کے بعد اپنے پہلے انٹرویوز میں سے ایک میں، انہوں نے خصوصی طور پر ڈائیلاگ ارتھ سے بات کی۔

    ملک پاکستان کے سب سے سنگین ماحولیاتی خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں، “فضائی آلودگی اور اس کا پاکستانی عوام پر اقتصادی اثر۔ پانی کی آلودگی اور اس تک رسائی۔ اور ٹھوس فضلہ (چاہے وہ میتھین ہو یا کاربن ڈائی آکسائیڈ) کے انتظامات ۔ یہ تین بڑے چیلنجز ہیں جن کا ہمیں سامنا ہے”۔

    لیکن انہیں سب سے زیادہ تشویش پاکستان کے پگھلتے ہوئے گلیشیئرز کی ہے۔ کراچی آنے سے پہلے، سینیٹر ملک کے پہلے سرکاری دوروں میں سے ایک گلگت بلتستان تھا، جو پاکستان کا شمالی ترین علاقہ ہے اور قطبی علاقوں کے علاوہ دنیا کے سب سے بڑے گلیشیئر ذخائر کا گھر ہے۔ وہ وہاں اقوام متحدہ کے ایک منصوبے کے تحت جاری اقدامات کا جائزہ لینے گئے تھے، جس کا مقصد گلیشیئر جھیلوں کے اچانک بہاؤ (جی ایل او ایف) کے خطرے کو کم کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اعداد اپنی حقیقت خود بیان کرتے ہیں، پاکستان میں 13,000 سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں، جو اسے بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کے سامنے فرنٹ لائن پر کھڑا کرتے ہیں۔

    وہ کہتے ہیں، “آبادی کے بڑھنے کے ساتھ، کمیونٹیاں اب وہیں نہیں رہتیں جہاں ان کے اجداد رہتے تھے۔ اگر وہ ان خطرات کے راستے میں ہوں تو کیا ہوگا؟”

    گلگت بلتستان سے تقریباً 2,000 کلومیٹر دور، وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، کراچی میں بالکل مختلف قسم کے موسمیاتی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور مالیاتی مرکز ہے۔ ان میں سب سے اہم وفاق اور صوبوں کے درمیان سیاسی خلیج کو پُر کرنا اور صوبوں کے متصادم مفادات کو سمجھنا ہے۔

    تباہی کا تماشہ؟
    بھارت کی طرف سے مالی امداد روکنے کے سفارتی دباؤ کے باوجود، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے اس ماہ پاکستان کے لئے ایک نیا قرضہ منظور کیا ہے۔ ایک بیان میں، آئی ایم ایف نے تصدیق کی کہ اس نے پاکستانی حکومت کی ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلیٹی فیسلیٹی (آر ایس ایف ) کے تحت درخواست قبول کر لی ہے، جس کے تحت 1.4 ارب امریکی ڈالر کی مالی معاونت فراہم کی جائے گی تاکہ ملک موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق چیلنجز کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کر سکے۔

    اگرچہ یہ فنڈنگ ایک اہم مدد ثابت ہوگی، لیکن مالک اس حوالے سے شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “ہم ابھی تک 2022 کے سیلاب کے دوران پیش آنے والے بہت سے مسائل سے نہیں نکل پائے۔ وعدے کئے جاتے ہیں، لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا۔” انہوں نے مزید کہا، “نقصان اور تباہی فنڈ کے لئے وعدے کئے گئے تھے، لیکن کیا اس فنڈ میں رقم ڈالی گئی؟ وعدوں کے حجم کو دیکھیں، پھر اصل میں موصول ہونے والی فنڈنگ کو دیکھیں۔”

    وہ پوری عالمی ردعمل کے نظام پر سوال اٹھاتے ہیں، “کیا یہ سب صرف ایک تباہی کا تماشہ ہے، جہاں ہم سب مل کر شاندار انگریزی بولتے ہیں اور زبردست تقاریر کرتے ہیں؟”

    حال ہی میں، پاکستان نے متعلقہ فریقین سے تباہی اور نقصان فنڈ سے فنڈز کی تقسیم کو تیز کرنے کا مطالبہ کیا ہے، کیونکہ ملک شدید موسمی واقعات اوربتدریج بڑھتے موسمیاتی اثرات کا شکار ہے۔ مالک کہتے ہیں، “میں مایوس نہیں ہوں۔ جو کچھ میں اس وقت کر رہا ہوں وہ لابنگ ہے۔ اور یہ صرف پاکستان کے لئے نہیں، اگرچہ یہ میری پہلی اور سب سے اہم ذمہ داری ہے، بلکہ میں کمزور طبقات کے لئے، میں موسمیاتی انصاف کے لئے لابنگ کر رہا ہوں۔”

    وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی نے حالیہ بین الاقوامی فورمز پر بھرپور انداز میں اپنا موقف رکھا ہے، جہاں انہوں نے موسمی انصاف اور ترقی پذیر ممالک کے حقوق کے لئے بھرپور حمایت کی ہے۔ جنیوا کلائمٹ سمٹ سمیت دیگر مواقع پر، انہوں نے عالمی موسمیاتی مالیات کے نظام میں موجود ناانصافیوں کی سخت الفاظ میں نشاندہی کی۔ وہ چند ممالک کو غیر متناسب فوائد پہنچنے پر تنقید کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “دنیا کے باقی ممالک کا کیا ہوگا؟” اور پوچھتے ہیں، “پاکستان کا کیا ہوگا؟”

    پانی کے تنازعات
    ملکی سطح پر ماحولیات کے سب سے زیادہ متنازعہ مباحثوں میں سے ایک جنوبی پنجاب کے چولستان کے صحرا میں متعقدہ چھ نہروں کا منصوبہ ہے۔ پاکستان میں پانی ایک نہایت حساس اور سیاسی مسئلہ ہے، جہاں صوبے دریائے سندھ کے نظام میں اپنے حصے کی تقسیم پر طویل عرصے سے متنازعہ رہے ہیں، کیونکہ یہ نظام ملک کی زرعی معیشت کا سہارا ہے۔ اسی پس منظر میں، چھ نہروں کا یہ منصوبہ، جسے سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سندھ صوبے کی طرف پانی کے بہاؤ کم ہوجاۓ گا، سخت مخالفت کا سامنا کر رہا ہے۔ سندھ حکومت نے پانی کی مقدار میں کمی کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے، منصوبے پر مشاورت نہ ہونے پر بھی اعتراض کیا ہے۔

    ملک اس تصور کا دفاع کرتے ہیں اور اسے ممکنہ طور پر فائدہ مند قرار دیتے ہیں، لیکن زور دیتے ہیں کہ صوبوں کے درمیان اعتماد اور شفافیت خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “ہر صوبے کے پانی کے حقوق کی حفاظت کا ممکنہ حل یہ ہے کہ ہر بین الصوبائی جنکشن پر پانی کی نگرانی کے لئے ایک ٹیلیمیٹری نظام قائم کیا جائے، تاکہ ہر وہ بوند جو بہتی ہے، اس کا حساب رکھا جا سکے۔” وہ مزید کہتے ہیں کہ جب یہ نظام نافذ ہو جائے گا، تو صوبے یہ یقین دہانی کر سکیں گے کہ انہیں اپنے حصے کا پانی “سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے مل رہا ہے، نہ کہ انسانی مداخلت سے۔”

    تاہم، عوامی مظاہروں اور بڑھتے ہوئے بین الصوبائی تنازعات کی وجہ سے حکام نے اس منصوبے کو اس وقت تک روک دیا ہے جب تک کہ اتفاقِ رائے نہ ہو جائے۔ ملک کہتے ہیں، “ہم صوبوں کی رضامندی کے بغیر کچھ نہیں کرنا چاہتے، اور صوبوں سے مشاورت کی جانی چاہیے۔”

    ملک پانی کے نظم و نسق میں شفافیت اور جوابدہی کے اپنے عزم کو دہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “کوئی یکطرفہ فیصلہ سازی نہیں ہوگی،” اور مزید وضاحت کرتے ہیں کہ ایک مضبوط ٹیلیمیٹری نظام حقیقی وقت میں پانی کی نگرانی اور منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے گا۔

    وفاقی وزیر پانی کی پیداواری صلاحیت کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہیں، ایک ایسا تصور جسے ان کے خیال میں پاکستان میں خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ وہ کہتے ہیں، “زرعی شعبے میں پانی کے استعمال کی پیداواریت میں 3 فیصد بہتری وہی پیداوار دے سکتی ہے جو 30 لاکھ ایکڑ فٹ سیلابی آبپاشی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔” دوسرے الفاظ میں: “زیادہ فصل، کم پانی۔”

    ان کے مطابق، توجہ کو آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے کو پھیلانے کے بجائے موجودہ پانی کے مؤثر استعمال پر مرکوز کرنا چاہیے۔

    جب پاکستان میں بندوں کی تعمیر کے سیاسی تنازعے کے بارے میں پوچھا گیا تو ملک نے مسکراتے ہوئے کہا، “میں اس بند کا نام نہیں لوں گا، ورنہ ‘مجرم’ بنا دیا جاؤں گا۔

    بھارت اور پاکستان کے درمیان تازہ کشیدگی اور تصادم کے بعد حال ہی میں اعلان کردہ جنگ بندی کے باوجود، انڈس واٹرز ٹریٹی کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ کشمیری علاقے پہلگام پر حملے کے بعد بھارت نے انڈس واٹرز ٹریٹی کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا، جس کی پاکستان نے سخت مذمت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں، “اگر کوئی اختلاف ہو تو پہلا قدم انڈس کمشنرز کے درمیان دوطرفہ بات چیت ہونی چاہیے۔ اگر وہ کامیاب نہ ہو تو دوسرا راستہ تکنیکی ماہرین کی غیرجانبدارانہ مشاورت ہے۔” “آخری حل ثالثی عدالت ہے، اور یہ طریقہ اس معاہدے میں کام کرتا رہا ہے۔ اور اگر اس معاہدے کی کوئی وقعت نہیں، تو دنیا میں کسی معاہدے کی وقعت نہیں۔”

    ملک کا دعویٰ ہے کہ بھارت نے اس معاہدے کی متعدد بار خلاف ورزی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں، “معاہدے کی ایک لازمی شرط یہ ہے کہ کمشنرز کو وقتاً فوقتاً ملاقات کرنی ہوتی ہے، جس کی بھارت پہلے ہی خلاف ورزی کر چکا ہے۔ وہ اتنی معلومات یا ڈیٹا بھی فراہم نہیں کرتا جو اس دوطرفہ نظام میں پانی کے بہاؤ کی تصدیق میں مدد دے۔” وہ مزید کہتے ہیں کہ پہلگام حملے سے پہلے ہی بھارت معاہدے کی شرائط دوبارہ طے کرنے کی بات کر رہا تھا۔ “یہ شک و شبہات کو جنم دیتا ہے کہ کیا پہلگام کو معاہدے کی خلاف ورزی کا بہانہ بنایا گیا؟” وہ سوال اٹھاتے ہیں۔

    علاقائی کشیدگی سے لے کر عالمی بے عملی تک، ملک پھر سے موسمیاتی تبدیلی کے انسانی نقصانات کی طرف آ تے ہیں، خاص طور پر پاکستان کے سب سے زیادہ متاثرہ گروپ کے لئے۔ وہ کہتے ہیں، “ہم اسکولوں اور صحت کے مراکز تک رسائی کھو دیتے ہیں۔ ہماری لڑکیاں اور خواتین ان تباہ کاریوں سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوتی ہیں۔”

    پھر ایک خاموش لمحے میں، ملک نے معصوم ماضی یاد کرتے ہوئے کہا، ” اپنے بچپن میں ہم اپنے باغ میں جگنو پکڑتے، انہیں بوتلوں میں بند کر کے اندھیرے کمروں میں لے جاتے، مگر پھر باہر آ کر انہیں آزاد کر دیتے تاکہ وہ مر نہ جائیں۔ شام کے وقت تتلیوں کے پیچھے دوڑتے تھے۔ وہ تتلیاں اور جگنو کہاں گئے؟ اب ان کا پیچھا کرنے کون دوڑتا ہے؟ ہرے توتے اور بلبل کہاں ہیں؟ کیا آپ نے انہیں حال میں دیکھا ہے؟” وہ جواب کی توقع نہیں رکھتے۔

    ملک کے نزدیک، بتدریج گرم درجہ حرارت کی طرف مائل دنیا کی وجہ سے جو جمالیاتی اور ثقافتی نقصان ہوتا ہے، وہ مادی یا جسمانی نقصان کے برابر ہی گہرا ہے۔ ملک افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ شاعری اور لوک گیت جو کبھی پاکستان کی قدرتی خوبصورتی کی تعریف میں گائے جاتے تھے، اب معدوم ہو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “سیلاب اور موسمیاتی آفات صرف مادی نقصان نہیں پہنچاتیں، بلکہ ہماری ثقافت کو بھی چھین لیتی ہیں۔”

    (فرح ناز زاہدی معظم کی یہ رپورٹ ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جسے اس لنک کی مدد سے پڑھا جاسکتا ہے)

  • سردیوں میں سانس کی بیماریاں، بڑی وجہ سامنے آگئی

    سردیوں میں سانس کی بیماریاں، بڑی وجہ سامنے آگئی

    کراچی : سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی گزشتہ چند روز کے دوران کراچی میں سانس کی بیماریوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، جس کی بڑی اور اہم وجہ آلودگی اور گرد و غبار ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں پلمونو لوجسٹ ڈاکٹر اقنال پیرزادہ نے سانس کی بیماریوں کی علامات احتیاط اور علاج سے متعلق ناظرین کو آگاہ کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ آج کل لوگ سردی سے بچنے کیلیے گرم کپڑے تو باقاعدگی سے پہن رہے ہیں لیکن گرد و غبار سے بچنے کیلیے منہ پر ماسک نہیں لگا رہے جو بیماری کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

    انہوں نے کہا کہ سانس کی بیماریوں کا بڑا سبب ہوا کا خراب معیار ہے، انہوں نے خاص طور پر سڑکوں پر اڑتی ہوئی دھول مٹی اور گاڑیوں کے دھوئیں سے پیدا ہونے والی آلودگی کو وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت شہر کی تقریباً تمام سڑکیں اس سے شدید متاثر ہیں۔

    پلمونولوجسٹ ڈاکٹر اقبال پیرزادہ نے بتایا کہ اگرچہ موسم سرما کے آغاز کے ساتھ سانس کی بیماریوں کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اس سال ان کی تعداد تقریباً دوگنا ہو گئی ہے، اس سال مریضوں کی تعداد پچھلے سال سے بہت زیادہ ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ آلودگی کی کوئی بھی شکل ہو وہ مدافعتی نظام کو متاثر کرتی ہے اور یہ تعلق سائنسی طور پر متعدد مطالعات کے ذریعے قائم کیا گیا ہے۔

    آلودہ ماحول میں رہنے والے افراد میں نمونیا، سانس کی اوپری نالی کے انفیکشن اور الرجی کے ساتھ ساتھ تپ دق کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بار جب جلن پیدا ہوتی ہے جس میں باریک مادہ ذرات 2.5 بھی شامل ہوتے ہیں تو وہ نظام تنفس کے مدافعتی نظام کو تباہ کر دیتے ہیں جو مختلف جراثیموں کے خلاف ڈھال کا کام کرتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ایک بار جب مدافعتی نظام تباہ ہوجائے تو پھر جسم کینسر سمیت ہر قسم کے انفیکشن اور بیماریوں کا شکار ہوسکتا ہے۔

  • آلودگی کے اثرات سے بچنا ہے تو یہ استعمال کرنا شروع کردیں؟

    آلودگی کے اثرات سے بچنا ہے تو یہ استعمال کرنا شروع کردیں؟

    آلودگی کی اگر بات کی جائے تو یہ دنیا کے لئے ایک سنگین مسئلے کی صورت اختیار کرچکی ہے، آلودگی کے باعث ہر دوسرا شخص پریشانی کا شکار ہے۔

    آلودگی متعدد دائمی مسائل کی بنیاد ہے، جیسے قبل از وقت بڑھاپا، تناؤ، سوجن اور جوڑوں میں درد۔ تاہم کچھ اقدامات اُٹھانے سے آپ آلودگی سے محفوظ رہ سکتے ہیں، آئیے ایسی چار غذائی اشیاء کے بارے میں جانتے ہیں جو ہمیں آلودگی کے اثرات سے کافی حد تک محفوظ رکھ سکتی ہیں۔

    سبزیاں: کیلے اور پالک جیسی سبزیوں میں ایسے غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں جو آپ کے جسم کو آلودگی کے خلاف مضبوط بناتے ہیں۔ اس کے وٹامنز، معدنیات اور اینٹی آکسیڈنٹس مجموعی صحت کو بہتر بناتے ہیں۔ ان کو اپنی روزمرہ کی خوراک میں شامل کرکے آپ آلودگی کے اثرات سے بچ سکتے ہیں۔

    چربی والی مچھلی: چربی والی مچھلیاں جن میں سالمن، میکریل اور سارڈینز اومیگا تھری فیٹی ایسڈ بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے، اومیگا تھری سے بھرپور مچھلی کا باقاعدہ استعمال جسم پر آلودگی کے اثرات کو کم کرتا ہے اور دل کی صحت کو بہتر بناتا ہے۔

    جامن: جامن قدرت کی طرف سے فراہم کردہ اینٹی آکسیڈنٹس کا گھر ہے۔ تمام بیریاں جیسے اسٹرابیری، بلیو بیری اینٹی آکسیڈینٹس سے بھرپور ہوتی ہیں جسے اینتھوسیاننز کہتے ہیں۔ یہ مرکبات آکسیڈیٹیو تناؤ اور آلودگی کی وجہ سے نقصان دہ فری ریڈیکلز سے لڑنے میں انتہائی مدد گار ثابت ہوتے ہیں، انہیں لازمی اپنی خوراک میں شامل کرلیں۔

    بروکولی: بروکولی کی سبزی آپ کو آلودگی کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے بہترین چیز ہے، اس میں موجود سلفورافین detoxification enzymes کو سپورٹ کرتا ہے اور آلودگی کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔ وہ ایک حفاظتی پرت بناتے ہیں جو آپ کے جسم کو ماحولیاتی زہریلے مادوں سے بچاتا ہے۔

    بلند فشار خون میں کمی کیلئے نایاب نسخہ

    ہلدی: ہلدی میں فعال مرکبات ہوتے ہیں جیسے کرکومین، اینٹی سوزش اور اینٹی آکسیڈینٹ۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نظام تنفس پر آلودگی کے اثرات کو روکنے میں مدد کرتے ہیں۔ اپنی خوراک میں ہلدی کو شامل کر کے آلودگی کے مضر اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ جسم کی لچک کو بہتر بناتا ہے۔

  • کراچی کی فضا انتہائی مضر صحت ہو گئی، دنیا میں آلودگی کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر

    کراچی کی فضا انتہائی مضر صحت ہو گئی، دنیا میں آلودگی کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر

    کراچی: شہر قائد کی فضائیں انتہائی مضر صحت ہو گئیں، جس کی وجہ سے کراچی آلودگی کے اعتبار سے دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر آ گیا۔

    ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق کراچی میں فضائی آلودگی کی شرح 187 پرٹیکیولیٹ میٹر ریکارڈ کی گئی جس کے بعد کراچی آج دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں  دوسرے نمبر پر ہے۔

    محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ آئندہ 3 روز تک موسم خشک، صبح، رات میں ٹھنڈی ہوا چلے گی، کراچی کا موجودہ درجہ حرارت 18 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق شمال مشرقی سمت سے چلنے والی ہوا 11 کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چل رہی ہے، ہوا میں نمی کا تناسب 64 فیصد ہے۔

  • ٹریفک حادثات کی روک تھام اور آلودگی میں کمی کے لیے پنجاب میں اہم اقدامات

    ٹریفک حادثات کی روک تھام اور آلودگی میں کمی کے لیے پنجاب میں اہم اقدامات

    لاہور: صوبہ پنجاب میں ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے صوبائی ٹاسک فورس برائے روڈ سیفٹی تشکیل دے دی گئی، آلودگی میں کمی کے لیے الیکٹرک گاڑیوں، رکشوں اور بائیکس کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے صوبائی ٹاسک فورس برائے روڈ سیفٹی تشکیل دے دی، ٹاسک فورس کے سربراہ صوبائی وزیر راجہ بشارت ہوں گے۔

    اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ٹاسک فورس ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے جامع لائحہ عمل تیار کرے گی، ٹاسک فورس کی تجاویز کی روشنی میں ٹریفک حادثات سے بچاؤ کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

    بعد ازاں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ موٹر سائیکل رکشے کی جگہ الیکٹرک منی کارٹ متعارف کروانے کی منظوری دے دی گئی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ صوبے میں آلودگی میں کمی کے لیے ماحول دوست الیکٹرک بائیک کو فروغ دینے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔ پنجاب میں الیکٹرک بائیکس اور الیکٹرک گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

    وزیر اعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ موٹر سائیکل رکشے کو بھی مرحلہ وار گالف کارٹ گاڑی میں تبدیل کردیا جائے گا۔

  • ریڑھی گوٹھ سمندر کی صورت حال تشویش ناک ہو گئی، ویڈیو منظر عام پر

    ریڑھی گوٹھ سمندر کی صورت حال تشویش ناک ہو گئی، ویڈیو منظر عام پر

    کراچی: ریڑھی گوٹھ سمندر کی صورت حال تشویش ناک ہو گئی ہے، انڈسٹریل ایریا کی فیکٹریوں کا زہریلا کیمیکل سمندر میں چھوڑے جانے کی ویڈیو منظر عام پر آ گئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق لانڈھی ٹاؤن میں صنعتی زون کی 500 کے قریب گارمنٹ فیکٹریوں کے زہریلے کیمیکل سے بھرا نالہ سیدھا سمندر کے پانی میں‌ جا کر گر رہا ہے، رہائشی علاقوں کے سیوریج کا گندا پانی اور بھینس کالونی سے نکلنے والا گوبر بھی برسوں سے سمندر میں چھوڑا جا رہا ہے۔

    اس صورت حال کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں مچھلیاں مرنے لگی ہیں اور علاقوں میں طرح طرح کی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں، جن میں جلد کی بیماری بھی شامل ہے۔

    ویڈیو سے صاف صاف نظر آ رہا ہے کہ زہریلا کیمیکل سمندر میں چھوڑا جا رہا ہے۔

    ریڑھی گوٹھ کے ماہی گیروں ابوبکر، یونس، مصطفیٰ، ادریس و دیگر کا کہنا ہے کہ زہریلے کیمیکل سے بھرے نالے کو سمندر میں گرنے سے فوری طور پر روکا جائے اور گارمنٹس فیکٹریوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ ماہی گیروں‌ کا کہنا ہے کہ فیکٹریوں کا زہریلا کیمیکل سمندر میں جانے سے نہ روکا گیا تو ہم احتجاج کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ سمندر ان کی روزی کا پیالہ ہے، ہزاروں کی تعداد میں مچھلیاں مر چکی ہیں، روزی کے اس پیالے کو زہریلا کیمیکل گندا کر رہا ہے، ان کے بچے بھوک اور بد حالی کا شکار ہو گئے ہیں۔

    ترجمان کوسٹل میڈیا سینٹر ابراہیم حیدری کمال شاہ کا کہنا ہے کہ ریڑھی گوٹھ اور پورٹ قاسم کے سمندر سے مچھلی مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے، سمندر زہریلے کیمیکل نے آلودہ کر دیا ہے، ہم سندھ حکومت اور ماحولیاتی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ فوری طور پر گارمنٹ فیکٹریوں کے مالکان سے مل کر ان کو ٹیپ پلانٹ لگانے پر مجبور کیا جائے۔

    واضح رہے کہ ریڑھی گوٹھ کا سمندر ایک گندے گٹر میں تبدیل ہوگیا ہے، ریڑھی گوٹھ اور پورٹ قاسم کے چینل میں مچھلیاں ختم ہونے کی وجہ سے ماہی گیر مچھلی کے شکار کے لیے دوسرے سمندری علاقوں میں نکلنے پر مجبور ہیں۔ ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ ڈیزل مہنگا ہے، راشن بھی مہنگا ہو چکا ہے، اب ہمارا گزارا نہیں ہوتا، ہمارا سمندر صاف ہوا کرتا تھا، ہمیں وہ صاف سمندر لوٹایا جائے۔

  • پلاسٹک کے کچرے سے نمٹنے کے لیے ایک اور کامیاب تحقیق

    پلاسٹک کے کچرے سے نمٹنے کے لیے ایک اور کامیاب تحقیق

    پلاسٹک کی آلودگی ایک بڑا مسئلہ بنتی جارہی ہے اور ماہرین اس سے نمٹنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں، حال ہی میں ماہرین نے اس بیکٹیریا کو اپنی تحقیق کا مرکز بنایا جو سمندر پر تیرتے پلاسٹک پر ہوتا ہے۔

    امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان ڈیاگو میں قائم نیشنل یونیورسٹی کے ماہرین نے سمندر میں تیرتے پلاسٹک کے ٹکڑوں پر موجود اینٹی بائیوٹک بنانے والے 5 بیکٹیریا کو علیحدہ کیا اور ان کی متعدد بیکٹریل اہداف کے خلاف آزمائش کی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ یہ اینٹی بائیوٹکس عام بیکٹیریا کے ساتھ اینٹی بیکٹیریا کی مزاحمت کرنے والے سپر بگ کے خلاف بھی مؤثر تھے، سپر بگ بیماریاں پھیلانے والے ان بیکٹیریا کو کہتے ہیں جو بہت کم ادویہ سے ختم ہوتے ہیں اور ان کی ادویات سے مزاحمت بڑھ کر جان لیوا ہوچکی ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق ہر سال 50 سے 1 کروڑ 30 لاکھ میٹرک ٹن پلاسٹک کا کچرا سمندر میں شامل ہوتا ہے جس میں پلاسٹک کے بڑے بڑے ٹکڑوں سے لے کر مائیکرو پلاسٹکس تک شامل ہوتے ہیں۔

    حیاتیات اس پلاسٹک کو استعمال کرتے ہوئے اپنے وجود کو بڑھا سکتے ہیں اور اپنے لیے پورا ماحول تشکیل دے سکتے ہیں۔

    جہاں اس بات کے تحفظات ہیں کہ پلاسٹک کے اوپر اینٹی بائیوٹک مزاحم بیکٹیریا بن سکتے ہیں وہیں کچھ بیکٹیریا ایسے بھی ہیں جو نئی اینٹی بائیوٹکس بنانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔

    یہ اینٹی بائیوٹکس مستقبل میں سپر بگ جیسے اینٹی بائیوٹک مزاحم بیکٹیریا کے خلاف استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

  • فیکٹری میں آلودگی سے میموری چپس کی پیداوار متاثر

    فیکٹری میں آلودگی سے میموری چپس کی پیداوار متاثر

    ٹوکیو: ویسٹرن ڈیجیٹل کمپنی کے فیلس میموری بنانے والی دو جاپانی کمپنیوں نے اعتراف کیا ہے کہ انتہائی حساس کارخانے میں بعض آلودگیوں سے میموری کی پیداوار متاثر ہوئی ہے اور بعض میموری چپس خراب بھی ہوگئی ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق ویسٹرن یونین نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جاپان میں اس کے دو پیداواری یونٹ کسی طرح کی آلودگی سے متاثر ہوئے ہیں جس سے پیداوار روک دی گئی ہے۔

    اس نجی کمپنی کا نام کائیوکسیا ہولڈنگز ہے جو دنیا بھر میں مشہور فلیش میموری بنانے والی بڑی کمپنی ویسٹرن یونین کے لیے سالڈ اسٹیٹ فلیش میموری یا یو ایس بی میموری بناتی ہے۔

    جاپانی کمپنی کے مطابق کم از کم 6.5 ایگزا بائٹ فلیش اسٹوریج کی پیداوار پر فرق پڑا ہے اور کئی فلیش میموری خراب ہوچکی ہیں۔ واضح رہے کہ ایک ایگزا بائٹ ایک ارب گیگا بائٹس کے برابر اسٹوریج یا میموری ہوتی ہے۔

    اس سے مجموعی طور پر 7 ارب گیگا بائٹس میموری کا نقصان ہوا ہے۔

    اس کے بعد ویسٹرن یونین کے اعلیٰ عہدیداروں نے ہنگامی بنیادوں پر جاپانی کمپنیوں سے رابطہ کیا ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھرپور کوشش کی جاری ہیں۔

    واضح رہے کہ برقیات میں مائیکروچپ، پروسیسر اور میموری اسٹک انتہائی صاف ستھرے ماحول میں تیار کی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا اندرونی کارخانہ ایک جدید اسپتال کے آپریشن تھیٹر سے بھی 10 گنا زائد صاف اور گرد و غبار سے پاک ہوتا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ ان کی تیاری میں ریت کا معمولی سا ذرہ بھی پروسیسر اور میموری کو تباہ کرسکتا ہے۔

  • دریاؤں کی آلودگی ختم کرنے کے لیے جامع منصوبہ پیش کیا جائے: وزیر اعظم کی ہدایت

    دریاؤں کی آلودگی ختم کرنے کے لیے جامع منصوبہ پیش کیا جائے: وزیر اعظم کی ہدایت

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت کلائمٹ چینج کمیٹی کے اجلاس میں وزیر اعظم نے آبی آلودگی کے خاتمے کے لیے 4 ماہ میں جامع حکمت عملی پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت کلائمٹ چینج کمیٹی کا اجلاس ختم ہوگیا، اجلاس میں پنجاب، پختونخواہ اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا، معاون خصوصی ملک امین اسلم، ورلڈ بینک حکام اور اقوام متحدہ کے نمائندے شریک ہوئے۔

    اجلاس میں دریائی اور فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے اہم فیصلے کر لیے گئے۔ معاون خصوصی برائے ماحولیات ملک امین اسلم نے شرکا کو گلاسکو کانفرنس کوپ 26 پر بریفنگ بھی دی۔

    اجلاس میں ماحولیاتی تبدیلی پر مربوط حکمت عملی پر مبنی جامع پلان بھی پیش کیا گیا۔ وزیر اعظم نے ملکی دریاؤں کو بچانے کے لیے حکمت عملی بنانے کی ہدایت کی اور معاون خصوصی ملک امین اسلم کو 4 ماہ میں مکمل پلان پیش کرنے کا کہا۔

    وزارت موسمیاتی تبدیلی اور اقوام متحدہ کی ایجنسیز مشترکہ پلان تیار کریں گی۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بقا کے لیے دریا زندگی کا بڑا ذریعہ ہیں، دریاؤں کو آلودگی سے بچانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ پاکستان کا اہم مسئلہ ہے مگر افسوس اس پر سابقہ حکومتوں نےتوجہ نہ دی۔

    اجلاس میں ورلڈ بینک کی پاکستان کو آسان شرائط پر قرض فراہم کرنے کی تجویز بھی منظور کرلی گئی۔ ورلڈ بینک حکام کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی شعبے میں پاکستان کو آسان شرائط پر قرض دیں گے، 1 ارب ڈالرز کا قرض دیا جاسکتا ہے۔

    ورلڈ بینک کی جانب سے کہا گیا کہ پاکستان کی کلائمٹ چینج حکمت عملی متاثر کن ہے۔

    وزیر اعظم نے کلائمٹ چینج وژن میں ملک امین اسلم کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ ملک امین نے دیے گئے اہداف پر زبردست انداز میں پیش رفت دکھائی۔

    وزیر اعظم نے گلاسکو میں نیشنل ڈیٹرمنڈ کنٹری بیوشن (این ڈی سی) پالیسی کے لیے وزارت ماحولیات کو رابطہ کار باڈی بھی نامزد کر دیا۔