Tag: آلودگی

  • زیر زمین پانی میں‌ جان لیوا اجزا کی موجودگی، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ جاری

    زیر زمین پانی میں‌ جان لیوا اجزا کی موجودگی، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ جاری

    لاہور: ہائیکورٹ نے ماحولیاتی آلودگی پر قابونہ پانے کے خلاف درخواستوں پر تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنا ریاست کی اوّلین ذمہ داری ہے، حکومت نے آلودگی ختم کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے جو حکومت کی ناکامی ہے۔

    ماحولیاتی آلودگی پر قابو نہ پانے کے خلاف درخواستوں پر جسٹس شاہد کریم نے 53 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنا ریاست کی اوّلین ذمہ داری ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ حکومت نے تحفظ پانی پالیسی کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے، فیصلے میں مزید کہا گیا کہ تحفظ پانی پالیسی پر مؤثر عمل درآمد نہ ہونے پر احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

    فیصلے کے مطابق زیر زمین پانی آرسینک، آئرن، فلورائیڈ سے آلودہ پایا گیا، زیر زمین پانی کی سطح میں خطرناک حد تک کمی پر واٹر پالیسی پر عمل درآمد کروایا جائے۔

    ماحولیاتی آلودگی سالانہ ڈیڑھ لاکھ اموات کا سبب بن رہی ہے، ہائیکورٹ کے فیصلے میں ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ تیل، کوئلہ جلانے سے سال 2020 میں 70 لاکھ اموات ہوئیں۔

    عدالت نے کہا کہ زیر زمین پانی کا ذخیرہ صرف 25 برس تک کے لیے رہ گیا ہے، پانی ایمرجنسی پالیسی آنے والے نسلوں سے ایک عہد ہے، اس پر عمل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

    یاد رہے کہ مئی 2018 میں پاکستان نے ‘واٹر ایمرجنسی’ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اس سلسلے میں مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو پانی کی قلت کا بحران ملک کو تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

  • جاپان: ویکسین کی ایک اور لاٹ آلودہ نکل آئی

    جاپان: ویکسین کی ایک اور لاٹ آلودہ نکل آئی

    ٹوکیو: موڈرنا ویکسین کی ایک اور لاٹ آلودہ نکل آئی، جاپانی صحت حکام کا کہنا ہے کہ ویکسین کی شیشی میں بیرونی اجزا پائے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کی موڈرنا ویکسین کی ایک اور لاٹ میں بیرونی اجزا پائے گئے ہیں، یہ مادے جنوبی پریفیکچر اوکیناوا کے ایک بڑے ویکسین مرکز میں ہفتے کے روز ملے ہیں۔

    ایک فارماسسٹ نے ویکسینیشن ڈوز کے ساتھ سرنج میں سیاہ اجزا دیکھے، بعد ازاں، ایک اور سرنج اور ایک شیشی سیاہ مادوں سے آلودہ پائی گئی، ویکسین سے بھری ایک اور سرنج میں گلابی رنگ کے اجزا بھی پائے گئے ہیں۔

    اوکیناوا پریفیکچر نے اس مرکز پر ویکسین لگانے کا عمل روک دیا اور اسے اتوار کے روز بھی معطل رکھا گیا، خیال رہے کہ جاپان کی وزارتِ صحت نے جمعرات کے روز تین لاٹس میں سے ڈوزز کا استعمال روک دیا تھا، کیوں کہ متعدد ویکسین مراکز پر موڈرنا ویکسین کی بغیر کُھلی یعنی بند شیشیوں میں بیرونی اجزا پائے گئے تھے۔

    خراب لاٹ سے لگائی گئی ویکسین سے 2 افراد ہلاک، لاکھوں خوراکوں کا استعمال روک دیا گیا

    مذکورہ تینوں لاٹس ایک ہی عرصے کے دوران ایک ہی فیکٹری میں تیار کی گئی تھیں، ایک لاٹ میں بیرونی اجزا پائے گئے اور دیگر دو میں ایسا کچھ نہیں تھا۔

    واضح رہے کہ جاپان میں موڈرنا کووِڈ 19 ویکسین کی ڈوزز لگوانے سے 2 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد موڈرنا ویکسین کی ڈوزز معطل کر دی گئی تھیں۔

  • ماسک کو پھینکنے سے قبل اس کی ڈوریاں کاٹ دینا کسی معصوم کی جان بچا سکتا ہے!

    ماسک کو پھینکنے سے قبل اس کی ڈوریاں کاٹ دینا کسی معصوم کی جان بچا سکتا ہے!

    لندن: تحفظ ماحول کے عالمی اداروں نے کہا ہے کہ ہمارے روزمرہ کے استعمال کے بعد پھینکے جانے والے ماسک زمین میں گلنے کے لیے 450 سال کا عرصہ لے سکتے ہیں، علاوہ ازیں ماسک کی ڈوریاں جانوروں کی تکلیف اور ہلاکت کا سبب بھی بن رہی ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق انوائرمینٹل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی وبا کے باعث دنیا بھر میں ہر مہینے 19 کروڑ 40 لاکھ ڈسپوزیبل ماسک استعمال کیے جا رہے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق سنگل یوز (ایک دفعہ استعمال کیا جانے والا) ماسک پولی پروپلین اور وینل ون جیسی پلاسٹک سے بنا ہوتا ہے جسے تحلیل ہونے کے لیے 450 سال کا عرصہ درکار ہے۔

    اس وقت کے دوران فیس ماسک مائیکرو پلاسٹکس میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور سمندری حیات انہیں نگل لیتی ہے۔

    میرین کنزرویٹو چیریٹی کا کہنا ہے کہ استعمال شدہ فیس ماسکس اور پلاسٹک ایک تباہ کن دھماکے کی صورت میں ساحل سمندر اور دریاؤں میں پھیل رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق جب سے لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا ہے تب سے پلاسٹک کے کچرے کی ایک نئی لہر کا مشاہدہ کیا جارہا ہے جو ہمارے ساحلوں پر ڈسپوزیبل ماسکس اور دستانوں کی صورت میں موجود ہے۔

    ان کے مطابق پی پی ای (پرسنل پروٹیکٹو ایکوپمنٹ ۔ حفاظتی لباس) نے انسانی زندگیاں بچانے میں مدد دی ہے تاہم اب اس کے درست انداز میں ٹھکانے لگانے کا بھی سوچنا ہوگا تاکہ یہ ہمارے دریاؤں اور سمندروں میں بہتے ہوئے انہیں برباد نہ کر سکے۔

    اس حوالے سے ماحولیاتی تحفظ کے ایک ادارے نے وارننگ دی ہے کہ اگر سنگل یوز پلاسٹک کا استعمال موجودہ شرح سے جاری رہا تو بحیرہ روم میں جیلی فش کے مقابلے میں جلد ہی ماسکس کی تعداد زیادہ ہو جائے گی۔

    دوسری جانب رواں برس ستمبر میں برطانیہ کی تحفظ جنگلی حیات کی تنظیم آر ایس پی سی اے نے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ ڈسپوزیبل ماسکس کی ڈوری کو کاٹ کر پھینکیں۔ یہ اپیل جانوروں کے ان ڈوریوں میں پھنسنے کی اطلاعات میں اضافے کے بعد سامنے آئی تھی۔

    ادارے کے چیف ایگزیکٹو کا کہنا تھا کہ ہمارے اہلکاروں نے فیس ماسک میں الجھے بہت سے جانوروں کو بچایا ہے اور ہم سمجھتے ہیں آنے والے وقت میں یہ واقعات زیادہ ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا سب سے آسان چیز یہ ہے کہ ان ماسکس کو پھینکنے سے پہلے ان کی ڈوریاں کاٹ دی جائیں۔

  • سمندروں کی صفائی کرنے والا منفرد آلہ تیار

    سمندروں کی صفائی کرنے والا منفرد آلہ تیار

    آٹو موبائل کمپنی سوزوکی نے سمندری آلودگی میں کمی کے لیے ایک ایسا آلہ تیار کیا ہے جو سمندر سے پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے صاف کرسکے گا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپان کی سوزوکی موٹرز نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ایک آلہ تیار کیا ہے جو کشتیوں کے باہر نصب موٹر کو مائیکرو پلاسٹک جمع کرنے کے قابل بناتا ہے۔

    مائیکرو پلاسٹک، پلاسٹک کے ننھے ننھے ٹکڑے ہوتے ہیں، چونکہ یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں اور دریاؤں میں شامل ہو جاتے ہیں جہاں سے یہ سمندری حیات کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔

    سوزوکی کمپنی پلاسٹک کے کوڑے سے ہونے والی آبی آلودگی کے مسئلے کے حل کے لیے کئی سال سے تحقیق کر رہی تھی۔

    موٹر گاڑیاں بنانے والی اس کمپنی کے مطابق اس نے کشتیوں اور بحری جہازوں کے باہر لگی ہوئی ان موٹروں پر توجہ مرکوز کی جو انجن کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ٹنوں کے حساب سے پانی پمپ کرتی ہیں۔

    سوزوکی کا بنایا جانے والا یہ نیا آلہ ان پمپس سے خارج ہونے والے پانی کو فلٹر کرے گا اور پانی میں موجود کچرے کو جمع کرے گا۔ کمپنی کے مطابق، محض کشتی چلانے سے ارد گرد پانی کی سطح پر موجود مائیکرو پلاسٹک جمع کیا جا سکے گا۔

    منگل کے روز سوزوکی کے عملے نے شزواوکا پریفیکچر میں واقع جھیل ہامانا میں نئے آلے کی آزمائش کی۔ آلے نے مائیکرو پلاسٹک باور کیے جانے والے اجزا کے علاوہ کائی اور ریت بھی جمع کی۔

    سوزوکی کمپنی، اس نئے آلے کو اگلے سال کے اندر اندر فروخت کے لیے پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

  • وسیم اکرم کی خوبصورت صبح کچرے سے اٹے ساحل کو دیکھ کر برباد ہوگئی

    وسیم اکرم کی خوبصورت صبح کچرے سے اٹے ساحل کو دیکھ کر برباد ہوگئی

    کراچی: پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم صبح صبح بیگم کے ساتھ ساحل سمندر پر پہنچ کر پریشان ہوگئے، کچرے سے اٹے ساحل کو دیکھ کر انہوں نے کہا کہ پاکستانی بہت خوبصورت لوگ ہیں لیکن گندے بھی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک ویڈیو پوسٹ کی، ویڈیو میں وہ ساحل سمندر پر کھڑے ہیں اور نہایت پریشان نظر آرہے ہیں۔

    اپنی ویڈیو میں وسیم اکرم کہہ رہے ہیں کہ میں آج ہفتے کے پہلے روز صبح صبح اپنی بیگم کے ساتھ سی ویو آیا ہوں لیکن میں نے بیوی کو یہاں لا کر غلطی کردی ہے۔

    انہوں نے اپنے پیچھے کچرے سے اٹے ساحل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے کوئی دوسرا نہیں ہم خود ہی ذمہ دار ہیں، میری بیوی پوری دنیا کو کہتی ہے کہ پاکستان بہت خوبصورت ہے۔ پاکستان کے لوگ بہت خوبصورت ہیں، یقیناً خوبصورت ہیں لیکن گندے بھی ہیں اور اس بات کو مانیں۔

    وسیم اکرم کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر جن افراد کو مشورے دینے کا شوق ہے وہ اب مشورے دیں کہ کیسے اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ساری گندگی سمندر سے آئی ہے، جو کچرا ہم سمندر میں پھینکتے ہیں وہ لہروں کے ساتھ واپس آتا ہے۔

    دوسری جانب وسیم اکرم کی اہلیہ شنیرا اکرم نے بھی ٹویٹر پر ساحل کی تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کیں، انہوں نے کہا کہ ہمارا شہر تکلیف میں ہے اور ہم اس کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔

    شنیرا اکرم اس سے قبل بھی ساحل پر پڑے طبی فضلے کی نشاندہی کر چکی ہیں جس کے بعد فوری کارروائی عمل میں لائی گئی تھی اور طبی فضلہ ساحل سے اٹھا کر محفوظ طریقے سے تلف کیا گیا تھا۔

  • فیس ماسک نگلنے سے معصوم پینگوئن موت کے گھاٹ اتر گیا

    فیس ماسک نگلنے سے معصوم پینگوئن موت کے گھاٹ اتر گیا

    کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران جب انسانوں نے گھر سے نکلنا بند کردیا تو کچرے اور آلودگی میں بھی کمی واقع ہونے لگی، تاہم اس دوران ضروری قرار دی گئی ایک چیز یعنی فیس ماسک ماحول کے لیے ایک بڑے خطرے کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔

    ایسے ہی غیر ذمہ دارانہ طریقے سے پھینکے گئے ایک فیس ماسک نے ایک معصوم پینگوئن کی جان لے لی جس نے ماسک کو نگل لیا تھا۔

    برازیل کے ساحل پر مردہ پائے گئے اس پینگوئن کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو اس کے جسم میں ایک این 95 فیس ماسک موجود تھا جس نے اس کے پورے معدے کو ڈھانپ لیا تھا۔

    پینگوئن کے مردہ جسم کا ایگزامینیشن کرنے والی ماہر آبی حیات کا کہنا تھا کہ ہمیں اس نوعیت کے حادثات کا خدشہ تھا اور اس حوالے سے ہم نے پہلے ہی دنیا کو آگاہ کردیا تھا۔

    ان کے مطابق یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے پھینکے جانے والے فیس ماسک کس طرح جنگلی و آبی حیات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور ان کی موت کا سبب بن سکتے ہیں۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ واقعہ انسانوں کی غیر ذمہ داری کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح سے اس ماسک کو نامناسب مقام پر پھینکا گیا جو نہ صرف جانوروں بلکہ خود انسانوں کے لیے بھی مضر صحت ہو سکتا ہے۔

    زمین کی جنگلی و آبی حیات کے لیے ایک نہایت بڑا خطرہ پلاسٹک تھا جو کسی طرح زمین میں تلف نہیں ہوتا اور لاکھوں کروڑوں سال تک زمین پر موجود رہ سکتا ہے، یہ پلاسٹک مختلف جانوروں کی موت کا سبب بھی بن رہا تھا۔

    ابھی اس خطرے کا ادراک کرتے ہوئے اس کی روک تھام کے اقدامات کیے جارہے تھے کہ کرونا وائرس کے بعد استعمال شدہ فیس ماسک، دستانے، سینی ٹائزر کی بوتلیں اور دیگر حفاظتی سامان کا کچرا ایک نئے خطرے کی صورت کھڑا ہوگیا۔

    جانوروں کے تحفظ کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف نے جولائی میں وارننگ دی تھی کہ اسپتالوں میں استعمال شدہ حفاظتی لباس یعنی پی پی ای کو غیر محفوظ طریقے سے تلف کرنا ماحول کے لیے نئے خطرات کھڑے کرسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم کرونا وائرس سے بچاؤ کے حفاظتی سامان کا صرف 1 فیصد بھی غیر ذمہ دارانہ طریقے سے تلف کریں تو ہر ماہ 1 کروڑ فیس ماسک ادھر ادھر پڑے ماحول کو آلودہ اور کچرے و گندگی میں اضافہ کر رہے ہوں گے۔

  • ایئر کوالٹی انڈیکس کیسے کام کرتا ہے؟

    ایئر کوالٹی انڈیکس کیسے کام کرتا ہے؟

    پاکستان میں ایئر کوالٹی انڈیکس پر فضا میں بہتری کے اشارے ملے ہیں جس کی اصل وجہ ملک کے متعدد شہروں میں کرونا کی وبا کے باعث کیا گیا لاک ڈاؤن ہے۔

    ملک بھر میں جہاں ہر قسم کی ٹرانسپورٹ کم ہے، وہیں کارخانے اور دیگر صنعتوں میں بھی کام کم ہونے سے لاہور اور دیگر شہروں کی آب و ہوا میں بہتری دیکھی گئی ہے۔

    عام دنوں میں ہماری فضا جہاں گرد و غبار سے آلودہ ہوتی ہے، وہیں اس میں مختلف کیمیائی عناصر، گیس، کثیف ذرات اور دھواں شامل ہوتا رہتا ہے جس کی تعداد اور مقدار کو ناپنے اور جانچنے کے مختلف طریقے اور معیار ہیں۔

    ہوا میں ان مادّوں کے تناسب کی سائنسی طریقے سے جانچ کے بعد ہی فضائی آلودگی کے بارے میں حتمی رپورٹ جاری کی جاتی ہے۔

    اس پیمانے کو ایئر کوالٹی انڈیکس کہا جاتا ہے جس کے کام کرنے کا طریقہ اور اُن اعداد و شمار کو جاننے کی ضرورت ہے جن کی بنیاد پر فضائی آلودگی میں کمی یا زیادتی کی رپورٹ جاری کی جاتی ہے۔

    فضائی آلودگی کا تناسب جاننے کے لیے موجود نظام میں ایک ایسا آلہ شامل ہے جو تھرما میٹر کی طرح کام کرتا ہے۔

    اس میں پیمائش کے درجے صفر سے پانچ سو ڈگری تک ہوتے ہیں۔

    ماہرین بتاتے ہیں کہ ہوا کا جائزہ لیتے ہوئے اگر اس پیمانے پر صفر سے پچاس ڈگری تک نتائج سامنے آئیں تو ہم اسے ہوا یا ہماری فضا میں گیسوں کا درست تناسب تصور کرتے ہیں۔

    اگر کسی وجہ سے یہ تناسب پچاس سے سو درجے تک ہو تو کہا جائے گا کہ گیسوں کی مقدار نارمل سے زیادہ ہے، لیکن ماہرین کے نزدیک یہ زمین پر موجود حیات کی صحت کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتی۔

    سائنس دانوں کے مطابق ہوا میں گیسوں کا تناسب سو سے ڈیڑھ سو کی حد تک پہنچ جائے تو ان لوگوں کے لیے ضرور مسئلہ ہوسکتا ہے جو کسی بھی قسم کی الرجی اور جسمانی کم زوری کا شکار ہوتے ہیں، اسی طرح یہ تناسب بچوں اور عمر رسیدہ لوگوں کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔

    اگر یہ تھرمامیٹر یا مخصوص سسٹم پر ہوا میں کثافت کا تناسب 150 سے 200 تک جارہا ہو تو یہ ماحول کے لیے خطرے کی علامت ہے۔

  • کرونا وائرس: چین کی صنعتی پیداوار میں ریکارڈ کمی

    کرونا وائرس: چین کی صنعتی پیداوار میں ریکارڈ کمی

    بیجنگ: کرونا وائرس نے چین سمیت دنیا بھر کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، کرونا وائرس کے باعث چین کی صنعتی پیداوار میں 30 برسوں بعد ریکارڈ کمی دیکھی گئی۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق کرونا وائرس کے باعث چین کی صنعتی پیداوار میں گزشتہ 30 برسوں میں پہلی بار 13.5 فیصد کمی ہوئی ہے۔ رواں سال جنوری اور فروری میں چین کی برآمدات 17.2 فیصد کم ہوئی ہیں جبکہ امریکا کے ساتھ تجارت سکڑ کر 40 فیصد تک رہ گئی ہے۔

    معاشی ماہرین کے مطابق 30 سال قبل جنوری 1990 میں چین کی صنعتی پیداوار میں 21.1 فیصد کمی آئی تھی۔

    کرونا وائرس کے عالمی معیشت پر پڑنے والے اثرات ماہرین کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ چین نے حفاظتی تدابیر اپناتے ہوئے ملازمین کو فیکٹریوں اور دفاتر میں آنے سے روک دیا تھا جس کے باعث صنعتی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ خریداروں کو بھی باہر نکلنے کے بجائے گھروں تک محدود رہنے کا کہا گیا تھا۔

    چین کے قومی ادارہ برائے اعداد و شمار کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ پر کافی حد تک قابو پایا جا چکا ہے جس کے مثبت اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔

    دوسری جانب چین میں فیکٹریز اور صنعتیں بند کیے جانے کے بعد فضائی و ماحولیاتی آلودگی میں بھی واضح کمی دیکھی گئی، چین اس وقت دنیا میں کاربن اور دیگر زہریلی گیسوں کا اخراج کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔

    ماہرین کے مطابق چین میں کاروبار معطل ہونے سے دنیا بھر کی فضائی آلودگی میں کمی دیکھی گئی ہے۔

    دوسری جانب چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کے مطابق ملک میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 3 ہزار 226 ہوچکی ہے۔ چین میں وائرس سے نمٹنے کے لیے بنائے تمام عارضی اسپتال بند کردیے گئے ہیں۔

  • کینجھر جھیل میں فضلے کی آمیزش اور کراچی کو زہریلے پانی کی فراہمی، سندھ حکومت کو ہوش آگیا

    کینجھر جھیل میں فضلے کی آمیزش اور کراچی کو زہریلے پانی کی فراہمی، سندھ حکومت کو ہوش آگیا

    کراچی: صوبہ سندھ کی جھیل کینجھر میں فیکٹریوں کے فضلے کی آمیزش اور زہریلا پانی کراچی کو سپلائی کیے جانے کی خبروں پر صوبائی وزیر جام اکرام اللہ دھاریجو نے نوٹس لے لیا۔

    تفصیلات کے مطابق صوبائی وزیر برائے صنعت و تجارت جام اکرام اللہ دھاریجو نے کینجھر جھیل میں فیکٹریوں کا زہریلا پانی پھینکے جانے کا نوٹس لے لیا۔ صوبائی وزیر نے سیکریٹری انڈسٹریز سندھ سمیت متعلقہ افسران سے رپورٹ طلب کی ہے۔

    صوبائی وزیر کا کہنا ہے کہ سیکریٹری صنعت سندھ اور متعلقہ افسران کل جگہ کا دورہ کر کے رپورٹ ارسال کریں گے، اگر فیکٹریز ٹریٹمنٹ پلانٹ استعمال کیے بغیرزہریلا پانی کینجھر میں چھوڑ رہی ہیں تو فیکٹری مالکان کے خلاف قانون کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔

    انہوں نے کہا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ نوری آباد اور کے بی فیڈر کوٹری میں ٹریٹمنٹ پلانٹ نصب ہیں، ٹریٹمنٹ پلانٹ سے فیکٹریوں کا پانی گزر کر صاف ہو جاتا ہےجس سے خطرہ نہیں ہوتا۔

    صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ کینجھر جھیل نوری آباد سے 35 کلو میٹر کے مفاصلہ پر ہے، جھیل کی حفاظت ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ سندھ حکومتکینجھر جھیل کی بہتری کے لیے کام کر رہی ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز کینجھر جھیل میں فیکٹریوں کا زہریلا فضلہ پھینکے جانے کی خبریں سامنے آئی تھیں اور جھیل کا پانی کراچی میں فراہم کیے جانے کی وجہسے شہریوں کی صحت کے حوالے سے سنگین خطرات کا خدشہ لاحق ہوگیا تھا۔

    اس حوالے سے تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ نے اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ کوٹری انڈسٹریل ایریا میں 116 فیکٹریز ہیں ان تمام فیکٹریز کا فضلہ اور مقامی آبادی کا فضلہ کلری بگار فیڈر میں براہ راست ڈالا جارہا ہے، یہ وہ نہر ہے جو دریائے سندھ سے کینجھر جھیل کو آتی ہے۔

    ان کے مطابق یہاں پر 95 کروڑ روپے کی لاگت سے ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا گیا تھا جو ناکارہ ہوچکا ہے۔ اس زہریلے پانی میں مرکری سمیت بے شمار زہریلے اجزا موجود ہیں جس کی وجہ سے کراچی شہر میں جگر کی خرابی، آنکھوں کی بیماریاں، ہیپاٹائٹس حتیٰ کہ کینسر جیسی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔

    حلیم عادل شیخ کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت سو رہی ہے اور کینجھر کی آلودگی سمیت کسی مسئلے کی طرف توجہ نہیں دے رہی۔

  • ہم اپنی زندگی میں کتنا پلاسٹک کھاتے ہیں؟

    ہم اپنی زندگی میں کتنا پلاسٹک کھاتے ہیں؟

    پلاسٹک ہماری کرہ ارض کا بہت بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے اور یوں لگتا ہے بہت جلد ہماری زمین پلاسٹک کی ایک دبیز تہہ سے ڈھک جائے گی۔

    پلاسٹک کی موجودگی سمندر کی گہری تہوں سے لے کر برفانی علاقوں میں برف کی موٹی تہہ تک کے نیچے پائی گئی اور یہ وہ مقامات تھے جہاں بہت کم انسان پہنچ پائے ہیں۔

    چونکہ پلاسٹک زمین میں تلف نہیں ہوتا چنانچہ غیر ضروری سمجھ کر پھینکا جانے والا پلاسٹک ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے اور اس کے بعد یہ دریاؤں، ندی نالوں حتی کہ زمین کی مٹی میں بھی شامل ہوجاتا ہے۔

    پلاسٹک کے ان ننھے ٹکڑوں کو مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے جن کا اوسط وزن 5 ملی میٹر سے کم ہوتا ہے۔ یہ پلاسٹک ہمارے جسم کے اندر بھی جارہا ہے۔

    جی ہاں، ہم سانس لینے، کھانے اور پینے کے ساتھ پلاسٹک کے ان ننھے ٹکڑوں کو بھی اپنے جسم کے اندر لے کر جارہے ہیں اور اگر جانچ پڑتال کی جائے تو ہمارے جسم کے اندر اچھا خاصا پلاسٹک مل سکتا ہے۔

    عالمی ادارہ ماحولیات ڈبلیو ڈبلیو ایف نے کچھ عرصہ قبل ایک تحقیق میں لوگوں کو آگاہ کیا تھا کہ ان کی غذا میں پلاسٹک کی اچھی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے اور وہ تقریباً ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ جتنا پلاسٹک کھا رہے ہیں۔

    آئیں دیکھتے ہیں ہم اپنی پوری زندگی میں کتنا پلاسٹک کھاتے ہیں؟

    ایک ہفتہ = 5 گرام

    ہم ہر ہفتے 5 گرام پلاسٹک کو اپنے جسم کا حصہ بناتے ہیں۔ یہ مقدار ایک کریڈٹ کارڈ جتنی ہے گویا ایک ہفتے میں ہم ایک سوپ کا چمچ بھر کر پلاسٹک کے ٹکڑے کھاتے ہیں۔

    ایک مہینہ = 21 گرام

    ایک بڑا پلاسٹک سے نصف بھرا ہوا پیالہ

    6 ماہ = 125 گرام

    پلاسٹک سے بھرا ایک بڑا پیالہ

    ایک سال = 250 گرام

    پلاسٹک سے بھری ایک پلیٹ

    10 سال = ڈھائی کلو گرام

    یہ پلاسٹک کی اتنی مقدار ہے گویا ہم پانی میں ڈوبنے سے بچانے والی ٹیوب اپنے جسم میں اتار رہے ہیں۔

    پوری زندگی = 20 کلو گرام

    ایک 79 سالہ شخص اپنی زندگی میں اوسطاً اتنا پلاسٹک کھاتا ہے جومندرجہ بالا 2 پلاسٹک بنز کے برابر ہوتا ہے۔

    یہ پلاسٹک کہاں سے آرہا ہے؟

    ایک تحقیق کے مطابق اس وقت ہماری زمین پر استعمال ہونے والے پلاسٹک میں سے 80 لاکھ ٹن پلاسٹک سمندروں میں جارہا ہے۔

    ان میں پلاسٹک کے نہایت ننھے منے ذرات یعنی مائیکرو پلاسٹک بھی ہوتے ہیں۔ یہ مزید چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر نینو ذرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ چونکہ یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں، دریاؤں اور مٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔

    زراعتی مٹی میں شامل پلاسٹک ہمارے کھانے پینے کی اشیا بشمول سبزیوں اور پھلوں میں شامل ہوجاتا ہے جبکہ سمندروں میں جانے والا پلاسٹک مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کی خوراک بن جاتا ہے۔

    بعد ازاں جب یہ مچھلیاں پک کر ہماری پلیٹ تک پہنچتی ہیں تو ان میں پلاسٹک کے بے شمار اجزا موجود ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔