Tag: آلودگی

  • لاہور اسموگ: عدالت خود گواہ ہے کہ بھٹے بند نہیں ہوئے

    لاہور اسموگ: عدالت خود گواہ ہے کہ بھٹے بند نہیں ہوئے

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ماحولیاتی آلودگی اور اسموگ کے خلاف درخواست پر لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ عدالت خود گواہ ہے کہ بھٹے بند نہیں ہوئے، کیوں نہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور چیف سیکریٹری کو طلب کرلیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں ماحولیاتی آلودگی اور اسموگ کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ غیر معیاری پیٹرول سلفر میں اضافے اور بیماریوں کا سبب ہے۔

    عدالت نے کہا کہ کیوں نہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور چیف سیکریٹری کو طلب کرلیا جائے۔ وعدے اور دعوے تو بہت کیے جا رہے ہیں مگر عملی اقدامات کا فقدان ہے، سڑکیں بنانے کے لیے کتنے درخت کاٹے گئے تفصیلات دی جائیں۔

    عدالت نے کہا کہ جب تک انہیں نہیں بلایا جائے گا اس وقت تک کوئی ذمے داری نہیں لے گا۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ پنجاب بھر میں 3 ہزار بھٹے بند کر دیے گئے ہیں۔

    عدالت نے کہا کہ عدالت خود گواہ ہے کہ بھٹے بند نہیں ہوئے۔ ملتان کے قریب چلتے بھٹے دیکھے ہیں عملہ بھی گواہ ہے۔ مقدمہ عدالت کی یا عملے کی مدعیت میں درج کیا جائے۔

    سرکاری وکیل نے کہا کہ 36 محکمے اسموگ کے خاتمے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ذمے داری ایک فرد یا ادارے پر ڈالنے تک کام آگے نہیں بڑھ سکتا۔

    عدالت نے کہا کہ چیف سیکریٹری کو طلب کیا تو کہا جائے گا ابھی تعینات ہوا ہوں، کچھ پتہ نہیں۔ اتنی جلدی تبادلے کیے جا رہے ہیں کہ کسی کو کچھ پتہ نہیں چل رہا۔

    درخواست گزار نے کہا کہ شہر میں آلودگی کی بڑی وجہ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں ہے، دنیا بھر میں الیکٹرک گاڑیاں متعارف کروا دی گئی ہیں۔ پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسی بنائی گئی لیکن عمل نہیں ہو رہا۔

    درخواست گزار نے استدعا کی کہ عدالت حکومت کو بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی تیاری کا حکم دے۔

  • عدالت کا سموگ کی وجہ بننے والے بھٹوں اور صنعتوں کے خلاف کارروائی کا حکم

    عدالت کا سموگ کی وجہ بننے والے بھٹوں اور صنعتوں کے خلاف کارروائی کا حکم

    لاہور: صوبہ پنجاب میں سموگ کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے لاہور ہائیکورٹ نے ماحول دوست ٹیکنالوجی استعمال نہ کرنے والے بھٹوں اور آلودگی پھیلانے والے صنعتی یونٹس کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے اسموگ پر قابو نہ پانے کے خلاف درخواست نمٹاتے ہوئے پنجاب حکومت کو ٹھوس اقدامات کرنے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے کہا کہ زگ زیگ ٹیکنالوجی استعمال نہ کرنے والے بھٹوں اور آلودگی کا باعث بننے والے صنعتی یونٹس کے خلاف کارروائی کی جائے۔

    پنجاب حکومت نے عدالت میں اپنا جواب جمع کروا دیا۔ اپنے جواب میں صوبائی حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ آلودگی پھیلانے والے 567 صنعتی یونٹس کے خلاف کارروائی کی۔

    حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ متعدد یونٹس بند کیے گئے اور کچھ کو نوٹس جاری کیے گئے، آلودگی پھیلانے والے صنعتی اداروں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔

    خیال رہے کہ دھند اور دھوئیں کی آمیزش سموگ کا مسئلہ گزشتہ دو برس سے صوبہ پنجاب میں سامنے آرہا ہے، بھارتی پنجاب کے شہروں میں فصلوں کے جلائے جانے سے نہ صرف بھارتی پنجاب بلکہ سرحد کے پار پاکستانی پنجاب میں بھی سردیوں میں زہریلی دھند معمول بنتی جارہی ہے۔

    سموگ سے شہری مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں جبکہ کھلی فضا میں سانس لینا بھی محال ہے۔

    رواں برس سموگ پر قابو پانے کے لیے فصلوں کی باقیات، کچرا، ٹائر اور پولی تھین جلانے پر دفعہ 144 نافذ کی گئی جبکہ اینٹوں کے بھٹوں کو بھی چند ماہ کے لیے بند کیا گیا جو سموگ کی اہم وجہ ہیں۔

    پنجاب حکومت اینٹوں کے بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر بھی منتقل کرنے کے لیے کوشاں ہے جو عام بھٹوں کی نسبت فضا میں کم آلودگی پھیلاتے ہیں۔

    ماہرین ماحولیات کے مطابق زگ زیگ ٹیکنالوجی سے دھوئیں کے اخراج میں 40 فیصد کمی آتی ہے۔ زگ زیگ ٹیکنالوجی والا بھٹہ سفید دھواں خارج کرتا ہے جو سیاہ دھوئیں کے مقابلے میں کم نقصان دہ ہے۔ سیاہ دھواں نہایت آلودہ اور زہریلا ہوتا ہے جو ماحول کے لیے بے حد خطرناک ہے۔

  • ماؤنٹ ایورسٹ پر صفائی مہم کا آغاز

    ماؤنٹ ایورسٹ پر صفائی مہم کا آغاز

    کھٹمنڈو: نیپالی حکومت نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کی صفائی مہم کا آغاز کردیا۔ ایک اندازے کے مطابق پہاڑ پر کوہ پیماؤں کا پھینکا گیا ٹنوں کچرا وہاں موجود ہے جس کی وجہ سے اسے دنیا کے بلند ترین کچرا گھر کا نام بھی دیا جارہا ہے۔

    سلسلہ کوہ ہمالیہ میں موجود ماؤنٹ ایورسٹ نیپال اور چین کی سرحد پر واقع ہے۔ اس کی بلندی 8 ہزار 8 سو 48 میٹر ہے۔ ہر سال درجنوں کوہ پیما اس پہاڑ کو سر کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔

    ماؤنٹ ایورسٹ سے اس سے قبل 3 ہزار کلو گرام کچرا اٹھایا جا چکا ہے، اس کچرے میں آکسیجن کے خالی ٹینکس، الکوحل کی بوتلیں، خراب شدہ خوراک، اور خیمے شامل تھے۔ اب ایک بار پھر یہاں کی صفائی مہم شروع کی گئی ہے۔

    گزشتہ ماہ 14 اپریل سے شروع کی جانے والی اس صفائی مہم کا اختتام 29 مئی کو ہوگا، یہ وہ تاریخ ہے جب اس چوٹی کو پہلی بار سر کیا گیا۔

    حکام کو امید ہے کہ 45 دنوں میں یہاں سے 10 ہزار کلو گرام کچرا صاف کرلیا جائے گا۔ اس بلند ترین مقام پر کی جانے والی صفائی مہم پر 2 لاکھ ڈالر اخراجات آرہے ہیں۔

    نیپال نے سنہ 2014 کے بعد سے کوہ پیماؤں پر اپنے ہمراہ کچرا واپس نہ لانے پر جرمانہ بھی عائد کر رکھا ہے۔ اس سے قبل کچرا اکٹھا کی جانے والی مہم میں کچرے کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے نیچے لایا گیا تھا۔

    حکام کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ پر سخت موسم کے باعث وہاں ہلاک ہوجانے والے مہم جوؤں کی لاشیں بھی موجود ہیں اور ان کی تعداد کم از کم 200 ہے، تاہم ان لاشوں کو فی الحال نیچے نہیں لایا جارہا۔

    ماہرین کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ پر کچرے کی وجہ صرف کوہ پیماؤں کا کچرا چھوڑ جانا نہیں۔ جس طرح سے ہم اپنی زمین کو کچرے سے آلودہ کر رہے ہیں اور یہ کچرا اڑ اڑ کر سمندر کی تہوں اور دور دراز برفانی خطوں تک جاپہنچا ہے، اسے دیکھتے ہوئے کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ دنیا کی بلند ترین چوٹی بھی کچرے سے اٹ چکی ہے۔

  • سوئیڈن میں ست رنگی کچرا

    سوئیڈن میں ست رنگی کچرا

    دنیا بھر میں پلاسٹک سمیت مختلف اشیا کے کچرے کو کم سے کم کرنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں اور ری سائیکلنگ یعنی دوبارہ استعمال کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جارہا ہے۔

    دنیا کا سب سے زیادہ ماحول دوست سمجھا جانے والا ملک سوئیڈن بھی اس سلسلے میں مختلف اقدامات کر رہا ہے اور اس حوالے سے وہ ایک اور قدم آگے بڑھ چکا ہے۔ سوئیڈن میں ری سائیکلنگ کے عمل کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کے لیے کچرا رکھنے کو مختلف رنگوں کے بیگز متعارف کروائے گئے ہیں۔

    سوئیڈن کے شہر اسکلستونا میں شہریوں کو 7 بیگ ری سائیکلنگ اسکیم فراہم کرنے سے متعلق پوچھا گیا اور 98 فیصد شہریوں نے اس اسکیم کی فراہمی میں دلچسی ظاہر کی۔

    اس ست رنگی بیگز کی اسکیم میں کلر کوڈ سسٹم کے ذریعے کچرے کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ کتھئی رنگ کے بیگ میں دھاتی اشیا، سبز رنگ کے بیگ میں خوراک، نیلے رنگ کے بیگ میں اخبارات، گلابی رنگ کے بیگ میں ٹیکسٹائل مصنوعات، سرخ رنگ کے بیگ میں پلاسٹک اشیا، زرد میں کارٹن اور سفید بیگ میں ٹشو پیپرز اور ڈائپرز وغیرہ پھینکے جاتے ہیں۔

    ان بیگز کی بدولت ری سائیکلنگ کے عمل میں آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ ری سائیکلنگ پلانٹ میں آنے والے تمام رنگ کے بیگز مکس ہوتے ہیں تاہم ان کے شوخ رنگوں کی بدولت اسکینرز انہیں آسانی سے الگ کرلیتے ہیں جس کے بعد انہیں ان کے مطلوبہ پلانٹ میں بھیج دیا جاتا ہے۔

    جو اشیا ری سائیکل نہیں کی جاسکتیں انہیں بجلی بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ری سائیکلنگ کی بدولت کچرے کے ڈھیر اور آلودگی میں کمی ہوگئی ہے۔

    سوئیڈن نے، یورپی یونین کے سنہ 2020 تک تمام اشیا کو ری سائیکل کیے جانے کے ٹارگٹ کو نصف ابھی سے حاصل کرلیا ہے۔ سوئیڈش انتظامیہ کا کہنا ہے اس وقت وہ ملک کے کچرے کی بڑی مقدار کو ری سائیکل کر رہے ہیں لیکن وہ اس کام مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔

  • زمین کو آلودہ کرنے والی کاربن گیس کو قابو کرنے کا طریقہ سامنے آگیا

    زمین کو آلودہ کرنے والی کاربن گیس کو قابو کرنے کا طریقہ سامنے آگیا

    ہماری زمین کو آلودہ کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار کاربن اخراج ہے جو مختلف صنعتوں سے بے تحاشہ مقدار میں خارج ہوتا ہے، تاہم اب اس کاربن کو قابو کرنے کا ایک طریقہ سامنے آگیا ہے۔

    آسٹریلوی ماہرین نے کاربن اخراج کو ٹھوس میں بدلنے کا تجربہ کیا ہے جس سے ایک طرف تو ٹھوس کاربن صنعتی استعمال کے لیے دستیاب ہوگی تو دوسری جانب خطرناک حدوں کو چھوتی فضائی آلودگی میں بھی کمی واقع ہوگی۔

    آسٹریلیا کی آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی میں کیے جانے والے اس کامیاب تجربے میں ماہرین نے کاربن گیس کو ٹھوس کوئلے کے ٹکڑوں میں بدل دیا۔

    اس سے قبل کاربن گیس کو مائع میں بدلنے کے تجربات تو کیے جاتے رہے ہیں تاہم آسٹریلوی ماہرین کا کہنا ہے کہ کاربن کو ٹھوس میں بدلنا ایک ماحول دوست طریقہ ہے۔ تحقیق میں شامل ماہرین کے مطابق یہ کاربن اخراج کی تباہی کو واپس پلٹ دینے کومترادف ہے۔

    اس سے قبل کاربن کو ٹھوس میں بدلنے کا تجربہ کیا جاچکا ہے تاہم اس میں کاربن کی شکل نہایت گرم درجہ حرارت پر تبدیل کی جاتی تھی جس کے بعد وہ کسی بھی قسم کے استعمال کے قابل نہیں رہتا تھا۔

    اب حالیہ تکنیک میں اسے مائع کی آمیزش کے ساتھ ٹھوس میں بدلا جارہا ہے جس میں معمول کا درجہ حرارت استعمال ہوتا ہے۔

    اس تکینیک میں کاربن گیس کو برق پاش مائع میں گھولا جاتا ہے جس کے بعد اس محلول کو الیکٹرک کرنٹ سے چارج کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کاربن گیس آہستہ آہستہ کوئلے میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

    اس عمل کے دوران ایک قسم کا فیول بھی پیدا ہوتا ہے جو مختلف صنعتی استعمالات کے کام آسکتا ہے۔

    اس سے قبل یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس (یو سی ایل اے) میں بھی اسی نوعیت کا تجربہ کیا گیا جس میں کاربن گیس کو کنکریٹ میں تبدیل کردیا گیا۔

    سی او ٹو کریٹ کا نام دیے جانے والے اس کاربن کو تیار کرنے کے لیے چمنیوں کے ذریعہ دھواں جمع کیا گیا اور بعد ازاں ان میں سے کاربن کو الگ کر کے اسے لیموں کے ساتھ ملا کر تھری ڈی پرنٹ کیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق کاربن سے تیار اس کنکریٹ سے سڑکیں اور پل تعمیر کی جاسکتی ہیں۔

    سنہ 2016 میں آئس لینڈ میں کیے جانے والے ایک اور تجربے میں کاربن کو پانی کے ساتھ مکس کر کے اسے زمین میں گہرائی تک پمپ کیا گیا۔ اسے اتنی گہرائی تک پمپ کیا گیا جہاں آتش فشاں کے ٹھوس پتھر موجود ہوتے ہیں اور وہاں یہ فوری طور پر ٹھوس پتھر میں تبدیل ہوگیا۔

    ’کارب فکس پروجیکٹ‘ کہلایا جانے والا یہ پروجیکٹ آئس لینڈ کے دارالحکومت کو بجلی بھی فراہم کر رہا ہے۔ یہ پلانٹ سالانہ 40 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ استعمال کرتا ہے۔

    خیال رہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اس وقت گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ہے اور سائنسدان ایک عرصے سے کاربن کو محفوظ کرنے یعنی’کاربن کیپچر اینڈ اسٹوریج ۔ سی سی ایس‘ پر زور دے رہے ہیں۔

  • ہوا کو صاف کرنے والا اسمارٹ گملا

    ہوا کو صاف کرنے والا اسمارٹ گملا

    امریکی شہر سان فرانسسکو کی ایک ٹیکنالوجی کمپنی نے ایسا گملا تیار کیا ہے جو پودے لگانے کے ساتھ ساتھ ہوا کو صاف کرنے میں بھی مدد دے گا۔

    عالمی ادارہ صحت نے گھروں کے اندر کی آلودگی کو انسانی صحت کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق گھروں کے اندر موجود ہوا کا معیار تشویش کا سبب بن رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ گھروں میں ہوا کی آمد و رفت کے لیے کم جگہ چھوڑی جا رہی ہے۔

    کلیئر نامی کمپنی کی جانب سے بنائے جانے والے ان گملوں میں لگا ننھا سا پنکھا ہوا کو کھینچ کر اندر لے جاتا ہے جہاں اس کے اندر لگا پودا ہوا کو صاف کرتا ہے۔

    اس گملے کی یہ تکنیک ناسا کی ایک تحقیق کی روشنی میں استعمال کی گئی ہے۔

    سنہ 1980 میں ناسا کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کچھ پودے پتوں کے بجائے اپنی جڑوں کے ذریعے آس پاس کی ہوا کو صاف کرنے کا عمل سر انجام دیتے ہیں۔

    عام گملے ہوا کو جڑوں تک پہنچنے نہیں دیتے اسی لیے کلیئر نے انہی پودوں کے ذہن میں رکھتے ہوئے یہ گملا ڈیزائن کیا ہے جو ہوا کو کھینچ کر پودے کی جڑوں تک پہنچا دیتا ہے تاکہ وہ اسے صاف کرسکیں۔

    یہ گملا موبائل فون کی ایک ایپلی کیشن کے ذریعے آپ کو باخبر بھی کرتا رہے گا کہ اس وقت آپ کے گھر میں ہوا کی کوالٹی کیا ہے۔

    ہوا کا معیار زیادہ خراب ہونے کی صورت میں یہ آپ کو خبردار بھی کرے گا کہ موجودہ ہوا آپ کے لیے غیر صحت مند ہے۔

  • حکومت کا گاڑیاں بجلی پر، رکشے بیٹریوں پر منتقل کرنے کا فیصلہ

    حکومت کا گاڑیاں بجلی پر، رکشے بیٹریوں پر منتقل کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد: حکومت نے گاڑیاں بجلی پر اور رکشے بیٹریوں پر منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے ماحولیات امین اسلم نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں پالیسی بنائی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق ملک امین اسلم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے گاڑیوں کو بجلی پر اور رکشوں کو بیٹری پر منتقل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

    [bs-quote quote=”ننکانہ صاحب میں واگزار کرائی گئی زمین پر نیا چھانگا مانگا بنایا جائے گا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”ملک امین اسلم” author_job=”معاون خصوصی برائے ماحولیات”][/bs-quote]

    امین اسلم کا کہنا تھا کہ الیکٹرک وھیکل منصوبے پر دیگر ممالک کے ساتھ مشاورت چل رہی ہے۔

    انھوں نے مزید بتایا کہ ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے پچھلی حکومت نے اسموگ کے مسئلے کو دبا دیا تھا، ہماری حکومت اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی کوشش کرے گی، اس سلسلے میں مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل دی ہے، موبائل یونٹ بھی لاہور میں مسلسل اسموگ کی مقدار جانچ رہا ہے۔

    امین اسلم نے کہا ’حکومت شفافیت سے اسموگ کے اعداد و شمار جاری کر رہی ہے، وزیرِ اعظم بھی اسموگ کے خاتمے کے لیے مسلسل معلومات لے رہے ہیں، دھویں کے تمام ماخذ پر نظر ہے، 2 ماہ بھٹوں کو بھی بند رکھا گیا اور بھٹہ مالکان کے خلاف چار ہزار چالان کیے گئے۔‘


    یہ بھی پڑھیں:  جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے پاکستان اور چین کے درمیان معاہدہ


    معاونِ خصوصی نے مزید کہا ’3 ہزار بھٹوں کو ضوابط کی خلاف وزری پر مکمل بند کیا جا رہا ہے، تمام بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرایا جائے گا، پنجاب میں 750 اسٹیل ملز کو کالے دھویں کی وجہ سے سیل کیا گیا، آئندہ سال کسانوں کو فصل کو تلف کرنے کا متبادل طریقہ بتائیں گے، بھارت سے 85 سے 90 فی صد اسموگ فصل جلانے سے آتی ہے۔‘

    ملک امین اسلم کا کہنا تھا کہ آلودہ ماحول کی وجہ سے دنیا بھر میں 70 لاکھ اموات ہوئیں، پچھلے 4 سال میں لاہور سے درختوں کی اکھاڑ پچھاڑ ہوئی، یوکلپٹس کے پودے 10 بلین ٹری منصوبے میں نہیں دہرائیں گے۔

    انھوں نے مزید بتایا کہ ننکانہ صاحب میں واگزار کرائی گئی زمین پر نیا چھانگا مانگا بنایا جائے گا، خیبر پختونخوا میں ٹری منصوبے میں کوئی بڑی بے ضابطگی نہیں ہوئی، پشاور میں بھی 4 جنگل بنائے گئے جس سے آلودگی کم ہوئی۔

  • ہماری نئی غذا ۔ پلاسٹک

    ہماری نئی غذا ۔ پلاسٹک

    اسپین میں بنایا گیا ایک اشتہار دنیا کے خوفناک مستقبل کی طرف اشارہ کر رہا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ مستقبل میں ہماری خوراک پلاسٹک ہوگی۔

    اس اشتہار میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل عالمی اقتصادی فورم نے دنیا بھر کے سمندروں میں پائے جانے والے پلاسٹک کی تعداد پیش کی تھی۔

    عالمی اقتصادی فورم کے مطابق جنوبی بحر اوقیانوس میں پلاسٹک کے 297 ارب ٹکڑے موجود ہیں۔

    جنوبی بحر الکاہل میں 491 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے پھینکے گئے ہیں۔

    شمالی بحر اوقیانوس میں 930 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے سمندر کو آلودہ کیے ہوئے ہیں۔

    بحرہ ہند میں 1 اعشاریہ 3 کھرب پلاسٹک کے ٹکڑے موجود ہیں۔

    سب سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے شمالی بحر اوقیانوس میں موجود ہیں جن کی تعداد 2 کھرب ہے۔

    دنیا کو متاثر کرنے والے اس بڑے مسئلے کی نشاندہی کے باجود تاحال اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا، حال ہی میں جاپان اور امریکا ایک معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر چکے ہیں جو سمندروں کی صفائی سے متعلق تھا۔

    ماہرین کے مطابق اگر فوری طور پر اس سلسلے میں اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ہماری غذا اسی اشتہار میں دکھائی گئی جیسی ہوگی اور ہم پلاسٹک کھانے پر مجبور ہوں گے۔

  • سمندرکوصاف رکھنا ہے، ملک بھرکو سرسبزوشاداب رکھنا ہے‘ گورنرسندھ

    سمندرکوصاف رکھنا ہے، ملک بھرکو سرسبزوشاداب رکھنا ہے‘ گورنرسندھ

    کراچی : گورنر سندھ عمران اسماعیل کا کہنا ہے کہ آب وہوا تبدیل کرنے کے لیے کچرے کا خاتمہ اور شجرکاری ضروری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گورنرسندھ عمران اسماعیل نے کراچی میں سی ویو پرصفائی مہم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کوگندا کرنے میں ہم سب بھی برابرکے ملوث ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ملک بھرکوصاف کرنے کا بیڑا اٹھایا گیا ہے ہمیں سپورٹ کرنی چاہیے، ملک بھر کو صاف رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

    عمران اسماعیل نے کہا کہ سمندرکوصاف رکھنا ہے، ملک بھرکوسرسبزوشاداب رکھنا ہے، سمندر قدرت کا انمول تحفہ ہے جسے ہمیشہ نظراندازکیا گیا۔

    گورنر سندھ نے کہا کہ کراچی میں جہاں نظردوڑائیں کچرا ہی کچرا نظرآتا ہے، آلودگی کے سبب نایاب خوبصورت پرندےغائب ہوگئے۔

    انہوں نے کہا کہ پاک بحریہ کی صفائی مہم قابل تعریف ہے، سمندرنہایت آلودہ ہوچکا ہے، نومبرمیں بھی سخت گرمی کی وجہ آب وہوا ہے۔

    گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہا کہ آب وہوا تبدیل کرنے کے لیے کچرے کا خاتمہ اور شجرکاری ضروری ہے۔

    کراچی میں صفائی کا بہترنظام اورپانی کا منصوبہ اولین ترجیح ہے‘ عمران خان

    یاد رہے کہ 16 ستمبر کو وزیراعظم عمران خان نے کراچی کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں صفائی کا بہترنظام اورپانی کا منصوبہ اولین ترجیح ہے۔

  • ہندوؤں کا مقدس دریائے گنگا اپنی موت کی طرف گامزن

    ہندوؤں کا مقدس دریائے گنگا اپنی موت کی طرف گامزن

    نئی دہلی: بھارت میں مقدس اور اہم مذہبی حیثیت رکھنے والا دریائے گنگا اپنی موت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ بھارتی حکومت دریا کے بچاؤ اور تحفظ کی کوششیں کر رہی ہیں تاہم یہ کوششیں ناکافی ہیں۔

    دریائے سندھ کی طرح ہمالیہ کی برف پوش چوٹیوں سے نکلنے والا دریائے گنگا اپنے سفر کے آغاز میں نہایت شفاف اور صاف ستھرا ہوتا ہے۔

    پہاڑوں اور صاف ستھرے شمالی علاقوں سے بہتا ہوا یہ پانی آئینے کی طرح شفاف ہوتا ہے۔

    لیکن جیسے جیسے یہ نیچے شہروں کی طرف آتا جاتا ہے اس میں گندگی کی سطح بڑھتی جاتی ہے۔

    دریائے گنگا نہ صرف 40 کروڑ افراد کو پینے کا پانی مہیا کرتا ہے، بلکہ یہ زراعت میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

    ہندو عقیدے کے مطابق دریائے گنگا کا پانی گناہوں کو دھو ڈالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روز صبح کے وقت لاکھوں افراد گنگا میں اشنان (غسل) کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کو دھونے کی کوشش کرتے ہیں۔

    تاہم اس مذہبی عقیدے کی عملداری سمیت بے شمار عوامل دریائے گنگا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریا اپنی موت کی جانب بڑھ رہا ہے۔

    ہر دریا کی طرح دریائے گنگا میں بھی شہروں کا کوڑا کرکٹ، کچرا اور زہریلا صنعتی فضلہ شامل ہورہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گنگا میں سیوریج کا روزانہ تقریباً 4 ہزار 8 سو ملین لیٹر پانی گرتا ہے۔

    بعض مقامات پر سیوریج کے پانی کی آمیزش کی وجہ سے گنگا کی سطح پر گیس کے بلبلے نظر آتے ہیں اور آس پاس کے علاقے میں شدید تغفن پھیلا ہوا ہے۔

    ہمالیہ کی چوٹیوں سے شروع ہونے والا گنگا کا سفر ڈھائی ہزار کلومیٹر کی مسافت پر محیط ہے اور یہ شمالی بھارت میں سمندر پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: قدیم ترین جھیل پر تیرتا تباہی کا شکار قبیلہ

    بھارتی ہندوؤں کے لیےماں کی حیثیت رکھنے والا گنگا اپنے سفر کے دوران جب صنعتی شہر کانپور سے گزرتا ہے تو وہاں زہریلا ترین صنعتی فضلہ شامل ہونے سے دریا کے پانی کا رنگ تبدیل ہو کر گہرا بھورا ہو جاتا ہے۔

    علاوہ ازیں اس سفر میں ایک علاقہ ایسا بھی آتا ہے جہاں آلودگی اور الائشوں سے گنگا کے پانی کا رنگ سرخی مائل ہو جاتا ہے۔

    مودی حکومت نے گنگا ماں کی صفائی کے لیے 3 ارب ڈالر مختص کیے ہیں جس کے بعد گنگا کو صاف کرنے کے لیے ٹریٹ منٹ پلانٹس لگائے جارہے ہیں تاہم ان پر نہایت سست رفتاری سے کام کیا جارہا ہے۔

    فی الوقت جو ٹریٹ منٹ پلانٹس فعال ہیں وہ گنگا کا صرف 1 چوتھائی پانی صاف کرسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس دریا کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیاد پر اقدامات نہ کیے گئے تو ہندوؤں کا مقدس دریا بہت جلد مر جائے گا اور اس کا ذکر صرف کتابوں میں ملے گا۔