Tag: آلودگی

  • سگریٹ کے ٹوٹے سمندروں اور زمین کی آلودگی کا سبب

    سگریٹ کے ٹوٹے سمندروں اور زمین کی آلودگی کا سبب

    ہماری زمین اور سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے جس کو دیکھتے ہوئے اب پلاسٹک پر پابندی عائد کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

    دنیا بھر میں پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی اشیا سے لے کر بڑی اشیا کے کم سے کم استعمال اور ان کی جگہ ماحول دوست اشیا کے استعمال کو فروغ دیا جارہا ہے۔

    تاہم ہماری زمین اور خاص طور پر سمندروں کو آلودہ کرنے والی ایک شے ایسی بھی ہے جسے اب تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔

    یہ شے کچھ اور نہیں بلکہ استعمال شدہ سگریٹ ہیں جن کے پھینکے جانے والے حصے میں فلٹر موجود ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: سگریٹ نوشی جسم کو کیسے تباہ کرتی ہے؟

    ماہرین کے مطابق یہ پھینکے جانے والے فلٹرز ماحول کو بھی آلودہ کرنے کا سبب بن رہے ہیں کیونکہ ان میں معمولی سے پلاسٹک کی آمیزش ہوتی ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فلٹرز صحت کے لیے بھی کوئی معنی نہیں رکھتے۔ سگریٹ کا زہریلا اور خطرناک دھواں ان فلٹرز کے ساتھ یا ان فلٹرز کے بغیر یکساں صورت میں انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے۔

    ماہرین ماحولیات کے مطابق گزشتہ چند سال سے اس طرف توجہ دی جارہی ہے اور جب سے ساحلوں پر سگریٹ کے استعمال شدہ ٹکڑے اٹھانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے تب سے چند سال میں 6 کروڑ ٹکڑے اٹھائے جاچکے ہیں۔

  • ٹریفک جام آپ کی صحت کو متاثر کرسکتا ہے

    ٹریفک جام آپ کی صحت کو متاثر کرسکتا ہے

    بڑے شہروں میں رہنا یوں تو بے شمار فوائد کا باعث ہے، دنیا کی تمام جدید سہولیات یہاں رہنے والوں تک قابل رسائی ہوتی ہیں۔ لیکن بڑے شہروں میں رہنے کے کئی نقصانات بھی ہیں جن میں سرفہرست ٹریفک کا اژدہام اور اس سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹریفک کا شور اور دھواں ایک طرف تو آپ کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے، دوسری طرف ٹریفک جام میں پھنسنا اور بھانت بھانت کے ڈرائیوروں سے الجھنا آپ کی دماغی کیفیات اور مزاج کو تبدیل کردیتا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ شہروں میں رہنے والے افراد میں امراض قلب، ہائی بلڈ پریشر اور ڈپریشن کا مرض عام ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کیا آپ شور شرابہ کے نقصانات جانتے ہیں؟

    ماہرین نے کئی سروے اور رپورٹس کے ذریعے واضح کیا ہے کہ ٹریفک کس طرح ہمیں متاثر کرتا ہے۔


    دماغی و نفسیاتی مسائل

    traffic-post-3

    کیلیفورنیا کے ماہرین نفسیات نے ایک تحقیقاتی سروے کے بعد بتایا کہ ایک طویل عرصے تک روزانہ ٹریفک جام میں پھنسنا، قطاروں میں انتظار کرنا اور سڑک پر دوسرے ڈرائیوروں کی اوور ٹیکنگ اور غلط گاڑی چلانا آپ کے دماغ کو تناؤ اور بے چینی میں مبتلا کرتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق روزانہ اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا یا تو آپ کے اعصاب کو توڑ پھوڑ دے گا، یا پھر آپ اس کے عادی ہوجائیں گے اور ایک وقت آئے گا کہ آپ اس کو محسوس کرنے سے عاری ہو جائیں گے۔

    لیکن ایک بات پر ماہرین متفق ہیں کہ یہ ساری چیزیں مل کر دماغ پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں اور اس کے اثرات کم از کم 10 سال بعد ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں جب عمر بڑھنے کے ساتھ مختلف ذہنی امراض جیسے الزائمر، ڈیمینشیا اور دیگر نفسیاتی مسائل آپ کو گھیر لیتے ہیں۔


    سانس کے امراض

    traffic-post-6

    وال اسٹریٹ جنرل کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹریفک کے دھویں میں آدھے گھنٹے تک سانس لینا دماغ میں برقی حرکت کو بڑھا دیتا ہے جس کے نتیجے میں مزاج اور شخصیت کی منفیت میں اضافہ ہوتا ہے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

    ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق ٹریفک کا دھواں نومولود بچوں کی جینیات کو بھی متاثر کرتا ہے جو ساری زندگی منفی عادات و حرکات کی صورت میں ان کے ساتھ رہتا ہے۔


    بچوں کی ذہنی کارکردگی متاثر

    traffic-post-7

    مختلف یورپی ممالک میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق ٹریفک کا شور اور دھواں بچوں کی دماغی کارکردگی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور وہ اپنی نصابی سرگرمیوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتا۔

    علاوہ ازیں روزانہ ٹریفک کا شور اور دھواں انہیں بچپن ہی سے مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار بنا دیتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہر 7 میں سے 1 بچہ فضائی آلودگی کے نقصانات کا شکار


    الزائمر کا خطرہ

    traffic-post-2

    بوسٹن یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق وہ معمر افراد جو براہ راست ٹریفک کے دھویں اور شور کا شکار ہوتے ہیں ان میں الزائمر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    ٹریفک کی آلودگی سے پیدا ہونے والے ذرات ان کے دماغ میں جا کر یادداشت اور دماغی خلیات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: فضائی آلودگی دماغی بیماریاں پیدا کرنے کا باعث


    کیا کینسر کا خطرہ بھی موجود ہے؟

    traffic-post-1

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹریفک کا دھواں کینسر کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    اس سے قبل کئی تحقیقی رپورٹس میں بتایا جاچکا ہے کہ فضائی آلودگی مختلف اقسام کے کینسر کا سبب بن سکتی ہے اور ٹریفک کا دھواں آلودگی پیدا کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

  • کاغذ سے بنا کافی کپ 30 سال میں گلنے کا انکشاف

    کاغذ سے بنا کافی کپ 30 سال میں گلنے کا انکشاف

    دنیا بھر میں پلاسٹک کے مضر اثرات سے واقف ہونے کے بعد اب بڑی بڑی فوڈ چین کوشش کر رہی ہیں کہ اپنے گاہکوں کو ٹیک اوے یعنی لے کر جانے والا کھانا کاغذ سے بنے برتنوں میں فراہم کیا جائے۔

    اس سلسلے میں سب سے زیادہ کھپت موٹے کاغذ سے بنے کافی کے کپوں کی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں اکثر افراد دفاتر تک جانے کے دوران راستوں سے کافی لے لیتے ہیں۔ اسی طرح اکثر دفاتر میں بھی کاغذ سے بنے کپ ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: فرانس کا پلاسٹک سے بنے برتنوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ

    لیکن ماہرین نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کاغذ سے بنے یہ کپ ٹوٹنے اور اس کے بعد زمین کا جزو بننے میں 30 سال کا عرصہ لے سکتے ہیں۔

    cup-2

    برطانیہ میں کیے جانے والے ایک تحقیقی سروے میں دیکھا گیا کہ لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کے استعمال شدہ کاغذ کے کپ ری سائیکل کر لیے جائیں گے یعنی دوبارہ استعمال کے قابل بنا لیے جائیں گے۔ یہی سوچ کر وہ ہر سال اربوں کی تعداد میں ان کپوں کا استعمال کرتے ہیں۔

    لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب ان کپوں کو ری سائیکل مشین میں ڈالا جاتا ہے تو وہ اس میں لگی ہوئی پلاسٹک کی لائننگ کو الگ نہیں کر پاتی جس کے باعث کاغذ کے کپ کافی یا پانی کو جذب نہیں کرتے۔

    پلاسٹک کی اس آمیزش کی وجہ سے یہ کپ دوبارہ استعمال کے قابل نہیں بنائے جا سکتے اور مجبوراً انہیں واپس پھینکنا پڑتا ہے۔

    cup-3

    لندن کے امپیریل کالج کی ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ پلاسٹک زمین میں آسانی سے حل نہیں ہو پاتا۔ اس کی وجہ سے کاغذ کے اس کپ کو گلنے اور زمین کا حصہ بننے میں 30 سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اگر یہ پلاسٹک ان کپوں میں نہ شامل کیا جائے تب بھی ان کاغذوں کی موٹائی کی وجہ سے یہ ٹوٹنے میں کم از کم 2 سال کا عرصہ لگاتے ہیں جس کے بعد ان کا زمین میں ملنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔

    یاد رہے کہ حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کپوں کو بنانے کے لیے بالکل نئے کاغذ استعمال کیے جاتے ہیں جو اس سے پہلے استعمال نہ کیے گئے ہوں۔

    cup-4

    ماہرین کے مطابق برطانوی شہریوں کے کافی کے چسکے کو پورا کرنے کے لیے ہر سال تقریباً 1 لاکھ درخت کاٹے جاتے ہیں تاکہ ان سے کاغذ بنایا جاسکے۔

    برطانیہ سمیت دنیا بھر میں ماحول دوست افراد اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کاغذ اور پلاسٹک کے استعمال پر بھاری ٹیکس نافذ کیا جائے تاکہ ان کا استعمال کم ہوسکے۔

    واضح رہے کہ کچرے میں پھینکی جانے والی کاغذ یا پلاسٹک سے بنی یہ اشیا دنیا بھر کی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ سمندر کنارے پھینکی جانے والی یہ اشیا اکثر اوقات سمندر میں چلی جاتی ہیں جس سے سمندری حیات کی زندگی کو سخت خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ان نشانات کی مدد سے پلاسٹک کی تباہ کاری کو جانیں

    ان نشانات کی مدد سے پلاسٹک کی تباہ کاری کو جانیں

    ہم اپنی روز مرہ زندگی میں پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی پینے کے عادی ہیں۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے پانی رکھنے کا سب سے بہترین ذریعہ پلاسٹک کی بوتلوں کو سمجھا جاتا ہے۔

    لیکن بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ان بوتلوں میں پانی پینا دراصل زہر پینے کے مترادف ہے۔ آپ بازار سے جو پانی کی بوتل خرید رہے ہیں، آپ کو نہیں علم کہ وہ کتنی پرانی ہے۔ زیادہ پرانی بوتلوں میں پلاسٹک کے ننھے ذرات جھڑ کر پانی میں شامل ہوجاتے ہیں جو لا محالہ ہمارے جسم میں جاتے ہیں۔

    یہ خدشہ اس وقت اور بھی بڑھ جاتا ہے جب یہ بوتلیں دھوپ یا تیز روشنی میں رکھی ہوں۔ اس صورت میں پلاسٹک کی نہایت معمولی مقدار پگھل کر پانی میں شامل ہوجاتی ہے۔ گو کہ یہ مقدار انتہائی معمولی ہوتی ہے لیکن یہ جسم میں جا کر خطرناک بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: ایسا پلاسٹک جو کھایا جاسکتا ہے

    اسی طرح ماہرین کا کہنا ہے کہ جب آپ کوئی پلاسٹک کی بوتل لیں تو اسے دبا کر دیکھیں۔ اگر اس میں سے کڑکڑاہٹ کی آواز آئے تو یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ بوتل کا پلاسٹک ٹوٹ پھوٹ رہا ہے اور اس کے ذرات پانی میں شامل ہورہے ہیں۔

    یوں تو ہر قسم کا پلاسٹک ہی تمام جانداروں کے لیے نقصان دہ ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ اقسام کے پلاسٹک میں شامل کیمیائی اجزا نہایت خطرناک ہوتے ہیں اور انہیں ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔

    دراصل پلاسٹک کی بوتلوں پر کچھ مخصوص نشانات بنے ہوتے ہیں جو مختلف علامتوں کے ذریعے یہ بتاتے ہیں کہ اس پلاسٹک کو کن اجزا سے بنایا گیا ہے۔ ویسے تو تمام ہی قسم کی پلاسٹک صحت کے لیے زہر قاتل ہے لیکن کچھ پلاسٹک کم نقصان دہ اور کچھ بہت زیادہ نقصان دہ ہیں۔
    symbols

    آئیے آپ بھی ان نشانات سے آگاہی حاصل کریں تاکہ اگلی بار پلاسٹک کی بوتل خریدنے سے پہلے آپ کو علم ہوسکے کہ کہیں آپ زہر تو نہیں خرید رہے۔


    پی ای ٹی یا پی ای ٹی ای

    یہ نشان عموماً پلاسٹک کی بوتلوں پر لکھا جانے والا نہایت عام نشان ہے کیونکہ پلاسٹک کی زیادہ تر اقسام (خصوصاً عام استعمال والی پلاسٹک) کو ایک ہی اجزا سے تیار کیا جاتا ہے۔

    p3

    یہ بوتلیں ایک ہی بار استعمال کے لیے موزوں ہوتی ہیں، اس کے بعد ان کا استعمال ترک کردینا چاہیئے۔ یہ پلاسٹک جراثیم کی افزائش کے لیے موزوں ماحول فراہم کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس پلاسٹک میں شامل اجزا جسم میں جا کر ہارمونز کا نظام تباہ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔


    ایچ ڈی پی یا ایچ ڈی پی ای

    ماہرین پلاسٹک کی اس قسم کو محفوظ ترین قسم قرار دیتے ہیں۔ یہ عموماً سخت پلاسٹک ہوتا ہے جس سے برتن، مختلف تیلوں کی بوتلیں، کھلونے وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔

    یہ پلاسٹک کسی قسم کے اجزا خارج نہیں کرتے تاہم اس مٹیریل سے بنی بہت زیادہ پرانی بوتلوں کا استعمال بھی محفوظ نہیں۔


    پی وی سی یا 3 وی

    یہ وہ پلاسٹک ہوتا ہے جو عموماً موڑا جا سکتا ہے اور اسے مختلف اشیا کو لپیٹنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ دو نہایت زہریلے اجزا کو خارج کرتا ہے جو جسم کے ہارمونز کو شدید متاثر کرتا ہے۔

    pvc-2

    pvc

    ماہرین کی تجویز ہے کہ اس پلاسٹک کے استعمال سے گریز کیا جائے۔


    ایل ڈی پی ای

    یہ پلاسٹک بوتلیں بنانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ یہ کیمیائی اجزا خارج نہیں کرتا تاہم پھر بھی اسے استعمال کے لیے بالکل محفوظ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

    ایک اور سفید رنگ کا نیم شفاف پلاسٹک (پولی پروپلین) دواؤں کی بوتل یا فلیورڈ دہی کے کپ بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ سخت اور وزن میں ہلکا ہوتا ہے۔ یہ قسم نسبتاً محفوظ کہی جاسکتی ہے کیونکہ یہ درجہ حرات کے خلاف مزاحمت کرتا ہے اور گرم ہونے پر پگھلتا نہیں۔

    اسی کیمیائی طریقے سے بنائی جانے والی پلاسٹک کی ایک اور قسم جسے پولی سٹرین کہا جاتا ہے، وزن میں ہلکی اور نہایت ارزاں ہوتی ہے۔

    ldpe-2

    ldpe

    اس سے وہ اشیا بنائی جاتی ہیں، جن میں آپ کو کسی ریستوران سے ’ٹیک اوے‘ کھانا دیا جاتا ہے۔ جیسے ڈسپوزایبل کپ، کھانے کے کنٹینر، یا چمچے وغیرہ۔ یہ تیز درجہ حرات پر پگھلنے لگتے ہیں لہٰذا یہ صرف ایک بار استعمال کے لیے ہی بہتر ہیں۔


    پی سی یا نان لیبلڈ پلاسٹک

    یہ پلاسٹک کی سب سے خطرناک قسم ہوتی ہے جو عموماً کھیلوں میں استعمال کی جانے والی پانی کی بوتلوں میں استعمال ہوتی ہے۔

    p4

    یہ قسم ری سائیکلنگ یا ری یوزنگ (دوبارہ استعمال) کے لیے بھی استعمال نہیں کی جاسکتی۔

    مضمون بشکریہ: برائٹ سائیڈ

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • فضائی آلودگی جان لینے اور بھاری مالی نقصان پہنچانے کا سبب

    فضائی آلودگی جان لینے اور بھاری مالی نقصان پہنچانے کا سبب

    فضائی آلودگی اس وقت دنیا بھر میں ایک اہم مسئلہ ہے۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی اس وقت دنیا میں اموات کی چوتھی بڑی وجہ ہے۔

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی ہر سال 50 لاکھ سے زائد افراد کی موت کی وجہ بن رہی ہے۔ صرف چین میں ہر روز 4 ہزار (لگ بھگ 15 لاکھ سالانہ) افراد بدترین فضائی آلودگی کے سبب موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔

    دوسرے نمبر پر بھارت 11 لاکھ اموات کے ساتھ موجود ہے۔

    مزید پڑھیں: بدترین فضائی آلودگی کا شکار 10 ممالک

    یاد رہے کہ کسی شہر میں فضائی آلودگی وہاں کے رہنے والوں کو مختلف سانس کی بیماریوں، پھیپھڑوں کے مسائل، ہائی بلڈ پریشر حتیٰ کہ دماغی بیماریوں جیسے الزائمر اور ڈیمینشیا تک میں مبتلا کر سکتی ہے۔

    اس سے قبل ایک تحقیق کے دوران کیے جانے والے ایک دماغی اسکین میں فضا میں موجود آلودہ ذرات دماغ کے ٹشوز میں پائے گئے تھے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودہ ذرات الزائمر سمیت مختلف دماغی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہے۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسف کا کہنا ہے کہ دنیا کا ہر 7 میں سے ایک بچہ بدترین فضائی آلودگی اور اس کے خطرات کا شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق فضا میں موجود آلودگی کے ذرات بچوں کے زیر نشونما اندرونی جسمانی اعضا کو متاثر کرتے ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ نہ صرف ان کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ خون میں شامل ہو کر دماغی خلیات کو بھی نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں جس سے ان کی دماغی استعداد میں کمی واقع ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔

    ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی نہ صرف طبی مسائل کا باعث بنتی ہے، بلکہ یہ کسی ملک کی معیشت کے لیے بڑے خسارے کا سبب بھی بنتی ہے۔ سنہ 2013 میں فضائی آلودگی کی وجہ سے مختلف ممالک کی معیشتوں کو مجموعی طور پر 225 بلین ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا۔

    اس سے قبل چین میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی ان لوگوں پر خاص طور پر منفی اثرات ڈالتی ہے جو کھلی فضا میں کام کرتے ہیں جیسے مزدور اور کسان وغیرہ۔

    ماہرین کے مطابق یہ کھلی فضا میں کام کرنے والے افراد کی استعداد کو متاثر کرتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی کارکردگی میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور یوں قومی پیداوار اور معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    مزید پڑھیں: آلودگی سے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ممکن

    کچھ عرصہ قبل ورلڈ بینک نے فضائی آلودگی کے نقصانات کے حوالے سے ایک تفصیلی انفو گرافک جاری کیا جس میں بتایا گیا کہ فضائی آلودگی کس طرح منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔

    انفو گرافک میں فضائی آلودگی کو ہر 10 میں سے 1 موت کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔

    آئیے آپ بھی وہ انفو گرافک دیکھیئے۔

    info


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    آبی آلودگی ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ ہے جو سمندروں اور دریاؤں میں رہنے والی آبی حیات کو سخت نقصان پہنچا رہی ہے۔ سمندر کی مچھلیوں کا آلودہ پانی میں افزائش پانا اور پھر اس مچھلی کا ہماری غذا میں شامل ہونا ہمیں بھی نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔

    علاوہ ازیں دریاؤں کے قابل استعمال میٹھے پانی کی آلودگی بھی انسانی صحت کو شدید خطرات کا شکار بنا رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 3.4 ملین افراد گندے پانی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ان بیماریوں میں ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس، ڈائریا اور ہیضہ شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی طبی خطرات کا شکار

    تاہم حال ہی میں امریکی ماہرین نے ایسا پہیہ ایجاد کیا ہے جو دریاؤں اور سمندروں کی صفائی کر کے اس میں سے ٹنوں کچرا باہر نکال سکتا ہے۔

    امریکی ریاست میری لینڈ کے ساحلی شہر بالٹی مور میں آزمائشی تجربے کے موقع پر اس پہیہ نے سمندر سے 50 ہزار پاؤنڈ کچرا نکالا۔

    یہ تجربہ بالٹی مور کی بندرگاہ پر انجام دیا گیا جہاں جہازوں کی آمد و رفت اور دیگر تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے بے تحاشہ کچرا سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔

    اس پہیہ پر شمسی توانائی کے پینلز نصب کیے گئے ہیں جو اسے فعال رکھتے ہیں۔ پہیہ استعمال کے لیے کسی بحری جہاز یا چھوٹی کشتی پر نصب کیا جاتا ہے جس کے بعد یہ تیرتے ہوئے سمندر میں سے کچرا نکالتا جاتا ہے۔

    اسے تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کو بنانے کا مقصد سمندر کی آلودگی میں کمی کرنا اور بندرگاہ کو تیراکی کے لیے محفوظ بنانا ہے۔

    یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا میں آبی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث 30 کروڑ افراد کو صحت کے سنگین مسائل لاحق ہوسکتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برطانیہ پلاسٹک کی آلودگی ختم کرنے کے لیے کوشاں

    برطانیہ پلاسٹک کی آلودگی ختم کرنے کے لیے کوشاں

    دنیا بھر میں پلاسٹک کا استعمال ماحول، جنگلی حیات اور انسانی صحت کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہورہا ہے جس کے خوفناک اثرات دن بدن سامنے آتے جا رہے ہیں۔

    نصف سے زائد کرہ ارض کو پلاسٹک سے آلودہ کرنے کے بعد اب انسان کو خیال تو آیا ہے کہ اس آلودگی سے چھٹکارا پایا جائے تاہم بدقسمتی سے ہماری زندگیوں میں پلاسٹک کا استعمال اس قدر عام ہوچکا ہے کہ ہم معمولی سے کام کے لیے بھی پلاسٹک کی تھیلیوں کے محتاج ہیں۔

    تاہم دنیا کے کئی ممالک پلاسٹک کے استعمال کو ختم یا کم کرنے کے لیے کوشاں ہیں جس میں برطانیہ سرفہرست ہے۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال کا عرصہ درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا طویل عرصے تک جوں کا توں رہتا ہے اور ہمارے شہروں کی گندگی اور کچرے میں اضافہ کرتا ہے۔

    پلاسٹک کی آلودگی ختم کرنے کے لیے برطانیہ قابل تقلید اقدامات کر رہا ہے۔ آئیں دیکھتے ہیں وہ کیا اقدامات ہیں۔

    ملکہ برطانیہ کی خصوصی توجہ

    برطانیہ کی ملکہ الزبتھ نے کچھ عرصہ قبل برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم دیکھی جس میں پلاسٹک کی تباہ کاری کو دکھایا گیا تھا۔ اس فلم کو دیکھنے کے بعد ملکہ بے حد متاثر ہوئیں اور انہوں نے پلاسٹک کے استعمال کو کم سے کم کرنے کا حکم شاہی جاری کردیا۔

    ملکہ کے حکم کے بعد برطانوی شاہی محل بکنگھم پیلیس میں طعام کے دوران پلاسٹک کے اسٹراز اور بوتلوں کا استعمال بند کردیا گیا ہے۔

    علاوہ ازیں محل کا عملہ ایسی اشیا کو زیر استعمال لانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جو زمین میں باآسانی تلف ہوسکیں اور کچرا پھیلانے کا سبب نہ بنیں۔

    ریستورانوں میں پلاسٹک کا کم استعمال

    برطانیہ کے کئی معروف ریستورانوں نے رواں برس پلاسٹک کے استعمال کو کم سے کم کرنے کا عزم کیا ہے جس کے بعد بہت جلد یہ ریستوران اپنے گاہکوں کو پلاسٹک کے برتنوں میں سرونگ کرنا بند کردیں گے۔

    اسکاٹ لینڈ ایک قدم آگے

    ایک طرف جہاں اس آلودگی کو ختم کرنے کے لیے انفرادی طور پر کوششیں کی جارہی ہیں وہیں برطانیہ کے زیر انتظام اسکاٹ لینڈ نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے پورے ملک میں پلاسٹک کے اسٹراز کے استعمال اور ان کے بنانے پر پابندی عائد کردی ہے۔

    مائیکرو بیڈز پر پابندی

    برطانیہ میں گزشتہ برس مائیکرو بیڈز پر پاندی عائد کی جاچکی ہے۔ مائیکرو بیڈز پلاسٹک کے ننھے ننھےذرات ہوتے ہیں جو کاسمیٹکس اشیا، ٹوتھ پیسٹ اور صابنوں میں شامل کیے جاتے ہیں۔

    چونکہ یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں اور دریاؤں میں شامل ہو کر ان کی آلودگی میں اضافہ اور سمندری حیات کی بقا کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔

    معروف سپر مارکیٹ کا قابل تقلید اقدام

    برطانیہ کی ایک بڑی سپر مارکیٹ چین آئس لینڈ گزشتہ برس اس وقت دنیا بھر کی خبروں کا مرکز بن گئی جب اس نے اپنے اسٹورز کو پلاسٹک سے پاک بنانے کا اعلان کیا۔

    یہ چین فی الوقت پلاسٹک کی جگہ کاغذ کے تھیلے اور پھلوں کے گودے سے بنائے گئے کنٹینرز استعمال کر رہا ہے۔

    ایک معروف سپر مارکیٹ چین کے اس اقدام سے پلاسٹک کی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو تقویت ملی ہے اور دیگر چینز نے بھی اس بارے میں سوچنا شروع کردیا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • فضائی آلودگی سے  قلم کی سیاہی تیار

    فضائی آلودگی سے قلم کی سیاہی تیار

    آپ یقیناً اپنے شہر کی آلودگی سے بہت پریشان ہوں گے۔ گاڑیوں کا دھواں، مٹی اور آلودگی انسانی جسم پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس آلودگی سے کوئی ایسی چیز تخلیق کی جائے جو فائدہ مند ثابت ہو؟

    حال ہی میں ماہرین نے فضائی آلودگی کے اہم جز کاربن سے ایک کارآمد شے تخلیق کرنے پر کام شروع کیا ہے، وہ شے کچھ اور نہیں بلکہ سیاہی ہے۔

    air-ink-1

    ایئر انک نامی یہ سیاہی میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے تیار کی ہے۔

    carbon

    اسے تیار کرنے کے لیے کار کے ایگزاسٹ (دھواں خارج کرنے والے سائلنسر) سے کاربن اکٹھی کی جاتی ہے جس کے بعد اسے مختلف کیمیائی عوامل کے ذریعے سیاہی میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: فضائی آلودگی کن کن نقصانات کا سبب بنتی ہے؟

    کار سے 45 منٹ کے کاربن اخراج سے ایک اونس سیاہی تیار کی جاسکتی ہے اور اس سیاہی سے مصوری سمیت کوئی بھی تخلیقی کام کیا جاسکتا ہے۔ گویا اب آلودگی تخلیقی کاموں میں معاون ثابت ہوگی۔

    air-ink-2

    یاد رہے کہ گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں میں کاربن کی بڑی مقدار شامل ہوتی ہے جو فضا کو آلودہ اور زہریلا بنا دیتی ہے۔

    اس سے قبل بھی امریکی ماہرین نے ایک تکنیک متعارف کی تھی جس کے ذریعے کاربن کو کنکریٹ کی شکل میں تبدیل کر کے تعمیری مقاصد میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

    اسے تیار کرنے کے لیے چمنیوں کے ذریعہ دھواں جمع کیا گیا اور بعد ازاں ان میں سے کاربن کو الگ کر کے اسے لیموں کے ساتھ ملا کر تھری ڈی پرنٹ کیا گیا۔ اس طرح ماحول اور صحت کو نقصان پہنچانے والی گیس تعمیری اشیا میں تبدیل ہوگئیں۔

    آئس لینڈ میں کیے جانے والے ایک اور تجربے میں سائن سدانوں نے کاربن گیس کو پانی کے ساتھ مکس کر کے زیر زمین گہرائی میں پمپ کیا۔ اسے اتنی گہرائی تک پمپ کیا گیا جہاں آتش فشاں کے ٹھوس پتھر موجود ہوتے ہیں اور وہاں یہ فوری طور پر ٹھوس پتھر میں تبدیل ہوگیا۔

    ماہرین کے مطابق کاربن سے تیار شدہ یہ پتھر بھی تعمیری مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: فضائی آلودگی دماغی بیماریاں پیدا کرنے کا باعث

    یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق فضائی آلودگی ہر سال 50 لاکھ سے زائد افراد کی موت کی وجہ بن رہی ہے۔ صرف چین میں ہر روز 4 ہزار (لگ بھگ 15 لاکھ سالانہ) افراد بدترین فضائی آلودگی کے سبب موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسف کا کہنا ہے کہ دنیا کا ہر 7 میں سے ایک بچہ بدترین فضائی آلودگی اور اس کے خطرات کا شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق فضا میں موجود آلودگی کے ذرات بچوں کے زیر نشونما اندرونی جسمانی اعضا کو متاثر کرتے ہیں۔

    ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی نہ صرف طبی مسائل کا باعث بنتی ہے، بلکہ یہ کسی ملک کی معیشت کے لیے بڑے خسارے کا سبب بھی بنتی ہے۔ سنہ 2013 میں فضائی آلودگی کی وجہ سے مختلف ممالک کی معیشتوں کو مجموعی طور پر 225 بلین ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • صحرا میں جنگل اگانے کا حیرت انگیز طریقہ

    صحرا میں جنگل اگانے کا حیرت انگیز طریقہ

    براعظم افریقہ میں صحرا زدگی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتی ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    افریقہ میں یہ مسئلہ اس لیے سنگین ہے کیونکہ اس خطے میں پانی کی شدید کمی ہے۔ یہاں رہنے والے 1 بلین کے قریب افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں جبکہ یہاں آلودہ پانی سے مرنے والے بچوں اور بڑوں کی شرح بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔

    مزید پڑھیں: آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی خطرات کا شکار

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں تاہم ان درختوں کی افزائش کے لیے بھی پانی کی ضرورت ہے جو افریقہ میں ویسے ہی نایاب ہے۔

    desert-2

    البتہ ماہرین نے اس کے باوجود اس کا حل نکال لیا۔

    بین الاقوامی ماہرین کی جانب سے تجویز کیے جانے والے اس منصوبے کے تحت صحراؤں میں درخت اگائے جارہے ہیں۔ اس منصوبے کا آغاز مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع صحرائی علاقہ میں کیا گیا۔

    یہاں آب پاشی کے لیے بڑے بڑے پائپ بچھائے گئے جس میں قاہرہ میں واقع ایک ٹریٹ منٹ پلانٹ سے پانی آتا ہے۔

    desert-5

    desert-4

    اس پلانٹ سے آنے والا پانی کسی حد تک آلودہ ہے لہٰذا یہ زراعت کے لیے تو موزوں نہیں البتہ درخت اگانے کا بہترین ذریعہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق آلودہ پانی ہمیں سرسبز اور صحت مند درخت تو نہیں دے سکتا، تاہم یہ ایسے درخت ضرور دے سکتا ہے جو صرف فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے ٹھنڈی ہوا اور سایہ فراہم کریں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے طویل ترین درختوں کا کلون تیار کرنے کی کوشش

    یہاں کے موسم کی وجہ سے درختوں کی افزائش کی رفتار حیران کن طور پر تیز ہے اور صرف 2 سے 3 سال میں یہاں قد آور درخت اگ آئے۔

    صحرا میں اگنے والے اس جنگل کے بے شمار فوائد ہیں۔ یہ صحرائی طوفانوں سے حفاظت فراہم کر رہا ہے جبکہ ان درختوں کی لکڑی تعمیرات اور ایندھن جلانے کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔

    desert-3

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کار سے صحرا کے 5 لاکھ ایکڑ کے رقبہ پر درخت اگائے جاسکتے ہیں۔

    دنیا بھر میں اس وقت درختوں اور جنگلات کی کٹائی ایک اہم مسئلہ ہے جس سے زمین کے ماحول پر خطرناک اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی بھی اہم وجہ ہے جس سے دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سمندری آلودگی: کراچی کی بندرگاہوں پر بین الاقوامی جہازوں کی آمد بند ہونے کا خدشہ

    سمندری آلودگی: کراچی کی بندرگاہوں پر بین الاقوامی جہازوں کی آمد بند ہونے کا خدشہ

    اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بحری امور کے اجلاس میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ کراچی کے ساحلی علاقوں پر بدترین آلودگی کی وجہ سے بندرگاہوں پر بین الاقوامی بحری جہازوں کی آمد و رفت بند ہوسکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بحری امور کے اجلاس میں کمیٹی کو بریفنگ دی گئی کہ کراچی کے ساحلی علاقوں میں آلودگی میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے بین الاقوامی جہازوں کی آمد و رفت بند ہونے کا خدشہ ہے۔

    اجلاس میں کمیٹی کو بتایا گیا کہ کراچی کے سمندر میں ہر روز 50 کروڑ گیلن آلودہ پانی پھینکا جاتا ہے جن میں فیکٹریوں کا زہر آلود پانی بھی شامل ہے جسے بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے براہ راست سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے۔

    بریفنگ میں بتایا گیا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے کیے جانے والے سروے کے مطابق کراچی کے ساحلی علاقوں میں آلودگی اور زہریلے پانی کی مقدار اس قدر بڑھ گئی ہے کہ یہ نہ صرف سمندری حیات کے لیے خطرے کا باعث ہے، بلکہ شہریوں کو بھی سنگین طبی مسائل لاحق ہوسکتے ہیں۔

    بریفنگ کے بعد کمیٹی کی جانب سے میئر کراچی وسیم اختر اور دیگر متعلقہ افسران کو طلبی کا نوٹس جاری کردیا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔