Tag: آلودگی

  • آلودگی کی وجہ سے بھارت میں ورلڈ کپ کا انعقاد خطرے میں

    آلودگی کی وجہ سے بھارت میں ورلڈ کپ کا انعقاد خطرے میں

    نئی دہلی: بھارتی دارالحکومت میں فضائی آلودگی کی خطرناک سطح اور اسموگ کے باعث نئی دہلی میں ہونے والے انڈر 17 ورلڈ کپ کا انعقاد خطرے میں پڑگیا ہے۔ ذرائع کے مطابق فیفا ورلڈ کپ کا مقام تبدیل کر سکتی ہے۔

    بھارت میں فیفا کے حکام کے مطابق نئی دہلی میں آلودگی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہوچکی ہے۔ اس سطح میں گزشتہ برس دیوالی کے تہوار کے بعد مزید اضافہ ہوگیا جب ملک بھر میں بڑے پیمانے پر آتش بازی کی گئی۔

    بھارتی فیفا حکام کے مطابق میچ کا حتمی شیڈول فی الحال طے نہیں کیا گیا، تاہم نئی دہلی کی فضائی آلودگی فیفا کے زیر غور ہے۔

    مزید پڑھیں: فضائی آلودگی دماغی بیماریاں پیدا کرنے کا باعث

    یاد رہے کہ سنہ 2013 میں فیفا نے اعلان کیا تھا کہ اگلے فٹبال انڈر 17 ورلڈ کپ کا میزبان ملک ممکنہ طور پر بھارت ہوسکتا ہے۔ اگر فیفا اپنے وعدے پر قائم رہا تو ٹورنامنٹ نئی دہلی سمیت 6 شہروں میں منعقد کیا جائے گا۔

    حکام کے مطابق گزشتہ برس آلودگی کی سطح میں دیوالی کے بعد خطرناک اضافے کو دیکھتے ہوئے یہ صورتحال اور بھی تشویش ناک ہوجاتی ہے کیونکہ ورلڈ کپ رواں برس اکتوبر میں ہوگا اور اسی ماہ دیوالی کا تہوار بھی منایا جائے گا۔

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق بھارت میں ہر سال فضائی آلودگی کے باعث 11 لاکھ افراد موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ یہ دنیا بھر میں آلودگی کے باعث اموات کی دوسری سب سے بڑی شرح ہے۔

    چین 155 لاکھ افراد کے ساتھ سرفہرست ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس بھارت میں فضائی آلودگی کی سطح اس وقت خطرناک سطح کو پہنچ گئی تھی جب بھارتی پنجاب میں دیہاتیوں نے بڑی مقدار میں فصلوں کو جلایا تھا۔ جلائی گئی فصلوں کے دھوئیں سے نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان کا شہر لاہور بھی زہریلی اسموگ کی لپیٹ میں آگیا تھا۔

    انہی دنوں بھارت کو تاریخ کی بدترین فضائی آلودگی کے باعث دارالحکومت کے 1800 پرائمری اسکولوں میں بھی 3 دن کی تعطیلات کا اعلان کرنا پڑا تھا۔

    مزید پڑھیں: زہریلی اسموگ سے کیسے بچا جائے؟

    اس سے قبل گزشتہ برس برازیل میں منعقد ہونے والے ریو اولمپکس 2016 میں بھی ماہرین کھلاڑیوں کی صحت کے بارے میں تشویش کا شکار تھے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ریو ڈی جنیرو کا پانی اس قدر آلودہ ہے کہ صرف تین گھونٹ سے زائد پانی بھی جسم میں جانے کی صورت میں کھلاڑی مختلف بیماریوں کا شکار بن سکتے ہیں۔

    ان کے مطابق ریو کے پانی میں کھلاڑیوں کے لیے نقصان دہ وائرسوں کی تعداد اس مقدار سے 1.7 ملین دگنی ہے جو امریکا اور یورپ میں خطرناک تصور کی جاتی ہے۔ یہاں پائے جانے والے بیکٹریا کو ’سپر بیکٹریا‘ کے درجہ میں رکھا جاتا ہے۔

    یہی صورتحال فضائی آلودگی کی تھی۔

    ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ فضائی اور آبی آلودگی کے باعث ریو میں غیر ملکی کھلاڑیوں کے گیسٹرو میں مبتلا ہونے کا سخت خطرہ ہے۔ انہوں نے یہ خیال بھی ظاہر کیا تھا کہ ریو ڈی جنیرو کسی صورت اس قسم کے کھیلوں کے مقابلوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔

  • آلودہ شہروں میں سائیکل چلانا فائدے کے بجائے نقصان کا سبب

    آلودہ شہروں میں سائیکل چلانا فائدے کے بجائے نقصان کا سبب

    ویسے تو سائیکل چلانا صحت کے لیے نہایت مفید ورزش ہے۔ یہ ورزش جسم کے تمام پٹھوں اور اعضا کو حرکت میں لا کر انہیں فعال کرتی ہے۔ اگر اس عادت کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا جائے تو گاڑیوں اور دیگر سفری سہولیات کی وجہ سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔

    لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کسی آلودہ شہر میں رہتے ہیں، تو وہاں پر سائیکلنگ کرنا فائدے کے بجائے جان لیوا نقصانات کا سبب بن سکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: بدترین فضائی آلودگی کا شکار 10 ممالک

    عالمی اداروں کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق آلودہ شہروں میں سائیکل چلانا کہیں زیادہ خطرناک ہے، بہ نسبت سائیکل نہ چلانے کے باعث مختلف طبی خطرات کا شکار ہونا۔

    رپورٹ میں بھارت کے شہر الہٰ آباد اور ایران کے شہر زبول کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان شہروں میں صرف آدھہ گھنٹہ سائیکل چلانا تنفس کے مختلف مسائل پیدا کرسکتا ہے جو ساری زندگی ساتھ رہ سکتے ہیں۔

    cycling-2

    ماہرین نے آلودہ شہروں میں سائیکلنگ سمیت کھلی فضا میں انجام دی جانے والی دیگر ورزشوں جیسے جاگنگ یا چہل قدمی کرنے کو بھی صحت کے لیے فائدہ مند کے بجائے نقصان دہ قرار دیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودہ فضا میں موجود ذرات سانس کے ساتھ جسم کے اندر جا کر بے شمار بیماریوں کا سبب بنتے ہیں جو بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔ ان بیماریوں میں سانس کی بیماریاں، نمونیہ، امراض قلب، فالج اور بعض اقسام کے کینسر شامل ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی ہر سال 50 لاکھ سے زائد افراد کی موت کی وجہ بن رہی ہے۔ صرف چین میں ہر روز 4 ہزار (لگ بھگ 155 لاکھ سالانہ) افراد بدترین فضائی آلودگی کے سبب موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔

    دوسرے نمبر پر بھارت 11 لاکھ اموات کے ساتھ موجود ہے۔

    ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی دماغی بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بھی بنتی ہے۔

    اس سے قبل ایک تحقیق کے دوران کیے جانے والے ایک دماغی اسکین میں فضا میں موجود آلودہ ذرات دماغ کے ٹشوز میں پائے گئے تھے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودہ ذرات الزائمر سمیت مختلف دماغی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہے۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسف کا کہنا ہے کہ دنیا کا ہر 7 میں سے ایک بچہ بدترین فضائی آلودگی اور اس کے خطرات کا شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق فضا میں موجود آلودگی کے ذرات بچوں کے زیر نشونما اندرونی جسمانی اعضا کو متاثر کرتے ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ نہ صرف ان کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ خون میں شامل ہو کر دماغی خلیات کو بھی نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں جس سے ان کی دماغی استعداد میں کمی واقع ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔

  • گھر میں پودے اگانے کے فوائد سے واقف ہیں؟

    گھر میں پودے اگانے کے فوائد سے واقف ہیں؟

    گھر میں پودے اگانے کے کئی فوائد ہیں۔ طبی ماہرین نے باقاعدہ اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ گھر میں اگائے گئے پودے طرز زندگی اور صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔

    ایک ڈاکٹر ایمی لاک کے مطابق ان کا بچپن جس گھر میں گزرا وہاں بے شمار پودے تھے۔ ’جب میں اس گھر سے باہر نکلی تو مجھے اندازہ ہوا کہ پودوں کی کمی مجھ پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ مجھے پودوں کی کمی محسوس ہونے لگی۔ چنانچہ میں جہاں بھی گئی میں نے اپنے آس پاس پودے ضرور لگائے‘۔

    گھر میں پودے اگانے کے مثبت اثرات کیا ہیں، آئیے آپ بھی جانیں۔

    :دماغی صحت پر اثرات

    plant-4
    ماہرین کے مطابق پودے چاہے درختوں کی شکل میں ہوں یا چھوٹے گملوں میں، یہ دماغی صحت پر اچھے اثرات ڈالتے ہیں۔ پودے آپ کا موڈ بہتر کرتے ہیں، آپ کے ذہنی دباؤ کو کم کرتے ہیں اور آپ کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے ہیں۔

    سائنسدانوں کے مطابق فطرت آپ کے موڈ کو تبدیل کردیتی ہے۔ اسی طرح اگر آپ کوئی تخلیقی کام کرنا چاہتے ہیں تو پودوں کے قریب بیٹھ کر کریں اس سے یقیناً آپ کی تخلیقی کارکردگی بہتر ہوگی۔

    :ہوا کے معیار میں بہتری

    plant-3
    گھر میں موجود پودے گھر کی ہوا کے معیار کو بہتر بناتے ہیں۔ آج کل جو ہوا ہمیں میسر ہے وہ آلودگی سے بھرپور ہے۔ پودے ہوا کو آلودگی سے صاف کرتے ہیں اور ہوا کو تازہ کرتے ہیں۔ پودے ہوا میں نمی کے تناسب بھی بڑھاتے ہیں۔

    :درد میں کمی کے لیے معاون

    plant-6
    سائنسدانوں کے مطابق پودے درد اور تکلیف کو کم کرنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔ ایک ریسرچ کے تحت ایک اسپتال میں مریضوں کے قریب پودے رکھے گئے۔ جن کے قریب پودے تھے ان مریضوں نے درد کش دواؤں کا کم استعمال کیا بہ نسبت ان مریضوں کے جن کے قریب پودے نہیں رکھے گئے تھے۔

    :جڑی بوٹیاں حاصل کریں

    plant-1
    گھر میں اگائے پودوں سے ہمیں غذائی اشیا اور جڑی بوٹیاں بھی حاصل ہوسکتی ہیں۔ جیسے ایلو ویرا، ہربز وغیرہ۔ ان پودوں سے اس مد میں خرچ ہونے والی رقم کی بھی بچت ہوسکتی ہے۔

  • جاپان کے جنگجو سمورائی کچرا اٹھانے کی مہم پر

    جاپان کے جنگجو سمورائی کچرا اٹھانے کی مہم پر

    کیا آپ جاپان کے سمورائی جنگجوؤں کے بارے میں جانتے ہیں؟

    سمورائی ایک زمانے میں جاپان کا طاقتور ترین اور انتہائی بااثر طبقہ تصور کیا جاتا تھا۔ یہ طبقہ اپنی جنگجوئی اور بہادری کے لیے مشہور تھا۔

    انیسویں صدی کے اواخر میں جاپانی شہنشاہ میشی نے جدید فوجی ضروریات کے تحت جدید افواج اور اسلحہ پر انحصار بڑھانے کے لیے ان کے اثر و رسوخ کا مکمل خاتمہ کر دیا تھا۔

    لیکن کیا واقعی یہ جنگجو ختم ہوگئے؟ کم از کم جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں تو یہ اب بھی سڑکوں پر گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

    japan-3

    اور آپ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ اب یہ لڑائی بھڑائی میں حصہ نہیں لیتے، بلکہ شہر کا کچرا صاف کر کے دوسرے شہریوں کو بھی صفائی رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

    japan-6

    japan-4

    japan-2

    دراصل یہ اصل سمورائی نہیں ہیں، بلکہ ان کا روپ دھارے ہوئے علامتی جنگجو ہیں جو اپنے شہر کے کچرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔

    japan-7

    japan-8

    japan-5

    یہ جہاں کہیں بھی کچرا دیکھتے ہیں وہاں سے سمورائیوں کے قدیم انداز میں اٹھانا شروع کردیتے ہیں۔ ان لوگوں سے متاثر ہو کر آس پاس موجود افراد بھی ان کے ساتھ کچرا اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔

    اپنے کام کے ذریعہ یہ جدید سمورائی نہ صرف جاپان کی آلودگی و گندگی بلکہ دیگر ماحولیاتی مسائل کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتے ہیں۔

  • آسٹریلیا کے ساحل پر نیلی جیلی فش کا حملہ

    آسٹریلیا کے ساحل پر نیلی جیلی فش کا حملہ

    میلبرن: آسٹریلیا کے شہر برسبین کے ساحل پر لاتعداد جیلی فش پانی سے باہر آگئیں جس سے ساحل نیلگوں ہوگیا۔

    برسبین کے شہریوں نے یہ نظارہ دیکھ کر اس کی تصاویر کھینچیں اور فوراً اسے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنا شروع کردیا۔ کچھ نے ان نیلی جیلی فشز کو دیکھ کر ناک بھوں چڑھائی اور کوئی اس منظر کو دیکھ کر خوش ہوا۔

    jelly-2

    jelly-3

    ایک ماہر حیاتیات ڈاکٹر لیزا این کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ان جیلی فشز کا ساحل پر آنا دراصل ان کے حیاتیاتی چکر (لائف سائیکل) کا ایک حصہ ہے۔

    سمندر کی اونچی لہروں کے ساتھ یہ ساحل پر آجاتی ہیں، اور کچھ دن بعد جب دوبارہ اونچی لہریں ساحل پر آتی ہیں تو یہ ان کے ساتھ واپس سمندر میں چلی جاتی ہیں۔

    jelly-4

    واضح رہے کہ جیلی فش تقریباً 92 فیصد پانی کی بنی ہوتی ہے اور اس کی 85 مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔ اس جاندار کا دماغ، سانس، حسیات اور ہاضمے کا مکمل نظام موجود نہیں ہوتا اس کے باوجود جیلی فش دن کے 24 گھنٹے خوراک کھاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق جیلی فش آکسیجن کے بغیر، گندگی اور آلودگی میں بآسانی افزائش پاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں جیلی فش کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں غیر معمولی جسامت کی جیلی فش

    جیلی فش کے جسم پر موجود لمبے لمبے دھاگے اس کا ہتھیار ہیں۔ ان دھاگوں کے اندر چھوٹے چھوٹے کانٹے ہوتے ہیں جو وہ حملے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ بظاہر خوشنما نظر آنے والی اس جیلی فش کا کاٹا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے جبکہ اس کی بعض اقسام مہلک اور جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔

    کوریا، جاپان اور چین میں جیلی فش کو سکھا کر بطور خوراک بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

  • مختلف اشیا کو زمین کا حصہ بننے کے لیے کتنا وقت درکار؟

    مختلف اشیا کو زمین کا حصہ بننے کے لیے کتنا وقت درکار؟

    کائنات میں موجود ہر شے زمین کا حصہ بن جاتی ہے چاہے وہ بے جان اشیا ہوں یا جاندار۔ ہم جو اشیا کچرے میں پھینکتے ہیں وہ مختلف مراحل سے گزر کر بالآخر زمین کا حصہ بن جاتی ہیں۔

    کچھ اشیا زمین کا حصہ بن کر زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر پھلوں اور سبزیوں کے چھلکوں کو مٹی کے ساتھ ملا دیا جائے تو مٹی میں موجود بیکٹریا اس کے اجزا کو توڑ دیں گے اور کچھ عرصے بعد اس کی آمیزش سے تیار ہونے والی مٹی نہایت زرخیز کھاد ثابت ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: ضائع شدہ خوراک کو کھاد میں تبدیل کرنے کا منصوبہ

    لیکن یہ عمل اتنا آسان اور معمولی نہیں۔ زمین کی مٹی اپنی فطرت کے مطابق ہر شے کو ایک مقررہ وقت میں اپنے اندر جذب کرتی ہے۔ یہ وقت کئی مہینے بھی ہوسکتا ہے اور کئی سال بھی بلکہ بعض اوقات ہزاروں سال بھی۔

    آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم جو اشیا کچرے میں پھینکتے ہیں انہیں تلف ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے کتنا عرصہ درکار ہوتا ہے۔

    اونی موزہ ۔ 1 سے 5 سال

    دودھ کا خالی کارٹن ۔ 5 سال

    سگریٹ کے ٹوٹے ۔ 10 سے 12 سال

    لیدر کے جوتے ۔ 25 سے 40 سال

    ٹن کا کین ۔ 50 سال

    ربر کے جوتے ۔ 50 سے 80 سال

    پلاسٹک کا برتن ۔ 50 سے 80 سال

    ایلومینیئم کا کین ۔ 200 سے 500 سال

    پلاسٹک کی بوتل ۔ 450 سال

    مچھلی پکڑنے والی ڈور ۔ 600 سال

    پلاسٹک بیگ (شاپر یا تھیلی) ۔ 200 سے 1000 ہزار سال

    یاد رہے کہ چونکہ ہم ان اشیا کو زمین میں نہیں دباتے، لہٰذا یہ ایک طویل عرصے تک زمین کے اوپر رہتی ہیں اور آلودگی اور گندگی کا باعث بنتی ہیں۔ اس کچرے کی موجودگی آس پاس رہنے والے افراد کی صحت کے لیے بھی خطرہ ثابت ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چیزوں کو پھینکنے کے بجائے کفایت شعاری سے استعمال کرنا چاہیئے اور انہیں ری سائیکل یا دوبارہ استعمال کرلینا چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟


    یہاں آپ کو کچھ طریقے بتائے جارہے ہیں جنہیں اپنا کر آپ ماحول کی صفائی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اور خود کو ماحول دوست فرد ثابت کر سکتے ہیں۔

    قدرتی وسائل کا احتیاط سے استعمال کریں۔

    کوشش کریں کہ کاغذ کا استعمال کم سے کم کریں۔ آج کل اسمارٹ فون نے کتاب اور کاغذ سے چھٹکارہ دلا دیا ہے لہٰذا یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ کاغذ درختوں میں پائی جانے والی گوند سے بنائے جاتے ہیں اور ہر سال اس مقصد کے لیے لاکھوں کروڑوں درخت کاٹے جاتے ہیں۔

    کاغذ کی دونوں سمتوں کو استعمال کریں۔

    پلاسٹک بیگز کا استعمال ختم کریں۔ ان کی جگہ کپڑے کے تھیلے استعمال کریں۔

    مختلف پلاسٹک کی اشیا جیسے برتن، کپ، یا مختلف ڈبوں کو استعمال کے بعد پھینکنے کے بجائے ان سے گھریلو آرائش کی کوئی شے تخلیق کرلیں۔

    بازار سے خریدی جانے والی مختلف اشیا کی پیکنگ پھینک دی جاتی ہے اور یہ ہمارے ماحول کی آلودگی میں اضافہ کرتی ہیں۔ سائنسدان دودھ کے پروٹین سے ایسی پیکنگ بنانے کی کوششوں میں ہیں جو کھائی جاسکے گی یا گرم پانی میں حل کی جاسکے گی۔


     

  • قدیم ترین جھیل پر تیرتا تباہی کا شکار قبیلہ

    قدیم ترین جھیل پر تیرتا تباہی کا شکار قبیلہ

    جامشورو: سندھ کے ضلع جامشورو میں واقع منچھر جھیل پاکستان کے بڑے آبی ذخائر میں سے ایک ہے۔ اس جھیل میں پانی کا ذریعہ مون سون کی بارشیں ہیں۔

    اس جھیل کی موجودگی کے بارے میں کوئی حتمی تاریخ موجود نہیں لیکن یہ جھیل موہن جودڑو اور ہڑپہ کی تہذیبوں سے بھی قدیم ہے، گویا دنیا کی قدیم ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔

    لیکن تاریخ میں اہم مقام رکھنے والی یہ جھیل اس وقت تباہی و بربادی کا شکار ہے۔

    تاریخی ورثہ برباد ہوچکا؟

    ستر کی دہائی میں سندھ کے مختلف شہروں سے بڑی بڑی نکاسی آب کی لائنیں اور نہریں نکال دی گئیں جو ان شہروں کا فضلہ، صنعتوں کا زہریلا پانی اور زراعت میں استعمال کیے جانے والے زہریلے کیمیائی مواد سے بھرپور باقیات کو اس جھیل میں لانے لگیں۔

    اسی طرح دریائے سندھ کے کناروں کو قابل کاشت بنانے کے لیے وہاں سے نمکین پانی بھی اسی جھیل میں ڈالا جانے لگا۔ یہ کام رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (آر بی او ڈی) سسٹم کے ذریعہ کیا جارہا تھا۔

    گو کہ بعد ازاں فیصلہ کیا گیا کہ دریائے سندھ کا نمکین پانی بحیرہ عرب میں بہا دیا جائے لیکن فنڈز کی کمی کے باعث یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا اور یہ پانی منچھر جھیل کو آلودہ اور زہریلا کرتا رہا۔

    lake-7

    سنہ 1990 میں کیے جانے والے ایک تحقیقاتی تجزیے سے پتہ چلا کہ جھیل کا پانی نمکین پانی، کیمیائی مواد اور فضلے کی آمیزش کی وجہ سے زہریلا ہوچکا ہے اور پینے کے قابل نہیں رہا۔ یہاں کی آبی حیات اور پودے مر چکے ہیں یا ان کی تعداد میں خطرناک کمی آچکی ہے جبکہ اس پانی سے زراعت بھی ممکن نہیں رہی۔

    جھیل کی آلودگی کے باعث ہجرت کر کے آنے والے پرندوں نے بھی یہاں آنا چھوڑ دیا۔

    پاکستان فشر مین فورم کے مصطفیٰ میرانی جو اس جھیل کو بچانے کے لیے سرگرداں ہیں، کہتے ہیں کہ دریائے سندھ پر بنائے جانے والے بڑے بڑے ڈیمز نے بھی جھیل میں صاف پانی کی فراہمی کو منقطع کردیا۔

    جھیل کی لہروں پر تیرتا قبیلہ

    اس جھیل کی ایک اور خوبصورتی یہاں آباد موہانا قبیلہ ہے جن کے گھر جھیل میں تیرتی کشتیوں پر آباد ہیں۔ یہ لوگ کئی نسلوں سے انہی کشتیوں پر رہ رہے ہیں۔

    lake-6

    lake-5

    کشتیوں پر رہنے والے یہ لوگ پیشے کے اعتبار سے ماہی گیر ہیں اور ان کا واحد ذریعہ روزگار مچھلیاں پکڑنا ہے۔

    لیکن برا ہو صنعی ترقی اور زراعت میں استعمال کیے جانے والے کیمیائی مادوں کا جن کی وجہ سے نہ صرف جھیل کا پانی بلکہ جھیل کی ہر شے زہریلی ہوچکی ہے۔

    ان ہی میں ایک ماہی گیر محمد یوسف پرانے دنوں کو یاد کر کے آزردہ ہوتا ہے جب ان لوگوں کی زندگی بہت خوبصورت اور خوشحال تھی۔ محمد یوسف کے لیے اب اس جھیل پر زندگی ناقابل برداشت ہوگئی ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندر کنارے پیاسا گاؤں اور غربت کا عفریت

    وہ کہتا ہے، ’کچھ عرصہ پہلے زندگی بہت خوبصورت تھی۔ یہاں ہر قسم کی مچھلیاں دستیاب تھیں اور ہماری آمدنی بہت اچھی تھی‘۔

    وہ بتاتا ہے کہ جب اس کے والد شکار پر جایا کرتے تھے تو وہ کئی کلو مچھلی لے کر آتے تھے۔ ’لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے۔ اب خراب پانی کی وجہ سے مچھلی ختم ہوگئی ہے‘۔

    یوسف اپنی والدہ، بیوی اور 9 بچوں کے ساتھ لکڑی سے بنی ناؤ پر رہتا ہے اور یہ جھیل اس کا گھر ہے۔

    lake-3

    یوسف اور اس جیسے بے شمار لوگ لکڑی سے بنی ان کشتیوں میں کئی نسلوں سے مقیم ہیں۔ کشتی کے اوپر بنائے گئے چھپر پر ان لوگوں کے کپڑے اور دیگر اشیائے ضروریہ موجود ہوتی ہیں۔ کھانا پکانے کے لیے کشتی کے کنارے پر ایک مٹی کا چولہا موجود ہے جس میں آبی پودوں سے آگ جلائی جاتی ہے۔

    lake-2

    یوسف نے بتایا کہ گرمیوں میں وہ چھپر کے اوپر جبکہ سردیوں میں کشتی کے اندر سوتے ہیں۔

    اس کی کشتی کے اندر دو جھولے بھی موجود ہیں۔ ایک کے اندر یوسف کا 40 دن کا بیٹا سوتا ہے جبکہ دوسرے کے اندر قرآن رکھا گیا ہے۔

    لیکن کئی نسلوں سے آباد یہ قبیلہ بھی اب اپنے خاتمے کے دہانے پر ہے۔ مصطفیٰ میرانی کے مطابق یہاں موجود افراد کی تعداد نصف ہوچکی ہے۔

    وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ چھوٹے تھے تب یہاں 400 کے قریب کشتیاں موجود تھیں جن پر ان کا قبیلہ آباد تھا۔ ان لوگوں کا کھانا پینا، سونا، حتیٰ کہ شادیاں بھی انہی کشتیوں پر انجام پاتی تھیں۔

    لیکن اب غربت کے باعث لوگ اپنی کشتیوں کی مرمت نہیں کروا پاتے جس کے باعث ان کی کشتیاں خستہ حال ہوگئی ہیں۔ مجبوراً انہیں اپنے آبائی مقام کو چھوڑ کر خشکی پر گھر بسانے پڑ رہے ہیں۔

    lake-4

    اب بمشکل ایک درجن کشتیاں ہیں جو جھیل پر تیر رہی ہیں۔

    خشکی پر قابل رحم زندگی

    خشکی پر گھر بسانے والوں میں سے ایک ضعیف شخص سائیں داد ہے جس کی کشتی ٹوٹ پھوٹ کر منچھر کی گہرائیوں کا حصہ بن چکی ہے۔ سائیں داد کنارے پر گھاس پھونس سے بنے جھونپڑے میں رہتا ہے۔

    سائیں داد کا کہنا ہے، ’ہمارے پاس پینے یا دیگر ضروریات کے لیے پانی نہیں ہے۔ ہمارے پاس کھانا پکانے کے لیے برتن تک نہیں اور کسی کو اس کی فکر نہیں‘۔

    سائیں داد کے بیٹے قریبی شہروں میں روزگار کی تلاش میں جا چکے ہیں جہاں وہ زیادہ تر بندرگاہ پر مختلف کام سر انجام دے رہے ہیں۔

    اس خوبصورت جھیل نے تیزی سے رونما ہوتی صنعتی ترقی کا تاوان اپنی استعداد سے زیادہ ادا کیا ہے۔ نہ صرف یہ جھیل بلکہ اس پر قائم یہ نایاب قبیلہ بھی اپنے زوال کی طرف گامزن ہے۔ بقول میرانی، ’یہ جھیل خدا کا تحفہ تھی۔ مگر اب اس جھیل کی خوبصورتی برباد ہوچکی ہے‘۔

  • چین کی فضائی آلودگی ہر روز 4 ہزار افراد کی قاتل

    چین کی فضائی آلودگی ہر روز 4 ہزار افراد کی قاتل

    واشنگٹن: امریکا میں کیے جانے والے ایک سروے سے معلوم ہوا کہ چین کی فضائی آلودگی ہر روز 4 ہزار افراد کی موت کا سبب بن رہی ہے۔

    یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ چین میں ہر سال 16 لاکھ اموات آلودگی کے باعث پیدا ہونے والے امراض قلب، پھیپھڑوں کے امراض اور فالج کے باعث ہوتی ہیں۔

    واضح رہے کہ چین میں کوئلے کا استعمال توانائی کے حصول کا اہم ذریعہ ہے اور یہی چین کی فضا کو جان لیوا حد تک آلودہ کرنے کا سبب بھی ہے۔

    مزید پڑھیں: بدترین فضائی آلودگی کا شکار 10 ممالک

    تحقیق کے سربراہ رابرٹ رہوڈ کے مطابق چین کی 38 فیصد آبادی اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اس فضا میں گزار رہی ہے جسے عالمی معیارات کے تحت غیر صحت مند قرار دیا جا چکا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی فضائی آلودگی میں سردی کے موسم میں خطرناک حد تک اضافہ ہوجاتا ہے کیونکہ حرارت کے حصول کے لیے بڑے اور چھوٹے پیمانے پر کوئلے ہی کو جلایا جاتا ہے۔

    دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کے مطابق فضائی آلودگی کے باعث ہر سال 5.5 ملین لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    اس سے قبل بھی کئی بار فضائی آلودگی کے انسانی صحت پر خطرناک اثرات کے بارے میں آگاہ کیا جاچکا ہے۔

    اس سے قبل ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ فضائی آلودگی انسانی دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ مختلف دماغی بیماریوں جیسے الزائمر وغیرہ کا سبب بن سکتی ہے۔ ریسرچ کے مطابق ایک دماغی اسکین میں فضا میں موجود آلودہ ذرات دماغ کے ٹشوز میں پائے گئے تھے۔

    ایک اور تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی ان لوگوں پر خاص طور پر منفی اثرات ڈالتی ہے جو کھلی فضا میں کام کرتے ہیں جیسے مزدور اور کسان وغیرہ۔ ماہرین کے مطابق یہ کھلی فضا میں کام کرنے والے افراد کی استعداد کو متاثر کرتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی کارکردگی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔

  • سال 2016: ماحول کو بچانے کے لیے ہم نے کیا کیا؟

    سال 2016: ماحول کو بچانے کے لیے ہم نے کیا کیا؟

    جیسے جیسے دنیا میں قدرتی آفات و مختلف موسمیاتی عوامل سامنے آرہے ہیں ویسے ویسے ماحولیات کا تحفظ اور موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج کے بارے میں آگاہی بڑھتی جارہی ہے۔

    تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ مستقبل قریب میں ہمیں کلائمٹ چینج کے باعث جن شدید خطرات کا سامنا ہوگا، ان کے مقابلے میں ہمارے اقدامات نہایت معمولی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا کو ہنگامی بنیادوں پر کلائمٹ چینج کے اثرات سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، بصورت دیگر یہ دنیا کی ترقی، امن اور فلاح کے لیے دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوگا۔

    رواں برس پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس سلسلے میں کیا کیا اقدامات کیے گئے، اور دنیا نے مزید کن ماحولیاتی خطرات کا سامنا کیا، آئیے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    پاکستان ۔ کلائمٹ چینج سے متاثرہ ممالک میں سے ایک

    جنوری تا جون

    پاکستانی پارلیمنٹ مکمل طور پر شمسی توانائی پر انحصار کرنے والی دنیا کی پہلی پارلیمنٹ بن گئی۔

    مارچ میں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے سرسبز پاکستان پروگرام کی منظوری دی جس کے تحت ملک بھر میں 5 سال کے اندر 10 کروڑ درخت لگانے کا ہدف رکھا گیا۔

     وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) نے قومی پالیسی برائے جنگلات کا حتمی مسودہ تیار کر کے مشترکہ مفادات کونسل کو ارسال کردیا۔ مسودہ تاحال منظوری کا منتظر ہے۔

    وزیر اعظم گرین پاکستان پروگرام کے تحت جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ اور افزائش کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری دی گئی۔

    پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے 3 سابق فوجی افسران نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی جس میں تجویز دی گئی کہ تینوں ممالک مل بیٹھ کر کلائمٹ چینج سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے پائیدار منصوبوں پر کام کریں اور علاقائی تعاون میں اضافہ کریں۔

    انہوں نے متنبہ کیا کہ دوسری صورت میں یہ تینوں ممالک آپس میں مختلف تنازعوں کا شکار ہوجائیں گے جس سے ان 3 ممالک میں بسنے والے کروڑوں افراد کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔

    جولائی تا دسمبر

     وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کے مطابق شمالی علاقوں میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا جس کے باعث چترال اور گلگت بلتستان کے کچھ حصوں میں 5000 کے قریب گلیشیئرز تیزی سے پگھلنا شروع ہوگئے۔

    مقامی افراد کے مطابق برفانی پہاڑی علاقوں میں گرمی میں درجہ حرارت 30 سے اوپر کبھی نہیں گیا لیکن رواں برس یہ 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔

    ڈپٹی کمشنر تھر پارکر ڈاکٹر شہزاد تھیم نے تھر میں درخت کاٹنے پر پابندی عائد کردی۔

     کمشنر کراچی اعجاز احمد خان نے شہر میں ماحول دشمن درخت کونو کارپس کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی۔

    وفاقی حکومت نے شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے اور اس سے ہونے والے نقصانات سے بچانے کے لیے نصب مانیٹرنگ سسٹم پر 8.5 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا۔

    رواں سال پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں بدترین دھند دیکھی گئی جسے ماہرین نے اسموگ قرار دیا۔ عالمی خلائی ادارے ناسا کے مطابق لاہور میں زہریلی اسموگ کی وجہ بھارتی پنجاب میں فصلوں کا جلایا جانا تھا جو ایک غیر معمولی عمل تھا۔

    اس فوگ کی وجہ سے مختلف حادثات میں پنجاب میں 15 سے زائد افراد ہلاک بھی ہوئے۔

    لاہور ہائیکورٹ نے بھی حکومت سے اسموگ کے حوالے سے حفاظتی اقدامات اور آگاہی مہم کی تفصیلات طلب کرلیں۔

    پاکستان نے انسداد ماحولیاتی نقصانات کے لیے طے کیے جانے والے معاہدے پیرس کلائمٹ ڈیل کی توثیق کردی جس کے بعد پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہوگیا جو دنیا بھر کو موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کے نقصانات سے بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات پر عمل کریں گے۔

    پنجاب کے ضلع لیہ کے نواحی علاقے بکھری احمد کے مقام پر دریائے سندھ نے آگے بڑھنا شروع کردیا جس کے بعد ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ دریا کے آگے بڑھنے کے باعث اس مقام پر تیزی کے ساتھ زمین کا کٹاؤ جاری ہے اور زمین دریا برد ہورہی ہے۔

    وفاقی وزیر برائے کلائمٹ چینج زاہد حامد نے اعلان کیا کہ پاکستان بہت جلد دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی کا پارک قائم کرنے والا ہے جس سے 1000 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔

    برطانوی باکسر عامر خان نے سندھ کے صحرائی علاقے تھر پارکر میں 200 کنویں بنانے کا اعلان کیا۔

    وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر نایاب پرندے تلور اور ہجرت کر کے آنے والے دیگر پرندوں کے تحفظ و افزائش نسل کے لیے 25 کروڑ روپے جاری کردیے گئے۔

    وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی پانی کی قلت کو دیکھتے ہوئے مقامی حکومت نے پانی ضائع کرنے والے گھروں پر جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔

    ٹھٹھہ اور بلوچستان کے ساحل پر غیر معمولی جسامت کی جیلی فش دیکھی گئی جو اس سے قبل پاکستان میں کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔

    عالمی ادارے جرمن واچ نے گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس 2017 جاری کیا جس میں کلائمٹ چینج سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان کو ساتویں نمبر پر رکھا گیا۔

    رواں برس آخری عشرے میں تلور کا شکار بھی موضوع بحث رہا۔ قطر سے آنے والے شہزادوں نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں دل بھر کر تلور کا شکار کیا۔ ان کے جانے کے بعد بھی انہیں شکار کی اجازت دینے کا معاملہ مختلف اداروں اور صوبائی و وفاقی حکومتوں کے درمیان کھینچا تانی کا سبب بن رہا ہے۔

    سائنس آف دی ٹوٹل انوائرنمنٹ نامی جریدے میں شائع کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کے شہری علاقوں میں رہنے والی 40 فیصد آبادی پارے (مرکری) کی آلودگی اور اس کے نقصانات کے خطرے کا شکار ہے۔

    دنیا نے کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟

    جنوری تا اپریل

    یورپین خلائی ایجنسی نے ماحولیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیے سیٹلائٹ لانچ کردیا۔

    کینیا میں ہاتھیوں کے تحفظ کے لیے قائم کیے جانے والے فورم ’جائنٹ کلب‘ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں شرکا کی جانب سے زور دیا گیا کہ ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت پر فوری پابندی عائد کی جائے۔

    مئی تا اگست

    متحدہ عرب امارات کی حکومت نے بارشوں میں اضافے کے لیے مصنوعی پہاڑ بنانے کا فیصلہ کیا۔

    کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل مکمل طور پر معدوم ہوگئی جس کی سائنسدانوں نے تصدیق کردی۔ یہ کلائمٹ چینج کے باعث معدوم ہونے والا پہلا ممالیہ ہے۔

    دوسری جانب معدومی کے خطرے کا شکار جانداروں کے تحفظ کے لیے نہایت منظم اقدامات اٹھائے گئے جن کے باعث چین میں خطرے کا شکار پانڈا، اور کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی ایک قسم، جن کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے، معدومی کے خطرے کی زد سے باہر نکل آئے۔

    دنیا بھر میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوگیا جس کے بعد عالمی خلائی ادارے ناسا نے متنبہ کیا کہ جنگلات میں لگنے والی آگ کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔

    آسٹریلیا کے حکومتی سائنسی ادارے کے مطابق آسٹریلیا نے اپنے جغرافیہ میں ایک میٹر کی تبدیلی کرلی۔

    ماہرین کے مطابق آسٹریلیا اپنی ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت کی وجہ سے ہر سال 7 سینٹی میٹر شمال کی جانب حرکت کر رہا ہے اور سنہ 2020 تک اس کے جغرافیے میں 1.8 میٹر کی تبدیلی ہوچکی ہوگی۔

    ناروے دنیا کا وہ پہلا ملک بن گیا جہاں ملک بھر میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد کردی گئی۔

    قطب شمالی اور گرین لینڈ میں برف گلابی ہونا شروع ہوگئی۔ قطب شمالی کی برف گلابی اس وقت ہوتی ہے جب برف میں پرورش پانے والی کائی تابکار شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اس کا نتیجہ برفانی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

    ستمبر تا دسمبر

    امریکی صدر بارک اوباما نے بحرالکاہل میں قائم کی گئی سمندری جانداروں کی حفاظتی پناہ گاہ (ریزرو) کو وسیع کرنے کے منصوبے کی منظوری دی جس کے بعد یہ دنیا کی سب سے بڑی آبی پناہ گاہ بن جائے گی۔ یہاں 7000 آبی جاندار رکھے گئے ہیں جن میں معدومی کے خطرے کا شکار ہوائی کی مونگ سگ ماہی اور سیاہ مونگے شامل ہیں۔

    امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے دور میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے بے شمار اقدامات کیے اور جانے سے قبل انہوں نے کلائمٹ چینج کو سیاسی ایجنڈے میں شامل کرلیا تھا۔

    انڈونیشیا میں علمائے دین نے جنگل میں جان بوجھ کر لگائی جانے والی آگ کے خلاف فتویٰ جاری کرتے ہوئے اسے حرام قرار دے دیا۔

    عالمی عدالت برائے انصاف نے ماحولیاتی نقصانات سے متعلق کیسوں کی سماعت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    فرانس نے ملک بھر میں پلاسٹک سے بنے برتنوں جیسے کپ، پلیٹ اور کانٹوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    سنہ 1975 میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف منظور ہونے والے معاہدے سائٹس کی کانفرنس میں مختلف ممالک نے دنیا کے سب سے زیادہ غیر قانونی تجارت کے شکار جانور پینگولین اور دنیا سے تیزی سے ختم ہوتے روز ووڈ درخت کے کاٹنے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔

    برطانوی ماہرین نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں اور ڈیٹا کی بغور چھان بین کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ دنیا کے برفانی خطے قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کلائمٹ چینج کے باعث وہاں موجود برف پگھل رہی ہے اور اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔

    سات نومبر کو مراکش میں ماحولیات کی عالمی سالانہ کانفرنس کوپ 22 کا آغاز ہوا۔ گزشتہ برس پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں تاریخی معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد رواں برس کانفرنس کا مرکزی ایجنڈا اس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے اقدامات اٹھانا تھا۔

    نو نومبر کو امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی انتخاب جیت کر نئے صدر منتخب ہوگئے۔ ان کی فتح نے دنیا بھر میں ماحولیات کی بہتری کے لیے کیے جانے والے کاموں پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا۔

    صدر ٹرمپ کا انتخابی منشور ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔ وہ اپنی انتخابی مہم میں کئی بار کلائمٹ چینج بھی کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دے چکے تھے۔

    عالمی ادارہ تجارت ڈبلیو ٹی او نے فیصلہ کیا کہ وہ اب دنیا بھر میں ماحول دوست مصنوعات پر سرمایہ کاری کرے گا۔

    امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں 24 اہم موسمیاتی مظاہر کا ذکر کیا گیا جو کرہ ارض پر آب و ہوا کی تبدیلی کے خطرے کو ظاہر کرتے ہیں۔

    ایسے موسمیاتی مظاہر کا اس سے پہلے تصور بھی ناممکن تھا۔

    سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں ایک ایسی شارک کو حرکت کرتے دیکھا گیا جس کے بارے میں ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ ڈائنو سارز سے بھی پہلے سے ہماری زمین پر موجود ہے۔

    اب تک اس شارک کو کسی نے نہیں دیکھا تھا جس کے باعث یہ شارک ایک تخیلاتی حیثیت اختیار کر گئی تھی اور اس کے بارے میں مصدقہ طور پر نہیں کہا جاسکتا تھا کہ آیا یہ موجود ہے بھی یا نہیں۔

    فرانس میں دنیا کی پہلی سولر ہائی وے کا افتتاح کردیا گیا۔

    دنیا کے سب سے گرم ترین صحرا، براعظم افریقہ کے صحرائے اعظم میں 37 سال بعد برفباری ہوئی۔

    رواں برس دنیا بھر میں فضائی آلودگی میں بھی خطرناک اضافہ دیکھا گیا اور پیرس، میڈرڈ، تہران، نئی دہلی اور لاہور وغیرہ میں تاریخ کی بلند ترین فضائی آلودگی کی شرح ریکارڈ کی گئی۔

  • شہری زراعت ۔ مستقبل کی اہم ضرورت

    شہری زراعت ۔ مستقبل کی اہم ضرورت

    کیا آپ نے کبھی تصور کیا ہے کہ جب کبھی آپ کو سبزیوں اور پھلوں کی ضرورت ہو، آپ اپنے فلیٹ یا گھر کی چھت پر جائیں اور وہاں اگی ’فصل‘ سے اپنی مطلوبہ شے توڑ کر لے آئیں؟

    یہ بات شاید آپ کو بہت عجیب لگے، لیکن دنیا بھر میں اب یہی رجحان فروغ پا رہا ہے جسے اربن فارمنگ کہا جاتا ہے۔

    شہری زراعت یا اربن فارمنگ کا مطلب شہروں کے بیچ میں زراعت کرنا ہے۔ یہ سڑکوں کے غیر مصروف حصوں، عمارتوں کی چھتوں، بالکونیوں اور خالی جگہوں پر کی جاسکتی ہے۔

    farming-6

    farming-2

    farming-4

    اس زراعت کا مقصد دراصل دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنا ہے۔ دنیا میں موجود قابل زراعت زمینیں اس وقت دنیا کی تیزی سے اضافہ ہوتی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہیں۔

    دوسری جانب جن زمینوں پر زراعت کی جارہی ہے ان کی تعداد میں تیزی سے کمی آرہی ہے اور ان کی جگہ بڑی بڑی عمارتیں، گھر اور اسکول وغیرہ بنائے جارہے ہیں۔

    تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں رہنے والے افراد کو آخر کس طرح سبزیاں اور پھل فراہم کیے جائیں؟

    اس کا حل ماہرین نے شہری زراعت کے طور پر پیش کیا ہے۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ شہری زراعت کے ذریعہ شہر کی زیادہ سے زیادہ عمارتوں کی چھتوں کو گارڈن کی شکل میں تبدیل کردیا جائے اور وہاں پھل اور سبزیاں اگائی جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے عمارتوں کی چھتوں پر مویشی بھی پالے جاسکتے ہیں جو دودھ اور گوشت کی فراہم کا ذریعہ بنیں گے۔

    farming-5

    یہی نہیں یہ سر سبز چھتیں شہر سے آلودگی کو بھی کم کریں گی جبکہ شدید گرمیوں کے موسم میں یہ ٹھنڈک فراہم کریں گی اور وہی کام کریں گی جو درخت سر انجام دیتے ہیں۔

    یہ طریقہ کئی ممالک میں زیر استعمال ہے۔ امریکی شہر نیویارک میں بھی متعدد فلک بوس عمارتوں کی چھتوں پر زراعت شروع کردی گئی ہے اور یہاں سے پیدا ہونے والی اجناس کی مقدار 23 ہزار کلو گرام سالانہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق شہری زراعت کے طریقے کو اپنا کر اگر کوئی ایک شہر بھی اپنی غذائی ضروریات میں خود کفیل ہوجائے تو اس سے ملکی معیشت کو کافی سہارا ہوسکتا ہے اور کسی ملک کی مجموعی زراعت پر پڑنے والا دباؤ بھی کم ہوسکتا ہے۔

    عالمی رپورٹس کے مطابق زراعت کو ایک اور خطرہ موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج سے بھی ہے۔ موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے ہر سال بارشوں کی مقدار میں تبدیلی (کسی سال کم اور کسی سال زیادہ بارش ہونا) بھی فصل کو نقصان پہنچاتی ہے جس سے اس کی سالانہ مقدار میں کمی ہوتی ہے، یوں یہ غذائی اجناس کمیاب اور مہنگی ہوجاتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر شہری زراعت کے علاوہ انفرادی طور پر بھی گھروں میں زراعت یا چھوٹے چھوٹے گملوں میں مختلف سبزیاں اور پودے اگانا کسی خاندان کو اس کی غذائی ضروریات میں خود کفیل کرسکتا ہے۔