Tag: آلودگی

  • ایسی پیکنگ جسے کھایا جا سکتا ہے

    ایسی پیکنگ جسے کھایا جا سکتا ہے

    یہ ایک بہت عام سی بات ہے کہ آپ نے کوئی چیز بازار سے خریدی، اس کے گرد لپٹا پلاسٹک کھول کر پھینک دیا اور اس چیز کو استعمال کرلیا۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ پھینکا جانے والا پلاسٹک ہماری زمین کو کس قدر شدید نقصانات پہنچا رہا ہے؟

    پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جو ختم نہیں ہوتا۔ اگر اسے ایک ہزار سال بھی زمین میں دبائے رکھا جائے تب بھی یہ زمین میں حل ہو کر اس کا حصہ نہیں بنتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    pl-3

    ساحلوں پر پھینکی جانے والی پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں سمندر میں چلی جاتی ہیں جس سے سمندری حیات کی بقا کو سخت خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

    کچھ سمندری حیات پلاسٹک کو کھا بھی لیتی ہیں جس سے فوری طور پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    pl-2

    ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ایک کھرب پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ تھیلیاں استعمال کے بعد پھینک دی جاتی ہیں جو کروڑوں ٹن کچرے کی شکل میں ہماری زمین کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

    pl-1

    انہی خطرات کو کم کرنے کے لیے امریکا میں ماہرین ’خوردنی پیکنگ‘ پر کام کر رہے ہیں۔

    امریکن کیمیکل سوسائٹی کے ماہرین پلاسٹک کے متبادل کے طور پر ایسی چیزوں کی پیکنگ بنانے پر کام کر رہے ہیں جنہیں انسان یا جانور کھا سکتے ہیں۔ اگر اسے پھینک دیا جائے تب بھی یہ مختصر عرصہ میں حل ہو کر زمین کا حصہ بن سکتی ہے یوں یہ کچرے اور آلودگی میں اضافہ کا سبب نہیں بنے گی۔

    pl-5

    یہ پیکنگ دودھ کے پروٹین سے تیار کی جائے گی اور یہ وہی کام کرے گی جو پلاسٹک سر انجام دیتا ہے۔ یہ آکسیجن کو جذب نہیں کرسکے گی لہٰذا اس کے اندر لپٹی چیز خراب ہونے کا کوئی خدشہ نہیں ہوگا۔

    اس پیکنگ کے اندر کافی یا سوپ کو پیک کیا جاسکے گا۔ استعمال کرتے ہوئے اسے کھولے بغیر گرم پانی میں ڈالا جاسکتا ہے جہاں یہ پیکنگ بھی پانی میں حل ہوجائے گی۔ چونکہ یہ پروٹین ہی سے بنی ہے لہٰذا یہ صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہوگی۔

    pl-4

    pl-6

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں زمین کی بڑھتی آلودگی میں کمی کے لیے یہی خوردنی پیکنگ استعمال کی جائے گی۔

    اس سے قبل برطانیہ میں بھی پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال کو کم کرنے کے لیے اس پر ٹیکس عائد کردیا گیا جس کے بعد رواں برس پلاسٹک بیگز کے استعمال میں 85 فیصد کمی دیکھی گئی۔

  • ریو 2016: فضائی و آبی آلودگی کے باعث کھلاڑیوں کی صحت کو سخت خطرہ

    ریو 2016: فضائی و آبی آلودگی کے باعث کھلاڑیوں کی صحت کو سخت خطرہ

    ریو ڈی جنیرو: کھیلوں کی دنیا کا سب سے بڑا عالمی میلہ اولمپکس کل سے برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں شروع ہو رہا ہے جس کے لیے کئی ممالک کی ٹیمیں ریو پہنچ چکی ہیں جبکہ مزید ٹیموں کی آمد جاری ہے۔ انتظامیہ کے مطابق فول پروف سیکیورٹی کو یقینی بنایا جارہا ہے جبکہ اولمپک پارک تک میٹرو سروس کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔

    تاہم ماہرین ریو ڈی جنیرو کی فضائی اور آبی آلودگی سے تشویش کا شکار ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ یہ آلودگی ایتھلیٹس کی صحت کو شدید متاثر کرے گی۔

    rio-2

    برازیل کے ایک وائرولوجسٹ ڈاکٹر فرنینڈو اسپکلی کے مطابق برازیل اور برازیل کے باہر سے آنے والے تمام افراد اس آلودگی کی وجہ سے مختلف بیماریوں کے خطرے کا شکار ہیں۔

    ریو ڈی جنیرو کا پانی اس قدر آلودہ ہے کہ صرف تین گھونٹ سے زائد پانی بھی جسم میں جانے کی صورت میں لوگ مختلف بیماریوں کا شکار بن سکتے ہیں۔

    ریو کے ساحلی مقامات اپانیما اور کوپکے بانا پر جانے والے سیاح بھی بدترین خطرات کا شکار ہیں۔

    rio-4

    یونیورسٹی آف فلوریڈا کی ڈاکٹر ویلری ہارووڈ کہتی ہیں، ’ساحل پر جانا ایک خوشگوار تفریح ہے مگر احتیاطی تدابیر ضروری ہیں۔ بچوں کو ریت میں کھیلنے کے دوران ان کے منہ میں ریت نہ جانے دیں، اور اپنا سر (نہاتے ہوئے) پانی کے اندر نہ کریں‘۔

    ماہرین کے مطابق ریو کے پانی میں کھلاڑیوں کے لیے نقصان دہ وائرسوں کی تعداد اس مقدار سے 1.7 ملین دگنی ہے جو امریکا اور یورپ میں خطرناک تصور کی جاتی ہے۔ یہاں پائے جانے والے بیکٹریا کو ’سپر بیکٹریا‘ کے درجہ میں رکھا جاتا ہے۔

    اولمپک کمیٹی کا کہنا ہے کہ وہ دن میں 4 بار پانی کو ٹیسٹ کر رہے ہیں۔

    rio-5

    تاہم کچھ کھلاڑی اس سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ ایک ایتھلیٹ کے مطابق، ’جب آپ پانی میں تیر رہے ہوتے ہیں تو یہ ناممکن ہے کہ پانی آپ کے منہ میں نہ جائے‘۔

    ایک برازیلین کھلاڑی کا کہنا ہے، ’مجھے اب تک اس پانی سے کچھ نہیں ہوا۔ میں ٹھیک ہوں، زندہ سلامت ہوں‘۔

    دوسری جانب فضائی آلودگی کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریو کی فضا پانی سے بھی زیادہ آلودہ ہے۔ ریو ڈی جنیرو میں ہر سال 12 ملین کے قریب افراد آلودہ فضا کے باعث مختلف پیچیدگیوں اور بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

    ان میں پھیپھڑوں کا کینسر، امراض قلب، فالج اور استھما جیسی بیماریاں شامل ہیں۔

    rio-6

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فضائی اور آبی آلودگی کے باعث غیر ملکی کھلاڑیوں کے گیسٹرو میں مبتلا ہونے کا سخت خطرہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریو ڈی جنیرو کسی صورت اس قسم کے کھیلوں کے مقابلوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ ریو اولمپک گیمز 5 اگست سے شروع ہوں گے جو 21 اگست تک جاری رہیں گے۔ ریو 2016 میں مختلف ممالک کی ریکارڈ 206 قومی اولمپک کمیٹیوں کے 10 ہزار 500 سے زائد کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں۔

  • دنیا کے ماحول دوست ممالک کون سے ہیں؟

    دنیا کے ماحول دوست ممالک کون سے ہیں؟

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا کے سب سے زیادہ ماحول دوست ممالک کون سے ہیں؟

    ماحولیاتی کارکردگی کی فہرست مرتب کرنے والا ادارہ ای پی آئی اے دو شعبوں میں کارکردگی دیکھتے ہوئے اپنی فہرست مرتب کرتا ہے۔ ایک انسانی صحت کے تحفظ اور دوسرے ماحول یا ایکو سسٹم کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات۔

    اس فہرست میں 4 یورپی ممالک فن لینڈ، آئس لینڈ، سوئیڈن اور ڈنمارک ابتدائی 4 پوزیشنز پر ہیں البتہ ان ممالک کا پڑوسی ملک ناروے اپنے بے تحاشہ کاربن اخراج اور زراعت میں فرسودہ طریقوں کے باعث پیچھے ہے۔

    finland-4

    فہرست میں دسویں نمبر پر فرانس ہے۔ نویں پر مالٹا، آٹھویں پر یورپی ملک ایسٹونیا، ساتویں پر پرتگال، چھٹے پر اسپین اور پانچویں پر سلووینیا شامل ہے۔

    چوتھے نمبر پر ڈنمارک ہے جو اپنے ماحول کی بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی معیشت میں بہتری لا رہا ہے جسے گرین گروتھ کا نام دیا گیا ہے۔

    تیسرے نمبر پر موجود ملک سوئیڈن میں پینے کے پانی کو محفوط کرنے اور استعمال شدہ پانی کو ٹھکانے لگانے کی بہترین حکمت عملیوں پر عمل ہورہا ہے۔

    دوسرے نمبر پر آئس لینڈ ہے جو اپنی توانائی کی تمام ضروریات قابل تجدید ذرائع (ری نیو ایبل) جیسے شمسی ذرائع سے پورا کرتا ہے۔

    finland-2

    فہرست کے مطابق دنیا کا سب سے زیادہ ماحول دوست ملک فن لینڈ ہے۔

    فن لینڈ نے ماحولیاتی شعبہ میں بے حد ترقی کی ہے جس کی بنیاد کاربن سے پاک ملک بنانے کے لیے اقدامات تھے۔ ان اقدامات سے فن لینڈ کی صحت، توانائی اور ماحولیات کے شعبہ میں بہتری آئی، آبی حیات، جنگلی حیات اور ان کی پناہ گاہوں کو محفوظ بنانے میں مدد ملی جبکہ فضائی آلودگی میں کمی اور آبی ذخائر میں اضافہ ہوا۔

    رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بڑی عالمی معیشتیں جو صنعتی شعبہ میں روز بروز ترقی کر رہی ہیں اس فہرست میں بہت نیچے ہیں کیونکہ ان ممالک کا ماحول بدترین خطرات کا سامنا کر رہا ہے۔ اس کی ایک مثال چین ہے جو فہرست میں 109ویں درجہ پر ہے۔

    finland-3

    اس سے قبل عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق چین میں فضائی آلودگی کے باعث ایک لاکھ کی آبادی میں سے 164 افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ چین اپنی ایندھن کی ضروریات زیادہ تر کوئلے سے پوری کرتا ہے اور یہی اس کی فضائی آلودگی اور بدترین ماحولیاتی خطرات کی بڑی وجہ ہے۔

  • برطانیہ میں پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون

    برطانیہ میں پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون

    لندن: برطانیہ میں سپر مارکیٹس میں استعمال ہونے والے پلاسٹک بیگز پر حکومت کی جانب سے قیمت وصول کی جانے لگی جس کے بعد رواں برس پلاسٹک بیگز کے استعمال میں 85 فیصد کمی دیکھی گئی۔

    یہ اقدام ماحول کو پلاسٹک سے درپیش خطرات اور اس کے نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ برس اکتوبر میں اٹھایا گیا۔ ایک پلاسٹک بیگ کی قیمت 5 پاؤنڈ رکھی گئی تھی اور یہ قانون تجرباتی طور پر لندن کی 7 بڑی سپر مارکیٹوں پر نافذ کیا گیا۔

    p3

    اس سے قبل ان سپر مارکیٹس نے اپنے گاہکوں کے استعمال کے لیے 7 بلین کے قریب پلاسٹک بیگز بنوائے لیکن اس اقدام کے صرف 6 ماہ بعد ان سپر اسٹورز نے صرف 5 ملین بیگز ہی منگوائے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قیمت کی وصولی کے باعث گاہکوں نے شاپنگ بیگ لینا چھوڑ دیا۔

    یہ اعداد و شمار برطانیہ کے شعبہ برائے ماحولیات، غذا اور دیہی امور ڈیفرا کی جانب سے جاری کیے گئے۔

    صرف 6 ماہ قبل اٹھایا جانے والا یہ قدم صرف سپر مارکیٹس کے لیے تھا۔ چھوٹی دکانیں اس سے مستشنیٰ تھیں۔

    برطانیہ کے وزیر ماحولیات تھریس کوفے نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پلاسٹک بیگز کے استعمال میں 6 بلین کی کمی ایک خوش آئند بات ہے۔ اس سے ہماری سمندری حیات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ بھی کم ہوگا، جبکہ ہمیں ایک صاف ستھرا ماحول میسر ہوگا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ایک مثال ہے کہ ایک چھوٹے سے قدم سے آپ کتنی بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں۔

    اس سے قبل برطانیہ میں پلاسٹک بیگز کے استعمال کی شرح 140 فی شخص ماہانہ تھی، جبکہ اس کی کل مقدار 61000 ٹن تھی۔ ایک ہفتہ میں ان 7 سپر اسٹورز سے 3 ملین پلاسٹک بیگز گاہکوں کو دیے جاتے تھے۔

    p4

    واضح رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    ساحلوں پر پھینکی جانے والی پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں سمندر میں چلی جاتی ہیں جس سے سمندری حیات کی بقا کو سخت خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

    p1

    کچھ سمندری حیات پلاسٹک کو کھا بھی لیتی ہیں جس سے فوری طور پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    ماہرین پلاسٹک بیگ کے متبادل کے طور پر کپڑے کے تھیلے استعمال کرنے کی تجویز دیتے ہیں جو کافی عرصہ تک استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

  • بدترین فضائی آلودگی کا شکار 10 ممالک

    بدترین فضائی آلودگی کا شکار 10 ممالک

    جنیوا: عالمی اقتصادی فورم ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے آلودگی کے باعث سب سے زیادہ اموات والے ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے جس میں وسطی ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ملک جارجیا ایک لاکھ کی آبادی میں سے 293 افراد کے ساتھ سرفہرست ہے۔

    رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں فضائی آلودگی سے ہر روز 18 ہزار افراد کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق سالانہ یہ شرح 6.5 ملین ہے اور یہ تعداد ایڈز، ٹی بی اور سڑک پر ہونے والے حادثات کی مجموعی اموات سے بھی زیادہ ہے۔

    pollution-2

    فضائی آلودگی صنعتوں اور ٹریفک کے دھویں، سگریٹ نوشی اور کھانا پکانے کا دھویں کے باعث پیدا ہوتی ہے اور یہ انسانی صحت کو لاحق چوتھا بڑا جان لیوا خطرہ ہے۔ ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی سے ایشیا اور افریقہ میں قبل از وقت اموات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ امریکا اور یورپ میں اس شرح میں کمی آئی ہے۔

    فضائی آلودگی پوری دنیا میں پائی جاتی ہے مگر چند ممالک میں یہ بلند ترین سطح پر ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم نے دنیا کے ان 10 ممالک کی فہرست جاری کی ہے جہاں آلودگی کے باعث سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔

    فہرست میں جارجیا ایک لاکھ کی آبادی میں سے 293 افراد کی اموات کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔

    pollution-3

    شمالی کوریا 235 افراد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ شمالی کوریا کی فضائی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ایندھن کی ضروریات کے لیے کوئلے کا استعمال ہے۔ 2012 میں شمالی کورین کوئلے کی صنعت نے 65 ملین ٹن کاربن کا اخراج کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    بوسنیا ہرزگووینیا 224 افراد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ یہاں آلودگی کی بڑی وجہ ٹریفک کا دھواں ہے۔

    بلغاریہ 175 افراد کے ساتھ چوتھے، البانیہ 172 افراد کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔

    دنیا کی ایک بڑی معاشی طاقت چین میں فضائی آلودگی کے باعث 164 افراد ہلاک ہوجاتے ہیں اور فہرست میں یہ چھٹے نمبر پر ہے۔ چین اپنی ایندھن کی ضروریات زیادہ تر کوئلے سے پوری کرتا ہے اور یہی اس کی فضائی آلودگی کی وجہ ہے۔

    pollution-1

    ساتویں نمبر پر افریقی ملک سیرالیون 143 اموات کے ساتھ ہے۔ یہاں گھروں کے اندر جلایا جانے والا ایندھن فضائی آلودگی کا ایک بڑا سبب ہے۔

    یوکرین 140 افراد کے ساتھ آٹھویں نمبر پر موجود ہے۔ یوکرین میں گرمیوں کے موسم میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات عام ہیں جس کے باعث فضائی آلودگی میں بے تحاشہ اضافہ ہوچکا ہے۔

    مزید پڑھیں: جنگلات کی آگ سے کلائمٹ چینج میں اضافہ کا خدشہ

    رومانیہ 139 افراد کے ساتھ نویں جبکہ سربیا 138 اموات کے ساتھ دسویں نمبر پر موجود ہے۔

    فضائی آلودگی کی ایک بڑی وجہ صنعتوں سے نکلنے والا کاربن کا اخراج ہے جس کے سدباب کے لیے رواں سال کے آغاز میں ایک معاہدے پیرس کلائمٹ ڈیل پر دستخط کیے گئے ہیں۔ معاہدے کے مطابق 195 ممالک نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتوں سے خارج ہونے والا کاربن عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

    پاکستان بھی اس معاہدے پر دستخط کرچکا ہے اور یوں کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کے خلاف کی جانے والی عالمی کوششوں کا حصہ ہے۔

  • مصنوعی روشنیوں کے باعث برطانیہ کے موسم میں تبدیلی

    مصنوعی روشنیوں کے باعث برطانیہ کے موسم میں تبدیلی

    لندن: ماہرین نے کہا ہے کہ برطانیہ میں مصنوعی روشنیوں کے باعث موسمیاتی پیٹرن میں تبدیلی آرہی ہے اور اس کے باعث موسم بہار کی آمد میں ایک ہفتہ کم ہوگیا ہے اور اس کا اثر پودوں پر بھی پڑ رہا ہے۔

    جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق رات میں روشن کی جانے والی مصنوعی لائٹس موسمی مزاج اور پودوں پر بھی اثر انداز ہورہی ہیں۔

    واضح رہے کہ مصنوعی روشنیوں کے اس سیلاب کو اب ماہرین روشنی کی آلودگی کا نام دیتے ہیں۔

    lights-1

    اس سے قبل روشنی کی آلودگی اور جانوروں کے طرز زندگی میں تبدیلی کے درمیان تعلق دیکھا جاچکا ہے۔ لیکن یہ پہلی بار ہے کہ پودوں پر بھی اس کا اثر سامنے آرہا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسم بہار اب اپنے وقت سے ایک ہفتہ قبل آئے گا۔ بہار سے قبل کا سیزن جسے ’بڈ برسٹ‘ کہا جاتا ہے اور جس میں پھولوں اور پتوں کی کونپلیں پھوٹنا شروع ہوتی ہیں بھی جلدی آئے گی۔ اس سے ان جانداروں اور کیڑوں مکوڑوں پر بھی اثر پڑے گا جو درختوں کے قریب رہتے ہیں۔

    محقیقن کا ارادہ ہے کہ مصنوعی روشنیوں کے تمام جانداروں سے تعلق پر اب مزید تحقیق کی جائے گی۔

    تحقیق میں شامل پروفیسر ڈاکٹر کیٹ لیوتھ وائٹ کے مطابق، ’اس کا تعلق اربنائزیشن سے بھی ہے۔ اربنائزیشن دیہاتوں اور ترقی پذیر شہروں سے ترقی یافتہ شہروں کی طرف ہجرت کا نام ہے۔ شہروں کی آبادی سے اضافہ میں مصنوعی روشنیوں کی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور یہ فطرت اور فطری حیات کو متاثر کر رہی ہے‘۔

    lights-3

    اس سے قبل ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی روشنیوں کے باعث ہماری زمین کے گرد ایک دھند لپٹ چکی ہے جس کے باعث زمین سے کہکشاں اور چھوٹے ستاروں کا نظارہ ہم سے چھن رہا ہے۔

    ایک اور تحقیق سے پتہ چلا کہ مصنوعی روشنیاں پرندوں کی تولیدی صحت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں جس سے ان کی آبادی میں کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

  • کہکشاں کے نظروں سے اوجھل ہونے کا خدشہ

    کہکشاں کے نظروں سے اوجھل ہونے کا خدشہ

    حال ہی میں جاری کیے جانے والے ایک عالمی نقشہ کے مطابق دنیا میں روشنیوں کا طوفان آسمان کی خوبصورت کہکشاں کے نظارے کو ہماری نگاہوں سے اوجھل کردے گا۔

    کہکشاں یا ’ملکی وے‘ کا نظارہ دنیا کے بعض حصوں میں کبھی کبھی دکھائی دیتا ہے اور یہ نہایت حسین ںظارہ ہوتا ہے۔ یہ نظارہ خلا نوردوں کے شوق اور مصوروں، شاعروں اور موسیقاروں کے فن کو مہمیز کرتا ہے۔ لیکن حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ہم اس شاندار نظارے سے محروم ہوجائیں گے۔

    mw-3

    تحقیق کے مطابق 60 فیصد یورپی، 80 فیصد شمالی امریکی جبکہ سنگاپور، کویت اور مالٹا کی تمام آبادی مصنوعی روشنیوں کی وجہ سے اس نظارے کو نہیں دیکھ سکتی۔

    تحقیق کے سربراہ کے مطابق یہ ہماری دنیا کے ایک ثقافتی خزانے کی محرومی ہوگی۔

    mw-5

    ایک اور محقق جان ملٹن کے مطابق ایک وسیع ’سڑک‘ کا نظارہ جس کی گرد سونے جیسی ہے اور جس کا فرش ستاروں کا ہے، محض مصنوعی روشنیوں کے باعث ہم سے چھن جائے گا۔

    ان کے مطابق مصنوعی روشنیوں کے باعث ہماری زمین کے گرد ایک دھند لپٹ چکی ہے جس کے باعث ہم کہکشاں اور چھوٹے ستاروں کو دیکھنے سے محروم ہوگئے ہیں۔

    mw-4
    ایک خلا نورد کو خلا سے زمین ایسی نظر آتی ہے

    محققین کے مطابق ہماری سڑکوں کے کنارے لگی اسٹریٹ لائٹس، ہمارے گھروں اور عمارتوں کی روشنیاں آسمان کی طرف جا کر واپس پلٹتی ہیں جس کے بعد یہ فضا میں موجود ذروں اور پانی کے قطروں سے ٹکراتی ہے۔ ان کے ساتھ مل کر یہ روشنیاں ہمارے سروں پر روشنی کی تہہ سی بنا دیتی ہیں جس کی وجہ سے حقیقی آسمان ہم سے چھپ سا جاتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ رات کا آسمان ہمارے قدرتی ثقافتی ورثہ ہے اور یہ ہم سے چھن رہا ہے۔

    mw-2

    دنیا میں مصنوعی روشنیوں کا بڑھتا استعمال پہلے ہی باعث تشویش ہے۔ اس سے قبل بھی ایک تحقیق کی گئی تھی جس سے پتہ چلا کہ مصنوعی روشنیاں پرندوں کی تولیدی صحت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں جس سے ان کی آبادی میں کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

  • دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز آلودگی میں اضافے کا سبب

    دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز آلودگی میں اضافے کا سبب

    ساوتھ ہمپٹن کی بندرگاہ کے علاقے کے رہائشیوں نے شکایت کی ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز ’ہارمونی آف دا سیز‘ آلودگی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

    جہاز ’ہارمونی آف دا سیز‘ گذشتہ ہفتے اپنے پہلے سفر پر برطانیہ سے روانہ ہوگیا۔ 1187 فٹ لمبے اور 226963 ٹن وزنی بحری جہاز میں 6780 افراد سفر کرسکتے ہیں جبکہ ایک ہزار سے زائد افراد کا عملہ اس کے علاوہ ہے۔

    مزید پڑھیں: ’ہارمونی آف دا سیز‘ اپنے پہلے سفر پر روانہ

    یہ جہاز صرف ایک گھنٹے کے دوران 700 لیٹر ڈیزل تیل استعمال کر رہا ہے جس کا دھواں فضا کو آلودہ کر رہا ہے۔ بندرگاہ کے آس پاس کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ بحری جہازوں کی دن بدن ترقی کرتی صنعت فضائی آلودگی میں بے تحاشہ اضافہ کر رہی ہے۔

    گو کہ اس جہاز کی تعمیر کی منظوری یورپی یونین سمیت کئی عالمی کمپنیوں نے دی ہے تاہم رہائشیوں نے اس کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست جمع کروا دی ہے۔

    seas-1

    رہائشیوں کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ بندرگاہ پر بعض اوقات کئی جہاز ایک ساتھ آتے ہیں۔ ان کے تیل کی خوشبو فضا میں بس جاتی ہے۔ ہم اسے سونگھ سکتے ہیں یہاں تک کہ ہمارے کھانوں میں بھی اس کا ذائقہ آجاتا ہے۔

    گروپ کا کہنا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر اپنے مالی مفاد کے علاوہ دیگر چیزوں کے بھی مدنظر رکھے۔

  • محبت کی نشانی تاج محل آلودگی کے باعث خرابی کا شکار

    محبت کی نشانی تاج محل آلودگی کے باعث خرابی کا شکار

    آگرہ کی بے تحاشہ آلودگی نے مشہور عالم محبت کی نشانی تاج محل کو بھی آلودہ کردیا۔ تاریخی عمارت کا سفید ماربل سیاہ پڑتا جار ہا ہے۔

    tm-5

    ممتاز محل سے شاہجہاں کی محبت کی نشانی تاج محل داغدار ہونے لگی۔ سفید ماربل سے بنے اس شاہکار کو اب گرہن لگنے لگا ہے۔ عمارت میں موجود جراثیم اور مچھروں کی بہتات نے سفید ماربل کو داغدار کردیا۔

    tm-2

    محبت کی نشانی پر جراثیم اور کیڑے مکوڑے نشانیاں بنا رہے ہیں۔ تاج محل کے ساتھ بہنے والا دریا جمنا جراثیم اور مچھروں کا گھر ہے۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ تاریخی عمارت کو بچانے کے لیے آگرہ کو آلودگی سے پاک کرنا ہوگا۔

    tm-3

    ماہرین کے مطابق آگرہ میں تیزابی بارش، ہوا کی آلودگی اور درختوں کی کٹائی کا اس تاریخی نشانی کی جگمگاہٹ کو دھندلا کرنے میں اہم ہاتھ ہے۔ منتطمین کے مطابق سیاح بھی یہاں آتے ہوئے غیر محتاط رہتے ہیں اور آلودگی اور کچرا پھیلاتے ہیں۔