Tag: آلودہ پانی

  • جاپان کا ایٹمی بجلی گھر کے نہایت نقصان دہ پانی سے متعلق بڑا فیصلہ، چین کا ردِ عمل

    جاپان کا ایٹمی بجلی گھر کے نہایت نقصان دہ پانی سے متعلق بڑا فیصلہ، چین کا ردِ عمل

    ٹوکیو: حکومتِ جاپان نے ایٹمی بجلی گھر سے نکلنے والے نہایت نقصان دہ پانی سے متعلق بڑا فیصلہ کرتے ہوئے اسے مخصوص عمل سے گزارنے کے بعد سمندر میں چھوڑنے کا عندیہ دے دیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق جاپان کی حکومت نے مخصوص عمل سے گزارے گئے پانی کو سمندر میں چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے، یہ پانی تباہ شدہ فوکوشیما نیوکلیئر پاور پلانٹ کا ہے، جسے قومی ضوابط کے تحت طے کردہ معیار کے مطابق کم ترین سطح تک پتلا کرنے کے بعد سمندر میں چھوڑا جائے گا۔

    جاپان کی ماہی گیری صنعت سے وابستہ افراد نے اس منصوبے کے خلاف آواز بلند کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس سے سمندری حیات کو نقصان پہنچنے کا شدید اندیشہ ہے۔

    دوسری طرف چین نے جاپان کی جانب سے فوکوشیما ایٹمی پلانٹ کے جوہری فضلے سے آلودہ پانی کو سمندر میں چھوڑنے کے فیصلے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ فوکوشیما کا جوہری حادثہ دنیا کی تاریخ کا سب سے سنگین واقعہ ہے، اس میں بڑے پیمانے پر تابکار مادوں کے اخراج سے سمندری ماحول، فوڈ سیفٹی اور انسانی صحت پر دور رس اثرات مرتب ہوئے۔

    جاپانی حکام کا کہنا تھا کہ استعمال شدہ پانی ناکارہ بجلی گھر کے احاطے میں موجود ٹینکوں میں ذخیرہ کیا جاتا ہے، یہ ٹینک آئندہ سال مکمل طور پر بھر جائیں گے، اس پانی کو ایڈوانسڈ لیکوئڈ پروسیسنگ سسٹم یعنی الپس سے گزار کر اس میں سے تابکار مادے خارج کیے جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اس پانی میں تابکار ٹریٹیم کے ذرات برقرار رہتے ہیں۔

    رپورٹس کے مطابق اس پانی میں ٹریٹیم کی کثافت کو درکار معیار کے تحت چالیسویں حصے تک کم کیا جاتا ہے، جب کہ اس پانی کو پینے کے لیے قابل بنانا ہو تو عالمی ادارہ صحت کے درکار معیار کے مطابق تقریباً ساتویں حصے تک پتلا کیا جانا ضروری ہے۔

    ادھر بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی ماہر ٹیم کی ایک جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر فوکوشیما کے جوہری پلانٹ سے ٹریٹیم سے آلودہ پانی کو سمندر میں چھوڑا گیا تو اس سے سمندری ماحول اور پڑوسی ممالک کے عوام کی صحت متاثر ہوگی۔

    چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جاپان نے تمام محفوظ طریقوں کو آزمائے بغیر اور پڑوسی ممالک اور عالمی برادری سے مکمل مشاورت کے بغیر فوکوشیما کے جوہری فضلے سے آلودہ پانی کو سمندر میں خارج کرنے کا یک طرفہ فیصلہ کیا ہے۔

    یاد رہے کہ جاپان میں 10 برس پہلے زلزلے اور سونامی نے فوکوشیما نیوکلیئر پلانٹ سمیت وسیع رقبے پر زبردست تباہی پھیلائی تھی، اس سانحے میں 18500 لوگ مارے گئے یا لاپتا ہو گئے تھے، سونامی نے جاپان کے شمال مشرقی ساحل کا 400 کلو میٹر علاقہ برباد کر دیا تھا۔ اس علاقے میں مٹی، پانی اور کھیتوں میں ایٹمی پلانٹ کی تابکاری کے باعث لوگوں کا وہاں جانا ممکن نہیں، جس کے باعث فوکوشیما کے میونسپل علاقوں کو نو گو ایریا قرار دے کر بند رکھا گیا ہے۔

  • بنگلور کی بدبو دار جھیل سے پریشان کم عمر طالبہ نے ایپ تیار کرلی

    بنگلور کی بدبو دار جھیل سے پریشان کم عمر طالبہ نے ایپ تیار کرلی

    امریکا میں مقیم کم عمر طالبہ نے پانی کی آلودگی جانچنے کی ایپ تیار کرلی، طالبہ نے یہ ایپ اپنے مقامی علاقے بنگلور (بھارت) کی بدبو دار جھیل سے پریشان ہو کر بنائی۔

    بنگلور کی یہ طالبہ ساہیتی پنگالی جو اس وقت اسکالر شپ پر امریکا میں تعلیم حاصل کر رہی ہے، اپنے شہر کی بدبو دار جھیل سے تنگ تھی۔ بنگلور کی ورتھر جھیل کو بنگلور کی بدبو دار ترین جھیل کہا جاتا ہے اور یہ جھیل ہر وقت گندے جھاگ سے بھری رہتی ہے۔

    ساہیتی کا کہنا ہے کہ جب ہم یہاں سے گزرتے تھے تو گاڑی کے شیشے اوپر کر لیتے تھے اور ناک بند کرلیتے تھے۔ ایک بار اسے ایک فیلڈ ٹرپ پر جھیل کے آس پاس کے علاقوں کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔

    ساہیتی نے دیکھا کہ یہاں ہزاروں انسان موجود تھے جو اس جھیل کے کنارے آباد تھے۔ ’جس بدبو میں ہم چند لمحے سانس نہیں لے پاتے تھے، یہ لوگ اس بدبو میں اپنی ساری عمر گزار چکے تھے‘۔

    وہ کہتی ہے کہ یہ لوگ اس جھیل کی گندگی اور بدبو کے اس قدر عادی تھے کہ وہ آرام سے یہاں سے پانی لے کر اسے مختلف کاموں میں استعمال کرتے تھے۔ یہی وہ دن تھا جب ساہیتی نے اس جھیل کے لیے کچھ کرنے کا سوچا۔

    اپنے امریکا میں قیام کے دوران ساہیتی نے واٹر مانیٹرنگ ایپ بنائی، پانی کو جانچنے کے بعد اس کا نتیجہ ایپ پر اپ لوڈ کیا جاتا ہے جس کے بعد اس نتیجے کو عالمی طور پر طے شدہ پانی کے معیار کے مطابق پرکھا جاسکتا ہے۔

    ساہیتی کہتی ہے کہ وہ جاننا چاہتی تھی کہ اس جھیل پر موجود جھاگ آخر آتا کہاں سے ہے۔ ’جب آپ کو علم ہی نہیں کہ آپ نے کون سا مسئلہ حل کرنا ہے تو آپ تبدیلی کیسے لائیں گے‘۔

    سائنس کی طالبہ ہونے کی وجہ سے ساہیتی کو اپنی ریسرچ میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی اور سارے مرحلے آسان ہوتے گئے۔

    وہ کہتی ہے، ’کچھ بھی کرنے کا پہلا اصول یہ ہے کہ چیزوں کو رد کریں۔ غلط چیزوں کو معمول کا حصہ نہ سمجھیں اور واضح طور پر کہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔ ہر بڑا کام ایک چھوٹا سا قدم اٹھانے سے شروع ہوتا ہے، چاہے وہ اس سے متعلق صرف کوئی مضمون پڑھنا ہی کیوں نہ ہو، اور آپ کو قطعی اندازہ نہیں ہوتا کہ آپ کتنا آگے جا سکتے ہیں‘۔

    ساہیتی کو ’انوینٹنگ ٹومارو‘ نامی دستاویزی فلم میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ فلم دنیا بھر سے 8 کم عمر سائنسدانوں کے بارے میں ہے جو اپنی مقامی آبادی کی بہبود کے لیے کوشاں ہیں۔

    ساہیتی کہتی ہے، ’اپنے آپ کو محدود مت کریں، ہر شخص جو دنیا کی اچھائی کے لیے کام کر رہا ہے وہ ہماری ہی طرح کا عام انسان ہے، بس فرق صرف یہ ہے کہ اس نے فکر کی اور اپنا قدم بڑھایا‘۔

  • کراچی اورحیدرآباد میں ٹائی فائڈ پھیلنے کا سبب آلودہ پانی ہے: ڈاکٹرعذرا پیچوہو

    کراچی اورحیدرآباد میں ٹائی فائڈ پھیلنے کا سبب آلودہ پانی ہے: ڈاکٹرعذرا پیچوہو

    کراچی: سندھ اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس میں صوبائی وزیرِ صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے اعتراف کیا کہ صاف پانی کی عدم فراہمی کراچی اور حیدر آباد میں ٹائی فائیڈ کا مرض پھیلنے کا سبب ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں ٹائی فائڈ کی وبا پھیلنے سے متعلق سوال پر صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عزرا کا کہنا تھا کہ حیدر آباد کے علاقے قاسم آباد اور لطیف آباد میں سنہ 2017 میں ٹائی فائیڈ پھیلا تھا اور اب کراچی میں پھیل رہا ہے۔

    انہوں نے اعتراف کیا کہ بدقسمتی سے شہریوں کو فراہم کردہ پانی صاف نہیں ہے اور ٹائیفائیڈکےپھیلاؤکی بڑی وجہ مضرصحت پانی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پانی کوکلورینیٹ کرناواٹربورڈاورواساکی ذمہ داری ہے۔ صاف پانی کی فراہمی بلدیاتی معاملہ ہے۔

    ڈاکٹر عذرا کا کہنا تھا کہ حیدرآبادمیں ٹائیفائیڈکےایک ہزارسےزائدکیس رجسٹر ہوچکےہیں اور کراچی میں یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔

    سندھ اسمبلی میں ہنگامہ آرائی

    ایک جانب سندھ اسمبلی میں اتنے سنگین عوامی مسئلے پر بات ہوئی تو دوسری جانب گزشتہ دو روز کی طرح آج بھی ایوان حکومت اور اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی سےمچھلی بازار بنا رہا۔

    اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی نے الزام عائد کیا کہ ان کے رکن کو حکومتی رکن نے گالی دی، انہوں اسپیکر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے گالی پر کوئی ایکشن لیا۔

    اس پر اسپیکر آغا سراج درانی نے موقف اختیار کیا کہ اگر کسی نے گالی دی ہےتوریکارڈہوگا۔ اس موقع پرامتیاز شیخ کا کہنا تھا کہ ہم تردید کرتے ہیں کسی نے کوئی گالی نہیں دی ہے، تین دن سے بلاسبب ہاؤس کا ماحول خراب کیا جارہا ہے۔

    سندھ اسمبلی کےاجلاس میں آدھےگھنٹےسے زائد وقت تک شورشرابہ جاری رہا اور اس دوران اپوزیشن لیڈراور وزیر ِ بلدیات سعیدغنی کےدرمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔ سعیدغنی نے چیخ کراپوزیشن لیڈرکوجواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ بےشرم ہیں ،ایوان کاماحول خراب کرتےہیں‘‘۔

  • پاکستان میں آلودہ پانی دہشت گردی سے بڑا عفریت

    پاکستان میں آلودہ پانی دہشت گردی سے بڑا عفریت

    دہشت گردی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس میں اب تک ہزاروں پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، تاہم حال ہی میں اقوام متحدہ نے اس شے کی طرف توجہ دلائی ہے جو دہشت گردی میں مارے جانے والوں سے زیادہ پاکستانیوں کی موت کی ذمہ دار ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں ہونے والی سالانہ اموات میں سے 40 فیصد اموات گندے اور آلودہ پانی اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ کے قریب افراد آلودہ پانی اور اس سے ہونے والی بیماریوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا میں 2 ارب افراد فضلے سے آلودہ پانی پینے پر مجبور

    ان میں زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے جو کمزور قوت مدافعت کے باعث آلودہ پانی میں پائے جانے والے جراثیموں سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صنعتوں سے زہریلا اخراج اور غیر محفوظ سیوریج سسٹم پانی کو آلودہ بنانے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

    دوسری جانب گاؤں دیہاتوں میں فراہمی آب کی صورتحال نہایت تشویش ناک ہے۔ کئی گاؤں دیہاتوں میں لوگوں کو پانی لانے کے لیے کئی کلو میٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے، جبکہ وہاں جانوروں اور انسانوں کا ایک ہی مقام سے پانی پینا بھی معمول کی بات ہے۔

     عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان کی صرف 15 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے جبکہ 85 فیصد شہری گندا اور آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔

    مزید پڑھیں: آلودہ پانی صاف کرنے کا ایک اور طریقہ

    ایک پاکستانی ماہر طب کے مطابق پاکستان کے صحت بجٹ کا تقریباً نصف فیصد حصہ آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج پر خرچ ہورہا ہے۔

    ان کے مطابق اگر صاف پانی کی فراہمی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں تو نہ صرف بجٹ کا یہ حصہ محفوظ کیا جاسکتا ہے بلکہ ہزاروں افراد اور بچوں کو بھی مرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گندے اور آلودہ پانی سے بنائی گئی قلفیاں

    گندے اور آلودہ پانی سے بنائی گئی قلفیاں

    کیا آپ نے کبھی تصور کیا ہے کہ آلودہ پانی کو پینا کیسا ہے؟

    گندا اور آلودہ پانی کوئی بھی نہیں پینا چاہتا، لیکن دنیا میں کئی کروڑ افراد اس پانی کو جانتے بوجھتے پینے پر مجبور ہیں، کیونکہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔

    پینے کے لیے صاف پانی کی اسی کمیابی کو اجاگر کرنے کے لیے کچھ طلبا نے ایک انوکھے پروجیکٹ پر کام کرتے ہوئے گندے پانی سے قلفیاں بنا ڈالیں، جو دیکھنے میں تو شاید اتنی عجیب نہ لگتی ہوں، لیکن ان کا ایک لقمہ آپ کو موت کے منہ میں پہنچا سکتا ہے۔

    تائیوان کے ایک اسکول کے طلبا کی جانب سے بنائے جانے والے اس پروجیکٹ کے لیے طلبا نے شہر کے 100 مقامات سے پانی جمع کیا۔

    پریشان کن بات یہ تھی کہ یہ پانی شہریوں کو پینے کے لیے فراہم کیا جاتا تھا۔

    اس پانی سے بننے والی قلفیوں میں پلاسٹک کی اشیا، کچرا اور مختلف اجزا واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔ کچھ قلفیاں مختلف رنگوں کی بھی ہیں جو دراصل پانی کے نہایت ہی آلودہ اور زہریلا ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔

    کچھ قلفیوں میں سیوریج کا پانی بھی شامل ہے۔

    آلودہ پانی کی یہ صورتحال صرف غیر ترقی یافتہ افریقی ممالک میں ہی نہیں، بلکہ معاشی حب سمجھے جانے والے کئی ترقی یافتہ شہروں میں بھی ہے۔

    پانی کی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ انسانی فضلہ کی پینے کے پانی میں ملاوٹ ہے۔ علاوہ ازیں پینے کے پانی کے ذخائر میں فیکٹریوں کا زہریلا فضلہ اور کیمیائی مادے شامل ہوجانا بھی عام بات ہے جو شہریوں کو بے شمار بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل عالمی ادارہ صحت نے ایک تشویش ناک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے 2 ارب افراد کے پینے کا پانی انسانی فضلے سے آلودہ ہے۔

    ادارے کے شعبہ عوامی صحت کی سربراہ ماریہ نیرا کا کہنا ہے کہ انسانی فضلے سے آلودہ یہ پانی لوگوں کو ہیضہ، پیچش، ٹائیفائڈ اور پولیو میں مبتلا کر رہا ہے اور ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: گندے پانی کو فلٹر کرنے والی کتاب

    انہوں نے بتایا کہ پینے کے لیے بالکل ناقابل استعمال اس پانی سے ہر سال 5 لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    اس سے قبل بھی اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا گیا تھا کہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا میں آبی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث 30 کروڑ افراد کو صحت کے سنگین مسائل لاحق ہوسکتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چترال کے لوگ گندا پانی پینے پر مجبور

    چترال کے لوگ گندا پانی پینے پر مجبور

    چترال: صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع چترال میں بالائی علاقے وادی شالی کے لوگ دریا کا گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ چترال کی خواتین 1 ہزار فٹ نیچے سے یہ پانی مٹکوں میں بھر کر واپس اوپر اپنے گھروں میں لے جانے پر مجبور ہیں۔

    بالائی علاقے وادی شالی میں جو آرکاری روڈ پر واقع ہے اور چترال سے 50 کلومیٹر دور ہے، میں گزشتہ ماہ شدید برف باری ہوئی۔ مختلف مقامات پر برفانی تودے گرنے کی وجہ سے پینے کی پانی کی پائپ لائن کو بھی نقصان پہنچا۔ کئی مقامات پر پانی جم گیا جبکہ اکثر مقامات پر پانی کی پائپ لائن موجود ہی نہیں ہے۔

    چترال کے لوگ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی کارکردگی نہایت شاکی ہیں جو کروڑوں روپے تو خرچ کرتے ہیں مگر لوگوں کو سہولیات دینے سے قاصر ہیں۔

    women-2

    مقامی افراد کا کہنا ہے کہ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے ارباب اختیار نے حد با اثر ہیں۔ ان کے خلاف ابھی تک نہ تو نیب نے کارروائی کی اور نہ انسداد رشوت ستانی ان کے خلاف حرکت میں آیا۔

    شالی گاؤں کی رہائشی زرینہ بی بی کا کہنا ہے کہ ان کے گھروں میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں اس لیے وہ دریائے آرکاری کا گندہ پانی روزانہ مٹکوں میں بھر کر، سروں پر رکھ کر چڑھائی چڑھ کر اپنے گھروں کو لے کر جاتی ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ ان کے مکانات سڑک اور دریا سے ایک ہزار سے 1500 فٹ اونچائی پر واقع ہیں مگر وہ اس مشقت کے لیے مجبور ہیں اور اب یہ ان کا معمول بن چکا ہے۔

    بی بی آمنہ بھی انہی خواتین میں سے ایک ہیں جو صبح سویرے، دوپہر اور شام کو تین بار دریائے آرکاری سے پانی بھر کر لاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دریا کا پانی آلودہ اور گندا ہے اور اس سے ان کے بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں مگر وہ سب یہی پانی پینے پر مجبور ہیں۔

    مزید پڑھیں: آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی خطرات کا شکار

    یاد رہے کہ دیہی علاقوں میں ضروریات زندگی کے لیے دور دراز سے پانی بھر کر لانا معمولات زندگی میں شامل ہے اور یہ ایک ایسی جبری مشقت ہے جو خواتین کے فرائض کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔

    سندھ کے دیہاتوں میں کام کرنے والے سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ صرف خواتین پر لاگو ہونے والی یہ ایک ایسی لازمی مشقت ہے جو تا عمر جاری رہتی ہے۔ مرد چاہے گھر میں ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں وہ یہ کام نہیں کرتے بقول ان کے یہ ان کا کام نہیں، عورتوں کا کام ہے اور اسے ہر صورت وہی کریں گی۔

    کارکنان کے مطابق بعض حاملہ عورتیں تو پانی بھرنے کے لیے جاتے ہوئے راستے میں بچے تک پیدا کرتی ہیں اور اس کی نال کاٹ کر اسے گلے میں لٹکا کر پھر سے پانی بھرنے کے سفر پر روانہ ہوجاتی ہیں۔

    women-1

    بی بی آمنہ کا کہنا تھا کہ وادی میں کوئی اسپتال بھی نہں ہے اور جب ان کے بچے اس آلودہ پانی پینے سے بیمار پڑتے ہیں تو ان کو چارپائی پر ڈال کر دوسرے قصبے میں یا چترال کے اسپتال لے کر جاتے ہیں۔ طویل راستے کے باعث اکثر بچے راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔

    بی بی آمنہ سمیت چترال کے دیگر افراد نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ محکمہ پبلک ہیلتھ انجنئیرنگ کے خلاف تحقیقات کی جائے کہ ان کی چترال میں کتنی واٹر سپلائی اسکیمیں کامیاب ہوئی ہیں اور کتنی اسکیمیں جعلی یا ناکام ہیں۔

    انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ پینے کے صاف پانی کے ساتھ ساتھ ان کو صحت کی سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔

  • آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی طبی خطرات کا شکار

    آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی طبی خطرات کا شکار

    دنیا بھر کے دریاؤں میں بڑھتی آلودگی 30 کروڑ افراد کے لیے مختلف بیماریوں کا خدشہ پیدا کر رہی ہے جبکہ کئی ممالک میں یہ ماہی گیری اور زراعت کو بھی متاثر کر رہی ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا میں آبی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث 30 کروڑ افراد کو صحت کے سنگین مسائل لاحق ہوسکتے ہیں۔

    pollution-2

    رپورٹ کے مطابق 16.4 کروڑ افراد افریقہ، 13.4 کروڑ ایشیا اور لاطینی امریکا میں 2.5 کروڑ افراد گندے پانی سے ہونے والی بیماریوں کے خطرے کا شکار ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 3.4 ملین افراد گندے پانی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ان بیماریوں میں ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس، ڈائریا اور ہیضہ شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز آلودگی میں اضافے کا سبب

    اس کی سب سے بڑی وجہ انسانی فضلہ کی پینے کے پانی میں ملاوٹ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے نہ صرف سیوریج کے نظام کو بہتر کرنا ضروری ہے بلکہ پینے کے پانی کو بھی ٹریٹ (صفائی) کرنے کی ضرورت ہے۔

    pollution-3

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات یو این ای پی کی سائنسدان جیکولین میک گلیڈ کا کہنا ہے کہ صاف پانی ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور یہ انسانی صحت اور انسانی ترقی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ لیکن اگر ہم آبی آلودگی کو نہ روک سکے تو ہم صاف پانی کے حصول میں ناکام ہوجائیں گے۔

    رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ فیکٹریوں کا فضلہ اور ضائع شدہ فصلوں کی دریاؤں میں تلفی پانی کی آلودگی میں اضافہ کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ بعض ممالک کی 90 فیصد آبادی پینے کے پانی کے لیے دریاؤں اور جھیلوں پر انحصار کرتی ہے۔

    po-4

    اسی طرح ماہی گیری کا شعبہ جو دنیا بھر کے 21 ملین افراد کا ذریعہ روزگار ہے پر بھی منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ہے جبکہ آلودہ پانی سے زراعت کے باعث فصلوں کی پیداوار میں بھی کمی ہوسکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف ذرائع سے تلف کیے جانے والے پانی کو سمندروں اور دریاؤں میں جانے سے پہلے ٹریٹ کیا جانا یا اس کی صفائی کرنا ضروری ہے۔