Tag: آل احمد سرور

  • آل احمد سرور: اردو کے سر بر آوردہ نقاد

    آل احمد سرور: اردو کے سر بر آوردہ نقاد

    آل احمد سرور اردو کے سر بر آوردہ نقاد تھے جن کے تنقیدی مضامین نے ایک نسل کے ادبی مذاق کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا اور آج بھی ان کی تحریریں اردو ادب کا سرمایہ تصور کی جاتی ہیں۔

    9 فروری 2002ء پروفیسر آل احمد سرور اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ آل احمد سرور کے مطالعہ کی وسعت، فکر کی گہرائی، تخیل کی بلندی، تجزیاتی سوچ بوجھ اور طرزِ تحریر نے انھیں اردو ادب میں ممتاز کیا۔ ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کی ترویج و توسیع میں بھی ان کا حصہ رہا اور جب جدیدیت اپنا رنگ جمانے لگی تو سرور صاحب اس کے ہراول دستے میں رہے۔ آلِ احمد سرور نے ترقّی پسند تحریک، حلقۂ اربابِ ذوق اور جدیدیت تینوں ادوارِ ادب کو دیکھا اور ان کا اثر قبول کیا، لیکن کسی ایک تحریک سے بندھے نہیں۔ سرور صاحب کی علمی و ادبی خدمات کا دائرہ از حد وسیع ہے۔ انہوں نے اردو زبان میں‌ تنقید کی نئی شمعیں روشن کیں۔ نقاد و مصنّف، شاعر اور ماہرِ اقبالیات ہی نہیں بحیثیت ادبی صحافی بھی انھوں نے خوب کام کیا۔ وہ اردو ادب، ہماری زبان اور کئی دوسرے جرائد سے وابستہ رہے۔

    سرور صاحب 9 ستمبر 1911ء کو شمالی ہند کی ریاست اتر پردیش کے علاقہ پیلی بھیت کے ضلع بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ایک انٹرویو میں آل احمد سرور نے اپنے وطن کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا: "شاید یہ بات تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ میرا آبائی وطن بدایوں ہے۔ بدایوں ایک تاریخی شہر ہے اور وہاں کے کھنڈر اور ٹوٹی پھوٹی حویلیاں اب بھی اُس کی گزشتہ عظمت کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ بستی قدیم زمانے سے علماء و فضلا، شعرا اور صوفیائے کرام کا مرکز رہی ہے۔ میرے بچپن کا زمانہ وہیں گزرا۔ میں نے جب آنکھ کھولی تو گھر گھر شعر و شاعری کا چرچا تھا۔ آئے دن مشاعرے ہوتے جس میں باہر سے مشہور شعرا شریک ہونے کے لیے آتے اور بدایوں کے چھوٹے بڑے سبھی اپنا کلام سناتے۔”

    آل احمد سرور کا بچپن اور نوعمری کا دور پیلی بھیت کے علاوہ بجنور، سیتا پور، گونڈہ اور غازی پور میں گزرا۔ کیونکہ اُن کے والد کرم احمد کو ملازمت کے سلسلے میں مختلف علاقوں میں سکونت اختیار کرنی پڑی تھی۔ ابتدائی تعلیم بدایوں میں ہوئی اور بعد میں اسکول کی تعلیم مختلف شہروں‌ میں ہوتی رہی۔ غازی پور کے کوئن وکٹوریہ ہائی اسکول سے آل احمد سرور نے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔

    سرور نے اپنی خود نوشت سوانح "خواب باقی ہیں” میں اپنے بچپن کے واقعات بیان کیے ہیں۔ جس سے اُن کے عادات و اطوار اور علمی استعداد و مشاغل کا پتہ چلتا ہے۔ ان کا حافظہ بہت تیز تھا۔ پڑھائی میں آگے رہتے تھے۔ عام بچوں کی طرح ابتداً کھیل کود سے دل چسپی رہی لیکن آہستہ آہستہ مطالعہ کی طرف زیادہ مائل ہوگئے۔ یہ وہ دور تھا جس میں ہر طرف شعر و ادب کا چرچا تھا۔ تعلیم یافتہ لوگوں کے گھروں میں مطالعہ اور بیت بازی کا رواج تھا اور اسی کا شوق سرور صاحب میں بھی پیدا ہوگیا۔ وہ کتب بینی کے عادی ہوگئے۔ ان کے والد کی انگریزی اور اُردو کی کتابیں مطالعہ کا ذوق بڑھاتی رہیں۔ بعد میں وہ اپنے چچا کے گھر آگرہ منتقل ہو گئے۔ سینٹ جانسن کالج میں ایف۔ ایس۔ سی (انٹرمیڈیٹ سائنس) میں داخلہ لیا۔ آگرہ میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کردیا اور کالج میگزین میں اپنی تخلیقات شائع کروانے لگے جس نے انھیں ساتھی طالبِ‌ علموں میں‌ ممتاز کیا اور کالج میں ادبی انجمن کے ذمہ دار بنا دیے گئے۔ ایک موقع پر انجمن کے سالانہ مشاعرے میں سرور صاحب کی ملاقات فانی بدایونی، یاس یگانہ چنگیزی، میکش اکبر آبادی سیماب اکبر آبادی، مخمورؔ اکبر آبادی اور مانیؔ جائسی جیسے با کمال شعرا سے ہوئی۔ اسی دوران سینٹ جانسن کالج کے زیر اہتمام انعامی مباحثہ ہوا جس میں سرور صاحب نے حصہ لے کر دوسرا انعام اپنے نام کیا۔ یوں حوصلہ افزائی ہوئی اور پھر وہ بی- ایس۔ سی کا امتحان درجہ دوم میں پاس کرکے انگریزی میں ایم۔ اے کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے۔ دراصل یہاں ان کے والد کا بھی تبادلہ چکا تھا۔ یہاں سرور نے علمی و ادبی مقابلوں اور مذاکروں سبھی میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ سرور نے جس وقت علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا اُس وقت سر راس مسعود یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ اور یونیورسٹی میں اُن کے زیر نگرانی زائد از نصابی سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں۔ سرور کے ادبی ذوق کو دیکھتے ہوئے انھیں علی گڑھ میگزین (اُردو ) کا ایڈیٹر مقرر کردیا گیا۔ انگریزی میں‌ بڑی دستگاہ تھی اور یونیورسٹی میں ہونے والے مباحثوں میں وہ انعامات حاصل کرتے رہے۔ اس بارے میں‌ سرور لکھتے ہیں: "ہر سال ایک انگریزی میں اور ایک اردو میں آل انڈیا ڈبیٹ ہوا کرتا تھا۔ 1933ء کے آخر میں جب انعامی مقابلے ہوئے تو سب سے زیادہ مجھے اور میرے بعد خواجہ احمد عباس کو انعام ملے۔”

    آل احمد سرور نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔ اے انگریزی کرنے کے بعد شعبۂ انگریزی میں بہ حیثیت لکچرر اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ بعد میں ایم۔ اے اُردو کیا۔ اور پھر یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لکچرر ہوئے۔ اسی زمانے میں ریڈیو پر تقاریر کے لیے بلایا جانے لگا۔ سرور کی ریڈیو پر پڑھی گئی تقاریر کافی مقبول ہوئیں۔ بعد میں یہ زیور طباعت سے آراستہ کی گئیں۔ شعبۂ اُردو سے سبکدوشی کے بعد آل احمد سرور انجمن ترقی اُردو کی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ پھر انہیں شملہ کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز میں وزیٹنگ فیلو مقرر کیا گیا۔ وہ بھارت کے کئی شہروں میں آتے جاتے رہے اور اس دوران ان کے تنقیدی مضامین، شاعری اور مقالہ جات اردو دنیا میں ان کی شناخت اور پہچان بنتے رہے۔

    پروفیسر آل احمد سرور کے مضامین کی کتابی شکل اور ان کی دوسری تصانیف میں پہچان اور پرکھ، خواب باقی ہیں (خود نوشت سوانح)، خواب اور خلش (شعری مجموعہ)، خطبے کچھ، کچھ مقالے، دانشور اقبال، ( مجموعہ تنقیدات، اور افکار کے دیے، نئے اور پرانے نظریے، تنقید کیا ہے، ادب اور نظریہ، مسرت سے بصیرت تک، اقبال کا نظریہ اور شاعری، ذوقِ جنوں (شاعری) شامل ہیں۔

    بھارت میں اردو زبان و ادب کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے آل احمد سرور کو ان کی خدمات کے اعتراف میں کئی جامعات نے سند و اعزاز سے نوازا جب کہ اتر پردیش اُردو اکیڈمی نے چار مرتبہ اور ساہتیہ اکیڈمی نے ایک انعام ان کو دیا۔ 1992 میں حکومتِ ہند نے آل احمد سرور کو پدم بھوشن کا خطاب دیا تھا۔

  • ’’تم آدمی ہو یا جنّ؟‘‘

    ’’تم آدمی ہو یا جنّ؟‘‘

    ‘کچھ خطبے کچھ مقالے’ جدید اردو تنقید کے بانیوں میں شامل آل احمد سرور کے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انھوں نے مولانا حسرت موہانی کے علمی و ادبی مرتبے کے ساتھ ان کے سیاسی نظریات اور صحافتی کارناموں پر بات کی ہے۔

    حسرت موہانی اردو کے اک بلند پایہ شاعر، صحافی، نقّاد اور مجاہدِ آزادی تھے جو کانگریس کے حامی تھے۔ انھوں نے ہندوستان کو انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا اور انگریزوں کے خلاف گوریلا جنگ کی وکالت کی، جب کہ مہاتما گاندھی کو سودیشی تحریک کی راہ سجھائی۔ وہ ملک کی آزادی کے حامی اور تقسیم کے مخالف تھے۔ آل احمد سرور نے ان کے رسالے اردوئے معلّٰی کی تعریف میں لکھا:

    "اردو ادب کی تاریخ میں جن رسالوں کے نام خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں، ان میں دل گداز، مخزن، اردوئے معلّٰی، زمانہ، نگار اور اردو ممتاز ہیں۔ ان میں اردوئے معلّٰی کئی حیثیتوں سے سرِفہرست ہے۔”

    "یہ رسالہ مولانا حسرت نے اس وقت نکالا جب وہ بی اے کے امتحان سے فارغ ہی ہوئے تھے اور نتیجہ تک نہ نکلا تھا۔”

    "اس رسالے کا سب سے بڑا مقصد ’درستیٔ مذاق‘ قرار دیا گیا تھا۔ اس میں اردو کے سیکڑوں مشہور اور گم نام اساتذہ کے کلام کا انتخاب شائع کیا گیا۔ بہت سے مشہور شعرا کے حالات، قلمی تذکروں اور دوسرے ماخذ سے جمع کر کے شائع کیے گئے۔ یہ محض ادبی رسالہ نہ تھا۔ شروع سے اس میں ملکی اور غیر ملکی سیاست اور حالات حاضرہ پر تبصرے ہوتے تھے۔ اگرچہ اس میں اچھے اچھے ادیبوں اور شاعروں نے مضامین، نظمیں اور غزلیں بھیجیں۔ مگر اس کی بہارِ بیشتر حسرت کے خونِ جگر کی مرہون منت ہے۔”

    "وہ ایک مصروف سیاسی زندگی کے باوجود اسے بہت عرصے تک نکالتے رہے۔ شروع میں یہ اڑتالیس صفحے کا ایک ماہ وار رسالہ تھا مگر جب حسرت کو حکومت کا زبردست مہمان ہونا پڑا تو صفحات بھی کم ہو گئے اور اشاعت بھی باقاعدہ نہیں رہی مگر پرچے کی اشاعت بند نہیں ہوئی۔”

    "پہلے پرچے میں علاوہ چند بلند ادبی مقاصد کے مضمون نگاروں کو معاوضہ دینے کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ معلوم نہیں اس وعدے کو پورا بھی کیا گیا یا نہیں مگر اس کا ذکر ہی حسرت کی اولوالعزمی اور سوجھ بوجھ کی دلیل ہے۔ حسرت نے جب سودیشی تحریک شروع کی تو مولانا شبلیؔ نے لکھا تھا،

    ’’تم آدمی ہو یا جنّ۔ پہلے شاعر تھے، پھر پالیٹیشین بنے اور اب بنیے ہوگئے۔‘‘ علم و علم اور عزم و استقلال کے اس پیکر پر جسے حسرت کہا جاتا ہے یہ بڑی معنٰی خیز تنقید ہے۔”

    "اردوئے معلّٰی کے ادبی کارناموں کا تو اعتراف بھی کیا گیا مگر اس نے سیاست کے میدان میں جو خدمات انجام دی ہیں، ان کی ابھی تک کماحقہ قدر نہیں ہوئی۔ حسرت ایک پکے قوم پرور تھے۔ وہ کالج کی تعلیم کے دوران ہی میں سیاسی مباحث میں شریک ہوتے تھے اور کانگریس کے گرم دل کے دل و جان سے فدائی تھی۔ انھوں نے 1904ء کے بمبئی کے اجلاس کانگریس میں شرکت کے بعد اس کی مفصل روداد اپنے رسالے میں چھاپی اور مسلمانوں کی کانگریس میں شرکت پر زور دیا۔”

  • فانیؔ بدایونی: عشق میں ناکامی سے درماندگی تک

    فانیؔ بدایونی: عشق میں ناکامی سے درماندگی تک

    فانیؔ کے والد بڑے سخت گیر تھے۔ فانی کو اپنے پہلے عشق میں ناکامی ہوئی۔ ملازمت انہیں راس نہ آئی۔

    ان کے والد ان کی شاعری کے بہت خلاف تھے۔ انہیں کچھ آزادی بریلی کالج میں ملی، مگر دراصل ان کی ادبی شخصیت علی گڑھ کے قیام کے زمانے میں بنی جب وہ حسرت اور ان کی اردوئے معلیٰ سے قریب آئے۔ انہوں نے ملازمت پر وکالت کو ترجیح دی جس طرح اقبالؔ نے دی۔ اقبالؔ کو بھی اپنا پیشہ پسند نہ تھا، مگر وہ فانیؔ سے زیادہ لطافت کی خاطر کثافت کو گوارا کر سکتے تھے۔ فانیؔ اچھے وکیل ہو سکتے تھے کیوں کہ وہ ذہین آدمی تھے، مگر ان کی شاعرانہ شخصیت ان پر اتنی حاوی ہو گئی تھی کہ وہ وکالت کے پیشے کی پستی اور زمانہ سازی گوارا نہ کر سکتے تھے۔ ایک شاہانہ انداز سے زندگی گزارنے میں انہیں لطف آتا تھا۔

    کلکتے اور بمبئی کے سفر، لکھنؤ میں کچھ دن کے ٹھاٹھ، حیدرآباد میں شروع میں ان کی فضول خرچیاں، فانیؔ کے مزاج کے ایک خاص پہلو کو ظاہر کرتی ہیں۔

    فانیؔ کو ادبی شہرت جلد حاصل ہو گئی اور آخر تک وہ معاصرین میں ممتاز رہے۔ لکھنؤ، اٹاوے، مین پوری علی گڑھ اور آگرے میں مشاعروں میں ان کی غزلیں حاصلِ مشاعرہ سمجھی جاتی تھیں جب کہ ان میں یگانہ، جگر جیسے قابلِ قدر شاعر بھی موجود ہوتے تھے۔ ان کی ادبی شہرت 1920ء سے شروع ہوئی اور 1930ء میں عروج کو پہنچ گئی۔

    فانیؔ پُر گو نہ تھے۔ ماہر القادری کا بیان ہے کہ ان کی غزل کئی کئی دن میں مکمل ہوتی تھی۔ ان کے تمام دوستوں نے بیان کیا ہے کہ ان پر ایک استغراق کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ ان کی مایوسیوں اور ناکامیوں، تلخیوں اور محرومیوں کی داستان ان کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔

    فراقؔ نے ان کی تصویر کے متعلق کہا ہے کہ ’’شاید ہی کسی شاعر کی تصویر میں اتنی نشتریت ہو۔‘‘ ان کے پڑھنے کے انداز میں بھی ایک انفرادیت تھی۔ آواز بلند نہ تھی مگر اس میں لحن بھی تھا اور سوز بھی۔ میں نے آگرے کے ایک مشاعرے میں انہیں پڑھتے سنا ہے اور یہ محسوس کیا ہے کہ ان کی آواز نشتر کی طرح دل میں اترتی جا رہی ہے۔ ان کی غالباً آخری غزل بھوپال کے مشاعرے کی تھی جو نشر ہوئی تھی۔ یہ غزل اس وقت ذہن میں محفوظ رہ گئی تھی اور آج تک ہے۔ فراقؔ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔

    جب پرسشِ حال وہ فرماتے ہیں جانیے کیا ہو جاتا ہے
    کچھ یوں بھی زباں نہیں کھلتی کچھ درد سوا ہو جاتا ہے

    یکتائے زمانہ ہونے پر صاحب یہ غرور خدائی کا
    سب کچھ ہو مگر خاکم بدہن کیا کوئی خدا ہوجاتا ہے

    اب خیر سے ان کی بزم کا اتنا رنگ تو بدلا میرے بعد
    جب نام مرا آجاتا ہے، کچھ ذکرِ وفا ہو جاتا ہے

    پھر دل سے فانیؔ سارے کے سارے رنج و الم مٹ جاتے ہیں
    جس وقت وہ ظالم سامنے آکر جانِ حیا ہوجاتا ہے

    مطلع میں فانیؔ کے مزاج کی سچی تصویر ملتی ہے۔

    فانیؔ بہت پریشاں رہے مگر انہوں نے کبھی کسی سے ان پریشانیوں کا اظہار نہ کیا۔ جب وہ بدایوں میں اپنے ایک وسیع اور کشادہ مکان کو رہن رکھ رہے تھے تو ان کے ایک ملنے والے آگئے اور انہوں نے تازہ کلام کی فرمائش کی۔ فانیؔ نے انہیں اپنا ایک شعر یہ کہہ کر سنایا کہ آج ہی موزوں ہوا ہے۔

    اپنے دیوانے پہ اتمامِ کرم کر یارب
    درو دیوار دیے اب انہیں ویرانی دے

    وہ اگرچہ ہنگامے سے گھبراتے تھے اور نمود و نمائش سے دور بھاگتے تھے مگر دوستوں کی محفل میں ہنستے بولتے بھی تھے۔ گو کسی نے انہیں قہقہہ لگاتے نہیں سنا۔ دوسروں کے کلام کی تعریف کرتے تھے مگر ان اشعار کی، جو انہیں پسند آتے تھے۔ جب ماہرُ القادری نے ان کی اس غزل کی تعریف کی جس کا مطلع ہے۔

    پھر فریبِ سادگی ہے رہ نمائے کوئے دوست
    مٹنے والی آرزو ہی لے چلیں پھر سوئے دوست

    تو کہنے لگے لیکن آتشؔ کے اس مصرعے کا جواب کہاں

    دل سوا شیشے سے نازک دل سے نازک خوئے دوست

    ماہر القادری نے ایک اور واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ پڑوس میں ریڈیو تھا۔ کہیں سے کوئی مشاعرہ نشر ہورہا تھا۔ فانیؔ وہاں پہنچے۔ جگرؔ کی غزل سنی اور کئی اشعار پر رانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ ارے ظالم مار ڈالا۔ جب غزل ختم ہوئی تو اٹھ کھڑے ہوئے۔ لوگوں نے کہا مشاعرہ تو ابھی جاری ہے مگر وہ یہ کہتے ہوئے چلے ’’مشاعرہ تو ہو چکا۔‘‘ یہی نہیں کہ فانیؔ کے مزاج میں تعلی بالکل نہ تھی۔ وہ اس زمانے کے تہذیبی اور مجلسی آداب کے مطابق اپنے اور اپنے کلام کے متعلق ایسے انکسار سے کام لیتے تھے کہ آج کے ظاہر بین اس سے غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں تو تعجب کی بات نہ ہو گی۔

    1922ء میں علی گڑھ میگزین کے ایڈیٹر رشید احمد صدیقی کو غزل کی فرمائش پر لکھا ہے، ’’میری بکواس نہ پڑھنے کے لائق ہے نہ سننے کے قابل۔ دامنِ اردو پر ایک بدنما داغ کے سوا کچھ نہیں۔ کوشش کیجیے کہ مٹ جائے۔ یہ آپ کا پہلا فرض ہے۔ میگزین کے بیش بہا صفحات پر میری غزل کا وجود باعثِ ننگ ہے۔ زبان اردو کے نادان دوست نہ بنیے۔’‘ یہ انکسار اس زمانے میں شرفاء کا دستور تھا۔ غالباً اس کے پیچھے یہ جذبہ تھا کہ اپنی تعریف آپ کرنا معیوب ہے۔ ہاں دوسرے تعریف کریں تو اور بات ہے۔

    (جدید اردو تنقید کے لیے ممتاز آل احمد سرور کے مضمون فانی شخصیت اور شاعری سے اقتباسات، سرور خود بھی شاعر تھے جن کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاؤ اور تازہ کاری ملتی ہے)

  • زبان اور اندازِ بیان

    زبان اور اندازِ بیان

    دنیا کی مختلف زبانیں‌ سیکھنے والوں کے لیے صرف یہی کافی نہیں ہوتا کہ وہ اس کے قواعد، املا اور رسمُ‌ الخط سے واقف ہوجائیں‌ بلکہ کسی بھی زبان کو خوب خوب سیکھنے کے ساتھ اس کے مختلف لب و لہجوں اور مقامی لوگوں کے اندازِ بیاں کو بھی سمجھنا ضروری ہوتا ہے، لیکن یہ بہت مشکل ہے کہ کوئی غیرمقامی اور دور دراز کا رہنے والا سلیس اور بامحاورہ زبان بول اور اچھی طرح سمجھ سکے۔

    یہاں ہم ایک مشہور واقعہ آپ کی دل چسپی کے لیے پیش کررہے ہیں جو ممتاز ادیب اور نقاد آل احمد سرور نے اپنے ایک مضمون میں تحریر کیا۔

    ایک انگریز افسر نے اپنی ملازمت کے دوران کسی منشی سے فارسی اور اردو پڑھی۔ جاتے وقت ان سے کہا کہ میں تمہارے لئے کیا کرسکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ایک سرٹیفکیٹ دیجیے تاکہ کوئی دوسرا افسر آئے تو اسے بھی پڑھا سکوں۔ چنانچہ ان انگریز افسر نے ایک سرٹیفکیٹ دیا جس میں ان (منشی) کی علمی قابلیت کی بڑی تعریف کی تھی۔ اس سرٹیفکیٹ کو لے کر یہ منشی جی نئے افسر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس نے پڑھ کر ان سے کہا کہ صاحب نے تمہاری بڑی تعریف کی ہے۔ تم بڑا قابل ہے۔ انہوں نے حسبِ دستور جواب دیا کہ یہ صاحب کی ذرّہ نوازی ہے، میں کس قابل ہوں۔

    انگریز افسر یہ سمجھا کہ منشی جی نے پرانے افسر کو دھوکہ دیا ہے اور حقیقت اب ظاہر کر دی ہے۔ اس نے اس پرانے افسر کو لکھا کہ منشی تو خود اپنی نالائقی کا اعتراف کرتا ہے۔ تم کیسے اس کی تعریف کرتے ہو۔ تب اسے یہ جواب ملا کہ وہ واقعی بہت قابل ہے۔ یہ صرف اس علاقے کے لوگوں کا اندازِ بیان ہے۔

  • نئی مشرقیت….

    نئی مشرقیت….

    اقبالؔ نے اپنے متعلق کہا ہے،

    کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
    میں ابلۂ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند

    ابلۂ مسجد اس پرانی مشرقیت کی علامت ہے جو ایک جامد مذہبی تصور رکھتی ہے اور صرف عقائد و عبادات سے سروکار رکھتی ہے۔ معاملات کی اہمیت کو نظر انداز کرتی ہے اور عقائد اور عبادات میں روح پر نہیں لفظ پر اصرار کرتی ہے۔

    تہذیب کا فرزند اس مزاج کی نمائندگی کرتا ہے جو مغرب، اس کے افکار و اقدار، اس کی تہذیب، اس کے نظامِ حیات اور اس کے اداروں کو نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ اس کی تقلید میں ہی اپنی نجات سمجھتا ہے۔

    ایک قدامت کا علم بردار ہے دوسرا جدّت کا۔ ایک کے لیے ماضی سب کچھ ہے اور دوسرے کے لیے افسانہ و افسوں۔ ایک کے لیے اس کی تاریخ، تہذیب، قانون، سماجی نظام، خاندان، قبیلہ، مذہبی برادری قابلِ تقلید ہے تو دوسرے کے لیے یہ دفترِ بے معنیٰ ہے اور انسان کی ترقّی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ۔ ایک کے لیے پرانی لکیر زندگی کی سب سے اعلیٰ قدر ہے، دوسرے کے لیے زمانے کے دھارے پر چلنا سب سے بڑی مسرت۔

    اقبال نے جہاں مغربیت پر طنز کی ہے وہاں یہ طنز در اصل تہذیب کے فرزندوں پر ہے لیکن انہوں نے ابلۂ مسجد کے علاوہ صوفی، ملا، فقیہہ حرم، پیر حرم کو بھی نہیں بخشا ہے۔ مشرقیت اور مغربیت کے خلاف ان کے یہ اعتراضات ملحوظ رہیں۔

    ضمیرِ مغرب ہے تاجرانہ، ضمیرِ مشرق ہے راہبانہ
    وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ یہاں بدلتا نہیں زمانہ

    جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
    بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں

    اس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک
    ہے جس کے تصور میں فقط بزمِ شبانہ
    لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
    مشرق میں ہے تقلیدِ فرنگی کا بہانہ

    یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید
    وہاں مرض کا سبب ہے نظامِ جمہوری
    نہ مشرق اس سے بری ہے نہ مغرب اس سے بری
    جہاں میں عام ہے قلب و نظر کی رنجوری

    پھرا میں مشرق و مغرب کے لالہ زاروں میں
    کسی چمن میں گریبانِ لالہ چاک نہیں

    خودی کی موت سے مغرب کا اندروں بے نور
    خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذام

    زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر
    یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لبِ گور

    بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
    یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق صہبا ہے

    نہ ایشیا میں نہ یورپ میں سوز و سازِ حیات
    خودی کی موت ہے یہ اور وہ ضمیر کی موت

    غرض یہ بات واضح ہے کہ اقبال مثلاً اکبر کی طرح مشرقیت کے علم بردار نہیں ہیں اور مشرق کے جمود، مریضِ روحانیت، مزاجِ خانقاہی، تقدیر پرستی، بے عملی پر برابر وار کرتے ہیں۔ وہ مغربی علم وحکمت کی قدر کرتے ہیں، ارضیت کے علم بردار ہیں اور اگر زمین کے ہنگامے سہل نہ ہوں تو مستیٔ اندیشہ ہائے افلاکی کو برا سمجھتے ہیں۔ وہ تصوف کے معنی اخلاص فی العمل کے لیتے ہیں اور ترکِ آب و گِل سے مہجوری نہیں، تسخیرِ خاکی و نوری سمجھتے ہیں، وہ بقول اینی میری شمل جرمنی کے Vitalist اسکول سے متاثر ہیں اوران کی خودی کے تصور میں فشتے کا پرتو صاف جھلکتا ہے۔

    (آل احمد سرور کے مضمون اقبال اور نئی مشرقیت سے اقتباس)

  • نظریاتی جبر کا شکار نہ ہونے والے اردو کے سر بَر آوردہ نقاد آل احمد سرور

    نظریاتی جبر کا شکار نہ ہونے والے اردو کے سر بَر آوردہ نقاد آل احمد سرور

    آلِ احمد سرور نے ترقّی پسند تحریک، حلقۂ اربابِ ذوق اور جدیدیت تینوں ادوارِ ادب کو دیکھا اور ان کا اثر قبول کیا، لیکن کسی ایک تحریک سے بندھے نہیں۔ انھوں نے تنقید کے میدان اور شاعری میں‌ مقام بنایا اور قدیم و جدید ادب کو خوب کھنگالا، لیکن خود کسی ایک تحریک کے زیرِ اثر ادب تخلیق نہیں کیا۔ شاعری میں انھوں نے مشرقی کلاسکیت کو فوقیت دی۔ مغربی ادب کا مطالعہ بھی خوب کیا، لیکن اس سے متاثر ہو کر برصغیر کے عظیم شعرا میر، غالب اور اقبال کو رد نہیں کرسکے۔ آج آلِ احمد سرور کی برسی ہے۔

    ان کا تعلق بدایوں سے تھا۔ وہ 9 ستمبر 1911ء کو ایک ذی علم گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1928ء میں ہائی اسکول پاس کیا اور سینٹ جانس کالج آگرہ سے بی ایس سی کی سند لے کر 1932ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا۔ 1936 میں اسی جامعہ سے اردو میں ایم اے کیا۔ 1938ء میں شعبۂ اردو میں لیکچرر ہوگئے۔ 1946 سے 1955 تک لکھنؤ یونیورسٹی میں تدریس سے منسلک رہے اور پھر علی گڑھ میں شعبے کے صدر رہے۔

    لکھنؤ میں اپنے قیام کے دوران آل احمد سرور ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور انجمن کے جلسوں میں شرکت کی، لیکن کبھی نظریاتی جبر کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کی ترقی پسند فکر ہمیشہ انسان دوستی کی علم بردار رہی۔ وہ سرمایہ داری اور رجعت پسندی کی مخالفت کرتے رہے لیکن ادب کے اس ہنگامی اور انقلابی تصور کے خلاف رہے جس کا پرچار اس وقت میں جوشیلے نوجوان کر رہے تھے۔

    سرور نے مغربی اور مشرقی ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اسی مطالعے کے بعد تنقید کے میدان میں انھوں نے ایک الگ ہی انداز اپنایا۔ اس میں مغربی تنقیدی اصولوں سے استفادہ بھی ہے اور مشرقی اقدار کا رچاؤ بھی نظر آتا ہے۔

    تنقید نگاری کے ساتھ انھیں ایک شاعر کے طور پر دیکھا جائے تو ان کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاؤ اور تازہ کاری ملتی ہے۔ ان کی شاعری میں‌ ہر عہد کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔

    آل احمد سرور کی تنقیدی اور شعری کاوشیں کتابی شکل میں ’نئے اور پرانے نظریے‘، ’تنقید کیا ہے‘، ’ادب اور نظریہ‘، ’مسرت سے بصیرت تک‘ ،’اقبال کا نظریہ اور شاعری‘ ’ذوقِ جنوں‘ (شاعری) ’خواب باقی ہیں‘(خودنوشت) کے نام سے شایع ہوئیں۔

    اردو ادب کے اس معروف بھارتی نقّاد اور شاعر کا انتقال 9 فروری 2002ء کو ہوا تھا۔

  • زاویۂ نظر: فکرِ اقبالؔ کا محور مذہب، فیضؔ کا تہذیب رہا

    زاویۂ نظر: فکرِ اقبالؔ کا محور مذہب، فیضؔ کا تہذیب رہا

    فیض احمد فیضؔ، اقبالؔ سے چونتیس سال بعد پیدا ہوئے۔ دونوں سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔

    فرق یہ ہے کہ اقبال شہر میں پیدا ہوئے اور فیض سیالکوٹ کے ایک موضع کالا قادر میں۔

    دونوں نے میر حسنؔ سے تعلیم پائی، دونوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا۔ اقبالؔ نے فلسفے میں اور فیضؔ نے پہلے انگریزی میں پھر عربی میں۔ دونوں کی فارسی تعلیم نہیں ہوئی، اپنی ذاتی کوششوں سے انہوں نے فارسی زبان و ادب پر دسترس حاصل کی۔

    دونوں نے شاعری کے علاوہ نثر بھی لکھی، گو دونوں کی نثر کی خوبی شاعری کی شہرت اور عظمت کے مقابلے میں کم رہی۔ دونوں کو انگریزی زبان پر خاصا عبور تھا۔ اقبالؔ کی انگریزی نثر کی ایڈورڈ ٹامسن نے تعریف کی ہے۔ فیض کے پاکستان ٹائمس کے اداریے بھی زبان و بیان کی خوبیوں کی وجہ سے خاصے مقبول ہوئے۔

    فیضؔ کے والد اقبالؔ کے دوستوں میں تھے۔ اقبالؔ کی سفارش پر ہی انہیں گورنمنٹ کالج میں داخلہ ملا۔ فیضؔ نے اقبالؔ پر دو مضمون لکھے جو ’’میزان‘‘ میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کئی مقامات پر اقبالؔ سے ملاقاتوں اور ان کے تاثرات کا ذکر کیا ہے۔

    اقبالؔ کی فکر کا محور مذہب تھا، فیضؔ کی فکر کا محور تہذیب۔ بظاہر اقبالؔ اور فیضؔ کے راستے الگ الگ نظر آتے ہیں، مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے۔

    اقبالؔ پر بعض حلقوں میں اعتراضات بھی ہوئے ہیں، مگر فیضؔ نے کسی وقت اور کسی موقع پر اقبالؔ پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ وہ ان کی عظمت کے قائل تھے اور جا بجا انہوں نے اقبالؔ کے فن کی بلندی کا اعتراف کیا ہے۔ اس کا ایک اچھا نمونہ اقبالؔ پر ان کی نظم میں اس طرح ملتا ہے جو اس طرح شروع ہوتی ہے:

    آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر
    آیا اور اپنی دھن میں غزل خواں گزر گیا
    سنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیں
    ویران مے کدوں کا نصیبہ سنور گیا
    تھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
    پَر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا

    اب دور جا چکا ہے وہ شاہِ گدا نما
    اور پھر سے اپنے دیس کی راہیں اداس ہیں
    چند اک کو یاد ہے کوئی اس کی ادائے خاص
    دو اک نگاہیں چند عزیزوں کے پاس ہیں
    پَر اُس کا گیت سب کے دلوں میں مقیم ہے
    اور اس کے لَے سے سیکڑوں لذّت شناس ہیں
    اُس گیت کے تمام محاسن ہیں لا زوال
    اُس کا وفور، اُس کا خروش، اُس کا سوز و ساز
    یہ گیت مثلِ شعلۂ جوالہ تند و تیز
    اس کی لپک سے بادِ فنا کا جگر گداز
    جیسے چراغ وحشتِ صرصر سے بے خطر
    یا شمعِ بزم صبح کی آمد سے بے خبر

    (اردو کے سربَرآوردہ نقّاد، مضمون نگار اور شاعر آل احمد سرور کے مضمون "اقبالؔ اور فیضؔ” سے اقتباسات)

  • علّامہ اقبال: "وہ تو فلسفی ہے، اسے شاعری سے کیا غرض”

    علّامہ اقبال: "وہ تو فلسفی ہے، اسے شاعری سے کیا غرض”

    اقبال کو اپنی زندگی میں جو مقبولیت حاصل ہوئی، وہ آج تک کسی شاعر کو نصیب نہ ہوئی۔ قبولِ عام، کلام کی خوبی کا ضامن نہیں سمجھا جاتا، مگرغور سے دیکھا جائے تو جمہور جس کے سر پر تاج رکھ دیتے ہیں، اس کی بادشاہت کی بنیاد بہت دیر پا عناصر پر ہوتی ہے۔

    ڈاکٹر جانسن کا قول ہے کہ ’’ادب کی خوبی کا آخری معیار عوام کے قبول کی سند ہے۔‘‘ اس قول میں صداقت ضرور پائی جاتی ہے۔

    عوام یوں ہی کسی کو سر پر نہیں بٹھاتے۔ وہ کبھی کبھی سطحی چیزوں سے بھی متاثر ہوتے ہیں مگر تھوڑی دیر کے لیے۔ بہت سے لوگ بہت کافی عرصہ تک اسی چیز کی تعریف کرتے ہیں جو تعریف کے قابل ہو۔

    غرض اقبال اس بارے میں کافی خوش نصیب رہے، وہ جو کہنا چاہتے تھے کہہ چکے تھے۔ ان کا مشن پورا ہو گیا تھا اور اگرچہ یہ یقین ہے کہ وہ زندہ رہتے تو ان کے مرکزی خیالات کی اور وضاحت ہو جاتی، مگر پھر بھی جو کچھ انہوں نے چھوڑا ہے، وہ ہر حیثیت سے مکمل ہے۔ ان کے مرنے کے بعد ملک کے اس سرے سے اس سرے تک صفِ ماتم بچھی۔ رنج و الم کا اظہار ساری دنیا نے کیا۔ جلسے ہوئے، تقریریں کی گئیں، قراردادیں پاس ہوئیں، بڑے بڑے لوگوں نے ہم دردی کے پیغام بھیجے، ہم لوگ اس سے زیادہ کرتے ہی کیا ہیں، جو کچھ ہوتا آیا ہے، سب ہی ہو گیا، مگر ان سب باتوں کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ اقبال پر اعتراضات بھی کیے گئے تھے۔

    ان اعتراضات کی نوعیت مختلف قسم کی تھی۔ اوّل اوّل اشعار کو عروض کے کانٹے پر تولنے اور شخصی اور صنفی معیار رکھنے والے اقبال کی غلطیوں پر ہنستے تھے۔ ’’بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا‘‘ آج تک بزرگوں کے لبوں پر تبسّم پیدا کرنے کو کافی ہے۔

    اقبال نے بہت سی انوکھی ترکیبیں وضع کی تھیں۔ بہت سے نئے استعارے اور تشبیہات پیش کیے تھے، جو کانوں کو اجنبی معلوم ہوتے۔ ان کا حسن بعض نگاہوں میں نہ جچا۔ سورج نکلنے والا ہوتا ہے تو بعض ستارے کچھ دیر تک آنے والی روشنی کا مقابلہ کرتے ہیں، مگر کب تک، تھوڑی دیر کے بعد وہ رخصت ہو جاتے ہیں اور سارا عالم مطلعِ انوار ہو جاتا ہے۔

    بہت دنوں تک اقبال پر جو اعتراضات کیے گئے تھے، وہ زبان سے متعلق تھے۔ وقت گزرتا گیا۔ شاعر کا کلام مقبول ہوا۔ اس کی شاعری کا سونا زندگی کی بھٹی میں تیار ہوا تھا۔ اس لیے اس میں صداقت بھی تھی اور حسن بھی، اب وہ وقت آیا کہ اقبال اپنے دور پر اثرانداز ہوئے۔ ان کا رنگ مقبول ہوا اور دوسرے شعرا غیر شعوری طورپر ان کا اتباع کرنے لگے۔

    اردو شاعری میں فلسفیانہ بلند آہنگی پیدا ہوئی۔ زندگی کے مسائل سے قربت حاصل ہوئی۔ پیامیہ رنگ آیا، زندگی کا امید افزا پہلو سامنے رہنے لگا، ملک و قوم میں بیداری شروع ہوئی۔ ذہن وفکر میں انقلاب ہوا۔ اقبال نے اپنی چیزوں سے محبت سکھائی۔ غیروں سے بے نیازی کا سبق دیا۔ فرد کی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی اور ان صلاحیتوں سے جماعت کے مفاد کا کام کیا۔ غرض ایک نئی نسل تیار کی جو ان کی دماغی پیداوار کہی جا سکتی ہے۔

    اب اس نئی نسل نے دیکھا تو اقبال کے کلام میں کئی خرابیاں نظر آئیں۔ ایک نے کہا اقبال کا کلام محدود اور مقامی (Parochial) ہے۔ دوسرے نے اعلان کیا کہ چوں کہ اقبال کی زندگی اور شاعری میں تضاد ملتا ہے، اس لیے ان کی شاعری قابلِ اعتنا نہیں ہے۔ تیسرے نے اور آگے بڑھ کر آواز دی کہ اقبال کی شاعری بے جان ہے۔ زندگی سے اسے کوئی علاقہ نہیں۔ اقبال ایسے ماضی کی یاد میں محو ہے جو کبھی واپس نہیں آسکتا۔ چوتھے کو اقبال کے کلام میں مزدوروں اور جمہوریت کے خلاف وعظ نظر آیا۔ وہ فرمانے لگے کہ اقبال اسلامی فاشسٹ ہے۔

    شاعروں نے کہا وہ تو فلسفی ہے۔ اسے شاعری سے کیا غرض۔ فلسفی بولے کہ وہ شاعر ہیں، فلسفہ کی گہرائیاں ان کے بس کی نہیں۔ صلح پسند حضرات ان سے اس وجہ سے ناراض ہوئے کہ وہ قتل و خون کی دعوت دیتے ہیں اور چنگیز و تیمور کو دوست رکھتے ہیں۔ سیاست دانوں کی سمجھ میں ان کی سیاست نہ آئی۔ مولویوں کو یہ گوارا نہ ہوا کہ ان کے بجائے ایک ’’خراباتی‘‘ دین کی حمایت کا جھنڈا بلند کرے۔

    (اردو ادب کے ممتاز نقّاد اور شاعر آل احمد سرور کے مضمون سے)

  • ستارے جذب ہوئے گردِ راہ میں کیا کیا

    ستارے جذب ہوئے گردِ راہ میں کیا کیا

    آل احمد سرور بدایوں کے تھے، تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعات کے شعبۂ اردو میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ سرور نے ادب کے مطالعے کے ساتھ قلم تھاما اور شاعری اور تنقید نگاری میں نام و مقام بنایا۔

    ان کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاؤ کے ساتھ تازہ کاری ملتی ہے۔ اردو ادب کے اس نام وَر کی ایک غزل آپ کے حسنِ‌ مطالعہ کی نذر ہے۔

    وہ احتیاط کے موسم بدل گئے کیسے
    چراغ دل کے اندھیرے میں جل گئے کیسے

    بنا دیا تھا زمانے نے برف کے مانند
    ہم ایک شوخ کرن سے پگھل گئے کیسے

    امید جن سے تھی وضعِ جنوں نبھانے کی
    وہ لوگ وقت کے سانچے میں ڈھل گئے کیسے

    ستارے جذب ہوئے گردِ راہ میں کیا کیا
    خیال و خواب کے آئیں بدل گئے کیسے

    خزاں سے جن کو بچا لائے تھے جتن کر کے
    وہ نخل اب کے بہاروں میں جل گئے کیسے

    نہ جانے کیوں جنہیں سمجھے تھے ہم فرشتے ہیں
    قریب آئے تو چہرے بدل گئے کیسے

    ہر ایک سایۂ دیوار کی لپیٹ میں ہے
    سرورؔ آپ ہی بچ کر نکل گئے کیسے