Tag: آل احمد سرور کی تحریریں

  • مجازؔ، رومانویت کا شہید

    مجازؔ، رومانویت کا شہید

    مجازؔ نوجوانوں میں صرف مقبول نہیں، بلکہ ان کے محبوب شاعر تھے۔

    کالج کے لڑکے اور لڑکیاں مجازؔ کی نظموں کو یاد کر کے ان کے اشعار والہانہ جوش اور سرمستی کے عالم میں پڑھتے تھے۔ اسرارُ‌ الحق مجاز کی بات کی جائے تو وہ پرستارِ حسن بھی تھے اور لیلائے انقلاب کے دیوانے بھی۔ معاملاتِ حسن و عشق کا بیان ہو یا روایت سے نفرت کا اظہار، مجاز نے انفرادیت کا ثبوت دیا اور بلاشبہ جو مقبولیت مجازؔ کو حاصل ہوئی وہ کم شعرا کو نصیب ہوئی۔ شراب نے مجازؔ کو کہیں‌ کا نہ چھوڑا۔ وہ رندِ‌ بلانوش تھے۔ مجاز نے لکھنؤ میں‌ 1955ء میں اپنی زندگی تمام کی۔ یہاں ہم آل احمد سرورؔ کے مضمون سے دو واقعات اس شاعرِ بے بدل سے متعلق نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنیں گے۔ سرورؔ جدید اردو تنقید کا اہم ترین نام ہیں، وہ شاعر بھی تھے۔ سرورؔ کی مجاز سے ملاقاتیں رہیں جن کا تذکرہ انھوں نے اپنے مضامین میں کیا ہے۔

    سرورؔ لکھتے ہیں:
    جولائی 1955ء میں ریڈیو سری نگر کے ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے میں بھی گیا اور مجازؔ بھی۔ دوستوں نے مجاز ؔکی اس طرح دیکھ بھال کی جیسے کسی بہت قیمتی اور نازک چیز کی۔ ہم لوگ انہیں گلمرگ اور سری نگر کے شاہی باغ دکھانے لے گئے تھے۔ ان پر کسی چیز کا اثر نہ ہوتا تھا۔ نشاط اور شالامار میں بکثرت فوارے ہیں۔ ان فواروں میں پانی اتنے زور سے چلتا ہے اگر کوئی لیموں فوارے کے منہ پر دیا جائے تو کچھ دیر کے لئے پانی کی زد سے ہوا میں معلق ہو جاتا ہے۔ ایک دوست یہ کھیل کر رہے تھے کہ ایک پنجابی عورت(جو سیر کی غرض سے وہاں آئی تھی) نے کہا، ’’اللہ دی قدرت ہے!‘‘ مجاز کو اس جملے نے بہت محظوظ کیا۔ شالامار اور نشاط کے تأثرات کا حاصل مجازؔ کے نزدیک یہ لطیفہ تھا۔

    ایک اور واقعہ سرورؔ نے کچھ یوں‌ بیان کیا ہے:
    ایک دفعہ مجازؔ اور جذبیؔ لکھنؤ میں میرے (آل احمد سرور) پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دور کے ایک مشہور شاعر ملنے آئے۔ باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ سرورؔ صاحب! سوچتا ہوں شادی کر لوں۔ مجھے تعجب ہوا۔ میں انہیں شادی شدہ سمجھتا تھا۔ پھر کہنے لگے اور سوچتا ہوں کسی بیوہ سے کروں۔ اب تک یہ باتیں صرف میں سن رہا تھا کیونکہ مجازؔ اور جذبیؔ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کررہے تھے۔ میں نے یہ گوارا نہ کیا کہ ایسی مزے دار گفتگو میں دوسرے شریک نہ ہوں، چنانچہ میں نے مجازؔ کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ صاحب شادی کرنے والے ہیں اور کسی بیوہ سے شادی کرنے کا خیال ہے۔‘‘ مجاز نے بے ساختہ کہا، ’’حضرت آپ سوچیے نہیں کر ہی لیجیے بیوہ تو آپ سے شادی کے بعد وہ ہو ہی جائے گی۔‘‘

  • ’’تم آدمی ہو یا جنّ؟‘‘

    ’’تم آدمی ہو یا جنّ؟‘‘

    ‘کچھ خطبے کچھ مقالے’ جدید اردو تنقید کے بانیوں میں شامل آل احمد سرور کے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انھوں نے مولانا حسرت موہانی کے علمی و ادبی مرتبے کے ساتھ ان کے سیاسی نظریات اور صحافتی کارناموں پر بات کی ہے۔

    حسرت موہانی اردو کے اک بلند پایہ شاعر، صحافی، نقّاد اور مجاہدِ آزادی تھے جو کانگریس کے حامی تھے۔ انھوں نے ہندوستان کو انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا اور انگریزوں کے خلاف گوریلا جنگ کی وکالت کی، جب کہ مہاتما گاندھی کو سودیشی تحریک کی راہ سجھائی۔ وہ ملک کی آزادی کے حامی اور تقسیم کے مخالف تھے۔ آل احمد سرور نے ان کے رسالے اردوئے معلّٰی کی تعریف میں لکھا:

    "اردو ادب کی تاریخ میں جن رسالوں کے نام خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں، ان میں دل گداز، مخزن، اردوئے معلّٰی، زمانہ، نگار اور اردو ممتاز ہیں۔ ان میں اردوئے معلّٰی کئی حیثیتوں سے سرِفہرست ہے۔”

    "یہ رسالہ مولانا حسرت نے اس وقت نکالا جب وہ بی اے کے امتحان سے فارغ ہی ہوئے تھے اور نتیجہ تک نہ نکلا تھا۔”

    "اس رسالے کا سب سے بڑا مقصد ’درستیٔ مذاق‘ قرار دیا گیا تھا۔ اس میں اردو کے سیکڑوں مشہور اور گم نام اساتذہ کے کلام کا انتخاب شائع کیا گیا۔ بہت سے مشہور شعرا کے حالات، قلمی تذکروں اور دوسرے ماخذ سے جمع کر کے شائع کیے گئے۔ یہ محض ادبی رسالہ نہ تھا۔ شروع سے اس میں ملکی اور غیر ملکی سیاست اور حالات حاضرہ پر تبصرے ہوتے تھے۔ اگرچہ اس میں اچھے اچھے ادیبوں اور شاعروں نے مضامین، نظمیں اور غزلیں بھیجیں۔ مگر اس کی بہارِ بیشتر حسرت کے خونِ جگر کی مرہون منت ہے۔”

    "وہ ایک مصروف سیاسی زندگی کے باوجود اسے بہت عرصے تک نکالتے رہے۔ شروع میں یہ اڑتالیس صفحے کا ایک ماہ وار رسالہ تھا مگر جب حسرت کو حکومت کا زبردست مہمان ہونا پڑا تو صفحات بھی کم ہو گئے اور اشاعت بھی باقاعدہ نہیں رہی مگر پرچے کی اشاعت بند نہیں ہوئی۔”

    "پہلے پرچے میں علاوہ چند بلند ادبی مقاصد کے مضمون نگاروں کو معاوضہ دینے کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ معلوم نہیں اس وعدے کو پورا بھی کیا گیا یا نہیں مگر اس کا ذکر ہی حسرت کی اولوالعزمی اور سوجھ بوجھ کی دلیل ہے۔ حسرت نے جب سودیشی تحریک شروع کی تو مولانا شبلیؔ نے لکھا تھا،

    ’’تم آدمی ہو یا جنّ۔ پہلے شاعر تھے، پھر پالیٹیشین بنے اور اب بنیے ہوگئے۔‘‘ علم و علم اور عزم و استقلال کے اس پیکر پر جسے حسرت کہا جاتا ہے یہ بڑی معنٰی خیز تنقید ہے۔”

    "اردوئے معلّٰی کے ادبی کارناموں کا تو اعتراف بھی کیا گیا مگر اس نے سیاست کے میدان میں جو خدمات انجام دی ہیں، ان کی ابھی تک کماحقہ قدر نہیں ہوئی۔ حسرت ایک پکے قوم پرور تھے۔ وہ کالج کی تعلیم کے دوران ہی میں سیاسی مباحث میں شریک ہوتے تھے اور کانگریس کے گرم دل کے دل و جان سے فدائی تھی۔ انھوں نے 1904ء کے بمبئی کے اجلاس کانگریس میں شرکت کے بعد اس کی مفصل روداد اپنے رسالے میں چھاپی اور مسلمانوں کی کانگریس میں شرکت پر زور دیا۔”

  • فانیؔ بدایونی: عشق میں ناکامی سے درماندگی تک

    فانیؔ بدایونی: عشق میں ناکامی سے درماندگی تک

    فانیؔ کے والد بڑے سخت گیر تھے۔ فانی کو اپنے پہلے عشق میں ناکامی ہوئی۔ ملازمت انہیں راس نہ آئی۔

    ان کے والد ان کی شاعری کے بہت خلاف تھے۔ انہیں کچھ آزادی بریلی کالج میں ملی، مگر دراصل ان کی ادبی شخصیت علی گڑھ کے قیام کے زمانے میں بنی جب وہ حسرت اور ان کی اردوئے معلیٰ سے قریب آئے۔ انہوں نے ملازمت پر وکالت کو ترجیح دی جس طرح اقبالؔ نے دی۔ اقبالؔ کو بھی اپنا پیشہ پسند نہ تھا، مگر وہ فانیؔ سے زیادہ لطافت کی خاطر کثافت کو گوارا کر سکتے تھے۔ فانیؔ اچھے وکیل ہو سکتے تھے کیوں کہ وہ ذہین آدمی تھے، مگر ان کی شاعرانہ شخصیت ان پر اتنی حاوی ہو گئی تھی کہ وہ وکالت کے پیشے کی پستی اور زمانہ سازی گوارا نہ کر سکتے تھے۔ ایک شاہانہ انداز سے زندگی گزارنے میں انہیں لطف آتا تھا۔

    کلکتے اور بمبئی کے سفر، لکھنؤ میں کچھ دن کے ٹھاٹھ، حیدرآباد میں شروع میں ان کی فضول خرچیاں، فانیؔ کے مزاج کے ایک خاص پہلو کو ظاہر کرتی ہیں۔

    فانیؔ کو ادبی شہرت جلد حاصل ہو گئی اور آخر تک وہ معاصرین میں ممتاز رہے۔ لکھنؤ، اٹاوے، مین پوری علی گڑھ اور آگرے میں مشاعروں میں ان کی غزلیں حاصلِ مشاعرہ سمجھی جاتی تھیں جب کہ ان میں یگانہ، جگر جیسے قابلِ قدر شاعر بھی موجود ہوتے تھے۔ ان کی ادبی شہرت 1920ء سے شروع ہوئی اور 1930ء میں عروج کو پہنچ گئی۔

    فانیؔ پُر گو نہ تھے۔ ماہر القادری کا بیان ہے کہ ان کی غزل کئی کئی دن میں مکمل ہوتی تھی۔ ان کے تمام دوستوں نے بیان کیا ہے کہ ان پر ایک استغراق کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ ان کی مایوسیوں اور ناکامیوں، تلخیوں اور محرومیوں کی داستان ان کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔

    فراقؔ نے ان کی تصویر کے متعلق کہا ہے کہ ’’شاید ہی کسی شاعر کی تصویر میں اتنی نشتریت ہو۔‘‘ ان کے پڑھنے کے انداز میں بھی ایک انفرادیت تھی۔ آواز بلند نہ تھی مگر اس میں لحن بھی تھا اور سوز بھی۔ میں نے آگرے کے ایک مشاعرے میں انہیں پڑھتے سنا ہے اور یہ محسوس کیا ہے کہ ان کی آواز نشتر کی طرح دل میں اترتی جا رہی ہے۔ ان کی غالباً آخری غزل بھوپال کے مشاعرے کی تھی جو نشر ہوئی تھی۔ یہ غزل اس وقت ذہن میں محفوظ رہ گئی تھی اور آج تک ہے۔ فراقؔ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔

    جب پرسشِ حال وہ فرماتے ہیں جانیے کیا ہو جاتا ہے
    کچھ یوں بھی زباں نہیں کھلتی کچھ درد سوا ہو جاتا ہے

    یکتائے زمانہ ہونے پر صاحب یہ غرور خدائی کا
    سب کچھ ہو مگر خاکم بدہن کیا کوئی خدا ہوجاتا ہے

    اب خیر سے ان کی بزم کا اتنا رنگ تو بدلا میرے بعد
    جب نام مرا آجاتا ہے، کچھ ذکرِ وفا ہو جاتا ہے

    پھر دل سے فانیؔ سارے کے سارے رنج و الم مٹ جاتے ہیں
    جس وقت وہ ظالم سامنے آکر جانِ حیا ہوجاتا ہے

    مطلع میں فانیؔ کے مزاج کی سچی تصویر ملتی ہے۔

    فانیؔ بہت پریشاں رہے مگر انہوں نے کبھی کسی سے ان پریشانیوں کا اظہار نہ کیا۔ جب وہ بدایوں میں اپنے ایک وسیع اور کشادہ مکان کو رہن رکھ رہے تھے تو ان کے ایک ملنے والے آگئے اور انہوں نے تازہ کلام کی فرمائش کی۔ فانیؔ نے انہیں اپنا ایک شعر یہ کہہ کر سنایا کہ آج ہی موزوں ہوا ہے۔

    اپنے دیوانے پہ اتمامِ کرم کر یارب
    درو دیوار دیے اب انہیں ویرانی دے

    وہ اگرچہ ہنگامے سے گھبراتے تھے اور نمود و نمائش سے دور بھاگتے تھے مگر دوستوں کی محفل میں ہنستے بولتے بھی تھے۔ گو کسی نے انہیں قہقہہ لگاتے نہیں سنا۔ دوسروں کے کلام کی تعریف کرتے تھے مگر ان اشعار کی، جو انہیں پسند آتے تھے۔ جب ماہرُ القادری نے ان کی اس غزل کی تعریف کی جس کا مطلع ہے۔

    پھر فریبِ سادگی ہے رہ نمائے کوئے دوست
    مٹنے والی آرزو ہی لے چلیں پھر سوئے دوست

    تو کہنے لگے لیکن آتشؔ کے اس مصرعے کا جواب کہاں

    دل سوا شیشے سے نازک دل سے نازک خوئے دوست

    ماہر القادری نے ایک اور واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ پڑوس میں ریڈیو تھا۔ کہیں سے کوئی مشاعرہ نشر ہورہا تھا۔ فانیؔ وہاں پہنچے۔ جگرؔ کی غزل سنی اور کئی اشعار پر رانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ ارے ظالم مار ڈالا۔ جب غزل ختم ہوئی تو اٹھ کھڑے ہوئے۔ لوگوں نے کہا مشاعرہ تو ابھی جاری ہے مگر وہ یہ کہتے ہوئے چلے ’’مشاعرہ تو ہو چکا۔‘‘ یہی نہیں کہ فانیؔ کے مزاج میں تعلی بالکل نہ تھی۔ وہ اس زمانے کے تہذیبی اور مجلسی آداب کے مطابق اپنے اور اپنے کلام کے متعلق ایسے انکسار سے کام لیتے تھے کہ آج کے ظاہر بین اس سے غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں تو تعجب کی بات نہ ہو گی۔

    1922ء میں علی گڑھ میگزین کے ایڈیٹر رشید احمد صدیقی کو غزل کی فرمائش پر لکھا ہے، ’’میری بکواس نہ پڑھنے کے لائق ہے نہ سننے کے قابل۔ دامنِ اردو پر ایک بدنما داغ کے سوا کچھ نہیں۔ کوشش کیجیے کہ مٹ جائے۔ یہ آپ کا پہلا فرض ہے۔ میگزین کے بیش بہا صفحات پر میری غزل کا وجود باعثِ ننگ ہے۔ زبان اردو کے نادان دوست نہ بنیے۔’‘ یہ انکسار اس زمانے میں شرفاء کا دستور تھا۔ غالباً اس کے پیچھے یہ جذبہ تھا کہ اپنی تعریف آپ کرنا معیوب ہے۔ ہاں دوسرے تعریف کریں تو اور بات ہے۔

    (جدید اردو تنقید کے لیے ممتاز آل احمد سرور کے مضمون فانی شخصیت اور شاعری سے اقتباسات، سرور خود بھی شاعر تھے جن کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاؤ اور تازہ کاری ملتی ہے)