Tag: آل انڈیا مسلم لیگ

  • 1906: نواب سلیم اللہ خان اور آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام

    1906: نواب سلیم اللہ خان اور آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام

    ہندوستان میں جب مسلمان سیاسی و مذہبی راہ نماؤں علیحدہ وطن کے حصول کو ناگزیر اور اسلامیانِ ہند کی سیاسی میدان میں مؤثر اور منظّم طریقے سے ترجمانی کی ضرورت محسوس کی تو آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ تحریکِ‌ آزادی کے متوالے اسی مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھے ہوئے اور برصغیر کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔

    آل انڈیا مسلم لیگ كا قیام 1906ء میں ڈھاكہ میں عمل میں آیا تھا۔ محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے سالانہ اجلاس كے اختتام پر برصغیر كے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم عمائدین نے ڈھاكہ كے نواب سلیم اللہ خان كی دعوت پر خصوصی اجلاس میں شركت كی جس میں مسلمانوں كی سیاسی راہ نمائی كے لیے ایک جماعت تشكیل دینے کا تاریخی فیصلہ کیا گیا۔

    بیسویں صدی كے آغاز سے كچھ ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے كہ مسلمان ایك سیاسی پلیٹ فارم بنانے كی ضرورت محسوس كرنے لگے۔ ڈھاكہ اجلاس كی صدارت نواب وقارُ الملك نے كی جس میں نواب محسن الملك٬ مولانا محمد علی جوہر٬ مولانا ظفر علی خاں٬ حكیم اجمل خاں اور نواب سلیم اللہ خان سمیت بہت سے اہم مسلم اكابرین موجود تھے۔

    سَر نواب سلیم اللہ خان جن کی رہائش گاہ پر اس تنظیم کی بنیاد رکھی گئی اور دیگر اکابرین نے اس بات کا اعلان کیا کہ مسلم لیگ کے ذریعے مسلمانوں کے لیے مذہب میں آزادی اور سیاسی و مالی حقوق کے لیے آواز بلند کی جائے گی۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اچھے، مناسب تعلقات کو اہمیت دی جائے گی اور یہ واضح ہے کہ مسلمانوں کی ترقی اور فوائد کے لیے یہ جماعت تشکیل دی گئی ہے۔ مسلمانانِ ہند کا یہ اجتماع یا میٹنگ 30 دسمبر1906 ء کو ہوئی تھی جس کے ساتھ ہی ایک دو رکنی کمیٹی نواب وقار الملک اور نواب محسن الملک پر تشکیل دی گئی جنھیں مسلم لیگ کا آئین تیار کرنے کا کام سونپا گیا اور اس حوالے سے خدوخال اور وضاحت و تفصیل کو تحریری شکل دینے کے لیے بعد میں مزید اکابرین کو کام تفویض کیا گیا۔

    آل انڈیا مسلم لیگ کے عہدے داروں کا انتخاب مارچ 1908 ء میں لکھنؤ میں عمل میں آیا اور اس وقت تک مزید صلاح و مشورے اور تجاویز کی روشنی میں لیگ کو برطانوی ہند میں انگریز حکومت اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے مسلمانوں کی سیاسی، سماجی، معاشی ترقی اور حقوق کے تحفظ کی مؤثر تنظیم کے طور پیش کیا گیا جو آگے چل کر تشکیل و قیامِ پاکستان کا ذریعہ بنی۔

    نواب سلیم اللہ خان عین عالمِ شباب میں 16 جنوری 1915ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کے مسلمانوں کی علیحدہ سیاسی شناخت اور مؤثر نمائندگی کے ضمن میں کردار کو اور مسلم لیگ کے لیے دیگر خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

  • تحریکِ‌ آزادی:  آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ اور قائدِ اعظم کے 14 نکات

    تحریکِ‌ آزادی: آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ اور قائدِ اعظم کے 14 نکات

    انگلستان سے وطن واپس آکر کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کرنے والے محمد علی جناح خود مسلم ہندو اتحاد کے بڑے حامی تھے۔

    اپنے سیاسی سفر کے ابتدائی دور میں وہ مسلسل کوشش کرتے رہے کہ مسلم علما اور اکابرین کو انگریزوں سے آزادی اور متحدہ ہندوستان کے قیام کے لیے قائل کرلیں، لیکن دوسری طرف ان پر جلد ہی واضح ہو گیا کہ ہندو کسی بھی طرح مسلمانوں کو ان کا جائز حق، سیاسی اور مذہبی آزادی نہیں‌ دیں گے بلکہ انھیں اپنا محکوم و غلام بنانا چاہتے ہیں اور پھر انھوں نے کانگریس کو چھوڑنے کا اعلان کیا۔

    ملک میں ہندو مسلم فسادات کا سلسلہ جاری تھا اور 1920ء کے بعد اس میں تیزی آئی جس نے ثابت کیا کہ اس سرزمین پر دو قوموں کا اکٹھے رہنا ممکن نہیں ہے اور ہندو قیادت اور تمام راہ نما ایسے واقعات میں ملوث انتہا پسندوں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ اس سے قبل ہی 1916ء میں محمد علی جناح کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کرلیا گیا اور جب انھیں یہ یقین ہوگیا کہ دو قومی نظریہ اور اس کی بنیاد پر علیحدہ وطن کی جدوجہد تیز کرنا ہوگی، تو وہ اس پلیٹ فارم سے فعال ہوگئے۔

    قائدِ اعظم کا تحریکِ آزادی کے قافلے کی قیادت سنبھالنا تھاکہ ایک کونے سے دوسرے کونے تک جوش و ولولے کی گویا ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ اپنے قافلے میں شامل ساتھیوں کی مدد سے آپ نے نظریۂ پاکستان کی ترویج کی اور سیاسی میدان میں پاکستان کے حصول کا مقدمہ بھرپور طریقے سے لڑا۔

    دراصل اس وقت کی تحریکِ خلافت کے بعد ملک میں فسادات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، ان سے واضح ہو گیا تھا کہ ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا جارہا ہے اور اسے محض جذباتی تقاریر اور امتداد زمانہ سے رفع نہیں کیا جاسکے گا۔ اسی دوران نہرو رپورٹ نے قائدِاعظم کو دلبرداشتہ کردیا اور اس کے ردِعمل میں 1929ء میں مسلمانوں کی آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ میں منعقد ہوئی، جس میں قائدِاعظم نے 14 نکات پیش کیے، جن کو انتہا پسند ہندوؤں نے نہ صرف رد کردیا بلکہ قائدِ اعظم پر مزید طعن و تشنیع کی گئی۔

    قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اپنے پیش کردہ 14 نکات میں یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ مستقبل کے ہندوستان میں سیاست اور معاشی ترقی کے میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں گے اور ان کے حقوق کا تحفظ ہوگا اور برابری کی بنیاد پر سیاسی اور سماجی طور پر آزادی کا سفر شروع ہو گا۔

    بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے وہ نکات درج ذیل ہیں۔

    1- ہندوستان کا آئندہ دستور وفاقی طرز کا ہو گا۔

    2- تمام صوبوں کو برابری کی سطح پر مساوی خود مختاری حاصل ہو گی۔

    3- ملک کی تمام مجالسِ قانون ساز کو اس طرح تشکیل دیا جائے گا کہ ہر صوبے میں اقلیت کو مؤثر نمائندگی حاصل ہو اور کسی صوبے میں اکثریت کو اقلیت یا مساوی حیثیت میں تبدیل نہ کیا جائے۔

    4- مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کو ایک تہائی نمائندگی حاصل ہو۔

    5- ہر فرقے کو جداگانہ انتخاب کا حق حاصل ہو۔

    6- صوبوں میں آئندہ کوئی ایسی اسکیم عمل میں نہ لائی جائے، جس کے ذریعے صوبہ سرحد، صوبہ پنجاب اور صوبہ بنگال میں مسلم اکثریت متاثر ہو۔

    7- ہر قوم و ملّت کو اپنے مذہب، رسم و رواج، عبادات، تنظیم و اجتماع اور ضمیر کی آزادی حاصل ہو۔

    8- مجالسِ قانون ساز کو کسی ایسی تحریک یا تجویز منظور کرنے کا اختیار نہ ہو، جسے کسی قوم کے تین چوتھائی ارکان اپنے قومی مفادات کے حق میں قرار دیں۔

    9- سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے غیر مشروط طور پر الگ صوبہ بنایا جائے۔

    10- صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں دوسرے صوبوں کی طرح اصلاحات کی جائیں۔

    11- سرکاری ملازمتوں اور خود مختار اداروں میں مسلمانوں کو مناسب حصہ دیا جائے۔

    12- آئین میں مسلمانوں کی ثقافت، تعلیم، زبان، مذہب، قوانین اور ان کے فلاحی اداروں کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔

    13- کسی صوبے میں ایسی وزارت تشکیل نہ دی جائے، جس میں ایک تہائی وزیروں کی تعداد مسلمان نہ ہو۔

    14- ہندوستانی وفاق میں شامل ریاستوں اور صوبوں کی مرضی کے بغیر مرکزی حکومت آئین میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔

  • جدوجہدِ آزادی: ہندوستان میں جداگانہ مسلم تشخّص اور تحریکِ پاکستان

    جدوجہدِ آزادی: ہندوستان میں جداگانہ مسلم تشخّص اور تحریکِ پاکستان

    مسلمانوں کے ساتھ ساتھ صدیوں تک ہندوستان میں‌ ہر مذہب کے ماننے والے اسلامی احکامات، علما اور بزرگانِ دین کی تعلیمات اور صوفیائے کرام کے پیار و محبّت کے درس کی بدولت امن و سکون سے زندگی بسر کرتے رہے، لیکن انگریزوں کی آمد کے بعد جب اس اتحاد و اتفاق اور یگانگت نے دم توڑا تو ہندوستان بھی تقسیم ہوگیا۔

    برصغیر اور مسلم ہند کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو سب سے نمایاں اور اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ یہاں مسلم قومیت کا تصوّر پہلے سے موجود تھا۔ جب ہندوؤں نے انگریزوں سے گٹھ جوڑ کرکے مسلمانوں کو سیاست و سماج، تعلیم و معیشت غرض ہر شعبے میں پیچھے رکھنے کی کوششیں شروع کیں اور مسلمانوں میں‌ احساس محرومی پیدا کرنے کے ساتھ مذہبی تفریق اور نفرت پھیلا کر ہندوستان پر حکومت کرنے کا خواب دیکھنے لگے جس نے جداگانہ تشخّص کو برقرار رکھنے کے تصّور کو تقویت دی اور تحریکِ پاکستان کا سفر شروع ہوا۔

    تحریکِ پاکستان کے یوں کئی عوامل ہیں، لیکن یہاں ہم اس حوالے سے چند بنیادی اور نمایاں پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔

    جداگانہ تشخص اور تحریکِ پاکستان
    تحریکِ پاکستان کا ایک وسیع پس منظر ہے جسے جاننے کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں کہ مسلمانوں میں جداگانہ تشخص اور علیحدہ وطن کی خواہش نے متعصب اور انتہا پسند ہندوؤں کی وجہ سے جنم لیا اور حالات کو بگاڑتے ہوئے مسلمان قیادت کو اس مقام پر پہنچا دیا جہاں انھوں نے اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کیا اور اس کے لیے ہر محاذ پر انگریزوں اور متعصب ہندوؤں کا مقابلہ کیا۔ 1920ء کے بعد جو حالات پیدا کردیے گئے تھے، ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ مسلمان انگریزوں اور ہندوؤں کی سازشوں کے سبب اکٹھے نہیں رہ سکتے تھے۔

    حالات میں بگاڑ اور ہندوؤں کا انگریزوں سے گٹھ جوڑ
    جنگِ بلقان کے دوران 1913ء میں کانپور میں مچھلی بازار کی مسجد کا بیرونی حصہ شہید کر دیا گیا جس سے مذہبی جذبات بُری طرح مجروح ہوئے ، اور مسلمانوں کو یہ احساس ہوگیا کہ برطانوی حکومت نے مسلمانوں کو مذہبی اور سماجی اعتبار سے پامال کرنے کا تہیہ کر لیا ہے، چناں چہ سانحہ کانپور سے اسلامیانِ ہند کی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔

    اس واقعے سے پورے ہندوستان کے مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف
    غم و غصہ پیدا ہوا اور ہر طرف ہلچل مچ گئی۔ مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد جیسے راہ نماؤں اور اکابرین نے بالترتیب لاہور سے ’’زمیندار‘‘، دہلی سے ’’کامریڈ‘‘ اور کلکتہ سے ’’الہلا ل‘‘ نامی اخبارات جاری اور مسلمانوں کا مؤقف سامنے رکھتے ہوئے انگریز سرکار کی پالیسیوں پر تنقید کی۔ دیگر مسلم زعماء مثلا ًمولانا عبدالباری فرنگی ، محلی، مولانا آزاد سبحانی ، مولانا شوکت علی وغیرہ نے ایسے واقعات کو انگریزوں کی مسلم دشمن پالیسی قرار دے کر کڑی نکتہ چینی کی۔

    اسی واقعے کے بعد جب مسلمانوں پر فائرنگ اور مسلم راہ نماؤں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں تو ان راہ نماؤں نے شدید احتجاج کیا جس سے مسلمانوں میں ملّی بیداری اور عملی سیاست میں حصّہ لینے کی سوچ کو تقویت پہنچی۔

    ہندو مسلم فسادات
    1920ء کے بعد ہندوستان میں انگریز سرکار کی مسلم دشمن پالیسیوں اور ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کر کے نقصان پہنچانے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ نہ صرف برطانوی دور کی بدترین یاد ہے بلکہ مسلسل فسادات نے ایک خونیں تاریخ رقم کی۔ اس عشرے میں ہندو مسلم فسادات کی تاریخ میں ایک نئے اور سنگین باب کا اضافہ ہوا اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے ماضی میں کی جانے والی تمام کوششیں برباد ہوگئیں۔ مسلمانوں پر عیاں ہوگیا کہ انگریز اور ہندو ان کے بدترین دشمن ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہوگئی جسے پاٹنا ممکن نہ تھا۔

    محمد علی جناح اور ہندو مسلم اتحاد کی کوششیں
    محمد علی جناح جو اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے ایک سفیر اور اہم راہ نما تھے، وہ بھی حالات سے دل گرفتہ نظر آئے۔ اسی عشرہ میں اتحاد و اتفاق بڑھانے اور انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد کرانے کے حوالے سے کانفرنسیں بھی ہوئیں اور ہندو مسلم مفاہمت کے لیے کئی تجاویز سامنے آئیں جن میں قائد اعظم کے ایما پر دہلی تجاویز اہم ترین تھیں۔ یہ تجاویز 1937 میں مسلم زعما کے ایک اجلاس میں مرتب کی گئی تھیں، مگر آل انڈیا نیشنل کانگریس نے گاندھی اور نہرو کی سرکردگی میں ان مطالبات پر غور کیا اور اپنے ابتدائی اجلاس میں تسلیم بھی کرلیا لیکن بعد میں چند متعصب ہندوؤں کے زیرِ اثر ان میں سے چند مطالبات کو رد کر دیا گیا۔

    کانگریس کی چالیں اور مسلمانوں کو کم زور کرنے کی سازشیں
    اس کے بعد جب نہرو رپورٹ سامنے آئی جو کانگریس نے ہندوستان کے آئین کی حیثیت سے تیار کی تھی، ان میں بھی مسلم حقوق کو پامال کیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ دسمبر 1928ء اور جنوری 1929ء میں جب نہرو رپورٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے کلکتہ میں نیشنل کنونشن منعقد ہوا تواس میں بھی محمد علی جناح کے تین بنیادی مطالبات کو مسترد کر دیا گیا۔

    ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا
    محمد علی جناح اور ان ساتھیوں کے لیے یہ ایک انتہائی مایوس کن اور چونکا دینے والی صورت حال تھی۔ محمد علی جناح نے اپنے پارسی دوست جمشید نسروانجی سے کہا کہ’’آج ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا اس طرح جدا ہو گئے ہیں کہ اب کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے۔‘‘

    اس رپورٹ کے بعد اس وقت مختلف معاملات پر گروہ بندی اور اختلافات کی وجہ سے دور ہو جانے والے مسلمان راہ نماؤں کو بھی جب کانگریس کی مسلم دشمنی کا یقین ہوگیا تو وہ سب متحد ہوگئے۔

    مسلمان قیادت کا اتحاد اور آل پارٹیز مسلم کانفرنس
    جنوری 1929ء میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس اسی اتحاد کا مظہر ہے۔ اس کانفرنس کا اجلاس دہلی میں ہوا جس کی صدارت سر سلطان محمد آغا خان نے کی۔ اس کانفرنس میں نہ صرف میاں محمد شفیع اور سر شفاعت احمد خان پیش پیش تھے بلکہ ترک موالات اور تحریک خلافت کے راہ نما مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور حسرت موہانی جیسے جید علما اور سیاست دانوں نے بھی اس میں اہم کردار اداکیا۔

    قائدِ اعظم کے 14 نکات
    ان واقعات کی روشنی میں محمد علی جناح نے 1929ء میں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے اور اسے برصغیر کی تاریخ میں اسلامیانِ ہند کے منشور کی حیثیت حاصل ہوئی۔ بعد کے برسوں میں مسلم لیگ اور محمد علی جناح کی قیادت میں مختلف مسلم جماعتوں کے اتحاد کی کوششیں جاری رہیں اور لندن میں تین گول میز کانفرنسیں منعقد ہوئیں جس کے بعد ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء مرتب کیا گیا۔

    انتخابات اور کانگریس کی غیر متوقع کام یابی
    1906ء سے 1938ء تک ہندو مسلم مفاہمت کی کوششیں اور اس ضمن میں تجاویز مسلمانوں کی ہی جانب سے پیش کی جاتی رہی تھیں لیکن کانگریس اور ہندوؤں کی جانب سے منفی رویہ اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ دیکھا گیا جس نے 1937ء کے انتخابات کے بعد شدت اختیار کرلی۔ انتخابات سے قبل قوی امید تھی کہ کانگریس اور مسلم لیگ میں مفاہمت ہو جائے گی اور دونوں جماعتیں مل کر مخلوط وزارتیں قائم کریں گی، لیکن انتخابات میں کانگریس کی غیر متوقع کام یابی کے بعد طاقت کے نشے میں بدمست کانگریس نے کچھ اور ہی منصوبہ بنا لیا۔

    کانگریس کے متعصب اور مفاد پرست ہندو راہ نماؤں نے دوسری تمام پارٹیوں کو اپنے اندر ضم کرکے ہندوستان کی واحد سیاسی جماعت بن جانے کا سوچا اور مخلوط وزارتوں کے بارے میں مسلم لیگ کی پیش کش کو ٹھکرا دیا، یہی نہیں جن ہندو اکثریتی صوبوں میں کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں وہاں مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کردیا۔

    کانگریس کی پالیسیاں اور مسلم کش اقدامات
    سیاسی طاقت کے حصول کے بعد کانگریس کی جانب سے ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت یکے بعد دیگرے مسلم کش اقدامات کیے جن میں بندے ماترم کو قومی ترانہ کی حیثیت دینا، تمام سرکاری عمارتوں پر کانگریس کے پرچم کو قومی پرچم کی حیثیت سے لہرانا، اردو کی جگہ ہندی زبان، گائے کو ذبح کرنے پر پابندی، ملازمتوں میں مسلمانوں کو ان کے مخصوص اور مقررہ حقوق سے محروم کرنا۔

    آل انڈیا مسلم لیگ کی مقبولیت
    مسلم قیادت اور اکابرین نے یہ سب دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی غرض سے قائدِ اعظم کے ساتھ 1934ء میں‌ کوششوں کا آغاز کیا اور جب مسلم لیگ کا اجلاس لکھنؤ میں 1937ء میں ہوا تو اس نے ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو ایک ایسے جوش وجذبہ سے سرشارکردیا جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس اجلاس کے صرف تین ماہ بعد ہی مسلم لیگ کی نئی شاخیں قائم ہونے لگیں اور رکنیت سازی زوروں پر تھی۔

    محمد علی جناح کی حکمت عملی، صبر و تحمل اور سیاسی بصیرت کے باوصف تحریک کام یاب ہوتی چلی گئی اور ہندوستان بھر میں ترقی کی اور بڑے صوبوں میں اسلامیانِ ہند کے کام یاب ترین اجلاس منعقد ہوئے۔ مسلم لیگ کی روز افزوں قوّت اور مقبولیت بڑھنے کا اندازہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے بھی ہوتا ہے جس نے سیاسی طور پر مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچایا۔ مسلم لیگ کی مقبولیت کا ایک ثبوت 1939ء میں یومَِ نجات منانے کی جناح صاحب کی اپیل تھی جس پر برصغیر کے مسلمانوں نے والہانہ انداز اور جوش و جذبے سے لبیک کہا۔

    مسلم قومیت کا فروغ اور علیحدہ ریاست کا قیام
    وہ وقت بھی آیا جب قائداعظم نے الگ مسلم قومی تشخص کی اس طرح توضیح اور تشریح کی کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں ایک علیحدہ مملکت کے قیام پر سب رضامند ہوگئے۔ چنانچہ قائداعظم کی زیرِ قیادت مسلم لیگ نے لاہور میں 1940ء میں منعقدہ اجلاس میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کو اپنا نصب العین قرار دے دیا جو بعد میں پاکستان کے نام سے مشہور ہوا۔

    یہ پہلا موقع تھا جب اسلامیانِ ہند نے اتنے واضح اور مدلل انداز میں اپنی منفرد اور علیحدہ قومیت کا نہ صرف اعلان اور دعویٰ کیا بلکہ برصغیر میں ایک علیحدہ وطن کی تشکیل پر بھی زور دیا اور 14 اگست 1947ء میں لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر مسلمانوں نے پاکستان حاصل کیا۔

  • تحریکِ‌ پاکستان: ’’مسلم لیگ کیا ہے؟ میں، شمسُ الحسن اور ان کا ٹائپ رائٹر‘‘

    تحریکِ‌ پاکستان: ’’مسلم لیگ کیا ہے؟ میں، شمسُ الحسن اور ان کا ٹائپ رائٹر‘‘

    سیّد شمسُ الحسن تحریکِ آزادی کے اُن سپاہیوں میں سے ایک ہیں جنھیں قائدِ اعظم محمد علی جناح کا قرب اور رفاقت ہی نصیب نہیں ہوئی بلکہ وہ بانی پاکستان کے معتمد اور لائقِ بھروسا ساتھیوں میں‌ شمار ہوتے تھے۔

    ان کا ایک امتیاز اور اعزاز یہ بھی ہے کہ ان کے خلوص، نیک نیّتی، دیانت داری، عزمِ مصمم اور اٹل ارادوں کو دیکھ کر بانی پاکستان قائدِ‌ اعظم محمد علی جناح نے انھیں شان دار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا تھا اور وہ الفاظ شمسُ الحسن کو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔

    سّید شمسُ الحسن نے برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کو توانا، مضبوط اور فعال بنانے کے لیے ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ وہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں نمایاں اور ممتاز رہے۔

    آزادی کی تحریک کے لیے دن رات ایک کردینے والے سیّد شمسُ الحسن 1892ء میں بریلی میں پیدا ہوئے تھے۔ 1914ء سے 1947ء تک انھوں نے مسلم لیگ کے آفس سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی بے لوث اور پُرخلوص کاوشوں اور شبانہ روز محنت کو دیکھتے ہوئے قائدِ‌اعظم نے ایک مرتبہ اس مجاہد کے بارے میں فرمایا کہ ’’مسلم لیگ کیا ہے، میں، شمسُ الحسن اور ان کا ٹائپ رائٹر۔‘‘

    قیامِ پاکستان کے بعد شمسُ الحسن 1948ء سے 1958ء تک پاکستان مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری کے طور پر کام کرتے رہے۔ وہ 7 نومبر 1981ء کو وفات پاگئے تھے۔ سید شمسُ الحسن کو کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردَ خاک کیا گیا۔

    2007ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • جب فرید آباد میں مسلم لیگ کا پرچم لہرایا گیا!

    جب فرید آباد میں مسلم لیگ کا پرچم لہرایا گیا!

    فرید آباد میں مسلمان اقلیت میں تھے، لیکن مطلبی اور ہاشمی کا اتنا دبدبہ اور اثر تھا کہ وہاں کے ہندوؤں کا فرید آباد کے مسلمان اور بالخصوص خاندان ہاشمی کے افراد کو ”میاں جی“ اور ”مولوی صاحب“ کہتے ہوئے منہ خشک ہوتا تھا۔

    حق یوں ہے کہ یہ ہر سہ برادران گرامی کے اقبال کا کرشمہ تھا کہ فرید آباد جیسی چھوٹی سی بستی میں جناب ہاشمی صاحب کے ہاتھوں مسلم لیگ کا پرچم لہرایا گیا، ترانے پڑھے گئے۔ اس طرح فرید آباد کی یہ چھوٹی سی سرزمین مسلم لیگ، قائد اعظم، اردو زبان زندہ باد اور ”لے کر رہیں گے پاکستان“ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔

    مغرب کی نماز کے بعد فرید آباد کی جامع مسجد میں ایک شان دار جلسہ منعقد ہوا۔ نمازیوں کے علاوہ فرید آباد کے بیشتر مسلمان وہاں پہلو بہ پہلو سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔

    تلاوتِ کلامِ پاک کے بعد میں نے اقبال کی مشہور نظم ”طلوعِ اسلام، سے ”خدائے لم یزل کا دستِ قدرت، تُو زبان تُو ہے“ والا ایک بند پڑھا، اتفاق سے میں ایک شعر کا مصرع غلط پڑھ گیا۔

    ہاشمی صاحب نے جو پہلی ہی صف میں تشریف رکھتے تھے مجھے نہ ٹوکنے کے انداز میں اس طرح ٹوکا ”واہ سبحان اللہ مکرر پڑھیے۔“ ناخواندہ عوام نے میری اس غلطی کو محسوس کیا یا نہیں، لیکن دوبارہ میں نے اس شعر کو بالکل صحیح اور زیادہ ترنم کے ساتھ پڑھا اور پھر کئی بار اسی شعر کو نعرہ اللہ اکبر کی گونج میں پڑھنا پڑا۔

    دوسرے دن صبح تمام کارکن فرید آباد میں مسلم لیگ کا جھنڈا گاڑ کر دہلی رخصت ہوئے۔ ہاشمی صاحب، ابو تمیم اور چند اہلِ فرید آباد ہمیں بس اسٹاپ تک چھوڑنے کے لیے آئے۔

    الغرض پاکستان وجود میں آیا، لیکن حروفِ آزادی کی طرح منتشر اور پراگندہ، علم و ادب کے گہواروں، تہذیب و تمدن کے سرچشموں سے محروم، دلی غائب، لکھنؤ ندارد، اکبر آباد گم، حیدرآباد دکن غتر بود، پنجاب و بنگال بود و نابود۔

    (ممتاز علمی و ادبی شخصیت سید ہاشمی فرید آبادی کے متعلق سید یوسف بخاری دہلوی کی یادوں سے ایک ورق)