Tag: آمد

  • جرمنی میں تارکین وطن کی آمد کے لیے نئے نرم قوانین، بارہ لاکھ کارکن درکار

    جرمنی میں تارکین وطن کی آمد کے لیے نئے نرم قوانین، بارہ لاکھ کارکن درکار

    برلن : رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ماہر کارکنوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے جرمنی کو تارکین وطن پر ہی انحصارکرنا ہوگا جس کے لیے حکومت نے مہاجرین کے لیے قوانین میں مزید نرمی کردی۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی کو کم از کم بھی مزید بارہ لاکھ ماہر کارکنوں کی ضرورت ہے۔ جرمن معیشت کو اس وقت کم از کم بھی مزید 1.2 ملین ماہر کارکنوں کی ضرورت ہے اور اس کے لیے تارکین وطن پر ہی انحصار کرنا ہو گا۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اس طرح کے حالات کی ایک مثال جرمنی کے مشرقی صوبے تھیورنگیا کا چھوٹا سا شہر زوہل ہے، جو وفاقی صوبے ہیسے کے سرحد کے قریب واقع ہے۔

    قریب تین عشرے قبل دیوار برلن کے گرائے جانے کے بعد سے اب تک اس شہر کے ایک تہائی باسی وہاں سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اب وہاں صرف 35 ہزار افراد رہتے ہیں، جن کی اکثریت بزرگ شہریوں پر مشتمل ہے۔

    میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زوہل میں اس وقت عام شہریوں کی اوسط عمر 50 سال سے زائد بنتی ہے اور یوں یہ شہر جرمنی کا، اگر کہا جا سکے، تو اپنی آبادی کی وجہ سے سب سے بوڑھا شہر ہے۔

    جرمن خبر رساں ادارے کے مطابق جرمنی میں ایسے غیر ملکیوں کی تعداد تقریبا 11 ملین ہے، جو جرمن شہری تو نہیں ہیں لیکن یہاں قانونی طور پر رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر سال 10 ہزار سے زائد غیر ملکی جرمن شہریت بھی حاصل کر لیتے ہیں۔

    ان اعداد و شمار کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ جرمن ریاست خود کو ماضی میں عام طور پر کوئی ایسا ملک نہیں سمجھتی تھی، جہاں روایتی طور پر بڑی تعداد میں تارکین وطن آ کر آباد ہوتے ہوں، لیکن آج کے جرمنی کا نیا سچ یہ ہے کہ یہ ملک، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، واقعی ایک امیگریشن سوسائٹی بن چکا ہے۔

    جرمنی نے اپنے ہاں ماہر کارکنوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے جو نئی قانونی ترامیم کی ہیں، انہیں بہت سے ماہرین ملکی امیگریشن قوانین میں تاریخی حد تک نرمی کا نام دے رہے ہیں۔

    خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ قوانین میں ترامیم کے بعد جو کوئی بھی تعلیم یافتہ ہو اور مناسب پیشہ ورانہ اہلیت رکھتا ہو، اور جرمن زبان بول سکتا ہو، وہ روزگار کے کسی معاہدے کے بغیر بھی جرمنی آ سکتا ہے اور یہاں آ کر اپنے لیے روزگار تلاش کر سکتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پہلے یہ قانون صرف یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہنر مند کارکنوں پر ہی لاگو ہوتا تھا۔ اب لیکن یہ شرط ختم کر دی گئی ہے۔

  • جی 20 اجلاس محمد بن سلمان کے لیے بڑا سفارتی امتحان

    جی 20 اجلاس محمد بن سلمان کے لیے بڑا سفارتی امتحان

    بیونس آئرس : روس اور برطانیہ کے سربراہان مملکت معروف صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق سعودی ولی عہد بن سلمان سے سوالات کرنے کےلیے تیار ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق گروپ 20 ممالک کے سربراہوں کا اجلاس آج سے ارجنٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس میں شروع ہوگا، جس میں دنیا کے امیر ترین ممالک کے سربراہوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ رواں برس منعقد ہونے والا جی 20 اجلاس ولی عہد محمد بن سلمان کےلیے سفارتی امتحان ہے، جس میں برطانیہ اور روس سمیت دیگر اراکین بھی ترک دارالحکومت میں صحافی جمال خاشقجی سے متعلق سوالات کا سامنا کرناپڑسکتا ہے۔

    برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کا کہنا ہے کہ وہ سعودی ولی عہد سے ملاقات کرکے خاشقجی قتل کیس سے متعلق واضح پیغام دیں گی۔

    تھریسا مے کا کہنا ہے کہ آخر سفارت خانے میں کیا ہوا تھا اور بہیمانہ قتل کا ذمہ دار کون ہے، برطانیہ خاشقجی قتل کیس سے متعلق تحقیقات میں شفافیت چاہتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ رواں برس ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کے باعث جی 20 اجلاس بھی متاثر ہوسکتا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ عالمی اقتصادی طاقتیں امریکا اور چین کے درمیان جی 20 ممالک اجلاس کے درمیان تجارتی تنازع طے پانے کا امکان ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ دو بڑی تجارتی طاقتوں کے درمیان جاری تجارتی جنگ حل ہونے کے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند روز قبل کہا تھا کہ چین پر عائد کیے گئے 200 ارب ڈالرز کے محصولات میں مزید اضافے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

    امریکی صدر نے چین سے درآمد کی جانے والی اشیاء پر 267 ارب ڈالرز کے محصولات عائد کرنے کی دھمکی کی تھی۔

    امریکی صدر نے وائٹ ہاوس میں صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین معاہدے میں دلچسپی رکھتا تھا، وہ معاہدہ ہوگا یا نہیں مجھے نہیں پتہ لیکن مجھے معاہدہ پسند تھا۔