Tag: آم کے باغات

  • مینکے، مانگا اور مینگو

    مینکے، مانگا اور مینگو

    برصغیر میں آم کو پھلوں کا بادشاہ مانا جاتا ہے جس کی کئی اقسام ہیں اور اسے بہت شوق اور رغبت سے کھایا جاتا ہے۔ یہ پھل پیڑ سے کچا اتار لیا جائے تو جہاں اس کا اچار بنایا جاتا ہے وہیں مختلف پکوانوں میں بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن پکے ہوئے آم کو کھانے کا مزہ ہی اور ہے۔

    اگر یہ کہیں تو کچھ غلط نہیں ہو گا کہ اس پھل کا پیلا رنگ اور مخصوص مہک سبھی کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔

    یہ آموں کا موسم ہے اور بازاروں میں ہر طرف یہی پھل نظر آرہا ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ انگریزی زبان میں اس پھل کے لیے لفظ Mango (مینگو) برتا جاتا ہے، لیکن شاید یہ معلوم نہ ہو کہ آم کو یہ نام کیسے ملا۔

    یہ جاننے کے لیے آپ لغت کھولیں، نہ زراعت سے متعلق یا معلوماتَ عامہ کی کوئی کتاب دیکھیے۔ اور نہ ہی گوگل کرنے کی زحمت کیجیے۔ آپ صرف آم کھائیے اور اس دوران یہ تحریر پڑھ لیجیے، آپ "مینگو” کا راز جان لیں گے۔ آج یہ پھل اسی نام سے دنیا میں پہچانا جاتا ہے اور ہر جگہ اپنی بہار دکھا رہا ہے۔

    محققین کا خیال ہے کہ لفظ "مینگو” ہندوستان سے ہی آیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ "مینگو” تمل زبان کے لفظ "مینکے” یا ملیالم کے "مانگا” سے مشتق ہے اور جنوبی ہند میں جب پرتگالیوں کے بعد برطانیہ نے آمدورفت اور تجارت شروع کی تو اس پھل سے بھی واقف ہوئے اور اسے اپنے ساتھ لے گئے۔یوں صرف آم ہی‌ نہیں‌ بلکہ اس کا نام بھی ہندوستان ہی سے انگریزوں کے ساتھ گیا اور "مینگو” مشہور ہوا۔

  • لاک ڈاؤن: کیا آم باغات سے بازار تک پہنچ سکے گا؟

    لاک ڈاؤن: کیا آم باغات سے بازار تک پہنچ سکے گا؟

    آم کی فصل بُور پر ہے اور ہر سال موسمِ گرما میں سیکڑوں مزدور اس رسیلے اور گودے والے پھل کو باغات میں اکٹھا کرتے نظر آتے ہیں۔ اور یہ مہینہ تو ہے ہی اس پھل کے پیڑ سے اتر کر ہم تک پہنچنے کا۔

    برصغیر میں آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ یہ پھل اپنے پیڑ سے کچا بھی اتارا جاتا ہے جو عام طور پر اچار اور مختلف پکوانوں میں استعمال ہوتا ہے، لیکن پکنے کے بعد تو جیسے اس کی سج دھج ہی نرالی ہوتی ہے اور مخصوص مہک کے ساتھ پیلے رنگ کا یہ پھل خوب بکتا ہے۔

    یہ آم کا مہینہ ہے، لیکن ملک بھر میں کرونا کے باعث لاک ڈاؤن کی وجہ سے آم کے بیوپاری اور اس سیزن میں‌ کام کرنے والے مزدور بہت پریشان ہیں۔

    ماہرینِ زراعت کے مطابق اپریل ہی میں ملک کے مختلف علاقوں میں آموں کے باغات میں مزدور پہنچنا شروع ہوجاتے تھے جس سے ان کی روزی روٹی جڑی ہوتی ہے۔ زرعی زمین کے مالک آموں کے باغات کو معاوضہ طے کرکے ٹھیکے پر دے دیتے تھے، لیکن اس سال نہ صرف عام اجتماعات پر پابندی ہے بلکہ ذرایع نقل و حمل اور آمدورفت پابندی اور بندشوں کا شکار ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس سال منڈیوں تک پھلوں کے بادشاہ کا پہنچنا مشکل ہے اور عوام کی اکثریت اس کا لطف اٹھانے سے محروم ہوسکتی ہے۔ اس سیزن میں یومیہ کئی ٹن آم نہ صرف اکٹھا ہوتا تھا بلکہ ٹرکوں اور مختلف گاڑیوں میں لاد کر بازاروں میں پہنچایا جاتا تھا جس سے کئی لوگوں کو روزگار میسر آتا تھا۔

    اس سال پیڑوں پر کچے پکے آموں کے درمیان کوئل اور پپیہے کی دل موہ لینے والی اور مدھر کوک تو سنائی دے رہی ہے، مگر فطرت کے اس حُسن میں اداسی کا رنگ بھی شامل ہے۔