Tag: آپ بیتی

  • قتیل شفائی کا وہ جملہ جس نے سیدہ اختر حیدر آبادی کو ناراض کر دیا

    قتیل شفائی کا وہ جملہ جس نے سیدہ اختر حیدر آبادی کو ناراض کر دیا

    اردو ادب میں قتیل شفائی بطور شاعر اپنی غزل گوئی کے ساتھ فلمی گیتوں‌ کے لیے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ترقی پسند شعرا میں سے ایک تھے جنھیں پاکستان میں سرکاری سطح پر اور متعدد ادبی تنظیموں نے بھی اعزازات سے نوازا۔ قتیل شفائی کی غزلیں مشہور گلوکاروں نے گائیں اور ان کے فلمی گیت بھی بہت مقبول ہوئے۔ انھیں پاکستان ہی نہیں بھارت اور دیگر ممالک میں مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا جہاں شرکا فرمائش کرکے قتیل شفائی سے ان کی مشہور غزلیں سنا کرتے تھے۔

    قتیل شفائی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے اور ان کی آپ بیتی میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں‌ جو ان کے فن و شخصیت کو ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ پیشِ نظر پارے قتیل شفائی کی آپ بیتی ‘گھنگرو ٹوٹ گئے’ سے لیے گئے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:

    مدراس کے مشاعرے میں جب میں اپنا کلام سن چکا تو دیکھا کہ لمبی لمبی داڑھیوں والے دو آدمی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ سے ایک گزارش ہے۔ میں نے کہا فرمائیے۔ کہنے لگے کہ مشاعرے کے دوسرے دور میں آپ اپنی غزل ’’الفت کی نئی منزل کو چلا ‘‘سنائیں۔

    میں نے ہزار سمجھایا کہ وہ فلم کی غزل ہے اور آپ مجھ سے یہ سن کر بہت بے مزہ ہوں گے۔ مگر وہ نہ مانے اور کہنے لگے کہ ہمیں یہ غزل آپ کی زبان سے سننے کی بڑی تمنا ہے۔ چنانچہ خاص طور پر اس غزل کے لئے اناؤنسمنٹ ہوئی اور اس کی فرمائش کی گئی۔ میں نے تحت اللفظ یہ غزل پڑھی۔ اور اس پر مجھے جو داد ملی وہ ناقابل فراموش ہے۔ مجھ سے اس کا ایک ایک مصرح چار چار بار پڑھایا گیا اور پتا چلا کہ یہی وہ غزل تھی جس کی وجہ سے مجھے وہاں بلایا گیا تھا۔

    وہیں سے ہم احمد آباد گئے جہاں پرانے مسلمان بادشاہوں کے آثار دیکھے اور پتھر کی جالیوں کا کام دیکھا جن کا جواب نہیں تھا۔ ایک مسجد میں بھی پتھر کی جالیاں دیکھیں۔ اس کے ایک مینار کے بارے میں مشہور تھا کہ اگر اسے اوپر سے دھکا دیا جائے تو ہلتا ہے۔ اس لئے اس کو مینارِ لرزاں بھی کہتے تھے۔ بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ مینار سنگِ لرزاں سے بنا ہوا ہے۔

    ہمارے ساتھ مشہور خاتون سیدہ اختر حیدر آبادی تھیں جو خاکسار تحریک میں بھی کام کر چکی تھیں۔ انہیں خطیبۂ ہند بھی کہا جاتا تھا۔ وہ بہت موٹی تھیں۔ وہ کچھ انجمنوں کی عہدیدار تھیں اور مشاعروں اور دوسری تقاریب میں ہر جگہ آگے آگے رہتی تھیں۔ جب ہم مینار کے اوپر چڑھے تو یہ ذرا سا ہلتا ہوا نظر آیا۔ سیدہ اختر سے میرے بڑے اچھے مراسم تھے۔ وہ بنگلور کی رہنے والی تھیں اور مشاعرہ کرنا چاہتی تھیں۔ ان کے ساتھ میرے بہت تعلقات بن گئے تھے لیکن بعض اوقات ایک جملہ تعلقات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے۔

    جب ہم مینارِ لرزاں سے نیچے اترے تو کہنے لگیں کہ دیکھا میں نے کہا تھا کہ یہ مینار ہلتا ہے۔ میں نے کہا بیگم اختر یہ مینار ہمارے ہلانے سے تو نہیں ہلا البتہ آپ کے اوپر جانے سے ہلا ہے۔ وہ یہ جملہ سننے کے بعد بالکل خاموش ہو گئیں اور اس کے بعد جتنا عرصہ ہم ایک ساتھ رہے۔ انہوں نے بول چال بند رکھی اور بنگلور کا پروگرام بھی گول کر دیا۔

    دراصل سیدہ اختر حیدر آبادی بہت موٹی تھیں اور خواہ مخواہ جی چاہتا تھا کہ ان سے کوئی شرارت کی جائے۔ اس وقت ہمارے ساتھ پاکستان سے سحاب قزلباش بھی تھیں۔ سیدہ اختر کے بال اتنے لمبے تھے کہ بلا مبالغہ ٹخنوں تک پہنچتے تھے اور کنگھی کر کے انہیں کھلا چھوڑتی تھیں۔ موٹی تو سحاب قزلباش بھی تھیں مگر یہ اچھی شکل و صورت والی تھیں۔ یہ کہنے لگیں کہ مجھے نظر آتا ہے کہ اختر کے بال مصنوعی ہیں۔ ہم نے کہا کہ نہیں مصنوعی بال اتنے زیادہ سنبھالے ہی نہیں جا سکتے۔ کہنے لگیں نہیں کسی طرح ان کے بال ٹیسٹ کر کے مجھے بتاؤ۔ جوانی کا زمانہ تھا اور شرارتیں کرنے کے دن تھے۔ جب ہم گاڑی میں بیٹھے تو وہ میرے ساتھ بیٹھی تھیں۔ میں نے عمداً یہ کیا کہ ان کے بیٹھتے ہوئے بال ذرا ادھر رکھ کے گاڑی کا دروازہ بند کر دیا۔ بال اٹک گئے اور جب میں نے سیٹ بدلوانے کے لئے انہیں اٹھنے کو کہا تو چونکہ بال اٹکے ہوئے تھے اس لئے ان کی ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ بال کھینچنے سے انہیں تکلیف ہوئی۔ انہیں پتا نہیں تھا کہ میں نے یہ عمداً کیا ہے۔ لیکن سحاب قزلباش کے لئے تصدیق ہو گئی اور اب یہ محترمہ چین سے بیٹھیں۔ اگر انہیں پتا چل جاتا تو یقیناً اس روز ناراضی ہو جاتی۔ میں نے زندگی میں اتنے لمبے بال کسی کے نہیں دیکھے۔

  • جب سبطِ حسن نے جیل میں عربی سیکھی!

    جب سبطِ حسن نے جیل میں عربی سیکھی!

    لاہور کی شادمان کالونی سنٹرل جیل کو مسمار کر کے بنائی گئی۔ سنٹرل جیل کے آخری قیدیوں میں بہت سے سیاسی اور دینی اکابرین شامل تھے۔ مولانا مجاہد الحسینی بھی ان میں شامل تھے۔ اپنے زمانۂ اسیری میں مولانا کی سبطِ حسن سے جیل میں شناسائی ہوئی اور ان میں استاد اور شاگرد کا تعلق بھی بن گیا۔

    مولانا مجاہد الحسینی نے نامور ترقی پسند دانش ور، ادیب اور صحافی سید سبطِ حسن سے اپنے اسی تعلق کی یادوں کو قلم بند کیا جس سے ایک پارہ قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    سید سبطِ حسن بھی سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار دیوانی احاطے میں آگئے تھے۔ وہاں استادی، شاگردی کے ادب و آداب کے تحت اربابِ جیل نے خصوصاً ہمارے لئے چارپائیوں کا انتظام کر دیا تھا، چونکہ رات کے مرحلے میں کسی نئے قیدی کے لئے چارپائی کا فوراً انتظام مشکل تھا، سید سبط حسن ہم زندانیوں میں سے کسی سے بھی متعارف نہیں تھے، مَیں نے ان کی تحریروں مطالعہ کیا تھا، روزنامہ امروز میں ان کے مضامین شریک اشاعت ہوتے رہتے تھے، اس لئے میں نے خندہ پیشانی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا، اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے میری بابت احمد ندیم قاسمی اور حمید ہاشمی (نواسہ مولانا احمد سعید دہلوی) مدیرانِ امروز سے جو چند اچھے کلمات سنے ہوں گے، ان کے حوالے سے کہا کہ آپ سے غائبانہ تو متعارف تھا، آج ملاقات سے مسرت ہوئی اور وہ بھی جیل خانے میں۔

    اس پر میں نے کہا:”دنیا میں جیل ٹھکانہ ہے آزاد منش انسانوں کا“…. مصرع سنتے ہی متانت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا: خوب، اچھا ذوق ہے، پھر میں نے حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ اور دوسرے بزرگوں سے ان کا تعارف کرایا، تو انہوں نے بھی دعائیہ کلمات کے ساتھ سبط حسن صاحب کا خیر مقدم کیا، اس وقت جیل کے اس مسافر خانے میں جو کچھ میسر تھا، پیش کیا، چائے نوشی کے دوران میں نے فتح دین نامی مشقتی سے سرگوشی کی صورت میں کہا کہ میری چارپائی پر سبط حسن صاحب کا بستر بچھا دو اور میرا بستر گارڈینا کی اوٹ میں زمین پر بچھا دیا جائے، جس کی تعمیل کی گئی۔

    بعد ازیں ہم اپنے معمولات و عبادات سے فارغ ہو کر اپنے بستروں کی جانب راغب ہوئے اور سبط حسن صاحب کو ان کی آرام گاہ کی نشان دہی کی گئی تو انہوں نے دیگر حضرات کے ساتھ میری چار پائی مفقود دیکھ کر مشقتی سے دریافت کیا وہ کہاں ہے؟….اس نے گارڈینے کی اوٹ میں، اشارے کے ساتھ نشان دہی کی تو سبط حسن صاحب نے میرے پاس آتے ہی مستعّجب ہو کر کہا: یہ کیا؟

    میں نے کہا، میری کمر میں کھنچاؤ محسوس ہوتا ہے، زمین پر لیٹنے سے راحت ملے گی۔ بایں ہمہ، سبط حسن صاحب نے مجھے اپنی چارپائی پر آرام کرنے پر اصرار کیا، مگر میرا عذر غالب آگیا اور میں نے انہیں بازو سے پکڑ کر چارپائی پر بٹھا دیا، چنانچہ حسنِ خُلق کا یہی مظاہرہ میرے اور سید سبط حسن کے درمیان گہرے تعلق خاطر کا موجب بن گیا تھا۔ پھر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل امتیاز نقوی کے ساتھ وہ بھی حصول تعلیم قرآن کی سعادت پر آمادہ ہوگئے تھے، چنانچہ انہیں ابتدائی تعلیم عربی کی چھوٹی کتب سے متعارف کرایا گیا، حتیٰ کہ آیاتِ قرآن کے ترجمے اور بعد ازاں عربی گفتگو میں دسترس اور مہارت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اسی دوران میں نے ان سے انگریزی زبان کی تعلیم پانے کا آغاز کیا، جس پر ہم دونوں میں استاد، شاگرد کا تعلق استوار ہوگیا تھا۔

  • سحرؔ کی کراچی آمد اور سی آئی ڈی کا آدمی

    سحرؔ کی کراچی آمد اور سی آئی ڈی کا آدمی

    ”یادوں کا جشن“ اردو کے ممتاز شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی کی آپ بیتی ہے جس میں اُن کے دور کے معروضی حالات کے ساتھ کئی دل پذیر واقعات اور پُراثر باتیں ہمیں‌‌ پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ کتاب 1983 میں منظرِ عام پرآئی تھی۔ کنور مہندر سنگھ بیدی کا تخلّص سحر تھا اور ہندوستان ہی نہیں پاکستان بھر میں انھیں بطور شاعر پہچانا جاتا تھا۔

    یہ بھی پڑھیے:‌ کنور صاحب کی بذلہ سنجی

    کنور مہندر سنگھ بیدی 1909ء میں منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم کے بعد وہ بھارت کے شہری ہوگئے اور وہیں دہلی میں وفات پائی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ پہلی مرتبہ 1956ء میں کراچی آئے جس کا ذکر انھو‌ں نے اپنی آپ بیتی میں کیا ہے۔ مہندر سنگھ بیدی سحر لکھتے ہیں:

    "جب میں کراچی پہنچا تو بہت سے دوست مجھے جانتے تھے اور بہت سے جو مجھے نہیں بھی جانتے تھے، ہوائی اڈے پر موجود تھے۔ کراچی میں پورے سال میں آٹھ، دس انچ بارش ہوتی ہے، اُس روز ایک ہی دن میں چھ انچ بارش ہو چکی تھی اور کراچی کے لحاظ سے شدید سردی کا موسم تھا، مگر اس کے باوجود میرے دوست احباب نے پُرتپاک استقبال کیا۔

    میرے ساتھ چند اور دوست بھی دہلی سے گئے تھے، ان کے قیام کا انتطام بھی وہاں کے بہترین ہوٹلوں میں کیا گیا تھا مگر مجھے میرے پرانے دوست سلطان جاپان والا اپنے پاس لے گئے اور اپنے ہوٹل نازلی میں ٹھہرایا، میں پانچ، چھ دن وہاں ٹھہرا۔ اس قیام میں دوستوں نے اس قدر اور مہمان نوازی کا ثبوت دیا کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔

    دعوتوں کا یہ عالم تھا کہ صبح ناشتے سے شروع ہوتی تھیں۔ ناشتے کے بعد دو، دو تین، تین جگہ کافی، پھر لنچ اس کے بعد کئی کئی جگہ چائے اور پھر کلام و طعام کی محفلیں سجتی تھیں، جن لوگوں کے ہاں شام کی چائے پینی ہوتی ناشتے کے وقت سے ہمارے ساتھ ہو لیتے تھے، جہاں بھی میں جاتا دس، بارہ موٹر گاڑیاں میرے ساتھ رہتی تھیں۔ اچھا خاصا جلوس سا دکھائی دیتا تھا۔

    اس قیام کے دوران مجھے دہلی کے سب ہی پرانے دوست ملے، جس شام مجھے کراچی سے رخصت ہو کر واپس دہلی آنا تھا، اُس روز صبح سویرے ہی ایک صاحب نے مجھے اپنے گھر لے جانے کی درخواست کی، یہ صاحب پہلے ہی دن میرے ساتھ تھے بلکہ مجھے سلا کر جاتے تھے اور میرے بیدار ہو نے سے پہلے ہی آجاتے تھے اور مجھ سے ملنے والوں کی چائے پانی سے تواضع کرتے۔ ان کی خدمت گزاری سے بہت متاثر ہو کر جی چاہتا تھا کہ میں بھی ان کے لیے کچھ کروں جس روز مجھے وہاں سے دہلی واپس آنا تھا، وہ حسبِ دستور اس روز بھی صبح سویرے میرے کمرے میں آگئے اور اس سے پیشتر کہ میں ان سے کچھ کہوں وہ خود ہی مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے کہ میں آپ کے سامنے یہ انکشاف کر رہا ہوں کہ میں سی۔آئی۔ ڈی کا آدمی ہوں اور میری ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ میں آپ کے ساتھ رہوں۔ اور دیکھوں کہ کون کون آپ سے ملنے کے لیے آتا ہے اور آپ سے کیا بات چیت ہوتی ہے۔ میں آپ سے اس قدر مانوس ہو چکا ہوں کہ آپ کو یہ سب بے تکلفی سے بتا رہا ہوں۔ اب میری ایک خواہش ہے اور یہ کہ آپ میرے گھر چلیے میری بیوی اور گھر کے دیگر لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔

    اس نے اس محبت سے یہ بات کہی کہ میں انکار نہ کر سکا۔ وہ میرا کراچی میں آخری دن تھا اور مجھے کئی جگہ الوداع کہنے کے لیے جانا تھا مگر میں نے اس سے اس کے گھر چلنے کا وعدہ کرلیا۔ چنانچہ تیار ہو کر میں اس کے ساتھ ہو لیا اور بھی کئی دوست میرے ہمراہ تھے۔ جب اس کا گھر نزدیک آیا تو ہم سب رک گئے اور وہ باقی حضرات سے معذرت کر کے صرف مجھے ساتھ لے کر اپنے گھر لے آیا۔ اس کا گھر گلی میں واقع تھا۔

    میں دروازے پر رک گیا۔ لیکن اس نے کہا کوئی مجھ سے پردہ نہیں کرے گا، میں اندر آجاؤں چنانچہ میں گھر کے اندر داخل ہوا۔ گھر میں اس وقت صرف اس کی بیوی تھی۔ اس نے ایک صاف تھالی میں کچھ پھل وغیرہ پیش کیے۔ میں نے شکریہ ادا کیا۔

    کچھ دیر رکنے کے بعد میں نے اجازت چاہی تو وہ کہنے لگا میرے ہاں بچہ ہونے والا ہے۔ دعا کیجیے کہ وہ آپ کی طرح صالح اور نیک ہو۔ مجھے یہ سن کر اپنے گناہوں کا احساس ہوا اور میں نے اُس سے کہا کہ میں ایک گناہ گار آدمی ہوں، مگر وہ بضد رہا۔ آخرکار میں نے اُس ہونے والے بچے کی درازیٔ عمر اور خوش حالی کی دعا مانگی۔

    اُس کی بیوی کے سر پر ہاتھ رکھا اور اُن سے رخصت لی۔ میرے دل پر اس واقعے کا بہت دیر تک اثر رہا۔ اب جب بھی یاد آتا ہے تو اس شخض کی فراخ دلی، اعتماد، صاف گوئی اور غیر متعصب جذبے کی داد دیتا ہوں۔ مجھے قلق اس بات کا کہ اُس سے اس کا ایڈریس نہ لے سکا ورنہ واپس آکر اسے شکریہ کا خط لکھتا۔‘‘

  • ”گاندھی جی سے ملاقات کی راہ نکالو!”

    ”گاندھی جی سے ملاقات کی راہ نکالو!”

    مولانا حبیب الرّحمٰن کے بیٹے عزیز الرّحمٰن جامعی نہایت ہوشیار نوجوان تھے، انہیں شوق تھا کہ بڑے بڑے آدمیوں سے ملتے، والد کا ذکر کرتے اور کوئی نہ کوئی خبر اڑا لاتے، ان دنوں زعمائے احرار کی خبروں کا منبع عزیز الرّحمٰن ہی تھے۔ گاندھی، نہرو آزاد وغیرہ کے ہاں تو ان کا آنا جانا روز ہی کا تھا، ان سے ملاقات نہ ہوتی، ان کے سیکرٹریوں سے مل آتے، سیکرٹریوں سے نہ ملتے، تو ان کے سٹینو گرافروں سے مل آتے لیکن خبریں زور کی لاتے اور اکثر خبریں صحیح نکلتی تھیں۔

    ایک دن میں نے اور نواب زادہ نصر اللہ خاں نے ان سے کہا کہ گاندھی جی سے ملنے کی راہ نکالو، عزیز نے کہا کہ ’’ابھی چلو، گاندھی جی نے بھنگی کالونی میں کٹیا ڈال رکھی ہے، کوئی نہ کوئی سبیل نکل آئے گی۔‘‘ ہم تیار ہو گئے۔

    میں، نواب زادہ، انور صابری اورعزیز الرّحمٰن بھنگی کالونی پہنچے تو گاندھی جی وائسریگل لاج گئے ہوئے تھے۔ ان کی کٹیا ہری جنوں کی بستی کے بیچوں بیچ لیکن کھلے میدان میں تھی۔ کوئی تیس گز ادھر بانس بندھے ہوئے تھے اور یہ کھلا دروازہ تھا۔ یہاں سے قریب ہی ایک خیمہ تھا، جس میں رضاکاروں کا سالار رہتا، ادھر ادھر کچھ چارپائیاں پڑی تھیں۔ کرسیوں کا نشان تک نہ تھا، گاندھی جی کی بیٹھک کا تمام حصہ فرشی تھا، کچھ دیر تو ہم بعض دوسرے مشتاقین کے ساتھ بانس کے دروازے پر کھڑے رہے، پھر عزیز الرّحمن نے ہمت کی اور پیارے لال کو کہلوایا، اس نے بلوایا، پیارے لال گاندھی جی کا سکریٹری تھا، عزیز الرّحمٰن نے اس سے کہا کہ ’’ہم اس غرض سے آئے ہیں۔‘‘ وہ نیم راضی ہوگیا، کہنے لگا ’’آپ سامنے درخت کی چھاؤں میں بیٹھیں، باپو ابھی آتے ہیں، ان کی مصروفیتیوں کا تو آپ کو اندازہ ہے، ممکن ہے کوئی اور وقت دیں۔‘‘

    ہم ٹھہر گئے۔ نواب زادہ نصر اللہ خان نے ترکی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ میں ان دنوں کھدر پہنتا لیکن سر پر جناح کیپ رکھتا تھا۔ انور صابری نے قلندروں کا جھول پہن رکھا اور عزیز الرّحمٰن مولویوں کے چغہ میں تھا۔ کوئی چالیس منٹ ٹھہرے ہوں گے کہ گاندھی جی کی کار کی آمد کا غل ہوا۔ اتنے میں درجن ڈیڑھ درجن دیویاں بھی آگئیں، گاندھی جی کی کار سڑک سے اندر داخل ہوئی، دیویوں نے پاپوشی کرنی چاہی لیکن گاندھی جی تیر کی طرح نکل کر ہمارے پاس رک گئے۔ ہم نے ہاتھ اٹھا کر آداب کیا، مسکرائے۔

    ’’آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘

    ’’پنجاب سے۔‘‘

    ’’آپ نے بہت تکلیف کی؟‘‘۔

    ’’جی نہیں، ہم آپ کے درشن کرنے آئے ہیں۔‘‘

    عزیز الرّحمٰن نے کہا: ’’مہاتما جی! میں مولانا حبیب الرّحمٰن لدھیانوی کا بیٹا ہوں۔‘‘

    ’’اچھا! وہ مولوی صاحب جو مجھ سے بہت لڑتے ہیں۔‘‘

    عزیز الرّحمٰن نے ہم تینوں کا تعارف کرایا، گاندھی جی مسکراتے رہے۔ ملاقات کا وقت مانگا، گاندھی جی نے ہامی بھر لی، کہا: ’’آپ لوگ پرسوں شام پانچ بجے آدھ گھنٹے کے لیے آجائیں۔‘‘

    عزیز نے کہا:’’آپ کے سیکریٹری ٹرخا دیتے ہیں، ذرا ان سے بھی کہہ دیں۔‘‘

    گاندھی جی نے کہا:’’کوئی بات نہیں، یہ کھڑے ہیں، ان سے میں نے کہہ دیا ہے۔‘‘ مزید کہا: ’’کل بھی میں آپ کو بلا سکتا ہوں لیکن کل میرا مون برت ہے۔ آپ باتیں کریں، تو میں سلیٹ پر لکھ کر جواب دوں گا، کچھ کہنا سننا ہے، تو پرسوں کا وقت ٹھیک رہے گا۔‘‘

    ہم نے صاد کیا ، گاندھی جی نے ہاتھ باندھ کر پرنام کیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے کٹیا میں داخل ہوگئے۔ دوسرے لوگ ہمیں حیرت سے تکتے رہے۔

    (1946 میں شورش کاشمیری نے دہلی میں قیام کے دوران کئی قومی لیڈروں اور اہم شخصیات سے ملاقاتیں کی تھیں جن کا ذکر اپنی کتاب بوئے گل نالۂ دل دودِ چراغِ محفل میں کیا ہے، یہ پارہ اسی کتاب سے لیا گیا ہے)

  • جب صدر ضیاء الحق نے کارڈ اپنے اے ڈی سی کو دیا اور کہا، ’’ہم آئیں گے!‘‘

    جب صدر ضیاء الحق نے کارڈ اپنے اے ڈی سی کو دیا اور کہا، ’’ہم آئیں گے!‘‘

    5 اپریل 1982ء کو ہماری شادی تھی۔ ہم نے سوچ سمجھ کر یہ تاریخ رکھی تھی۔ تب اسلام آباد میں خوش گوار موسم ہوا کرتا ہے۔ نہ گرمی نہ سردی بلکہ بہار کا سا موسم۔ بارش کا بھی کوئی امکان نہیں ہوتا لیکن جناب اللہ نے بھی تو اپنی شان دکھانی تھی۔ حیرت انگیز اور دھماکا خیز آمد صدر ضیاءُ الحق کی تھی جن کے آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ شرکت کریں گے۔

    قصّہ یہ ہے کہ ہر 23 مارچ کو ضیا صاحب سے ملاقات ہوتی۔ راولپنڈی کے ریس کورس گراؤنڈ میں سالانہ فوجی پریڈ انجام پاتی جس کی سلامی صدر ضیا لیتے۔ اور ہماری ذمے داری اس پر براہِ راست رواں تبصرہ کرنا تھا۔ پہلے سال ہی انھوں نے شاباش دینے کے لیے ہماری پوری ٹیم کو اپنے گھر پر بلایا۔ اس کے بعد یہ معمول بن گیا۔

    1982ء میں ملنے گئے تو میں نے انھیں دعوت نامہ پیش کیا۔ انھوں نے بہت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کارڈ اپنے اے ڈی سی کو دیا اور کہا ’’ہم آئیں گے۔‘‘ بات آئی گئی ہو گئی۔ ہم نے سوچا کہ انھوں نے دل رکھنے کو کہہ دیا۔ ان کو آنے کا کہاں وقت ملے گا۔ ادھر سے کوئی اطلاع نہیں آئی، اس لئے، بھول گئے اور شادی کے ہنگاموں میں گم ہو گئے۔

    ولیمے کے دن صبح کے وقت میں مونا کے ساتھ اپنے نانا اور رشتے کی ایک بزرگ خاتون کو سلام کرنے نکل گیا۔ وہ شادی میں نہیں آسکے تھے۔ ابھی ہم وہاں پہنچے ہی تھے کہ ایک پیغامبر بھاگتا ہوا آیا کہ جلدی واپس آئیں، صدر صاحب آرہے ہیں۔ میں نے پوچھا، کون سے صدر صاحب؟اْس نے کہا ’’ضیا صاحب‘‘۔ میں نے کہا کہ غلط فہمی ہوئی ہو گی، کسی انجمن کے صدر آرہے ہوں گے۔ جب اس نے اصرار کیا تو ہم واپس گھر پہنچے۔ وہاں دیکھا کہ سیکورٹی کے سربراہ اور ان کا عملہ بیٹھا ہوا تھا۔ انھوں نے سارے انتظامات دیکھے اور ہر طرح اطمینان حاصل کرنے کے بعد اپنا خصوصی عملہ وہاں تعینات کرنے کی اجازت حاصل کی۔ اس کے بعد ہمارے گھر کے چاروں طرف اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو گئی۔ خصوصی کمانڈوز نے جگہیں سنبھال لیں۔ یہاں تک کہ گھر کے اندر بھی فوجی گھوم رہے تھے۔ لگا کہ مارشل لا آج لگا ہے۔ مہمانوں کی فہرستیں بھی انھوں نے قبضے میں لے لیں اور کہا کہ بغیر اجازت کے کوئی اندر نہیں آئے گا۔

    اِس بھاگ دوڑ کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ شہر کے دوسرے محکمے بھی حرکت میں آگئے۔ گھر کے چاروں اطراف صفائی شروع ہوگئی اور خصوصی لائٹیں لگا دی گئیں، جس سے سارا علاقہ روشن ہو گیا۔ ان کے لیے میں کئی روز سے کوشش کر رہا تھا۔ مگرکوئی ہِل جل نہیں تھی۔ اب ایک دم دوڑ شروع ہو گئی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ولیمے کی دعوت شام کو تھی جس کا انتظام باہر لان میں کیا گیا تھا۔ لیکن حکم یہ ملا کہ صدر صاحب کھانے میں شرکت نہیں کر یں گے۔ شام کو جلدی آکے کچھ دیر ٹھہر کر چلے جائیں گے۔ چناں چہ کھانے کے سارے انتظامات روک کر چائے اور دوسرے لوازمات کا بندوبست کیا گیا۔

    اس دوران صدر کے ملٹری سیکرٹری، کرنل ظہیر ملک بھی رابطہ کرتے رہے۔ میں نے جب اِس افراتفری کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ ان کا عملہ دعوت نامہ کہیں رکھ کر بھول گیا۔ ہماری طرح انھوں نے بھی یہ سوچا کہ کون سا صدر نے وہاں جانا ہے! مگر اخباروں نے شرارت کر ڈالی۔ صبح اخباروں میں شادی کی بڑی بڑی تصویروں کے ساتھ جب خبر چھپی تو صدر صاحب کی اس پر نظر پڑی۔ فوراً انھوں نے استفسار کیا کہ اِس شادی میں تو ہمیں شرکت کرنی تھی۔ اب وہاں دعوت نامے کی ڈھونڈ پڑ گئی اور جب کارڈ ملا تو وہ ولیمے کی دعوت تھی۔ اسٹاف کی جان میں جان آئی۔ فوراً بتایا گیا ’’ سر! آپ کا بلاوا آج ولیمے میں ہے۔‘‘ لیکن اس دن انھیں پشاور کسی ضروری میٹنگ میں جانا تھا اور واپسی میں ڈنر میں شرکت کرنا تھی۔ لیکن ان کا اصرار تھا کہ میں تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی، مبارکباد دینے جاؤں گا ضرور۔

    ہمیں ان کی آمد کا وقت شام پانچ بجے بتایا گیا۔ لیکن جیسا کہ میں نے بتایا لڑکی کی تلاش سے لے کر شادی تک کوئی کام ہمارا آسان نہ تھا۔ لہٰذا جناب، شام ہوتے ہی آندھی آگئی۔ آندھی کیا تھی طوفان تھا جو پورے اسلام آباد، پنڈی اور پشاور تک کے علاقوں میں آیا اور جس نے سب کچھ تہ و بالا کر ڈالا۔ صدر صاحب کا ہیلی کاپٹر پشاور سے واپسی میں راستے میں کہیں اتارنا پڑا، جہاں انھوں نے مغرب کی نماز ادا کی۔

    ایک بار پھر ان کی آمد کے امکانات معدوم ہونے لگے۔ ہم شش وپنج میں مبتلا ہو گئے۔ سیکورٹی کے باعث ولیمے کے دوسرے انتظامات بھی نہیں کیے جاسکتے تھے اور اوپر سے آندھی طوفان نے سب کچھ اکھاڑ پھینکا۔ لیکن شاید ان کا ارادہ مصمم تھا یا ہماری دعائیں تھیں کہ شام سات بجے کے قریب اطلاع ملی، مہمانِ گرامی پہنچنے والے ہیں۔

    تھوڑی دیر بعد موٹروں کا قافلہ گھر کے سامنے آکر رکا اور صدر صاحب، سفید شیروانی میں ملبوس مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ تشریف لائے۔ میری والدہ مرحومہ نے بڑے خوبصورت الفاظ کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا کہ عین صدر صاحب کی آمد سے چند لمحے پہلے مووی بنانے والے کا کیمرہ گھبراہٹ میں ایسا گرا کہ اس نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ لہٰذا ولیمے کی ہمارے پاس کوئی ویڈیو نہیں۔ شادی اور مہندی کی ویڈیو ہم نے امریکا آنے سے پہلے کسی کو دی کہ اسے امریکی سسٹم کے مطابق تبدیل کر دیں۔ وہ ان سے ایسی ضائع ہوئی کہ اب وہ ریکارڈ بھی نہیں۔ بس کچھ تصویریں رہ گئی ہیں جن میں سے ایک آپ دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن اصل تصویریں اور لمحے ذہن پر نقش ہیں۔

    کیسے کیسے محبت کرنے والے لوگ اِس میں اپنا خلوص نچھاور کرنے آئے اور ان میں سے بہت سے اب دنیا میں نہیں رہے۔ ہم کیسے بھول سکتے ہیں، عبیداللہ بیگ مرحوم کو جنہوں نے نکاح کے بعد میرا سہرا پڑھا اور مونا کے گواہ بنے۔ پھر میری والدہ کیسے سایہ کیے ہوئی تھیں۔مونا کے والد مصطفیٰ راہی، جو بیٹی کے گھر سے جانے پر کتنے غم زدہ تھے۔ بھائیوں سے بڑھ کر محمد عارف مرحوم، جن کی ترجمہ کی ہوئی خبریں کئی برس ہم نے پڑھیں۔ غرض کس کس کو یاد کیجیے، کسے بھول جائیے!

    میں سمجھتا ہوں، ہم دونوں کے والدین کی دعاؤں کے باعث شادی کو چار چاند لگے۔ ہماری کسی نیکی کا صلہ یا ہمارے گھر میں مونا کے بھاگوان قدم کہ شادی کے آغاز پر ہی ایک صوفی گھرانے کے بزرگ صاحبزادہ نصیر الدین نصیر گولڑویؒ نے خود آکر دعا فرمائی اور شادی کا سہرا بھی لکھا۔ لاتعداد لوگوں نے اپنی محبت کے پھول نچھاور کیے۔ اور پھر سربراہِ مملکت نے باوجود اتنی رکاوٹوں اور وقت کی قلّت کے، ایک ادنیٰ سے فن کار کا مان اور عزت بڑھانے کی خاطر بنفسِ نفیس شرکت کر کے ان لمحات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یادگار بنا دیا۔

    (پی ٹی وی کے معروف نیوز کاسٹر خالد حمید کی آپ بیتی سے اقتباس)

  • جب میر تقی میر نے رعایت خاں کی نوکری چھوڑی

    جب میر تقی میر نے رعایت خاں کی نوکری چھوڑی

    شاعر کو تلمیذِ رحمانی بھی کہا گیا ہے اور پیغمبر کا بھی درجہ دیا گیا ہے، لیکن میر تقی میر تنہا شاعر ہیں جن کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔

    ولی دکنی، سودا، نظیر اکبرآبادی، انیس، غالب اور اقبال کے ہوتے ہوئے میر اردو شاعری میں عظمت کے تنہا مسند نشین نہیں ہیں اور نہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ وہ اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اردو کے تمام شعرا میں سرفہرست میر ہی کا نام رہے گا۔ ڈیڑھ سو برس سے اردو کے عظیم شعراء میر کو خراجِ عقیدت پیش کرتے آئے ہیں اور یہ بات ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے کہ ’’آپ بے بہرہ ہے ہے جو معتقد میر نہیں۔‘‘

    یوں تو میر کی بد دماغی کے بہت سے افسانے مشہور ہیں لیکن انہوں نے خود اپنی آپ بیتی ’’ذکرِ میر‘‘ میں ایک واقعے کا ذکر کیا ہے۔ یہ ان کی جوانی کا زمانہ تھا اور وہ رعایت خاں کے نوکر تھے لکھتے ہیں، ’’ایک چاندنی رات میں خان کے سامنے ڈوم کا لڑکا چبوترے پر بیٹھا گا رہا تھا۔ (خان نے) مجھے دیکھا تو کہنے لگا کہ میر صاحب، اسے اپنے دو تین شعر ریختے کے یاد کرا دیجیے تو یہ اپنے ساز پر درست کر لے گا۔ میں نے کہا، یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ کہنے لگا میری خاطر سے۔ چونکہ ملازمت کا پاس تھا۔ طوعا و کرہا تعمیل کی اور پانچ شعر ریختے کے اسے یاد کرائے۔ مگر یہ بات میری طبعِ نازک پر بہت گراں گزری۔ آخر دو تین دن کے بعد گھر بیٹھ رہا۔ اس نے ہر چند بلایا، نہیں گیا، اور اس کی نوکری چھوڑ دی۔‘‘ (بحوالہ، میر کی آپ بیتی۔ نثار احمد فاروقی)

    (علی سردار جعفری کے مضمون بعنوان میر: صبا در صبا سے اقتباس)

  • بیگم انیس قدوائی اور ’’آزادی کی چھاؤں میں‘‘

    بیگم انیس قدوائی اور ’’آزادی کی چھاؤں میں‘‘

    یہ بیگم انیس قدوائی کا مختصر تعارف اور ان کی اُس خود نوشت کی تحریری جھلک ہے جو ایک طرف تو متحدہ ہندوستان کے حالات اور بٹوارے کی کرب انگیز کہانیاں سناتی ہے اور دوسری طرف اسے پڑھ کر ہم اس زمانے کی کئی نمایاں شخصیات اور ان کے کارناموں سے بھی واقف ہوسکتے ہیں۔

    کتاب کی مصنّف بیگم انیس قدوائی نے اس آپ بیتی میں ایک جگہ لکھا ہے۔

    "1947ء میں اپنا چوٹ کھایا ہوا، رِستا ہوا دل لے کر دہلی پہنچی تو گاندھی جی نے خاندان کی سب سے بیکار ہستی کو ایک ایسا کام سونپ دیا جس کی اہمیت کا اندازہ اب ہو رہا ہے۔ اسی کی بدولت میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اور اسی سلسلے میں انسانیت و بہیمیت کے بہتیرے مناظر نظر سے گزرے۔”

    بیگم انیس قدوائی گاندھی اور ان کی فکر سے بہت متاثر تھیں۔ گاندھی بھی ان کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ انیس کے شوہر کی بٹوارے کے موقع پر ہلاکت کے بعد گاندھی جی نے دل گرفتہ اور مایوس انیس قدوائی کے نام اپنے خط میں لکھا: "تمہارا درد اتنا وزنی ہے کہ اس کو سوچ کر ہی تکلیف ہوتی ہے، یہ درد بانٹنا مشکل ہے لیکن تم تو انیس ہو، تم ان کیمپوں میں جاؤ، جہاں ایسے ہی مایوس دلوں کی بھیڑ لگی ہے۔ جاؤ اور انہیں دلاسہ دو۔ کیوں کہ تم ہی ایسا کرسکتی ہو۔”

    انیس قدوائی نے ایسا ہی کیا اور پھر وہ ایک باشعور عورت، علم و ادب کی شوقین خاتون ہی نہیں رہیں، بلکہ ایک سماجی کارکن کے طور پر بھی شہرت پائی، ایک ایسی خاتون جس نے بلا تفریقِ مذہب و ملّت بٹوارے کے موقع پر فسادات سے متاثرہ خاندانوں کو سنبھالا اور ان کی باقی ماندہ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے جو کچھ بن پڑا، وہ کیا۔

    اگر ہندوستان میں ادبی دنیا پر نظر ڈالیں تو انیسویں صدی میں خواتین نے جہاں ناول، افسانہ، مختلف موضوعات پر تحریریں‌ لکھ کر نام و مقام بنایا وہیں آپ بیتیاں بھی سامنے آئیں اور ان میں ہم متحدہ ہندوستان کے حالات، دلّی کی بربادی کا قصّہ، آزادی کی جدوجہد اور تقسیمِ ہند کے نتیجے میں جو کچھ ہوا، اس کی تفصیل پڑھ سکتے ہیں۔ بیگم انیس قدوائی کی خود نوشت نے بھی قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ ان کی یہ آپ بیتی ’’آزادی کی چھاؤں میں‘‘ کے عنوان سے شایع ہوئی اور بہت مشہور ہوئی تھی۔ اس میں انیس قدوائی نے اپنے فلاحی کاموں اور اس دوران ہونے والے تجربات کے ساتھ ہندوستان کی تاریخی اور سماجی تصویر بھی پیش کی ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ انگریزی میں بھی کیا گیا۔ یہ خود نوشت ایک ذاتی ڈائری کی طرح ہے جس میں 1947 میں آزادی کے دوران پیش آنے والے واقعات اور اس کے کچھ سال بعد کا احاطہ کیا گیا ہے۔

    ادیب اور سماجی کارکن انیس قدوائی بارہ بنکی کے مشہور نیشنلسٹ قدوائی خاندان کی فرد تھیں۔ وہ بھارت میں 1956 سے 1968 تک راجیہ سبھا کی رکن بھی رہیں۔ ان کے والد وکیل تھے اور معروف اخبار ’کامریڈ‘ اور ’نیو ایرا‘ میں مزاحیہ کالم بھی لکھتے تھے۔

    بیگم قدوائی 1902ء میں پیدا ہوئیں اور 1982ء تک حیات رہیں۔ ان کے خاوند کا نام شفیع احمد قدوائی تھا اور ان کے بھائی اُس وقت کے وزیرِ قانون رفیع احمد قدوائی تھے۔ خاوند کے فسادات میں مارے جانے کے بعد بیگم صاحبہ لاوارث بچّوں کو تحفظ دینے اور ان کی دیکھ بھال کے اداروں کے قیام کے لیے کوشاں رہیں۔

    یہ خود نوشت اردو نثر کی کسی بھی مصنّفہ کی سواںح اور تاریخ کی کتاب کے مقابلے میں اس لیے زیادہ اہمیت اختیار کرجاتی ہے کہ اسے ایک باہمّت، بلند حوصلہ عورت نے رقم کیا جس کا گھر بٹوارے نے چاٹ لیا تھا، لیکن اس نے اپنی زندگی کو بامقصد اور تعمیری انداز سے گزارا اور اپنے غم و اندوہ کو ایک مثبت طاقت میں تبدیل کر دیا۔

    انیس قدوائی کی اس خود نوشت میں ان کی نثر پُر زور اور شگفتہ ہے۔ وہ اپنا طرزِ تحریر خوب صورت اشعار سے اس طرح سجاتی ہیں کہ اکثر مقامات پر ان کی نثر میں اشعار کی وجہ سے معنی خیزی پیدا ہوگئی ہے۔

    اس کتاب کے پیش لفظ میں انیس قدوائی لکھتی ہیں۔ "انیسویں صدی کا صعوبت، افلاس اور افراتفری سے بھرپور دور اپنی دکھ بھری کہانیوں کی بدولت جہاں تاریخ کا جزو بنا، وہیں اس مردم خیز زمانے نے ایسی ایسی شخصیتیں بھی ہندوستان کو تفویض کیں جنہوں نے تاریخ، صحافت، علم، سیاست اور شعر و ادب کی دنیا کو بھی مالا مال کر دیا۔”

    اپنی کتاب کے مندرجات سے متعلق وہ لکھتی ہیں، "اگلے صفحات میں آپ جن قابلِ قدر ہستیوں سے روشناس ہوں گے، وہ سب انیسویں صدی کی پیداوار اور بیسویں صدی کی تاریخ ساز شخصیتیں تھیں۔ ان کی علمی قابلیت، اخلاقی کردار، تدبر، خوش ذوقی، دنیا سے محبت بھرا لگاؤ اور دینی خوش عقیدگی موجودہ دور میں شاید عجیب معلوم ہو، لیکن وہ اس وقت ہمیں آئیڈیل، موزوں اور خالص ہندوستانی پیداوار کی حیثیت سے بہت محبوب تھے۔”

    وہ مزید رقم طراز ہیں، "لکھنے کا کوئی مقصد ہونا چاہیے، لیکن ماضی کو دہراتے وقت اکثر مقصد نگاہ سے اوجھل ہو کر صرف خاکہ یا افسانہ رہ جاتا ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ قارئین اس میں سے اپنی پسند کی یا ضرورت کی کوئی بات چن لیں۔ صفحاتِ کاغذ پر اجاگر ہونے والوں کی خاک مٹی میں مل چکی۔ بس یہ اندیشہ ہے کہ کہیں یہ ویرانے دیوانوں کا تختۂ مشق نہ بن جائیں۔ بقول صفیؔ لکھنوی

    آج دیوانہ اڑاتا ہے جو ویرانے کی خاک
    کل اڑائے گا یونہی ویرانہ دیوانے کی خاک

    اس لیے اس خاک کو سمیٹ، عزت و احترام کے ساتھ نذرِ گلستاں کر رہی ہوں۔”

    بیگم انیس قدوائی نے اپنی اس خودنوشت میں ایک مقام پر لکھا، "1947ء میں اپنا چوٹ کھایا ہوا، رِستا ہوا دل لے کر دہلی پہنچی تو گاندھی جی نے خاندان کی سب سے بیکار ہستی کو ایک ایسا کام سونپ دیا جس کی اہمیت کا اندازہ اب ہو رہا ہے۔ اسی کی بدولت میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اور اسی سلسلے میں انسانیت و بہیمیت کے بہتیرے مناظر نظر سے گزرے۔ اقبال کا شعر پڑھا تو بہت مرتبہ تھا مگر اس کے صحیح معنیٰ سمجھ میں آنے کا شاید یہی وقت مقرر تھا اور میں قائل ہو گئی کہ واقعی؎

    نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

    دہلی میں لاکھوں آدمی دیکھے مگر ان میں اور ہندوستان کے اس قدیم مایہ ناز انسان میں کوئی مناسبت نہ تھی۔ یہ ایک نیا دور تھا جس میں ہماری شجاعت اور سورمائی بچہ کو قتل کر کے بھی اتنی ہی مطمئن اور خوش ہو سکتی تھی جتنا کہ کسی بڑے دشمن کو ختم کر کے ہوتی۔ مسلمان بے تحاشا بھاگ کر کسی کونے میں چھپ کر اسی طرح خدا کا شکر ادا کرتا تھا جیسے کوئی میدان مار کر آیا ہو۔ ایک دوسرا کسی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر خوشی سے ناچ جاتا تھا کہ وہ پورا سپاہی بن گیا ہے۔ ملیح چہروں والے نوجوان لڑکے کالج اور اسکولوں کو چھوڑ کر دیا سلائی، مٹی کا تیل، اینٹیں اور چاقو اکٹھا کرنا تحصیل علم سے زیادہ ضروری سمجھتے تھے۔ اور پھر

    گھر جلا سامنے اور ہم سے بجھایا نہ گیا

    یہ تھا سینتالیس، اڑتالیس کا ہندوستان جس کی تصویر میں آپ کو دکھانا چاہتی ہوں۔ اس لیے نہیں کہ پڑھنے والے لطف اندوز ہوں بلکہ اس لیے کہ:

    تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
    گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را

    اسی کتاب میں انیس قدوائی نے اپنے شوہر سے خط کتابت کا بتایا ہے جو تقسیم کے موقع پر دوسرے شہر میں مقیم تھے، وہاں وہ کیا کررہے تھے اور جب فسادات پھوٹے تو ان پر کیا بیتی یہ سب اس کتاب میں بتایا ہے۔ یہ کتاب اپنے طرزِ تحریر کے سبب ایک تصویری کہانی بن گئی ہے جس میں کرب ہے، کڑے وقت میں انسانی رویّوں کی منظر کشی ہے اور بہت کچھ جسے پڑھ کر دل بھر آئے۔

    انیس قدوائی کو طنز و مزاح اور انشائیہ نگاری سے دل چسپی اپنے والد سے ورثہ میں ملی تھی۔ "آزادی کی چھاؤں میں” کے علاوہ ان کی تصنیف "نظرے خوش گزرے” اور "اب جن کے دیکھنے کو” کے نام سے شایع ہوئیں۔ آخرالذّکر ان کے تحریر کردہ 13 دل چسپ اور یادگار خاکوں کا مجموعہ” ہے۔

  • عشق اولڑا جی جنجال

    عشق اولڑا جی جنجال

    نانا جان بہت پہلے فوت ہو چکے تھے؛ میری یادداشت کا حصہ ہونے سے بہت پہلے۔ تاہم وہ امی جان کی یادداشت کا حصہ تھے اور وہ ان کے حوالے سے اپنے بچپن کے کئی واقعات سنا چکی تھیں۔ یہ سب واقعات تقسیم سے بہت پہلے کے برسوں کے ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک واقعہ اس قحط کا بھی تھا جس کا ذکر میرے ایک افسانے ‘معزول نسل’ میں آ چکا ہے۔

    اس قحط میں سب گھر والے کڑوا باجرہ اور جوار کھانے کو مجبور تھے۔ تب گندم کہیں نہ ملتی تھی یا پھر اتنی مہنگی ملتی کہ خرید کر کھانے کے لیے وسائل دستیاب نہ تھی۔ ان دنوں لوگوں کے پاس پیسہ کم کم ہوتا تھا۔ سب کے حالات اتنے مخدوش ہو گئے تھے کہ یہ کم کم پیسہ بھی نہ رہا تھا۔

    نقد نہ ہونے کی صورت میں سدا رامیے کراڑ کی ہٹی سے کوئی بھی اناج، مرغیاں یا انڈے دے کر بدلے میں مطلوبہ جنس یا سوداسلف لیا جاتا تھا۔ کوئی اناج کہاں باقی بچا تھا؟ قحط نے کچھ ایسی مشکل کھڑی کر دی تھی کہ دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے تھے۔

    بس ایک کڑوا باجرا اور ایک دو ٹوپے جوار کے میسر تھے اور اسی اناج سے پیٹ کی آگ بجھائی جارہی تھی۔ امی جان کے مطابق وہ یا ان کی بہنیں جب کڑوے باجرے یا جوار کی روٹی کھانے سے انکار کر دیتی تھیں تو اکثر وہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ یا چادر کا پلو رکھ کر باہر نکل جاتے تھے ۔ یقیناً تب وہ اپنے آنسو چھپا رہے ہوتے تھے۔

    یہ بات مرد کی شان کے خلاف تصور ہوتی کہ وہ روئے۔ چاہے تکلیف برداشت کی حد سے بڑھ جائے اور چاہے دُکھ کا پہاڑ کچل کر رکھ دے اُسے برداشت اور ضبط سے کام لینا ہوتا۔ہاں عورت رو سکتی تھی۔ دھاڑیں مار مار کر رو سکتی تھی۔ دلہنیں ڈولی میں بیٹھتے ہوئے روئیں یا مائیں بہنیں انہیں رخصت کرتے ہوئے، کوئی بچھڑ جائے تو بین کیے جائیں یا کوئی بچھڑا ملے اور خوشی سے بھل بھل آنسو بہنے لگیں، عورت پر کوئی قدغن نہیں تھی۔

    مرد کا چاہے ضبط سے کلیجہ پھٹا جا رہا ہو،اُس کی آنکھ گیلی نہیں ہونے چاہیے۔ پتلیاں ذرا سا بھیگتیں تو فوراً طعنہ آجاتا ’کیا تم کوئی عورت ہو؟’

    نانا جان کو یوں منھ آنکھیں ڈھانپے باہر نکلتے دیکھ کر نانی جان نے رندھائی ہوئی آواز میں کہا تھا؛ ’عورتوں کی طرح روتا ہے۔ ’امی جان جب یہ بتا رہی تھیں تو خود بھی اپنے باپ کی طرح چہرہ دوپٹے سے ڈھانپے ہوئے تھیں۔

    (حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘ سے اقتباس)

  • نیم حکیم ‘محمد چھتلذ چھتل’ اور نامعلوم شاعر ‘کانو’

    نیم حکیم ‘محمد چھتلذ چھتل’ اور نامعلوم شاعر ‘کانو’

    اُردو زبان میں‌ مشاہیر کی ذاتی زندگی اور حالات و واقعات پر مبنی آپ بیتیاں نہ صرف ہر خاص و عام کی دل چسپی کا باعث بنتی ہیں بلکہ مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ شخصیات کی انفرادی زندگی کے ساتھ ان کے دور کے تاریخی اور کئی اہم واقعات کا مستند حوالہ بھی ثابت ہوتی ہیں۔

    یہاں ہم سندھی زبان کے مشہور شاعر اور ادیب شیخ ایاز کی خودنوشت سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں جن میں انھوں نے اپنے دور کے دو ایسے کرداروں کا تذکرہ کیا ہے جو غالباً اُن کے لیے بھی عجیب و غریب اور پُراسرار رہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    محمد چھتلذ چھتل ایک نیم حکیم تھا اور جمیعت الشعراء کا ممبر تھا۔ میں جب چھوٹا سا تھا تو وہ شکار پور کے شہر لکھی در میں اپنا سامان زمین پر سجا کر بیٹھا کرتا تھا۔ اس سامان میں قسم قسم کی شیشیاں اور بڑے بڑے مٹی کے تھال ہوتے تھے۔ کچھ تھالوں میں تیل میں شرابور مرے ہوئے سانڈے اور کیکڑوں جیسے بڑے بچھو ہوتے تھے۔ چند تھالوں میں مختلف رنگ کے دوائیوں کے سفوف اور گولیاں ہوتیں۔ اس حکیم کے ساتھ عام طور پر ایک نوعمر لڑکا بھی ہوتا تھا جس کے ساتھ وہ مل کر "میں عامل تو معمول” والا ڈرامہ رچایا کرتا تھا۔

    اور جب مجمع میں لوگ جمع ہونے لگتے تو وہ اردو کا درج ذیل شعر اپنی کراری زبان میں پڑھنے لگتا،

    سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
    کہ خوشبو آنہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

    اور پھر یہ دیکھ کر مجمع خوب جم گیا ہے اور تیل کی شیشیوں، کاغذ کی پڑیوں میں لپیٹے ہوئے سفوف اور شیشیوں میں بند گولیوں کے فائدے بتا کر انھیں ہجوم میں بڑی ہوشیاری سے فروخت کرتا اور خوب کمائی کرتا۔

    ان دنوں جمیعت الشعراء کا ایک رسالہ "ادیب سندھ” لاڑکانہ سے نکلا کرتا تھا جس میں جمیعت کے طرحی مشاعروں میں پڑھی گئی غزلوں کا انتخاب شایع ہوتا تھا اور آئندہ کے مشاعروں کے لیے طرح مصرع اور اس کا قافیہ ردیف بھی دیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر ایک طرح مصرع کی ردیف خالص تھی۔ اور قافیہ گلاب، خضاب اور جلاب وغیرہ۔ ان کا وزن چار بار مفاعلاتن دیا گیا تھا۔ اور مزید وضاحت کے لیے گلاب خالص، شراب خالص، خضاب خالص اور جلاب خالص وغیر قافیے اور ردیف اکٹھے کر دیے گئے تھے۔

    انہی دنوں ایک نامعلوم شاعر کے اشعار جس کا تخلص تھا "کانو” ، ‘ادیب سندھ’ کے انتخاب میں بڑے طمطراق سے چھپا کرتے تھے اور اس کی شاعری نے جمیعت الشعراء کے حلقوں میں کافی تھرتھری پیدا کر رکھی تھی۔ کوئی کہتا تھا کہ کانو دراصل نظامی ہے اور کسی کا خیال تھا کہ یہ کراچی کا کوئی اور شاعر ہے۔ اور جب بھی جمیعت الشعراء کے ارکان ایک دوسرے سے ملتے تو یہ سوال ضرور پوچھتے تھے کچھ پتا چلا یہ کانو کون ہے؟

  • جب والد کی مار پیٹ سے خوف زدہ اے حمید کو جھوٹ بولنا پڑا!

    جب والد کی مار پیٹ سے خوف زدہ اے حمید کو جھوٹ بولنا پڑا!

    یہ اردو کے مقبول ناول نگار اور ڈرامہ نویس اے حمید کی زندگی کا ایک دل چسپ باب ہے جس میں وہ بتاتے ہیں‌ کہ والد ان کے مستقبل کے لیے فکر مند تھے اور اکثر ڈانٹ ڈپٹ بلکہ مار پیٹ تک نوبت آجاتی تھی۔ اے حمید نے جھوٹ بول کر کس طرح ایک معمولی نوکری حاصل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد اپنا ادبی سفر کیسے شروع کیا۔ اے حمید کی زبانی جانیے۔

    "یہ قیامِ پاکستان سے چند برس پہلے کا زمانہ تھا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد میں حسبِ عادت خانہ بدوشوں والی زندگی بسر کر رہا تھا۔ صبح امرتسر تو شام لاہور میں ہوتی تھی۔”

    "والد صاحب مجھے کسی جگہ مستقل ملازمت دلوانے کی فکر میں رہتے تھے۔ میں ان سے خوف زدہ بھی تھا۔ وہ پہلوان ٹائپ آدمی تھے اور ان کو میرے مستقبل کی فکر بھی تھی جو بڑی جائز بات تھی۔ میری حالت یہ تھی کہ کسی جگہ ٹک کر کام کرنا میرے مزاج کے بالکل خلاف بات تھی۔”

    "ان کی ڈانٹ ڈپٹ بلکہ مار پیٹ سے تنگ آکر میں کلکتہ اور بمبئی کی طرف بھی بھاگ جایا کرتا تھا، کبھی ان کے قابو آ جاتا تو کسی جگہ مہینہ ڈیڑھ مہینے کے لیے نوکری بھی کر لیتا تھا۔ چنانچہ جب میں نے پہلی بار عرب ہوٹل کو دیکھا تو اس زمانے میں اسلامیہ کالج کی لائبریری میں بطور کیئرٹیکر ملازم تھا۔ یہ ملازمت بھی میں نے جھوٹ بول کر حاصل کی تھی۔”

    "لائبریری کا لائبریرین ایک دُبلا پتلا، گورے رنگ کا کم سخن، بڑی ذہین آنکھوں والا دانشور قسم کا نوجوان جہانگیر تھا۔ پورا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ یہ نوکری میں نے اس لیے بھی کر لی کہ چاروں طرف کتابوں کی الماریاں لگی تھیں۔ لائبریری میں بڑی خاموشی رہتی اور بڑا ادبی قسم کا ماحول تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نیا نیا رنگون کی آوارہ گردیوں سے واپس آیا تھا۔ جہانگیر صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے لائبریری میں کام کرنے کا پہلے کوئی تجربہ ہے؟ میں نے جھوٹ بولتے ہوئے بڑے اعتماد سے کہا… ’’جی ہاں! میں رنگون ریڈیو اسٹیشن کی لائبریری میں اسسٹنٹ لائبریرین تھا۔ حالانکہ مجھے لائبریری کے ٹیکنیکل کام کی بالکل سمجھ نہیں تھی۔ جہانگیر صاحب نے کچھ کتابیں میرے سامنے رکھ دیں اور کہا…
    ’’ان کی کیٹے لاگنگ کر دو۔‘‘”

    "میری بلا جانے کہ کیٹے لاگنگ کیسے کی جاتی ہے۔ میں کتابیں سامنے رکھ کر یونہی ان کے اوراق الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ جہانگیر صاحب میرے پاس ہی بیٹھے تھے۔ سمجھ گئے کہ میں اس میدان میں بالکل اناڑی ہوں۔ میں نے انہیں صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے یہ کام بالکل نہیں آتا لیکن اگر آپ نے مجھے نوکری نہ دی تو والد صاحب مجھے بہت ماریں گے۔ مسٹر جہانگیر بڑے شریف النفس اور درد مند انسان تھے۔ انہوں نے مجھے کیئرٹیکر کی نوکری دے دی۔ میرا کام کتابوں کو اٹھا کر الماری میں رکھنا اور نکالنا تھا۔ مجھے لائبریری کا ماحول اور اسلامیہ کالج کے لمبے خاموش ٹھنڈے برآمدوں میں چلنا پھرنا بڑا اچھا لگتا تھا لیکن یہ نوکری بھی میں نے دو مہینے کے بعد چھوڑ دی۔”

    "پاکستان بنا تو ہم بھی امرتسر کے مسلمانوں کے ساتھ ہجرت کر کے لاہور آ گئے۔ میں نے افسانے لکھنے شروع کردیے تھے اور لاہور کے ادبی حلقوں میں میرا ایک مقام بن گیا تھا۔ اپنے دوستوں احمد راہی اور عارف عبدالمتین کے ساتھ میں بھی کبھی کبھی عبدالمجید بھٹی صاحب سے ملنے عرب ہوٹل یا ان کی رہائش گاہ پر جاتا۔ بھٹی صاحب کی وضع داری اور مہمان نوازی میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑا تھا۔ کبھی وہ ہمیں ساتھ لے کر نیچے عرب ہوٹل میں آ جاتے اور پرانے دنوں کو یاد کرتے جب عرب ہوٹل کی ادبی محفلیں اپنے عروج پر تھیں۔”

    "پاکستان بن جانے کے بعد لاہور میں کافی ہاؤس اور پاک ٹی ہاؤس وجود میں آ چکے تھے اور یہ دو ریستوران ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں کے نئے ٹھکانے بن گئے تھے۔ لاہور کو شروع ہی سے ادبی اور ثقافتی اعتبار سے تاریخی حیثیت حاصل رہی تھی۔ چنانچہ قیام پاکستان کے بعد دیکھتے دیکھتے پرانے ریستورانوں کے علاوہ کئی نئے ریستوران کھل گئے جہاں روز و شب ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کی مجلسیں گرم رہنے لگیں۔ میں اس حقیقت کا عینی شاہد ہوں کہ اس زمانے میں لاہور کا کوئی چائے خانہ کوئی ریستوران ایسا نہ تھا جہاں کوئی نہ کوئی ادیب شاعر یا نامور صحافی نہ بیٹھتا ہو۔ مولانا چراغ حسن حسرت، عبداللہ بٹ، ریاض قادر اور دوسرے لوگ کافی ہاؤس میں بھی بیٹھے تھے اور میٹرو ہوٹل میں بھی اپنی محفلیں جماتے تھے۔ میٹرو ہوٹل اس جگہ واقع تھا جہاں آج کل واپڈا ہاؤس ہے۔ چیئرنگ کراس سے لے کر ٹولنٹن مارکیٹ تک مال روڈ پر آمنے سامنے کتنے ہی چھوٹے بڑے ریستوران تھے ان میں سے کسی کی چائے، کسی کے سینڈوچ اور کسی کی پیسٹری مشہور تھی۔ مال روڈ پر بھٹی فوٹو گرافر کے ساتھ والے شیزان ریسٹوران کی بیکری خاص طور پر لیمن ٹاٹ، چکن سینڈوچز اور فروٹ کیک کی بڑی شہرت تھی۔ جب کہ شاہ دین بلڈنگ والے اور ینگز ریستوران کی چائے کے فلیور کا جواب نہیں تھا۔ یہ بھی ایک عجیب پراسرار، پرسکون، خاموش کلاسیکل ریستوران تھا جس کے فرش پر قالین بچھے تھے۔ گول میزوں پر تانبے کا پترا چڑھا تھا۔ تانبے کے بڑے گلدانوں میں یوکلپٹس کی ٹہنیاں بھی ہوتی تھیں۔ بہت کم لوگ وہاں بیٹھے دکھائی دیتے تھے۔ فضا میں چائے کے فلیور کے ساتھ یوکلپٹس کے پتوں کی دھیمی دھیمی مہک پھیلی ہوتی تھی۔ بڑی رومانٹک خاموشی ہر وقت ماحول پر طاری رہتی تھی۔”