Tag: آپ بیتیاں

  • عام انتخابات: پاکستان کے مشہور سیاست دانوں کی آپ بیتیاں

    عام انتخابات: پاکستان کے مشہور سیاست دانوں کی آپ بیتیاں

    آپ بیتی یا خودنوشت میں مصنّف اپنی زندگی کے حالات و واقعات اور تجربات کو بیان کرتا ہے۔ آپ بیتی محض احوال و واقعات کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ اکثر اوقات یہ جذبات و احساسات، مشاہدات اور تجربات کا ایسا نمونہ ہوتی ہے جو بحیثیتِ مجموعی زندگی کے بارے میں مصنّف کے نقطۂ نظر کو بھی سامنے لاتی ہے۔

    اردو زبان میں خود نوشت یا آپ بیتیوں کو ایک صنفِ ادب کا درجہ حاصل ہے اور اگر کوئی آپ بیتی کسی مشہور شخصیت کی تصنیف کردہ ہو تو باذوق قارئین ہی نہیں‌ اکثر عام لوگ بھی پڑھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ خودنوشت کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں ادب اور ثقافت کی چاشنی کے ساتھ تہذیب اور معاشرت کے رنگ، تاریخ کے حوالے، سیاست اور سیاسی نظام کی کہانی بھی پرھنے کو ملتی ہے۔ غرض ہر موضوع پر مختلف واقعات اور قصّے پڑھنے کے ساتھ معلومات میں‌ بھی اضافہ ہوتا ہے۔

    پاکستان میں اس وقت عام انتخابات کا شور ہے۔ سیاسی جماعتیں‌ انتخابی منشور کا اعلان اور عوام کے سامنے مختلف جماعتوں کے قائدین اپنے سیاسی حریفوں پر الزامات عائد کرتے نظر آرہے ہیں۔ 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کی مناسبت سے ہم یہاں آپ کے لیے چند خود نوشت یا اُن آپ بیتیوں‌ کا ذکر کررہے ہیں جن کے مصنّفین نے کار زارِ سیاست میں‌ ایک عمر گزاری ہے۔

    اردو ادب میں بعض سیاست دانوں کی تحریر کردہ خود نوشت مشہور ہیں جو دل چسپ ہی نہیں‌ ایک مستند دستاویز کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ ان آپ بیتیوں کو پڑھ کر ہم سیاست اور جمہوریت کے کئی راز، ملک میں‌ ہونے والے انتخابات کا احوال، دوست ممالک سے تعلقات، ان میں اتار چڑھاؤ، ملک دشمن عناصر اور پاکستان کے خلاف سازشوں کے بارے میں‌ جان سکتے ہیں۔ سیاسیاست اور تاریخ‌ کے طلباء کے لیے ان کا مطالعہ مفید ہو گا اور عام قارئین کی بھی دل چسپی کا باعث بنیں‌ گی۔

    سیاست پر مبنی ان مشہور آپ بیتیوں میں “پردے سے پارلیمنٹ تک”، “ہاں میں باغی ہوں”، “فرزندِ پاکستان”، “میری تنہا پرواز”، “بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک”، “ایونِ اقتدار کےمشاہدات”، “چاہ یوسف سے صدا”، “سچ تو یہ ہے”، “اور لائن کٹ گئی”، “اور بجلی کٹ گئی” شامل ہیں جن میں کئی انکشافات کیے گئے ہیں اور اسی لیے یہ خاص اہمیت کی حامل ہیں‌۔

    اور لائن کٹ گئی
    مولانا کوثر نیازی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں اور یہ انہی کی سیاسی روداد پر مبنی کتاب ہے۔ مولانا نے یہ کتاب 1977ء میں اپنے ایّامِ اسیری میں لکھی۔ یہ آپ بیتی ملک میں‌ بیسٹ سیلر کتاب ثابت ہوئی۔ مولانا کوثر نیازی نے اس کتاب میں سیاست دانوں، فوجی عہدے داروں اور خود اپنے بارے میں بھی کئی ہوشربا انکشافات کیے ہیں۔

    میں باغی ہوں
    یہ ممتاز سیاست داں جاوید ہاشمی کی آپ بیتی ہے۔ جاوید ہاشمی طویل سیاسی سفر میں کئی رازوں‌ کے امین ہیں اور کئی سرد و گرم دیکھے ہیں۔ ان کی وضع داری اور جمہوریت کی خاطر ان کی قربانیوں کا اپنے پرائے سبھی اعتراف کرتے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے اس خودنوشت میں‌ کئی عجیب و غریب واقعات اور ہوش ربا انکشاف بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک
    یہ راجہ انور کی خودنوشت ہے جنھوں نے جوانی میں میدانِ سیاست میں قدم رکھا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو تشکیل ہوتے دیکھا اور ذوالفقار علی بھٹو کی قربت حاصل کی۔ مارشل لاء کے زمانے میں کئی بار جیل گئے اور اس آپ بیتی میں راجہ انور نے اسی دور کے شب و روز، اپنے خاندان اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کو بیان کیا ہے۔ یہ آپ بیتی جیل اور قید خانوں کے بارے میں کئی حیران کن انکشافات کرتی ہے۔

    ایوانِ اقتدار کے مشاہدات
    گوہر ایوب کا نام سیاست اور افسر شاہی کے حوالے سے بہت معروف ہے اور وہ ایوب خان کے فرزند بھی ہیں۔ کئی اہم وزارتوں پر فائز رہنے والے گوہر ایوب کی یہ مشہور آپ بیتی ہے جس میں پچھلے پچاس برس میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر انقلاب اور تبدیلیوں کو بھی انھوں‌ نے بیان کیا ہے۔ گوہر ایوب خان نے ملکی سیاست اور سیاست دانوں‌ کے متعلق کئی انکشافات بھی کیے ہیں۔

    فرزندِ پاکستان
    یہ شیخ رشید احمد کی سرگزشت ہے جسے بڑی شوق سے پڑھا گیا۔ گزشتہ دہائیوں کی سیاسی، معاشی، معاشرتی تبدیلیوں پر اس کتاب میں شیخ رشید کے مشاہدات اور ذاتی تجربات کے ساتھ ہمیں ملکی سیاست کے کئی اہم واقعات اور انکشافات پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    چاہِ یوسف سے صدا
    پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی یہ آپ بیتی ان کی اسیری کے دوران رقم ہوئی۔ یوسف رضا گیلانی جس ملتان کے ایسے سیاسی اور پیر خاندان کے فرد ہیں‌ جو قیامِ پاکستان سے پہلے سے سیاست میں حصّہ لیتا رہا ہے۔

    سچ تو یہ ہے
    پنجاب کی سیاست کا ایک بڑا نام چوہدری شجاعت حسین کا ہے جن کی یہ خود نوشت چوہدری شجاعت کی پیدائش کے بعد سے 2008ء کے عام انتخابات تک کے حالات و واقعات کو ہمارے سامنے رکھتی ہے۔

    اور بجلی کٹ گئی
    یہ آپ بیتی مشہور سیاست داں اور سفارت کار سیدہ عابدہ حسین کے قلم سے نکلی ہے جس میں ان کی ذاتی زندگی کے ساتھ اہم سیاسی اور غیر سیاسی موضوعات پر تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ سب انگریزی زبان میں رقم کیا گیا تھا جس کا اردو ترجمہ بجلی کٹ گئی کے نام سے شایع ہوا۔

    میری تنہا پرواز
    مشہور صنعتی اور سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والی کلثوم سیف اللہ خان کی زندگی کے نشیب و فراز اور کام یابیوں کی داستان ہے۔ کلثوم سیف اللہ نے اپنی ذات، سیاست دانوں، حکم رانوں، ریاست اور دوسرے لوگوں سے متعلق اس کتاب میں کئی دل چسپ انکشافات کیے ہیں۔

    پردے سے پارلیمنٹ تک
    یہ معروف سیاست داں بیگم شائستہ اکرام اللہ کی آپ بیتی ہے جو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ اس آپ بیتی کی سیاست کے ساتھ ادب، تاریخ اور سماجی و معاشرتی لحاظ سے بھی کافی اہمیت ہے۔

  • ’اکثریت‘ کی قیمت!

    ’اکثریت‘ کی قیمت!

    اخباری کانفرنس میں بیٹھے ہوئے صحافیوں کو اندازہ ہوگیا کہ بھٹو صاحب اقتدار میں حصہ حاصل کیے بغیر اقتدار منتقل پر رضا مند نہیں ہوں گے اور یہ کہ حصہ وہ اپنی پارٹی کی حیثیت سے زیادہ مانگ رہے ہیں۔

    مغربی پاکستان میں اپنی اکثریت کی قیمت جو انھوں نے لگائی تھی، وہ بہت بھاری تھی، ان کو بھی اندازہ تھا، لیکن وہ یہ قیمت زبردستی وصول کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ اپنی جمہوریت نوازی بھی داؤ پر لگانے کو تیار تھے۔ غالباً فوج بھی ان سے یہی کام لینا چاہتی تھی۔ چناں چہ بھٹو صاحب کو فوج کی پشت پناہی حاصل تھی۔ یہاں تک کہ انھوں نے ایک موقعے پر یہ تک کہہ دیا کہ اگر مجیب صاحب اقتدار میں شراکت کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر ”اُدھر تم، اِدھر ہم۔“

    نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے یہ دھمکی بھی دے دی کہ ”جو سیاست داں (قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے) مشرقی پاکستان جائے گا، ہم اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔“ یہ وہ باتیں تھیں جو ان جیسے جمہوریت پسندی کے دعوے دار کو زیب نہیں دیتیں، لیکن اقتدار کی ہوَس اچھے اچھوں کو اندھا بنا دیتی ہے اور وہ وقتی فائدے پر مستقبل کو بھی قربان کر دیتا ہے۔ بھٹو صاحب پر یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ انھوں نے اقتدار کی خواہش میں سیاسی اندھے پن سے کام لیا اور بہ جائے اس کے کہ جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر اس موقعے پر جمہوریت کو مضبوط کرتے، اپنے آپ کو مضبوط کرنے میں لگ گئے۔ پاکستان میں جمہوریت کو تقویت پہنچانے کا یہ دوسرا اہم موقع تھا، جو ضایع کر دیا گیا۔

    پہلا موقع 1956ء میں آیا تھا، جب ملک کا پہلا آئین منظور ہوا تھا اور اس کے تحت انتخاب کرانے کا اعلان کیا گیا تھا، جسے پہلے مارشل لا کے نفاذ نے تباہ کر دیا۔ دوسرا موقع یہ تھا جب جمہوری اصولوں کے تحت انتخابات کرائے گئے تھے اور کام یاب ہونے والی پارٹیوں کو عوام نے ان کے منشور سے متاثر ہو کر ووٹ دیا تھا۔ عوام کے اس فیصلے کا احترام کیا جانا چاہیے تھا۔

    (علی احمد خاں کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ”جیون ایک کہانی“ سے انتخاب)

  • حضرت مسکین شاہ اور جنّ

    حضرت مسکین شاہ اور جنّ

    اردو کے ممتاز ادیبوں، معروف اہلِ قلم اور مشہور روحانی شخصیات کی کتابوں‌ میں‌ ہمیں‌ ماورائے عقل واقعات، ناقابلِ فہم اور حیرت انگیز قصائص پڑھنے کو ملتے ہیں۔ کئی روایات کو بھی مشاہیر نے اپنی خود نوشت سوانح عمریوں، آپ بیتی یا یادداشتوں پر مبنی کتابوں میں‌ جگہ دی ہے، جو پڑھنے والوں میں‌ بہت مقبول ہیں، لیکن یہ نہیں‌ کہا جاسکتا کہ ان واقعات کی حقیقت کیا ہے۔

    یہاں ہم ملتان سے تعلق رکھنے والے ادیب ڈاکٹر سید زاہد علی واسطی خود نوشت ‘‘بیتی یادیں’’ سے ایک واقعہ نقل کر رہے ہیں۔ اس ماورائے عقل اور حیرت انگیز واقعے کے راوی کی حیثیت سے مصنّف لکھتے ہیں:

    "دورانِ ملازمت مجھے شہر شہر گھومنا پڑتا تھا۔ پاک پتن جب بھی جاتا کینال ریسٹ ہاؤس میں قیام کرتا اور مغرب و عشاء کی نمازیں ڈرائیور شمشاد شاہ کے ساتھ بابا فریدالدین شکر گنجؒ کی مسجد میں پڑھتا۔

    یہ سنہ 74، 75 کی بات ہے۔ احاطہ مسجد بازار کے قریب ایک مہذب شخص کو ضرور دیکھتا۔ آپ سعید الدین صدیقی تھے جن کی عمر پچاس پچپن کے لگ بھگ تھی۔ ان کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا۔

    حضرت مسکین شاہ حیدر آباد دکن کے بزرگ ہیں جو تیرہویں صدی ہجری کے وسط میں تشریف لائے۔ حضرت مسکین شاہ کا حیدر آباد میں 1896ء میں انتقال ہوا۔ محلّہ علی آباد، اندرونِ دروازہ کی جامع مسجد الماس میں ان کا مزار مرجع خلائق ہے۔ ایک روز مسکین شاہ کا ذکر چل نکلا تو سعید الدّین صدیقی نے یہ بتا کر ہمیں چونکا دیا کہ مسکین شاہ زبردست عامل تھے اور بہت سارے جنّ ان کے تابع تھے۔ حضرت موصوف بہت جلالی قسم کے بزرگ تھے۔ ہمہ وقت دس بارہ مؤکل ہاتھ باندھے حاضری میں کھڑے رہتے تھے۔

    غیر حاضری ان کو بہت کھلتی تھی۔ ہمہ وقت ذرا کوئی مؤکل نظر نہ آیا، چیختے ‘‘ابے فلانا کہاں دفع ہوگیا۔’’ بس جیسے ہی وہ آتا نافرمانی، غیر حاضری کی سزا پاتا اور درخت سے الٹا لٹکا دیا جاتا۔ حیدر آباد سے ذرا فاصلے پر دریائے کرشنا بہتا ہے۔ اس میں مؤکل کو دس دس بارہ گھنٹے سزا کے طور پر پانی میں غوطے کھانے کی سزا ملتی۔ کسی نے بھی ان کے سامنے ہونہہ کی اور حضرت صاحب کے تیور بدلے۔ چشمِ ابرو کا اشارہ ہوا اور اس پر کوڑوں کی بارش شروع۔ ہائے ہائے کی صدائیں آنے لگتیں۔ معافیاں مانگی جاتیں۔ شاہ صاحب کا دل پسیج جاتا تو ہاتھ کا اشارہ ہوتا، کبھی فرماتے‘‘بس کر کیوں مرے جا رہا ہے۔ اب غلطی نہیں کرے گا۔’’ اور فوراً ہائے ہائے کی آوازیں بند ہو جاتیں۔

    سب مؤکل حضرت صاحب کی خواہش کے تابع تھے۔ نہ معلوم کتنے جنوں کو تو انہوں نے جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ کتنوں کو درختوں پر لٹکا لٹکا کر مارا۔ ایک ایسے ہی جنّ کو انہوں نے جلا دیا تھا۔ اس جنّ کا ایک بیٹا تھا۔ اس کی ماں نے کہا، ‘‘اگر تو اپنے باپ کا بیٹا ہے تو مسکین شاہ سے اپنے باپ کا انتقام لے کر دکھا۔’’

    اس نے بیٹے کو ملکِ فارس بھیج دیا جہاں عاملوں اور ساحروں کا بہت زور تھا۔ بیٹے نے اس فن کو بقدرِ ظرف سیکھا اور بڑے بڑے عملیات حاصل کیے۔ حضرت صاحب کو اطلاع مل گئی۔ آپ نے پیغام بھیجا، اگر تُو جان کی امان چاہتا ہے تو فوراً حیدر آباد سے نکل جا، ورنہ جلا کر راکھ کر دوں گا مگر وہ جنّ نہ مانا۔ انہوں نے فرمایا اچھا! میں خود وہاں آتا ہوں۔ آپ وہاں پہنچ گئے، عمل کیا مگر اس پر اثر نہ ہوا اور وہ عمل الٹے ان کے گلے پڑ گیا۔ آخر وہ سمجھ گئے کہ یہ نوجوان جنّ زبردست ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے ایک چلّہ کی اجازت دے۔ اس نے جواب دیا کہ ایک چلّہ کم ہے۔ میں تین چلّوں کی اجازت دیتا ہوں۔

    مہلت ختم ہونے پر انہوں نے محسوس کیا کہ ان کا اس نوجوان جنّ پر بس نہیں چلے گا۔ آپ چھپتے چھپاتے بھاگ نکلے، برہان پور کے قریب ایک بستی میں پہنچے، وہاں ایک گمنام فقیر درویش کسمپرسی کی حالت میں جنگل میں نظر آیا۔ حضرت صاحب نے محسوس کیا کہ نوجوان جنّ بس دم بھر میں آیا ہی چاہتا ہے اور مجھے اپنے عمل سے مار ڈالے گا، چلو اس درویش سے ہی مدد لوں۔ شاید التفاتِ نظر سے کچھ مل جائے۔

    آپ نے سلام کیا، نام بتایا اور دو زانو بیٹھ گئے۔ جواب ملا‘‘ہاں میں تجھے جانتا ہوں، یہاں کیوں مارا مارا پھر رہا ہے….؟’’ اگر تو اپنی حرکتوں سے باز آنے کا وعدہ کرے تو اللہ مالک ہے۔’’ یہ کہہ کر درویش نے ہاتھ کا اشارہ کیا تو نوجوان جن کی ماں سامنے کھڑی تھی۔ درویش بولا ‘‘اے بی بی تیری بات پوری ہوگئی اب اپنے بیٹے کو روک دے، وہ اس کو نہ مارے۔’’ جنّی نے بیٹے کو بلا لیا اور حکم دیا کہ دشمنی ختم کر دے۔ حضرت صاحب خوش خوش حیدر آباد آگئے، تمام مؤکل آزاد کر دیے اور یادِ اللہ میں ایسے مصروف ہوئے کہ مسجد الماس میں ہی آپ کا مدفن بنا۔