Tag: آپ بیتی

  • ’اکثریت‘ کی قیمت!

    ’اکثریت‘ کی قیمت!

    اخباری کانفرنس میں بیٹھے ہوئے صحافیوں کو اندازہ ہوگیا کہ بھٹو صاحب اقتدار میں حصہ حاصل کیے بغیر اقتدار منتقل پر رضا مند نہیں ہوں گے اور یہ کہ حصہ وہ اپنی پارٹی کی حیثیت سے زیادہ مانگ رہے ہیں۔

    مغربی پاکستان میں اپنی اکثریت کی قیمت جو انھوں نے لگائی تھی، وہ بہت بھاری تھی، ان کو بھی اندازہ تھا، لیکن وہ یہ قیمت زبردستی وصول کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ اپنی جمہوریت نوازی بھی داؤ پر لگانے کو تیار تھے۔ غالباً فوج بھی ان سے یہی کام لینا چاہتی تھی۔ چناں چہ بھٹو صاحب کو فوج کی پشت پناہی حاصل تھی۔ یہاں تک کہ انھوں نے ایک موقعے پر یہ تک کہہ دیا کہ اگر مجیب صاحب اقتدار میں شراکت کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر ”اُدھر تم، اِدھر ہم۔“

    نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے یہ دھمکی بھی دے دی کہ ”جو سیاست داں (قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے) مشرقی پاکستان جائے گا، ہم اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔“ یہ وہ باتیں تھیں جو ان جیسے جمہوریت پسندی کے دعوے دار کو زیب نہیں دیتیں، لیکن اقتدار کی ہوَس اچھے اچھوں کو اندھا بنا دیتی ہے اور وہ وقتی فائدے پر مستقبل کو بھی قربان کر دیتا ہے۔ بھٹو صاحب پر یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ انھوں نے اقتدار کی خواہش میں سیاسی اندھے پن سے کام لیا اور بہ جائے اس کے کہ جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر اس موقعے پر جمہوریت کو مضبوط کرتے، اپنے آپ کو مضبوط کرنے میں لگ گئے۔ پاکستان میں جمہوریت کو تقویت پہنچانے کا یہ دوسرا اہم موقع تھا، جو ضایع کر دیا گیا۔

    پہلا موقع 1956ء میں آیا تھا، جب ملک کا پہلا آئین منظور ہوا تھا اور اس کے تحت انتخاب کرانے کا اعلان کیا گیا تھا، جسے پہلے مارشل لا کے نفاذ نے تباہ کر دیا۔ دوسرا موقع یہ تھا جب جمہوری اصولوں کے تحت انتخابات کرائے گئے تھے اور کام یاب ہونے والی پارٹیوں کو عوام نے ان کے منشور سے متاثر ہو کر ووٹ دیا تھا۔ عوام کے اس فیصلے کا احترام کیا جانا چاہیے تھا۔

    (علی احمد خاں کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ”جیون ایک کہانی“ سے انتخاب)

  • "تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے؟”

    "تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے؟”

    ایک دفعہ لاہور کے لکشمی چوک میں ایک پولیس والے نے حبیب جالب کی بے عزّتی کر دی۔ کسی نے پولیس والے کو نہ روکا۔

    قریب ہی آغا شورش کاشمیری کے ہفت روزہ چٹان کا دفتر تھا۔ انہیں معلوم ہوا کہ ایک پولیس والے نے جالب سے بدتمیزی کی ہے تو آغا صاحب اپنا کام چھوڑ کر لکشمی چوک میں آئے۔ ایک تانگے والے سے چھانٹا لیا اور پولیس والے کی پٹائی کی اور اس سے کہا کہ تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے؟ یہ جالب ہے۔

    پھر آغا صاحب تھانے جا بیٹھے اور وہاں دھرنا دے دیا۔ کہنے لگے کہ جس شہر کی پولیس حبیب جالب کی بے عزّتی کرے وہ شہر رہنے کے قابل نہیں اس لیے مجھے جیل بھیج دو۔

    پولیس والے معافیاں مانگنے لگے۔ علّامہ احسان الٰہی ظہیر کو پتہ چلا کہ آغا شورش کاشمیری نے تھانے میں دھرنا دے دیا ہے تو وہ بھی دھرنے میں آبیٹھے۔ مظفر علی شمسی بھی آگئے۔ شہر میں شور پڑ گیا۔ گورنر نے تھانے میں فون کیا لیکن آغا صاحب نے دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی کہ جس شہر میں جالب کی بے عزّتی ہو میں وہاں نہیں رہوں گا۔ بات وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچی تو بھٹو نے فون پر منت کی جس پر آغا صاحب دھرنے سے اٹھے۔

    اس واقعے کے بعد حبیب جالب ہر کسی کو کہتے پھرتے تھے، ’’شورش نے میری عزّت بچا لی، ابھی اس شہر میں رہا جاسکتا ہے۔‘‘

    (سینئر صحافی اور کالم نویس محمد رفیق ڈوگر کی آپ بیتی’’ڈوگر نامہ‘‘ سے انتخاب)

  • معرکۂ امبیلا

    معرکۂ امبیلا

    کالا پانی جعفر تھانیسری کی قید و بند کی سرگذشت ہے جس سے ہم ان پر ٹوٹنے والی ایک افتاد یہاں‌ نقل کر رہے ہیں۔ جعفر تھانیسری نے برطانیہ کے خلاف ‘غداری’ کے الزامات کے تحت بیس سال انڈمان جزائر میں قید کاٹی تھی۔

    وہ اپنی کتاب میں‌ "معرکۂ امبیلا” کے باب میں‌ رقم طراز ہیں:
    1863ء بمطابق 1280ھ کے آخر کی بات ہے کہ مغربی ہند کی سرحد کے قریب انگریزی سرکار کی زبردستی کی وجہ سے ایک عظیم جنگ شروع ہو گئی۔ جنرل چیمبرلین صاحب اس جنگ کے سپہ سالار تھے۔ امبیلے کی گھاٹی میں پہنچ کر سرکاری فوج کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، بیگانے ملک میں سرکار کی بے جا مداخلت کو دیکھ کر ملا عبد الغفور صاحب اخوند سوات بھی اپنے بہت سے مریدوں کو ساتھ لے کر آموجود ہوئے، ملکی خواتین اور افغان بھی اپنے بچاؤ کے لیے چاروں طرف سے سرکار پر ٹوٹ پڑے اور مجاہدین کا وہ قافلہ اس کے علاوہ تھا جن کی سرکوبی اور نیست و نابود کرنے کے لیے چڑھائی کی تھی۔

    الغرض بدعویٔ حفاظتِ خود اختیاری ہر کس و ناکس سرکار کے مقابل کھڑا ہو گیا۔ مجاہدین نے حصولِ شہادت کے جذبہ سے سرشار ہو کر شجاعت کے خوب خوب جوہر دکھلائے، یہ ہنگامۂ جنگ و جدل دو تین مہینے جاری رہا، اور تقریبا سات ہزار کشت و خون میں تڑپ گئے۔ خود جنرل چیمبرلین شدید مجروح ہوئے۔ پنجاب کی تمام چھاؤنیوں کی فوج کو اس جنگ میں جھونک دیا گیا تھا۔

    ادھر یہ ہنگامہ برپا تھا ادھر لارڈ ایلجن وائسرائے ہند اپنی اس حرکت پر نادم ہو کر راہیٔ ملکِ عدم ہوا اور ہندوستان بے گورنر ہو گیا۔

    واقعات کے اسی تسلسل میں‌ جعفر تھانیسری "سازش کا انکشاف” کے عنوان سے لکھتے ہیں:
    ایسے نازک وقت میں 11 دسمبر 1863ء بمطابق 28 جمادی الثّانی 1280ھ کو ایک ولایتی افغان غزن خان نے جو کہ پانی پت ضلع کرنال کی چوکی میں بطور پولیس سوار متعین تھا، کسی ذریعہ سے میرے حالات معلوم کیے اور اپنے دُنیوی فائدے کی خاطر ایک لمبی چوڑی اور جھوٹی داستان ڈپٹی کمشنر کرنال کو سنائی اور کہا کہ سرحد پر ہندوستانی مجاہدین سے لڑی جانے والی جنگ میں تھانیسر کا نمبر دار محمد جعفر مجاہدین کی روپیہ اور آدمیوں سے مدد کر رہا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے یہ داستان سنی تو بذریعہ تار ضلع انبالہ میں خبر بھیج دی؛ کیوں کہ ہمارا شہر تھانیسر اسی ضلع میں واقع ہے۔

    مخبر داستان سرائی کر کے باہر نکلا ہی تھا کہ ہمارے ایک دوست ڈپٹی کمشنر کرنال کی ملاقات کے لیے ان کے ڈیرے پر پہنچ گئے، جن سے گفتگو کے دوران ڈپٹی کمشنر نے اس مخبری کا ذکر بھی کیا۔ ملاقات کے بعد جب وہ دوست اپنے ڈیرے پر تشریف لائے تو انہوں نے اپنے ایک نوکر کاوا نامی سے جو میرا ہمسایہ تھا بطور افسوس اس واقعہ کا ذکر کیا۔ کاوا اسی وقت مجھے اطلاع دینے کے لیے تھانیسر دوڑ پڑا۔ جب تھانیسر پہنچا تو رات کافی بیت چکی تھِی۔ سب سے پہلے میرے مکان پر آیا لیکن میں اندر سو رہا تھا۔ اس نے جب دروازہ بند دیکھا تو آرام کے وقت میں تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا، اور یہ سوچا کہ صبح کے وقت اطلاع دے دوں گا۔ حقیقت یہ تھی کہ تقدیر اسے دروازے پر سے ہٹا لے گئی۔

    اب انبالہ کی کیفیت سنیے۔ جب یہ تار انبالہ پہنچا تو میری خانہ تلاشی کے لیے وارنٹ جاری ہوا، اور ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ کپتان پارسن، پولیس کی ایک بھاری جمعیت کے ساتھ راتوں رات میرے مکان پر پہنچ گیا۔ قدرتِ الٰہی کا تماشہ دیکھیے ایک ہی وقت میں دو آدمی روانہ ہوتے ہیں ایک کرنال سے مجھے خبر دینے کو اور دوسرا انبالہ سے میری خانہ تلاشی کو۔ کرنال والا جو میرا خیر خواہ تھا پہلے پہنچا اور کچھ نہ کر سکا۔

    چاک کو تقدیر کے ممکن نہیں کرنا رفو
    سوزنِ تدبیر ساری عمر گر سیتی رہے

    دوسرے صاحب رات کے تین بجے میرے گھر پر پہنچ گئے۔ چاروں طرف سے مکان کا محاصرہ کرنے کے بعد مجھے باہر بلایا۔ جب باہر نکلا تو دیکھا سپرنٹنڈنٹ پولیس، خانہ تلاشی کے وارنٹ کے ساتھ میرے دروازہ پر موجود ہے۔ اس نے وارنٹ دکھائے اور کہا کہ مکان کی تلاشی لو، میں اسی وقت سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے، میں نے سوچا کہ تلاشی پہلے گھر کے اندر کی ہو تو بہتر ہے؛ تاکہ بیٹھک میں رکھا ہوا خط پولیس کے ہاتھ نہ لگے، لیکن جو ہونا ہے اسے کون روک سکتا ہے، باوجود یکہ صدر دروازے کی اندرونی دہلیز میں بالکل اندھیرا تھا اور بیٹھک کا دروازہ جو کہ شمالی جانب تھا، بالکل نظر نہیں آتا تھا، لیکن سپرنٹنڈنٹ صاحب اسی پر مصر ہوئے کہ پہلے بیٹھک ہی کی تلاشی لی جائے۔

    بیٹھک میں داخل ہونے کے لیے دو دروازوں کا کھلوانا ضروری تھا، جوکہ اندر سے بند تھے۔ میں نے چالاکی سے منشی عبد الغفور کا نام (جو اس کے اندر چند آدمیوں کے ہمراہ موجود تھے) لے کر بلند آواز سے کہا کہ “سپرنٹنڈنٹ صاحب تلاشی کے لیے کھڑے ہیں، تم جلد دروازہ کھول دو۔” اس سے میری غرض یہ تھی کہ کسی طرح وہ لوگ تلاشی کی بات سمجھ کر دروازہ کھولنے سے پہلے اس زہریلے خط کو چاک کر دیں سپرنٹنڈنٹ نے میری پکار کو سمجھتے ہوئے مجھے روکا لیکن میں کہاں سنتا تھا، بیٹھک کے اندر والے گھبراہٹ میں میرے اشاروں کو سمجھ نہ سکے اور انہوں نے دروازہ کھول دیا۔ اب بیٹھک میں تلاشی ہونے لگی تو جس خط کا ڈر تھا، سب سے پہلے وہی پولیس کے ہاتھ لگا۔ اسی شام کو پکڑے جانے سے چھ گھنٹے پہلے تقدیر نے وہ خط میرے ہاتھ سے لکھوا رکھا تھا۔ خط امیرِ قافلہ کے نام تھا اور اس میں اصطلاحی لفظوں میں چند ہزار اشرفیوں کی روانگی کا ذکر تھا۔ اس کے علاوہ چند خطوطِ پارینہ بھی پولس کے ہاتھ لگ گئے، جو کہ محمد شفیع انبالوی کو پٹنہ سے ارسال کیے تھے، اگرچہ ان خطوط میں کوئی مضر بات نہ تھِی، مگر ان سے پولیس کو محمد شفیع انبالوی اور اہلِ پٹنہ مثلًا مولانا یحییٰ علی، مولانا عبد الرّحیم اور مولانا احمد اللہ وغیرہ (جو اس وقت تحریکِ مجاہدین کے ارباب حل و عقد تھے) کی تلاشی و تفتیش کا بہانہ ہاتھ آ گیا۔

    منشی عبد الغفور جو کہ بہار کے ضلع گیا کہ باشندے تھے اور میرے پاس محرری کا کام کیا کرتے تھے اور ایک لڑکے عباس نامی کو جو بیٹھک میں سویا ہوا تھا، پولیس پکڑ کر لے گئی، اگر چہ میری نسبت انھیں قوی شک ہو گیا تھا، لیکن وارنٹ گرفتاری اور گورنمنٹ کی منظوری کے نہ ہونے کی وجہ سے جو کہ ایسے مقدمات میں ضروری ہے، پولیس نے مجھ سے کچھ تعرض نہ کیا۔

    مصنّف نے تلاشی کا حال لکھنے کے بعد "فرار” کا واقعہ کچھ یوں‌ بیان کیا ہے:
    پولیس کی واپسی کے بعد یہ بات غور طلب تھی کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں نے اس خیال سے کہ چونکہ میرے گھر سے ثبوت مل گیا ہے، اور جنگِ سرحد کی وجہ سے حکومت کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے فرار ہو جانا اور بزدلی سے جان بچانا مناسب سمجھا، اگر چہ پولیس کی حراست میں نہیں تھا، مگر وہ چاروں طرف سے میرا سراغ لگائے ہوئے، میری حرکات کو تاک رہے تھے۔

    میں نے اپنی والدہ ماجدہ جو کہ اس وقت بقیدِ حیات تھیں اور اپنی بیوی سے صلاح و مشورہ اور انھیں اپنے فرار پر راضی کر کے یہ داؤ کھیلا کہ میں 12دسمبر 1863ء کو اپنے شہر سے روانہ ہو کر اوّل موضع پیپلی میں، جہاں تحصیل اور تھانہ و غیرہ ہے، آیا اور تحصیل اور پولیس کے ملازمین سے بھی رائے لی کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ سب نے بالاتفاق یہ رائے دی کہ تم انبالہ جاؤ اور وہاں سے دریافت کرو کہ یہ کیا مقدمہ ہے؟ اور کس نے مخبری یہ کی ہے؟

    یہ سب صلاح و مشورہ کرنے کے بعد میں بوقتِ شام براستہ سڑک کلاں پیپلی سے بظاہر انبالہ کو روانہ ہوگیا، اس وقت بہت سے آدمی چشمِ محبت اور افسوس سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ جب میں ایک گھوڑے پر سوار ہو کر چلا تو ہر کسی کو یقین ہو گیا کہ میں انبالہ جا رہا ہوں جب تک دن کی روشنی رہی میں برابر سڑک پر انبالہ کی طرف چلتا رہا۔ کوئی میل بھر راستہ چلنے کے بعد جب خوب تاریکی پھیل گئی اور مسافر بھی دور دور تک نظر نہ آتے تھے، تو میں نے سڑک کو چھوڑ کر جنگل کی راہ لی اور تھانیسر کے متصل اپنی زمین میں مقررہ جگہ پر ایک بجے رات پہنچ گیا۔

    جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ والدہ ماجدہ، بیوی، بچے اور بھائی محمد سعید آخری ملاقات کے لیے انتظار کر رہے ہیں۔ والدہ سے آخری ملاقات کر کے اور بیوی بچوں کو ساتھ لے کر ایک عمدہ بیلی پر سوار ہو‎ئے اور بتیس میل کا فاصلہ طے کر کے صبح پانی پت پہنچ گئے۔ میں شہر کے اندر گیا؛ بلکہ سڑک ہی سے بیوی بچوں کو رخصت کر دیا، اس وقت میں جس سے بھی رخصت ہوتا تھا زندگی میں دوبارہ ملنے کی امید نہ تھی۔ بہیلی والے سے میں نے کہا کہ میرے بیوی بچوں کو پانی پت میں چھوڑ کر تم بہیلی لے کر جمنا پار چلے جانا، یہ بہیلی مع بیلوں کی جوڑی جو تین سو روپیہ سے کم قیمت کے نہیں ہیں، ہم نے تمھیں اس شرط پر بخش دی کہ کسی کو میرے بال بچوں کی خبر نہ دینا اور جب تک یہ معرکہ گرم رہے تھانیسر نہ جانا۔

    جس وقت ڈاک خانہ پانی پت کے سامنے میں ساری عمر کے لیے اپنے بیوی بچوں سے جدا ہوا اور میرا یکّہ ان کے سامنے دہلی کو چلا، وہ حادثہ ناقابلِ بیان ہے۔ آج بھی وہ ایک ایک لمحہ میرے ذہن پر نقش ہے، اور شب و روز کی گردشوں کے باوجود میں اسے بھول نہ سکا۔

  • ہماری ایک شرط ہے!

    ہماری ایک شرط ہے!

    خود نوشت اپنی حیات کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کا آئینہ بھی ہوتی ہے۔ اس حیثیت سے جب ہم دیکھتے ہیں تو مصنّف اشفاق محمد خاں کی خود نوشت ’’اپنی بیتی‘‘ سے غلام ہندوستان کے حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔

    اگر کسی کو انگریزوں کے عہد میں ریکروٹمنٹ کے طریقۂ کار کو جاننے کی خواہش ہو تو اس کتاب میں اس ضمن کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے، جس سے اس کے طریقۂ کار کو جانا جا سکتا ہے۔ اپنے بابا جان علی محمد خاں کے پولیس میں جانے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے ابا جان ابھی 16 ہی برس کے تھے لیکن چونکہ وہ کھاتے پیتے ایک چھوٹے زمین دار گھرانے کے فرد تھے اس لیے ڈیل ڈول کے اعتبار سے 25 کے دکھتے تھے۔ ایک دن ایک انگریز پولیس افسر نے ان کو دیکھ کر پولیس کی نوکری کی پیشکش کر ڈالی۔ بابا جان نے کہا کہ جب تک میں اپنے والدین سے پوچھ نہ لوں اس وقت تک ہاں نہیں کہہ سکتا۔ جب والدین سے انہوں نے پوچھا تو جواب ملا:

    تم ضرور نوکری قبول کر لو مگر ہماری ایک شرط ہے کہ تم کبھی بھی کسی سے رشوت یا کمیشن نہیں لو گے اور نہ ہی کسی کا دل دکھاؤ گے اور ہمیشہ نماز کے پابند رہو گے۔

    علی محمد خاں نے ان شرائط کو بخوشی قبول کیا اور اس پر کار بند رہنے کے عہد کے ساتھ پولیس میں نوکری کے لیے انگریز افسر کو ہاں کہہ دی۔ ٹریننگ کے بعد بہت جلد قیصر باغ کوتوالی کے سب انسپکٹر بنا دیے گئے لیکن ہمیشہ اپنے عہد پر کار بند رہے۔ جب ان کو احساس ہوا کہ رشوت یا کمیشن کے بغیر بہت دنوں تک پولیس کی نوکری نہیں کی جا سکتی تو انہوں نے نوکری کو خیرآباد کہا اور 1932ء میں وظیفہ لے کر اپنے وطن قائم گنج واپس ہوگئے۔

    اس واقعے میں جہاں پولیس کے ریکروٹمنٹ کے نظام پر روشنی پڑتی ہے وہیں اس زمانے میں چل رہی رشوت اور کمیشن کے بول بالے کا پتہ چلتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کا بھی علم ہوتا ہے کہ انھیں کراہیت و خدشے کی وجہ سے مسلمان اپنے بچوں کو پولیس کی نوکری سے دور رکھنے کی کوشش بھی کرتے تھے جیسا کہ آج بھی ہوتا ہے۔

    (محقق شاہد حبیب کے مضمون سے اقتباس)

  • پیلی بھیت والے بزرگ میاں محمد شیر صاحب اور جنّات

    پیلی بھیت والے بزرگ میاں محمد شیر صاحب اور جنّات

    ‘‘جوانی کے شروع میں مجھے جنّات، ہمزاد اور ستاروں کو تابع کرنے کا شوق تھا۔ میں دو برس تک اس شوق میں مبتلا رہا۔ اس زمانے کا ذکر ہے کہ کسی نے مجھ سے کہا کہ پیلی بھیت میں بزرگ رہتے ہیں جن کا نام میاں محمد شیر صاحب ہے اور وہ ایسا عمل جانتے ہیں جس سے جنات، پریاں، بھوت اور ہمزاد وغیرہ آدمی کے تابع ہوجاتے ہیں۔ یہ سن کر میں پیلی بھیت گیا اور حضرت میاں صاحب سے ملا، مگر ان کی بزرگانہ اور فقیرانہ ہیبت کے سبب میری اتنی جرأت نہ ہوئی کہ اپنا مقصد ان سے کہتا، چپ چاپ ان کی محفل میں کچھ دیر بیٹھا رہا۔ یکایک وہ خود میری طرف مخاطب ہوئے اور یہ کہنا شروع کیا۔’’

    ‘‘ارے میاں دلّی والے! سنو جب ہم تمہاری عمر میں تھے تو ہمیں جنّات تابع کرنے کا شوق ہوا اور ہم کو ایک آدمی نے جنات مسخر کرنے کا عمل بتایا۔ ہم مسجد کی لمبی جائے نماز پر بیٹھ گئے، جونہی ہم نے عمل پڑھنا شروع کیا، وہ جائے نماز خود بخود بغیر کسی لپیٹنے والے کے لپٹنی شروع ہوئی اور ہم بھی اس جائے نماز کے اندر لپٹ گئے۔ پھر کسی نے ہم کو جائے نماز سمیت مسجد کے کونے میں کھڑا کر دیا۔ کچھ دیر تو ہم جائے نماز میں لپٹے ہوئے کھڑے رہے۔ آخر ہم نے بہت مشکل سے اس جائے نماز کو کھولا اور اس کے اندر سے نکلے۔ جائے نماز کو پھر اس جگہ بچھایا اور اس پر بیٹھ کر جنّات کا عمل پڑھنا شروع کیا، مگر ہمارا دل ڈر رہا تھا اور حیرت بھی تھی کہ کس نے ہمیں جائے نماز میں لپیٹ دیا۔ دوسری مرتبہ بھی یہی ہوا یعنی پھر کسی نے جائے نماز میں ہم کو لپیٹ کھڑا کرد یا اور ہمارا دل دھڑکنے لگا اور ہم بہت ڈرے۔ آخر ڈرتے ڈرتے جائے نماز کو کھولا اور باہر نکلے۔ جائے نماز کو بچھایا اور عمل شروع کیا۔ تیسری مرتبہ بھی ہم کو کسی نے لپیٹ دیا اور ہم نے پھر کوشش کرکے اپنے آپ کو اس قید سے نکالا۔’’

    ‘‘باہر نکلے تو ایک آدمی ہمارے سامنے آیا۔ اس نے غصے اور خفگی کے لہجے میں کہا۔ تُو یہ عمل کیوں پڑھتا ہے، اور ہم کو کیوں پریشان کرتا ہے….؟
    ہم نے کہا جنّات کوتابع بنانے کے لیے۔ وہ کہنے لگا۔ ‘‘لے دیکھ میں جنّ ہوں۔ آدمی صورت میں آیا ہوں۔ تُو ہم کو مسخر کرنے کی محنت نہ کر، ہم آسانی سے کسی کے قابو میں نہیں آئیں گے، تُو خدا کا مسخر ہو جا، ہم تیرے مسخّر ہو جائیں گے۔
    یہ قصّہ سنا کر میاں محمد شیر صاحب نے فرمایا،

    میاں! اس دن سے ہم نے تو جنّات تابع کرنے کا شوق چھوڑ دیا اور خدا کی تابع داری کرنے لگے اور ہم نے دیکھا کہ واقعی جو آدمی خدا کا تابع ہو جاتا ہے تو دنیا اس کی تابع ہوجاتی ہے۔’’

    میاں صاحب کی یہ بات سن کر میں نے جنات کو مسخر کرنے کا خیال دل سے نکال دیا۔

    ‘‘میرے نانا ایک مرتبہ بہادر شاہ کے بھائی مرزا جہانگیر سے ملنے الہٰ آباد گئے۔ جہاں ان کو انگریز کمپنی نے نظر بند کر رکھا تھا۔ مرزا جہانگیر نے نانا کو ایک بڑے مکان میں ٹھہرایا۔ نانا حقّہ پیتے تھے۔ اس واسطے نوکر نے اپلے کی آگ، حقہ اور تمباکو پاس رکھ دیا اور فانوس میں شمع روشن کر دی۔’’

    ‘‘نانا عشاء کی نماز پڑھ کر پلنگ پر لیٹ گئے۔ سامنے شمع روشن تھی۔ وہ لیٹے ہوئے حقہ پی رہے تھے۔ ایکا ایکی کسی نے ان کے پلنگ کو اوپر اٹھا لیا۔ پلنگ زمین سے دو گز اونچا ہوگیا۔ نانا گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور انہوں نے پلنگ کے نیچے جھانک کر دیکھا، مگر کوئی چیز دکھائی نہ دی۔ جس دالان میں ان کا پلنگ تھا، اس میں تین در تھے اور پلنگ بیچ کے در میں بچھا ہوا تھا۔ کسی نے اس پلنگ کو اونچا کر کے بیچ کے در سے اٹھایا اور آخری تیسرے در میں لے جا کر بچھا دیا۔’’

    ‘‘جب پلنگ زمین پر بچھ گیا تو نانا جان پلنگ سے اترے اور انہوں نے پلنگ گھسیٹا اور پھر بیچ کے در میں بچھا دیا۔’’

    ‘‘تھوڑی دیر کے بعد پھر پلنگ اٹھا اور خود بخود تیسرے در چلا گیا۔ نانا پلنگ کو گھسیٹ کر پھر بیچ کے در میں لے آئے۔ یہاں تک کہ تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔ تیسری مرتبہ بھی نانا پلنگ کو گھسیٹ کر بیچ کے در میں لے گئے۔ تب ایک سایہ سا نمودار ہوا جو فانوس کے پاس گیا اور شمع خودبخود گل ہوگئی۔ نانا اٹھے اور انہوں نے گندھک لگی سلائی آگ پر رکھی اور اس کو روشن کر کے شمع دوبارہ جلا دی۔ پھر وہ سایہ آیا اور اس نے شمع گُل کردی۔ غرض تین مرتبہ یہی ہوا کہ وہ سایہ شمع گُل کرتا تھا اور نانا اس کو روشن کردیتے تھے۔ جب تیسری مرتبہ نانا نے شمع روشن کی تو ایک آدمی چھت کے اوپر سے سیڑھیاں اترتا ہوا آیا اور اس نے میرے نانا کا نام لے کر کہا۔’’

    ‘‘سنو میاں غلام حسین! میں جنّ ہوں اور شمع کی روشنی سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ تم شمع گُل کر دو اور جہاں تم نے پلنگ بچھایا ہے وہاں میں رات کو نماز پڑھا کرتا ہوں۔ لہٰذا تم اپنا پلنگ بھی یہاں سے ہٹا لو۔ میں جانتا ہوں کہ تم ضدی آدمی ہو۔ میں دلّی میں تمہارے درگاہ کی زیارت کے لیے کئی مرتبہ آچکا ہوں، مگر یاد رکھو، اس مکان میں رات کے وقت جو آدمی رہتا ہے میں اس کو مار ڈالتا ہوں۔ تمہاری خیر اسی میں ہے کہ تم پلنگ یہاں سے ہٹا لو اور شمع گل کر دو، ورنہ میں تم کو مار ڈالوں گا۔’’

    نانا نے کہا۔ ‘‘بھائی جب تم جانتے ہو کہ میں ضدی آدمی ہوں تو سمجھ لو کہ جب تک جیتا ہوں نہ شمع گُل کروں گا نہ پلنگ ہٹاؤں گا۔ آج کی رات تم کسی اور جگہ نماز پڑھ لو۔ کل میں اس مکان میں نہ رہوں گا۔ یہ مرزا جہانگیر کے نوکروں نے شرارت کی کہ مجھے ایسی جگہ ٹھہرا دیا جہاں تم رہتے ہو۔’’

    ‘‘یہ بات سن کو وہ جنّ ہنسا اور اس نے کہا اچھا میاں! آج رات میں کہیں اور چلا جاؤں گا۔ مگر کل یہاں نہ رہنا۔ یہ کہہ کر وہ غائب ہوگیا۔ دوسرے دن میرے نانا مرزا جہانگیر سے ملے اور ان کو بہت بُرا بھلا کہا کہ تم نے مجھے جنّات کے مکان میں کیوں ٹھہرایا۔’’

    (مشہور ادیب اور صوفی خواجہ حسن نظامی کی آپ بیتی سے انتخاب)

  • مولانا آزاد اور سنیچر کی شام

    مولانا آزاد اور سنیچر کی شام

    مولانا (ابوالکلام آزاد) سے میری رسمی ملاقاتیں تو 1934ء سے پہلے بھی ہوئیں لیکن پہلی ملاقات جسے ہم باضابطہ تعارف کہہ سکتے ہیں وہ اس وقت ہوئی جب کہ میں آل انڈیا اردو لٹریری کانفرنس کلکتہ کی مجلسِ استقبالیہ کے صدر کی حیثیت سے مولانا کو کانفرنس کی شرکت کے لیے دعوت دینے گیا اور رخصت ہوتے ہوئے مولانا سے پھر حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔

    مولانا نے بڑی شفقت کے ساتھ اجازت دی اور کہا کہ بھئی سنیچر کی شام کو آؤ، روزہ رکھتے ہو یا نہیں رکھتے ہو لیکن میرے ساتھ افطار کرو۔ پھر مسکرا کر کہنے لگے کہ تم اتنے بد ذوق تو ہو نہیں کہ اگر روزہ نہ رکھتے ہو تو افطار سے بھی پرہیز کرو۔ میں نے تسلیم کیا اور آئندہ حاضر ہونے کا وعدہ کر کے چلا آیا۔

    تیسرے دن حاضر ہوا۔ مولانا کو اطلاع کرائی۔ مولانا نیچے اترے اس حال میں کہ افطار کا خوان ان کے پیچھے پیچھے ایک ملازم کے ہاتھوں میں تھا۔ افطار کے بعد چائے آئی اور مولانا نے خود اپنے ہاتھوں سے چائے کی ایک پیالی بنا کر میری طرف سرکائی۔ مجھے اس دن زکام کی شکایت تھی۔ میں نے عذر کیا۔

    میرے اس عذر پر مولانا کچھ گھبرا سے گئے اور کہنے لگے آپ چائے بالکل نہیں پیتے ہیں یا اس وقت کسی خاص وجہ سے نہیں پی رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ جی نہیں، پیتا تو ہوں۔ اور شوق سے پیتا ہوں لیکن اس وقت زکام میں مبتلا ہوں۔ یہ سن کر اک ذرا بلند آواز سے فرمایا کہ الحمدللہ! میں نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ مولانا خدا کا شکر تو بہرحال کرنا چاہیے مگر اس وقت الحمدُللہ کہنے کا کوئی خاص سبب؟ کہنے لگے بھئی معاملہ یہ ہے کہ ایسے لوگ جو چائے پینے سے پرہیز کرنے والے تھے جب جب میری زندگی میں آئے تو میرے لیے خطرناک ثابت ہوئے اور میں ایسے لوگوں سے ڈرنے لگا جو چائے جیسی نعمت سے پرہیز کرتے ہوں۔ یہ معلوم کر کے کہ تم چائے ایک خاص وجہ سے نہیں پی رہے ہو اطمینان سا ہوا اور میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔

    اس کے بعد کچھ علمی بحثیں چھڑ گئیں جن کو اگر یہاں چھیڑا جائے تو اس مضمون کا سلسلہ اتنا دراز ہو کہ ایک چھوٹی سی کتاب بھی اس کے لیے کافی نہ ہوسکے ۔ یہ تو معلوم ہے کہ مولانا علم و فضل کے اتھاہ سمندر تھے اور اس کی ہر موج طوفانی ہوا کرتی تھی، ہم نے چار پانچ سال مولانا کی خدمت میں بیٹھ کر مختلف علوم و فنون پر ان کی بصیرت افروز گفتگو سنی اور اپنی معلومات کی خالی جھولیاں بھرتے رہے لیکن میں اس مقالے میں مولانا کی علمی شخصیت سے گفتگو نہیں کروں گا۔ اس لیے کہ اس پر مجھ سے بہتر لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرچکے ہیں اور کررہے ہیں۔ میں صرف اس مضمون میں مولانا کی نجی صحبت کی ایک ہلکی سی تصویر کشی کروں گا اور ان کے سنجیدہ مزاح کے بعض نمونے سنا کر مولانا کی یاد تازہ کروں گا؛

    تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
    گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را

    مولانا سے اس پہلی باضابطہ ملاقات کے بعد میں نے اکثر و بیشتر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے رہنے کی اجازت چاہی اور یہ بھی پوچھا کہ اگر خاطرِ اقدس کو ناگوار نہ ہو تو بعض اور خوش ذوق احباب کو بھی ساتھ لاؤں۔ مولانا نے فرمایا کہ بھئی ناگوارِ خاطر ہونے کی کیا بات ہے میں تو خود چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے نوجوانوں سے باتیں کرنے کا موقع ملے تاکہ یہ اندازہ ہو کہ ہندوستان کی آئندہ نسلیں کیسی تیار ہورہی ہیں۔ تم آؤ اور ضرور آؤ، اپنے دوستوں کو بھی ساتھ لیتے آؤ۔ سنیچر کی شام میری ہمیشہ خالی رہتی ہے۔ اس کے بعد سے ہمارا یہ دستور ہوگیا کہ ہم چند احباب ہر سنیچر کی سہ پہر کو مولانا کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آٹھ بجے رات تک برابر ان کے قدموں کے سامنے بیٹھ کر اپنا دامنِ تہی پھیلاتے اور جب اٹھتے تو اس دامن تہی کو مختلف علمی جواہر ریزوں سے لبریز پاتے۔ اس اثنا میں مولانا کے دل چسپ فقرے بھی ہوتے رہتے جن کا زیادہ تر نشانہ میرے مرحوم دوست پروفیسر طاہر رضوی ہوتے۔ مولانا نے ان کی بھولی اور معصوم شخصیت سے دل چسپی لینی شروع کردی اور اس کا سبب یہ ہے کہ طاہر مرحوم نے ان ہی دنوں میں پارسی مذہب کے متعلق ایک کتاب لکھی تھی جس میں یہ ثابت کیا تھا کہ پارسی، یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح اہلِ کتاب ہیں۔

    مولانا نے وہ کتاب ملاحظہ کی اور پروفیسر طاہر رضوی کی محنتوں کی بھرپور داد دی ۔ ایک دن پوچھنے لگے کہ بھئی طاہر اس کتاب کے لکھنے کا خیال آپ کے ذہن میں کس راستے سے آیا۔ میں مولانا کی خدمت میں ذرا گستاخ ہوچلا تھا۔ طاہر رضوی کو سنانے کے خیال سے بولا کہ مولانا ممکن ہے محبت کے راستے آیا ہو۔ مولانا مسکرا کر طاہر صاحب سے مخاطب ہوئے۔ دیکھو بھئی تمہارے یہ احباب بڑے ناقدر شناس ہیں۔ تمہارے علمی شغف کو ایک جذباتی انہماک کا نتیجہ بتلاتے ہیں۔ یہ صریحی ظلم ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ جب جب مجلس کچھ سونی سی ہونے لگتی تو مولانا طاہر صاحب کی طرف مسکرا کر دیکھتے اور پوچھتے کہ ہاں بھئی آپ کے احباب کا وہ شبہ اب تک قائم ہے یا رفع دفع ہوا۔ طاہر صاحب کا جھینپنا، مولانا کا مسکرانا اور جملہ احباب کا کھلکھلانا ابھی تک یاد آتا ہے۔

    (مولانا آزاد: کچھ نجی یادیں از قلم جمیل مظہری)

  • ‘‘تم نے کچھ پتہ چلایا کہ میں کون ہوں….؟’’

    ‘‘تم نے کچھ پتہ چلایا کہ میں کون ہوں….؟’’

    زندگی کے اس سفر میں ہمارے ساتھ حیران کُن اور تعجب خیز ہی نہیں ایسے واقعات بھی پیش آسکتے ہیں جنھیں ہم اپنی عقل کے مطابق سوچنے اور اپنے علم کی بنیاد پر کھوجنے کی ہر کوشش کے باوجود ناکام رہیں۔ ایسا ماورائے عقل کوئی بھی واقعہ یقیناً‌ ناقابلِ فراموش یاد بن جاتا ہے، لیکن ہم کبھی اس کی حقیقت نہیں جان پاتے۔

    یہاں ہم خان بہادر نقی محمد خان خورجوی ( 1880 – 1969) کی آپ بیتی ‘‘عمرِ رفتہ’’ سے ایک ایسا ہی واقعہ نقل کررہے ہیں جو مصنّف کے ایک دوست کے ساتھ پیش آیا تھا۔ خورجوی صاحب نے یہ آپ بیتی 82 سال کی عمر میں لکھی تھی۔

    "میرے ایک دوست محکمہ سروے میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ ان کو اکثر کئی کئی ماہ تک پہاڑ اور جنگلوں میں باہر رہنا پڑتا تھا۔ اس مرتبہ ان کو مسوری سے کافی فاصلہ پر پہاڑی سروے کے سلسلہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔

    ماتحتوں کی ایک پارٹی اور حفاظت کے لیے گارڈ، پہاڑی، خیمہ اور رسد کا کافی سامان ساتھ تھا۔ جہاں ان کو خیمہ لگانا تھا وہاں میلوں تک نہ انسانی آبادی تھی اور نہ کوئی چیز ملنا ممکن تھی۔ پہاڑی راستے نہایت دشوار گزار اور خار دار تھے۔ ڈاک کے انتظام کے واسطے دس دس میل پر چوکیاں قائم کردی گئی تھیں اور اگر کوئی چھوٹی موٹی چیز منگوانی ہوتی تو دس روز سے پہلے نہ ملتی تھی۔

    تنہائی تھی، خاموشی تھی، ہر طرف پہاڑی جنگل اور درندے تھے۔ اگر کوئی اور تکلیف تھی تو وہ یہ تھی کہ ہنسنے بولنے والا اور ہم مذاق کوئی نہ تھا۔ ماتحتوں سے محض ضابطہ قاعدہ کی ملاقات تھی۔ صبح کو وہ جنگل میں ہر طرف پہاڑوں پر جاکر نقشہ کشی کرتے تھے اور شام سے پہلے تھکے ماندے اپنے کیمپ پر اپنے اپنے خیموں میں گھس جاتے تھے۔ ہمارا کیمپ ایک چشمہ کے قریب مناسب جگہ پر واقع تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ دوسرے تیسرے روز میں ان کے کاموں کا جائزہ لینے کے واسطے باہر جاتا اور بڑے ڈیرے میں فرش پر نقشے مرتب کیے جاتے تھے۔ رات کو ایسی خاموشی ہو جاتی تھی کہ بعض اوقات اپنی سانس کی آواز بھی سنائی دیتی تھی۔ میں ان سب باتوں کا عادی تھا۔

    اس خانہ بدوشی کی حالت میں ہم لوگوں کو آٹھ دس روز ہوگئے تھے۔ ایک روز تقریباً تین بجے دن کو جب کہ چند کلرکوں کے ساتھ بڑے ڈیرے میں فرش بیٹھا ہوا مَیں کام میں مصروف تھا۔ ایک اجنبی چِک اٹھا کر بلا اطلاع اندر آگئے۔ اور میرے قریب فرش پر بیٹھ گئے۔ میں ان کو دیکھ کر حیران ہو گیا۔ کیوں کہ دور یا نزدیک نہ کوئی مکان نہ آبادی نہ کوئی انسان۔ وضع قطع سے شریف اور نفاست پسند معلوم ہوتے تھے۔ قدیم لباس زیبِ تن تھا۔ بیل دار سفید ٹوپی، ململ کا سفید کرتا اس پر پرانی وضع کا سفید انگرکھا۔ ڈھیلے پائنچے اور سبز مخملی پاپوش پہنے ہوئے تھے۔

    چوں کہ وہ میرے قریب تھے اس لیے کبھی کبھی مجھے عطر کی خوشبو بھی محسوس ہوئی۔ حلیہ ان کا گندمی رنگ، خوب صورت جسم، خوش نما چہرہ، چھوٹی مونچھیں، خشخاشی داڑھی، عمر تخمیناً 35۔40 سال۔ نہ صرف میں بلکہ میرے ماتحت بھی جو اس وقت موجود تھے ان کو دیکھ کر حیران ہوگئے۔

    وہ السّلامُ علیکم کہہ کہ میرے قریب بیٹھ چکے تھے۔ میں نے سگریٹ پیش کیے۔ شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا۔ چائے کے واسطے اخلاقاً ہاتھ جوڑ کر جواب دیا کہ میں اس چیز کا عادی نہیں ہوں۔ پان نہ میں کھاتا تھا اور وہ عادی معلوم ہوتے تھے۔ میں نے کہا اس جنگل میں آپ کی کیا خاطر کروں۔ کہنے لگے آپ کا اخلاق ہی کافی ہے۔ میں اکثر آپ لوگوں کو ان پہاڑوں اور جنگلوں میں دیکھا کرتا تھا، آج دل چاہا کہ آپ سے ملاقات بھی کروں اور آپ کے کام میں حارج ہوں۔

    میں نے کہا حضرت کام اپنا، وقت اپنا، حرج کا تو سوال ہی نہیں۔ ہاں یہ تو بتلائیے، آپ اس پہاڑی جنگل میں رہتے کہاں ہیں۔

    اس سوال پروہ مسکرائے اور یہ شعر پڑھا؎

    ایک جا رہتے نہیں عاشقِ ناکام کہیں
    دن کہیں، رات کہیں، صبح کہیں، شام کہیں

    میں نے نام پوچھا تو ہنس کر کہا گمنام ہوں اور یہ کہہ کہ ‘‘یار زندہ صحبت باقی’’ ڈیرے کی چِک اٹھائی اور باہر چلے گئے۔ میں نے اخلاقاً ساتھ جانا چاہا لیکن انہوں نے منع کر دیا۔ اور قریب کے ایک نالے میں جو نشیب میں تھا اتر گئے۔ میرے ساتھیوں نے اِدھر اُدھر دیکھا لیکن کہیں نظر نہ آئے۔ دیر تک ہم لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوتی رہیں کہ ایسے اجلے پوش کا اس جنگل اور پہاڑوں میں کیا کام!…. تھوڑی دیر گفتگو کے بعد بات آئی گئی ہوگئی اور سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔

    تین چار روز بعد، پھر ایک روز چار بجے شام کے قریب آگئے اورحسبِ سابق السلام علیکم کہہ کر فرش پر بیٹھ گئے۔ کپڑے ویسے ہی صاف شفاف پہنے ہوئے تھے۔ چند سبز اخروٹ ان کے ہاتھ میں تھے، یہ کہہ کر مجھے دیے کہ ’’برگِ سبز است تحفۂ درویش۔‘‘ میں نے ایک خود لیا اور باقی دوسروں کو دے دیے۔

    ابھی ان کو آئے ہوئے پانچ منٹ بھی نہ ہوئے تھے کہ یکبارگی کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ آپ لوگ بڑے لاپروا ہیں۔ یہ بڑا بھاری نقشہ جو آپ کے سامنے بچھا ہوا ہے اس کے نیچے ایک زبردست کالا سانپ موجود ہے۔ ہم لوگ بھی خوف زدہ ہوگئے اور احتیاط سے نقشہ کو ہٹا کر دیکھا تو فی الواقع اس کے نیچے ایک زبردست سیاہ کوبرا موجود تھا۔ کچھ ڈنڈا، لکڑی اور پتھر اٹھانے کے واسطے دوڑے۔ وہ تیزی سے قنات کے نیچے سے باہر نکل گیا اور اس گڑبڑ کے دوران نامعلوم وہ بھی کس طرف چلے گئے۔

    ان کے جانے کے بعد ہم لوگ بھی دیر تک اسی فلسفہ پر گفتگو کرتے رہے کہ ہم لوگ نقشہ پر بیٹھ کر اور جسم کا بوجھ دے کر نقشہ کے مقامات کو عرصے سے دیکھ رہے تھے لیکن کوئی غیرمعمولی چیز اس کے نیچے معلوم نہ ہوئی، جب نقشہ بچھایا گیا تھا اس وقت سانپ موجود نہ تھا۔ اس کے بعد جب کہ نقشہ کے ہر طرف ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ بڑے سانپ کے نقشہ کے نیچے داخل ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔ نہ فرش میں سوراخ، نہ فرش کے نیچے سوراخ۔ پھر یہ سانپ کیونکرآگیا اور ان کو اس کا علم کیونکر ہو گیا۔

    یہ معاملہ ایسا حیرت انگیز تھا کہ دیر تک یہی گفتگو ہوتی رہی اور حیرت کم نہ ہوئی۔

    اس واقعہ کے بعد میں نے یہ طے کیا کہ آئندہ وہ صاحب اگر پھر آئیں تو میرے آدمیوں میں سے کچھ لوگ مختلف مقامات پر چھپ جائیں اور پوشیدہ طور پر تعاقب کر کے یہ معلوم کریں کہ وہ کہاں جاتے ہیں۔

    کچھ دن گزر جانے کے بعد تیسری مرتبہ پھر وہ اچانک آگئے لیکن وقت بجائے شام کے نو بجے دن تھا۔ جب کہ اس وقت میں اپنے ڈیرے کے باہر دھوپ میں جسم پر تیل کی مالش کرا رہا تھا۔ ان کو دیکھ کر چادر اوڑھ لی۔ وہ آئے اور قریب کرسی پر بیٹھ گئے۔ ان کے لباس سے اندازہ ہوتا تھا کہ شاید وہ روزانہ کپڑے تبدیل کیا کرتے ہیں۔ نہ شکن، نہ میل، نہ داغ دھبّا۔ اس مرتبہ وہ تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھے۔ مختلف موضوع پر میں نے گفتگو شروع کی۔ پولٹیکس سے انہیں کوئی دل چسپی نہ تھی۔ تصوف کے بارے میں انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ‘‘باتوں کی چیز نہیں عمل کی ضرورت ہے۔’’ علمی اور ادبی ذوق کافی اچھا تھا۔ اشعار اچھے یاد تھے۔ پڑھنے کا انداز بھی خوب تھا۔ میں نے بھی اکثر اشعار اردو فارسی کے سنائے۔

    ایک شعر ان کو بہت پسند آیا جس کو خود بھی بار بار پڑھا اور تعریف کی۔ الغرض یہ صحبت دل چسپ تھی۔ چلتے وقت مجھے کہا کہ میری نگرانی نہ کرائی جائے۔ دو چار ہی قدم چلے تھے کہ میرا ایک کلرک آگیا۔ اس کو دیکھ کر ہنسے اور کہا کہ تم بھی عجیب آدمی ہو تمہارے بکس میں مچھلیوں نے انڈے دیے ہیں اور تمہیں اس کا علم نہیں۔

    وہ اس بات کو مذاق سمجھا اور ہنس کر چپ ہوگیا۔ اس مرتبہ وہ اس راستہ سے نہ گئے تھے۔ اس کے خلاف سمت گئے جہاں میرے آدمیوں سے کوئی نہ تھا۔ معلوم نہیں کہ پانی کا نالا انہوں نے کیسے عبور کیا ہوگا، تھوڑی دور جانے کے بعد ان کا پتہ نہ چلا۔

    کلرک نے جب اپنا کپڑوں کا بکس کھول کر دیکھا تو کسی چیز کے مٹر سے کافی چھوٹے انڈے بکثرت اس میں موجود تھے جن کو اس نے مجھے بھی دکھایا اور پھر چشمہ کے پانی میں ڈال دیے۔ اس واقعہ کے بعد سے آج تک ہماری ملاقات نہیں ہوئی۔

    ڈھائی ماہ بعد جب ہم کام ختم کر کے واپس جارہے تھے تو اسی لباس اور وضع میں میرے ایک سپاہی کو ملے تھے اور اس سے پوچھا تھا کہ ‘‘تم نے کچھ پتہ چلایا کہ مَیں کون ہوں….؟’’”

  • وزیرِ اطلاعات اور ڈائریکٹر

    وزیرِ اطلاعات اور ڈائریکٹر

    نصف صدی تک پاکستان ریڈیو اور ٹی وی سے وابستہ رہنے والے آغا ناصر کی آپ بیتی ”آغا سے آغا ناصر“ میں پاکستان کی چند اہم شخصیات کا تذکرہ اور مختلف واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    یہاں ہم اسی کتاب سے ایک دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    "ایک ساتھی ڈائریکٹر کو خود نمائی کا کافی شوق تھا۔ وزیرِ اطلاعات کا دورہ ہوا تو وہ اپنا نام لے کر بار بار وزیر صاحب کے ذہن میں اپنا نام رجسٹر کروانا چاہ رہے تھے۔”

    "کہنے لگے سر، آپ کو کوئی کام ہو تو پی اے سے صرف اتنا کہ دیں کہ زبیر علی سے ملا دو۔ اور میں نے پی اے کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ زبیر علی نہ ملیں تو ان کے اسسٹنٹ سے بات کر لیں کہ زبیر علی نے کہا تھا زبیر علی کی غیر موجودگی میں آپ کو بتا دیا جائے کہ زبیر علی اس وقت موجود نہیں ہیں اور آپ وزیر صاحب کو بتا دیں کہ زبیر علی کسی میٹنگ میں گئے ہوئے ہیں اور جیسے ہی زبیر علی واپس آئیں گے آپ کو اطلا ع کر دی جائے گی۔”

    "وزیر صاحب ساری بات سمجھ گئے اور جب جاتے ہوئے زبیر علی صاحب سامنے آئے تو مسکراتے ہوئے ہاتھ ملایا اور کہا، اچھا صدیقی صاحب پھر ملیں گے۔”

  • حجاب امتیاز علی، گوشت پوست سے عاری ڈھانچے اور انسانی ہڈیاں!

    حجاب امتیاز علی نے تاریخ، نفسیات، سائنس، علمِ نجوم اور مذاہبِ عالم کا مطالعہ جم کر کیا تھا، اِس لیے وہ کردار نگاری کی سطح پر دادی زبیدہ، جسوتی، سر جعفر، ڈاکٹر گار، زوناش اور چچا لوث جیسے بڑے رومانی کردار خلق کر پائیں۔

    یہ سب کردار حجاب کے تخلیق کردہ فنٹاسٹک ماحول میں جیتے ہیں۔ یہ حجاب کی خیالی ریاستوں شموگیہ اور کیباس کے باشندے ہیں جو اکثر چہل قدمی کرتے ہوئے حجاب کے خلق کردہ خیالی جنگل ناشپاس تک چلے جاتے ہیں۔

    حجاب امتیاز علی اپنی افتادِ طبع کی تشکیل سے متعلق خود بتاتی ہیں، ’’میری ادبی زندگی کا گہرا تعلق میرے بچپن کی تین چیزوں سے ہے۔ فضا، ماحول اور حالات۔ میرے بچپن کا ابتدائی زمانہ جنوب میں دریائے گوداوری کے ہوش رُبا کناروں پر گزرا۔

    ہوتا یہ تھا کہ کالی اندھیری راتوں میں گوداوری کے سنسان کناروں پر ہندوﺅں کی لاشیں جلائی جاتی تھیں۔ جلانے کے دوران ہڈیاں اور سَر اس قدر ڈراﺅنے شور کے ساتھ چیختے تھے کہ انہیں سن کر ہوش اڑ جاتے تھے۔ اس سرزمین پر گوشت پوست سے عاری انسانی ڈھانچے اور ہڈیاں جگہ جگہ پڑی رہتی تھیں اور چیخ چیخ کر انسان کے فانی ہونے کا یقین دلایا کرتی تھیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جب ان ساحلوں پر رات پڑتی تو ہڈیوں کا فاسفورس اندھیرے میں جل اٹھتا تھا اور میلوں فاصلے سے غولِ بیابانی کی طرح ان ویرانوں میں روشنیاں رقصاں نظر آتی تھیں۔ یہ دہشت خیز منظر ہیبت ناک کہانیوں کے لکھنے کی ترغیب دیتا تھا۔ غرض ان کا حسن اور رات کی خوف ناکی، یہ تھی فضا۔ ایسی فضا میں جو شخص بھی پلے اور بڑھے اس میں تھوڑی بہت ادبیت، شعریت اور وحشت نہ پیدا ہو تو اور کیا ہو۔

    تیسری بات حالات کی تھی۔ جنھوں نے مجھے کتاب و قلم کی قبر میں مدفون کر دیا۔ مدفون کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا کہ اگر میں نے اس زمانے میں اپنے آپ کو ادبی مشاغل میں دفن نہ کردیا ہوتا تو میں کبھی کی ختم ہوگئی ہوتی۔ وہ زمانہ مرے لیے بے حد حزن و ملال کا تھا۔ مری والدہ ابھی جواں سال ہی تھیں کہ اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ ان کی موت مرے خرمن پر بجلی بن کر گری۔ اس زمانے میں میرا ذہنی توازن درست نہ تھا۔ لڑکپن تھا، اس پر شدید ذہنی دھچکا ماں کی موت کا تھا۔ ان دونوں نے مل کر مجھے اعصابی بنا دیا تھا۔‘‘

    (ممتاز ادیب حجاب امتیاز علی کی کتاب’’میری ادبی زندگی‘‘ سے اقتباس)

  • نصیر خاں ٹھیکے دار اور طنبورہ

    نصیر خاں ٹھیکے دار اور طنبورہ

    آگرے کی گائیکی پر خاکسار نے خاص ریاض کیا۔

    اُن دنوں خیال آیا کہ والد صاحب کی الماری پر جو مرمّت طلب طنبورہ پڑا ہے، اس کی مرمّت کرانی چاہیے۔ اس کے تونبے میں ایک دراڑ تھی، زنہار ہمّت نہ ہوئی کہ والد صاحب سے اس خواہش کا ذکر کروں، وہ ہر گز اجازت نہ دیتے۔

    ماڈل ٹاؤن میں مکانات کی تعمیر کا ایک ٹھیکے دار نصیر خاں تھا، جس کی تعلیم چوتھی جماعت تک ہوئی تھی۔ یہ داغ کے رنگ میں غزل کہنے کی کوشش کرتا تھا۔ بعض شعر واقعی اچھے نکال لیتا تھا لیکن وزن اس کے بعض مصرعوں کا ٹھیک نہ ہوتا تھا۔ اس کی عمر چالیس کے قریب تھی اور راقم کی پندرہ۔

    اس نے شاعری میں راقم کو استاد کیا۔ وقتاً فوقتاً ایک اٹھنی بطور اجرتِ اصلاح یا نذرانۂ شاگردی دیا کرتا تھا۔ راقم نے سوچا کہ طنبورہ مرمّت کرانے کا کام نصیر خاں کی مدد سے نکالا جائے۔

    ایک صبح والد صاحب جب کالج کو روانہ ہوئے۔ نصیر خاں تانگے پر طنبورہ رکھ کر اس کو دھنی رام اسٹریٹ میں پرتاب سنگھ کی دکان پر لے گیا۔ وہاں مرمّت میں کئی روز لگے۔ راقم بے تاب سنگھ بن کر یاد دہانی کو وہاں جاتا رہا، ٹوٹا ہوا تونبا مرمت یوں کرتے ہیں کہ اس کو کھول کر اس کے جوڑ بٹھا کر اندر مہین بوریا گوند سے جما دیتے ہیں۔ جب ٹھیک سے پیوستہ ہو جاتا ہے تو اس کو پھر اپنی جگہ جما کر باہر رنگ و روغن کر دیتے ہیں۔ کئی روز بعد نصیر خاں تانگے پر طنبورہ لے کر آیا۔ چوری چوری میں نے اس کو اپنے کمرے میں رکھا۔

    دو ایک روز میں والد صاحب کو خبر ہوئی تو اس جسارت پر حیران رہ گئے۔ خفا ہوئے تو راقم نے مزید جرأت کی اور کہا کہ مجھ کو پونا کے میوزک کالج میں داخل کرا دیجیے، اس کے جواب میں ناصحِ مشفق نے سمجھایا کہ اہلِ فن جس محلے میں رہتے ہیں وہاں کی آمد و رفت میں ایک خاص خطرہ ہے۔ لیجیے ہمارا خواب پریشاں ہو کر رہ گیا، لیکن اب مانتا ہوں کہ اچھا ہی ہوا۔ خطرۂ خاص سے قطع نظر گانے بجانے کے پیشے میں آج کل بھارت اور پاکستان دونوں میں جو سیاست ہے، اس سے اللہ بچائے۔

    ایک تفریحی شغل کے طور پر سنگیت کا جو مزہ ہم نے لیا، اس میں یک گونہ آزادی رہی۔ پھر یہ کہ زندگی کے مشاغل میں بھی تنوع رہا۔ راگ سے روٹی کمانی نہ پڑی۔ راگ وسیلۂ فرحت ہی رہا۔

    (ممتاز ماہرِ موسیقی، ادیب اور محقق داؤد رہبر کی یادوں سے ایک ورق)