Tag: آپ بیتی

  • سوانح عمری اور آپ بیتی لکھنے کا فن

    سوانح عمری اور آپ بیتی لکھنے کا فن

    اردو ادب میں سوانح عمری لکھنے کی روایت پرانی ہے۔ حالی کی یادگارِ غالب، حیاتِ جاوید، شبلی نعمانی کی سیرۃُ النّبی، الفاروق، المامون، النّعمان ،الغزالی، سوانح مولانا روم، مولانا سیّد سلیمان ندوی کی حیاتِ شبلی ، سیرتِ عائشہ سوانحی حالات و کوائف سے بھری ہوئی مکمل سیرتیں ہیں۔

    ناقدوں کی رائے ہے کہ خود نوشت سوانح حیات انسانی زندگی کی وہ روداد ہے، جسے وہ خود رقم کرتا ہے اور اس میں سوانح حیات کی کسی دوسری شکل سے زیادہ سچائی ہونا چاہیے، اگر کوئی کسر رہ جائے یا مبالغہ در آئے تو وہ اچھی خود نوشت قرار نہیں پاتی۔

    خود نوشت سوانح کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ صرف ناموں کی کتھونی نہ ہو، اس میں تاریخ، سماج اور ادب کی آمیزش بھی نظر آئے، حقیقت دل کش پیرایہ میں بیان ہو، فنِ اظہار ذات کا دوسرا نام ہے، خود نوشت کا تعلق انسان کے گہرے داخلی جذبات سے ہے۔

    لہٰذا اسے فن کی اعلیٰ قدروں کا حامل ہونا چاہیے، اسی لیے خود نوشت لکھنا سوانح لکھنے سے زیادہ مشکل فن مانا جاتا ہے۔ ایک معیاری خود نوشت کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف کسی فرد کے بارے میں بیان نہ کرے، اس کے ماحول، عہد، اس دور کے رجحانات و میلانات اور معاشرتی، معاشی، ادبی اور تہذیبی پہلوؤں کو بھی سامنے لائے تاکہ اس عہد کا پورا منظر نامہ سامنے آ جائے جس میں شخص مذکور نے اپنی زندگی گزاری اور اس کی شخصیت تشکیل پائی، اس کے برعکس خود پر توجہ مرکوز کرنے سے بات نہیں بنتی، خود نوشت نگاری کا یہ بڑا نازک مقام ہوتا ہے کہ کوئی فرد اپنی شخصیت کو خود سے جدا کر کے معروضیت سے کام لے اور بے لاگ پیرایہ میں اپنی زندگی کی داستان بیان کر دے۔

    یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں خود نوشت یا آپ بیتیاں کم سپردِ قلم کی گئیں اور جو لکھی گئیں ان میں سے بیشتر مذکورہ شرائط پر پوری نہیں اترتیں۔ اردو سے پہلے فارسی میں آپ بیتی کی روایت موجود تھی۔ بادشاہوں کے حالاتِ زندگی اور صوفیائے کرام کے ملفوظات میں آپ بیتی کے ابتدائی نقوش مل جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ شیخ حزیں، میر تقی میر نے بھی فارسی میں آپ بیتی لکھی ہے۔ لیکن اردو میں آپ بیتی کے فن کو 1857ء کے خونی انقلاب کے بعد فروغ ملا۔ جب اس معرکہ کے مجاہدوں اور سپاہیوں نے اپنی یادداشتیں لکھیں، ان کے علاوہ جعفر تھانیسری کی آپ بیتی ‘تواریخِ عجیب’ (کالا پانی)، نواب صدیق حسن خاں کی ‘البقاء لمن بالقا المحن’، ظہیر دہلوی کی ‘داستانِ غدر’ اور عبدالغفور نساخ کی ‘حیات نساخ’ سپردِ قلم کی گئیں۔ جن میں ‘حیات نساخ ‘ کو اردو ادب کی پہلی آپ بیتی تسلیم کیا جاتا ہے۔

    آزادی کے بعد حسرت موہانی کی ‘قیدِ فرنگ’ مولانا ابوالکلام آزاد کی ‘تذکرہ’ دیوان سنگھ مفتون کی ‘ناقابلِ فراموش’ معیاری خود نوشتوں میں شمار کرنے کے لائق ہیں۔

    ‘کاروانِ زندگی’ مولانا ابوالحسن علی ندوی کی خود نوشت کئی جلدوں پر محیط اور اپنے پورے عہد کی معلومات فراہم کرتی ہے۔ ‘کاروانِ حیات’ قاضی اطہر مبارکپوری کی خود نوشت مختصر اور کتابی شکل میں غیر مطبوعہ ہے جو ماہنامہ ‘ضیاء الاسلام’ میں شائع ہوئی ہے۔ خواجہ حسن کی نظامی کی ‘آپ بیتی’، چودھری فضلِ حق کی ‘میرا افسانہ، بیگم انیس قدوائی کی ‘نیرنگیٔ بخت’، مولانا حسین احمد مدنی کی ‘نقشِ حیات’، رضا علی کی ‘اعمال نامہ’، کلیم الدین احمد کی ‘اپنی تلاش میں’، یوسف حسین خاں کی ‘یادوں کی دنیا’ بھی قابلِ ذکر خود نوشتیں ہیں۔

    رشید احمد صدیقی کے باغ و بہار قلم نے ‘آشفتہ بیانی میری’ میں بچپن کے حالات، ابتدائی تعلیم، خاندان کی معلومات تو کم لکھیں، اپنے وطن جونپور کی تاریخ و تہذیب پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کا نصف سے زیادہ حصہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے زمانۂ تعلیم کی سرگرمیوں پر مشتمل ہے جس میں ڈاکٹر ذاکر حسین، اقبال سہیل، ثاقب صدیقی جیسی شخصیات سے ان کے رشتہ پر روشنی پڑتی ہے۔

    ان کے علاوہ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی ‘یادوں کا جشن’ میں ان کے خاندانی احوال، فارغ البالی، رئیسانہ مشاغل کا تفصیلی بیان ہے۔ وزیر آغاز کی ‘شام کی منڈیر سے’ ان کی نجی زندگی کے ساتھ پورے عہد کے اہم واقعات پر محیط ہے۔ رفعت سروش کی ‘ممبئی کی بزم آرائیاں’ میں ان کی زندگی، نوکری اور ترقی پسند تحریک کے حوالے کافی معلومات فراہم کی گئی ہے۔ اخترُ الایمان کی ‘اس آباد خرابے میں’ زندگی کے واقعات و مسائل کے بیان میں جس صداقت سے کام لیا گیا ہے وہ کم خود نوشتوں میں ملتا ہے۔

    (عارف عزیز کے مضمون سے چند پارے، مصنّف کا تعلق بھارت کے شہر بھوپال سے ہے)

  • ’ارجنٹینا‘ میں ’دستِ صبا‘

    ’ارجنٹینا‘ میں ’دستِ صبا‘

    ایک دن مسز فیض سے اس سلسلے میں باتیں ہو رہی تھیں تو میں نے کہا کہ فیض تو یہاں ہیں نہیں کہ وہ خود اپنے دوستوں اور عزیزوں کو اپنی کتاب پیش کرتے۔ کیوں نہ ہم کتاب کی اشاعت کے موقع پر کچھ اخبار نویسوں، فیض کے احباب اور عزیزوں کو مدعو کر کے پریس کانفرنس کریں اور کتابیں انہیں فیض کی جانب سے پیش کر دیں۔

    خیال رہے کہ یہ بات آج سے تقریباً ساٹھ (60) سال پہلے کی ہے۔ اس زمانے میں کسی کتاب کی اشاعت پر کوئی تقریب منعقد کرنے کا رواج نہ تھا بلکہ اس قسم کی تقریب کا تصور بھی ذہنوں میں نہ تھا۔

    چناں چہ جب میں نے مسز فیض سے ایسی تقریب منعقد کرنے کا ذکر کیا تو اسے پریس کانفرنس کا نام ہی دے سکا، کیوں کہ اس زمانے میں انگریزی تقریبِ رونمائی کی ترکیب وضع ہو کر ابھی رائج نہ ہوئی تھی۔ حتیٰ کہ انگریزی میں (Book Launching ceremony) کی اصطلاح بھی عام طور پر مستعمل نہ تھی۔

    اس لیے مسز فیض نے بھی میری مجوزہ تقریب کے متعلق فیض کو پریس کانفرنس کرنے کے متعلق ہی لکھا جس کے جواب میں فیض نے اپنے خط مؤرخہ 25 اکتوبر 1952ء میں لکھا:

    ’کتاب کی اشاعت کہاں تک پہنچی ہے۔ پریشان افکار کے اس مجموعے کے لیے پریس کانفرنس منعقد کرنا مجھے کچھ مبالغہ سا معلوم ہوتا ہے، لیکن شاید اس میں کچھ فائدہ ہو۔ مجھے ٹھیک سے معلوم نہیں کہ ایسے موقعوں پر کیا کہنا چاہیے۔ شاید کہا جا سکتا ہے کہ تمام ادب خواہ کسی سیاسی نظریے، کسی مکتب فکر یا کسی شخص کے متعلق ہو، بہر صورت قومی اثاثے کا جزو ہے۔ اس لیے حالات کچھ بھی ہوں ادب کی تخلیق بہر صورت ایک قومی خدمت کی ادائیگی ہے، جس کا کچھ اعتراف اور کچھ قدر ہونی چاہیے۔

    شاید ابھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر خادمِ قوم کی طرح، ہر ادیب کو کم از کم آزادی ضرور میسر ہونی چاہیے کہ وہ خدمت انجام دے سکے۔ اس اعتبار سے اگر اس شخص کی شخصی آزادی کو گزند پہنچایا جائے تو اس اقدام سے صرف اس کی ذات ہی نہیں اور بہت سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔‘

    فیض جیل میں تھے اور میرا ادارہ پیپلز پبلشنگ ہاؤس زیرِ عتاب۔ میرے کئی ساتھی بھی جیل میں تھے۔ ان حالات میں ہم لوگوں کی جانب سے کسی تقریب کا انعقاد جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ سی آئی ڈی والے ہر وقت ساتھ رہتے حتیٰ کہ ریسٹورنٹ کے کارپردازان کو بھی پریشان کیا گیا۔ ایسی صورتِ حال کے پیشِ نظر تقریب کی صدارت کے لیے کسی بااثر شخصیت یا وزیر وغیرہ سے استدعا کرنے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

    چناں چہ میں نے دیرینہ پڑوسی اور مرّبی جناب عبدُالرحمٰن چغتائی سے صدارت کے لیے درخواست کی جو انہوں نے بلا تأمل قبول کر لی۔ اس سے پیشتر فیض اور میری فرمائش پر وہ ’دستِ صبا‘ کا سرورق بھی ڈیزائن کر چکے تھے۔

    چناں چہ 22 دسمبر 1952ء کو بوقت سہ پہر مال روڈ (شاہراہِ قائد اعظم) کے ریسٹورنٹ جس کا نام ’ارجنٹینا‘ تھا، میں یہ پریس کانفرنس یا افتتاحی تقریب منعقد ہوئی اور یہ بات بلامبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی کتاب کی ہی پہلی افتتاحی تقریب رونمائی تھی جو اسی طرز اور اہتمام سے منعقد ہوئی جس طرح کہ آج کل ایسی تقاریب عام طور پر منعقد ہوتی ہیں۔

    میں فی زمانہ کتابوں کی منعقد ہونے والی تقاریب رونمائی کی روداد اخباروں میں پڑھتا ہوں تو معاً میرا ذہن ’دستِ صبا‘ کی اشاعت کے موقع پر اپنی طرف سے منعقدہ کردہ تقریب کی طرف چلا جاتا ہے اور فیض کا یہ شعر جو اس زمانے میں ’دستِ صبا‘ کے اشتہارات میں بھی آیا کرتا تھا، یاد آ جاتا ہے۔

    ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
    فیض گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے

    (عبدالرؤف ملک کی کتاب سرخ سیاست سے ایک پارہ)

  • برطانوی حکومت کے حق میں ہندوستانی طلبہ کی ذہن سازی کیسے کی جاتی تھی؟

    برطانوی حکومت کے حق میں ہندوستانی طلبہ کی ذہن سازی کیسے کی جاتی تھی؟

    انگریزوں نے ہندوستان پر اپنا راج برقرار رکھنے کے لیے جہاں من مانے اصولوں اور قوانین کا سہارا لیا، وہیں ہندوستانیوں کی حمایت اور وفاداریاں سمیٹنے کی کوشش بھی کی اور لوگوں کو یہ باور کرایا کہ برطانیہ اس خطّے اور مقامی لوگوں کی ترقی و خوش حالی چاہتا ہے جس کا ثبوت مختلف سرکاری اسکیمیں اور ترقیاتی کام ہیں۔

    کہتے ہیں اس زمانے میں عام لوگوں اور اسکولوں کے طلبہ کی "برکاتِ حکومتِ انگلشیہ” کے تحت لٹریچر سے ذہن سازی کی جاتی تھی۔ اس ضمن میں برطانوی راج کے فوائد و ثمرات سے متعلق سوالات ہوتے اور درست جواب دینے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ اس حوالے سے اردو کے مشہور و معروف افسانہ اور ناول نگار، فلمی ہدایت کار اور صحافی خواجہ احمد عباس کی آپ بیتی ‘‘جزیرہ نہیں ہوں میں‘‘ سے یہ اقتباس لائقِ مطالعہ ہے۔

    خواجہ احمد عباس نے ایسے ہی ایک واقعے کو یوں رقم کیا ہے:

    ”مجھ سے آگے والے لڑکے سے انسپکٹر صاحب نے کہا، ”تم بتاؤ برطانوی راج کی رحمتیں کون کون سی ہیں؟“

    جواب پہلے سے ہمیں زبانی یاد کرایا جاچکا تھا اور ہم کو وہی دہرانا تھا۔ ”برطانوی حکومت نے ہندوستان کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ سڑکیں بنوائی ہیں، ریلوے، ڈاک خانے، اسکول، اسپتال….“

    لڑکا کچھ ایسا ذہین نہیں تھا۔ اردو بولتے بولتے بھی اکھڑ گیا۔ انگریزی تو ہمارے اساتذہ تک کو نہیں آتی تھی۔

    ”جناب انسپکٹر صاحب، برطانوی حکومت نے ہمارے لیے بنائیں سڑکیں، ریلیں، ڈاک خانے….“ اس سے آگے کی فہرست وہ بھول گیا اور خاموش ہوگیا۔

    ”اور… اور؟“ انسپکٹر نے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے پوچھا۔ اس کو امید تھی کہ لڑکا کہے گا شفا خانے، کتب خانے وغیرہ وغیرہ۔

    ”اور کون بتا سکتا ہے؟“ انسپکٹر نے پوچھا۔ میں نے فوراً اپنا ہاتھ اٹھا دیا۔

    یہ واقعہ ہمارے شہر میں مہاتما گاندھی کی آمد کے فوراً بعد کا ہے اور مجھ کو معلوم تھا کہ ان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ مجھ کو صرف ایک ہی اور ”خانہ“ معلوم تھا، جو لڑکا بتانا بھول گیا تھا۔

    ”ہاں؟“ انسپکٹر صاحب نے میری طرف رُخ کیا۔ میں جماعت میں سب سے چھوٹا تھا۔ انھوں نے مسکرا کر میرا حوصلہ بڑھاتے ہوئے پہلے والے لڑکے کے الفاظ دہرائے۔ ”ریلیں، سڑکیں، ڈاک خانے….؟“

    میں نے بہ آوازِ بلند فاتحانہ انداز سے کہا۔ ”قید خانے۔“

    میرا اشارہ ان قید خانوں کی طرف تھا جن میں مہاتما گاندھی، علی برادران اور ان کے بہت سے پیرو کاروں کو بند کر کے رکھا گیا تھا۔

    میرے جواب پر انسپکٹر صاحب خوش نہیں ہوئے۔ حالاں کہ میں مطمئن تھا کہ قید خانے اور ڈاک خانے ہم صوت تھے۔

  • رانچی کے پاگل خانے کی "پری”

    رانچی کے پاگل خانے کی "پری”

    رانچی پاگل خانے کا جو منظر مجھے کبھی نہیں بھول سکا، وہ ایک بنگالی لڑکی تھی، جیسے سنگِ مَر مَر کو تراش کر کسی نے کوئی بُت بنایا ہو۔ باغیچے کے ایک الگ تھلگ کونے میں اکیلی بینچ پر بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہہ رہے تھے جیسے موتیوں کے دانے گر رہے ہوں۔

    میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ نیپال کی ڈاکٹر جو مجھے سینی ٹوریم دکھا رہی تھی، اس کا گلا یک لخت بھر آیا اور وہ خاموش ہو گئی۔

    پَل دو پَل کے لیے میرے قدم رک گئے اور میں اس حسینہ کی طرف دیکھنے لگ گیا۔ دودھیا سفید کپڑے پہنے یوں لگ رہی تھی جیسے عرش سے اتری کوئی پری ہو۔ وہ ہلے جلے بغیر ایک جگہ خاموش بیٹھی تھی اور اس کے آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے تھے۔ ” جیسے سنگِ مَرمَر کا کوئی پھوارا ہو۔“ میرے منہ سے نکلا۔

    اور پھر ہمارے ساتھ چل رہی نرس نے اس کی کہانی سنائی۔ ”بڑی بدقسمت لڑکی ہے۔ شکل سے سولہ سترہ سال کی ہو گی۔ اس کا پیار اپنے ٹیوٹر سے ہو گیا۔ وہ اسے پڑھانے آتا تھا۔ اتنے امیر ماں باپ کی بیٹی۔ اس کا بیاہ ایک معمولی ٹیوٹر سے وہ کیسے کر دیتے۔ گھر والوں نے ٹیوٹر کو کچھ دے دلا کر اس کا بیاہ کسی اور سے کروا دیا۔

    لڑکی نے جب سنا تو اس کا دماغ ہل گیا۔ بولتی ہے نہ کچھ کہتی ہے۔ کتنی کتنی دیر بھوکی کی بھوکی پڑی رہتی ہے۔ اسے جب موقع ملتا ہے سج سنور کر اس الگ تھلگ بینچ پر آکر بیٹھ جاتی ہے اور گھنٹوں بھر چھم چھم آنسو بہاتی رہتی ہے۔ جیسے چناب اس کے اندر پھوٹ پڑی ہو، اس کے آنسو نہیں رکتے۔ اس کی پلکیں نہیں سوکھتیں۔ اسے یہیں بیٹھے بیٹھے آنسو بہاتے رات ہو جائے گی۔

    اسی اسپتال کا ایک دوسرا واقعہ
    اسپتال کی سوشل ورکر ہمیں اس کے کمرے میں لے جا رہی تھی کہ ایک مریض جلدی جلدی آیا اور مجھے روک کر کہنے لگا۔ ”آپ کے ساتھ پردے میں ایک بات کرنی ہے۔“ میں ہنسنے لگا۔ ”ہاں بتاﺅ۔“ میں نے اس سے کہا۔

    ”ادھر چلو۔ ادھر۔“ اور وہ مجھے ایک طرف لے گیا جہاں دو شمال کی طرف پہاڑ دکھائی دیتے تھے۔

    ”ادھر سے آ رہے ہیں۔“ وہ مریض کہنے لگا۔ چیونٹیوں کی طرح فوجیں پہاڑوں سے اتر رہی ہیں۔ بم برسیں گے۔ گولے پھوٹیں گے۔ تڑ تڑ مشین گنیں چلیں گی۔ کوئی نہیں روک سکے گا، کوئی نہیں روک پائے گا۔ وہ دھکیلتے ہوئے ہمارے ملک میں داخل ہو جائیں گے۔ وہ ایسی مار ماریں گے کہ ہم کسی کو شکل دکھانے کے لائق نہیں رہیں گے۔

    آپ مانو یا نہ مانو میں نے بتا دیا ہے۔ میں نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے۔ مجھے تو ان کی فوجیں سامنے سے آتی دکھائی دے رہی ہیں۔ آپ کو نظر نہیں آ رہیں۔ عجیب ہے آپ کی نظر۔ آپ کے پاس آنکھیں ہی نہیں ہیں۔ کتنی دیر وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھے یوں بولتا رہا۔

    مجھے کچھ سمجھ نہ آیا۔ میں مند مند مسکراتا ہوا اس کی طرف دیکھتا رہا۔ چار دن بعد خبر آئی۔ چین نے ہمارے ملک پر حملہ کر دیا ہے۔ ان کی فوجیں چیونٹیوں کی طرح ہمارے ملک میں زبردستی گھس آئی ہیں۔ آگے ہی آگے بڑھ رہی تھیں۔

    (ناول نگار اور پنجابی زبان کے شاعر کرتار سنگھ دگل کی یادوں سے ترجمہ، مصنف کا تعلق گر داس پور، ہندوستان سے تھا)

  • ”آپ کی محبوبہ کون ہے؟“

    ”آپ کی محبوبہ کون ہے؟“

    ممتاز حسین نے بی ایڈ کیا۔ کیسے کیا اللہ جانتا ہے یا ہم لوگ۔ ان کا وہ آرام کا سال تھا۔ انھوں نے دیوانِ غالب خریدا اور جتنے دن وہ علی گڑھ رہے، صرف وہی پڑھتے رہے۔ ایک لڑکی پر عاشق ہوگئے اور اسی عشق کی بدولت بی ایڈ ہوگئے۔ ورنہ مجھے یقین تھا کہ وہ علی گڑھ سے یوں ہی چلے جاتے۔

    یہ عشق بھی عجیب و غریب تھا۔ اس زمانے میں علی گڑھ میں لڑکیاں برقع پہنتیں، اور پوسٹ گریجویٹ کلاسوں میں علاحدہ بیٹھتیں۔ بڑی دعاﺅں کے بعد اگر کسی کا برقع سرک جاتا تو ایک ہلکا سا دیدار ہوجاتا۔ دیدار بھی کیا ہوتا۔ یوں سمجھیے کہ غالب کے قول کے مطابق: وہ اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے

    ایک روز شامتِ اعمال، ایک لڑکی برقع پہنے ممتاز بھائی کے پاس آئی اور اس نے ممتاز بھائی سے نوٹس مانگ لیے۔ چوں کہ وہ اپنی کلاس کے سب سے پڑھے لکھے طالب علم تھے، ان کے استاد بھی ان کے علم کا لوہا مانتے تھے۔ لڑکی کو خیال ہوا کہ طالب علم بھی اچّھے ہوں گے۔ اس نے اظہارِ خیال کردیا۔ ممتاز بھائی نے اس کی شکل نہیں دیکھی اور عاشق ہوگئے۔

    اس کے لیے راتوں رات نوٹس تیار کیے۔ ایک کاپی بھر دی۔ اب تو وہ متاثر ہوئی اور اس نے باقاعدہ ان سے مدد لینا شروع کردی۔ ممتاز حسین نے اردو میں چند بہترین افسانے بھی لکھے ہیں، لیکن وہ عشقیہ خطوط نہیں لکھ سکتے۔ چناں چہ یہ فرض حسن امام، مونس رضا اور راقم الحروف نے ادا کیا۔ بہرحال یہ سلسلہ چلتا رہا۔

    ایک روز ہم لوگوں نے اصرار کیا کہ ممتاز بھائی ہم لوگ اتنا کام کرتے ہیں، مشورے دیتے ہیں، آخر ہم لوگ بھی تو آپ کی محبوبہ کو دیکھیں۔ چناں چہ ایک روز ہم لوگ بھی پہنچے۔ وہاں متعدد برقع پوش عورتیں تھیں۔ ممتاز بھائی سے پوچھا کہ ”ان میں سے آپ کی محبوبہ کون ہے؟“

    ممتاز بھائی خود بھونچکا تھے۔ کہنے لگے میں کیا بتاﺅں۔ میں نے خود کون سی دیکھی ہے؟

    (یہ دل چسپ واقعہ کتاب "علی گڑھ سے علی گڑھ تک” میں‌ شامل ہے)

  • مصری شہری سے مصافحے کے بعد توبہ استغفار کا ورد!

    مصری شہری سے مصافحے کے بعد توبہ استغفار کا ورد!

    میر محبوب علی خاں، نظامِ دکن کے ایک رفیق خاص اور مصاحب نواب ناصر الدولہ تھے، نظام کے پوتے شاہ زادہ معظم جاہ انھیں ہمیشہ پیا کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔

    اعلیٰ حضرت نواب میر محبوب علی خاں صاحب خلد آشیانی کے مرکب میں پیانے ہندوستان کے متعدد سفر کیے تھے۔ مگر ہندوستان کے باہر کبھی جانے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ یہ اتفاق بڑھاپے میں پیش آیا جب پہلی بار پرنس (بادشاہ زادہ معظم جاہ) کے ہمراہ مقامات مقدسہ کی زیارت کو تشریف لے گئے۔

    عبا، قبا اور عمامے کو علمائے ہند کے زیب بر اور زینت سر دیکھ کر پیا جانتے تھے کہ یہ لباس صرف علما اور صلحا ہی سے مختص ہے جس روز بغداد پہنچے، اس کے دوسرے ہی دن ہوٹل میں پرنس کے پاس بیٹھے تھے کہ خادم نے ایک ملاقاتی کارڈ پرنس کے سامنے پیش کیا۔ ملاقاتی ایک جوان عمر کا مصر تھا جس کی سرخ و سفید رنگت پر سیاہ داڑھی بہت زیب دیتی تھی۔

    اسے عمامے اور عبا میں ملبوس دیکھ کر پیا دینی پیشوا سمجھ کر تعظیم بجا لائے، مصافحہ کرکے ہاتھ چومے، آنکھوں سے لگائے، اہلاً و سہلاً، مرحبا کہہ کر خیر مقدم کیا پھر اپنی جگہ نہایت ادب سے بیٹھ گئے۔ مصری تھوڑی دیر فرانسیسی زبان میں پرنس سے باتیں کرکے جانے لگا تو پیا نے پھر اسے احترام سے رخصت کیا۔

    اس کے جانے کے بعد پرنس سے دریافت کیا ”صاحب! یہ کوئی عالم دین تھے یا کسی درگاہ کے متولی؟ چہرہ کیسا نورانی تھا کہ خانہ زاد کا دل روشن ہوگیا۔“ پرنس نے فرمایا ”کاروباری آدمی تھا، میرے پاس اس غرض سے آیا تھا کہ حسینانِ بغداد کوملاحظہ فرمانے کے لیے ایک گھنٹہ مجھے بھی مرحمت فرمایئے تو ایسی صورتیں دکھاؤں کہ حسینانِ ہند یک سر آپ کی نگاہوں سے گرجائیں۔“ پیا نے کہا ”استغفراللہ! اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے“ پیا منہ پر طمانچے مار مار کر توبہ اور استغفار میں مصروف تھے…… پھر اس سفر میں پیا نے کسی عالم دین سے بھی مصافحہ نہ کیا۔
    یہ سطور صدق جائسی کی آپ بیتی سے لی گئی ہیں.