Tag: آڈیو لیک کیس

  • آڈیو لیک کیس: ایف آئی اے، پی ٹی اے، پیمرا کی درخواستیں 5،5 لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ خارج

    آڈیو لیک کیس: ایف آئی اے، پی ٹی اے، پیمرا کی درخواستیں 5،5 لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ خارج

    اسلام آباد: آڈیو لیک کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے، پی ٹی اے، پیمرا کی درخواستیں 5،5 لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ خارج کر دیں۔

    تفصیلات کے مطابق آڈیو لیک کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے، پیمرا اور پی ٹی اے کی عدالتی بینچ پر اعتراض کی متفرق درخواستیں پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانہ لگا کر خارج کر دیں، اور انٹیلیجنس بیورو کے جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل طارق محمود کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

    آڈیو لیک کیس میں بشریٰ بی بی اور نجم ثاقب کی درخواستوں پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے کی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی اے نے کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی استدعا کی ہے، اور اعتراض کیا ہے کہ ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار سمیت 6 ججز نے انٹیلیجنس ایجنسیز کی عدلیہ میں مداخلت کا خط لکھا۔

    عدالتی استفسار پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے بتایا کہ متفرق درخواستیں آئی بی، ایف آئی اے، پی ٹی اے نے دائر کی ہیں، جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ آئی بی، ایف آئی اے، پی ٹی اے اہم ادارے ہیں، ان کی درخواستیں سن کر فیصلہ کروں گا، کس نے ان کو درخواستیں دائر کرنے کی اتھارٹی دی ہے؟

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا آج کا بینچ ڈی لسٹ کردیا گیا

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل بولے ڈی جی ایف آئی اے نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو اتھارٹی دی، جج نے کہا کہ درخواست کا متعلقہ حصہ پڑھیں جہاں مجھ پر اعتراض کیا گیا ہے، یہ خط ایف آئی اے سے کس طرح متعلقہ ہے؟ آئی ایس آئی کے معاملے سے ایف آئی اے کا کیا تعلق ہے؟ جسٹس شوکت صدیقی کے جو الزامات ہیں اس عدالت کے ججز ان کو سپورٹ کر رہے ہیں، اس عدالت کے ججز نے کہا کہ وہ جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کرنے کو سپورٹ کرتے ہیں۔

    جج نے کہا آپ نے خط کا جو حصہ پڑھا یہ آئی ایس آئی سے متعلق ہے، ایف آئی اے سے متعلق نہیں، آپ نے متفرق درخواست میں لکھا ہے کہ ہائیکورٹ کے ججز نے شکایت کی، یہ شکایت کس طرح ہے؟ جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی نے الزامات لگائے، ہم تو حمایت کر رہے ہیں، ہائیکورٹ ججز کا خط آئی ایس آئی سے متعلق ہے، ایف آئی اے سے متعلق نہیں، کیا ایف آئی اے انٹیلیجنس ایجنسی ہے؟

    ایڈیشنل اٹارنی نے بتایا ایف آئی اے انٹیلیجنس ایجنسی نہیں ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ہائیکورٹ کے ججز کو بلیک میل کرنے سے ایف آئی اے کا کوئی تعلق ہے؟ کیا ایف آئی اے کا ججز کے گھروں میں خفیہ کیمرے لگانے سے کوئی تعلق ہے؟ کیا اس لیٹر میں کسی ایگزیکٹو کے نام کا ذکر ہے؟ مفاد کے ٹکراؤ کے حوالے سے بتائیں؟ اس خط میں ذاتی مفاد کا بتائیں؟ میرا کیا ذاتی مفاد ہے؟ اگر ایگزیکٹو ججز کو بلیک میل کرے تو کیا ججز کے مفادات کا ٹکراؤ ہو جائے گا؟ مفادات کے ٹکراؤ کی کیا آپ اس طرح تعریف کریں گے؟

    جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ خط کے کسی ایک معاملے سے بھی ایف آئی اے کا کیا تعلق ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا بادی النظر میں ایف آئی اے کا کوئی تعلق نہیں بنتا، جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ پھر ایف آئی اے کیس نہ سننے کی متفرق درخواست کیسے دائر کر سکتی ہے؟ اس پر ڈی جی ایف آئی اے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو سکتی ہے،

    ریمارکس دیتے ہوئے عدالت نے آڈیو لیکس میں ایف آئے اے کی اعتراض کی متفرق درخواست جرمانے کے ساتھ مسترد کر دی، بعد ازاں عدالت نے آئی بی افسر کو روسٹرم پر طلب کیا اور آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل طارق محمود کو ذاتی حیثیت میں جواب طلبی کے لیے طلب کیا۔

    کیس کی سماعت کے بعد اعتزاز احسن نے کہا اسلام آباد ہائیکورٹ کے آج کے حکم نامے نے میرا قد 20 فٹ اونچا کر دیا، وکلا نے بھی روسٹرم پر آ کر جسٹس بابر ستار کی بہادری کو سراہا۔

  • ’قانون کے مطابق شہریوں کی گفتگو ریکارڈ کی جا سکتی ہے لیکن اسے خفیہ رکھنا لازم ہے‘

    ’قانون کے مطابق شہریوں کی گفتگو ریکارڈ کی جا سکتی ہے لیکن اسے خفیہ رکھنا لازم ہے‘

    اسلام آباد: آڈیو لیکس کیس میں وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جواب جمع کرا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں آڈیو لیک کیس میں جواب جمع کراتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی ٹیلی فون گفتگو ریکارڈ کرنے کے لیے لیگل فریم ورک موجود ہے۔

    پرنسپل سیکریٹری نے کہا عدالت نے سوال پوچھا ہے کہ کس ایجنسی کے پاس گفتگو ریکارڈ کرنے کی صلاحیت ہے؟ جواب یہ ہے کہ فیئر ٹرائل ایکٹ 2013 سیکیورٹی اور انٹیلیجنس اداروں کو ریگولیٹ کرنے کا فریم ورک دیتا ہے، وزیر اعظم آفس انٹیلیجنس ایجنسیوں کے حساس روزمرہ امور میں مداخلت نہیں کرتا، اور ان کے ساتھ کچھ فاصلے سے تعلقات رکھتا ہے۔

    وزیر اعظم آفس انٹیلیجنس ایجنسیوں سے آئین، قانون کے مطابق عوامی مفاد میں کام کی امید رکھتا ہے، اور وزیر اعظم آفس کا انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کام ، آپریشنز کی تفصیل میں جانا قومی سلامتی کے حق میں نہیں، ایسا عمل ملک کو اندرونی و بیرونی خطرات سے بچانے والی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مفاد میں نہیں ہے۔

    پرنسپل سیکریٹری نے کہا عدالت نے سوال پوچھا کہ قانون کے مطابق ریکارڈ ٹیلی فونک گفتگو کو خفیہ رکھنے کے کیا سیف گارڈز ہیں؟ انوسٹیگیشن فار فیئر ٹرائل ایکٹ 2013 شہریوں کی گفتگو ریکارڈ کرنے کی اجازت کا میکنزم فراہم کرتا ہے، تاہم قانون کے مطابق ریکارڈ کی گئی گفتگو کو خفیہ رکھنا، لیک ہونے سے روکنے کو یقینی بنانا ضروری ہے۔

    انھوں نے کہا اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ ریکارڈ کی گئی گفتگو کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے، ٹیلی گراف ایکٹ میں بھی پیغامات پڑھنے کے لیے وفاقی یا صوبائی حکومت سے اجازت کو لازم قرار دیا گیا، لیکن پیکا آرڈینینس اور رولز کے تحت بھی حاصل کیے گئے ڈیٹا یا ریکارڈ کو خفیہ رکھنا لازم ہے۔

    پرنسپل سیکریٹری نے جواب میں کہا عدالت نے سوال پوچھا ہے کہ شہریوں کی گفتگو کس نے ریکارڈ اور لیک کیں؟ تحقیقات کیا ہوئیں؟ تو جواب یہ ہے کہ ٹیلی فون گفتگو ریکارڈ کر کے لیک کرنے کا معاملہ وفاقی حکومت کے علم میں ہے، اور وفاقی حکومت نے سینئر ججز پر مشتمل اعلیٰ سطح کا انکوائری کمیشن قائم کیا ہے، یہ کمیشن لیک کی گئی آڈیوز کے مصدقہ ہونے کی انکوائری کرے گا۔