Tag: آکسفورڈ ویکسین

  • کویت: آکسفورڈ کی کرونا ویکسین کے سلسلے میں اہم فیصلہ

    کویت: آکسفورڈ کی کرونا ویکسین کے سلسلے میں اہم فیصلہ

    کویت سٹی: کویت میں آکسفورڈ کی کرونا ویکسین ہنگامی صورت حال میں استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق کویتی وزارت صحت نے آکسفورڈ کی کرونا ویکسین ایمرجنسی میں استعمال کرنے کی اجازت دے دی، یہ ویکسین انڈیا کی سیرم فیکٹری میں انٹرنیشنل کمپنی آسٹرازینیکا کے لائسنس سے تیار کی جا رہی ہے۔

    جمعے کو ایک بیان میں معاون سیکریٹری صحت ڈاکٹر عبداللہ البدر نے کہا کہ تکنیکی کمیٹی نے متعدد ویکسینز کا جائزہ لیا، اور آکسفورڈ ویکسین کے حق میں رائے دی۔

    کویت میں کرونا ٹیسٹ کی قیمت مقرر

    ان کا کہنا تھا حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں ویکسین پروگرام پر عمل درآمد میں تاخیر نہ ہو، اس لیے ویکسین کے ایمرجنسی میں استعمال کی اجازت دی گئی ہے، آکسفورڈ ویکسین کی پہلی کھیپ چند روز میں کویت پہنچ جائے گی۔

    آکسفورڈ ویکسین سے متعلق ڈاکٹر عبداللہ البدر نے کہا کہ اس ویکسین کو برطانیہ کا متعلقہ ادارہ منظور کر چکا ہے، عالمی ادارہ صحت نے سیرم فیکٹری کے حق میں بھی رائے دی ہے، جب کہ جی سی سی ہیلتھ کونسل نے بھی اس کی منظوری دی ہے۔

    معاون سیکریٹری صحت نے واضح کیا کہ آکسفورڈ ویکسین کے استعمال کی منظوری تکنیکی کمیٹی نے تحقیق اور مطالعے کے بعد دی ہے۔

  • آکسفورڈ یونیورسٹی کی کرونا ویکسین کیسے کام کرے گی؟

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی کرونا ویکسین کیسے کام کرے گی؟

    لندن: برطانیہ نے گزشتہ روز آکسفورڈ یونیورسٹی اور برٹش ۔ سوئیڈش کمپنی ایسٹرا زینیکا کے ساتھ مل کر کرونا ویکسین چاڈ آکسل این کوو 19 کا استعمال شروع کردیا ہے۔

    یہ ویکسین کرونا وائرس سے تحفظ کے لیے 70 سے 90 فیصد تک مؤثر قرار دی جارہی ہے، جس کا انحصار پہلے ڈوز کی مقدار پر ہے، بھارت نے بھی اس ویکسین کے استعمال کی منظوری دے دی ہے۔

    کرونا وائرس اپنے پروٹینز یا اسپائیک پروٹین کی مدد سے انسانی خلیات میں داخل ہوتا ہے، اسپائیک پروٹینز کو ہی ویکسینز کا ہدف بنایا گیا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی یہ ویکسین کرونا وائرس کے جینیاتی مواد پر مبنی ہے، مگر فائزر ۔ بائیو این ٹیک اور موڈرنا کی ایم آر این اے ویکسینز کے برعکس اس ویکسین کے لیے ڈبل آر این اے کو استعمال کیا گیا۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے کرونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کے جین کو ایک اور وائرس ایڈنو وائرس میں شامل کیا۔

    ایڈنو وائرسز موسمی نزلہ زکام یا فلو جیسی علامات کا باعث بنتے ہیں اور آکسفورڈ کی ٹیم نے ویکسین کے لیے ایک چیمپینزی ایڈنو وائرس کا تدوین شدہ ورژن استعمال کیا، جو خلیات میں داخل تو ہوسکتا ہے مگر اپنی نقول نہیں بناسکتا۔

    ایڈنو وائرس پر مبنی پہلی ویکسین کی عام استعمال کی منظوری جولائی میں دی گئی تھی جو ایبولا کے لیے تیار ہوئی تھی۔

    اس کے مزید کلینیکل ٹرائلز دیگر امراض بشمول ایچ آئی وی اور زیکا پر بھی کیے جارہے ہیں۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی یہ ویکسین فائزر اور موڈرنا کے مقابلے میں زیادہ سخت جان ہے اور اس کا ڈی این اے آر این اے جتنا نازک نہیں۔ ایڈنو وائرس کا سخت پروٹین کوٹ اس کے اندر موجود جینیاتی مواد کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے منجمد رکھنے کی ضرورت نہیں۔

    یہ ویکسین 2 سے 8 سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر فریج میں رکھنے پر کم از کم 6 ماہ تک کام کرسکتی ہے۔

    جب اس ویکسین کو کسی فرد کے بازو میں انجیکٹ کیا جاتا ہے، ایڈنو وائرسز خلیات کی جانب بڑھتے ہیں اور ان کی سطح پر موجود پروٹینز کو للچاتے ہیں۔

    اس طرح خلیات وائرس کو اپنے اندر داخل کر دیتے ہیں اور وہاں پہنچ کر یہ خلیات کے ڈی این اے محفوظ رکھنے والے حصوں میں پہنچ جاتا ہے۔

    ایڈنو وائرس اپنے ڈی این اے کو اس حصے میں شامل کرتا ہے، چونکہ یہ تدوین شدہ وائرس ہے تو اپنی نقول نہیں بنا پاتا مگر خلیات کرونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کو پڑھنے کی صلاحیت حاصل کرلیتے ہیں اور ایک مالیکیول بناتے ہیں جسے ایم آر این اے کہا جاتا ہے۔

    یہ ایم آر این اے خلیات کے ڈی این اے کے حصوں میں رہ جاتا ہے اور خلیات کے مالیکیولز اس کے سیکونس کو پڑھ لیتے ہیں اور وہ اسپائیک پروٹینزز کو بنانا شروع کردیتے ہیں۔

    یہ تیار ہونے والے کچھ اسپائیک پروٹینز خلیات کی سطح پر پہنچ کر وہاں ٹک جاتے ہیں جبکہ ویکسی نیٹڈ خلیات کچھ پروٹینز کو ذرات میں بدل دیتے ہیں جو سطح پر موجود رہتے ہیں۔

    اسپائیک پروٹین کے یہ ذرات مدافعتی نظام شناخت کرلیتا ہے۔

    ایڈنو وائرس مدافعتی نظام کو خلیات کے الارم سسٹمز کے ذریعے متحرک کرتا ہے، خلیات کی جانب سے قریب موجود مدافعتی خلیات کو متحرک ہونے کے انتباہی سگنلز بھیجے جاتے ہیں۔

    اس الارم کے نتیجے میں آکسفورڈ ویکسین کے استعمال سے مدافعتی نظام اسپائیک پروٹینز کے لیے خلاف ٹھوس انداز سے ردعمل ظاہر کرتا ہے۔

    جب ویکسین والے خلیات مرجاتے ہیں، تو ان کے ملبے میں اسپائیک پروٹینز اور پروٹین کے ذرات ہوتے ہیں جو ایک قسم مدافعتی خلیے اینٹی جن میں بدل جاتے ہیں۔

    ان خلیات کی سطح پر اسپائیک پروٹین کے ذرات موجود ہوتے ہیں، جب دیگر خلیات یعنی ٹی سیلز ان ذرات کو پکڑتے ہیں تو وہ الارم بجاتے ہیں، تاکہ دیگر مدافعتی خلیات کو بیماری میں لڑنے کے لیے مدد مل سکے۔

    دیگر مدافعتی خلیات جن کو بی سیلز کہا جاتا ہے، وہ ویکسین والے خلیات کی سطح میں موجود اسپائیک یا آزاد ہوکر تیرنے والے وائرل ذرات سے ٹکراتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بی سیلز اسپائیک پروٹینز کو جکڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    اگر ان بی سیلز کو ٹی سیلز نے متحرک یا ہو تو وہ ایسی اینٹی باڈیز خارج کرنے لگتے ہیں جو اسپائیک پروٹین کو ہدف بناتے ہیں۔

    یہ اینٹی باڈیز کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کو اپنی جانب للچاتی ہیں، جس کے بعد وائرس کو تباہ کرنے اور اسپائیک پروٹینز کو دیگر خلیات سے جڑنے کے عمل سے روک کر بیماری سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔

    اینٹی جن والے خلیات میں ایک اور قسم کا مدافعتی خلیات کلر ٹی سیلز بھی متحرک ہوتے ہیں جو کرونا وائرس سے متاثر تمام خلیات کو دریافت کرکے تباہ کرتے ہیں۔

    اس ویکسین کو 2 خوراکوں میں استعمال کروایا جاتا ہے جو 4 ہفتوں کے وقفے سے دی جاتی ہیں، تاکہ مدافعتی نظام کو کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے تیار ہوسکے۔

    کلینیکل ٹرائل کے دوران محققین نے غلطی سے کچھ رضاکاروں کو پہلا ڈوز آدھی مقدار میں دیا۔ حیران کن طور پر کم مقدار والے پہلے ڈوز کے ساتھ مکمل دوسرا ڈوز استعمال کرنے والے افراد میں یہ ویکسین کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے 90 فیصد تک موثر دریافت ہوئی۔

    اس کے مقابلے میں دونوں بار مکمل ڈوز استعمال کرنے والے افراد میں یہ شرح 62 فیصد تک تھی۔ چونکہ یہ ویکسین نئی ہے، اس لیے محققین کو علم نہیں کہ اس سے ملنے والا تحفظ کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔

    ایسا ممکن ہے کہ ویکسینیشن کے چند ماہ بعد اینٹی باڈیز اور ٹی سیلز کی شرح میں کمی آجائے، مگر مدافعتی نظام میں خصوصی خلیات ہوتے ہیں جن کو میموری بی سیلز اور میموری ٹی سیلز کہا جاتا ہے، جو ممکنہ طور پر کئی برس یا دہائیوں تک کرونا وائرس سے متعلق معلومات کو اپنی حد تک محفوظ رکھتے ہیں۔

  • برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ کرونا ویکسین لگانے کا عمل شروع

    برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ کرونا ویکسین لگانے کا عمل شروع

    لندن: آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ ویکسین کی پہلی ڈوز 82 سالہ برطانوی شہری کو لگا دی گئی، برطانوی اسپتالوں میں اس ویکسین کی 5 لاکھ 30 ہزار خوراکیں مہیا کی جا چکی ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی اور ایسٹرا زینیکا کی تیار کردہ کرونا ویکسین لگانے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ پہلی ویکسین آکسفورڈ کے چرچل اسپتال میں 82 سالہ برائن پنکر کو لگائی گئی ہے۔

    برطانوی ہیلتھ سیکریٹری نے اس پیش رفت کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ برطانیہ کی کرونا وبا کے خلاف جنگ کامیابی کی منزل کی طرف بڑھ رہی ہے اور بہت جلد حفاظتی پابندیوں سے چھٹکارا مل جائے گا۔

    آکسفورڈ ایسٹرا زینیکا ویکسین برطانیہ کے 6 ہیلتھ ٹرسٹس میں لگائی جارہی ہے جن میں آکسفورڈ، لندن، سسیکس، لنکا شائر اور وارک شائر شامل ہیں۔

    ان اسپتالوں میں 5 لاکھ 30 ہزار ویکسینز مہیا کی جا چکی ہیں جبکہ اس ہفتے کے اختتام پر برطانیہ بھر کی سینکڑوں جنرل فزیشنز کو بھی مزید ویکسینز مہیا کر دی جائیں گی۔

    اس سے قبل تحقیقاتی جریدے دی لانسیٹ میں شائع کرونا وائرس ویکسین کے ڈیٹا میں بتایا گیا کہ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسین محفوظ اور مؤثر ہے۔

    ڈیٹا کے مطابق یہ ویکسین کووڈ کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے ساتھ بیماری اور موت سے بھی تحفظ فراہم کرسکے گی۔

    نومبر کے آخر میں آکسفورڈ یونیورسٹی اور سویڈش دوا ساز کمپنی ایسٹرا زینیکا نے بتایا تھا کہ یہ ویکسین کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے 70 سے 90 فیصد تک مؤثر ہے۔

    ٹرائل کے مطابق پہلے آدھی مقدار والا ڈوز اور پھر چند ہفتوں بعد مکمل ڈوز استعمال کرنے والے افراد میں ویکسین کی افادیت 90 فیصد تک رہی جبکہ 2 مکمل ڈوز لینے والے افراد میں یہ شرح 62 فیصد تک گھٹ گئی۔

  • کرونا ویکسین: آکسفورڈ یونی ورسٹی کی جانب سے بھی بڑی خوش خبری

    کرونا ویکسین: آکسفورڈ یونی ورسٹی کی جانب سے بھی بڑی خوش خبری

    لندن: آکسفورڈ یونی ورسٹی کی کرونا وائرس کی ویکسین بھی تیار ہو گئی۔

    تفصیلات کے مطابق آکسفورڈ یونی ورسٹی کی تیار کردہ کرونا ویکسین کے آزمائشی مرحلے کا مکمل ڈیٹا آخری اجازت کے لیے جمع کروا دیا گیا ہے۔

    ویکسین کی حتمی منظوری میڈیسنز اینڈ ہیلتھ کیئر ایجنسی دے گی، ہیلتھ سیکریٹری کے مطابق کرونا ویکسین کی منظوری 28 دسمبر کو متوقع ہے۔

    آکسفورڈ یونی ورسٹی اور آسٹرا زینیکا کی تیار کردہ ویکسین موجودہ ویکسین سے سستی ہوگی، برطانوی حکومت نے پہلے ہی 100 ملین ویکسینز کا آرڈر دے رکھا ہے۔

    کرونا کی نئی قسم کہاں سے آئی؟ اہم انکشاف

    واضح رہے کہ برطانیہ میں کرونا وائرس کی نئی قسم سامنے آنے کے بعد کرونا کیسز میں پھر سے تیزی آ گئی ہے، سیکریٹری ہیلتھ کا کہنا تھا کہ کرونا کیسز کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

    ادھر برطانوی وزیر صحت نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم جنوبی افریقا سے برطانیہ میں آئی ہے، بدھ کے روز برطانیہ نے کرونا وائرس کی نئی قسم کے پھیلاؤ پر جنوبی افریقا سے سفر پر پابندیاں عائد کر دیں۔