Tag: آکسیجن

  • سلنڈرز کے بعد آکسیجن کی بھی قلت، چند کمپنیوں کی اجارہ داری قائم

    سلنڈرز کے بعد آکسیجن کی بھی قلت، چند کمپنیوں کی اجارہ داری قائم

    کراچی: منافع خور مافیا چند پیسوں کے لیے زندگیوں سے کھیلنے لگی، آکسیجن سلنڈرز کے بحران کے بعد آکسیجن کی بھی مصنوعی قلت پیدا کر دی گئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی میں آکسیجن کی فراہمی میں 3 سے 4 کمپنیوں کی اجارہ داری ہے، اس کارٹل نے کرونا وبا کی آڑ میں آکسیجن کی فراہمی میں کمی کر دی۔

    ایک ہفتے میں آکسیجن سلنڈر ری فل کرانے کی قیمتوں میں 2 بار اضافہ کیا جا چکا ہے، ایک ہفتے میں 120 کیوبک فٹ گیس کا سلنڈر 300 سے بڑھ کر 550 روپے کا ہو گیا ہے، آکسیجن کی قیمتوں میں اضافے سے کرونا سمیت دیگر بیماریوں کے مریض پریشان پھرنے لگے۔

    گھروں میں مریضوں کو مفت آکسیجن فراہم کرنے والی این جی اوز کا بجٹ بھی متاثر ہو گیا۔

    کراچی میں آکسیجن سلنڈرز نایاب، قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں

    خیال رہے کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں کرونا کے کیسز میں اضافے کے بعد آکسیجن سلنڈرز نایاب ہو گئے ہیں، مریض آکسیجن سلنڈرز کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے لگے ہیں اگر کہیں دستیاب بھی ہے تو اس کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔

    ڈاکٹرز کے مطابق آکسیجن سلنڈرز کی ضرورت دل کے مریضوں اور دیگر نازک حالات میں اسپتالوں میں موجود مریضوں کو بھی بہت ہے لیکن آکسیجن سلنڈرز نہ ہونے کی وجہ سے ان کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

    غریب مریضوں کو آکسیجن سلنڈر نہ سرکاری اسپتالوں میں مل رہا ہے، نہ نجی اسپتالوں میں، کچھ مارکٹیوں میں اس کی قیمت 35 ہزار فی سلنڈر تک جا پہنچی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں، نیز گر کسی مریض کو رات کے اوقات میں آکسجن سلنڈر کی ضرورت ہو تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے آکسیجن کی فراہمی کے مراکز بند ملتے ہیں۔

    اگر حکام سلنڈر ری فل کرنے کے مراکز کو لازمی سروس قرار دے کر 24 گھنٹے کھلے رکھنے کی اجازت دے تو اس سے آکسیجن کے ضرورت مند مریضوں کو بڑی سہولت میسر آ جائے گی۔

  • منافع خوروں نے آکسیجن بھی مارکیٹوں سے غائب کر دی

    منافع خوروں نے آکسیجن بھی مارکیٹوں سے غائب کر دی

    راولپنڈی: منافع خوروں نے کرونا وائرس کی وبا میں دیگر ضروری اشیا کی طرح آکسیجن بھی مارکیٹوں سے غائب کر دی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کرونا کے مریضوں کی تعداد بڑھنے سے اسپتالوں کو مشکلات کا سامنا ہے، راولپنڈی کے تمام سرکاری اسپتالوں میں آکسیجن کی بھی قلت پیدا ہو گئی ہے۔

    ذرایع کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں آکسیجن کی قلت سے اسپتالوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، منافع خوروں نے آکسیجن بھی مارکیٹوں سے غائب کر دی، اسپتالوں میں فنڈز موجود ہونے کے باوجود آکسیجن خریدنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

    اس سے قبل کرونا کی وبا شروع ہوتے ہی منافع خوروں نے فیس ماسک مارکیٹ سے غائب کر کے قیمتیں آسمان تک پہنچا دی تھیں، اس کے بعد سینی ٹائزرز بھی مارکیٹ سے غائب ہو گئے تھے، اور ابھی چند دن قبل طاقت ور منافع خوروں نے آرتھرائٹس کا انجیکشن ایکٹمرا بھی مارکیٹ سے غائب کر دی تھی اور اس کی قیمت ایک لاکھ سے بھی اوپر جا چکی ہے۔

    رواں ماہ کے اختتام تک 1000اضافی آکسیجن بیڈز دستیاب ہوں گے

    اب منافع خوروں نے آکسیجن بھی غائب کر دی ہے تاکہ اسے بلیک میں نہایت مہنگا فروخت کیا جا سکے، خیال رہے کہ کرونا انفیکشن کے سیرئس مریضوں کو وینٹی لیٹرز پر منتقل کر کے مصنوعی طور پر آکسیجن فراہم کی جاتی ہے، تاہم اسپتالوں میں دیگر سیرئس مریضوں کو بھی مستقل طور پر آکسیجن کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔

  • مریخ پر بھی زندگی سانس لے سکتی ہے؟

    مریخ پر بھی زندگی سانس لے سکتی ہے؟

    انسان نے زمین کی حدود سے باہر جانے کے بعد جہاں دیگر سیاروں پر اپنے قدم رکھے، وہیں وہاں پر اپنا گھر بنانے کا بھی سوچا، لیکن ہر سیارہ زمین کی طرح زندگی کے لیے موزوں مقام نہیں ہے جہاں زندگی کے لیے ضروری آکسیجن اور پانی مل سکے۔

    تاہم حال ہی میں ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مریخ کی اوپری سطح سے نیچے موجود نمکین پانی میں آکسیجن کی اتنی مقدار موجود ہے جو زندگی کے لیے کافی ہے۔

    ماہرین کے مطابق جس طر ح زمین پر اربوں سال قبل خوردبینی جاندار موجود تھے اسی طرح مریخ پر بھی ایسی آبادیاں بس سکتی ہیں۔

    جرنل نیچر جیو سائنس میں چھپنے والی اس تحقیق کے مطابق مریخ پر کئی مقامت میں اتنی آکسیجن موجود ہے جو کثیر خلیہ جاندار جیسے اسفنج کی زندگ کے لیے معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

    اب تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ مریخ پر اتنی بھی آکسجین موجود نہیں کہ وہاں خوردبینی جاندار زندہ رہ سکیں، تاہم نئی تحقیق مریخ پر کیے جانے والے مطالعے کو نیا رخ دے گی۔

    اس سے قبل بھی کئی بار مریخ پر پانی کی موجودگی کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے جس کے باعث کہا گیا کہ ماضی میں مریخ پر بھی زندگی ہوا کرتی تھی۔

    ایک تحقیق میں سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ مریخ پر موجود کچھ نشانات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی میں یہاں وافر مقدار میں پانی موجود تھا۔ محققین کا کہنا ہے کہ پانی کی موجودگی سے آبادی کا قیاس کرنا غلط نہ ہوگا۔

    اس سے قبل نومبر 2016 میں ناسا کے ایک سائنسدان کی ریسرچ کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ مریخ کے ایک علاقے میں برف کا ایک بڑا ٹکڑا موجود ہے جو برفانی پہاڑ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں ایک بار پھر مریخ پر راکٹ بھیجنا پڑے گا تاکہ ابہام کو دور کیا جا سکے۔

  • دنیا کی پہلی ماحول دوست ہائیڈروجن ٹرین

    دنیا کی پہلی ماحول دوست ہائیڈروجن ٹرین

    جرمنی میں دنیا کی پہلی ہائیڈروجن ٹرین بہت جلد منظر عام پر آنے والی ہے جو ماحول دوست ہے اور کسی قسم کی گیسوں کا اخراج نہیں کرتی۔

    ہائیڈروجن گیس کو بطور ایندھن استعمال کرنے والی ہائڈریل نامی یہ ٹرین رواں برس دسمبر سے فعال کردی جائے گی۔ پہلی ٹرین صرف 60 میل کا سفر کرے گی۔

    train-2

    حکام کا کہنا ہے کہ اگر یہ تجربہ کامیابی سے ہمکنار ہوجاتا ہے تو جرمنی، فرانسیسی کمپنی کی معاونت سے ایسی مزید ٹرینوں کی تیاری پر کام کرے گا اور اس دوران ان کی صلاحیت و استعداد میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔

    اسے تیار کرنے والی نجی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ وہ ماحول دوست سفری سہولیات کے شعبے میں اس شاندار کام کے آغاز سے بے حد خوش ہیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے ماحول دوست ممالک

    ہائڈریل نامی یہ ٹرین اسی طریقہ کار کے مطابق کام کرے گی جس سے عام ٹرینیں کام کرتی ہیں، مگر ان میں استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی نئی ہے۔ اس میں ایندھن کے طور پر ہائیڈروجن گیس کو استعمال کیا جائے گا جو کیمیائی صنعتوں میں بڑی مقدار میں خارج ہوتی ہے۔

    ٹرین میں نصب کیا جانے والا سسٹم ہائیڈروجن اور آکسیجن کو ملا کر بجلی پیدا کرے گا اور یہی بجلی دراصل ٹرین کو چلائے گی۔

    train-3

    اس کا ہائیڈروجن سے بھرا ہوا ایک ٹینک 300 مسافروں کے ساتھ 500 میل تک کے سفر کے لیے کافی ہوگا۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ٹرین آلودگی پھیلانے اور ماحول کو تباہ کرنے والے ڈیزل سے چلنے والی ٹرینوں کا اختتام ثابت ہوگی۔ جرمنی میں اس وقت 4 ہزار سے زائد ٹرینیں ڈیزل پر چلائی جارہی ہیں جو ماحول کو شدید آلودہ کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔

  • لاڑکانہ: محکمہ خزانہ کی نااہلی، اسپتال میں آکسیجن نا ہونے سے پانچ بچے دم توڑ گئے

    لاڑکانہ: محکمہ خزانہ کی نااہلی، اسپتال میں آکسیجن نا ہونے سے پانچ بچے دم توڑ گئے

    لاڑکانہ: محکمہ خزانہ لاڑکانہ کی نااہلی سے پانچ بچے دم توڑ گئے ہیں۔ اندرون سندھ کے سب سے بڑےاسپتال کے لئے آکسیجن کی خریداری کیلئے رقم جاری نہ کر نے پر اسپتال میں زیر علاج بچے جاں بحق ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق اندرون سندھ کی سب سے بڑے اسپتال چانڈ کا میڈیکل، جو کے ساڑھے تیرہ سو بستروں پر مشتمل ہے آکسیجن کی خریداری کے لیے اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے۔ اسپتال ذرائع کے مطابق آکسیجن کی خریداری  کیلئے سالانہ بجٹ کی مد میں حکومت سندھ کی جانب سے جاری کر دی گئی ہے اور رقم محکمہ خزانہ ضلع لاڑکانہ کے دفتر میں بھجوائی جاچکی ہے تاہم لاڑکانہ کے ضلعی اکاونٹس آفیسر بلا جواز بجٹ روکے ہوئے ہیں۔

    رقم روکنے کے باعث اسپتال میں صرف اڑتالیس گھنٹے کے لیے آکسیجن موجود ہے دوسری جانب آکسیجن کی کمی کے باعث چلڈرن اسپتال میں ایک ایک سیلنڈر سے چار چار بچوں کو گیس سپلائی کی جارہی ہے جب کے خالی سیلنڈروں کی قطاریں لگ چکی ہیں۔

    اسپتال ذرائع کے مطابق اٹھائیس آپریشن تھیٹروں میں بھی منگل کے روز سے آپریشن ملتوئی کر دئے جائیں گے جب کے انہی مسائل کے باعث چلڈرن اسپتال میں اڑتالیس گھنٹوں کے دوران چار نومولود بچوں سمیت پانچ بچے بھی دم توڑ چکے ہیں، جب کے وہاں داخل ساٹھ نولود بچوں سمیت سینکڑوں مریضوں کی جاں بھی داو پر لگ چکی ہے۔